کہانی روم اور لاہور دو شہروں کی ہے۔ کہانی میں خون اور خوشبو کو بڑے خوبصورت انداز میں پوٹرے کیا گیا ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہانی بے شک پرانے وقت کی ہے مگر اس کا تعلق آج کے معاشرے سے ہے۔ لاہور مجھے دل سے بہت پسند ہے اور اپنی کہانیوں میں مختلف زاویوں سے اسے بیان کرتی ہوں، اس کہانی میں بھی میں نے لاہور کے ایک نئے رنگ کو پینٹ کیا ہے۔ قاری کو خوشی بھی ہوگی اور دکھ بھی مگر یہی کہانی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کہانی آپ کو اپنے اردگرد ہوتے واقعات سے بہت ملتی جلتی لگے گی اور یہی مجھے سب سے اچھا لگتا ہے۔ کہانی میں محبت ہے سیاست ہے، خون ہے خوشبو ہے۔۔ کہانی محض ایک کہانی نہیں ہے۔
یہ کہانی ہے ایک بے خوف شہزادی کی، جس کی آنکھوں میں شاہی وقار اور ذہن میں تلوار کی تیزی تھی۔ یہ داستان ہے ایک کھوئے ہوئے وارث کی، جسے قسمت نے چرواہے کی پوشاک پہنا دی مگر رگوں میں دوڑتا شاہی خون اسے اپنا حق یاد دلاتا رہا۔ ستلج کی بے رحم موجیں جسے بہا لے گئیں، ریت کی بے انتہا وسعتوں نے جسے چھپا لیا، وہی وارث اب دراڑوں سے نکل کر واپس آ چکا ہے۔ بادشاہی محلات کی سازشیں، ریت کے ذروں میں دفن راز، اور تخت پر براجمان ایک غاصب— سب اس طوفان کے منتظر ہیں جو ایک چرواہے کے روپ میں پل بڑھ کر انتقام کی آگ بن چکا ہے۔ یہ کہانی صرف تخت کے حصول کی نہیں، اس حق کی بھی ہے جسے چھینا گیا تھا، اس جنگ کی بھی ہے جو تقدیر اور طاقت کے بیچ لڑی جائے گی۔ ستلج گواہ ہے، ریت خاموش ہے، مگر وہ جو کھو گیا تھا، وہ اب لوٹ آیا ہے
کہانی ہے خواب کی تعبیر کی ،کہانی ہے یہ مقاصد کی تکمیل کی، کہانی ہے آگے بڑھتے بڑھتے بہت کچھ پیچھے چھوڑ جانےکی۔ کہانی ہے سوالات کی ۔ جن کے خواب نہیں ہوتے کیا وہ کامیاب نہیں ہوتے
کہانی ان کرداروں کی جنہوں نے رات کے اندھیرے میں نور کا چراغ ڈھونڈ لیا۔ یہ کہانی انابت ابراہیم کی ہے جو سکون کی متلاشی ہے۔ یہ کہانی مومن اسحاق کی ہے جس نے اپنا قرآن کھو کر اپنا مقصد کھو دیا