یہ کہانی ہے ٹوٹے ہوۓ رشتوں کی, چند یونیورسٹی فیلوز کی اور ایک ان چاہے رشتے کی. یہ کہانی ہے بہادر نقابی لڑکی کی کیونکہ بہادر وہ نہیں ہوتے جو ڈرتے ہی نہیں ہیں بلکے وہ ہوتے ہیں جو ڈر کے باوجود سر نہیں جھکاتے. ایک بزدل لڑکے کی کیونکہ با ادب لڑکے اس دنیا میں بزدل ہی کہلاتے ہیں.
تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔
محبت کی انوکھی داستانوں کو بیان کرتے اس ناول کے لیے ہم نے اس لفظ کا انتخاب کیا کیونکہ اس کا معنی ایسا ہے جو ہر جذبے کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ “عاشقتم” ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے
“مجھے تم سے محبت ہے”
“I am in love with you”
اس ناول میں آپ کو سب کچھ ایک ساتھ ملے گا۔ جوائنٹ فیملی بیسڈ یہ ناول آپ کو ہماری عام زندگی کی عکاسی کرتا دکھائی دے گا۔لڑائی،جھگڑے،کزنز کا پیار،موج مستی،کبھی محبت کبھی نفرت۔۔۔۔۔۔غرض یہ ناول تمام جذبات اور ہر رشتے کا ایک خوبصورت مجموعہ ہے۔
“خوش بخت_____________” اسے دور سے بابا کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی کچھ پل تو اسے سمجھ نہ آیا پھر یک دم اٹھ کر دروازہ کھولا جہاں عالم صاحب دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے اسے طنزیہ نگاہوں سے گھور رہے تھے۔
“اوہ بزرگو! کیوں صبح صبح محلے والوں کے ناک میں دم کر رہے ہیں؟” اس نے جمائیاں لیتے ان سے پوچھا۔
“ملکہ عالیہ! اگر آپ کو یاد ہو تو آج ہم نے مارننگ واک کے لیے جانا ہے میں فجر کی نماز ادا کرنے مسجد جا رہا ہوں آپ بھی جلدی سے وضو کر کے نماز ادا کریں اور میری واپسی پر مجھے گھر کے گیٹ پر ملیں۔” وہ ایک ہی سانس میں بات پوری کرتے وہاں سے نکل گئے۔
“لو جی ملکہ عالیہ مجھے کہہ رہے ہیں اور حکم خود سنا گئے ہیں، واہ جی واہ۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی جلدی سے واش روم میں جا گھسی۔
اس کا دل تو نہیں تھا جانے کا مگر اپنے واحد ووٹ کو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی جو ہر الٹی سیدھی بات میں اس کی ڈھال بن جاتے تھے تبھی وہ جھٹ پٹ سب کام کرتی گیٹ پر آن کھڑی ہوئی رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ گیٹ پر سر رکھے ہوئے ہی اپنی نیند پوری کر رہی تھی جب ٹریک سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان اسے دیکھتے ایک لمحے کو رکا تھا اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی جس کو وہ اگلے ہی پل چھپاتا آگے بڑھ گیا اس نے پہلی بار کسی کو ایسے سوتے دیکھا تھا حیرت بجا تھی۔
“خوش بخت____” عالم صاحب نے اس کے کان کے پاس چہرہ لے جا کر زور سے پکارا جس پر وہ یک دم “چور، چور” چلاتی ان سے لپٹ گئی۔
“ملکہ عالیہ اب آپ حد سے بڑھ رہی ہیں پہلے بزرگو اور اب چور بنا ڈالا، توبہ توبہ گندی اولاد نہ مزا نہ سواد۔” انھوں نے اسے بری طرح گھورا۔
“واہ بھئی واہ! الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ یہ کیا تھا پھر____؟ ابھی میرا ہارٹ فیل ہو جانا تھا۔”
اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ان کی حرکت کی طرف توجہ دلائی تو وہ شان بے نیازی سے کندھے اچکاتے آگے بڑھ گئے۔
“آپ____اور اتنے کمزور دل کی ہو ہی نہیں سکتیں۔ آپ تو وہ ہیں جو دوسروں کے چھکے چھڑا دیں ملکہ عالیہ۔”
وہ اس پر طنز کرنا نہ بھولے۔
“ہاں جی___میں تو بہت بڑے دل کی ہوں جو اپنے ماں باپ کو پال رہی ہوں حالانکہ انھیں مجھے پالنا چاہیے۔
ہائے او ربا میری نکیاں نکیاں چاواں___”
وہ دکھی محبوبہ کی طرح سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
“اگر آپ کو کسی فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لیا جائے تو وہ بری طرح فلاپ ہو۔” انھوں نے اس کی اوور ایکٹنگ پر چوٹ کرتے ہوئے اپنا بدلہ اتارا۔
“چلیں مجھے ہیروئن کا کردار تو ملتا مگر آپ کو گریٹ گریٹ گریٹ____گرینڈ فادر کا رول ملتا۔”
اس کی بات پر وہ جلتے کڑھتے گلشن اقبال پارک میں داخل ہو گئے۔
یہ داستان ہے چار دوستوں کی۔اور ایک لازوال محبت کی اور ایک دلکش رشتے کی۔دوستی ایسا رشتہ ہے کہ جس کو زوال نہیں چاہے وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں مگر ان کی روحیں ہمیشہ یکجا رہیں گی۔
دیارِ قید کی یہ کہانی میرے اور آپ کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے قلم بند کی گئی ہے ۔ یہ کہانی بظاہر تو لمحوں میں لکھی گئی ہے مگر پڑھنے والوں کو صدیوں پیچھے لے جائے گی۔ یہ ہمیں بتائے گی کہ کوئی ہے جو ہمارا منتظر ہے،
جس کا دیار ہم نے اجاڑ دیا،
جس کا چراغ ہم نے بجھا دیا،
جس کی امیدیں ہم نے توڑ دیں،
جس کی سلاخیں ہم نے جوڑ دیں،
مگر وہ آج بھی ہماری راہ تکتے ہیں۔۔۔
ایک آس سے کہ ایک دن ہم آئیں گے۔۔۔۔
اور ان کے دیار کو ظالموں کی قید سے رہا کروائیں گے۔ یہ کہانی ہے ان مظلوموں کی جو ہمیں پکار رہے ہیں۔
یہ کہانی ہے ٹوٹے رشتوں کی ۔۔۔۔اک انجان خوف کی ۔۔۔۔ادھوری محبت کی۔۔۔۔۔ سب سے بڑھ کر اللہ ہر توکل کی اس کہانی میں اک ہی دشمن ہے جو کہ ہم سب کا واحد دشمن ہے ۔۔۔
یہ کہانی ہے اک ایسی لڑکی کی جو گناہوں کے دلدل سے نکل کر ہدایت کی جانب آئ یہ کہانی ہے اک لڑکے کی جو اپنے ماضی میں الجھا ہوا تھا یہ کہانی ہے اک ایسے سنگ دل انسان کی جسے بس طاقت چاہیۓ تھی اک لڑکی کی حوس کی ۔۔۔۔یہ کہانی ہے اللہ سے امید کی اس کی جانب بڑھنے کی اس پر توکل کرنے کی ۔۔۔۔
یہ کہانی ہے یزدان عریبی کے عشق کی اسکے جنون کی کامران عریبی کی اپنی بیٹی ہیر کی محبت کی مشعل ہمدانی کی اپنی بہن سے نفرت کی اور یزدان اور ہیر کی محبت کو دنیا کی نظر لگ جانے کی