صرف ایک ناول نہیں، بلکہ ایک خاموش چیخ ہے — ان لفظوں کے خلاف جو ادب کے پردے میں بےحسی اور بےحیائی کو خوبصورتی کی صورت میں پھیلا رہے ہیں۔ یہ کہانی اُن قلموں کی حقیقت بھی ہے جو سوچے سمجھے بغیر صرف شہرت کے لیے لکھ رہے ہیں، اور ان آنکھوں کی آئینہ دار بھی، جو پڑھتے پڑھتے اپنا شعور کھو بیٹھتی ہیں۔
یہ داستان ہے آبرو نامی ایک نوجوان قاری کی، جس کے دل میں ادب کے لیے عشق تو ہے، مگر سچائی کی تلاش ابھی باقی ہے۔ اور ایک مشہور فحش لکھاری کی، جو لفظوں سے تو ہزاروں دل جیت رہی ہے، مگر اپنا ہی دل ہار چکی ہے — کسی انجانے خلا میں۔
جب ابصار جیسے ایک باشعور استاد کی زبان سے سچائی نکلتی ہے،
تو وہ صرف شعور کو نہیں جگاتی،
بلکہ دلوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ دیتی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں لفظ زخم بننا چھوڑ دیتے ہیں —
اور شاید مرہم بننے کا آغاز کرتے ہیں۔
“کاغذ کے زخم” آج کے نوجوان قلمکاروں اور قارئین کے لیے ایک آئینہ ہے،
جو ادب کی اصل روح کو،
پاکیزگی، سچائی اور ذمہ داری کے دائرے میں واپس لانے کی کوشش کرتا ہے۔
کہانی ملک کے رکھوالعوں کے گرد گھومتی ہے کہانی کسی ایک شخصیت کا تعاقب نہیں کرتی بلکہ یہ مختلف کرداروں کا مجموعہ ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے۔ کہانی ہے کرنل جبرئیل کی سربراہی کی زارا جبرئیل کے ساتھ کی میرال خان کی شخصیت کے بھول بھلیوں کی عنصب جہانگیر کی بہادری کی شامیراسامہ کی محبت کی اروا شمس کی پاکیزگی کی ایس کے کی قید کی روپا دیوی کے عشق کی اور صدام حیدر کے انتقام کی ماضی کے دریچوں میں دوبے ان رازوں کی جو کھل کر بہت سی حقیقتیں نگل لیتے ہیں۔ دہلیز کے پار وہ کہانی ہے انصاف کی ملک کی خاطرجان دینے کی اور لڑ کر فتح یاب ہونے کی۔۔۔