تبدیلی جب بھی آتی ہے پورے کروفر سے آتی ہے اور انسان کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ اس تغیر کو پوری روح سمیت قبول کرلیتاہے ۔ عجب مائع صفت ہوتا ہے آدمی بھی۔ ڈھلتا جاتا ہے اور مسخ بھی نہیں ہوتا
یہ داستانِ عشق ہے ۔ وہ عشق جس کی تاثر منکرین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اور پھر ان کے پاس اسی عشق کو اوڑھ لینے کے سواء کوٸ چارہ نہیں ہوتا۔ اس کہانی کے کردار آپ کو یہی عشق اوڑھتے نظر آٸیں گے۔ کچھ خاموش محبتیں جن کی خاموشی فضا میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لیکن انسان ٹھہرا صدا کا نافہم جو اس خاموشی کو محسوس کرنے میں صدیاں لگا دیتا ہے۔ ماضی کے کچھ ایسے ناسور جو وبال جان بن جاتے ہیں۔ اور پھر صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
کبھی کبھی حالات انسان کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اور جب وہ انہیں شکست نہیں دے پاتا تو اپنے ارد گرد ایک تصوراتی دنیا بنا لیتا ہے۔ اس نے بھی ایسی ہی ایک دنیا بسا لی تھی جس میں وہ سب تھا جو۔۔۔۔
شرافت کے شجرے کسی کے ماتھے پر سجے نہیں ہوتے نہ ہی نجابت کسی کی میراث ہے مگر عمر کی محبت کو نجیب الطرفین ہونے کی کسوٹی پر پورا اترنا تھا جسے کیچڑ میں کھلے ایک کنول نے اسیر کر لیا تھا
زندگی کے سیدھے سادے راستے پر چلتے چلتے اچانک مل جانے والے سمعان گردیزی نے آرش حسن کواپنا رستہ بھلا دیا تھا۔ حقیقت کے دبیز اندھیرے میں اک حسین خواب کی روشنی پھیلنا چاہتی تھی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں کیے گئے ایک اندھے فیصلے کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سزاوار تھی
زخرف اعجاز کے دل کی گہرائی میں کون کون سے راز چھپے ہوئے ہیں یہ جاننا منصور کے لیے سہل نہ تھا۔اس کے لیے تو وہ خود ایک سربستہ راز تھی جواپنوں کی خاطر ایک کڑی مسافت طےکر رہی تھی۔ جسےعلم نہ تھا کہ منزل کی تلاش میں وہ ایک سراب کا تعاقب کر رہی ہے
محبت کرنے والوں کو دکھ دیتے ہوئے اس نے گمان بھی نہ کیا تھا کہ مکافات عمل کا وقت بھی آئے گا۔پورے راستے اس کے اندر جھکڑ چلتے رہے۔ غصہ نفرت جوش اور تاسف اس کے اندر سر پٹختارہا تھا مگر جس لمحے وہ اندر داخل ہوا سارا شور ایک سکوت کے زیر اثر آگیا
کچھ لوگ اپنی بے سکونی کا علاج دوسروں کو بے سکون کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ہر بار قسمت یاوری نہیں کرتی کبھی کبھی وہ کچھ بھی ہوجاتا ہے جس کا انسان گمان بھی نہیں کرسکتا
وقت کا سیل رواں یونہی گزر رہا تھا کبھی کوئی لہر انہیں قریب لے آتی اور کبھی کوئی موج دور پٹخ دیتی ۔دونوں ہی ضدی تھے ایک کی مانگنے کی خو نہیں تھی تو دوسرا بن مانگے دینے کا عادی نہیں تھا
محبتوں کی پرکھ نہیں کی جاتی نہ ہی رشتے آزمانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہر شخص ہمارے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا اس لیے اسے آزمائش میں ڈالنا زیادتی ہے مگر عشیر نے اس کی وفا کو امتحان میں ڈال دیا تھا جس نے محبت کا گھروندہ ابھی بنایا بھی نہیں تھا