نام: راہِ تقدیر
از قلم : علینہ خان
پہلی قسط۔
تقدیر کی راہوں میں چلتے ہیں ہم
ہر قدم پہ نیا منظر، نیا امتحان
کبھی دھوپ کی گرمی، کبھی چھاؤں کی سردی
زندگی کی یہ راہ، ہمیں ہر روز نئی کہانی سناتی ہے
راستوں پر کانٹے بھی ہیں، پھول بھی
منزلیں بھی ہیں، اور فاصلے بھی
ہر خواب کی تعبیر کے لیے
ہمسفر ہے یہ راہِ تقدیر بھی
چل پڑے ہیں جو اس راہ پر ہم
تو یقیناً کوئی منظر نیا ہوگا
راہِ تقدیر میں جو بھی ملے
وہ میرا نصیب، میرا مقدر ہوگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"مم… میرے قریب مت آنا۔" پیچھے کی طرف قدم اُٹھاتی وہ لرزتی آواز میں بولی۔اس کا چہرہ پسینے سے تر اور ہاتھ پاؤں خوف سے پھولنے لگے۔
"تمہیں لگتا ہے اس طرح شور مچانے سے کوئی تمھاری مدد کو آئے گا تو یہ تمھاری بھول ہے۔ہاہاہا۔" وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا لیکن تبھی کسی نے پیچھے سے اسے گردن سے دبوچ کر فرش پہ دھکا دیا تھا۔
اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں … فرش پر پھیلتا سرخ گاڑا خون…اور کسی کے چیخنے کی آوازیں…
وہ ایک دم چیخ مار کر اُٹھ بیٹھی۔
"یا اللہ… یہ خواب کب میرا پیچھا چھوڑے گا۔" اپنے چہرے پر آئے پسینے کو صاف کرتے اس نے نائٹ بلب کی روشنی میں گھڑی کو دیکھا جو رات کے ساڑھے تین بجا رہی تھی۔
دوبارہ لیٹنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا، جب بھی اسے یہ خواب آتا تھا اس کے بعد سونا اس کےلیے ہمیشہ مشکل رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد وہ وضو کیے تہجد ادا کر رہی تھی۔ تہجد کی نماز اس کے دل و دماغ کو پرسکون رکھنے کی دوا کا کام کرتی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آسمان کی نیلاہٹ سرخ اور جامنی رنگ میں گھلنے لگی تو آسمان پر اُڑتے پرندوں نے بھی اپنے گھروں کا رخ کیا۔ کچھ ہی دیر میں مسجدوں سے مغرب کی اذانوں کی آواز پر نمازی مسجدوں کا رخ کرنے لگے۔
" ایشل بیٹا نماز کا وقت ہے اور تم یہ کام لے کر بیٹھی ہو۔ اٹھو پہلے نماز پڑھو یہ کام تو بعد میں بھی ہوجائے گا۔" اس کی امّی کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے کاغذ پھیلائے بیٹھے دیکھ کر بولیں۔
" جی امّی بس تھوڑا سا کام رہ گیا ہے پھر پڑھ لیتی ہوں نماز۔" وہ بال جوڑے میں باندھے ,لیپ ٹاپ کے کی۔پیڈ پر تیزی سے انگلیاں چلارہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ نماز نہیں پڑھتی تھی مگر آج اسائنمنٹ بناتے اسے وقت کا اندازہ نہیں ہوا۔
" بیٹا نماز ان سب کاموں سے زیادہ ضروری ہے۔ چلو شاباش اٹھو اور نماز ادا کرو یہ کام بعد میں کرنا۔" انھوں نے اس کے ہاتھوں سے کاغذوں کا پلندا پکڑکر سائیڈ پر رکھا۔
"دنیا کے کاموں کے لیے نماز کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔" امّی کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرا کر وضو کرنے چلی گئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"کہاں رہ گئے تھے برخودار، نماز کا وقت ختم ہوئے بھی آدھا گھنٹہ بیت گیا ہے؟"اس نے ڈائینگ ہال میں داخل ہوتے سلام کیا تو انصاری صاحب نے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ان کے گھر کا اصول تھا کہ رات کا کھانا عشاء کی نماز کے بعد کھالیا جاتا تھا۔
