Satrangi Tere Rang Mein Rang Jawan Part 5
کہانی ایک سر پھری،خود سر لڑکی کی
کہانی نرم دل کے مالک یوشع خان کی
نفرت کے آغاز سے محبت کے انجام کی کہانی
زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ساتھ نبھانے کی کہانی
دو متضاد لوگوں کے ملنے کی کہانی
اپنے جنون کی خاطر آخر بازی لگانے کی کہانی
کسی کی خاطر خود کو فنا کرنے کی کہانی
کہانی لیلک خانزادی اور یوشع خان کی
Seh Gosh Episode 1 to 7
ہر کردار کی ہیں اپنی کہانیاں
ہر کہانی میں ہیں کئی کردار
کبھی بارش ہے کبھی دھوپ سی
یادیں ہیں ہر بارش میں
ہر دھوپ میں ہیں کئی چاہتیں
کہیں سرخ سا موسم ہے
کبھی راتیں گہری سیاہی سی
کچھ باتیں ہیں کچھ وعدے ہیں
کچھ بھولے بھٹکے کاغذ ہیں
محبت بھی ہماری اس سہ گوش میں
اس محبت کے ہیں کئی ٹکرے
الجھی ہیں کہانیاں آپس میں بہت
جڑے ہیں بہت سے رشتے
محبتیں کچھ ادھوری ہیں
کچھ محبتوں میں ہے دھوکے بازی
کچھ دوست ہیں بہت پرانے بھی
کچھ دشمن نئے بنائے ہیں
کچھ ادھ کھلے صفحات بھی ہیں ماضی کے
بات مستقبل کی بھی ہونی ہے
کہانی چلے گی حال کی بھی ساتھ
کہانی ہے قتل، محبت اور دشمنی کی
کہانی ہے دوستی، نفرت اور حسد کی
کہانی سہ گوش سی، کہانی سہ گوش کی
Shab e Gham Episode 1
ان لوگوں کے لیے جو مایوس ہو جاتے ہیں اللہ کی رحمت سے، روشنی سےاور مشکل کے بعد والی آسانی سے!
یہ کہانی ہے زمل اور درھان کی!
Shab e Gham Episode 2
ان لوگوں کے لیے جو مایوس ہو جاتے ہیں اللہ کی رحمت سے، روشنی سےاور مشکل کے بعد والی آسانی سے!
یہ کہانی ہے زمل اور درھان کی!
Shah Rag Episode 1
یہ کہانی ہے فریب کی — یہ کہانی ہے قتل کی — یہ کہانی ہے جھوٹ کی — یہ کہانی ہے انتقام کی —یہ کہانی ہے اللہ سے جڑنے کی—یہ کہانی ہے مشعل یوسفزئی کی— یہ کہانی ہے وِدان جہانگیر کی۔
Shajar e Nidamat Episode 1
شجرِ ندامت کے مرکزی کردار ہیں حمدان عالم٫ سندس جہانگیر اور انکے چار بچے:
زوبیہ حمدان ( ایکٹریس)
زاویار حمدان ( بزنس مین)
زنیرہ حمدان( بزنس ویمن)
ذید حمدان( سٹوڈنٹ )
حمدان عالم اور اُنکی اہلیہ سندس جہانگیر کا شمار ملک کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے بزنس کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ذہانت میں دونوں بےمثال ہیں مگر فطرتاً دونوں انا پرست، مغرور اور غصے کے تیز ہے۔ طاقت کے نشے نے اُنکی فطرت میں تکبر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپنے سامنے کسی دوسرے کی بات سنے جانا اُنکو توہین لگتا ہے یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی بات سے بھی وقت بے وقت اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک جیسی فطرت کے لوگ اگر ساتھ رہنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکا گھر جنت نہیں بن پاتا کُچھ یہی حال حمدان اور سندس کے گھر کا بھی ہے ۔ بات بات پر اختلاف اور لڑائی جھگڑے نے اُنکے بچوں کو بھی گھمنڈی اور فطرتاً بدتمیز بنا دیا ہے۔ عالمز فیملی دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی ہونے کا ناٹک کمیابی سے کرتی ہے مگر درحقیقت ہر ایک فرد اندر سے کھوکھلا ہے۔
دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی نظر آنے والے عالمز کا تختہ اُس وقت الٹ جائےگا جب کہانی کے ولن کی کامیاب چال کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے میں حمدان عالم غصے میں سندس جہانگیر کو طلاق دے دینگے۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اُنکے اسٹاک مارکیٹ میں گر جائینگے۔ عالمز کی شناخت کو اس اسکینڈل سے بہت نقصان پہنچے گا۔ طلاق اور پھر حلالہ کی کوشش حمدان عالم اور سندس جہانگیر کے بچوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گی۔ دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والے دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ حمدان عالم اور سندس جہانگیر دونوں کی دوسری شادی کے بعد اُنکے بچےکس طرح خود کو سنبھالیں گے اور کیسے مختلف حالات کا مقابلہ کرینگے یہ ناول اُس سفر کے گرد گھومے گا جس میں بہت سے مختلف کردار آئینگے، ماضی کے اوراق بھی کھولے جائیں گے اور اس سفر میں سب اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ کہانی امیر طبقے کے اُس حصے پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جہاں کے والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں مگر انکی بہترین تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کہانی کا اختمام بتائے گا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو وقت کیسے انکساری سے پیش آنا سکھاتا ہے اور کس طرح حمدان عالم اور سندس جہانگیر دوسرا موقع ملنے پر اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ ناول فرسودہ رسم جس میں عورت کا نکاح قران سے پڑھا دیا جاتا تھا اور حلالہ کا کنسیپٹ جس کو بہت غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی روشنی ڈالے گا۔
Shajar e Nidamat Episode 2 by Syeda Nimra Batool
شجرِ ندامت کے مرکزی کردار ہیں حمدان عالم٫ سندس جہانگیر اور انکے چار بچے:
زوبیہ حمدان ( ایکٹریس)
زاویار حمدان ( بزنس مین)
زنیرہ حمدان( بزنس ویمن)
ذید حمدان( سٹوڈنٹ )
حمدان عالم اور اُنکی اہلیہ سندس جہانگیر کا شمار ملک کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے بزنس کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ذہانت میں دونوں بےمثال ہیں مگر فطرتاً دونوں انا پرست، مغرور اور غصے کے تیز ہے۔ طاقت کے نشے نے اُنکی فطرت میں تکبر کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپنے سامنے کسی دوسرے کی بات سنے جانا اُنکو توہین لگتا ہے یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی بات سے بھی وقت بے وقت اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک جیسی فطرت کے لوگ اگر ساتھ رہنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکا گھر جنت نہیں بن پاتا کُچھ یہی حال حمدان اور سندس کے گھر کا بھی ہے ۔ بات بات پر اختلاف اور لڑائی جھگڑے نے اُنکے بچوں کو بھی گھمنڈی اور فطرتاً بدتمیز بنا دیا ہے۔ عالمز فیملی دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی ہونے کا ناٹک کمیابی سے کرتی ہے مگر درحقیقت ہر ایک فرد اندر سے کھوکھلا ہے۔
دنیا کے سامنے پرفیکٹ فیملی نظر آنے والے عالمز کا تختہ اُس وقت الٹ جائےگا جب کہانی کے ولن کی کامیاب چال کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے میں حمدان عالم غصے میں سندس جہانگیر کو طلاق دے دینگے۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اُنکے اسٹاک مارکیٹ میں گر جائینگے۔ عالمز کی شناخت کو اس اسکینڈل سے بہت نقصان پہنچے گا۔ طلاق اور پھر حلالہ کی کوشش حمدان عالم اور سندس جہانگیر کے بچوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گی۔ دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والے دنیا کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ حمدان عالم اور سندس جہانگیر دونوں کی دوسری شادی کے بعد اُنکے بچےکس طرح خود کو سنبھالیں گے اور کیسے مختلف حالات کا مقابلہ کرینگے یہ ناول اُس سفر کے گرد گھومے گا جس میں بہت سے مختلف کردار آئینگے، ماضی کے اوراق بھی کھولے جائیں گے اور اس سفر میں سب اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ کہانی امیر طبقے کے اُس حصے پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جہاں کے والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کردیتے ہیں مگر انکی بہترین تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کہانی کا اختمام بتائے گا کہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کو وقت کیسے انکساری سے پیش آنا سکھاتا ہے اور کس طرح حمدان عالم اور سندس جہانگیر دوسرا موقع ملنے پر اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ ناول فرسودہ رسم جس میں عورت کا نکاح قران سے پڑھا دیا جاتا تھا اور حلالہ کا کنسیپٹ جس کو بہت غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، پر بھی روشنی ڈالے گا۔
Sheh Maat Episode 1
اگر وقت ٹھر جائے۔ سانس ساکن ہو جائے۔ آنکھ نم ہو جائے۔ تو خاموش رہنے کی بجائے اپنی کہانی کہہ ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور جس پل تمہیں لگے کہ اب کوئی تمہیں سننے نہیں آئے گا۔ اس پل لکھ ڈالو۔ اپنی کہانی کو۔ جو اک راز کی صورت ، اک بری یاد کی طرح تمہارے سینے میں دفن ہے۔
صوفیہ سکندر کہانی کا وہ کردار ہے جس نے میرے ہاتھ میں قلم تھما کر مجھ سے اپنی کہانی لکھوائی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگ سنانا چاہتے ہیں مگر سنا نہیں سکتے ۔۔۔کچھ کہانیاں ممنوعہ ہوتی ہیں۔ وہ لفظوں میں کہی نہیں جا سکتیں۔ اور میں اس ممنوعہ کہانی کو رقم کرتی ہوں۔ کچھ سچ، کچھ جھوٹ۔ کچھ حقیقت، کچھ افسانہ۔
اس کہانی کے سب کردار فکشن ہیں، کہانی من گھڑت ہے ۔۔۔مگر ۔۔۔عزیز قارئین ؟
کیا کرداروں پر بیتنے والی اذیت جھوٹی ہوتی ہے؟
بعض کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کسی کی زندگی ہوتی ہیں۔ کسی کا ماضی ہوتی ہیں۔ کسی کے اوپر بیتنے والی قیامت ہوتی ہیں ۔ یہ کہانیاں سننے میں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں مگر جو اس ٹارچر سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے ۔۔۔بس وہی جانتا ہے کہ ازیت کیا ہوتی ہے۔
“شہہ مات” کو لکھنا بھی کسی ازیت سے کم نہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ٹارچر کیا ہے؟ میں کہوں گی اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کاغذ کی سطح پر اتارنا ۔۔۔۔اور پھر کسی تاریک گوشہ میں بیٹھ کر اس ان کہی کو پڑھنا۔ اس درد کو پڑھنا جو آپ کی آنکھیں نم کر ڈالے۔
Sheh Maat Episode 2
اگر وقت ٹھر جائے۔ سانس ساکن ہو جائے۔ آنکھ نم ہو جائے۔ تو خاموش رہنے کی بجائے اپنی کہانی کہہ ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور جس پل تمہیں لگے کہ اب کوئی تمہیں سننے نہیں آئے گا۔ اس پل لکھ ڈالو۔ اپنی کہانی کو۔ جو اک راز کی صورت ، اک بری یاد کی طرح تمہارے سینے میں دفن ہے۔
صوفیہ سکندر کہانی کا وہ کردار ہے جس نے میرے ہاتھ میں قلم تھما کر مجھ سے اپنی کہانی لکھوائی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگ سنانا چاہتے ہیں مگر سنا نہیں سکتے ۔۔۔کچھ کہانیاں ممنوعہ ہوتی ہیں۔ وہ لفظوں میں کہی نہیں جا سکتیں۔ اور میں اس ممنوعہ کہانی کو رقم کرتی ہوں۔ کچھ سچ، کچھ جھوٹ۔ کچھ حقیقت، کچھ افسانہ۔
اس کہانی کے سب کردار فکشن ہیں، کہانی من گھڑت ہے ۔۔۔مگر ۔۔۔عزیز قارئین ؟
کیا کرداروں پر بیتنے والی اذیت جھوٹی ہوتی ہے؟
بعض کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کسی کی زندگی ہوتی ہیں۔ کسی کا ماضی ہوتی ہیں۔ کسی کے اوپر بیتنے والی قیامت ہوتی ہیں ۔ یہ کہانیاں سننے میں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں مگر جو اس ٹارچر سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے ۔۔۔بس وہی جانتا ہے کہ ازیت کیا ہوتی ہے۔
“شہہ مات” کو لکھنا بھی کسی ازیت سے کم نہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ٹارچر کیا ہے؟ میں کہوں گی اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کاغذ کی سطح پر اتارنا ۔۔۔۔اور پھر کسی تاریک گوشہ میں بیٹھ کر اس ان کہی کو پڑھنا۔ اس درد کو پڑھنا جو آپ کی آنکھیں نم کر ڈالے۔