وہ بچہ جو کل تک ماں کی گود میں مسکراتا تھا
آج اُسی ماں کی جھولی میں بےجان پڑا تھا۔
عمر کی چھوٹی سی قمیض مٹی میں گم ہو چکی تھی،
اور نور کی آنکھیں اب کبھی نہیں کھلنے والی تھیں۔
ابا کی ٹوٹی ٹانگ سے بہتا خون،
اس شہر کی بہتی ہوئی انسانیت کا ماتم کر رہا تھا۔
مگر…
“نہ کوئی چیخ سننے آیا،
نہ کوئی دعا سنبھالنے۔
بس سانسیں تھیں…
جو اب خاک ہو چکی تھیں۔”
نہ پہلے اور نہ اب کبھی شرک کے لیے بتوں کی ضرورت پڑی تھی۔ بت تو بس ایک سمبل ہیں۔ ایک علامت ! ہماری بے وفائی کے ، بدبختی کے ،اور ناشکری کے _ شرک “شک” ہے, یقین کی کمزوری کا ،جس کی جڑیں مندروں میں نہیں ، دلوں میں ہوتی ہیں۔