" جی پاپا.. بس ایک دوست مل گیا تھا راستے میں، اس کے ساتھ باتوں میں وقت کا اندازاہ نہیں ہوا۔" اس نے پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے کہا۔
"ارے واہ،اجلال انصاری جیسے بندے کا بھی کوئی دوست ہوسکتا ہے ، کافی حیران کن بات ہے،کیوں امل۔" طلال نے حیرت سے اجلال کو دیکھا لیکن اس کے چہرے پر غصہ دیکھتے واپس کھانا کھانے لگا۔
"کیوں میرا کوئی دوست کیوں نہیں ہوسکتا؟ " وہ طلال کو گھورتے ہوئے بولا۔
"وہ کیا ہے نہ بھائی… آپ ہر وقت سڑے ہوئے اور غصے میں رہتے ہیں اور مجال ہے جو کبھی آپ نے کسی سے ہنسی مذاق کیا ہو ،بس اسی لیے کہہ رہا تھا۔"اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"اب لازمی تو نہیں ہے کہ ہر کوئی تمھاری طرح سب کے ساتھ مذاق کرتا رہے اور انہیں تنگ کرتا رہے۔"
"آہہ…میرے جیسے بندے کی تو بات ہی اور ہے ، اور ویسے بھی میں آپ کی بات کررہا تھا۔" اس سے پہلے کے طلال کچھ اور بولتا مقدس بیگم نے اس کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔
"طلال… چپ کر کے کھانا ختم کرو اور تمھیں منع کیا ہے کہ کھانے کے وقت بھائی کو تنگ مت کیا کرو۔" مقدس بیگم نے اسے گھورا تو وہ منہ بنا کر انصاری صاحب کو دیکھنے لگا انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے طلال کو مزید کچھ کہنے سے منع کیا۔
"اچھا اچھا سوری۔۔۔۔میں کھانے کے بعد بھائی کو تنگ کرلوں گا۔" آنکھیں ٹپٹپاتے اس نے معصومیت سے کہا۔ وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔ طلال کی بات پر وہ نفی میں سر ہلا کر کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ایشل تمہاری اسائنمنٹ کمپلیٹ ہوئی یا نہیں؟ میرا تو سر درد ہونے لگا ہے لیپ ٹاپ کی سکرین دیکھ دیکھ کر، اُف…" امل نے بیگ کرسی پر پٹختے ہوئے کہا۔
"ہاں… میری تو رات میں ہی بن گئی تھی۔ تم ایسا کرو میری اسائیمنٹ سے تھوڑا بہت کاپی کر لو۔ ابھی دو دن ہیں اسائنمنٹ سبمیٹ کروانے میں۔" ایشل نے فوراً سے حل نکالتے آہستہ آواز میں کہا۔ اگر یہ بات اُس آفت تک پہنچی تو اسے اپنی اسائنمنٹ شائد پھر دو دن بعد بھی نہ ملے۔
" اگر سر کو پتا چل گیا تو میرے ساتھ ساتھ تمھارے مارکس بھی جائیں گئے۔" امل نے اپنی پریشانی ظاہر کی۔
"تو تمھیں کس نے کہا ہے کہ سب ملتا جلتا کاپی کرو؟ بس ان الفاظ میں تھوڑا ردوبدل کردینا بس۔" ایشل کے کہنے پر امل نے اسے مسکراتے ہوئے گلے لگایا۔
"یہ کیا تم دونوں ہر وقت ایک دوسرے سے چپکی رہتی ہو؟" وہ امل کے پیچھے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
" کیوں تمھیں کوئی مسئلہ ہے؟" ایشل سے الگ ہوتے امل نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"اف…اس نے کچھ سن نہ لیا ہو۔" ایشل آہستہ آواز میں بڑبڑائی۔
"زرا اونچی آواز میں بولو کیا برائیاں کر رہی ہو میری۔" اس نے کان کو مسلتے ہوئے کہا۔
"اور تمھیں کس نے کہا ہم تمھاری برائی کررہے ہیں؟ "
"تم دونوں کو سوائے میری برائیاں کرنے کے کچھ آتا بھی تو نہیں۔" چیّر کی پشت سے ٹیک لگائے طلال دونوں کو دیکھ کر بولا۔
