یہ کہانی ہے ٹوٹے ہوۓ رشتوں کی, چند یونیورسٹی فیلوز کی اور ایک ان چاہے رشتے کی. یہ کہانی ہے بہادر نقابی لڑکی کی کیونکہ بہادر وہ نہیں ہوتے جو ڈرتے ہی نہیں ہیں بلکے وہ ہوتے ہیں جو ڈر کے باوجود سر نہیں جھکاتے. ایک بزدل لڑکے کی کیونکہ با ادب لڑکے اس دنیا میں بزدل ہی کہلاتے ہیں.
تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔
ماضی کے کواڑوں سے آتے نفرت و بد گمانی کی دھول لیے تند و تیز ہوا کے جھونکے جو صرف دل ہی نہیں جهلساتے بلکہ روح کو بھی گهائل کر دیتے ہیں ،اور آنکھوں میں وہ دھندلاہٹ لاتے ہیں کہ حقیقت سامنے ہو کر بھی آشکار نہیں ہو پاتی ۔
لیکن محبت کی ٹھنڈی پھوار ہر درد کا درماں بن جاتی ہے ۔دل کے زخم بھر جاتے ہیں ،روح پھر سے سیراب ہونے لگتی ہے اور آنکھیں رخ یار کے دیدار سے جلملا اٹھتی ہیں ۔
محبت ایک نعمت ہے اسے ہاتھ سے کبھی بھی جانے مت دیجئے ۔ہر روپ میں محبتیں بانٹیے ،یہ کہیں گنا بڑھ کر آپ کے پاس واپس آئے گی ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی
کیا لگتا ہے تمہیں شانزے محمود ۔میں کوئی پلے بوائے ہوں جسے عورتوں کا کریز ہے ؟یا اتنا ہی گرا ہوا شخص ہوں جو ہر دوسرے دن عورتیں بدلتا رہتا ہے ۔مرد ہوں تو کیا ٹوٹتے رشتے اثر انداز نہیں ہوتے مجھ پر ؟۔سمجھ کیا رکھا ہے تم نے مجھے ۔میں نے آج تک تمہاری ہر بات کو تمہارا بچپنا سمجھ کر کبھی سیریس نہیں لیا ۔مجھے لگتا تھا تم بہت صاف دل کی ہو ۔جو دل میں ہے وہی زبان پر بھی ہوتا ہے ۔مگر تم تو بہت زہریلی نکلی ہو ۔اس دن بھی میرے بچے کو لے کر تم نے انتہائی فضول بکواس کی تھی ۔میں نے برداشت کر لی ۔مگر آج تو حد ہی ہو گئی ہے ۔آخر کب تک چاچو چاچی کا لحاظ کرتے ہوئے میں تمہیں برداشت کرتا رہوں گا ۔ہاں ؟”ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ چھبتی نظروں سے اسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔شانزے ذرا بھر لڑکھڑائی تھی ۔اسے گرنے سے بچانے کے لئے میسم نے ہی ہاتھ بڑھا کر اسکا بازو تھامتے اسے بچایا تھا ۔شانزے نے اڑی رنگت کے ساتھ اسے دیکھا تھا جس کے چہرے پر اسکے لئے کوئی رعایت نہیں تھی اور شاید دل میں بھی ۔ااگلے ہی پل وہ اپنا ہاتھ اسکے بازو سے ہٹا چکا تھا ۔
آپ کو پتہ ہے طهٰ آپ کا مسئله کیا ہے ؟۔آپ صرف اپنا سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آپ کے لئے صرف اپنی ذات اہم ہے اپنے جذبات کی فکر ہے باقی خود سے جڑے لوگوں کے احساسات سے کوئی سروکار آپ کو نہ کل تھا نہ ہی آج ہے ۔ڈھائی سال تک میں نے آپ کی ہر بات مانی ہے ۔آپ نے کہا میں واپس جانے کا نام نہ لوں ،کسی کا ذکر نہ کروں ،سب بھول کر ایک نئی شروعات کروں ۔۔۔۔۔۔۔میں نے سب کیا ۔مگر اب اور نہیں۔۔۔۔آخر ہر بار میں ہی کیوں مانوں جبکہ ہر بار غلط بات پر آپ کی بے جا ضد اور انا آڑے آ جاتی ہے ۔غلطی آپ کی تھی سزا وار بھی آپ تھے ۔مجھے تو ناحق حصے دار بنایا آپ نے مگر اب میں اور سزا نہیں کاٹ سکتی بس بہت ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ہم جائیں گے طهٰ ۔میں اور جنت جائیں گے آپ جائیں نہ جائیں آپ کی مرضی “۔اپنی بات پر زور دیتے دو ٹوک لہجے اور گیلی آواز میں کہتے ہوئے وہ بھرائی آنکھوں سے اسکو دیکھ رہی تھی۔مزید بحث و منت سماجت کی کوئی وقعت نہیں تھی ۔