Khud se Khuda Tak

Ask for More Information

, ,

Meet The Author

Khud se Khuda Tak written by Dua Jamal

Dua Jamal is a Social Media writer and now her Novels/Afsana are being written with Novels Hub. Novels Hub is a new platform for new or well-known Urdu writers to show their abilities in different genres of Urdu Adab.

Regards

Novels Hub

Khud se Khuda Tak Downloading Link

رات کی سیاہی و تنہائی میں میرے زہن کے پردوں پر ایک ہی سوال اُبھرتا ہے جو میری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی اُلجھن میں رات کی سیاہی کب اُجالوں میں تبدیل ہوجاتی ہے احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ اس سوال کی جنگ میں جواب نادار ۔۔۔۔ آخر
“خود سے خدا تک کا سفر کیا ہے ؟”
صبح کے نو بج چکے تھے۔ وہ تیز تیز قدم بڑھاتی ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ گھڑی میں وقت دیکھتے ہی اُسکے قدموں میں مذید تیزی آگئی۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود آج پھر لیٹ ہوگئی تھی لیٹ ہونا تو جیسے اب اس پر فرض ہوگیا تھا۔
“یا اللّٰہ پلیز آج نہیں۔ آج بچا لینا پلیز۔ اگر آج بھی دیر سے کلاس میں پہنچی تو آج تو پکا عزت کا فالودہ ہوجانا ہے۔ اللّٰہ پلیز پلیز پلیز بچا لینا۔ “
وہ خود میں بڑبڑاتی تیزی سے لابی میں داخل ہوئی۔ لابی میں طالب علموں کا ایک ہجوم لگا تھا۔ جگہ جگہ لوگ گروپس بنائے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ ہجوم کو چیرتی لابی پار کرتی ڈیپارٹمنٹ کی راہداری میں داخل ہوئی۔ راہداری میں طالب علموں کی تعداد بہت کم تھی۔ ایکا دکا لوگ ہی بیٹھے تھے۔ تیزی سے بڑھتے قدم ایک پل کو تھمے۔ بائیں طرف پلر سے ٹیک لگائے ایک نفس بیٹھا سامنے موجود ہرے بھرے چھوٹے بڑے درختوں کو یک ٹک گھور رہا تھا۔ بظاہر تو اُسکی نظریں ان درختوں پر تھیں لیکن ۔۔۔ وہ نفس شاید یہاں موجود نہیں تھا۔ اُسکی آنکھوں میں شناسائی اُبھری۔ یکدم گزرے لمحے آنکھوں کے پردوں پر تازہ ہوگئے تھے۔ جیسے گزرے ڈائری کے پنوں پہ لکھے سیاہ مگر دلکش باب پھر سے کھلے آنکھوں کے آگے آگئے ہوں۔  وہی جگہ، کیرچیوں میں بٹی ویسی ہی بکھری ذات، خود کو کھوجتی گہری خالی خالی آنکھیں، ایک گہرے نیلے سمندر میں کھویا وجود۔
اُسکے قدموں میں پھر سے حرکت ہوئی لیکن اب قدموں کا رخ کلاس کی طرف نہیں بلکہ دائیں طرف بیٹھے اُس نفس کی طرف تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اُسکے برابر جا بیٹھی۔ اُسکی بے خبری کا عالم یہ تھا کہ اُسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کوئی اُسکے عین برابر آبیٹھا ہے۔