ایشل نے کھا جانے والی نظر سے طلال کو دیکھا ،اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتی سر کو کلاس میں داخل ہوتے دیکھ کر چپ ہوگئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ آج پھر لڑکھڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کی بیوی اس کے انتظار میں دروازے کے پاس پہلے سے موجود تھی۔
"یہ کیا حالت بنائی ہوِئی ہے تم نے؟" احمد صاحب اپنے کمرے سے باہر آئے تو بیٹے کو ایسی حالت میں دیکھ کر بولے۔
"کک ۔۔۔کیا ہوا ہے مجھے؟ کچھ۔ ۔۔۔ کچھ بھی تت۔تو نہیں ہوا اور تم کک۔۔کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟" وہ نشے میں اتنا دھت تھا کہ اپنے باپ پر بھی چیخنے لگا۔
احمد صاحب کا دل ایک سیکنڈ کو ڈوبا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کے الفاظ اور غیر مستحکم چال کو دیکھا۔ احمد صاحب یہ تو جانتے تھے کہ سکندر اکثر دیر سے گھر آتا ہے مگر یہ منظر ان کے لیے بلکل نیا تھا۔
وہ اس کے دوستوں کو بھی جانتے تھے اور کئی دفعہ اس کو ان سے دوستی ختم کرنے کا بھی بول چکے تھے، لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا ان کا بیٹا غلط کاموں میں بھی پڑجائے گا۔
"بے شرم۔" وہ غصے سے آگے بڑھے اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ "ہماری سات پُشتوں نے بھی آج تک اس حرام چیز کو دیکھا تک نہیں ۔"وہ سکندر کو مارتے ہوئے بولے اس سے پہلے کہ اس کی بیوی اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھتی احمد صاحب نے اسے ایک اور تھپڑ مارا۔ اور وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا۔
"ہمارا نہ صحیح اس گھر میں رہنے والے دوسرے لوگوں اور چھوٹے بچوں کا ہی کچھ خیال کر لیا ہوتا،سوچو اگر ان میں سے کسی نے تمھیں اس حالت میں دیکھا تو ان کے معصوم ذہنوں پر کیا اثر ہوگا۔" رات کی خاموشی کی وجہ سے وہ آہستہ مگر غصے اور تیش سے بولے۔
"اور تم…" اب وہ اس کی بیوی کی طرف مڑے جو اپنے شوہر کی طرف دیکھتے مسلسل رو رہی تھی۔
" تم اس سب کے بارے میں پہلے سے جانتی تھیں پھر بھی اس بے شرم کی حرکتوں پر پردہ ڈالتی رہیں۔"
"مم۔۔۔میں مجبور تھی بابا جان۔" وہ روتے ہوئے بولی۔" اگر میں آپ لوگوں کو بتاتی تو سکندر مجھے طلاق دے دیتے۔"
"تو تم ایسے…" انہوں نے خود کو سخت الفاظ بولنے سے روکا۔ " ایسے شخص کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے سے بہتر تھا تم اس سے طلاق لے لیتیں۔" وہ غصے سے بولتے وہاں سے چلے گئے اور وہ اپنے شوہر کو سہارا دیتی کمرے کی طرف بڑھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ دونوں یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھیں تھیں ۔ چُھوٹی ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا، امل جلدی جلدی ایشل کی اسائنمنٹ سے کاپی کیے رف نوٹس دیکھ رہی تھی۔
"تم دونوں کیا پوری یونی چھوڑ کر اس کونے میں آبیٹھی ہو اور یہ کیا لکھا جارہا ہے؟" وہ امل کے رجسٹر اور پاس پڑے نوٹس کو دیکھ کر مشکوک انداز میں بولا۔
" تمھیں اس سے کیا, ہم جہاں مرضی بیٹھیں؟" ایشل نے فوراً سے اسائنمنٹ کی فائل اپنے بیگ میں ڈالی۔
"میں نے یہ بھی پوچھا تھا کے کیا لکھا جا رہا ہے؟ " اس نے امل کو دیکھ کر کہا جو اسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
