انشراح اور میثم سلیمان کی کہانی
زندگی کی راہ کے دو ایسے مسافروں کی کہانی جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہیں ایک دوسرے کی تلاش میں منزل کی طرف رواں تھے
زخرف اعجاز کے دل کی گہرائی میں کون کون سے راز چھپے ہوئے ہیں یہ جاننا منصور کے لیے سہل نہ تھا۔اس کے لیے تو وہ خود ایک سربستہ راز تھی جواپنوں کی خاطر ایک کڑی مسافت طےکر رہی تھی۔ جسےعلم نہ تھا کہ منزل کی تلاش میں وہ ایک سراب کا تعاقب کر رہی ہے
محبت کرنے والوں کو دکھ دیتے ہوئے اس نے گمان بھی نہ کیا تھا کہ مکافات عمل کا وقت بھی آئے گا۔پورے راستے اس کے اندر جھکڑ چلتے رہے۔ غصہ نفرت جوش اور تاسف اس کے اندر سر پٹختارہا تھا مگر جس لمحے وہ اندر داخل ہوا سارا شور ایک سکوت کے زیر اثر آگیا
عید کے خوبصورت لمحوں کو مزید لطف عطا کرنے کے لیے ایک ایسی تحریر جو ہمیں خواہش سے تقدیر کے فیصلے تک کا سفر کرنے والے ایک ایسے مسافر کی داستان سناتی ہے جس نے سنگ میل کو منزل سمجھ لیا تھا مگر کاتب تقدیر نے اس کے لیے کچھ اور لکھ رکھا تھا ۔۔۔
محبت کا سودا نقد سہی لیکن ہوتا کچھ لو اور دو کے اصول پر ہی ہے۔کسی کی خاطر خود کو بدل لینا اپنی نفی نہیں محبوب سے محبت کی انتہا ہے۔
جویر اور ساشا میں سے کون خود کو بدلے گا اس کا فیصلہ محبت کو کرنا ہے۔۔۔۔۔
تجربے کے تنگ دروں سے گزرے بغیر ہم سمجھ نہیں سکتے کہ خمیدہ سرہونا کیسا احساس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے سوچ نہیں پاتے کہ اگر ہم ان کی جگہ ہوتے تو ہمارا رد عمل کیا ہوتا۔ اور جب حالات ہمیں اپنی زد میں لاتے ہیں تب کہیں جا کے خدا کی موجودگی کا یقین آتا ہے ہمیں۔
یہ کہانی محبت پر اجارہ داری رکھنے والی صہیبہ اور رشتوں کی خاطر خود کو تج دینے والی نرمین کی کہانی ہے، فرض کو محبت سے نبھانے والے ایزد کی اور محبت کو فرض سمجھنے والے فرہاد کی کتھا ہے۔ یہ نرم احساسات کی ترجمانی کرتے سمعان کے ظرف کی آزمائش کا احوال ہے۔
زندگی کے سیدھے سادے راستے پر چلتے چلتے اچانک مل جانے والے سمعان گردیزی نے آرش حسن کواپنا رستہ بھلا دیا تھا۔ حقیقت کے دبیز اندھیرے میں اک حسین خواب کی روشنی پھیلنا چاہتی تھی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں کیے گئے ایک اندھے فیصلے کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سزاوار تھی
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
کبھی کبھی وقت کی کسی ایک اکائی میں وقوع پزیر ہونے والا واقعہ انسان کے ہر فیصلے پر اپنا رنگ ثبت کرتاچلا جاتا ہے۔ سماریہ کے لیے اب فیصلہ کرنا اتنا آسان بھی نہ رہا تھا