اگر وقت ٹھر جائے۔ سانس ساکن ہو جائے۔ آنکھ نم ہو جائے۔ تو خاموش رہنے کی بجائے اپنی کہانی کہہ ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور جس پل تمہیں لگے کہ اب کوئی تمہیں سننے نہیں آئے گا۔ اس پل لکھ ڈالو۔ اپنی کہانی کو۔ جو اک راز کی صورت ، اک بری یاد کی طرح تمہارے سینے میں دفن ہے۔
صوفیہ سکندر کہانی کا وہ کردار ہے جس نے میرے ہاتھ میں قلم تھما کر مجھ سے اپنی کہانی لکھوائی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگ سنانا چاہتے ہیں مگر سنا نہیں سکتے ۔۔۔کچھ کہانیاں ممنوعہ ہوتی ہیں۔ وہ لفظوں میں کہی نہیں جا سکتیں۔ اور میں اس ممنوعہ کہانی کو رقم کرتی ہوں۔ کچھ سچ، کچھ جھوٹ۔ کچھ حقیقت، کچھ افسانہ۔
اس کہانی کے سب کردار فکشن ہیں، کہانی من گھڑت ہے ۔۔۔مگر ۔۔۔عزیز قارئین ؟
کیا کرداروں پر بیتنے والی اذیت جھوٹی ہوتی ہے؟
بعض کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کسی کی زندگی ہوتی ہیں۔ کسی کا ماضی ہوتی ہیں۔ کسی کے اوپر بیتنے والی قیامت ہوتی ہیں ۔ یہ کہانیاں سننے میں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں مگر جو اس ٹارچر سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے ۔۔۔بس وہی جانتا ہے کہ ازیت کیا ہوتی ہے۔
“شہہ مات” کو لکھنا بھی کسی ازیت سے کم نہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ٹارچر کیا ہے؟ میں کہوں گی اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کاغذ کی سطح پر اتارنا ۔۔۔۔اور پھر کسی تاریک گوشہ میں بیٹھ کر اس ان کہی کو پڑھنا۔ اس درد کو پڑھنا جو آپ کی آنکھیں نم کر ڈالے۔
یہ کہانی ایک فیملی ولاگر اور اس کی فین کی ہے۔۔۔ ایک لڑکی جو ایک مشہور لڑکی کی دیوانی ہے وہ کس طرح اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتی ہے اور اپنے عزیز رشتے کھو دیتی دیتی ہے۔۔۔ اس کی ایک چھوٹی سی غلطی اس کی زندگی کا سب سے بڑا سبق ثابت ہوتی ہے۔
راہ گزر کہانی ہے صبر کرنے والوں کی۔۔۔تنہائیوں میں رونے سسکنے والوں کی۔۔۔ٹوٹ کر بکھرنے والوں کی۔۔۔بکھر کر جڑنے والوں کی۔۔۔ایمان کو پانے والوں کی۔۔۔ظلم مٹانے والوں کی۔۔۔جدا ہو جانے والوں کی
یہ لوگوں کی بھیر میں ٹوٹے اعتبار اور رشتوں کی کہانی ہے۔ یہ کھانی چند شاطر انسانوں کی ہے جو اپنے آپ کو بہترین سمجھ کر اپنا نقصان کر بیٹھے۔ ایک ایسی کہانی جس میں اچھائی اور برائی کی نا ختم ہونے والی جنگ شامل ہے۔ نماز،قرآن اور انسان کی اہمیت شامل ہے۔ بعض اوقات انسان بھول جاتا ہے کہ اس کے اوپر بھی کوئی ہے جو اس کے سب اعمال سے واقف ہے، اور اس بھول میں وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنا شروع کردیتا ہے حالانکہ وہ صرف ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔اور پھر اس کہانی کے ہر کردار نے اس زمینی خدا کا انجام دیکھا۔ایک ایسی کہانی جس سے کچھ سیکھا جائے اور ایک ایسی کہانی جہاں ہر ایک کردار سرمائی ہے۔ نہ سیاہ نہ سفید
یہ کہانی ہے سیرینا کی، ایک خودمختار اور مضبوط لڑکی، جس کی زندگی میں سکون کا دور ختم ہونے کو ہے۔ ماضی نے ایک بار پھر اپنے سائے ڈال دیے ہیں، اور وہی پرانے زخم تازہ کر دیے ہیں! مگر اس بار کیا ہوگا؟ کیا تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے گی، یا پھر سیرینا کے لیے نئی راہیں کھلیں گی؟
دوسری طرف، ریان ہے، ایک نوجوان جس کا حال خوشگوار ہے، مگر ماضی ایک ناخوشگوار یاد۔ وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کے کیا ماضی نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا ہے؟
سیرینا اور ریان کی داستان کو جانیے، ان کے ماضی کی گرہیں کھولیے، اور ان کے جذبات کی گہرائیوں میں ڈوبیے۔ ایک ایسی کہانی جو دلوں کو چھو جائے اور زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرائے۔
