Novel Tu Hai Kahan ...
 
Share:
Notifications
Clear all

Novel Tu Hai Kahan by Maahi Episode 1

1 Posts
1 Users
0 Reactions
32 Views
(@mahammahmood76)
Active Member Customer
Joined: 3 months ago
Posts: 3
Topic starter  

قسط:۱

یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے

بات سے بات فسانے سے فسانہ نکلے

 

پھر چلے ذکر کسی زخم کے چھل جانے کا

پھر کوئی درد کوئی خواب پرانا نکلے

 

پھر کوئی یاد کوئی ساز اٹھا لے آئے

پھر کسی کے پردے سے ترانہ نکلے

 

یہ بھی ممکن ہے کہ صحراوٴں میں گم ہو جائیں

یہ بھی ممکن ہے خرابوں سے خزانہ نکلے

 

آوٴ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی

کیا خبر پھر کوئی گم گشتہ ٹھکانہ نکلے

 

یار ایسی بھی نہ کر بات کہ دونوں رو دیں

یہ تعلق بھی فقط رسمِ زمانہ نکلے

—••—

اندھیری رات میں پتوں کے پھڑپھڑانے کی آواز کے علاوہ ہر سو سناٹا چھایا ہوا تھا۔سڑکوں پر چلتی سٹریٹ لائٹس نے اندھیرے کی شدّتکو کافی حد تک کم کر دیا تھا لیکن خاموشی ہنوز ویسے ہی برقرار تھی۔
پودوں اور سٹریٹ لائٹس کے درمیان اگر تارکول کی سڑک پر دیکھا جائے تو چھے ہیوی بائیکس سوار ایک قطار میں کھڑے تھے۔پانچ سواروں نے اپنے سروں پر ہیلمٹس پہن رکھے تھے لیکن ایک بائک سوار بغیر ہیلمٹ کے تھا۔
  "تھری،ٹو،ون۔۔۔"اور جیسے ہی ون کہا گیا چھے کے چھے بائک سواروں نے تیزی سے اپنی بائکس آگے دوڑائی تھیں۔
ہیوی بائیکس کی تیز آواز سے ماحول میں اچانک شور سا پھیلا تھا اور کچھ دیر قبل جو سڑکیں خالی سنسان پڑی تھیں یکدم بھر گئیں۔
  "اس بار میں تمہیں جیتنے نہیں دوں گا اینڈ۔۔ آئی مین اٹ!"سب سے آگے دو ہیوی بائیکس ایک ساتھ ہی تھیں جب ان میں سے ایک بائکسوار چلا کر بولا جبکہ اس کے جملے پر اُس کے ساتھی نے چہرہ موڑے اُس کی جانب دیکھا اور مسکرا دیا۔
  "اوکے، ہرا سکتے ہو تو ہرا دو،میں تمہیں بالکل نہیں روکوں گا لیکن اگر اس بار بھی تم ہار گئے تو یہ جو تمہاری بائک ہے یہ میری ہوجائے گی۔۔۔۔۔"آخر میں اُس نے کہتے بائک کو ریس دی اور ساتھ ہی اُسے آنکھوں سے آگے نکلنے کا اشارہ کیا تو پہلا بائک سوار موقعپاتے ہی بائک آگے دوڑا لے گیا۔
اُس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ رینگی۔
اُس نے تیزی سے بائک موڑی درختوں کی آڑ سے گزرتا ہوا تیزی سے بائک دوڑاتا گیا۔باقی کی ساری بائیکس سڑک پر ویسے ہی دوڑ رہیتھیں۔
سب سے آگے والے بائک سوار نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اُس کا "حریف" کہیں بھی نہیں تھا۔وہ تھوڑا مطمئن ہوا اور سامنے دیکھا۔راؤنڈکمپلیٹ ہونے والا تھا بس چند کلو میٹرز کا فاصلہ باقی تھا۔وہ جیتنے کے بہت ذیادہ قریب تھا۔اُس نے بائک کو ایک بار پھر سے ریس دیاور اس سے پہلے کہ وہ وننگ پوائنٹ کراس کرتا،اچانک درختوں سے ایک بائک تیزی سے سڑک پر آئی اور اسی رفتار سے وننگ پوائنٹ کراس کر گئی۔