" تمھارے ساتھ مسئلہ کیا ہے طلال؟ اپنے دوستوں کے پاس جاکر بیٹھو ہمیں کیوں تنگ کرتے رہتے ہو؟" طلال کو وہیں بیگ رکھتے دیکھ کر ایشل غصے سے بولی۔
" میں نے سوچا شائد تم دونوں مجھے مس کر رہی ہو گی تو میں آگیا۔" وہ بیگ پر سر رکھے وہی لیٹ گیا۔
" استغفراللہ ۔" ایشل نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ "امل تم نے کبھی دیکھا یا سنا ہے کہ کوِئی انسان شیطان کو یاد کرتا ہو یا اسے خود بُلاتا ہو ۔" امل نے مسکراہٹ ضبط کرتے نفی میں سر ہلایا۔
"محترم طلال صاحب اس لیے اب تم جاؤ اور اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھو۔" گھاس پر پھیلیں اپنی کتابوں اور نوٹس کو بیگ میں رکھتے ایشل نے کہا۔
"اوہ بہن ۔۔ چُھٹی کا وقت ہورہا ہے اس لیے امل کو ڈھونڈتا یہاں آگیا ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں لڑکیوں میں بیٹھنے کا۔" وہ منہ بسور کر بولا۔
"اوکے امل میں جارہی ہوں یہ نہ ہو کہ رکشے والا مجھے چھوڑ کر چلا جائے۔"طلال کی بات پر ایشل موبائل پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولی۔
"اوکے اللہ حافظ پھرمنڈے کو ملاقات ہوگی۔" امل اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔
ایشل کے جانے کے بعد امل نے نوٹس والا رجسٹر طلال کی نظروں سے بچا کر جلدی سے بیگ میں رکھا اور اپنی باقی چیزیں سمٹنے لگی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ گاڑی کو پارکنگ میں کھڑی کر کے کلائی میں بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے یونی میں داخل ہوا جب اچانک سامنے سے آتے وجود سے زور دار تصادم ہوا اور سامنے والے کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ زمین پر بکھر گئے۔
"افف…سر توڑ دیا میرا…اندھے ہو کیا؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے، سارے نوٹس گرادیے۔ کتنی مشکل سے بنائے تھے۔ اب اگر ایک بھی پیچ گم ہوا تو کیا آپ بنا کر دیں گے۔" وہ سامنے والے کے غصے کی پرواہ کیے بغیر زمین سے نوٹس سمیٹتی بس اپنی ہی بولے جارہی تھی۔
"جسٹ۔۔ سٹاپ اٹ، محترمہ ایک تو آپ خود آنکھیں بند کر کے سامنے سے آرہی تھیں اور الٹا مجھے اندھا کہہ رہی ہیں، واہ…"نوٹس کو سمیٹ کر فائل میں رکھتے ایشل کے ہاتھ اس کی آواز پر تھمے تھے۔ وہ سارے کاغذ فائل میں ڈالتی واپس کھڑی ہوئی۔
" اسکیوز می .. مسٹر ایکس۔ وائے۔ زی۔ اگر میرا دھیان نہیں تھا تو آپ کون سا سامنے دیکھ کر چل رہے تھے۔ ایک تو آپ کی وجہ سے میری اسائنمنٹ خراب ہو گئی اور دوسرا میرے سر میں جو چوٹ لگی وہ ؟" ایشل نے اپنا سر مسلتے ہوئے کہا۔
"اوہ۔۔۔محترمہ کہاں لگی ہے چوٹ، مجھے تو کہیں تمھارے سر سے خون بہتا نظر نہیں آرہا۔" وہ طنزیہ انداز میں بولا ۔" اب ہٹو سامنے سے میرا وقت برباد کر دیا تم نے۔"وہ آپ سے سیدھا تم پر آیا تھا۔ اسے اپنے سامنے کھڑی لڑکی پر شدید غصہ آیا۔
"وقت تو میرا برباد ہوا ہے آپ کی وجہ سے،همم۔" ایشل پیر پٹختی گیٹ کی طرف چل دی۔ وہ مزید یہاں اس سے بحث کرنے میں وقت ضائع کرکے کم ازکم پیدل گھر نہیں جانا چاہتی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"بابا جان کو تم نے بتایا ہے میرے بارے میں کہ میں ڈرگز لیتا ہوں؟" وہ اپنی بیوی کو بالوں سے پکڑتے ہوئے بولا۔