(یہ کہانی ہے دو لوگوں کی زین داؤد اور صبحہ شیخ کی ہے ،دو مختلف لوگوں کی ، لیکن اس کتاب میں ایک ایک کردار اپنی کہانی رکھتا ہے،یہ کتاب بہت سی باتوں کو غلط ثابت کرے گی اور بہت کو سچ ۔ اس کتاب میں دوا بھی ہے اور زہر بھی لیکن۔۔ یہ ہم نے سوچنا ہے کہ ہم کس کو چُنیں ۔ اس کتاب میں سفر بھی ہے اور منزل بھی ،کوئی رک کر سفر طے کر رہا ہے اور کوئی بھاگ بھاگ کر ۔ منزل سب کو ملی ہے کسی کو زندگی میں کسی کو امر ہو جانے کے بعد ۔ اس کتاب کے بہت سے کردار ہیں لیکن آج کے زمانے کے ، ہم جیسے ہی ، ہمارے جیسے مسئلے ، اور شاید حل بھی یہیں مل جائیں)
ایک بچا ہے جو اپنے تایا تائی پاس رہتا ہے جس کے والدین ماں اور باپ دونوں آرمی میں تھے ۔انہیں عشق تھا پانی اور آسمان سے اور شہا دت پائی اور پھر بچا اپنے ماں باپ کا خواب پورا کر نے کے لیے آرمی میں جا تا ہے
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس نے ایک آزاد ماحول میں پرورش توپائی مگر اپنی حدود اور اپنے دین کو نہیں بھولی۔ یہ كہانی ہے ایك ایسی لڑكی كی جس كے اپنے ہی والدین اسے دھوكے سے بیرونِ ملك سے پاکستان لائے اوراس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی زبردستی ایک ایسے شخص سے کر دی گئ جسے وہ ناپسند کرتی تھی اور وہ شخص نکاح کے فوراً بعد ہی اسے رخصت کئے بنا غائب ہو گیا۔ یہ کہا نی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو اس معاشرے اور اس کے بنائے ہوئے ان رسم و رواج سے لڑ رہی ہے جس کا دین سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یہ اس محبت کی کہانی ہے جس نے ہر رسم اورہر رواج کو بدل کر رکھ دیا۔
“یہ کہانی ہے ایک طرفہ عشق کی ،ایک طرفہ محبت کی دیوانگی کی،وہ جو اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبی ہوئی تھی اس کی ایک نگاہ کی بھوکی ایمن رحمان اپنے حارث سائیں سے عشق کی انتہا کرنے والی اس کے ہجر میں خود کو موت کے ہجر تک لے جانے والی
یہ کہانی ہے حارث جمال کی جس نے ایمن رحمان سے عشق کیا ایسا عشق جس کی کوئی انتہا نا تھی
یہ کہانی ہے جہاں دو دل ملتے ہیں مشکلات کا سامنہ کرتے ہیں ان کے عشق میں مشکلات بہت آئی مگر عشق اپنی انتہا کو پہنچ گیا”
کچھ پل کی یادیں اگر یاد آجائے تو وہ پل بھی کسی عزاب کے مترادف ہوتے ہیں کچھ پرانی یادیں اگر یاد نا کی جاے تو انسان بھی سکون میں رہتا ہے مگر کیا یادیں بھول سکتی ہیں؟؟ “نہیں” یادیں کبھی نہیں بھولتی بےشک وہ یاد انسان کا صرف ایک گناہ ہی کیوں نا ہو ،یادیں بنی ہی انسان کے لیے۔ کبھی پرانی یادیں اور باتیں اگر نئے سرے سے کھلے تو نئے سرے سے دل میں ٹھیس اٹھتی ہیں ان باتوں اور یادوں کا ازالہ کبھی پورا نہیں ہوتا
زندگی کی راہوں میں ہم سب کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ ناول اسی دوستی کی کہانی ہے۔ “یار یارم” میں میں نے دوستی کی حقیقت، وفاداری اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے سفر کی عکاسی کرتی ہے جہاں دوست ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں اور اپنی دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔اس ناول میں موجود تمام کردار فرضی ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں-
یہ ناول صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک پیغام بھی ہے کہ حقیقی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ کہانی آپ کو اپنی دوستیوں کی قدر کرنے پر مجبور کرے گی اور آپ کو یاد دلائے گی کہ زندگی کی خوبصورتی ان لوگوں میں ہے جو ہمارے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔۔۔
Salsbeel by Nayab Jilani free PDF Download Available.
J-Aکہانی کا خلاصہ۔۔
سلسبیل جو بہت خوبصورت لڑکی ہے،جرمنی میں اپنے دادا دادی اور باپ کے ساتھ رہتی ہے۔دادی بیكری چلاتی ہیں اور گاؤں میں یہ لوگ جانور بھی پالتے ہیں۔س کا ایک بھائی ڈینی ہے اور دوست ڈی سوزا جس کی ماں نے اس کے باپ کے ساتھ بے وفائی کی تھی۔
سلسلبیل کی ماں وفات پا گئی تھی تو دوسری شادی باپ نے کی اور سوتیلی ماں کا رویہ اس کے ساتھ بہتر نہیں جس کا باپ روبرو اور بھائی روسی اکثر ان کے گھر ملنے آتے ہیں اور ان کا آنا دادا دادی کو پسند نہیں۔
ہیرو ہشام بھی جرمنی میں ڈاکٹر ہے جو سلسبیل کو پسند کرتا ہے جس کی ماں شراب نوشی کرتی ہے اور مر جاتی ہے۔
ہشام کی سوتیلی ماں پاکستان میں ہیں جو نرجس بیگم ہیں اور پیار سے انھیں جی جی کہتے ہیں جو اس سے بہت محبت کرتی ہیں اور کافی سالوں سے منتظر ہیں کہ سوتیلہ بیٹا پاکستان آجاۓ اور جائیداد اس کے حوالے کردیں وہیں وہ شافیہ کی شادی ہشام سے کرانا چاہتی ہیں۔
شافیہ نرجس یعنی جی جی کے محلے میں اپنی سوتیلی ماں اور سوتیلی بہن عرشیہ کے ساتھ رہتی ہے جن کا رویہ شافیہ کے ساتھ اچھا نہیں اور اس کی جی جی سے بہت بنتی ہے اور یہ بھی ہشام کو پسند کرتی ہے اور اس کے آنے کی منتظر ہے۔
اسی گلی میں غوثیہ اپنے بیٹے شاہ ویز کے ساتھ رہتی ہیں جو شافیہ کو پسند کرتا ہے اور ان کے پانچ بہن بھائی ہیں جن کے والدین نہیں ہیں۔یعنی خداداد بڑا بھائی ہے جو سب بہن بھائیوں کو والدین کی طرح کیئر کرتا ہے شایان،داؤد،سلیم اور ایک بہن سنہرے گھر کے فرد ہیں۔
سنہرے کی شافیہ سے دوستی ہے شافیہ کی ماں سمیرا چاہتی ہیں کہ عرشیہ کی شادی خدا داد سے ہوجاۓ۔
خطیب فلسطینی ہے جس کاسارا خاندان شہید ہوگیا اور اب یہ جرمنی آگیا ہے اور ہشام سے اس کی دوستی ہے وہیں کالج میں وہ سلسبیل اور ڈی سوزا سے بھی ملتا ہے۔خدا داد جو سلسبیل کو پسند کرتا ہے یہ اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی شفٹ ہوجاتا ہے جس کی دوستی ہشام اور خطیب سے ہوجاتی ہے کہ ایک ہی کالج میں پڑھ رہے تھے۔
ہشام کی سگی ماں نشے کی وجہ سے مر جاتی ہے تو وہ پاکستان جاتا ہے اور نرجس بیگم کی خواہش کو پورا کر کے شافیہ سے نکاح کرتا ہے
سلسبیل کی سوتیلی ماں بھی اس کے باپ سے بے وفائی کر کے بھاگ جاتی ہے اور ایک رات کے اندیهرے میں کوئی آ کر سلسبیل کے ساتھ زیادتی کرتا ہے وہ سمجھتی ہے یہ روبرو ہے جو اس کی سوتیلی ماں کا شوہر ہے۔
ہشام شافیہ کو بتا دیتا ہے کہ وہ سلسبیل کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کر کے اسے سہارہ دے گا۔
باقی کہانی میں پڑھیں کہ
سلسبیل کا مجرم کون ہے؟
کیا شافیہ ہشام کے ساتھ رہے گی؟
ہشام کا راز بھی ہے وہ کیا ہے؟
بہت زیادہ فلاسفی سے بھرپور کہانی ہے جس میں رائیٹر نے بہت منفرد انداز میں ناول لکھا ہے جسے سمجھنا کچھ مشکل ہے مگر رائیٹر کی علمی قابلیت قابل تعریف ہے۔