   "ڈیمٹ"اُس نے اپنے جبڑے بھینچے۔اتنا تو طے تھا کہ وہ کبھی بھی اس شخص سے نہیں جیت سکتا۔اس کی بائک نے بھی وننگ پوائٹ کراس کیا اور پھر بائک رک گئی۔اس نے ہیلمٹ اتارا اور سامنے دیکھا تو دوسرا لڑکا پہلے ہی بائک روکے وہاں کھڑا تھا۔
   "ہاں بھئی اِدھرپکڑاوٴ چابی۔۔"اس  کے اترتے ہی دوسرے لڑکے نے ہاتھ آگے کیے کہا تو وہ ہنس دیا۔یکے بعد دیگرے باقی بائک سوار بھیپہنچ چکے تھے لیکن وہ یہاں ٹھہرے نہیں تھے۔بس یہ دونوں ہی رہ گئے تھے باقی سب واپس جا چکے تھے۔
باقی کے لڑکوں کے ساتھ ان کی دوستی نہیں تھی۔بس ریس کے لیے سارے اکٹھے ہوتے اور ریس ختم ہوتے ہی سب اپنا نکل جاتے تھے۔
   "تم کھرب پتی ہو بھئی،نئی بائک لے لینا۔۔۔مجھ غریب کی بائک لے کر تم کیا کرو گے؟ویسے بھی میری بائک میں بہت مسئلے۔۔۔۔۔"
   "ایک منٹ ذرا تصحیح کرنا "تم جیسے غریب" سے کیا مراد ہے؟ وہی جس نے دو دن پہلے اپنی بائک کا ایکسڈنٹ کیا اور آج صبح نئےماڈل کی بائک اُس کے گھر میں کھڑی تھی۔۔۔۔۔"اُس نے اُس کی بات کاٹے قدرے زور دے کر کہا تو وہ جھینپا سا مسکرا دیا۔
   "اور جہاں تک بات رہی بائک کے مسائل  کی تو کوئی بات نہیں ہے وہ میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔چلو شاباش اِدھر پکڑاؤ چابی۔۔۔"اُس نے اسکی بات کو نظرانداز کیے اپنی کہی تو پہلے لڑکے نے مسکین سی شکل بنائی۔
   "میں گھر کیسے جاؤں گا؟رات کافی ہو رہی ہے اور اس وقت میں رکشے میں جاتا اچھا نہیں لگوں گا۔۔۔۔"اُس نے فوراً سے کہا تو کچھ پل وہ اُسے دیکھے گیا۔
   "ٹھیک ہے،اس بار جانے دے رہا ہوں تمہیں لیکن اگلی بار مجھے چیلنج کرنے سے پہلے خیال کرنا کہ یا تو مجھے چیلنج ہی نہ کرو اوراگر کرو تو جیت بھی جاؤ ورنہ ہر بار میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔اور جہاں تک بات رہی اس کی۔۔۔۔"اُس نے اُس کی نئے ماڈل کیہیوی بائک کی جانب اشارہ کیا "تو اسے تمہارے گھر سے اٹھوانا میرے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ہے اور یہ تم بہت اچھے سے جانتےہو،ہیں ناں؟"اُس نے سنجیدگی سے کہا جبکہ اُس کے لہجے کی سنجیدگی جانچ کر وہ ہنس دیا۔
   "زمام سہی کہتا ہے تو واقعی کبھی نہیں سدھر سکتا۔۔۔"اس نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ دوسرے لڑکے کے تاثرات تنے تھے۔
   "اس کی تو تم چھوڑ ہی دو۔۔۔"اس نے اسپاٹ انداذ میں کہا اور بائک کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
   "تم دونوں کے بیچ یہ سرد جنگ کب تک چلنے والی ہے؟"پہلا لڑکا بھی اب سنجیدگی سے دوسرے لڑکے سے سوال کر رہا تھا۔اس کے سوال پر اس نے پلکے اٹھائے ااس کی جانب دیکھا جبکہ آنکھوں کا سرد تاثر واضع تھا۔
