صرف ایک ناول نہیں، بلکہ ایک خاموش چیخ ہے — ان لفظوں کے خلاف جو ادب کے پردے میں بےحسی اور بےحیائی کو خوبصورتی کی صورت میں پھیلا رہے ہیں۔ یہ کہانی اُن قلموں کی حقیقت بھی ہے جو سوچے سمجھے بغیر صرف شہرت کے لیے لکھ رہے ہیں، اور ان آنکھوں کی آئینہ دار بھی، جو پڑھتے پڑھتے اپنا شعور کھو بیٹھتی ہیں۔
یہ داستان ہے آبرو نامی ایک نوجوان قاری کی، جس کے دل میں ادب کے لیے عشق تو ہے، مگر سچائی کی تلاش ابھی باقی ہے۔ اور ایک مشہور فحش لکھاری کی، جو لفظوں سے تو ہزاروں دل جیت رہی ہے، مگر اپنا ہی دل ہار چکی ہے — کسی انجانے خلا میں۔
جب ابصار جیسے ایک باشعور استاد کی زبان سے سچائی نکلتی ہے،
تو وہ صرف شعور کو نہیں جگاتی،
بلکہ دلوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ دیتی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں لفظ زخم بننا چھوڑ دیتے ہیں —
اور شاید مرہم بننے کا آغاز کرتے ہیں۔
“کاغذ کے زخم” آج کے نوجوان قلمکاروں اور قارئین کے لیے ایک آئینہ ہے،
جو ادب کی اصل روح کو،
پاکیزگی، سچائی اور ذمہ داری کے دائرے میں واپس لانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ وہ کہانی ہے جہاں راجہ اور رانی کو آپکو تلاش کرنا ہے میں نے اِن سب کو مہرے کہا ہے۔
کچھ کہانیاں صرف درد سے بھری ہوتی ہیں
اُن میں مرہم رکھنے والے کم ہوتے ہیں
اُن میں چالیں زیادہ ہوتی ہیں
اُن میں انتقام ہوتا ہے
اُن میں نفرت ہوتی ہے
اُن میں بس ہر ایک استعمال ہوتا ہے
اُن میں سب بس کلنک بن کر رہ جاتے ہیں
اور جو بچ جاتے ہیں وہ زندہ نہیں رہتے
ایسی کہانیوں کا اختتام بس موت ہے
صرف موت
کہانی ایسے شادی شدہ جوڑے کی ہے جن کی شادی بہت ہی ناسازگار حالت میں ہوتی ہے جس میں دونوں کو بھی سماجی طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی یہ دونوں اپنی خوشی سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں