کہانی سیدا مہرونیسہ اور شاہمیر نواب خان کے گرد گھومتی ہے۔ مہرونیسہ جو تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے، باوجود اس کے کہ وہ اپنے والدین کی نظراندازی کا شکار ہے، اس کے بہن بھائی اسے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ دوسری طرف، شاہمیر نواب خان ایک نوجوان سی ای او ہیں، جنہوں نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد اپنے خاندان کا کاروبار سنبھالا۔ اسے اپنے چھوٹے بھائی کی پرورش کا بھی ذمہ داری دی گئی ہے۔ چونکہ اس کے پاس کوئی رشتہ دار نہیں ہیں، یہ شاہمیر پر ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پرورش کرے۔
شجرِ ندامت کے مرکزی کردار ہیں حمدان عالم٫ سندس جہانگیر اور انکے چار بچے:
زوبیہ حمدان ( ایکٹریس)
زاویار حمدان ( بزنس مین)
زنیرہ حمدان( بزنس ویمن)
ذید حمدان( سٹوڈنٹ )
حمدان عالم اور اُنکی اہلیہ سندس جہانگیر کا شمار ملک کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے بزنس کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ذہانت میں دونوں بےمثال ہیں مگر فطرتاً دونوں انا پرست، مغرور اور غصے کے تیز ہے۔ طاقت کے نشے نے اُنکی فطرت میں تکبر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپنے سامنے کسی دوسرے کی بات سنے جانا اُنکو توہین لگتا ہے یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی بات سے بھی وقت بے وقت اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک جیسی فطرت کے لوگ اگر ساتھ رہنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکا گھر جنت نہیں بن پاتا کُچھ یہی حال حمدان اور سندس کے گھر کا بھی ہے ۔ بات بات پر اختلاف اور لڑائی جھگڑے نے اُنکے بچوں کو بھی گھمنڈی اور فطرتاً بدتمیز بنا دیا ہے۔ عالمز فیملی دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی ہونے کا ناٹک کمیابی سے کرتی ہے مگر درحقیقت ہر ایک فرد اندر سے کھوکھلا ہے۔
دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی نظر آنے والے عالمز کا تختہ اُس وقت الٹ جائےگا جب کہانی کے ولن کی کامیاب چال کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے میں حمدان عالم غصے میں سندس جہانگیر کو طلاق دے دینگے۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اُنکے اسٹاک مارکیٹ میں گر جائینگے۔ عالمز کی شناخت کو اس اسکینڈل سے بہت نقصان پہنچے گا۔ طلاق اور پھر حلالہ کی کوشش حمدان عالم اور سندس جہانگیر کے بچوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گی۔ دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والے دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ حمدان عالم اور سندس جہانگیر دونوں کی دوسری شادی کے بعد اُنکے بچےکس طرح خود کو سنبھالیں گے اور کیسے مختلف حالات کا مقابلہ کرینگے یہ ناول اُس سفر کے گرد گھومے گا جس میں بہت سے مختلف کردار آئینگے، ماضی کے اوراق بھی کھولے جائیں گے اور اس سفر میں سب اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ کہانی امیر طبقے کے اُس حصے پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جہاں کے والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں مگر انکی بہترین تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کہانی کا اختمام بتائے گا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو وقت کیسے انکساری سے پیش آنا سکھاتا ہے اور کس طرح حمدان عالم اور سندس جہانگیر دوسرا موقع ملنے پر اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ ناول فرسودہ رسم جس میں عورت کا نکاح قران سے پڑھا دیا جاتا تھا اور حلالہ کا کنسیپٹ جس کو بہت غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی روشنی ڈالے گا۔
“کیوں زندگی کبھی غم کے اندھیروں میں گھرِ جاتی ہے اور کبھی روشنیوں سے منور ہو جاتی ہے؟ ‘عریسہ’ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی جذبات، بکھری یادوں، اور بےقرار روحوں کے درمیان گردش کرتی ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی محبت کے بغیر زندگی ممکن ہے؟ یا محبت کا چھن جانا بھی ایک نئی روشنی کا آغاز ہو سکتا ہے؟ یہ کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ زندگی کے پیچیدہ راستوں میں گم ہونا ہی شاید خود کو پانے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔”
کیوں ہر پل، ہر موڑ پر ایسا لگتا ہے کہ کائنات نے ایک نیا سوال اٹھا دیا ہے، اور اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہی زندگی کی سب سے بڑی جنگ بن جاتا ہے۔ کیا تم واقعی وہی ہو جو تمہیں لگتا ہے؟ کیا تمہیں اپنی تقدیر کا علم ہے، یا تم صرف ایک داستان کے کردار ہو؟”
“کیوں زندگی کبھی غم کے اندھیروں میں گھرِ جاتی ہے اور کبھی روشنیوں سے منور ہو جاتی ہے؟ ‘عریسہ’ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی جذبات، بکھری یادوں، اور بےقرار روحوں کے درمیان گردش کرتی ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی محبت کے بغیر زندگی ممکن ہے؟ یا محبت کا چھن جانا بھی ایک نئی روشنی کا آغاز ہو سکتا ہے؟ یہ کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ زندگی کے پیچیدہ راستوں میں گم ہونا ہی شاید خود کو پانے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔”
کیوں ہر پل، ہر موڑ پر ایسا لگتا ہے کہ کائنات نے ایک نیا سوال اٹھا دیا ہے، اور اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہی زندگی کی سب سے بڑی جنگ بن جاتا ہے۔ کیا تم واقعی وہی ہو جو تمہیں لگتا ہے؟ کیا تمہیں اپنی تقدیر کا علم ہے، یا تم صرف ایک داستان کے کردار ہو؟”
ناول ہمراہی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ حنا معراج اور داور معراج کئی دونوں کزن ہوتے ہیں جبکہ حنا کی فیملی اثرو رسوخ اور مالی حالات میں داور معراج سے کئی زیادہ اونچے مرتبے پر ہوتے ہیں ۔۔
دوسری جانب ماہیرہ ایک عام سے گھر کی خاص خدو خال کی مالک ہوتی ہے جو والدین کی وفات کے بعد پھپھو کے گھر میں رہتی ہے پھپھو ایک ماں بن کر اسے پالتی ہیں اور اپنے بیٹے اصفر سے اس کی منگنی طے کردیتی ہیں، اصفر ایک بےحس اور اور بے روزگار لڑکا ہے جو کہ باہر جانے کے سپنے بنتا ہے اور اپنے بچپن کے دوست داور کے توسط سے لندن چلا جاتا ہے اور جاتے ہوئے مہیرہ سے منگنی توڑ کر جاتا ہے۔۔۔
حنا کے والد زولفقار صاحب حنا کی شادی ایک رئیس زادے خرم قیام ثانی سے کردیتے ہیں،
جو کہ ان کے مرتبے پر میل کھاتے ہیں دولت کے اس فرق نے عمر کے فرق کو یکسر مٹا ڈالا۔۔۔
فیری ٹیلز خیالی ہوتی ہیں۔۔جس میں شہزادی اور شہزادہ ایک لمبی مشکلات کی مسافت کے بعد بلآخر ایک ہو جاتے ہیں۔۔اور کہانی ایک حسین مقام پر احتتام پزیر ہو جاتی ہے۔۔
فیری ٹیلز حقیقی بھی ہوتی ہیں۔۔جس کے کردار کسی سلطنت کے شہزادی شہزادہ نہیں ہوتے۔۔بلکہ حقیقی دنیا کے عام کردار ہوتے ہیں۔۔جن کی شروعات تو حسین ہوتی ہے مگر مسافت بدصورت ہوتی ہے اور پھر جانے اس کانٹے دار راستوں سے چھلنی ہونے کے بعد وہ ایک ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔۔
اس فیری ٹیل کے کردار بھی محض عام انسان ہیں۔۔جن کے احتتام کا کسی کو علم نہیں۔۔”
یہ کہانی ایک جوان بیوہ ذرجان کی ہے۔ جو اپنی زندگی اپنے بیٹے کی وجہ سے جی رہی تھی۔ اسکی زندگی پر سکون تھی جبتک اُسکا بچپن کا دوست اسکی زندگی میں واپس نہیں لوٹ آتا۔ جو آتے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ اس مرکزی کہانی کے ساتھ اور بھی کہانیاں چلتی ہیں۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو ماں باپ کی لاپرواہی اور اپنے تکلیف دہ ماضی کے باوجود اپ نے اپ کو کمزور نہی پڑنے دیا کہانی ہے ایک ایسے ایک لڑکے کی جو اپنے ماں باپ کی دردناک موت دیکھنے کے باوجود اپنی بہن کو پالا یہ کہانی ہے دوستی کی بے غرض محبت کی قربانی کی .
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