"وہ۔۔ وہ بابا جان نے کل رات آآ۔۔ آپ کو دیکھ لیا تت۔۔ تھا آتے ہوئے۔۔ اور آپ اس وقت۔۔ ہوش میں بھی۔۔ نہیں تھے۔" اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔
" جھوٹ مت بولنا میرے ساتھ خدیجہ، میں نے جب ایک دفعہ منع کیا تھا تو تم نے کیوں بتایا؟" سکندر اسے بالوں سے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
"میرا۔۔ یقین کریں۔۔۔بابا جان نے ۔۔۔۔ آپ کو خود ۔۔۔ دیکھا تھا اور آپ ۔۔کل زیادہ ۔۔۔ ڈرنک کر ۔۔کے۔۔ آئے تھے ، اس ۔۔۔۔ لیے شاید آپ۔۔۔ بھول گئے ۔" درد کی وجہ سے اس سے بولا بھی نہیں جارہا تھا۔
"بکواس بند کرو اپنی اور دفعہ ہو جاؤ اس کمرے سے مجھے تمھاری شکل بھی نظر نہ آئے۔" اسے دھکا دیتے ہوئے وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھڑکی کے پاس جا کر باہر لان میں دیکھنے لگا، جہاں دو بچے فٹبال کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
"آپ میرا یقین کریں۔۔۔ مم۔۔ میں نے نہیں۔۔۔" خدیجہ نے سِسکتے ہوئے کہا۔
"آئی سیڈ۔۔ گیٹ آوٹ۔" وہ زور سے چینخا تو وہ بیچاری آنسو پوچھتی باہر چلی گئی۔ باہر لان میں اب دونوں بچے فٹبال کے پیچھے بھاگتے زمین پر گرے اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ دونوں کیسی بات پر بحث کرتے گیٹ کی طرف جارہے تھے تبھی ان کی نظر سامنے کھڑے اپنے بھائی پر پڑی جو کافی جھنجھلایا ہوا نظر آرہا تھا۔
"ارے بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" طلال نے اس کے پاس جاکر پوچھا۔
"چنے بیچ رہا ہوں، کیوں تمھیں بھی چاہیے؟" وہ تو پہلے ہی تپہ ہوا تھا اب سارا غصہ طلال پر اترا ۔
"وہ۔۔ میں تو اس لیے کہہ رہا تھا کہ آج اجلال انصاری کو اپنے بھائی کی یاد کیسے آگئی؟ ویسے آپ ڈرائیور کو بھیج دیتے خود کیوں لینے آئے؟" طلال نے اس کی بات کو اگنور کرتے کہا۔
"تمھیں کس نے کہا کہ میں تمھیں لینے آیا ہوں؟ میں اپنی بہن کو لینے آیا ہوں۔" وہ امل کی طرف بڑھتے ہوئے بولا تو طلال کا صدمے سے منہ کھل گیا۔
" منہ بند کرو ورنہ مکھی گھس جائے گی۔" امل اس کی شکل دیکھ کر مزے سے بولی۔
" ہائے اللہ جی… کیسے بھائی ہو؟ اپنے اکلوتے اور پیارے سے بھائی کا دل رکھنے کو ہی بول دیتے۔" طلال نے مصنوعی آنسو صاف کرتے ڈرامائی انداز میں کہا۔
"پیارے اور تم؟ " اجلال نے حیرت سے اسے دیکھا۔
" اب چلو ورنہ میں تمھیں یہی چھوڑ کے چلا جاؤ گا پھر آتے رہنا پیدل گھر۔" وہ امل کو لیے آگے بڑھتے ہوئے بولا تو طلال بھی ان کے پیچھے بھاگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"کہاں جا رہے ہو؟" احمد صاحب لاؤنج میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب اسے باہر جاتے دیکھ کر بولے۔
"کون میں؟" سکندر نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔
"نہیں! یہاں جو میرے فرشتے ہیں ان سے مخاطب ہوں۔" وہ طنزیہ انداز میں بولے۔ "اپنے علاوہ تمھیں یہاں کوئی نظر آرہا ہے،جس سے میں بول رہا ہوں؟" اسے دوبارہ باہر کی جانب جاتے دیکھ کر بولے۔
" جی بولیں۔" وہ وہی کھڑا رہا۔
"یہاں آکر بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"جلدی بولیں مجھے جانا بھی ہے۔" اس کا لہجہ ان کے لیے غیرمتوقع تھا۔
" تم جانتے ہو تم کس سے بات کر رہے ہو سکندراور جانا کہاں ہےتمھیں ؟" وہ رعب دار لہجے میں بولے۔
