Share:
Notifications
Clear all

qareen afsana by maryam muzzaffar last part

1 Posts
1 Users
0 Reactions
40 Views
maryam muzzaffar
(@bilqeesnewss)
Eminent Member Customer
Joined: 3 months ago
Posts: 14
Topic starter  
” تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟“خوف کی جس منزل پر وہ کھڑی تھی اسے ڈھانپنے کی خاطر لفظ سختی سے ادا کیئے۔ آنکھیں انگارہ اور سانس طوق زدہ۔
 ” نفرت ہے مجھے تم جیسی لڑکیوں سے جو اپنی قدر نہیں کرتیں اور ایک مرد کے پیچھے زندگی داؤ  پر لگا دیتی ہیں۔ پھر وہی مرد انہیں دھوکہ دیتا ہے اور وہ بدلہ پر اتر آتی ہیں۔“اسکی بات نظر انداز کی بالکل اسکے وجود کی طرح۔
”یہ میرے ساتھ تم نے کیا کیا ہے مرجان!“ فرش پر ہاتھ زورسے ماڑا۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ مگر سر پر کھڑی عورت  کی آنکھوں میں ڈھونڈنے سے بھی ترس نہیں ملتا تھا۔
”مکافاتِ عمل!“ کہتے ساتھ وہ   دروازے کی طرف بڑھی۔ اسکی ہیل کی ٹک ٹک دور جاتے ختم ہو جاتی۔ بلک بلک کر فرش کو مارتی لڑکی کے ہاتھ میں بچتاوے کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ مفلوج ہونے کی اداکاری کرتے وہ اب واقعی چلنے پھرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔
اپنے نفس کو سلاتے اس نے قرین کو خود پر حاوی ہونے دیا۔ آنکھوں میں دھول جھونکی، بے بسی اور ہمدردی کا ڈھونگ رچایا۔ اپنی ناقدری بھی کروائی اور بدلہ لیتے خود کو تکلیف بھی پہنچائی۔ سب سے بدتر آخر تک اپنی غلطی نہیں مانی۔
وہ اس لڑکی پر ضرور بھروسہ کرتی اگر جو وہ اس قابل ہوتی۔ جو لڑکی اپنے پیار کرنے والے ماں باپ کو چھوڑ کر خود کا سوچ رہی تھی وہ مرجان کو کب دھوکہ دے جائے کیا معلوم؟
اور ایک اسی چیز سے مرجان شہیر کو نفرت تھی، دھوکہ، پیٹھ پر وار، دغا بازی۔
جلتی بجھتی روشنی میں ایسا لگتا تھامرجان کوئی بھوت ہے آتا، جاتا، پھر آتا پھر چھپ  جاتا۔
جیب میں موجود مائک پر لال ناخن پھیرتے اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ جانتی تھی اسے کیا کرنا ہے۔ یہ ننھے منے مائکس، کیمراز یہ سب اسکا شوق تھے۔ بس کبھی کبھار اس شوق کی زد میں کسی کا مکرہ چہرہ اور گھنوئنے راز بھی آجایا کرتے۔
مہتاب کو اس دن وہ ریکارڈ کر چکی تھی۔ وہ لڑکی اس کے خلاف گئی تو اپنی بربادی خود کروائے گی۔
جنگل میں آگ لگانے والا کوئلہ مہتاب خود دنیا کے حوالہ کر چکی تھی اب مرجان کو بس اسے اچھالنا تھا اور پھر ساری دنیا بولے گی۔
” مرجان شہیر نے ایک   بے بس انسان   کی مدد کی، اسکے حق میں آواز اٹھائی۔ شہرت کے بعد مزید شہرت۔“
ہاسپٹل کے آٹومیٹیک دروازے کھلے اور اونچی ہیل والے جوتے باہر جا چکے تھے۔ طوفان آیا اور بربادی کر کے چلا گیا۔ باہر رات گہری تھی اور کافی فاصلہ پر لگے لائٹ پولز کے بالکل نیچے سفید جیپ کھڑی تھی۔
دور کہیں   ٹیمپل رن کے  بجتے میوزک کی آواز آئی۔ بغیر رک کر  چلنے سے اسکے بال ہلکا ہلکا اچھلا کرتے تھے۔
قدموں کی چاپ پر جیپ کے ساتھ کھڑے آدمی نے نگاہیں اٹھائیں، وہی جس کے فون سے ٹیمپل رن کی آواز آرہی تھی۔ گہری سرمائی  شلوار قمیض اور سانولہ رنگ۔ مرجان کے قریب آنے پر اس مرد نے مسکراتے ہوئے اپنا فون قمیض کی جیب میں ڈالا۔
”خیر باشد، لیڈی ریڈ؟“ حجل سامیان نے سینے پر بازو باندھتے اپنی سب سے قریبی دوست کو چھیڑا۔ ہلکی دھاڑی میں چھپے ہونٹ ایک دلفریب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ آنکھوں پر لگے سرمائی لینس جذبات چھپا گئے۔
