شاذان حیات علی کھلی فضاؤں کا باسی تھا اسے باندھ کر رکھنا ساحلوں کی پروردہ ایما کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا تھا
مگر وقت کی ایک اکائی اس جیسے صیاد کو اسیر بنا گئی
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ یوں ہار جائے گا کہ پھر جیتنے کی کوئی خواہش ہی نہ رہے گی
جس ہستی کی وجہ سے وہ دور بھاگتا رہاتھا وہی اسے واپسی کا اذن دے رہی تھی ۔۔
یہ کہانی ہے دو محبت کرنے والوں کی جنکی الفت کسی اور کے فریب کی بھیڈ چڑھ گئی،یہ کہانی ہے اپنے آپ سے جڑے رشتوں کو کھودینے کے درد کی،یہ قصہ ہے فریحہ خان کی بے لوث وفا کا اور حریم خان کے عظم کا ۔یہ کہانی ہے ماہین درانی کے صبر کی اور عماد خان کے ظرف کی۔۔
انشراح اور میثم سلیمان کی کہانی
زندگی کی راہ کے دو ایسے مسافروں کی کہانی جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہیں ایک دوسرے کی تلاش میں منزل کی طرف رواں تھے
اس ناول کا بنیادی موضوع انسانی رویوں میں پائی جانے والی شدت ہے ۔ ہمارا وطیرہ ہے کہ ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے اور اپنی نفرت کوصحیح ثابت کرنے کے لئےمفروضے تلاش کرتے ہیں اور جواز گھڑتے رہتے ہیں اور اکژ زندگی کے حسین دن انہی نادانی کی نزر ہو جاتے ہیں۔
زندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کو جی بھر کے خوار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ہے محبت۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، کبھی آپ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہے کہ انسان کو لگتا ہے وہ اپنی مُٹھی میں سمندر قید کر سکتا ہے، اور کبھی آپ کو یقین کی سب سے اونچی سیڑھی سے اتنے زور سے دھکا دیتی ہے کہ انسان ساری زندگی سر اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔۔۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی کرداروں کی ہے۔۔۔ کسی کے محبت کو پا لینے کی تو کسی کے محبت میں قربان ہو جانے کی۔۔۔ انتقام سے راہِ عشق کے سفر کی کہانی۔۔۔۔ محبت سے عشق کی کہانی۔۔۔۔۔۔
جُرم بڑا ہو یا چھوٹا جُرم ہی کہلاتا ہے۔یہ کہانی ہے جُرم سزائے عشق کی۔جس میں جُرم کی سزا ملے گی عشق کی صورت میں۔یا پھر اِن سب کو اپنے ہاتھوں اپنے جُرم کے باعث اپنا عشق گوانا پڑے گا۔
“بعض اوقات ایک مذاق ہماری زندگی کو کیسے بدل دیتا ہے ؟ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی یہی مذاق تلخ ثابت ہوتے ہوئے بھی ہماری زندگی کو خوبصورت معنی دے دیتے ہیں۔ دیر سے صحیح لیکن بہترین وقت پہ ہمیں اللہ تعالَی ہمارے صبر کے صلے میں اس سب سے نواز دیتا ہے جس کی طلب کبھی ہمارے دل میں چھپی ہوتی ہے۔”
کہانی ہے جھوٹ سے حقیقت تک کے سفر کی نفرت کو محبت میں بدلتے کرداروں کی، بدلے کی آگ کی ،آزمائشوں میں بدلتی زندگانی کی کہانی ہے افیقا ،انیسہ ،رادیہ ،سنایا، رائمہ ،زائل ،عاہن ،روہام ،ابتسام کی۔
زندگی میں کچھ چیزیں جن پہ ہم بھروسہ تو کر لیتے ہیں محض انکو اوپر سے ہی جانچ کر جیسے شہد کو دیکھ کر جس کو ہمیں دیکھ کر یہ تو پتا نہیں چلتا یہ اصلی یا خالص ہے بھی کے نہیں بس استعمال کے لیے محظ باہر ہی خوبصورتی دیکھ کر اٹریکٹ ہو جاتے ہیں لیکن وہ ہمارے لیے کیسا ہے یہ ہم نہیں جانتے ہوتے زندگی میں کچھ لوگ بھی ایسی مانند ہوتے ہیں جو رنگ رنگت میں شہد لیکن ذائقہ چکھنے پر ہمارے لیے نمک کی مٹھی سے بھی زیادہ کڑوے ثابت ہوتے ہیں جنکی کڑواہٹ زندگی کی دھجیا اڑا دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ہاتھ سے ریت کی مانند نکل جاتا ہے۔۔
یہ کہانی بیک وقت ماضی اور حال کو بیان کر رہی ہے ماضی کے کچھ ایسے واقعات جو اتنے تلخ ہیں کے حال میں بھی کچھ دلوں پے اپنی چھاپ چھوڑے ہیں عشق میں من کا رقصم ہونا کے کسی کو دیکھتے ہی دل جھوم اٹھے اور عشق مجازی سے حقیقی کا سفر بھی موضوع گفتگو ہے کہانی کے مین کردار فلک شمسی اور سید عون علی شاہ ہیں دونوں کے درمیان ایک ایسا مظبوط اور خوبصورت رشتہ ہے کے جسکا حسن ہر ماضی کے بدصورت دھبوں پر غالب آ جائے گا
This novel is a captain’s narrative. The captain works in Pakistan Armed Force. He is the hero of the story and confronts a ghost. The ghost is a Psychopath. The captain saved his beloved wife from the ghost.
How the hero saved his love from the ghost?
What ghost wants from the hero??
How he met his love and got married??
How do the ghost teased and tortured him and his wife?
To get the answer of these questions,
Read the novel.
The novel highlighted some bitter realities of our society. It contains some significant messages for the readers. It also has the element of entertainment for the reader.