Qartaas Dill

قرطاس دل۔۔۔ چند نظموں ٹوٹے پھوٹے لفظوں پہ مشتمل کتاب۔۔۔ یہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ پہ مشتمل ہے۔۔۔۔ میری زندگی کے بہت سے سخت اوقات کی بھٹی میں جلنے کے بعد یہ الفاظ تحریر ہوئے ہیں۔۔۔ اس کا انتساب میں اپنی فیملی کے نام کروں گی جنہوں نے کبھی میرے قلم کو روکا نہیں۔ اور پیاری ہستی آپی عاطفہ رفیق جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر انکی یادیں ہمہ حال میرے ہمراہ ہیں۔ میری پہلی کاوش پہلے افسانے کو کتابی شکل میں مجھ تک انہوں نے پہنچایا تھا۔ جس جس تک قرطاس دل پہنچے ان سب سے استدعا ہے کہ میرے والد گرامی اور آپی عاطفہ کیلئے دعائے مغفرت فرما دیں
Ask for More Information

Meet The Author

Qartaas Dill  written by Riffat Fatima

قرطاس دل۔۔۔ چند نظموں ٹوٹے پھوٹے لفظوں پہ مشتمل کتاب۔۔۔ یہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ پہ مشتمل ہے۔۔۔۔ میری زندگی کے بہت سے سخت اوقات کی بھٹی میں جلنے کے بعد یہ الفاظ تحریر ہوئے ہیں۔۔۔ اس کا انتساب میں اپنی فیملی کے نام کروں گی جنہوں نے کبھی میرے قلم کو روکا نہیں۔ اور پیاری ہستی آپی عاطفہ رفیق جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر انکی یادیں ہمہ حال میرے ہمراہ ہیں۔ میری پہلی کاوش پہلے افسانے کو کتابی شکل میں مجھ تک انہوں نے پہنچایا تھا۔ جس جس تک قرطاس دل پہنچے ان سب سے استدعا ہے کہ میرے والد گرامی اور آپی عاطفہ کیلئے دعائے مغفرت فرما دیں 🖤

Riffat Fatima is a new Social Media writer and now her Novels/Poetry are being written with Novels Hub. Novels Hub is a new platform for new or well known Urdu writers to show their abilities in a different genre of Urdu Adab.