   "پتا نہیں"اس نے مختصر سا جواب دیا اور پھر اپنے جوتے سے زمین کھرچنے لگا۔
   "اب تمہیں صلح کر لینی چاہئے برہان! کسی سے نفرت کے لئے دس سال کافی ہیں۔کیوں خود کو اذیت دے رہے ہو؟"پہلے لڑکے نے اسے سمجھانا چاہا لیکن وہ بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ گیا۔
   "تم سے کس نے کہا کہ میں ازیت میں ہوں؟"اس کا لب و لہجہ سنجیدہ تھا۔
   "میں تمہارا دوست ہوں اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہیں اپنے احساسات مجھے بتانے کی ضرورت ہے؟میں تمہارا چہرہ دیکھ کر جان لیتا ہوں کہ تم کس سب سے گزر رہے ہو۔۔"اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے ایک ایک لفظ کہا جبکہ اس کی بات پر برہان نے جبڑے بھینچے۔وہ کیسے بھول گیا تھا کہ سامنے کھڑا لڑکا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا جگری دوست تھا اور چاہے وہ لاکھ بہانے کرے،لاکھ جھوٹ بولے سامنے کھڑا لڑکا سب جان جاتا تھا۔
   "صبح کا کیا پلان ہے تمہارا؟ آفس جوائن کیا یا نہیں؟"اس نے بات بدل دی۔
   "تمہیں کیا لگتا ہے کہ میرے پاس کوئی اور چوائس تھی؟ پریسیڈنٹ صاحب کا حکم ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ اگر ان کا حکم نہیں مانا گیا تو وہ سیکریٹری تو دور،مجھے اپنا گارڈ بھی رکھنا پسند نہیں کریں گے"اس کے الفاظ کے چناوٴ اور انداذ پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دیا۔
   "مجھے انکل سے واقعی بہت ہمدردی ہے۔۔۔"اور وہ جو سمجھ رہا تھا کہ برہان ابھی اس کے فیور میں کچھ کہے گا،اس کا جملہ سن کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
   "کس قدر بدتمیز انسان ہے تو۔دوست یہاں اپنا دکھ اپنا غم بتا رہا ہے اور تو ہے کہ میری بجائے پریسیڈنٹ صاحب کی سائڈ لے رہا ہے"اس نے خفگی سے کہا تو اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
   "وہ اس لئے کہ میں تمہارے ٹیلنٹ سے بہت اچھی طرح واقف ہوں اور عنقریب جب انکل کو معلوم ہوگا تب سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔۔۔"وہ اب بھی شرارت کرنے سے بعض نہیں آیا تھا۔
   "یہ بکواس کرنے سے پہلے تیری زبان کیوں نہیں کٹ گئی یا چلو اگر نہ بھی کٹتی تو کم از کم چھالا تو بننا چاہئے تھا۔۔۔"اس کا انداز دل جلا دینے والا تھا جبکہ برہان ایک بار پھر سے ہنس دیا۔
   "اچھا بس اب کافی ٹائم ہو گیا ہے اب گھر چلنا چاہئے ورنہ یہ نہ ہو کہ آفس تو دور تجھے گھر کی شکل بھی دیکھنا نصیب نہ ہو۔۔۔"اس نے اسے آنے والے وقت کے متعلق آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔بھئی اب دوست بھلا ہوتا کس لئے ہے؟
   "بہت شکریہ برہان سکندر! لیکن اگر آپ مجھے گھر سے نکالے جانے والی بات نہ بھی یاد دلاتے تو میں تب بھی سمجھ جاتا۔۔"بس یہی تو مسئلہ تھا،وہ اسے یہ بات بھولنے بھی تو نہیں دیتا تھا۔
