مفلحون ہوتے ہیں وہ جنہیں یقین ہوتا ہے کہ حقیقی فلاح فیصلے کے دن کی فلاح ہے ۔ وہ خدا کے ہر کام میں مصلحت ڈھونڈتے ہیں ۔ انھیں کی گئی کسی چیز پر کوہ میں ہوتا ۔ وہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہوتے ہیں ۔ انھیں جو میسر ہو اسی میں خیر طلب کرتے ہیں ۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔
یہ کہانی پارس اور وجیح کی ہے….
پارس نے زندگی میں اتنے دھوکے کھائے تھے کے وہ کسی پر بھی بھروسہ نہ کر پاتی تھی…
پھر بھی وہ اس کے قریب ہو چلی تھی….
پر اسکے ساتھ پھر سے وہی ہوتا ہے..
جو ہمیشہ سے ہوتے آیا تھا…
پر اس بار سب کچھ بہت مختلف اور الجھا سا تھا.
پارس تھک ہار کے اللہ کی طرف رجوع ہوئ….
اور زندگی کی طرف پھر سے آگے بڑھی.
پر پھر سے وجیح اسکے سامنے آ پہنچا….
اور اب اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی محبت سے بدلہ لیا..
یہ کہانی دو مختلف دنیاؤں کے دو لوگوں کی ہے—اسفندیار خان، جو لندن میں ایک بےپرواہ، خود پسند اور غرور میں ڈوبا ہوا شخص ہے، اور میرت ابراہیم، جو لاہور کی ایک نیک دل، خوددار اور سنجیدہ لڑکی ہے، جو لندن میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے آئی ہے۔ یہ صرف محبت کی نہیں، بلکہ ایک رہسی، ماضی کے رازوں، سازشوں، اور قسمت کے کھیل کی کہانی ہے، جس میں ایمان، انتقام، اور قربانی کے رنگ بھی شامل ہیں۔
یہ کہانی ہے اس سیاہ رات میں ہوئے ایک قتل کی کسی اپنے کی جدائی کی , خونی رشتوں کے سفید پر جانے کی یہ کہانی ہے اس ایک پردے میں چھپے راز کی یہ کہانی ہے اس ایک تہہ خانے کی جس کی دیواروں میں ہیں اس سچائی کے دروازے یہ کہانی ہے ہنستی کھیلتی لڑکی کی مسکراہٹ چھن جانے کی، یہ کہانی ہے ایک ایسی جنگ کی جس کے زخم روح کو گھائل کر دیتے ہیں ،یہ کہانی ہے بدلہ لینے کی آگ سے لیکر معاف کر دینے کی یہ کہانی ہے اپنی محبت کی قربانی دینے کی یہ کہانی ہے اس نیلی آنکھوں والے شہزادے کی جس کی پہچان سے ہیں سب نا واقف, یہ کہانی ہے ان کرداروں میں چھپے رازوں کی.
یہ ناول خود شناسی کے سفر پر نکلنے والوں کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو مکمل ہونے کے باوجود خود کو پہچان نہیں پاتے، جان نہیں پاتے۔ یہ کہانی اپنے آپ کو پہچان کے، اپنے برے کو اچھے بنانے کے سفر کا نام ہے۔ یہ کہانی آپ کے نام ہے۔ یہ کہانی ہر اس انسان کے لیے اللّٰہ کی طرف سے نعمت ہے، جو اس سے کچھ موتی چننا چاہتے ہیں، منور ہونا چاہتے ہیں۔ اپنے اندر کی سرد شام کو، صبح کی روشنی میں بدلنا چاہتے ہیں، سنورنا چاہتے ہیں۔ آزادی مبارک، میرے پیارے قاریوں!
مہرالنساء ایک سادہ کتھا ہے ، ایک عورت کی کتھا جسے کچھ اپنا ذاتی چاہئے تھا ۔ہر عورت کی طرح ۔۔۔کچھ ایسا ذاتی جو صرف اسکا ہو ، جو اس پر احسان کرکے نا دیا گیا ہو، ناہی کسی بھیک میں ۔۔۔اب چاہے وہ چھت ہو یا محبت ۔
اور سب کچھ بہتیرین تھا ، بلکل جیسا کہ مہر نے اپنے لیے اتنے سالوں میں تشکیل دیا تھا ، حتی کہ اسکا ٹاکرا ماضی کے ایک پرندے سے جان ہوا ۔۔۔
ایک دھچکا جس نے اسکی تشکیل شدہ پرفیکٹ زندگی میں ایک آرتعاش ڈال دیا ۔
مہرالنساء ایک سادہ کتھا ہے ، ایک عورت کی کتھا جسے کچھ اپنا ذاتی چاہئے تھا ۔ہر عورت کی طرح ۔۔۔کچھ ایسا ذاتی جو صرف اسکا ہو ، جو اس پر احسان کرکے نا دیا گیا ہو، ناہی کسی بھیک میں ۔۔۔اب چاہے وہ چھت ہو یا محبت ۔
اور سب کچھ بہتیرین تھا ، بلکل جیسا کہ مہر نے اپنے لیے اتنے سالوں میں تشکیل دیا تھا ، حتی کہ اسکا ٹاکرا ماضی کے ایک پرندے سے جان ہوا ۔۔۔
ایک دھچکا جس نے اسکی تشکیل شدہ پرفیکٹ زندگی میں ایک آرتعاش ڈال دیا ۔
میں مسلمان ہوں روشن پروین کا ایک دل کو چھو لینے والا ناولٹ ہے، جو ایک ننھے سے بچے عمر کی آنکھوں سے اُمتِ مسلمہ کے جاگنے کی داستان سناتا ہے۔ فلسطین پر ظلم و ستم کی خبروں سے متاثر ہو کر عمر اپنے ایمان کی روشنی میں بیداری کی مہم چلاتا ہے۔ ایک سادہ سی تین لفظی تحریر سے شروع ہونے والی اس جدوجہد میں وہ اپنے عزم، دعا، اور اخلاص کے ذریعے بڑوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالتا ہے۔
یہ کہانی معصوم جذبوں، دینی غیرت، خلوص، اور ایمان کی طاقت کا ایسا سفر ہے جو قاری کے دل میں جگنو کی طرح امید کی روشنی بکھیر دیتا ہے۔
یہ ناولٹ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے لیے عمر، طاقت یا وسائل نہیں، بلکہ نیت اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہے۔
کہانی ملک کے رکھوالعوں کے گرد گھومتی ہے کہانی کسی ایک شخصیت کا تعاقب نہیں کرتی بلکہ یہ مختلف کرداروں کا مجموعہ ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔ کہانی ہے کرنل جبرئیل کی سربراہی کی زارا جبرئیل کے ساتھ کی میرال خان کی شخصیت کے بھول بھلیوں کی عنصب جہانگیر کی بہادری کی شامیراسامہ کی محبت کی اروا شمس کی پاکیزگی کی ایس کے کی قید کی روپا دیوی کے عشق کی اور صدام حیدر کے انتقام کی ماضی کے دریچوں میں دوبے ان رازوں کی جو کھل کر بہت سی حقیقتیں نگل لیتے ہیں۔ دہلیز کے پار وہ کہانی ہے انصاف کی ملک کی خاطرجان دینے کی اور لڑ کر فتح یاب ہونے کی۔۔۔