ایک بساط مہتاب نے بچھائی تھی ،  ایک  چال مرجان نے چلی تھی اور اب مرجان شہیر کے کھیل کا ماضی جاننے کا وقت تھا۔
یہ تئیس اکتوبر کی   ڈھلتی  خوبصورت شام  تھی۔
پہاڑوں کے درمیان غروب ہوتا سورج اور  ان کی چوٹی سے  ٹکراتی کرنوں کا ایپٹ آباد میں پھیلنا، یہ حجل  سامیان کا ہمیشہ سے پسندیدہ منظر رہا ہے۔
سفید شلوار قمیض اور سیاہ پی کیپ پہنے وہ  مرجان کے اپارٹمنٹ کی بالکنی میں بیٹھا ٹیمپل رن کھیل رہا تھا جب پیچھے سے آتے مرجان نے اسکی طرف چائے کا کپ بڑھایا۔
وہ سیاہ ڈھیلی ڈھالی سی شرٹ اور رویاتی شال کندھوں کے گرد لپیٹے ریلینگ سے کھڑی ہوگئی۔
حجل نے اسکے ہاتھ کی بنی چائے کا ایک بھرپور گھونٹ اندر اتارا تو سکون خود بخود وجود کا حصہ بن گیا۔ ”  دنیا کا کونا کونا چھان مار لو مگر مرجان شہیر کے ہاتھ کی چائے کا  کہیں مقابلہ نہیں۔“ وہ عام مردوں کے مقابلہ تعریف میں کنجوسی نہیں کرتا تھا مگر مرجان عام عورتوں کی نسبت  مسکرانے اور ہنسنے میں  ہمیشہ سے بخیل  تھی۔
حجل نے موبائل کو ایک طرف رکھتے اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھا۔ وہ غائب دماغی سے چائے پی رہی تھی۔ ”میرا مشورہ مانو……..تو مدد کردو اسکی۔ “ مرجان اپنا ہر مسئلہ اس سے باٹنے کی عادی تھی اور وہ بٖغیر تنقید کیئے حل نکالنے کا۔ آج بھی یہاں آتے ساتھ اس نے پہلے مہتاب کا سارا قصہ اسے سنایا  کہ کس طرح وہ اسکی مدد مانگ رہی ہے اور کیوں وہ دینا نہیں چاہتی۔
 ”مجھے ایسی لڑکیوں پر ترس آتا ہے حجل۔ “
 ”تمہیں ایسی لڑکیوں سے نفرت ہے مرجان۔ “ڈھلتے سورج کو دیکھتے  اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
 ”مدد کرنے سے ہچکچا کیوں رہی ہو؟ “چائے کو خاموشی سے پیتے وہ سامنے کھڑی مرجان کو سمجھ رہا تھا۔ آفتاب کی آخری کرنیں اسکی آنکھوں میں روشن  سا عکس بنارہی تھیں۔ بلاشبہ اسکی آنکھیں قدرت کے حسین  مناظر میں سے ایک تھیں۔
 ”کرتی مدد، ضرور کرتی…….. اگر یہ بدلہ نامی واحیات بات نہ ہوتی ۔ “
 ”تم اسکی نیت چھوڑو، اپنا فائدہ دیکھو ۔ “ اس نے الجھ کر اپنے دوست کو دیکھا۔ سیاہ پی کیپ تلے آج اسنے زیتون رنگ کے لینس لگا رکھے تھے۔
” میں نے اگر اس بار اسکی مدد کی تو وہ مجھ سے بار بار  ایسے فیورز مانگے گی۔“
”تو مت دینا۔ “اس کے پرسکون لہجہ پر مرجان نے اسے ندامت سے دیکھا۔  ہلکا سا  مسکراتا  چائے کا کپ لبوں سے جدا کیا۔  ”اس بار بس اسکی مدد کردو اور …. اگلی مرتبہ کے لیئے اسے مدد مانگنے کے قابل مت چھوڑو۔  “ مرجان کے کپ بلند کرتے ہاتھ ٹھہر گئے۔ ” تم نے اپنا آخری سیشن ریکارڈ کیا ہے نا اسکے ساتھ؟“ مرجان نے روانی میں گردن ہلائی۔
”وہ ریکادڑنگ مجھے دے دو۔اگلی بار جب وہ تم سے مدد مانگنے آئے  اسی ریکادڑنگ کے ذریعے ہم اسے دھمکا  دے گیں۔   علاوہ ازیں وہ اس بار کے صوبائی  ایسمبلی کے الیکشن میں بھی کھڑی ہورہی ہے۔۔۔ “
 ”اور تم چاہتے ہو کے ایپٹ آباد کی سیٹ تمہیں ملے۔ “اپنی بات مکمل کیئے جانے پر وہ چائے کا آخری گھونٹ ختم کرتے مسکرایا۔
 ”کبھی ہمارے لیئے بھی کچھ کردیا کریں حضور، ہم اتنے برے بھی نہیں ہیں۔ “ساتھ رکھے چھوٹے میز سے اپنا موبائل اور چابی اٹھاتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