   "دوست آخر ہوتے کس لئے ہیں۔۔۔"اس نے سکون سے کہتے اپنے کندھے اچکائے اور بائک پر بیٹھ گیا جبکہ حامز بس گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
  —••—
سورج کی مدھم کرنیں زمین پر پڑتی بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں۔موسم تبدیل ہو رہا تھا اسی لیے گرمی کی شدت میں مکمل تو نہیں،لیکن کافی حد تک کمی ضرور آئی تھی۔
ایسے میں اگر اس کے کمرے میں جھانکا جائے تو اس وقت اس کا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔صبح کے آٹھ بج رہے تھے لیکن کمرے میں ابھی بھی رات کا ہی گمان ہوتا تھا۔
کچھ سیکنڈز مزید سرکے جب کمرے کا دروازہ بھت آہستگی سے کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا اور پھر اچانک سے کسی نے گلاس وال سے پردہ ہٹایا تو کمرہ روشن ہو گیا۔
 سورج کی کرنیں چھن سے گلاس وال سے ہوتیں سیدھا اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں جو کہ اُس مغرور شہزادے کی نیند میں خلل کاباعث بنی تھیں۔
اُس نے سر اٹھایا تو پردے سائڈ پر ہٹے دیکھ کراس کی پیشانی پر بےشمار شکنیں پڑیں۔
   "کیا مصیبت ہے۔۔۔"غصے سے کہتے اُس نے اپنے سر پر تکیہ رکھا اور ابھی کچھ سیکنڈز ہی گذرے تھے جب اُسے محسوس ہوا کہ کوئی اُس کا تکیہ کھینچ رہا ہے۔
بھلا کس کی اتنی جرات تھی کہ یہ حرکت کرے؟ پہلے اُس کے کمرے میں دھڑلے سے گھسے،پھر پردے ہٹائے اور اب تکیہ؟
اُس نے غصے سے تکیہ سائڈ پر پھینکا اور اس سے پہلے کچھ کہتا اُس کی نظر اپنے سرہانے پر کھڑی چھوٹی سی بچی پر پڑی جو اُسےدیکھ کر مسکرا رہی تھی۔اُس کی پیشانی پر پڑی شکنیں فوراً غائب ہوئیں۔
   "مورننگ چاچو"اب وہ بچی مسکراتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔اس نے اپنی آنکھیں ملیں اور سیدھا ہوا۔
   "مورننگ چاچو کی جان۔۔آپ سکول نہیں گئیں آج؟" اُس نے سوال کیا جس پر بچی نے حیرت سے اُس کی جانب دیکھا۔
   "بتاؤ اپنے چاچو کو کہ آج سنڈے ہے اور سنڈے کو سکول سے آف ہوتا ہے۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ وہ بچی کچھ کہتی، دروازے سے ایک خوبصورت سی لڑکی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جواب دیا تو اُس نے پلکے اٹھائےحیرت سے اُس کی جانب دیکھا۔
   "آج سنڈے ہے کیا؟"اُس کے سوال پر اُس لڑکی نے افسوس سے اپنا سرنفی میں ہلایا۔وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ آج سنڈے نہیں ہے؟
   "کس دنیا میں رہتے ہو بھئی تم؟نہ دِن کی خبر ہے تمہیں اور نہ رات كا پتا ہے۔۔۔۔"آخر میں اُس نے اُس کے دیر سے گھر لوٹنے کی طرفاشارہ کیا تو وہ مسکرا دیا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بستر سے اٹھا اور صوفے پر پڑی شرٹ اٹھا کر پہننے لگا۔
