Share:
Notifications
Clear all

qareen afsana by maryam muzzaffar part 1

1 Posts
1 Users
0 Reactions
315 Views
maryam muzzaffar
(@bilqeesnewss)
Eminent Member Customer
Joined: 1 year ago
Posts: 16
Topic starter  

2دسمبر

صبح کے10:13 منٹ

نصرت شہیر ہیلت کئیر، ایبٹ آباد

 موسمِ سردا کا عروج اور اسکی زندگی کا زوال۔

ایک ہفتہ  اور  بارہ گھنٹے سے  یہ کمرہ اسکے زیرِاستعمال تھا۔ تب سے اب تک  اوائل سردیوں  میں چلتی ٹھنڈی ہوا کی دھیمی سرگوشیاں اور آئی وی بیگ سے  ٹپکتی ٹپِ ٹپِ کے علاوہ اس کمرے میں  کوئی آواز نہ سنائی دی۔

اتنے دنوں  میں بھی اسکے زخم بھرے نہیں، آنکھیں  ایک ہی منظر دیکھتے تھکی نہیں ، خشک  ہونٹوں میں نمی پگھلی نہیں  کیونکہ شاید نہیں یقیناً، وہ زخم جسم پر نہیں روح پر لگے تھے،  وہ آنکھیں تھکی نہیں انہوں نے دیکھنے کی چاہ چھوڑ دی تھی اور ہونٹوں میں نمی پگھلی نہیں کیونکہ جذبات پتھرا گئے تھے۔

وہ تو ایک مجسمہ لگتی تھی غم کی مٹی سے بنا ظلم سے تراش شدہ، ویل چئیر پر بیٹھا  سنگی مجسمہ۔

ہاسپٹل کمرے کی وہی  ہلکی سفید  دیواریں جس میں نصب کھڑکی کے آگے نیلے پردے ہٹے ہوئے تھے۔ باہر کی  بلند پہاڑیاں اور شیشے پر جمی  دھند ایبٹ آباد کے موسم کا احوال سناتی تھیں۔

کمرے کی  فضا ء میں سانس لیتی انسانی موت کی گھٹن گواہ تھی اس کمرے میں کئی لوگوں نے دم توڑا ہے۔ دوائی اور  ڈیٹول کی  گھلتی ملتی بدبو اعصاب کو بوجھل کر دیتی۔ موسم کے باوجود بھی کمرے میں ہیٹر کے بجائے اے سی پوری رفتار سے چلایا گیا تھا۔  شاید وہ وجود ہر قسم کے موسم سے لڑنے کی سکت رکھتا تھا یا حساسیت کھو بیٹھا تھا۔

باہر قدرتی سردی اندر مشینی ٹھنڈک۔

اسکی دیکھ بال کے لیئے منسوب ڈاکٹرز اور نرسز پچھلے دنوں سےاس کی حالت دیکھ کر بس ایک سرد آہ بھرتے جس میں ترس، امید اور خیرخواہی  سب سے نمایا ہوتی۔

انسانیت کی خدمت کے لیئے بنا یہ کمرہ  سوگ کی حالت میں تھا۔ جہاں بنایا ماحول ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پیدا کرتا اور  جسم پر رونگٹے کھڑے کر دیتا مگر  وہ وجود وہ ان سب سے لاپرواہ بس ایک ہسپتال کے گاؤن میں موجود تھا۔

اسکی ہڈیوں کا حال خدا ہی بہتر جانتا ہے!

ایک طرف کو دیوار سے جڑا  بیڈ، اس کے عین سامنے دیوار نصب ایل ای ڈی، دو سنگل سیٹر اور ایک  ذاتی  غسل خانہ۔ یہ ایک اے  کلاس کمرہ تھا مگر گندمی رنگ کا بستر خالی  تھا۔ چادر یوں سلیقے سے سجی تھی جیسے استعمال ہی نہ ہوئی ہو۔ باہر ہسپتال میں روزمرہ کا  بےہنگم  شور تھا اندر کمرے میں گھپ سناٹا۔ بتیاں بجھی  ہونے کے باعث   کمرے کا ماحول نیلگوں تھا۔

کمرے کے بیچوں  بیچ  ٹھہرو  تو  ایک لڑکی  پیٹھ کیئے بیٹھی ملے گی ۔ویل چئیر سے لٹکتے کمفرٹر میں چھپے دو پیر اور  سرد میٹل کو چھوتے دو بے رنگ ہاتھ جن میں سے ایک کے ساتھ آئی وی لائن کی تار جڑی تھی۔

