اکثر اوقات انسانی نفسیات کے سرے کچھ منفی رویوں کے باعث یوں الجھ جاتے ہیں کہ پھر رشتوں کو نبھانے کا ہنر تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں کسی پر خلوص انسان کا ساتھ ہی ان الجھی ڈوریوں کو سلجھا سکتا ہے
کہتےہیں جتنا چھانو گے اتنا ہی کرکرا نکلے گا-بعض اوقات خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بھی گنوا دیتا ہے لیکن آذر کے ایک فیصلے نے بہت سوں کا نقصان ہونے سے بچا لیا تھا
یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
مرد اور عورت کی دوستی کبھی بے غرض نہیں ہوتی۔ خارجی یا اندرونی عوامل اسے آلودہ کر ہی دیتے ہیں۔مگر ثومیہ کے لیے یہ ماننا آسان نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ۔۔۔۔
چاند کی چاندنی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ثانیہ بھی اپنی چاندنی کو ماند نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے وہ کیا جو ہر کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا
تبدیلی جب بھی آتی ہے پورے کروفر سے آتی ہے اور انسان کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ اس تغیر کو پوری روح سمیت قبول کرلیتاہے ۔ عجب مائع صفت ہوتا ہے آدمی بھی۔ ڈھلتا جاتا ہے اور مسخ بھی نہیں ہوتا
یہ داستانِ عشق ہے ۔ وہ عشق جس کی تاثر منکرین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اور پھر ان کے پاس اسی عشق کو اوڑھ لینے کے سواء کوٸ چارہ نہیں ہوتا۔ اس کہانی کے کردار آپ کو یہی عشق اوڑھتے نظر آٸیں گے۔ کچھ خاموش محبتیں جن کی خاموشی فضا میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لیکن انسان ٹھہرا صدا کا نافہم جو اس خاموشی کو محسوس کرنے میں صدیاں لگا دیتا ہے۔ ماضی کے کچھ ایسے ناسور جو وبال جان بن جاتے ہیں۔ اور پھر صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
کبھی کبھی حالات انسان کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اور جب وہ انہیں شکست نہیں دے پاتا تو اپنے ارد گرد ایک تصوراتی دنیا بنا لیتا ہے۔ اس نے بھی ایسی ہی ایک دنیا بسا لی تھی جس میں وہ سب تھا جو۔۔۔۔
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
زندگی کے سیدھے سادے راستے پر چلتے چلتے اچانک مل جانے والے سمعان گردیزی نے آرش حسن کواپنا رستہ بھلا دیا تھا۔ حقیقت کے دبیز اندھیرے میں اک حسین خواب کی روشنی پھیلنا چاہتی تھی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں کیے گئے ایک اندھے فیصلے کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سزاوار تھی