   "تم جانتے ہو اگر بابا کو پتا چل گیا نہ کہ تم رات کو پھر سے ریس کر کے آرہے ہو تو ان نے اُسی وقت تمہاری بائک اٹھوا لینیہے۔۔۔۔۔"اُس لڑکی نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ چونکا۔اُس کے شرٹ پہنتے ہاتھ کچھ پل رکے اور اُس نے پلٹ کر اُس کی جانبدیکھا۔
   "آپ کو کس نے بتایا ہے کہ رات کو ہم نے ریسنگ کی ہے؟"اُس نے الٹا اُس سے سوال کیا جبکہ اس کے اس سوال پر اُس نے اُسے گھورا۔
   "یہ جو تمہارے بازو اور کمر پر خراشیں ہیں یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ بیدردی سے کسی چیز جیسے کہ جھاڑیوں کے بجنےکی وجہ سے پڑی ہیں۔۔۔۔"اُس نے تنقیدی نظر اُس پر ڈالتے قدرے سوچ کر جواب دیا۔
   "واہ،آپ کی آبزرویشنز تو کافی اچھی ہیں۔آئی ریئلی ایپریشیئیٹ اٹ!“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور شرٹ پہن کر سائڈ ٹیبل کی جانببڑھا اور فون اٹھا کر چیک کرنے لگا۔سکرین کھولتے ہی سامنے تاریخ اور دن لکھا آرہا تھا جو کہ اس بات کا ثبوت تھا کہ آج سنڈے نہیں تھا۔
   "بعض آجاؤ برہان ورنہ میں نے خود بابا سے تمہاری شکایت کرنی ہے۔۔۔۔"اب کی بار اُس نے اُسے وارن کیا۔
   "مطلب کہ آپ مجھ سے،یعنی کہ اپنے اتنے پیارے دیور سے غداری کریں گی؟"فون کی سکرین سے نظریں ہٹائے اُس نے قدرے حیرت سےاُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اُس کے انداز پر مسکرائی۔
   "دیور جی،زیادہ ڈرامے نہ کریں آپ میرے ساتھ اور جلدی سے ریڈی ہوں۔۔۔خاص مہمان آرہے ہیں۔۔۔۔"آخر میں اُس نے شرارت سے کہا تووہ چونکا۔
   "پلیز ڈونٹ ٹیل می کہ وہ آرہی ہے۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ فوراً غائب ہوئی۔
   "بالکل ٹھیک سمجھے ہیں آپ "وہی" آرہی ہے۔۔۔۔"اُس کی حالت سے محظوظ ہوتے وہ شرارت آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔
   "اُسے اپنے گھر میں سکون نہیں ہے کیا؟جب دیکھو منہ اٹھا کر آجاتی ہے۔۔۔۔۔"اُس نے خفگی سے کہا اور اپنا فون بیڈ پر پھینکا۔اُس کےہر انداز سے آنے والی شخصیت کے لیے ناپسندیدگی واضع ہو رہی تھی۔
   "میں بتا رہا ہوں بھابھی اس بار میں اُس کا لحاظ نہیں کروں گا۔۔۔۔"اُس کا انداز دوٹوک تھا جبکہ اُس نے اُسے ٹوکا۔
   "اہاں،بری بات، مہمان ہے وہ بابا کی"
   "اسی لیے تو اور بھی زہر لگتی ہے وہ مجھے۔۔۔۔"اُس نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہا تو اُس نے اُسے گھورا۔
   "بتمیزی مت کرو اور فوراً سے تیار ہو۔۔۔۔۔"اُس نےاب کی بار تھوڑا برہمی سے کہا تو وہ خاموش ہو گیا۔اس کے ساتھ وہ بحث نہیں کرتاتھا اور واحد یہ ہی وہ ہستی تھی جس کی وہ ہر بات خاموشی سے سن لیا کرتا تھا۔جی ہاں،صرف سن لیا کرتا تھا۔
اور اب بھی یہی ہوا تھا۔وہ اپنا سر جھٹکتا باتھرُوم میں گھس گیا اور زور سے دروازہ بند کیا تو وہ باہر کھڑی ہنس دی۔