 ڈھیلی پونی  سے نکلتے بکھرے ہوئے بھورے بال، خالی بھوری  آنکھیں اور  ایک طرف کو  ڈھلکی گردن۔

چہرہ خالی تھا یک دم سپاٹ یوں جیسے وہ اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔

 آنکھوں کے پپوٹے  رو رو کر سوج  چکے تھے۔ ان کی  چمک مانند اور لبوں کے قریب خشکی اسکی   مغتیر  بیمار زدہ  رنگت پر نمایا تھی۔

حالت اسکی اُس مسافر جیسی تھی جسے صدیاں ریگستان کی دھول ناپ کر بھی  پانی کا ایک قطرہ اپنے حق میں نہ ملا  ہو۔ چہرہ اس قدر سفید ہو چکا تھا جیسے سارا خون وہ آئی  وی لائن نچوڑ رہی ہو۔

ذہن کے پردے پر ایک پرانی یاد نمایا ہوئی۔

” بچاؤ!“مدد کی پکار، یوں جیسے دور کسی غار سے آرہی ہو مگر اس تک آنے میں وہ آواز آہستہ سے دب  جاتی۔ سوجی  نگاہوں میں  شناسائی کی رمق نمایا ہوئی، مایوسی سے آدھ کھلی آنکھیں دھیرے دھیرے وا ہوئیں۔ بےجان جسم حرکت میں آیا۔ پہلی سانس لی اور کندھے ڈھیلے چھوڑ دیئے۔

” کوئی بچاؤ!“ غار سے نکلتی آواز اب قریب آرہی تھی۔ لڑکی کا سانس اکھڑنے لگا۔ سینہ مسلتے اسے ہچکیاں بھی آنے لگیں۔ یہ آواز  غار سے نہیں یہ آواز اسکے ذہن سے آرہی تھی۔

” خدارا  بچاؤ!“ گہری سانسیں لیتی وہ مستقل ویل چئیر پر ہتھیلیاں مار نے لگی۔ سارا جسم ایک دم کسی ان دیکھے بوج کے شکنجے میں آچکا تھا۔ گردن بےقابو ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ کبھی سر پر مکے مارتی کبھی ہیذ یانی انداز میں بال نوچتی، مگر وہ آواز  پیچھا نہ چھوڑتی۔

” بچاؤ! بچاؤ! بچاؤ!“ غار سے نکلتی لڑکی کی آواز بےحد قریب آگئی۔ مدد کے لیئے ویل چئیر والی لڑکی نے آواز نکالنا چاہی مگر بےسود۔ ڈاکٹرز کے مطابق اسکی قوتِ گوائی کچھ عرصہ کے لیئے مفلوج ہوچکی تھی۔

” بچاؤ! بچاؤ! بچاؤ!“ آواز کی  گہرائی  میں شدت   آئی اور  فاصلہ  پہلے سے کم ہوا۔مریض کو  لگا ابھی اسکا دماغ  پھٹ جائے گا، دل بند ہوکر ساکت ہوجائے گا۔

” بچاؤ!“سوچے سمجھے بغیر سامنے گول میز پر رکھے گلدان کو اٹھایا اور زور سے زمین پر پٹخ دیا۔

آوازیں ایک دم بند ہوگئیں۔جیسے وہ کسی کونے سے نکلی ہوں اور تیزی سے واپس جاتے اپنے پیچھے دروازہ بند کرنا نہ بھولیں۔

گہرے سانس لیتی اب وہ خود کو  کمپوز کرنے لگی۔ آنکھوں  بےاختیار نم ہوئیں۔ پانی کے اوپر تیرتے مرجھائے پھول اور ٹوٹے کانچ کے ٹکرے نم آلود آنکھوں کی وجہ سے بس ایک دھندلا سا منظر لگتے  تھے۔

باہر کے دنیا کے شور میں وہ خود کو محو کرنا چاہتی تھی۔ اسکی یہ آوازیں اسی شور میں دب کر جان دے دیتی تھیں۔

★…★…★

4 دسمبر

دوپہر ایک بجے

نصرت شہیر ہیلت کئیر، ایبٹ آباد

ایک ہفتہ ……دو دن…… سات گھنٹے سے  ویل چئیر کو اپنی کل کائنات بنائے وہ اس پر بیٹھی تھی۔ رخ کھڑکی کی جانب، آنکھیں کسی غیر مرئی نقطہ پر جمیں۔ ایبٹ آ باد میں آج صبح کی خوبصورت  کرنیں پہاڑ  کی بلندیوں  سے ٹکرا کر پورے شہر میں بکھری تھیں۔ پہاڑوں کے دل میں بنےاس  ہسپتال  پر بھی وہ روشنی یونہی سایہ دار تھی۔