Regards

Novels Hub

Downloading Link

Complete Poetry Collection Qartaas Dill Online Reading

کھڑکی کی چوکھٹ پہ بیٹھی دیکھ رہی ہوں
آدھا افق اور پورا چاند
چند ستارے مدھم ماند
چاند کی ریشمی کرنوں میں
ہاتھ پھیلائے
ہاتھ کی ریکھا کھوج رہی ہوں
آدھا مقدر پوری ریکھا
آدھی خوشیاں پورے دکھ
سانس کے دریا کی لہروں کے
مدھم سرگم میں گم ہوں
اور سوچ رہی ہوں
سانس کے دریا کے طوفاں میں
کتنا تیر چکی ہوں میں
اور اب ڈوبنا چاہتی ہوں
کھڑکی کی چوکھٹ پہ میری
چاند دھرا ہے
خواب ہیں اور کچھ تعبیریں ہیں
چند ستارے مدھم سے ہیں
یہ سب کل متاع ہیں میری
لیکن اب۔۔۔۔
یہ سب چھوڑنا چاہتی ہوں
نیند گگن پہ دور کہیں
میں گم ہوجانا چاہتی ہوں
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
تیری چاہ کی راہ میں
دل میرا مسافر ہے
تیری آرزو کے اس
دشت بے کنارا میں
زاد سفر سانسوں کی
ختم ہوتی جاتی ہے
ایک ایک ہچکی پہ پاؤں لڑکھڑاتے ہیں
گرد میں مسافت کی
سانس الجھے جاتے ہیں
🌺🌺🌺🌺🌺
میرا عقیدہ یہی ہے سائیں
وفا کا بدلہ وفا ہے سائیں
مگر یہ دنیا کہ اسکی رسمیں
الگ تھلگ ہیں جدا ہیں سائیں
وفا کا بدلہ جفا یہاں پر
محبتیں بھی خفا ہیں سائیں
🌺🌺🌺🌺🌺
درد بڑھتا جاتا ہے
سانس مرتی جاتی ہے
اور کتنا چلنا ہے؟
طلب کی مسافت میں؟
راحتوں کی چاہت میں
کب نظر میں آئے گا؟
ریگزار میں دریا
دشت کی سیاحی میں
پاؤں تھکتے جاتے ہیں
پیاس بڑھتی جاتی ہے
انتظار کے در ۔ اب۔۔۔
بند ہوتے جاتے ہیں
اور تیرے آنے کی
آس مرتی جاتی ہے
🌺🌺🌺🌺🌺
پوچھتے ہو کیا ہم سے؟
ہم کہاں پہ رہتے ہیں؟
کا نگر ٹھکانہ ہے؟
تو سن لو غور سے جاناں
ہم تیری راہگزاروں میں
خاک بن کے بستے ہیں
ٹھوکروں میں رہتے ہیں
🌺🌺🌺🌺🌺
تیری پریت کی بھول بھلیوں میں
یونہی بستی بستی گلیوں میں
میں عشق کی ظالم نگری میں
اپنی ذات گنوا بیٹھی
تیرے نام کی مالا جپ بیٹھی
اور دل کو روگ لگا بیٹھی
ہائے عشق کے تپتے صحرا میں
میں خیمہ ایک بسا بیٹھی
اب ہجر کا گہرا جنگل ہے
اور درد کی گہری تاریکی
اب آنکھیں دکھ سے اندھی ہیں
اور زباں پہ بھاری تالے ہیں
اب دل رک رک کے چلتا ہے
کبھی چلتے چلتے رکتا ہے
اور عشق کے تپتے صحرا میں
جو خیمہ بسائے جوگن ہے
جو دھونی رمائے روگن ہے
وہ جوگ اور روگ کی مالا میں
سانس الجھائے پھرتی ہے
اور پل پل جیتی مرتی ہے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
تیرے پریم دی راہ وچ رل بیٹھی
بس یاد رہیا مینو مکھ تیرا
میں باقی سب کج بھل بیٹھی
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
دھوپ کی تمازت سے
تن پگھلتے جاتے ہیں
چاہتوں کا صحرا یہ
بے نشاں سا لگتا ہے
کتنا چل چکے ہیں ہم؟
کتنا جل چکے ہیں ہم؟
کتنا سفر باقی ہے؟
اور کب تک جلنا ہے؟
یہ کہاں کوئی جانے؟
عشق ریگزاروں کے
راستوں کے نقشوں کو
کون جان پایا ہے؟
نارسا تمنا کی آگ کے الاؤ میں
کب تلک ہے جلنا اب؟
کب تلک سلگنا ہے؟
اور کوئی کیا جانے؟
اس آگ کے الاؤ میں
جب جل چکیں دریدہ دل
تب راکھ ہوں کہ کندن ہوں؟
عشق امتحانوں کے بے خبر نتائج کو
کون جان پایا ہے؟
ہیر ہو یا سسی ہو
ماروی یا سوہنی ہو
سب عشق گزیدوں کی
داستاں میں لکھا ہے