وہ بہت اچھے سے جانتی تھی کہ آنے والی شخصیت اسے کتنی ناپسند تھی۔
   "آجاؤ بیٹا! ہمارا کام تو ہوگیا ہے"مسکراتے ہوئے کہتے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔
—••—
ناشتے کی تیاریاں شروع ہوئیں تو سب باری باری تیار ہو کر ناشتے کے لیے آنے لگے۔
   "کیا بنایا جا رہا ہے ناشتے میں اور کتنی دیر مزید لگے گی؟بھوک سے جان نکل رہی ہے میری۔۔۔۔۔"حامز جو ابھی فریش ہو کر آیا تھاسیدھا کچن کی جانب بڑھ گیا اور اندر گھستے ساتھ ہی سوال کیا۔
 آمنہ بیگم جو باورچی خانے میں کھڑیں ملازمہ کو ناشتے کے متعلق آگاہ کر رہی تھیں، اُس کے پکارنے پر ان نے پلٹ کر اُس کی جانبدیکھا۔
   "بن رہا ہے ناشتہ صبر کرو۔۔۔"ان نے کہا تو اُس نے منہ بنایا۔
   "امی اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔"
   "کیا ہوگیا تمہیں؟کیوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو تم؟"اب کی باران نے مشکوک انداز میں اُس کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہشرارت سے ہنس دیا۔
   "بس اب میں کیا ہی بتاؤں۔۔۔۔اتنی تو لائنیں لگی ہیں لڑ۔۔۔۔میرا مطلب لوگوں کی مجھ سے ملنے کی تو جلدی تو بنتی ہے نہ۔۔۔"شرارتسے کہتے اُس نے آنکھ دبائی تو کام کرتی ملازمہ اس کی بات سن کر ہنس دی۔
   "کس خوشی میں لائنیں لگی ہیں لوگوں کی؟تم بڑے کوئی سلیبرٹی ہو نہ کہ لوگ تم سے ملنے کے لیے لائنوں میں لگیں۔۔۔"ایک تو یہ مائیںبھی نہ! اپنے بچوں کے ٹیلنٹ سے واقف ہی نہیں ہوتیں۔کیا ہو جاتا اگر کہہ دیتیں کہ ہاں میرا بچا تو ہیرو ہے،ہیرو! لیکن نہیں۔۔۔امیوں کےسامنے بچے ہیرو نہیں زیرو ہی رہتے ہیں! حقہاہ! افسوس،صد افسوس۔ذہن اُس کا جانیں کیا کیا سوچ رہا تھا۔
   "یار امی، انٹرویو ہے آج تو لوگ تو انتظار کریں گے ناں"آخر کو اس کو سچ بولنا ہی پڑا جبکہ اُس کا جملہ سن کر آمنہ بیگم نے حیرتسے اُس کی جانب دیکھا۔
   "خیریت بیٹا جی؟آپ آفس جا رہے ہیں؟طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟"ان کے لہجے اور انداز میں واضع  حیرت تھی۔
   "جی،آپ کے سرتاج حکم دے کر گئے ہیں کہ آدھے گھنٹے میں آفس میں موجود ہوں ورنہ جس طرح احد فٹبال کو کک مارتا ہے ان نےمجھے کک مار کر آؤٹ کر دینا ہے اور وہ بھی اپنی جائیداد سے۔۔۔۔"حامز ہو اور انسانوں کی طرح جواب دے دے،ناممکن۔
ملازمہ کے سامنے "سرتاج" لفظ سن کر وہ تذبذب کا شکار ہوئیں پھر خفگی سے بولی۔
   "فضول ہی بولنا تم۔۔۔۔جاؤ باہر مل جاتا ہے ناشتہ تمہیں۔۔۔"اُسے گھورتے ہوئے کہتے وہ فریج کی جانب بڑھ کر جانے اُس میں کیا تلاشکرنے لگیں جبکہ وہ اپنی مسکراہٹ دباتا باہر نکل گیا۔
   "ایک تو آج کل کے بچوں میں شرم و حیا بالکل ہی ختم ہو گئی ہے۔۔۔۔"آمنہ بیگم نے خود سے سوچا تھا۔