“کافی خوبصورت منظر ہے نا؟ ” کسی کی آواز پہ اسنے چونک کر اپنے دائیں طرف دیکھا۔ اکیس بائیس سالہ لڑکی سیاہ عبائے میں ہلکے گُلابی رنگ کا اسکارف پہنے، کالے رنگ کا نقاب کیئے، گہری بھوری آنکھیں چشمے کے پیچھے چھپی اپنے کئے ہوئے سوال کے جواب میں منتظر نگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔
“ہے نا؟ ” اُسکے یک ٹک دیکھنے پر اسنے پھر سے سوال کیا۔
“جی۔ ” ایک لفظی جواب دیکر وہ واپس اپنی نظریں درختوں کی طرف کر چکی تھی۔
“کچھ تلاش رہی ہو؟ ” اسنے اپنی نظریں بھی درختوں پر جما لیں۔
“ہاں۔”
“کیا؟”
” اپنا آپ۔ ” کھوئے کھوئے انداز میں جواب دیا۔
“پھر ملا۔”
“نہیں۔”
“کب تک تلاش کرو گی؟”
“جب تک مل نہیں جاتا۔”
” میں کچھ مدد کروں؟”
“کب تک؟ “
“جب تک کامیاب نہیں ہوجاتی۔”
” تھک جائیں گی۔”
“منظور ہے۔”
“ہمت ہے ؟ برداشت کر لیں گی؟”
“سچے دل سے عزم کر لیا جائے تو ہمت اپنے آپ بڑھ جاتی ہے۔”
“مجھے سمجھنا اتنا آسان نہیں۔”
“اتنا مشکل بھی تو نہیں۔ میں ایک بہت اچھے دوست کو جانتی ہوں۔ دوستی کرو گی اُن سے؟ “
“اپنے عزیز رشتے کھو دیئے۔ کوئی میری ذات کی الجھنیں جان نہیں پایا۔ کوئی نہیں سمجھ پایا آج تک۔ میری ذات سب کے لیے اذیت کا سبب رہی۔ اور رشتے بنا کر کھونے کی ہمت نہیں۔ رشتوں کو بچاتے بچاتے وضاحتیں ختم ہو چکی ہیں۔ “
“وضاحتیں کون مانگ رہا ہے۔ وہ وضاحتیں نہیں مانگتا۔ جو رشتہ وضاحتوں کا محتاج ہو اُسکا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے۔”
“میری دوستی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میری ذات کھوکھلی ہو چکی ہے۔ میری ذات کا ایک ایک ذرہ الجھنوں کی زرد ہے۔ میری زندگی کی ڈور بہت بری طرح سے اُلجھ گئی ہے۔”
“کیا پتہ اس دوستی سے یہ خلا کم ہوجائے۔ کیا پتہ تُمہاری ذات کا کھوکھلا پن پر ہوجائے۔ کیا پتہ تُمہاری ذات کی ایک ایک اُلجھنیں دور ہو جائیں۔ تُمہاری زندگی کی اُلجھی ڈوریں سلجھ جائیں۔ “
“اور اگر ایسا نہ ہوا تو؟ “
“میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں ایسا ہی ہوگا۔” اُسکے لہجے میں ایک مان تھا کبھی نا ٹوٹنے والا مان۔
“آپکو اتنا یقین کیسے؟ “
“کیوں کہ میں نے کسی کا عکس دیکھا ہے تم میں۔ کسی کی بکھری ذات دیکھی ہے۔ جیسے اُسکی ذات کی گرہیں کھل گئیں مجھے یقین ہے وہ تمھاری ذات کی اُلجھنیں بھی سلجھا دیگا۔”
“کون ہے وہ؟”
“اللہ۔۔۔۔ “
“ا۔۔ ال ۔۔۔ اللّٰہ۔۔۔”
“ہاں ۔۔ اللّٰہ۔۔ وہی پاک ذات، وہی بہترین دوست۔ “
“لیکن ۔۔ میں تو “
“نہیں۔ آگے کچھ نہ کہنا۔ اب جو کہنا ہے اللّٰہ سے کہنا۔ جب تمھارے عیبوں پر اسنے پردہ رکھا ہے تو اس پردے کو قائم رہنے دو۔ ” اُسکا ضبط ٹوٹا تھا اور وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔
“میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں شاید وہ تمھارے لیے مددگار ثابت ہو۔ تُمہاری کچھ اُلجھنیں سلجھ جائیں۔”
                                *********
گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی کمرے میں عجب ماحول پیدا کر رہی تھیں۔ رات کے تین بج چُکے تھے لیکن بستر پر لیٹا وجود ابھی تک جاگ رہا تھا۔ وہ کروٹیں بدلتے بدلتے اب تھک چکی تھی۔ بستر پر چیت لیٹی کھڑکی سے نظر آتے خالی آسمان کو یک ٹک دیکھ رہی تھی۔ آج آسمان میں موجود سارے ستارے جیسے کہیں گم ہوچُکے تھے۔ آج آسمان بلکل خالی تھا۔ وہ نجانے کیوں آج آسمان اور اپنا موازنہ کرنے لگی تھی۔ آسمان میں موجود چاند میں ڈھیروں داغ دیکھ کر اسے خیال آیا شاید اُسکے وجود میں بھی ڈھیروں داغ ہوں۔ اس سے پہلے کہ اُسکی سوچوں كا زاویہ اور طویل ہوتی موبائل کی رنگ ٹون نے اُسکی توجہ اپنی طرف کروائی۔
“کیا کر رہی ہو؟” موبائل کی اسکرین پر زمر کا نام جگمگا رہا تھا۔
“کچھ نہیں۔”
“سوئی کیوں نہیں؟ “
“نیند نہیں آرہی۔”
“نیند کیوں نہیں آرہی؟”
“پتا نہیں۔”
“اچھا۔۔ چلو اب سوجاؤ بہت رات ہوگئی ہے۔”
“ہم۔۔۔ ابھی سوجاؤں گی۔”
“عزم کیا ہوا ہے؟”
“کچھ بھی تو نہیں۔”
“تم مجھے نہیں بتاؤ گی؟”
” کچھ ہوتا تو ضرور بتاتی۔”
“تم جانتی ہو نا تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول پاتی پھر کیوں بول رہی ہو؟”
“ہاں جانتی ہوں۔ جس سوال کا جواب میں خود ابھی تک ڈھونڈھ نہیں پائی تمہیں کیا بتاؤں۔”
“جو دل میں ہے سب بتا دو۔”
” میرا کسی چیز میں دل نہیں لگتا زمر۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ مجھے کہیں سکون نہیں۔ دل کرتا ہے رو لوں بہت زیادہ۔ مجھے کوئی نہیں سمجھتا۔ سب کو مجھ سے شکایتیں ہیں۔ میرا بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ کسی کو میرا رویہ برا لگتا ہے تو کوئی مجھے مغرور کہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے خود کو بدلو۔ کوئی کہتا ہے خود کو دیکھو تم غلط ہو۔ تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ میں کیوں زمر سب کو اتنی بری لگتی ہوں؟ کوئی مجھے ویسے کیوں نہیں سمجھ پارہا جیسی میں ہوں۔ “
میری ذات کی اُلجھنیں، میری بےبسی، میرا دل چاہتا ہے میں روں اتنا روں کے میرا دل پھٹ جائے میں مرجاؤں۔ یا سکون کی تلاش میں کسی صحرا میں بھٹک جاؤں۔ مجھے لگتا ہے میں کسی تپتی صحرا میں تنہا سفر کر رہی ہوں جہاں نہ سکون ہے نہ جینے کی کوئی وجہ۔” اوپر آنلائن شو ہورہا تھا، ساتھ ساتھ سارے میسیجز پر بلیو ٹک اس بات کی نشان دہی کر رہے تھے کہ وہ میسیجز پڑھ چکی ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ موبائل کی سکرین دھندلی ہوگئی۔ اسنے آنکھوں میں آئی نمی کو دوپٹے کے پلو سے صاف کیا اور دوبارہ سکرین کو دیکھا تو وہاں ٹائپنگ شو ہورہا تھا۔
“تم تہجّد پڑھتی ہو؟” اُسکے سوال پہ ایک پل کو وہ گڑبڑا گئی۔ سوال بلکل غیر متوقع تھا۔
“نہ ۔۔۔ نہیں۔ سونے کے بعد میری آنکھ نہیں کھلتی جانتی تو ہو تم۔” نا جانے کیوں اسنے وضاحت دی۔
