یہ کہانی ہے صرف ایک کردار کی۔ ایک لڑکی جس کا نام شوال فاطمہ ہے۔ وہ ایک ایسی زندگی کی تلاش میں ہے، جہاں آسائشیں ہوں، سکون ہو۔ قدرت اُسے دو راستے دیتی ہے۔۔۔ چُناؤ اُسکے ہاتھ میں ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ہمارا چُنا ہوا راستہ ہی ٹھیک راستہ ہو؟ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہر بُرا راستہ پچھتاوے کے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔
ایسی محبت جس میں حسب نسل دنیا معنی نہیں رکھتی۔ روح کی محبت جس میں خود کوہی سلگا دیا۔
کہانی ہے پری وش کی جس کی زندگی کو ایک واقع نے الجھا کے رکھ دیا سوالیہ نشان بنا دیا۔ کہانی ہے زوبی کی جو اپنے من پسند شخص کو دوستی کی خاطر چھوڑ رہی ہے۔ کہانی ہے ازلان کی جو اپنی محبت کو پانے کے لیے خود کو بھول کے آخری حد بھی پار کرنے کو تیار ہے۔ کہانی ہے عمر کی جو اپنے مفاد کے لیے ہر ایک کی زندگی داؤ پہ لگانے کو تیار ہے۔ اس کہانی میں ہر کردار خود کی زندگی کو سلجھانے میں لگا ہے۔ ہر کردار اپنی ایک منفرد خاصیت رکھتا ہے۔ اور یہ کہانی ایک ایسے انسان کی بھی ہے جو نیگیٹو سے پوزیٹو کی طرف آتا ہے۔
اس کہانی میں آپ کو غصہ، اداسی ، بے بسی، مفادپرستی، غم اور ان سب کے اوپر حاوی ہوتے محبت کے سچے جذبات پڑھنے کو ملیں گے۔
یہ داستانِ عشق ہے ۔ وہ عشق جس کی تاثر منکرین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اور پھر ان کے پاس اسی عشق کو اوڑھ لینے کے سواء کوٸ چارہ نہیں ہوتا۔ اس کہانی کے کردار آپ کو یہی عشق اوڑھتے نظر آٸیں گے۔ کچھ خاموش محبتیں جن کی خاموشی فضا میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لیکن انسان ٹھہرا صدا کا نافہم جو اس خاموشی کو محسوس کرنے میں صدیاں لگا دیتا ہے۔ ماضی کے کچھ ایسے ناسور جو وبال جان بن جاتے ہیں۔ اور پھر صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
آزمائشوں کے شوریدہ طوفانوں میں ڈولتی محبت کی ناؤ جو بدگمانی اور سازش کی تیز لہروں سے لڑکھڑاتی دکھوں کے گہرے پانیوں میں غوطے کھاتی عشق کے جزیرے پہ اترتی ہے۔۔۔ تاحدہ نگاہ چھائی مشکبار جذبوں کی ہریالی جن کے بل کھاتے رستوں پہ لوگ ملتے بچھڑتے اپنی شناخت پاتے ہیں۔۔۔ جزیرے کے بیچوں بیچ شہر آباد ہے “شہر جاناں، جس میں اہلِ دل لوگ اپنے مسکن میں بسے محبت کے گیت گاتے عشق کی معراج کو چھوتے ہیں اور آنے والے بنجراؤں کےلیے بانہیں وا کردیتے ہیں آؤ “کہ آباد شہرِ جاناں ہو”۔۔
اسیری لغت کے حساب سے انسانی حرکت کا عمل ہے مگر میں اسے نفسیات سے جوڑ کر ایک خودکار عمل مانتی ہوں۔ اسیری ایک ایسا عمل ہے جس میں محدود کردیا جاتا ہے یا محدود ہوجاتے ہیں۔ اور محدود انسان، سوچ، فکر ناکامی یا تباہی کہ سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اسیری کا شکار ہیں۔ اور اسیری سے آزادی آسان نہیں۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب ہم خود یہ چاہیں۔ اسیران شبانگاہ ایسے ہی باغیوں کی روداد ہے جو اسیری سے آزادی تک کا سفر طے کرینگے۔ یہ کہانی سیکھنے اور جاننے والوں کے لیے ہے۔ مجھے امید ہے دنیا بہترین سیکھنے والوں اور جاننے والوں سے بھری ہے۔