" اس بات کے لیے آپ نے مجھے روکا تھا اور میں جہاں بھی جاؤں آپ کو اس سے کیا۔" اس نے کھڑے ہوتے ہوئے بدتمیزی سے کہا۔
"باپ ہوں تمھارا، اور یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم۔ " وہ غصے سے آگے بڑھے۔ "میں یہ حق رکھتا ہوں کہ تم سے سوال کر سکوں۔"
"آپ نے جو بات کرنی ہے یا مجھے اپنے حق بتانے ہیں وہ میں آکر سن لوں گا، ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے۔" سکندر چابی گھماتا باہر چلا گیا اور وہ بےبسی سے اسے جاتا دیکھ کر رہ گئے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"بھائی ویسے خیریت تو ہے ،آج آپ ہمیں یونی سے پک کرنے آئے ہیں؟" امل نے گاڑی ڈرائیو کرتے اجلال سے سوال کیا۔
"کیوں میں تمہیں لینے نہیں آسکتا کیا؟" اس نے گاڑی چلاتے پیچھلی سیٹ پر بیٹھی امل کی طرف دیکھا۔
"نہیں آپ کبھی آئے نہیں ہمیں لینے تو اس لیے حیرت ہورہی تھی۔" امل کی جگہ طلال نے جواب دیا۔ طلال کی گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے کچھ دنوں سے ورک شاپ میں تھی، اس لیے انہیں یونی سے ڈرائیور لینے آتا تھا مگر آج اجلال کو دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی تھی۔
"اور آپ اتنے غصے میں کیوں تھے؟ مجھے لگا شاید کیسی سے لڑائی وغیرہ ہوئی ہے۔" امل کے کہنے پر اجلال نے کچھ دیر پہلے ہوئے واقعے کا انہیں بتایا تو طلال کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"مجھے لگا آپ آفس میں کسی ایمپلائی کو سنا کر آرہے ہیں یا کوئی پروجیکٹ نہیں ملا اس لیے اتنے غصے میں ہیں مگر یہاں پر تو معاملہ ہی لڑکی کا نکلا۔" طلال کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔
"ہوگئی تمهاری بکواس، اب چپ کر کے اترو اور گیٹ کھولو، گارڈ آج چھٹی پر ہے۔" گاڑی گھر کے گیٹ کے باہر روک کر اجلال نے طلال کا کان کھینچتے ہوئے کہا۔
" یار بھائی کتنے ظالم ہو آپ۔ پتا نہیں کس معصوم لڑکی کی آپ کے ساتھ قسمت پھوٹے گی۔" گاڑی سے باہر نکلتے اس نے آہ بھرتے تصور میں اس لڑکی پر افسوس کرتے ہوئے جیب سے گیٹ کی چابی نکال کر گیٹ کھولا ۔
"اب تو تم گئے طلال انصاری کیونکہ تمھاری ساری بات بھائی سن چکے ہیں۔" امل اس کے پاس سے گزرتی بولی تو وہ فوراً اندر بھاگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
گھر پہنچتے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ اپنی چادر اور فائل بیڈ پر پھینکتے اس نے پنکھے کا بٹن دبایا لیکن لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے اور غصہ آیا۔
"کیا مصیبت ہے، لائٹ کو بھی آج ہی جانا تھا۔" الماری سے کپڑے نکالتے وہ بڑبڑائی۔
"ایشل بیٹا میں کھانا گرم رہی ہوں تب تک تم نماز پڑھ لو۔" اس کی امّی نے کچن سے آواز لگا کر کہا۔
"یہ لائٹ کب آئے گی؟" نماز سے فارغ ہو کر وہ کچن میں داخل ہوئی جہاں اس کی امّی اب چائے بنا رہی تھیں۔
" لائٹ تو صبح کی گئی ہوئی ہے۔ محلے والے کہہ رہے ہیں شاید کوئی مسئلہ ہو گیا ہے شام تک آجائے گی۔ " انہوں نے چائے دو کپوں میں نکالتے اسے بتایا۔
"اچھا سنو بیٹا مجھے تمھیں کچھ بتانا ہے۔" ایشل نے کھانا ٹرے میں رکھتے ان کی طرف دیکھا۔
"جی بولیں۔" ایک پل کو وہ ٹھٹکی تھی۔