“تو کوئی بات نہیں۔ تم جب بھی سونے جاتی ہو پہلے تہجد پڑھ لیا کرو پھر سویا کرو۔ دیکھنا پھر آہستہ آہستہ تہجّد میں بھی آنکھ کھلنے لگے گی۔ ” دوبارہ آئے پیغام کو پڑھ کر وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ عجب اُلجھن تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہے یا نہیں۔
“لیکن ۔۔۔ “
“لیکن کیا؟ “
“م ۔۔۔ میں نماز نہیں پڑھ پاتی۔ میرا دل نہیں لگتا۔ میں چاہ کر بھی نماز توجہ سے نہیں پڑھ پاتی۔ میں رکعت بھول جاتی ہوں تو کبھی سورۃ بھول جاتی ہوں۔ کبھی ذہن بھٹک بھٹک کر کہیں اور چلا جاتا ہے۔ کبھی نماز پڑھتے پڑھتے کہیں اور کھو جاتی ہوں۔ ” ٹائپنگ کرتے وقت اُسکے چہرے پر شرمندگی واضع تھی۔
“تو کوئی بات نہیں۔ جب بھی نماز پڑھا کرو اتنی بلند آواز میں پڑھا کرو کہ تمھارے کانوں تک تمھاری آواز پہنچ جائے۔”
“نماز میں بہت سکون ہے عزم۔ اللّٰہ تمھاری ساری اُلجھنیں دیکھنا سُلجھا دیگا۔ رونا ہو تو نماز میں رو لیا کرو اللّٰہ کے آگے بہائے گئے آنسوں کبھی بے مول نہیں ہوتے وہ محبت سے تُمہارے سارے آنسوں پونچھ لے گا۔ اور بدلے میں تمہیں سکون بخش دے گا۔ نماز میں اللّٰہ کے آگے رونے کے بعد جو سکون ملتا ہے نا وہ سکون کہیں بھی حاصل نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے وہ ذات چاہتی ہو کے تم اس کی طرف لوٹ آؤ اسلئے یہ ساری اُلجھنیں ہوں۔” پیغام پڑھتے ہی پھر سے اُسکی آنکھوں میں نمکین پانی بھرنے لگا تھا۔
“شُکریہ زمر۔ تم وہ واحد بندی ہو جو مجھے ویسے سمجھتی ہو جیسی میں ہوں۔ تُمہارے آگے مجھے وضاحتیں نہیں دینی پڑتی۔ شُکریہ تم اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ایک بہترین تحفہ ہو۔ “
“شُکریہ کی کوئی بات نہیں۔ اللّٰہ نے مجھے بس ذریعہ بنایا ہے۔ شاید میں نہیں تو کوئی اور ہوتی۔ اب چلو اٹھو شاباش وضو کر کے تہجد پڑھنے بیٹھو۔ پھر سو جانا۔”
“ہاں بس جا رہی ہوں۔”
اسنے موبائل رکھا اور وضو بنانے چلی گئی۔ واپس آکر تہجّد ادا کیا اور ناجانے کتنی ہی دیر بے آواز آنسوں بہاتی رہی۔ جب دل ہلکا ہوگیا تو جائے نماز سمیٹ کر واپس بستر پر لیٹ گئی۔ اب چہرے پر تھکن نہیں بلکہ لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
“شُکریہ اللّٰہ تعالٰی مجھے زمر جیسی دوست دینے کے لئے۔” اسنے سچے دل سے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا زمر جیسی دوست واقعی قسمت والوں کو ملتی ہیں۔ پھر اس نے اپنی انکھیں موند لیں۔ نیند نے جلد اُسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ ایک پُر سکون اور حسین صبح اُسکی منتظر تھی۔
                                 **********
اسنے اپنی بات مکمل کر کے اُسکی طرف دیکھا۔ اُسکے دیکھنے پر وہ دھیرے سے مسکرائی۔
” آپ نے واقعی سچ کہا تھا مجھے اس سے کافی مدد ملی ہے بلکہ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جوابات مل گئے۔ آپکا بہت شکریہ۔ آپ میرے لیے میری زندگی میں زمر بن کر آئی ہیں۔ ” اسنے تشکر بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اُسکے چہرے پر سکون کی لہریں دیکھ کر وہ مطمئین ہوگئی۔
