“Ramadan Special Series: A Journey Within” is a heartfelt collection of stories designed to inspire self-reflection and spiritual growth during the holy month of Ramadan. Through meaningful lessons and relatable experiences, this series encourages readers to reconnect with their faith, seek forgiveness, and strive for a better version of themselves. In a world where distractions often pull us away from our purpose, these stories serve as a gentle reminder to embrace the essence of Ramadan and make the most of this sacred time.
حب یعنی محبت۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی سے ہو ہی جاتی ہے۔اور دل۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کا ٹوٹ ہی جاتا ہے۔
محبت کا ہونا اور دل کا ٹوٹنا ایسے ہے جیسے زندگی کا ہونا اور پھر موت آجانا،بہار کا ہونا اور پھر خزاں آجانا۔
یہ کہانی کچھ انہیں طرح کے پہلوؤں کے گرد گردش کرتی ہے۔۔۔محبت،نفرت اور انتقام۔۔۔جہاں محبت میں قرب کی طلب ہوتی ہے وہیں نفرت میں انتقام کی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس محبت،نفرت اور انتقام کی جنگ میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے۔
“سرحد پار” ایک دل کو چھو لینے والی پاکستانی-ہندوستانی رومانوی کہانی ہے، جو محبت، قربانی اور جدوجہد کے پیچیدہ اور گہرے جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کہانی ایک کراچی کی صحافی اور دہلی کے ایک سائبر سیکیورٹی ماہر کی ہے، جن کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہے، مگر وہ ثقافتی، مذہبی اور سماجی رکاوٹوں کے بیچ میں اپنی محبت کو تلاش کرتے ہیں۔ دونوں کا رشتہ ایک طویل اور کٹھن سفر پر گامزن ہے، جہاں محبت کے جذبے کے باوجود، دونوں کو اپنی اقدار، خوابوں اور خاندانوں کی توقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی محبت کی راہ میں مشکلات ہیں، مگر یہ انہیں ایک نئی زندگی اور خود شناسی کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ کہانی ہر اُس شخص کی ہے جس نے کبھی دل سے محبت کی، اور پھر ناکامیوں کا سامنا کیا۔ یہ اُن کے لیے ہے جو خود کو کھو کر دوبارہ کھڑا ہونے کی طاقت تلاش کرتے ہیں، اور اُن کے لیے بھی جو اپنی تقدیر کے فیصلوں کا سامنا کرتے ہوئے محبت کی اصل حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ “سرحد پار” ایک سفر ہے جو دلوں کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور زندگی کی پیچیدگیوں میں سے سچی محبت کا راہ تلاش کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے ہم شکل کو دیکھنے والا پہلا انسان مارا جاتا ہے یا اسے ایسی بیماری لگ جاتی ہے جو اسے ختم کر دیتی ہے۔
عملِ زوال۔
اس سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ اس بات سے لاعلم کہ وہ واقعی ایمان جاوید ہے، جیسے سب اسے کہتے ہیں، یا کوئی اور، وہ خود سے نفرت کرنے والوں کی دنیا میں ایک قدم رکھتی ہے۔
امرِ محال۔
وہ ایک بلیک میلر تھی، یا اس سے ایسا بتایا جاتا ہے۔ مغرور، پیسے کی حوس رکھنے والی لڑکی جس کا خاندان اس سے ایک ایک کر کے چھین لیا گیا۔
سیاہ کار۔
مومن ابرار ایک جھوٹا تھا، یا ایمان کو ایسا لگتا تھا۔ اپنی بہن کی موت کی وجہ کھوجتا، اپنی زندگی سے اکتایا ہوا پینٹر اور لائر، مومن اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ نفرت یا محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
قیدِ تحفظ۔
اس سب کے درمیان، ایک تیسرا شخص ہر کڑی کو ملانے اور سب ملی ہوئی کڑیوں کو گھمانے کے لیے ان دونوں کے راستے میں کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات سے لاعلم ہیں، کجا کہ یہ شخص ان کے ساتھ ہے، یا ان کے خلاف۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔
قَلَق ایک سفر ہے ؛ محبت پا لینے سے کھو دینے تک کا سفر۔ اس میں پانچ مرکزی کردار ہیں داؤد محمود ، اُس کا خالہ زاد بھائی ریّان قاسم ، اَمر فاطمہ ، امر کا ساتھی حسن اور ریّان کی منگیتر مناہل مصطفیٰ۔ تمام کزنز ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھلے مِلے ہوتے ہیں۔ اُن میں کسی شے کا پردہ نہیں۔ داؤد امر کو پسند کرتا ہے لیکن اُسے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا اور جب یہ محسوس کرتا ہے کہ امر کے بغیر اُس کا کوئی وجود نہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔خوشیوں سے زندگی گزارتے اِس خاندا میں ایک طوفان سب کو ہِلا کر رکھ دے گا۔
بڑوں کی مرضی سے ریِّان اور مناہل کا رشتہ ہوتا ہے لیکن اُن کے نکاح والے دن امر غائب ہو جاتی ہے جس پر داؤد اُس کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص بے چین و بے سکون ہو گا اور بے سکونی ہی قَلَق ہے۔ کہانی میں ایسا سسپنس اور پیچیدگیاں ہیں کہ اِسی وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر امر اور حسن کی زندگی کے متعلق بہت سے انکشاف ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گُتھی سلجھتی جاۓ گی اور یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔ یہ منزل سب کا انتظار تو ختم کر دے گی لیکن کیا سب کے اندر کا قَلَق ختم کر پاۓ گی؟ قَلَق صرف دو لوگوں کی داستان نہیں بلکہ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبت کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی منزل پا لیتا ہے خواہ پھر وہ شہید ہو یا غازی۔
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کو لگتا ہے محبت اور محبت کی شادی کے بعد زندگی میں کوئی غم نہیں رہتا۔ کم عمر لڑکی اور لڑکے کی دوستی سے محبت اور محبت سے ملن تک کی کہانی جس میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو ماں باپ کی لاپرواہی اور اپنے تکلیف دہ ماضی کے باوجود اپ نے اپ کو کمزور نہی پڑنے دیا کہانی ہے ایک ایسے ایک لڑکے کی جو اپنے ماں باپ کی دردناک موت دیکھنے کے باوجود اپنی بہن کو پالا یہ کہانی ہے دوستی کی بے غرض محبت کی قربانی کی .