عشق ریگزاروں کی
بے سمت مسافت کی منزلیں نہیں کوئی
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
انا میں مبتلا رہنا
کسی کی چاہ نہ رکھنا
سبھی سے بد گماں رہنا
مگر شکوہ نہیں کرنا
میں ایسی تو نہیں تھی
پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایسی ہوگئی کیونکر؟
میں وہ تھی جس کے ہونے سے
نبض چلتی تھی محفل کی
میرے ہی دم سے تھی رونق
بہار بزم یاراں کی
میں وہ خوش رنگ گل تھی کہ
جس سے سجا کرتا تھا گلشن بھی
اور اب یہ حال ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سب رنگ بے رنگ ہوچکے ہیں
بہار بزم یاراں محفلیں اب بھی جواں ہیں
پر۔۔۔۔۔۔۔
میری سب خوش نوائی قہقہے
اب کھو چکے ہیں
میرے سب خواب مردہ ہوچکے ہیں
میرے سب خال و خط
بیتے دکھوں کی گرد میں
دھندلا چکے ہیں
اور اب میں۔۔۔۔
میں۔۔۔۔ کہ جس کی چشم نے
گریہ کا رخ دیکھا نہ تھا
اب اشکوں کی لڑی کو۔۔۔
کاٹتے۔۔۔۔
سیتے۔۔۔۔
پروتے جی رہی ہوں
بہت سے مردہ خوابوں کو
روزانہ کفن دیتی ہوں
روزانہ دفن کرتی ہوں
اور پھر اس معمول سے
کچھ دیر فرصت جو ملے مجھ کو
تو۔۔۔۔۔۔۔۔
دامن چاک کرکے
دشت در دشت گھومتی پھرتی ہوں
کہیں تھک کر
کسی ٹیلے کی چھاؤں میں
بیٹھ کر یہ سوچتی ہوں
محبت میں اگر یہ نارسائی ہی مقدر ہے
فقط یہ آبلہ پائی مقدر ہے
تو پھر یہ کیونکر ہوتی ہے؟؟؟
محبت کیونکر کھوتی ہے؟؟؟
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
لفظ جھوٹے ہوتے ہیں؟
یا لوگ جھوٹے ہوتے ہیں؟
حرف حرف وعدوں کے
جال بنتے رہتے ہیں
ساتھ ساتھ چلنے کے
عمر بھر نبھانے کے
خود کو وار جانے کے
رنگ جو پھیلاتے ہیں
کیسے بھول جاتے ہیں؟؟؟
ان جال جال وعدوں کے
رنگ رنگ دعووں کے
سب لفظ سچے ہوتے ہیں
پر۔۔۔۔۔۔
لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔۔۔۔
یا پھر۔۔۔۔
لوگ بھی یہ صادق ہیں ۔۔۔۔
حالات ظالم ہوتے ہیں۔۔۔
ہاں یہی تو سچ ہے کہ
وقت کے طوفانوں میں
قسمتوں کے چکر میں
کون ٹھہر پایا ہے؟
جب زندگی ہی فانی ہے
تو کیوں کہیں کہ وعدوں کے
یہ لفظ جاودانی ہیں؟؟؟
زندگی کے رنگوں میں۔۔۔۔
جھوٹ کچھ۔ نہیں پیارے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
زندگی محبت ہے
زندگی ہے نفرت بھی
زندگی تو آنسو ہے
اور ایک مسکراہٹ بھی
زندگی دریچہ ہے
روشنی کا روزن بھی
زندگی اماوس ہے
گھور کالی سیاہی سی
زندگی تو رستہ ہے
اور اک مسافر بھی
زندگی ہی رہبر ہے
زندگی ہی ہے رہزن
زندگی سمندر ہے
زندگی ہے صحرا بھی
زندگی کو جی لیں تو
چار دن کی لگتی ہے
زندگی کو جینے کو
دل اگر نہ چاہے تو
ایک ایک پل اسکا
صد برس کا لگتا ہے
زندگی کچھ بھی نہیں
اور یہ سبھی کچھ ہے۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وقت کے اندھیروں نے
زندگی کی خواہش کو
خوشنما سے خوابوں کو
آنکھ کے چراغوں کو
ذہن کی اڑانوں کو
اس طرح سے نوچا ہے
اس طرح رگیدا ہے
اس طرح بجھایا ہے
اس طرح مٹایا ہے
کہ اب اگر میں سوچوں تو
سانس تھمنے لگتی ہے
خواہشوں کے جگنو کو
وقت کے آسیبوں نے
اس طرح ڈرایا ہے
کہ میری بستی میں اب تک
جگنوؤں کی بندش ہے
دھنک رنگ سے خوابوں کو
وقت کے شکنجوں نے
اس طرح سے مسلا ہے