“شُکریہ کی کوئی بات نہیں۔  شاید اللّٰہ تعالٰی نے تمھاری رہنمائی کا ذریعہ مجھے بنایا تھا تبھی تو یہاں تم مجھے ملی اگر وہ نہ چاہتا تو شاید میری تم پر نظر ہی نہیں پڑتی۔” اسنے مسکرا کر اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی بخش انداز میں کہا۔
” بس اللّٰہ تعالٰی نے مجھے رہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے باقی آگے کا سفر تمہیں خود طے کرنا ہے۔ جلد یا بدیر یہ تم پر ہے۔”
“لیکن آپ ۔۔۔ آپ نے میری مدد کیوں کی؟ میرا مطلب ہے آپ تو مجھے جانتی بھی نہیں ہیں۔ آج کل کوئی اپنوں کی مدد نہیں کرتا پھر میں تو آپ کے لیے انجان تھی۔” اسنے کب سے اپنے ذہن میں مچلتے سوال پوچھ ہی لیئے۔
“سچ کہوں تو بس دعاؤں کی لالچ میں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ویسے بھی اللّٰہ تعالٰی مدد کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اب میں چلتی ہوں بہت دیر ہوگئی ہے اپنا خیال رکھنا پیاری اللّٰہ حافظ۔” اس سے مصافحہ کرتی اپنا بیگ کندھے پر ڈال کر وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
” آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔ خدا حافظ۔” وہ ہاتھ ہلا کر اللّٰہ حافظ کہتی ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گی۔
جیسے ہی ہاتھ میں موجود موبائل کی نوٹیفکیشن چیک کی یک پل کو پھر سے قدم منجمد ہوگئے۔ پھر آسمان کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھ کر اپنا حلق تر کرتی پھر سے موبائل کی طرف نظریں کی اور کسی کا نمبر ڈائل کیا تھا لیکن توقع کے عین مطابق کال اٹینڈ نہیں کی گئی تھی۔
“یا اللّٰہ میں نے کہا تھا مجھے بچا لینا۔ آپ نے ایک طرف سے تو بچا لیا لیکن دوسری طرف کا کیا۔ اب پورا دن اسکے تانے سننے پڑیں گے لیکن خیر سن لوں گی حق ہے اسکا اور غلطی بھی میری ہی ہے۔” وہ اپنے آپ میں بڑبڑاتی دل ہی دل میں آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتی اپنے ڈیرے کی طرف بڑھی۔ جانتی تھی وہ وہی موجود ہوگی اور وہ واقعی موبائل ہاتھ میں تھامے بینچ پر منہ لٹکائے بیٹھی تھی۔ اسنے ایک بار پھر آسمان کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
“ہائے۔ کیسا ہے میرا بچہ؟”
“بکواس نہیں کرو۔ اور اپنی شکل گم کر لو جہاں مصروف تھی وہیں چلی جاؤ واپس”
“اوّ میرا بچہ گوشہ ہے۔ ایم سوری نا۔۔ میں بس وہاں۔” اسنے اُسکے دونوں گال کھینچتے ہوئے بچوں کے انداز میں پچکارتے ہوئے کہا۔
“سوری؟ تم نے اپنا موبائل تو آخر چیک کیا ہی ہوگا؟ پھر بھی سوری؟ ” بھویں اُچکا کر سوال کیا۔
“ہاں میں نے چیک کیا تھا۔” معصومیت سے جواب دیا گیا۔
