دو لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا راز…کیا کردے گا ان کو جدا…یا لے آئے گا اور بھی قریب‘ عشق کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی آہلہ اور غلط فہمی میں جکڑے عائث کی کہانی
جو تقدر میں لکھا ہو اسے ہم نہیں بدل سکتے۔چاہے ہمارے آنسوؤں میں تاثیر ہو یا خلوص میں۔۔سیاہ کاریوں کی بھیڑ میں لاپتا اس انسان کی داستان جسے اندھیروں نے پہلے ہی چن لیا تھا۔
جہانداد خان اور اُدٸیانا کی بے مثال دوستی ، عریز علوی کی احترام بھری محبت کی داستان اور کچھ زندگی کےمزاحیہ رنگ کہ زندگی کے زندہ ہونے کا گمان ہو۔کسی بکھرے وجود کی کرچیاں سمیٹنے والے مہربان کی کہانی۔
ایسے دو پیار کرنے والوں کی کہانی جس کے درمیان چھوٹی سی غلطفہمی کی وجہ سے دوری آجاتی ہے پر پیار کم نہیں ہوتا دل کے کسی کونے میں محبت کا پودا کِھلا ہوا ہوتا ہے۔
Mera Hasil Thehra!
Ye kahani hai Umaim ki jis ka baap or bhai uski hifazat k liye apni zindagi haar gaye. Us ki hifazat kisi or k zime laga kr, jahan usy bhtt muhabatein milein mgr wo benaam thi. Kiya us muhabbko naam mily ga? Apny baap or bhai k tahafuz me bethi umaim kiya khud se khari ho pay gi?
Mera Hasil Thehra is a After Marriage Based Romantic Comedy Based Novel by Ayesha Noor Muhammad.
پریشے کی کہانی جس نے ماں باپ کی خوشی کیلئے ارسل سے شادی کر لی مگر دونوں میاں بیوی کے درمیان محبت ہونے کے باوجود کوئی اپنا پن نہیں ہے اور دونوں ایک دوسرے سے دور ہیں اور شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی بہت مختلف ہے اب دونوں کو فیصلہ کرنا ہے
دل ایساکےسیدھےبھی کئےجوتےبڑوں کےضدایسی کی خودتاج بھی اٹھاکرنہیں پہنا
“اس شوپنیگ بیگ میں تمہارے کپڑے ہیں۔توپھریہ میرے روم میں کیا کر رہا ہے۔اس بات کا جواب تو تم دے ہی سکتی ہو”۔عاقب اس کی بےنیازی پر اپنے اندر امڈ رہے غصے کے ابال کو کم کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
“جی! اس میں موجود کپڑے ضرور میرے لیۓخریدے گئے ہیں لیکن ہیں نہیں۔”شفق آرام سے سینے ہاتھ باندھ کر بولی۔
اب اس بات مطلب؟عاقب کو اسکی بات پر تپ چڑھی۔
“یہ کپڑے آپ کے پیئسوں سے خریدی گئےتھےجو مجھے نہیں چاہئے۔سیمپل۔”شفق نےکاندھےچڑھاکےلاپرواہی سے جواب دیا۔
“کیوں میں حرام کا کماتاہوں۔”عاقب کوتو آگ ہی لگ گئی۔جبکہ شفق کااطمینان قابل دیدتھا۔
“جی ماشاءالله سےآپ محنت سے حلال ہی کماتے ہیں۔لیکن آپ کی اس حلال کمائی کومیں اپنی ذات پرخرچ کرنا حرام سمجھتی بات اصل یہ ہے۔”شفق کااطمینان اب بھی برقرارتھا۔جبکہ عاقب سرتا پاسلگ چکاتھا۔