(انسانیت کا خاتمہ ضمیر کے مردہ ہونے سے شروع ہو جاتا ہے. کچھ لوگ ہے جن کے دلوں میں آج بھی خوفِ خدا موجود ہے۔ اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں اس سے پہلے ایک دیوار اللّه اور آپ کے درمیان حائل ہو جائے یقین جانے مردہ دل آدمی دیدارِ الہی سے محروم ہو جاتا ہے)
مردہ ضمیر مشتمل ہے۔
1: میری زمیداری
2: میری اسوہ
3: زخم
4:فطرت
5: اقبالِ جرم
میری زمیداری :
کہانی ہے حیات کی جس نے اپنوں کے پتھر یلے راویۓ کو سہا اور ادا کی قدرت کی اس پر کی گئی فرض زمیداری
میری اسوہ :
حمزہ کی کہانی اپنوں کے ملن اور ان سے جدائی کی۔ جس نے گہرا اثر ڈالا حمزہ کی زندگی پر۔
زخم :
آبش جس نے برداشت کیا معاشرے کے ہر ستم ہو۔ہماری زندگی میں ایسے بہت سے لمحات ہوتے ہیں جو ہماری یادا شت میں قید ہوتے ہیں جو ہمارے زخموں کو صدا ہرا رکھتے ہیں
فطرت :
زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن فطرت۔۔فطرت کبھی نہیں بدلتی۔۔کبھی نہیں۔ گل نے سیکھا یہ سبق۔
اقبالِ جرم :
پہلی کہانیوں کے ہر کردار نے نبھایا ایک دوسرے کا ساتھ اور قبول کیا ایک دوسرے کے لئے اپنے احساسات کو۔
زندگی انسان کو بہت لوگوں سے ملواتی ہے۔ ہر شخص فرشتہ نہیں ہوتا نہ ہر ایک شیطان ہوتا ہے۔ ہاں ہر ایک کے جینے کا اصول اس کی سیرت کو حسین بناتا ہے یا بد صورت۔ مردہ ضمیر لوگ منافق ہوتے ہیں۔ ضمیر فروشوں کا ضمیر مردہ تھا مردہ ہی رہے گے۔ پر اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہا کرے اس سبب کے ایک روز رب کے حضور پیش ہونا ہے۔
دینِ اسلام ہمارے لیے اُن سب چیزوں سے پہلے ہے جنکو ہم اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ایک بات میں اگر کہہ دوں تو وہ غلط نہیں ہوگی آج جتنا دین کے بارے میں ہم جاننے لگے ہے اُس سے زیادہ یہ کہنا ٹھیک رہے گا کہ ہم اسکو پہچان کر اُسکے بارے میں علم ہونے کے باوجود بھی اللّٰہ کی دی ہوئی آنکھوں کے باوجود بھی ہم اندھا ہو کر رہ گئے ہیں یہ کہانی بھی کچھ اس طرح ہی ہے ( کبھی روگ نہ لگانا پیار کا ) سیزن ٹو تیرے سنگ بہارِ موسم جس میں کچھ کرداروں کا اضافہ کیا گیا ہے اُمّید ہے آپ سب کو پسند آئے گی
یہ کہانی ہے ایک نرم دل شہزادے اور ایک محبّت سے ترسی شہزادی کی۔۔۔یہ کہانی ہے , عداوت سے بھرے کچھ لوگوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہانی ہے انا میں ڈوبے ایک شخص کی ۔۔۔۔۔یہ کہانی ہے کچھ نفرت اور کچھ محبّت
یہ کہانی ہے نفرت سے محبت تک کے سفر کی، جو رب کی رضا میں راضی ہوگیا اس نے سب کچھ پالیا،یہ کہانی ہے محبت کے بعد یقین کی،ضروری نہیں ہے کہ محبت کے بدلے ہمیشہ محبت مل جائے۔
زندگی میں کچھ خواہشیں کچھ چاہتیں چند واقعات کی نظر ہو کر حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔کہانی کرداروں کی جستجو اور چاہتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، جو کسی نہ کسی مقام پر پوری ہوتی ہیں یا دل میں دبی حسرت ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