وہ بے جا ضد پر اڑا تھا تو وہ بلا وجہ اس کے ساتھ کیوں پسے ۔ٹائی پر رکا ہاتھ ساکت ہوا ،سرخی مائل ہوئی آنکھوں میں تکلیف کی رمق مزید بڑھی ،وہ اسکی بات پر سکتے کی سی كیفیت میں گھرا اسکی طرف پلٹا تھا ۔کچھ تھا جو بے آواز ٹوٹ کر کرچی کر چی ہوا تھا ۔شاید اسکا مان تھا ۔تو وہ اب بھی اس کے لئے “ہم”کی فہرست میں نہیں آ پایا تھا ۔وہ اس دائرے سے باہر کھڑا تھا پچھلے ڈھائی سال کی رفاقت بھی اس کے دل میں اسکے لئے جگہ بنانے میں نا کام ٹھہری ۔وہ جذبات و احساسات کی جس نہج پر کھڑا تھا ۔اسکے اندر ہو رہی توڑ پھوڑ میں ام ہانی کی اس بات نے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا سا کام کیا تھا ۔اور ام ہانی کے فرشتوں کو بھی نہیں خبر ہوئی تھی وہ اسکی عام سی بات کو کس خاص تناظر میں دیکھ رہا تھا ۔
“جب فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جاؤ پھر ۔روکا کس نے ہے ؟۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اب نہ کسی کے آنے سے اور نہ کسی کے جانے سے ۔سنا تم نے “اب ” کوئی فرق نہیں پڑتا “۔سخت کٹیلے سے انداز میں کہتے پہلی بار اسکی آواز اونچی ہوئی تھی ۔ام ہانی کی آنکھیں اہانت کے احساس سے بھر آئی تھیں ۔ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ان دو نفوس کا المیہ یہ تھا کہ وہ دونوں ہی اس وقت اپنے اپنے احساسات کے زیر اثر اس قدر مرغوب ہو چکے تھے کہ دوسرے کو سمجھنا چاہتے ہی نہیں تھے ۔
پایان معنیٰ بدلہ۔ کہانی ہے اک لڑکی کی جس نے ظالم دنیا کے خلاف لڑنے کےلیے خود کو مضبوط بنایا اور اپنی جان داؤ پر لگا کر ظلم کے خلاف لڑی۔ کہانی ہے اک شخص کی جس کی پرورش میں کوئی کھوٹ نہیں تھا مگر اس کی صحبت نے اسے تباہ کر دیا۔ کہانی ہے انتقام کی، ظلم کے خلاف جنگ کی
مدِّمُقابِل کہانی ہے چار لڑکیوں کی جو مختلف حالات اور مسائل کا مُقابلہ کرتےہوئےاپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھتی ہیں۔اِس میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح دُنیاوی اسباب کے ساتھ، اللہ کا قُرآن اور آپﷺ کی تعلیمات اُن کی مدد کرتی ہیں اور پھر ایک موڑ پر آکر اُن میں سے کُچھ لڑکیاں ایک انوکھے مُقابلے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ کیا ہے یہ مُقابلہ اور کون ہوگااِس کا فاتح یہ جاننے کے لیےپڑھیے مدِّمُقابل
کچھ محبتیں سراب کے دھاگوں میں الجھی ہوئی ہوتی ہیں اتنی الجھی ہوئیں کہ آپ کا قدم ان میں الجھ کر ڈگمگا جاتا ہے مگر زندگی میں آئے چند مخلص لوگ آپ کے پیروں سے وہ دھاگے سلجھا کر آپ کو سراب کے فسانوں سے نکالنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ کو باور کرواتے ہیں کہ ہر سراب کا اختتام بھیانک نہیں ہوتا ، ہر فسانے کی منزل ناکام نہیں ہوتی۔
یہ کہانی ہے مفرہ اور جازم کی دو کزنوں کی جن میں بھائی بہن والی عقیدت تھی۔اس کہانی میں رشتوں کی بقاء کی خاطر کیسے وہ اپنی ہی چھوٹی عمر کے لڑکے سے نکاح سے رضامند ہوئی۔یہ ناول دوستی کے دوغلے پن کو کھول کر سامنے لائے گا۔
یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی جو اپنی حدود سے واقف ہے۔اور یہ کہانی ہے اہک لڑکے کی جو اپنی محبت کی حدود کا احترام کرتا ہے ۔ یہ کہانی ہے اس محبت کی جس کو انسان اپنے مذہب کے لہۓ چھوڑ دیتا ہے۔