" بیٹا اتوار کو کچھ لوگ آنا چاہ رہے ہیں، سکینہ بتا رہی تھی کافی اچھے لوگ ہیں تو تم تیار ہو جانا۔" ٹرے میں کپ رکھتی ایشل نے چونک کر اپنی امّی کو دیکھا۔
" میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکی ہوں امّی کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔ میں پڑھ کر کچھ بننا چاہتی ہوں۔" ٹرے وہی چھوڑے وہ کمرے میں آگئی۔
" آج کا دن ہی خراب ہے، پہلے اس لڑکے نے دماغ خراب کر دیا اور اب یہ نیا شوشہ۔" وہ غصے سے سوچتی بیگ سے موبائل اور نوٹس نکالنے لگی۔ تبھی اس کی امّی کمرے میں داخل ہوئیں۔
"آخر حرج ہی کیا ہے اس میں، ایک بار منگنی ہو جائے گئی۔ میں کون سا تمھیں منع کررہی ہوں پڑھائی سے وہ تم منگنی کے بعد بھی کر سکتی ہو۔شادی تمھاری پڑھائی مکمل ہونے کے بعد کی ہوگی۔" وہ ایشل کے پاس بیٹھتی بولیں۔
"مجھے سمجھ نہیں آتا لوگوں کو یہ کیوں لگتا ہے کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا یا سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے ،ہر مسئلے کا حل شادی نہیں ہوتی امّی۔ میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتی ہوں ،مجھے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے، مجھے خود کو اور مضبوط کرنا ہے، تاکہ کوئی بھی مجھے کمزور سمجھ کر گرانے کی کوشش نہ کرے۔" بولتے بولتے اس کی آواز بھر آئی تھی۔
"دیکھو بیٹا تم جانتی ہو میں اب بیمار رہتی ہوں۔ تمھارے نانا کی پینشن سے تمھاری فیس اور اس گھر کا خرچ ہی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔پھر میری دوائیاں ان کا خرچا، تمھاری شادی ہو جائے گی تو میں سکون سے اس دنیا سے جا سکوں گی۔" ایشل نے تڑپ کے اپنی امّی کی طرف دیکھا۔
"امّی …آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں؟ آپ۔۔ آپ کو میری عمر بھی لگ جائے۔" وہ روتے ہوئے ان کے گلے لگی۔
"میں پڑھائی مکمل ہوتے ہی کوئی اچھی جاب کرلوں گی پھر کسی اچھی جگہ سے آپ کا علاج کرواں گی اور پھر دیکھنا ہم دونوں کی ساری محرومیاں ختم ہو جائیں گی۔ مگر میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی،آپ انہیں فون کر کے منع کر دیں۔" ایشل روتے ہوئے ان کے گلے لگی تھی۔
" ٹھیک ہے بیٹا میں انہیں منع کر دیتی ہوں، لیکن تمھارے جاب کرنے کے بعد میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گی۔ چلو اب آنسو صاف کرو، میں کھانا لارہی ہوں۔" وہ اس کے آنسو صاف کرتیں کچن میں چلی گئیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"پاپا ہماری کل شاہ انڈسٹریز سے اہم میٹنگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ طلال بھی اس میں شریک ہو۔" اجلال نے رات کا کھانا کھاتے نارمل لہجے میں انصاری صاحب سے کہا البتہ طلال نے ایک دم سر اٹھا کر اپنے بھائی کو دیکھا جیسے وہ کوئی مذاق کر رہا ہو۔
" بھائی میں کیسے میٹنگ میں جا سکتا ہوں یہ کام آپ ہی کرو۔" طلال نے ہاتھ اوپر کرتے کہا۔
"کیوں تم کیوں نہیں جاؤ گے، ویسے بھی کل یونی سے تمھارا آف ہے اور میں تمھیں کل آفس لے کر جاؤں گا بلکہ اب سے تم ہر ہفتے میرے ساتھ آفس جاؤ گے،اس لیے کل تیار رہنا۔"اجلال اسے حکم دیتے ہوئے بولا۔
"پاپا آپ ہی بھائی کو سمجھائیں ابھی تو میری سٹڈیز بھی کمپلیٹ نہیں ہوئیں۔" طلال نے انصاری صاحب سے کہا۔