کہ خوابناک آنکھوں میں
خواب ہی نہیں آتے
آنکھ کے چراغوں کو
وقت کی ہواؤں نے
اس طرح بجھایا ہے
کہ اب تو میری آنکھوں میں
تیرگی کے ڈیرے ہیں
ذہن کے پرندے کے
وقت کے شکاری نے
پر کچھ ایسے کاٹے ہیں
کہ قفس میں نہ ہوکر بھی
وہ مقید لگتا ہے
اب اگر میں سوچوں تو
مجھ کو ایسا لگتا ہے
وقت ساہوکارا ہے
اور ہماری زندگیاں
اس میں گروی رکھی ہیں
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
عشق کے رنگ گہرے ہوں
انا کی گہر چھٹ جائے
وفا کے آئینے پھر سے
دھل کر جگمگا جائیں
دعا ہے اب میری رب سے
کہ دے دے پیار کی بارش
کہ اس دھرتی کے چہرے سے
ظلم کی دھول مٹ جائے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
زرد رت ہے اجاڑ موسم
کہیں نہیں زرنگار موسم
رہے سدا ہم خزاں رسیدہ
کبھی نہ آئےبہار موسم
ہماری آنکھوں کی پتلیوں پر
ٹھہر گئےانتظار موسم
وقت تو جیسے تھم گیا تھا
مگر رہے بیقرار موسم
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
گزرتے وقت کے ساحل پہ
میرے کمزور ہاتھوں نے بنایا ہے
خوابوں کا بہت چھوٹا پیارا سا گھروندہ
اس چھوٹے سے گھروندے میں
کچھ خواب ہیں آدھ ادھورے سے
کچھ ٹوٹی پھوٹی تعبیریں
کچھ اندھے دکھ بہرے افسوس
عمر رواں کے ساگر میں
گزرتے وقت کی لہریں
میرے ننھے گھروندے کو
بوسیدہ بنائے جارہی ہیں
پھر اک دن ایسا ہوگا کہ
اک لہر بڑی سی آئے گی
اور سب کچھ سنگ لے جائے گی
وہ بوسیدہ سا گھروندہ بھی
وہ خواب بھی آدھ ادھورے سے
وہ ٹوٹی پھوٹی تعبیریں
وہ اندھے دکھ بہرے افسوس
وہ سب بہا لے جائے گی
ہم نادانوں کے ہاتھوں میں
بس ریت پھسلتی جاتی ہے
بس ریت پھسلتی جائے گی
اور کچھ نہ نفع دے پائے گی
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
میری چاہت محبت اور الفت
بنا کر جوگیوں سا بھیس اب تک
تیری اس واپسی کی راہ گزر پہ
پلک جھپکے بنا اور سانس روکے
کہ برسوں سے تیری ہیں منتظر یہ
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
تو جو دیکھ لے مجھے اک نظر
میرے ہم نشیں میرے ہم نفس
میری چاہتوں میں غریق ہو
کبھی ایک پل میرے ہم نفس
تیری ایک پل کی آزردگی
مجھے مار دے میرے ہم نفس
تیری اک خوشی تیری اک ہنسی
تیری گفتگو تیری سادگی
میرے سب دکھوں کو سمیٹ لے
میرے سب غموں کو
بھلا سا دے
میری جان تجھ پہ نثار ہو
مجھے چاہ تیری ہے ہم نفس
میری ہے دعا میرے ہم نفس
تیری سب ہنسی تیری ہر خوشی
رہے تاابد میرے ہم نفس
تو جو چاہے تجھ کو ملا کرے
ہو نہ رد دعا تیری ہم نفس
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وقت کی روانی نے
دل بدل دیا لیکن
دل میں بستی امیدیں
آج ۔۔۔۔ اب بھی ویسی ہیں۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
محبت ایک آنسو ہے
سلگتا آنکھ میں بستا
کبھی بہتا نہیں ہے یہ
نہ ہی خشک ہوتا ہے
ہمیشہ آنکھ میں رہتا ہے
اور تکلیف دیتا ہے
محبت ایک آنسو ہے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
چلو پھرآؤ چلتے ہیں
خزاں کے دیس میں یارو
کہ اب ہم دل دریدوں کے
بہاروں کے چمن میں گزارے ہو نہیں سکتے
کہ ہم دل گزیدوں کی سماعت کو تو عادت ہے
خزاں کے زرد پتوں کی