وہ لاؤنج میں آکر سکون سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
   "امل کیوں تنگ کر رہی ہو؟کروا لو پونی پھر مجھے کچن میں بھی جانا ہے۔۔۔۔"اُسے ابھی بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب زرنور کیآواز لاؤنج میں گونجی۔اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو امل آگے آگے بھاگ رہی تھی اور وہ ہاتھ میں برش اور پونی پکڑے پیچھے پیچھے پھررہی تھی۔
   "نہیں میں نے آپ سے پونی نہیں کروانی ہے۔۔۔۔"منہ پھلائے کہتے وہ تیزی سے بھاگ کر اُس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
   "کیا ہوگیا میرے بچے کو؟مما تنگ کر رہی ہیں؟"اُسے اپنی گود میں اٹھاتے اُس نے سوال کیا جس پر امل نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایاتو وہ اپنی مسکراہٹ دبا گیا جبکہ زرنور نے حیرت سے اُس کی جانب دیکھا۔
   "میں بھلا کب تنگ کر رہی ہوں اسے؟یہ تنگ کر رہی ہے مجھے۔اسکول جانا ہے اور پونی نہیں کروا رہی کہ آپ سے نہیں کروانی پھوپھوسے کروانی ہے۔اب وہ بیچاری خود تیار ہو یا اسے دیکھے۔۔۔"نور نے فوراً سے جواب دیا جس پر وہ ہنس دیا۔
   "کوئی بات نہیں بھابھی میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔۔۔آپ نے جو کام کرنا ہے کر لیں۔۔۔"اُس نے کہا تو وہ برش اور پونی اُسے پکڑاتے کچنکی جانب بڑھ گئی۔
   "پھوپھو سے کروانی ہے پونی؟"اب وہ امل کی جانب متوجہ تھا اور اس سے سوال کیا جس پر اُس نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایا۔اُس نےمحبت سے اُس کے دونوں گال چومے۔
   "چلو جی، چاچو آپ کو لے جاتے ہیں پھوپھو کے پاس لیکن ایک شرط پر۔۔۔۔"اور اس سے پہلے وہ اپنی شرط بتاتا،امل نے پہلے ہی اُسکے دونوں گال چوم دیے۔
"You're smart!    
اپنے مطلب کی ساری باتیں یاد رکھی ہوئی ہیں تم نے۔۔۔"ہنستے ہوئے کہتے وہ اٹھا لیکن اس سے پہلے اُس کے کمرے کی جانب بڑھتا،وہخود ہی باہر آگئی۔
"Wassup bruh!?"
آتے ساتھ ہی اُس نے حامز کو دیکھتے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
   "کچھ نہیں بھئی! تمہاری بھتیجی کو تمہارے پاس چھوڑنے آرہا تھا۔ضد لگائی ہوئے ہے کہ پونی ماما سے نہیں کروانی پھوپھو سےکروانی ہے۔۔۔۔"اُس نے امل کو اُسے پکڑاتے ہوئے جواب دیا تو اُس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
   "آجاؤ جی۔۔۔"اُس نے اُسے پکڑتے ہوئے اُس کے گال کھینچے۔
  "کس طرح کی پونی کروانی ہے میری گڑیا نے؟"اب وہ اُسے اپنی گود میں بٹھائے اُس کے بال برش کر رہی تھی اور وہ بغیر اُسے تنگ کیےسکون سے بیٹھی رہی۔
"Evil!"
ہنستے ہوئے کہتا وہ بھی وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
  "کہیں جا رہے ہو تم؟"امل کے بالوں میں برش پھیرتے اس نے حامز سے سوال کیا جو تیار سا بیٹھا تھا۔اس کے سوال پر اس نے گہرہ سانس بھرا پھر قدرے دکھی انداز میں بولا۔
