”نہ پھوپھو کا پتہ معلوم ہے، نہ ان کا نمبر یاد رہا اور چل پڑی تہزیب بی بی، پھوپھو کے گھر چھاپہ مارنے کاش! میرا بھی کوئی منکوحہ جہان سکندر جیسا ہوتا، جو میرا سایہ بن کر میرا پیچھا کرتا، مجھے غیر محفوظ راہوں سے بچانے اپنا فرائی پین لے کر پہنچ جاتا۔“وہ خود کو کوس رہی تھی۔ اسے کیا سوجھی کہ ماموں کے بغیر تنہا سفر کرنے نکل پڑی، جبکہ وہ جانتی تھی کہ حقیقت میں کوئی جہان سکندر اسلام آباد میں اس کا منتظر نہیں تھا۔
”تمیزدار رولر کوسٹر!“ تبھی کسی نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔ داؤد کا چہرہ اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر اس کا دل رو دینے کو چاہا۔
”تہزیب حمزہ نام ہے میرا۔“دانت پیستے ہوئے اپنا بیگ سنبھالتے وہ پیچھے مڑی۔
” رکو، کہاں جا رہی ہو، چڑیل؟“ اپنے پیچھے اسلام آباد کے شہزادے کی پکار پر وہ رکی۔
”کسی پہاڑ سے کودنے۔۔۔بتا دیجیے، کون سا سب سے بلند ہے تاکہ سہولت سے یہ کام سرانجام دے پاؤں۔“
بغیر پلٹے وہ جل کر بولی۔
”ابھی ہم اسلام آباد والے اتنے بےمروت نہیں ہوئے کہ اپنی دہلیز پر آئے مہمانوں کو یوں خودکشی کا ویزا دینے لگیں۔“وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
کہانی محبت جنون پاکیزگی اور دیوانگی کے گرد گردش کرتی ہے۔بنیادی کرداروں کے تصور سے کوسوں دور انکی زندگی کی تصویر بدل کر وہ رکھ دیکھاتی ہے جس کا محور انکی سوچیں کبھی نہیں رہی۔وجہ جنونیت کا شکار وہ کردار ہے جو جنہیں اپنی چاہت حاصل کرنے کا جنون ہمیشہ سے تھا۔مختلف کرداروں کی زندگی کی تصویر جان کر آپ کو کچھ نرالہ پڑھنے کو ملے گا۔