نوحہ خواں سرگوشیاں سننے کی
بہاروں کے چمن میں کنج گل کی
گل افشانیاں ہم سہہ نہیں سکتے
نہ ہم اہل چمن کی من مانیاں
برداشت کرتے ہیں
تو چلو پھر لوٹ چلتے ہیں
خزاں کے دیس میں یارو
جہاں ہر کوئی۔۔۔۔۔۔
بہت گم صم بہت چپ چاپ رہتا ہے
کسی کا نہ کسی سے واسطہ یا رابطہ کوئی
چلو یارو۔۔۔
چلو پھر لوٹ چلتے ہیں
جہاں سب کی اپنی ہی
الگ سے راجدھانی ہے
ہمیں اس دیس کی ہی بس
فضائیں راس آنی ہیں
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
میرے ہم نوا
تیرے عشق سے
تیری چاہ سے
یہ بہت ہی پہلے کی بات ہے
میں بے رنگ تھی میرے ہم نوا
پھر یوں ہوا
تیری چاہ کی قوس قزح مجھ میں آبسی
تیرا رنگ مجھ کو رنگ گیا میرے ہم نوا
تیری چاہ کا رنگ سبز تھا
نہیں سرخ تھا
جانے قرمزی
جانے زرد تھا
جو بھی رنگ تھا میرے ہم نوا
میرے بے رنگ سے خال و خط کو
وہ سات رنگوں سے بھر گیا
وہ رنگ تیری وفا کا تھا
وہ رنگ تھا تیری چاہ کا
وہ تھا رنگ تیرے ہی عکس کا
میری بے بصر سی بصارتوں میں جو آبسا
میری کائنات حسیں ہوئی میرے ہم نوا
میری زندگی میں
رنگ بھرنے کا شکریہ
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
گرما کی دوپہروں میں
کبھی جو سوچنے بیٹھوں
میری چشم تصور بچپنے کی
لوریاں جب گنگناتی ہے
تو چھم سے کئی منظر
ذہن کے آئینے پہ جھلملاتے ہیں
سماعت پر بہت بوسیدہ سی سرگوشیاں
آواز بن کر رقص کرتی ہیں
اور اس مادہ پرستی کے
دور بے حسی سے دور
اک چھوٹے سے گاؤں کی
کسی کچی گلی میں کھیلتے بچے
کسی برگد کی پدرانہ سی چھایا میں
گزشتہ دور کے قصے سناتے
گاؤں کے سبھی بوڑھے
وہاں سے دور
تھوڑا دور
ذرا اگلی گلی میں تندور پہ
گاؤں کی سب ہی عورتیں
دکھ سکھ بانٹتیں
اور روٹیاں لیکر اپنے گھر کو چل دیتیں
وہاں سے ہٹ کے گاؤں سے زرا باہر
اک بوڑھا سا کنواں
جس یہ اک بوڑھے سے شیشم کی
پر شفقت سی چھایا میں
ہنستی مسکراتی سرگوشیاں کرتیں
گاؤں کی سبھی البیلی سی مٹیاریں
اور پھر کنویں سے زرا سا دور
چند قدموں کی مسافت پہ
بہت ہی دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں
مٹی کو جفاکش ہاتھ سے کندن بناتے
گاؤں کے سبھی گبھرو جواں
بہت سادہ سے تھے سب ہی
بہت بافیض تھے سب ہی
مروت تھی سبھی میں اور
بہت بے غرض تھے سب ہی
سنہرا وقت تھا وہ اور
سنہرے لوگ تھے سب ہی
اور اب۔۔۔۔۔۔
زمانہ تیز تر سے تیز تر ہے
احساس مروت ختم ہے
اور سب بہت بے فیض ہیں اب
کسی کے پاس فرصت ہی نہیں
کہ لمحہ بھر کو ٹھہرے اور
کسی کی آنکھ میں پوشیدہ آنسو کو
ذرا پونچھے
دلاسہ دے تسلی دے
اور کبھی اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرما کی دوپہروں میں
ذرا میں سوچنے بیٹھوں
تو آنکھیں جھلملاتی ہیں
فقط اک سانس بھرتی ہوں
اور خود سے یہ ہی کہتی ہوں
کہ گزرا وقت ہے وہ اور
گزرا وقت لفظوں میں بیاں کر کے
میں واپس لا نہیں سکتی
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
زندگی کے جھنجھٹ میں
مشکلوں کی تلخی میں
دل میرا یہ بچہ سا
سوچتا ہے گھبرا کر
دور پربتوں پہ کہیں
جابسیرا کر بیٹھوں
جہاں چاند میرا جھولا ہو
جھلملاتے تاروں کی
نرم میٹھی لوری میں
آنکھیں موند سو جاؤں
