(انسانیت کا خاتمہ ضمیر کے مردہ ہونے سے شروع ہو جاتا ہے. کچھ لوگ ہے جن کے دلوں میں آج بھی خوفِ خدا موجود ہے۔ اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں اس سے پہلے ایک دیوار اللّه اور آپ کے درمیان حائل ہو جائے یقین جانے مردہ دل آدمی دیدارِ الہی سے محروم ہو جاتا ہے)
مردہ ضمیر مشتمل ہے۔
1: میری زمیداری
2: میری اسوہ
3: زخم
4:فطرت
5: اقبالِ جرم
میری زمیداری :
کہانی ہے حیات کی جس نے اپنوں کے پتھر یلے راویۓ کو سہا اور ادا کی قدرت کی اس پر کی گئی فرض زمیداری
میری اسوہ :
حمزہ کی کہانی اپنوں کے ملن اور ان سے جدائی کی۔ جس نے گہرا اثر ڈالا حمزہ کی زندگی پر۔
زخم :
آبش جس نے برداشت کیا معاشرے کے ہر ستم ہو۔ہماری زندگی میں ایسے بہت سے لمحات ہوتے ہیں جو ہماری یادا شت میں قید ہوتے ہیں جو ہمارے زخموں کو صدا ہرا رکھتے ہیں
فطرت :
زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن فطرت۔۔فطرت کبھی نہیں بدلتی۔۔کبھی نہیں۔ گل نے سیکھا یہ سبق۔
اقبالِ جرم :
پہلی کہانیوں کے ہر کردار نے نبھایا ایک دوسرے کا ساتھ اور قبول کیا ایک دوسرے کے لئے اپنے احساسات کو۔
زندگی انسان کو بہت لوگوں سے ملواتی ہے۔ ہر شخص فرشتہ نہیں ہوتا نہ ہر ایک شیطان ہوتا ہے۔ ہاں ہر ایک کے جینے کا اصول اس کی سیرت کو حسین بناتا ہے یا بد صورت۔ مردہ ضمیر لوگ منافق ہوتے ہیں۔ ضمیر فروشوں کا ضمیر مردہ تھا مردہ ہی رہے گے۔ پر اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہا کرے اس سبب کے ایک روز رب کے حضور پیش ہونا ہے۔
دینِ اسلام ہمارے لیے اُن سب چیزوں سے پہلے ہے جنکو ہم اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ایک بات میں اگر کہہ دوں تو وہ غلط نہیں ہوگی آج جتنا دین کے بارے میں ہم جاننے لگے ہے اُس سے زیادہ یہ کہنا ٹھیک رہے گا کہ ہم اسکو پہچان کر اُسکے بارے میں علم ہونے کے باوجود بھی اللّٰہ کی دی ہوئی آنکھوں کے باوجود بھی ہم اندھا ہو کر رہ گئے ہیں یہ کہانی بھی کچھ اس طرح ہی ہے ( کبھی روگ نہ لگانا پیار کا ) سیزن ٹو تیرے سنگ بہارِ موسم جس میں کچھ کرداروں کا اضافہ کیا گیا ہے اُمّید ہے آپ سب کو پسند آئے گی
یہ کہانی ہے ایک نرم دل شہزادے اور ایک محبّت سے ترسی شہزادی کی۔۔۔یہ کہانی ہے , عداوت سے بھرے کچھ لوگوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہانی ہے انا میں ڈوبے ایک شخص کی ۔۔۔۔۔یہ کہانی ہے کچھ نفرت اور کچھ محبّت
یہ کہانی ہے نفرت سے محبت تک کے سفر کی، جو رب کی رضا میں راضی ہوگیا اس نے سب کچھ پالیا،یہ کہانی ہے محبت کے بعد یقین کی،ضروری نہیں ہے کہ محبت کے بدلے ہمیشہ محبت مل جائے۔
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔
اکثر اوقات انسانی نفسیات کے سرے کچھ منفی رویوں کے باعث یوں الجھ جاتے ہیں کہ پھر رشتوں کو نبھانے کا ہنر تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں کسی پر خلوص انسان کا ساتھ ہی ان الجھی ڈوریوں کو سلجھا سکتا ہے
کہتےہیں جتنا چھانو گے اتنا ہی کرکرا نکلے گا-بعض اوقات خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بھی گنوا دیتا ہے لیکن آذر کے ایک فیصلے نے بہت سوں کا نقصان ہونے سے بچا لیا تھا
یہ ایک کرائم فیکشن اسٹوری ہے، جسمیں ہمارے معاشرے میں دو خاموش اور گمنام پہلوؤں کا ذکر ہے، ٹاکسک پیرنٹنگ اور سائیکوپیتھی. کہانی ہے کرداروں کے بھولے ماضی اور ناگہانی مستقبل کی. کہانی کے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ کردار کیسے روپ بدلیں گے یہ جاننے کے لیے آپکو کہانی بھی اُن کرداروں کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہوگی
مرد اور عورت کی دوستی کبھی بے غرض نہیں ہوتی۔ خارجی یا اندرونی عوامل اسے آلودہ کر ہی دیتے ہیں۔مگر ثومیہ کے لیے یہ ماننا آسان نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ۔۔۔۔
چاند کی چاندنی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ثانیہ بھی اپنی چاندنی کو ماند نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے وہ کیا جو ہر کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا
تبدیلی جب بھی آتی ہے پورے کروفر سے آتی ہے اور انسان کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ اس تغیر کو پوری روح سمیت قبول کرلیتاہے ۔ عجب مائع صفت ہوتا ہے آدمی بھی۔ ڈھلتا جاتا ہے اور مسخ بھی نہیں ہوتا