یہ کہانی ایک جوان بیوہ ذرجان کی ہے۔ جو اپنی زندگی اپنے بیٹے کی وجہ سے جی رہی تھی۔ اسکی زندگی پر سکون تھی جبتک اُسکا بچپن کا دوست اسکی زندگی میں واپس نہیں لوٹ آتا۔ جو آتے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ اس مرکزی کہانی کے ساتھ اور بھی کہانیاں چلتی ہیں۔
فیری ٹیلز خیالی ہوتی ہیں۔۔جس میں شہزادی اور شہزادہ ایک لمبی مشکلات کی مسافت کے بعد بلآخر ایک ہو جاتے ہیں۔۔اور کہانی ایک حسین مقام پر احتتام پزیر ہو جاتی ہے۔۔
فیری ٹیلز حقیقی بھی ہوتی ہیں۔۔جس کے کردار کسی سلطنت کے شہزادی شہزادہ نہیں ہوتے۔۔بلکہ حقیقی دنیا کے عام کردار ہوتے ہیں۔۔جن کی شروعات تو حسین ہوتی ہے مگر مسافت بدصورت ہوتی ہے اور پھر جانے اس کانٹے دار راستوں سے چھلنی ہونے کے بعد وہ ایک ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔۔
اس فیری ٹیل کے کردار بھی محض عام انسان ہیں۔۔جن کے احتتام کا کسی کو علم نہیں۔۔”
ناول ہمراہی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ حنا معراج اور داور معراج کئی دونوں کزن ہوتے ہیں جبکہ حنا کی فیملی اثرو رسوخ اور مالی حالات میں داور معراج سے کئی زیادہ اونچے مرتبے پر ہوتے ہیں ۔۔
دوسری جانب ماہیرہ ایک عام سے گھر کی خاص خدو خال کی مالک ہوتی ہے جو والدین کی وفات کے بعد پھپھو کے گھر میں رہتی ہے پھپھو ایک ماں بن کر اسے پالتی ہیں اور اپنے بیٹے اصفر سے اس کی منگنی طے کردیتی ہیں، اصفر ایک بےحس اور اور بے روزگار لڑکا ہے جو کہ باہر جانے کے سپنے بنتا ہے اور اپنے بچپن کے دوست داور کے توسط سے لندن چلا جاتا ہے اور جاتے ہوئے مہیرہ سے منگنی توڑ کر جاتا ہے۔۔۔
حنا کے والد زولفقار صاحب حنا کی شادی ایک رئیس زادے خرم قیام ثانی سے کردیتے ہیں،
جو کہ ان کے مرتبے پر میل کھاتے ہیں دولت کے اس فرق نے عمر کے فرق کو یکسر مٹا ڈالا۔۔۔
“کیوں زندگی کبھی غم کے اندھیروں میں گھرِ جاتی ہے اور کبھی روشنیوں سے منور ہو جاتی ہے؟ ‘عریسہ’ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی جذبات، بکھری یادوں، اور بےقرار روحوں کے درمیان گردش کرتی ہے۔ یہ ناول ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی محبت کے بغیر زندگی ممکن ہے؟ یا محبت کا چھن جانا بھی ایک نئی روشنی کا آغاز ہو سکتا ہے؟ یہ کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ زندگی کے پیچیدہ راستوں میں گم ہونا ہی شاید خود کو پانے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔”
کیوں ہر پل، ہر موڑ پر ایسا لگتا ہے کہ کائنات نے ایک نیا سوال اٹھا دیا ہے، اور اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہی زندگی کی سب سے بڑی جنگ بن جاتا ہے۔ کیا تم واقعی وہی ہو جو تمہیں لگتا ہے؟ کیا تمہیں اپنی تقدیر کا علم ہے، یا تم صرف ایک داستان کے کردار ہو؟”