یمان کا سفر” نوع: اسلامی روحانی افسانہ خلاصہ: ایک ایسی دنیا میں جہاں زندگی کی آسائشوں کے سامنے ایمان اکثر ختم ہو جاتا ہے، “” ایمان نامی ایک نوجوان لڑکی کی ایک زبردست کہانی بیان کرتا ہے۔ استحقاق میں پیدا ہوئی اور اپنی اسلامی جڑوں سے دور، وہ مذہبی تعلق سے عاری زندگی گزارتی ہے۔ تاہم، تقدیر کے دوسرے منصوبے ہیں۔ ایمان کی زندگی ایک غیر متوقع موڑ لیتی ہے جب اس کا سامنا ایک پراسرار شخصیت سے ہوتا ہے جو ایک محافظ فرشتہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور اسے اسلام کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ آسمانی ہستی، خود اسلام کا روپ دھار کر، ایمان کے ایمان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے سفر پر نکلتی ہے۔ ذاتی جدوجہد اور خود کی دریافت کے پس منظر میں، “ایمان کے دل کی گہرائیوں میں اترتی ہے جب وہ روحانی اور عملی دونوں طرح سے اسلام کی تعلیمات کو۔ سیکھتی ہے۔ راستے میں، اسے مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کے نئے پائے جانے والے عقیدے کو چیلنج کرتے ہیں اور اسے ایک مسلمان کے طور پر زندگی کی پیچیدگیوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں
اور دوسری طرف ایک لڑکا گونار سازش اور پوشیدہ معاشروں کے سایہ دار
ایک کردار فری میسنز اور ایلومیناتی کے ایک رکن کے طور پر ایک پراسرار دنیا کی تلاش کرتا ہے۔ تاہم، یہ وابستگی ایک قیمت پر آتی ہے،جو اسے غلط کاموں کے تاریک راستے پر لے جاتی ہے، جس پر تشدد اور رسمی قربانیوں کا نشان ہے ۔ ۔تقدیر کے ایک غیر متوقع موڑ میں، کسی خاص کے ساتھ ایک موقع کا سامنا اس کی دریافت اور تبدیلی کے ایک گہرے سفر کا باعث بنا۔
وہ فرد، جو تبدیلی کا محرک بن گیا، اس نے اسے اسلام کی تعلیمات سے متعارف کرایا۔
اس نئے علم نے ایک مینار کا کام کیا، ایمان کی راہ کو روشن کیا اور اس کے دل میں روشنی ڈالی۔ پچھتاوے کی گہرائیوں میں، اس نے اللہ کے سامنے آنسو بہاتے ہوئے، معافی کی التجا میں سکون پایا۔
اپنے اعمال کے وزن سے بھاری دل کے ساتھ ، اس نے اپنے گناہوں کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے، الہی رحم کی درخواست کی ۔ ہر آنسو ایک دلی التجا تھا، جو کی گئی غلطیوں کا ازالہ کرنا تھا۔
توبہ کے مقدس لمحات میں، اس نے اللہ سے معافی کی التجا کی، روح کے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے الہی رحمت کے صاف کرنے والے بام کی تڑپ کی۔
معاشرے کی تلخ حقیقت کے گرد گھومتی بنت حوا کی کہانی ۔مردوں کے معاشرے میں جہاں مرد محافظ سے زیادہ لٹیرا بن کر عزتوں کی ردا تار تار کرتا پھر رہا ہے ۔وہاں ایک ایسے مرد مجاھد کی کہانی جسے عزت کی پاسبانی کرنے کا ہنر آتا ہے ۔
ہمسفر جب ایسا ہو تو مشکلات کا پہاڑ بھی روئی کا گالا ثابت ہوتا ہے ۔تکلیفوں سے راحتوں تک کا سفر
یہ کہانی گھومتی ہے کچھ ایسے کرداروں کے گرد جو اپنی چھوٹی سی بنائی محبت و اپنائیت ،امن و سکون کی نگری کے باسی تھے ۔اور پھر “لوگ کیا کہیں گے ” کے ڈر نے انکی زندگیوں کو ایک نئی طرز پر پركها ۔ایک ایسی لڑکی جو خود کو خود غرض اور مطلبی کہلائے جانے کے ڈر سے کسی کی پر خلوص محبت سے دستبردار ہو گئی اور پھر زندگی نے اسے وہ سب دکھایا جو اس نے سوچا تک نہ تھا ،اور ایک شخص جس نے بے لوث محبت کو ٹھکرائے جانے پر اسے اپنے لیے یا خود سے جڑے لوگوں لوگوں کے لیے روگ نہیں بنایا ۔