“کتنے نوٹیفکیشنز تھے؟”  دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر پوچھا۔
“تیس مسڈ کالز اور فورٹی پلس میسیجز۔ ” اسنے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا۔
“پھر بھی تم اتنی ریلیکس ہو؟ تمہیں اندازہ بھی ہے عزم میں کتنا ڈر گئی تھی؟ تم نے ایک میسج کا جواب نہیں دیا۔ ایک بھی کالز اٹینڈ نہیں کیں۔ پہنچ کر میسج کیا پھر غائب۔ ” نروٹھے انداز میں کہتے ہوئے وہ اپنا رخ موڑ گئی۔
“اچھا نا زمر ۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا پکا۔۔ ” عزم نے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے باقائدہ  اُسکے کان پکڑ لیئے۔
“کتنی بار کہا ہے اپنے کان پکڑا کرو۔ معافی بھی مجھ سے مانگے گی اور کان بھی میرے پکڑے گی حد ہے۔ پتا نہیں ایسے کون معافی مانگتا ہے۔ ” زمر نے تپ کر اُسکا ہاتھ اپنے کانوں سے ہٹایا۔
” میں ۔۔۔ ایسے عزم معافی مانگتی ہے۔ ” اسنے کھلکھلا کر کہا اور زمر کی دی گئی لعنت کو سر خم کر کے قبول کیا۔
“ویسے تم ڈر کیوں گئی تھی؟ میں کونسا بچی ہوں جو میں نے گم ہوجانا تھا۔” اسنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے پوچھا۔
“جانتی ہوں گم نہیں ہوتی۔ مجھے لگا تھا کہیں پھر سے تمہیں دورے تو نہیں پڑ گئے جو وقفے وقفے سے تمہیں پڑتے رہتے ہیں۔” اسنے تپ کر کہا۔
“زمر کی بات سنتے ہی اُسے اُس پر ڈھیروں پیار آیا اور لگے ہاتھوں اسنے پھر سے اُسکے دونوں گال کھینچ ڈالے۔ یہ اُسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
“دفاع ہوجاؤ تم ۔۔۔ اتنی تکلیف ہوتی ہے ایک بار تمھارے گال ایسی کھینچوں نا تو تمہیں پتا چلے۔” زمر نے اُسکے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے گالوں پر رکھے۔
“تم بھی کھینچ لو میں نے کونسا منا کیا ہے۔” ڈھیٹائی سے کہا۔
“تم سے اللّٰہ پوچھے عزم۔ “
“جی بلکل اللّٰہ ہی پوچھے گا۔” وہ کہتے ہوئے سامنے گرینری دیکھنے لگی۔
” ویسے زمر ایک بات تو بتاؤ ” اسنے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“پوچھو۔” زمر نے بھی نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا۔
“میری خاموشی ٹھیک یا میری ہر وقت کی بک بک؟ ” اسنے دلچسپی سے سوال کیا۔ بقول زمر کے جب اُسے کبھی کبھی دورے پڑتے تھے تو وہ بلکل خاموش ہوجاتی تھی کچھ بھی نہیں کہتی بس ہاں ہوں میں جواب دیتی تھی۔ لیکن جب اُسکا موڈ ٹھیک ہوتا تب وہ بول بول کر زمر کا دماغ کھا جاتی تھی۔
“تو بول لیا کر پلیز تیری بک بک تو برداشت ہے لیکن تیری خاموشی میری جان لینے پر آجاتی ہے۔ تو بول لیا کر پلیز۔” زمر نے باقائدہ اُسکےآگے ہاتھ جوڑ دیے تھے اور  اُسکے اس انداز پر عزم کا فلک شگاف قہقہ فضاء میں بلند ہوا۔
                               ختم شد

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Khud se Khuda Tak”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?