Mitti ko Mitti Karny Ka Honar By Samiya Rani
نہ پہلے اور نہ اب کبھی شرک کے لیے بتوں کی ضرورت پڑی تھی۔ بت تو بس ایک سمبل ہیں۔ ایک علامت ! ہماری بے وفائی کے ، بدبختی کے ،اور ناشکری کے _ شرک “شک” ہے, یقین کی کمزوری کا ،جس کی جڑیں مندروں میں نہیں ، دلوں میں ہوتی ہیں۔
Neeli Ankhoon Ki Waadi by Jaweria Binte Zubair
خاموش کہانیوں کے نام جو کینوس پر تو اتریں مگر لبوں پر نہ آ سکیں
Dastan e Phalestine by Laiba Irshad
یہ کہانی ہے فلسطین کی جہاں ایک چھوٹا بچہ جنم لیتا ہے اسکا باپ اور دادا مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرتے شہید ہو جاتے ہیں اور جب مہدی جنم لیتا ہے تو اسکی ماں اسے مسجد اقصیٰ کے بارے میں بتاتی ہے جس سے وہ ایک سپاہی بن جاتا ہے اور مسجد اقصیٰ کے لیے لڑتا ہے۔۔۔
یہ کہانی ہے لاہور کی ایک معصوم لڑکی کی جو بہترین رائٹر تھی وہ روز فلسطین پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر انکے لیے دعا کرتی تھی لیکن ایک دن اس نے اپنے رائٹر ہونے کا حق ادا کیا اور فلسطین کے لیے لکھنا شروع کیا۔۔۔ جس سے مہدی ہو کبھی کبھی اپنی ہمت ہارتا محسوس کرتا تھا اسے اس ارٹیکل اور ناول کو دیکھ حوصہ ملتا تھا کہ انکے ملک کے لیے کوئی ہے جو اواز اٹھائ رہا ہے۔۔۔ اور پھر یہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔۔۔ دوستی کا ایک گمنام محبت کا جہاد کا ۔۔۔
Zill Il Hub Episode 3 by Maham Mehmood Parach
حب یعنی محبت۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی سے ہو ہی جاتی ہے۔اور دل۔۔۔کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کا ٹوٹ ہی جاتا ہے
محبت کا ہونا اور دل کا ٹوٹنا ایسے ہے جیسے زندگی کا ہونا اور پھر موت آجانا،بہار کا ہونا اور پھر خزاں آجانا۔
یہ کہانی کچھ انہیں طرح کے پہلوؤں کے گرد گردش کرتی ہے۔۔۔محبت،نفرت اور انتقام۔۔۔جہاں محبت میں قرب کی طلب ہوتی ہے وہیں نفرت میں انتقام کی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس محبت،نفرت اور انتقام کی جنگ میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے۔
Taskheer e Rooh Episode 6 by Roohaniyah Ali
یہ کہانی ہے دو ایسی روحوں کی جو دنیا میں آ کر بھٹک چکی تھیں، اپنا طے شدہ مقصد بھول کر مزین کردہ دنیا میں کھو گئیں تھیں۔ کیا وہ اپنا اصل پہچان کر مقصدِ زیست حاصل کرنے چل پڑیں گی یا دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیں گی؟
Kothe Ki Malika by Syeda Noor Ul Ain
اس کہانی “کوٹھے کی ملکہ” کا اہم مقصد معاشرے کو ہوش دلانا ہے، کہ اگر آپ نے ایک جگہ جیسے کے “کوٹھا” اسے گندہ کہہ دیا، تو کیا وہ واقعی گندہ ہوگیا؟
بلکہ نہیں! یہی وہ جگہ تھی جہاں “کبیر” اپنے گھر سے پریشان ذہنی سکون کے لئے آیا کرتا تھا۔
پھر دوسری بار بھی اس بیچاری کمزور “کنول” کو بھی اسہی کوٹھے کی چھت ملی، باہر کے درندوں سے خود کو بچانے کے لئے جو خود کو پاک صاف کہتے تھے۔
“شہزاد” کو تو یہی لگتا تھا کہ جیسے کبیر کسی بری راہ پر ہے،
پر سوال یہ ہے کہ کوٹھے میں ایسا کیا تھا؟
جو سب وہاں جانا پسند کرتے تھے۔
کبیر کے “پروفیسر” نے جتنی بہترین اسے سایکولجی پڑھائ کہ اسے پتہ چلا کہ ایسا ہمارا معاشرہ ہے۔
دوسری طرف کنول کو اسکے گھر والوں نے اور زمانے والوں نے ایسے سبق پڑھائے کہ اسے پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی..
منفی کردار “باجی جی” نے تو جیسے ملکہ کا پیچھے اب تک نہ چھوڑا تھا۔
اب مزید کہانی کو تفصیل سے جاننے کے لئے پڑھیں ناول “کوٹھے کی ملکہ”…