دور پربتوں پہ کہیں
چاندنی میں کھو جاؤں
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
اے وطن تو ہمیشہ سلامت رہے
مسکراہٹ تیری تا قیامت رہے
ہوں نہ آنسو کبھی نہ اداسی رہے
تیری آنکھیں سدا مسکراتی رہیں
خوں بہاتے رہیں گے تیرے جانباز
تیرے گالوں کی لالی سلامت رہے
تیرا پرچم بلند ہو بلند تر ہو
نہ کبھی یہ جھکے نہ کبھی خم ہو
تیرا سر نہ جھکے گا کبھی اے وطن
تیرے جانبازوں نے یہ ہے کھائی قسم
دفن ہوتے رہیں گے پہاڑوں میں ہم
اور لیتے رہیں گے برف کا کفن
چاہے ہوں ہم فنا چاہے کٹتے رہیں
تو سلامت رہے گا خدا کی قسم
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
میرے جری جواں میرے جری جواں
جان اپنی ہتھیلی پہ رکھے ہوئے
سرحدوں پہ پہاڑوں پہ صحراؤں میں
وہ جو کردیں فدا
اپنی نیند اپنا چین اپنا سکھ اپنا گھر
ملک و ملت کی خاطر پھریں در بدر
ان سے ہم کو محبت بھی ہے بے پناہ
اپنے دل اپنی آنکھوں میں ہیں وہ کہاں
میرے جری جواں
دیس میرا سلامت ہے
ان سے ہی ہے
چاند تارے چمن سب انہی سے ہی ہیں
چاہتوں کے امیں وطن کے پاسباں
میرے جری جواں
ان کی آنکھوں میں ہیں روشن وفا کے دئیے
وہ وفا جو جڑی ہے
وطن سے مذہب سے قوم سے ملک سے
یہ جو جاگیں تو سوتے ہیں ہم چین سے
ملک و ملت کے یہ پیارے نگہباں
میرے جری جواں
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
کیا ہے ایسا جو میرے وطن میں نہیں؟
چار موسم مہنگے لہکتے ہوئے
چاند تارے زمیں آسماں گلستاں
رنگ خوشبو صبا رونقیں خوشنما
الفتوں شفقتوں سے بھری یہ زمیں
کیا ہے ایسا جو میرے وطن میں نہیں؟
اونچے اونچے فلک بوس ہیں ہاں پہاڑ
اور سنہرے چمکتے ہوئے ریگزار
رنگا رنگ گل اور مہکتے گلزار
اک وسیع سمندر بھی ہے اس دیار
اور مکیں ہیں یہاں کے ذہین و حسیں
کیا ہے ایسا جو میرے وطن میں نہیں؟
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
اے میرے خدا
امن کے بادل
پیار کی بارش
رحم کی کھیتی
سکھ کی ہوا
میرے دیس کو یہ سب کردے عطا
میرے دیس کے رکھوالوں کی خیر
رہیں سکھی وہ آباد سدا
اے میرے خدا اے میرے خدا
اس دھرتی کی اب پیاس بجھا
ہاں خون کے دریا بہتے ہیں
اور بھر ظلم جا گرتے ہیں
ان یاقوتی دریاؤں سے بھی
جانے کیوں اس دھرتی کی
بجھتی نہیں ہے پیاس
اے میرے خدا اب کردے کرم
اب پیار کی رین بہا
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
اے کاش کہ ایسا وقت آئے
جب اندھے ظلم کے لاشے کو
انصاف کی چادر میں کفنا کر
کوئی دور کہیں دفنا آئے
اے کاش کہ ایسا وقت آئے
جب قفل زباں سب کھل جائیں
اور سب زنجیریں ٹوٹ گریں
ہر دل میں ایماں جاگ اٹھے
ہر جا پہ خوشی نظر آئے
اے کاش کہ ایسا وقت آئے
میری دھرتی ماں کا چہرہ جب
سکھ کی شبنم دھو ڈالے
اور امن گھٹا بن کر آئے
اے کاش کہ ایسا وقت آئے
جب سکھ ہی ہر جا ہو مولا
اور دکھ کا کوئی نشان نہ ہو
تیری رحمت ہم پر ہو مولا
اور ظلم نہ پھر مڑ کر آئے
 اے کاش کہ ایسا وقت آئے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Qartaas Dill”

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.

Open chat
Hello 👋
How can we help you?