تعلقات کی الجھن میں وہ ایک ڈور جو کہیں پہلے ہی چھوٹ گئی تھی کیا اسے بھلا دیا گیا یا اسی کے سہارے زندگی گزاری گئی۔ ڈور کا دوسرا سرا ملنا ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتا مگر کیا وہ عزیزم اس کے مقدر میں تھا؟۔۔۔ وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی کچھ مضطرب سی نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ موبائل کی وائبریشن نے ایک بار پھر اس کی دھڑکن تیز کی تھی۔ ہاں وہی پیغام تھا یہ۔ یہ سلسلہبہت پرانا تھا۔ وہ لڑکا فون پر بات کررہا تھا جب اسے کسی نے پکارا تھا۔ وہ پیچھے مڑا تو برف کا پتلا بن گیا تھا۔ نہیں یہ اس کا خواب نہیں تھا۔ اس بار یہ اسکا خواب نہیں تھا وہ واقعی وہاں موجود تھی۔
ایک لڑکی کے نام جس نے اپنی خواہشات کو اپنی پہلی ترجیح بنایا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو غلط استعمال کیا اس لڑکی کے نام جس نے خود سے جنگ کی ضمیر کی جنگ اور خود کو معاف کیا ہر غلطی ہر گناہ کے لیے.
نایاب جمال شاہ اور زارم سلطان کی بے لوث محبت اور کچھ کٹھی میٹھی نوک جھوک سے بھری ہلکی پھلکی تحریر۔ کہانی میں آپ ملیں گے کچھ چلبلے کرداروں سے جیسا کہ بازل، سیمل اور راجہ جو بخوبی چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دے گے۔
کہانی کا ایک خاص حصہ اصل زندگی کے واقعات پر مبنی ہے جو ہماری عام زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسا کہ پیشن اور پروفیشن کے بیچ کی کشمکش۔
ایک طرف کہانی چار دوستوں کے گرد گھومتی ہے اور دوسری طرف دو گھرانوں کے اب جاننا یہ ہے کہ ان کی زندگیاں آپس میں کیسے الجھتی ہیں اور ان الجھنوں کو کیسے سلجھایا جاتا ہے
یہ کہانی “ملک ہاؤس” کے مکینوں کے مابین گردش کرتی ہے۔اس میں کوئی ایک “خاص”کردار نہیں ہے جس پر یہ کہانی مختص ہو بلکہ اس کہانی کے ہر کردار کی اپنی ایک الگ کہانی ہے جسے پڑھ کر یقیناً آپ کافی لطف اندوز ہوں گے
شہرِ فلسطین پر لکھی گئی ایک ایسی تحریر جو صرف چند کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس تحریر کا ایک ایک لفظ انبیاء کی سرزمین پر پلتے لاکھوں حقیقی کرداروں کا عکس ہے۔
عکس لکھا گیا ہے کیوں کہ شہر شہداء کے وہ لوگ آخر میں اپنے دشمنوں کی باتیں نہیں بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی کو یاد رکھیں گے۔