 ”ایپٹ آباد کی سیٹ پر بیٹھ جانے سے نہ صرف میرے خاندان کو فائدہ ہوگا  بلکہ تمہارا بھی اتنا ہی نفع ہے۔ “وہ اب اپنے سنجیدہ موڈ میں آچکا تھا۔  ”آخر کو کسی ایک کے ہاتھ تو سیاست سے میلے ہونے چاہیئے۔ “مسکراتے ہوئے وہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔
کچھ دیر سورج کی الوداعی کرنوں کو ڈوبتا دیکھتے وہ دونوں خاموش رہے۔
 ”اس میں تو تمہارا فائدہ ہے، میرا  تو نہیں۔ “
 ”ہم میں تمہارا میرا کب سے آگیا؟ “ وہ سوال نہیں پوچھ رہا تھا ، ان دونوں کے تعلق کی مضبوطی کو  جتا رہا تھا۔ حجل  اور مرجان دونوں    متواز راستے تھے جو اگر ایک دوسرے سے  کم یا زیادہ ہوئے تو بربادی باہمی ہوگی۔
  ایک چلے گا تو دوسرا بھی قدم سے قدم ملائے گا۔  ایک ٹھہرے گا تو دوسرا بھی خود کو روک لے گا۔
ان کی برابری ہی دوسرے کی بربادی تھی۔
”مہتاب کی ریکارڈنگ کے ذریعے ہم اسے الیکشن سے ہٹائے گیں۔ وہ ہمدردی کس سے بٹورے گی کیونکہ وہ خود چل کر تمہارے پاس آئی ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ تمہارے راستے کا کانٹا بنی، اسکے منگیتر کو بتا دینا۔ وہ تو اپنا انصاف ضرور لینا چایے گا۔ آخر کو انسان اپنے بدلے تو بھولتا نہیں۔ “
مرجان کی تسلی کرواتا وہ بالکانی سے باہر نکل گیا۔ جانتا تھا وہ مان چکی ہے بس اپنا جواب بول کر نہیں…..کر کے دکھائے گی۔
حال میں چھ دسمبر  چل رہا تھا۔ مرجان نے جیب سے مائک نکالتے  حجل کی طرف اچھالے اور دوسری طرف سے آتی پیسینجر سیٹ کا دروازہ کھولا۔
حجل نے ہاتھوں میں مقید جلتے بجھتے آلے کو دیکھا۔ فاتحانہ مسکراہٹ اس کے گرد چھایا اندھیرا نگھل گیا۔
” ویسے۔۔۔۔“ چابی کی خاطر جیب میں ہاتھ مارا۔ ”اس آدمی کی زندگی بن جائے گی جس کے لیئے تم جہیز میں یہ اپنے پیارے مائکرو فون اور کیمراز لے کر جاؤ گی۔“ ہنس کر کیا گیا تبصرہ مرجان کو کچھ لمحات کےسکتہ میں  ڈال  گیا۔گاڑی میں چڑھتے ہوئے اسکی رفتار سست تھی۔
 ”کیا تم شادی کر رہے ہو مجھ سے؟“ بیک مرر میں خود کو دیکھتے اسکی سانولی رنگت گلابی ہوئی۔
حجل ایک ہونٹ اوپر کرتے مسکرایا۔ ” ہماری اتنی قابلِ رشک قسمت کہاں ڈاکٹر صاحبہ۔“جیپ کا دروازہ بند کرتے اس کا ڈرائیور نشست سنبھال چکا تھا۔
سیاہ رات میں آج ایک قرین نے دوسرے قرین کا قصہ تمام کروایا ۔ فرق تو بہت تھے ان میں مگر مقام ایک کا بدتری میں بلند تھا۔
حجل کے ہاتھ اب کمپارٹمنٹ ٹٹول رہے تھے۔ ساتھ بیٹھی تھریپسٹ اب پشت سیاہ سیٹ سے لگا چکی تھی۔  حجل نے مصروفیت کے دوران کہا۔
 “ karma is real coral. ”
 اسکے تبصرے پر مرجان کی آنکھیں بند رہی ہیں۔ ” عمل کرنے پر اکسا کر اب مجھے  خوف زدہ  کررہے ہو ؟“ شیشہ درست کرتے  بالوں میں انگلیاں پھیرتے حجل بس گردن جھکاتے مسکرایا۔
”میں تو تمہارے ساتھ ہی ہوں۔ کندھے سے کندھا، قدم سے قدم ۔“چابی اگنشن میں ڈالنے کی آواز کے بیچ اسکی دوست کے الفاظ سنائی دیئے۔ مرجان بند آنکھوں کے پار سے بس مسکرائی، اب وہ  اتنی بھی کنجوس نہیں تھی ۔
سیاہ رات میں اب ایک سفید کار پہاڑوں کے اوٹ میں چھپے سفر کر رہی تھی۔ اسکے مسافر طاقت کا جام پیئے خود ساختہ قاضی  جو دوسروں کے  نصیب جاننے کا دعوہ کرتے تھے۔
گناہ گار لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر وہ خود انسانیت کے بدتر درجہ پر فائز ہورہے تھے کیونکہ………انسان کبھی اپنے بدلے نہیں بھولتے اور قدرت بغیر توبہ کے معاف نہیں کرتی۔
★…★…★
(ختم شد)

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?