   "ہاں،پریزیڈنٹ صاحب نے نوکری پر رکھا ہے۔۔"
   "یہ تو بہت اچھی بات ہے۔تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ابھی تمہارے پاس کوئی ایکسپیریئنس بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی اتنی اچھی جاب مل گئی۔۔۔"اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا جس پر اس نے اسے گھورا۔
   "تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے والد صاحب کو تو جانتی نہیں نہ۔۔۔!!"
   "لو بھلا،اتنے اچھے،اتنے کائنڈ تو ہیں میرے بابا۔۔۔"اس کے لہجے میں محبت اور اپنائیت تھی۔
   "ہاں،تمہیں تو کائنڈ لگیں گے ہی،کبھی ڈانٹ جو نہیں پڑی تمہیں۔۔۔"
   "ہاں تو میں کوئی ایسا کام ہی نہیں کرتی جس پر بابا غصہ ہوں۔۔۔"
   "جانے دو جانے دو۔۔۔سب جانتا ہوں میں۔۔۔۔خاندان بھر کی لاڈلی ہو تم۔کچھ غلط کر بھی دو تو سب آنکھیں بند کر لیتے ہیں یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔"اس کے تبصرے پر وہ ہنس دی۔
   "یاد ہے ایک دفعہ تم سے بابا کی فیورٹ گھڑی ٹوٹ گئی تھی۔۔وہی والی جو دادا نے ایک زمانے میں بابا کو دی تھی اور جس کو وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے تھے حالانکہ مجھے وہ گھڑی اتنی پسند تھی۔۔۔لیکن تمہیں ان نے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔سمجھ رہی ہو نہ۔۔۔اسے کہتے ہیں دھوکا جو کہ میرے ساتھ ہوتا رہا ہے۔۔۔۔"اس کے دکھ اور بھی جانے کتنے تھے لیکن بریک تب لگی جب سفیان صاحب کی کھنکھار اس کی سماعت پر پڑی تو وہ بوکھلا کر سیدھا ہوا۔
   "بابا آپ؟میں ابھی آفس کے لئے ہی نکل رہا تھا بےشک آپ زرقہ سے پوچھ لیں۔۔۔"اس نے فورا" سے صفائی دی تو ان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔حامز نے آنکھوں سے زرقہ کو اشارہ کیا کہ کچھ بولے لیکن سفیان صاحب نے اسے موقع نہیں دیا۔
   "ہاں وہ تو میں دیکھ ہی چکا ہوں۔۔۔"
   "بابا۔۔۔"
   "میں باہر گاڑی میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔گاڑی میں بیٹھ کر تمہاری اکسپلینیشنز سنوں گا۔۔۔۔"اور بس وہ اتنا کہہ کر باہر نکل گئے۔
   "یہ گھر پر تھے۔۔۔؟"اس نے زرقہ کی جانب دیکھتے بے یقینی سے سوال کیا تو اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
   "بہت بری ہو تم زرقہ۔۔۔بہت بری۔۔۔۔"خفگی سے کہتا اپنا کوٹ اٹھائے وہ باہر نکل گیا جبکہ وہ ایک بار پھر سے ہنس دی۔اگر حامز بولنے سے پہلے دیکھ لیتا کہ اسی وقت سفیان صاحب بھی اپنے کمرے سے باہر نکلے ہیں تو یقینا" یہ اس کے ساتھ نہ ہوتا۔
—••—
 
This topic was modified 4 weeks ago by mahammahmood76
This topic was modified 4 weeks ago by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?