دو دل جو جڑ کر بچھڑے اور پھر اپنے اپنے حصے کی مسافتیں طے کرتے زندگی کے اک موڑ پر دوبارہ ملے ۔
ناول ابن آدم اور چاہت کہی کرداروں کہ گرد گھومتا ہے کہانی ہے دوستی جنوں محبت کی کہانی ہے ایک انتقام کی کہانی ہے آپ کی اور میری کہانی ہے اللہ اور اس کہ بندے کی چاہت کی …
شہزادی کو بچانے تو ہمیشہ شہزادے آتے ہیں۔ مگر کیا شہزادہے کو بھی کوئی بچاتا ہے۔ کہانی ہے ایک شہزادے کی۔ دنیا کی اس دیوار کے سامنے وہ اپنا کھوکھلا وجود لیے کھڑا دیوار کے خود پر گرنے کا انتظار کرتا ہے۔ اس کے پاس امید کی کوئی کرن بھی باقی نہیں تھی۔ وہ اس دیوار کے نیچے آ کر کچلا جانا چاہتا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا جو وہ اس دیوار سے بچ نکلا تھا۔ اسے تو نہیں بچنا تھا مگر۔۔۔ وہ ایک دیارِ گل جو اس دیوار کے اوپر ابھرا تھا۔
“سنو! مجھے کافی بنا کر دو۔” وہ ریوالونگ چیئر کو گھماتے ہوئے بولا۔
“سوری____آپ نے مجھ سے کہا؟” عنوہ جاتے جاتے پلٹ کر نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
“جی بالکل محترمہ____غالباً آپ کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ہے؟” اس نے شان بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
“میں یہاں کافی بنانے کی جاب نہیں کرتی۔” عنوہ بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے متوازن لہجے میں بولی۔
“بابا کو بھی تو دیتی ہو تو کیا ان کی چاپلوسی کرتی ہو؟” میکائیل نے کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر دونوں ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے استہزائیہ انداز میں کہہ کر اسے زچ کرنا چاہا اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرا تھا۔
“دیکھیں اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔ آپ مجھے مجبور نہ کریں میں سر کو آپ کی شکایت کر دوں گی۔” اس کے وارننگ دیتے لہجے پر میکائیل کاردار کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔
“سیریسلی تمھیں لگتا ہے میں اپنے باپ سے ڈر جاؤں گا، شٹل کاک کہیں کی ہونہہ۔” ہنستے ہنستے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
عنوہ نے لب بھینچے اس کی ہنسی دیکھی جب سے یہ بندہ آفس آنے لگا تھا تب سے اس کا سکون برباد ہو کر رہ گیا تھا جانے کس بات کا بدلہ لے رہا تھا؟
“خوش بخت_____________” اسے دور سے بابا کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی کچھ پل تو اسے سمجھ نہ آیا پھر یک دم اٹھ کر دروازہ کھولا جہاں عالم صاحب دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے اسے طنزیہ نگاہوں سے گھور رہے تھے۔
“اوہ بزرگو! کیوں صبح صبح محلے والوں کے ناک میں دم کر رہے ہیں؟” اس نے جمائیاں لیتے ان سے پوچھا۔
“ملکہ عالیہ! اگر آپ کو یاد ہو تو آج ہم نے مارننگ واک کے لیے جانا ہے میں فجر کی نماز ادا کرنے مسجد جا رہا ہوں آپ بھی جلدی سے وضو کر کے نماز ادا کریں اور میری واپسی پر مجھے گھر کے گیٹ پر ملیں۔” وہ ایک ہی سانس میں بات پوری کرتے وہاں سے نکل گئے۔
“لو جی ملکہ عالیہ مجھے کہہ رہے ہیں اور حکم خود سنا گئے ہیں، واہ جی واہ۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی جلدی سے واش روم میں جا گھسی۔
