کہانی ہے یہ چند کرداروں کی جن کو قسمت ایک راستے پر ساتھ لا کھڑا کرتی ہے اور پھر وہ ایک نئ منزل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں ۔ کہانی ہے خودشناسی کی ، خود کو پہچاننے کی ، خود کو قبول کرنے کی ۔
یہ کہانی ہے میں پر ہم کو ترجیح دینے والوں کی۔ ایسے لوگ عظیم ہوتے ہیں اور عظمت ہر کسی کی میراث نہیں ہے۔
وہ جو صابر رہتے ہیں ہر حال میں
وہ جو سچے ہوتے ہیں اپنے سفر آغاز میں۔
یہ وہ داستان ہے جو اداس روح کو تھوڑی خوشی دے اور روتے ہوئے کو ہنسا دے۔
شادان، ابراھیم، داریا مہوا، زنجبیل ، عالیار ، حکمت علی،سونا ،انصر یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بہت کچھ کھویا ہے لیکن پھر بھی مروارید بننے کا سفر نہیں چھوڑا۔
پتھروں سے بھری اس دنیا میں نایاب بننے والوں کی کہانی۔
یہ کہانی نفرت اور محبت کے درمیان چھڑی جنگ کی ہے، یہ کہانی زرار شاہ کی ہے جس نے اپنی آخری سانس تک اپنی ماں کی موت کا انتقام لینے کا عہد کیا تھا، لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکا؟ یہ کہانی میرال سعید کی ہے جس نے سکھایا کہ ایک لڑکی کو کیسا ہونا چاہیے، یہ کہانی آپ کو انتقام کا اصل مطلب سمجھائے گی اور اس کی آگ میں جلنے کے نتیجے سے آگاہ کرے گی۔
ہم سب مسلم خاندان میں پیدا تو ہوئے ہیں مگر کیا ہم سب مسلمان ہیں؟
کیا ہم نے آج تک کبھی بھی کچھ ایسا کیا ہے جو ایک مسلمان پر فرض ہے ۔ہم دنیا کی آسائشوں میں اتنا آگے تک جاتے ہیں کے خدا کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن خدا ہمیں کبھی بھی نہ چھوڑتا ہے نہ گمراہی کے راستے پر زیادہ عرصہ چلنے دیتا ہے وہ اپنے بندے کو رہنمائی کا راستہ دکھاتا ہے اور ہمیں ہماری آخرت سنوارنے کا موقع دیتا ہے یہ کہانی بھی آپ اور مجھ جیسی ایک لڑکی کی ہے جس نے خد سے خدا تک کا سفر طے کیا ہے
یہ ناول ہے 1980 کے ان دو کرداروں کو جن کو ایک ہی شہر سے محبت ہے۔اس شہر میں ہر ایک پرانے طرظ کا ہیریٹیج ان کے لیے قیمتی ہے۔یہ کہانی ہے ہے شہرِ لاہور سے محبت کرنے والوں کی۔جن کو 1947سے پہلے اور بعد کے قدیم ورثے سے الگ الفت ہے۔
پیار اور انتقام کی داستان، داستان بچپن کی محبت کی، یہ کہانی اْن دونوں کی ہے جس سے زندگی نے سب کچھ چھین لیا۔ اِس کہانی کو جاننے کے لیے اِن کِرداروں کی دنیا میں جانا بہت ضروری ہے، تو کیا آپ سب اِس کہانی کا حصّہ بَننا چاہیں گے؟
کوالالمپور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا ٹرمینل ون اس وقت مسافروں کے ہجوم میں ڈوب رہا تھا۔۔۔
وقت کا پردہ قائم تھا اور گھڑی کی سوئی اپنے مقررہ دائرے میں سستی کے ساتھ چکر کاٹ رہی تھی۔ وہاں موجود لوگ بے خبر تھے، وقت اور جائے کے قفس میں قید۔
آج تین جانوں کو بدلنا تھا، دو سو انتالیس جانوں کو لٹنا تھا، ہزاروں جانوں کو سوگ منانا تھا اور لاکھوں جانوں کو عبرت حاصل کرنی تھی۔ آج وہ ہونے والا تھا جو انہونی تھا، جس کے گواہ بے زبان تھے اور ثبوت مجوف۔
کیا ہوا تھا اس طیارے کی دیواروں کے پار، جب وہ زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر آویز تھا؟ کن خیالات نے ان ۲۳۹ جانوں کو گھیرا تھا؟ کون تھے وہ لوگ؟ کون تھا MH370 کا قاتل؟ کون تھا فریب کار اور کون تھے بیکس تماشائی؟
دو سو انتالیس نام، اور جواب۔۔۔ فقط خاموشی۔
اس ناول کی جھلکیاں ہمیں ایک ایسے معاشرے کی سیر کراتی ہیں جہاں تعلیم کو ہر فرد کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ یہ داستان چار بہنوں کی ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ جنس کی بنیاد پر کسی کو کمزور یا بوجھ سمجھنا نہ صرف غلط ہے بلکہ ناانصافی بھی ہے۔ لڑکیاں رحمت ہیں، اور انہیں وہ ماحول فراہم کرنا چاہیے جہاں وہ اپنی اندرونی مضبوطی کو پہچان سکیں اور اسے بروئے کار لا سکیں۔ اس ناول میں آپ کو زندگی کے کئی اہم سبق ملیں گے جو آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیں گے
یہ کہانی ہے رب پر یقین رکھنے کی صبر کی رب سے مدد کی۔۔۔ایک دوسرے سے محبت و ہمدردی کی۔۔ملک کے لیے اپنی جان داؤ پر لگانے کی ۔۔۔مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے کی۔۔ہسبینڈ وائف کے ایک دوسرے سے بے لوس محبت کی
یہ کہانی بچپن کے دو دوستوں کی ہے۔جن کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی۔قسمت نے ایسا کھیل کھیلا دونوں کو الگ ہونا پڑا۔12 سال بعد قسمت نے دونوں کا سامنا دوبارہ کروایا۔مگر وقت بدل چکا تھا۔قسمت بدل چکی تھی۔زوہان مصطفی کی محبت نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔اور نایاب فہیم عباسی زوہان مصطفی کی محبت کا سامنا کرتے کرتے اپنے اخری حد تک پہنچ گئی تھی۔قسمت نے اگے کیا کیا وہ تو کہانی میں پتہ چلے گا۔مگر وقت مرہم بھی ہوتا ہے اور زخم بھی دیتا ہے
جو تم ساتھ ہو ” خوبصورت رشتوں سے گندھی ایک ایسی کہانی جو بیک وقت مختلف کرداروں کے احساسات ، جزبات اور آپسی تعلقات کی ترجمانی کرتی ہے ۔ایک ایسی کہانی جو پیغام دیتی نظر آتی ہے کہ آپکو آپکی پسند نا پسند کے پیمانے پر ساتھی چننے کا پورا حق ہے، اور ہر انسان کی اپنی زندگی کو لے کر کچھ ترجیحات ہیں جن سے ضروری نہیں ہر ایک متفق ہو ۔جو سکھاتی ہے کہ کیسے اپنوں کی خاطر کبھی کبھار اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا آپکو بہت سی خوشیاں دے سکتا ہے ، جو بتاتی ہے کہ قدرت کی طرف سے ملنے والی ہر نعمت کو ، اپنی ضد اور ترجیحات کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف کر کے ،کھلے دل سے قبول کرنے والے کبھی خالی دامن نہیں رہتے . یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس نے ایک ٹاکسک رشتے کو مزید گهسیٹنے کے بجائے خود کے لیے اسٹینڈ لیا۔ جو خود ترسی کا شکار نہیں ہوئی اور خودمختاری کی راہ چنی اسکے صبر کا حاصل ایک ایسے شخص کی صورت اسے ملا جو تپتی دھوپ میں گھنی چھاؤں کی مانند ثابت ہوا.ملیے کچھ ایسے کرداروں سے جو اپنے آپ میں بہت سی کمیوں کے باوجود ایک خوب صورت زندگی گزارنے کے کچھ ڈھنگ سیکھ ہی لیتے ہیں ۔کیوں کہ زندگی کبھی بھی مکمل نہیں ہوتی کچھ خانے وقت کے ساتھ بھرتے ہیں اور آپ نے اپنے صحیح وقت کا انتظار کرنا ہوتا ہے