خواب۔۔۔ یہ تتلیوں کی طرع ہوتے ہیں۔۔۔۔ بے اختیار اپنے پیچھے بھاگنے پہ مجبور کردیتے ہیں۔۔۔۔انسان گرتا ہے اس راستے کی مشقتوں کو سہتے ہوئے بہت سی آزمائشوں سے گزرتا ہے مگر اپنا سفر نہیں روکتا اور آخرکار ایک دن وہ اس راستے پہ چلتے چلتے دوڑنا اور دوڑ کر منزل کو پالینا سیکھ جاتا ہے۔۔۔۔اس کہانی میں بہت سے کردار ہیں مرکزی بھی اور ثانوی بھی مگر اس کہانی کا ایک کردار اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے آزمائشوں سے بھرے سفر پہ نکلنے والا وہ شخص ہے جو اس کہانی کو ایک ہی نام دیتا ہے۔۔۔۔
گمراہی سے ہدایت تک کا سفر ایک الگ ہی کہانی میں جہاں پر پچپن کی پابندیوں کی وجہ سے گمراہی کا سفر شروع ہوتا ہے جو پھر ایک ایسے کردار میں ڈھل جاتا ہے کہ صحیح اور حق کی پہچان بھول جاتا ہے یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے اس کے کردار تو فرضی ہیں لیکن کہانی سچی۔۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے ہم شکل کو دیکھنے والا پہلا انسان مارا جاتا ہے یا اسے ایسی بیماری لگ جاتی ہے جو اسے ختم کر دیتی ہے۔
عملِ زوال۔
اس سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ اس بات سے لاعلم کہ وہ واقعی ایمان جاوید ہے، جیسے سب اسے کہتے ہیں، یا کوئی اور، وہ خود سے نفرت کرنے والوں کی دنیا میں ایک قدم رکھتی ہے۔
امرِ محال۔
وہ ایک بلیک میلر تھی، یا اس سے ایسا بتایا جاتا ہے۔ مغرور، پیسے کی حوس رکھنے والی لڑکی جس کا خاندان اس سے ایک ایک کر کے چھین لیا گیا۔
سیاہ کار۔
مومن ابرار ایک جھوٹا تھا، یا ایمان کو ایسا لگتا تھا۔ اپنی بہن کی موت کی وجہ کھوجتا، اپنی زندگی سے اکتایا ہوا پینٹر اور لائر، مومن اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ نفرت یا محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
قیدِ تحفظ۔
اس سب کے درمیان، ایک تیسرا شخص ہر کڑی کو ملانے اور سب ملی ہوئی کڑیوں کو گھمانے کے لیے ان دونوں کے راستے میں کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات سے لاعلم ہیں، کجا کہ یہ شخص ان کے ساتھ ہے، یا ان کے خلاف۔
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔
ایسی محبت جس میں حسب نسل دنیا معنی نہیں رکھتی۔ روح کی محبت جس میں خود کوہی سلگا دیا۔
کہانی ہے پری وش کی جس کی زندگی کو ایک واقع نے الجھا کے رکھ دیا سوالیہ نشان بنا دیا۔ کہانی ہے زوبی کی جو اپنے من پسند شخص کو دوستی کی خاطر چھوڑ رہی ہے۔ کہانی ہے ازلان کی جو اپنی محبت کو پانے کے لیے خود کو بھول کے آخری حد بھی پار کرنے کو تیار ہے۔ کہانی ہے عمر کی جو اپنے مفاد کے لیے ہر ایک کی زندگی داؤ پہ لگانے کو تیار ہے۔ اس کہانی میں ہر کردار خود کی زندگی کو سلجھانے میں لگا ہے۔ ہر کردار اپنی ایک منفرد خاصیت رکھتا ہے۔ اور یہ کہانی ایک ایسے انسان کی بھی ہے جو نیگیٹو سے پوزیٹو کی طرف آتا ہے۔
اس کہانی میں آپ کو غصہ، اداسی ، بے بسی، مفادپرستی، غم اور ان سب کے اوپر حاوی ہوتے محبت کے سچے جذبات پڑھنے کو ملیں گے۔
یہ داستانِ عشق ہے ۔ وہ عشق جس کی تاثر منکرین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اور پھر ان کے پاس اسی عشق کو اوڑھ لینے کے سواء کوٸ چارہ نہیں ہوتا۔ اس کہانی کے کردار آپ کو یہی عشق اوڑھتے نظر آٸیں گے۔ کچھ خاموش محبتیں جن کی خاموشی فضا میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لیکن انسان ٹھہرا صدا کا نافہم جو اس خاموشی کو محسوس کرنے میں صدیاں لگا دیتا ہے۔ ماضی کے کچھ ایسے ناسور جو وبال جان بن جاتے ہیں۔ اور پھر صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔
اسیری لغت کے حساب سے انسانی حرکت کا عمل ہے مگر میں اسے نفسیات سے جوڑ کر ایک خودکار عمل مانتی ہوں۔ اسیری ایک ایسا عمل ہے جس میں محدود کردیا جاتا ہے یا محدود ہوجاتے ہیں۔ اور محدود انسان، سوچ، فکر ناکامی یا تباہی کہ سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اسیری کا شکار ہیں۔ اور اسیری سے آزادی آسان نہیں۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب ہم خود یہ چاہیں۔ اسیران شبانگاہ ایسے ہی باغیوں کی روداد ہے جو اسیری سے آزادی تک کا سفر طے کرینگے۔ یہ کہانی سیکھنے اور جاننے والوں کے لیے ہے۔ مجھے امید ہے دنیا بہترین سیکھنے والوں اور جاننے والوں سے بھری ہے۔
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