Afsana

Ranjish Bejaa

نفرت کا ایک آوارہ ذرہ اڑتا ہوا اس کی آنکھ میں گیا تو ساری محبتوں کے مناظر اور سوچ کے شفاف عکس دھندلا گئے تھے۔ کسی کی لگائی گئی نفرت کی ایک تیلی سے بھڑکنے والی آگ اس کی ساری محبتوں کو جلا کر بھسم کر چکی تھی لیکن نفرت تو فانی ہے۔ بقاء تو محبت کی ہی ہے

Saans e Khaak by Eman Fatima Mushtaq

وہ بچہ جو کل تک ماں کی گود میں مسکراتا تھا
آج اُسی ماں کی جھولی میں بےجان پڑا تھا۔
عمر کی چھوٹی سی قمیض مٹی میں گم ہو چکی تھی،
اور نور کی آنکھیں اب کبھی نہیں کھلنے والی تھیں۔
ابا کی ٹوٹی ٹانگ سے بہتا خون،
اس شہر کی بہتی ہوئی انسانیت کا ماتم کر رہا تھا۔
مگر…
“نہ کوئی چیخ سننے آیا،
نہ کوئی دعا سنبھالنے۔
بس سانسیں تھیں…
جو اب خاک ہو چکی تھیں۔”
Eman

Shehristan

 یہ افسانہ دل اور خواہش کے درمیان تنازع پر مبنی ہے. ہماری خواہشات ہمارے دل اور زندگی پر براہ راست اثر کرتی ہیں. اس افسانے میں ان خواہشات کا ذکر ہے جو ہماری ذہنی یا جسمانی نشوونما کی بجائے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب کوئی خواہش وبالِ جاں بن جائے تو اس سے دستبردار ہوجانا چاہیے. افسانے کا ایک اور پہلو بھی ہے جس میں انسان کو خواہش سے تشبیہ دی گئی ہے. انسان یعنی خواہشات کا پتلا اور اس میں بہتر سے بہتر چیز پالینے کی خواہش ہر لمحہ بڑھتی رہتی ہے اگر وہ خود اس پر قابو نہ پا لے.
1 7 8 9 11
Open chat
Hello 👋
How can we help you?