“دادو نے مجھے تمہیں شوپنگ کرانے کےلئے کہا تھا سو میں نے کرائی تو میں تمہاری اس بکواس کا کیا مطلب نکالوں؟۔”عاقب مٹھیاں بھینچتےہوئےدانت پیس کر بولا۔ورنہ شفق نےاسکابی پی ہائی کرنےمیں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔
“دادو نے نکاح کے لۓ کہا کرلی۔دادو نے اس فنکشن میں میرے ساتھ بیٹھنے کے لۓ کہا بیٹھ گئے۔دادو نے یہ شوپینگ کرانے کو کہا کرادی۔اتنے ہی سیدھے ہیں نا آپ؟ شفق نے استہفامیہ اندازمیں جلانےوالی مسکراہٹ کے ساتھ عاقب کاطنزیہ نظروں سےجائزہ لیا۔
“خیر دادو اور اس گھر کے باقی مکینوں کے خلوص اور محبت پر مجھے کوئی شک نہیں ہے یہ تو ان سب کی عنایت ہے مجھ پر لیکن ان کی محبتوں کو میں اپنی خودداری پر فوقیت دوں یہ شفق ابراز کی اناکوگوارانہیں۔نو نیور محبت اپنی جگہ عزتِ نفس اپنی جگہ۔”شفق نفی میں سر ہلاتی قتعت بھرے انداز میں دو ٹوک بولی۔جس پر عاقب کی بھنویں تنی تھی۔
“جب اتنی ہی خوددارہو تو سب کہ منہ پر لینے سے منع کردیتی کمرے میں چپکے سے بیگ رکھ کر لوگوں کے منہ پر منگھڑت جھوٹ بونے کا مقصد؟۔”شفق جو پلٹ رہی تھی عاقب نے پیچھے سے اسکی نازک کلائی کو اپنے مضبوط آہنی ہاتھوں میں سختی سے قید کیا۔
“ان مخلص لوگوں کی محبت کا پاس،اور اس نام نہاد رشتے کا بھرم رکھناسمجھ لیں۔جو رشتہ ہم دونو کے لئے کاغذ جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا۔”شفق نے اپنی کلائی آزاد کی۔
Ohh! now i undrstand
“ہاہاہا ہاہا۔۔مطلب یہ سارا ڈرامہ اس سلسلے میں تھا۔ اس لئے تم سیم ڈریس بس کلر کے فرق سے پہن کرآئی ہوکی مجھے اس سو کالڈ رشتہ سوری پیپر کا یاد دلا سکو۔؟ویسے یار میں تو تمہیں ایک لااوبالی سی بچی سمجھتا تھا لیکن تم تو ٹیپیکل مڈل کلاس لڑکی نکلی کتنا دماغ لگایا ہے۔آئ مسٹ اپریشیٹ ریئلی فئب یار”۔عاقب قہقہ لگا کر دونو ہاتھوں اپر اٹھا کر تالی مارتےہوئے بولا۔
جسٹ شٹ اپ!مسٹرعاقب حیدراگر مجھے بابا اور بھیا کے زبان کا پاس نا ہوتا تومر کر بھی ان پیپرس پرسائین نا کرتی۔اور رہی بات اس تیس ہزار کے معمولی سے ڈریس کی تو یہ کیا اگر میں اپنے باپ بھائیوں سے چاند بھی مانگوں نا تو وہ مجھے وہ بھی لاکر دینے کی آخری کوشش کرینگے۔وہ اسے ساکت چھوڑ کر دور ہوئی پھر پلٹ کر اسے دیکھا۔
اینڈ موسٹ امپورٹنٹ۔میرا کوئی آئیڈیل نہیں ہے اگر ہوتا بھی تواس میں آپ جیسا کوئی گن نا ہوتا۔یہ میرا یقین ہے کیوں کے جنہیں میں پسند کرتی ہوں انکی سوچ اتنی چھوٹی اور گری ہوئی بالکل نہیں ہو سکتی۔وہ نفرت سے پلٹ کر دھرام کی آواز سے دروازہ بند کرتی چلی گئی۔