دیوار گیر کھڑکی سے ٹکراتی روشنی اس لڑکی کے چہرے پر چھائے ناامیدی کے بادلوں کو ابھار رہی تھی۔ بیمار رنگت پر پڑنے والی  روشنی سے اسکی پلکیں سنہری دکھنے لگیں۔

” مہتاب بچے، اب کیسا محسوس ہورہا ہے؟“ممتا بھرا احساس جو ان کے اندر قدرت کی طرف سے تھا۔ مہتاب نے جواب نہ دیا۔

”میں  نے منع بھی کیا تھا کے دھیان سے چلنا۔“ الزام تراشی، جذبہ جو معاشرے کا پیداوار تھا۔

 پچھتاوا؟ہاں! یہ اس کے ماں کی ساری کیفیت کے لیئے مناسب  لفظ تھا۔

 وہ ہاتھ میں  تھامےرومال کو انگلیوں  کے گرد لپیٹنا، وہ گردن ارد گرد جھٹک کر آنسوؤں کو بہنے سے روکنا۔ خسارے میں قید انسان اور کر ہی کیا سکتا ہے۔ یا سامنے والے کو کوستا ہے، یا خود کے سر میں ریت ڈالتا ہے۔

”لیکن تم فکر مت کرو  ہم تمہیں باہر لے جائیں گے۔ جہاں بھی تم کہو، جیسے بھی تم چاہو۔ ہم تمہیں خوش رکھے گیں۔“

ممتا  ایک مرتبہ پھر  معاشرے پر حاوی آئی۔ماں نے  خود کو پرسکون ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کیونکہ   اختتام میں انکا لہجہ بھیگ گیا۔ بیٹی کی یہ حالت کسی بھی ماں کا حوصلہ پست کردے اور بیٹی بھی   اکلوتی  جو اپنی شادی سے ایک ماہ کی دوری پر ہو۔

”ڈاکٹرز کا تو یہی کہنا ہے ابھی  ہم آپ کی بیٹی کی حالت پر فوری رائے………“

ویل چئیر والے وجود نے سستی سے گردن موڑی تو ماں کی بات درمیان میں رہ گئی۔ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے وہ   سرخ گیلی آنکھوں کے ساتھ  مسرت کا  کیسا ہی منظر پیش کر رہی ہونگی۔ بھورے سکرٹ بلاوئس میں وہ عورت کسی معزز شخصیت کی بیگم لگتی تھیں۔

مہتاب نے ماں کا چہرہ دیکھا۔ وہاں آنکھیں نم تھیں یہاں آنکھیں خالی۔ وہاں لباس صاف تھا یہاں لباس ملگجا۔ وہاں ماں پُرامید تھی یا ظاہر کر رہی تھی  یہاں تو وہ ناامید تھی اور یہ احساس ممتاز تھا ۔

بیٹی بغیر کچھ کہے ماں کو دیکھتی رہی یہاں تک کے انکی مسکراہٹ آہستہ سے فنا ہوتی گئی۔ کمرے میں صرف دو لوگ تھے، بیگ سے سے ٹپکتی بوندیں اور  کھڑکی کے باہر چہچہاتی چڑیا کی آواز۔

مہتاب نے چہرہ پھیر لیا۔ روشنی جو آدھے رخ پر تھی دوبارہ اب چہرہ سے ٹکرانے لگی۔

 ماں کے ضبط کا بندھن ٹوٹا ، وہ بھاگتے ہوئے آئیں اور  لپٹ کر اس سے رونے لگیں۔ دونوں کرنوں کے عین سامنے تھیں۔ یہ روشنی بھی ان ہی کی بدولت  تھی جنہوں نے آتے ساتھ  کھڑکی کے پردے ہٹائے ۔

چڑیا کی آواز، آئی وی بیگ میں ہوتی ٹپِ ٹپِ سب ماں کے رونے کی آواز سے پسِ منظر میں چلی گئیں۔

ماں کے آنسو مہتاب کا کندھا بھگو چکے تھے ۔ اس کے باوجود  بھی وہ    بےحرکت  رہی۔ نہ ہاتھ اٹھا کر دلاسہ دیا، نہ ماں کے آنسو پونچھے۔

اپنی بیٹی کی حالت ان کا دل چیر رہی تھی اور بیٹی۔۔۔وہ تو اپنے دل کو کب کا  تن سے  جدا کرکے دفنا آئی تھی۔

★…★…★


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?