اس کا دل تو نہیں تھا جانے کا مگر اپنے واحد ووٹ کو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی جو ہر الٹی سیدھی بات میں اس کی ڈھال بن جاتے تھے تبھی وہ جھٹ پٹ سب کام کرتی گیٹ پر آن کھڑی ہوئی رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ گیٹ پر سر رکھے ہوئے ہی اپنی نیند پوری کر رہی تھی جب ٹریک سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان اسے دیکھتے ایک لمحے کو رکا تھا اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی جس کو وہ اگلے ہی پل چھپاتا آگے بڑھ گیا اس نے پہلی بار کسی کو ایسے سوتے دیکھا تھا حیرت بجا تھی۔
“خوش بخت____” عالم صاحب نے اس کے کان کے پاس چہرہ لے جا کر زور سے پکارا جس پر وہ یک دم “چور، چور” چلاتی ان سے لپٹ گئی۔
“ملکہ عالیہ اب آپ حد سے بڑھ رہی ہیں پہلے بزرگو اور اب چور بنا ڈالا، توبہ توبہ گندی اولاد نہ مزا نہ سواد۔” انھوں نے اسے بری طرح گھورا۔
“واہ بھئی واہ! الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ یہ کیا تھا پھر____؟ ابھی میرا ہارٹ فیل ہو جانا تھا۔”
اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ان کی حرکت کی طرف توجہ دلائی تو وہ شان بے نیازی سے کندھے اچکاتے آگے بڑھ گئے۔
“آپ____اور اتنے کمزور دل کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ آپ تو وہ ہیں جو دوسروں کے چھکے چھڑا دیں ملکہ عالیہ۔”
وہ اس پر طنز کرنا نہ بھولے۔
“ہاں جی___میں تو بہت بڑے دل کی ہوں جو اپنے ماں باپ کو پال رہی ہوں حالانکہ انھیں مجھے پالنا چاہیے۔
ہائے او ربا میری نکیاں نکیاں چاواں___”
وہ دکھی محبوبہ کی طرح سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
“اگر آپ کو کسی فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لیا جائے تو وہ بری طرح فلاپ ہو۔” انھوں نے اس کی اوور ایکٹنگ پر چوٹ کرتے ہوئے اپنا بدلہ اتارا۔
“چلیں مجھے ہیروئن کا کردار تو ملتا مگر آپ کو گریٹ گریٹ گریٹ____گرینڈ فادر کا رول ملتا۔”
اس کی بات پر وہ جلتے کڑھتے گلشن اقبال پارک میں داخل ہو گئے۔
یہ داستان ہے چار دوستوں کی۔اور ایک لازوال محبت کی اور ایک دلکش رشتے کی۔دوستی ایسا رشتہ ہے کہ جس کو زوال نہیں چاہے وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں مگر ان کی روحیں ہمیشہ یکجا رہیں گی۔
دیارِ قید کی یہ کہانی میرے اور آپ کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے قلم بند کی گئی ہے ۔ یہ کہانی بظاہر تو لمحوں میں لکھی گئی ہے مگر پڑھنے والوں کو صدیوں پیچھے لے جائے گی۔ یہ ہمیں بتائے گی کہ کوئی ہے جو ہمارا منتظر ہے،
جس کا دیار ہم نے اجاڑ دیا،
جس کا چراغ ہم نے بجھا دیا،
جس کی امیدیں ہم نے توڑ دیں،
جس کی سلاخیں ہم نے جوڑ دیں،
مگر وہ آج بھی ہماری راہ تکتے ہیں۔۔۔
ایک آس سے کہ ایک دن ہم آئیں گے۔۔۔۔
اور ان کے دیار کو ظالموں کی قید سے رہا کروائیں گے۔ یہ کہانی ہے ان مظلوموں کی جو ہمیں پکار رہے ہیں۔
یہ کہانی ہے ٹوٹے رشتوں کی ۔۔۔۔اک انجان خوف کی ۔۔۔۔ادھوری محبت کی۔۔۔۔۔ سب سے بڑھ کر اللہ ہر توکل کی اس کہانی میں اک ہی دشمن ہے جو کہ ہم سب کا واحد دشمن ہے ۔۔۔
یہ کہانی ہے اک ایسی لڑکی کی جو گناہوں کے دلدل سے نکل کر ہدایت کی جانب آئ یہ کہانی ہے اک لڑکے کی جو اپنے ماضی میں الجھا ہوا تھا یہ کہانی ہے اک ایسے سنگ دل انسان کی جسے بس طاقت چاہیۓ تھی اک لڑکی کی حوس کی ۔۔۔۔یہ کہانی ہے اللہ سے امید کی اس کی جانب بڑھنے کی اس پر توکل کرنے کی ۔۔۔۔
یہ کہانی ہے یزدان عریبی کے عشق کی اسکے جنون کی کامران عریبی کی اپنی بیٹی ہیر کی محبت کی مشعل ہمدانی کی اپنی بہن سے نفرت کی اور یزدان اور ہیر کی محبت کو دنیا کی نظر لگ جانے کی