"دیکھو طلال۔۔ تم آفس جاو گے تو ہی تمھیں کاروبار کا اندازہ ہوگا کہ کیا کام کرنا ہے اور لوگوں سے ڈیل کیسے کرنی ہے۔" اجلال نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"تمھاری پڑھائی ختم ہونے میں ایک یا دو سمیسٹر رہ گئے ہیں،اس کے بعد بھی تو تم نے آفس جوائن کرنا ہے تو ابھی سے عادت ڈال لو۔" انصاری صاحب بھی اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔
"مگر پاپا مجھے ابھی صرف پڑھائی پر فوکس کرنا ہے آپ پلیز سمھجنے کی کوشش کریں۔" کاروبار کے نام سے ویسے ہی اس کی جان جاتی تھی۔
"کیا یہ تمام بزنس کی باتیں کھانے کے بعد ہوسکتی ہیں؟" مقدس بیگم نے بات بگڑتی دیکھ کر کہا ،جس پر سب چپ کرکے کھانا کھانے لگے لیکن طلال کی باتوں نے انصاری صاحب کو بہت ڈسٹرب کیا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
بادلوں نے آج پورے کراچی کو ڈھانپ لیا تھا، سمندری ہوائیں فضا میں گھل رہی تھیں جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں کمی آگی تھی۔
وہ تیار ہوکر کمرے سے باہر آئی تو آسمان پر کالی گھٹائیں دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
"اللہ حافظ امّی میں جارہی ہوں، شکر ہے آج گرمی زرا کم ہوئی ورنہ گرمی میں انسیٹیوٹ تک پیدل جاتے جاتے بس ہوجاتی ہے۔" اپنی امّی کو آواز دے کر اس نے مسکرا کر سوچا۔
"ایشل بیٹا، آج موسم بہت خراب ہے تم اگلے ہفتے انسیٹیوٹ چلی جانا۔" اس کی امّی آسمان کی طرف دیکھ کر بولیں۔
"اوہو، امّی بس ایک گھنٹے کی تو بات ہے اور ویسے بھی میں کون سا اکیلی جارہی ہوں ساتھ والی آنٹی بھی تو ہوں گی اور وہ نہ بھی ہوئیں تو کون سا کوئی مجھے راستے میں کھا جائے گا۔" ایشل نے سر پہ چادر اوڑھتے ہوئے کہا۔
" اچھا دھیان سے جانا۔" وہ اسے پیار کرتے بولیں۔
انہیں اللہ حافظ کہتے وہ گھر سے باہر نکلی اور ساتھ والے گھر کی بیل بجا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔
"اسلام علیکم ! آنٹی آپ تیار نہیں ہوئیں ؟" دروازہ کھلتے اس نے سامنے کھڑی عورت سے پوچھا۔
"وعلیکم السلام! نہیں بیٹا، ہمارے گھر کچھ مہمان آگے ہیں تو میں تو آج نہیں جاسکتی تم آج اکیلی چلی جاو یا اپنی کسی سہیلی کو ساتھ لے جاو۔"
" ٹھیک ہے میں چلی جاتی ہوں، اللہ حافظ ۔" انسیٹیوٹ زیادہ دور نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکیلے ہی جانے کے لیے چل پڑی۔ ہوائیں اب تیز ہوتی جارہی تھیں اور جب تک انسیٹیوٹ نہ آگیا وہ یہی دعا کرتی رہی کہ بس بارش نہ ہو اور انسیٹیوٹ میں داخل ہوتے اس نے سکون کا سانس لیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ نیوی بیلو ڈریس پینٹ کے ساتھ وائٹ ڈریس شرٹ پہنے، بیلو ہی ٹائی لگائے، ہلکی بھوری و سنہری 'جن کا سنہری رنگ صرف قریب سے دیکھنے پر واضح ہوتا تھا' رنگ کی آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے، بازو پر کوٹ ڈالے ڈائنگ روم میں داخل ہوا تو ٹیبل پر ناشتہ لگاتیں مقدس بیگم اور سربراهی کرسی پر بیٹھے، اخبار پڑھتے انصاری صاحب نے اسے دیکھا تو بےساختہ ان کے منہ سے ماشاء اللہ نکلا۔
کل رات کافی دیر تک دونوں باپ بیٹے نے طلال کے ساتھ سر کھپایا تھا تب ہی وہ آج پوری تیاری کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
"ماشاء اللہ ،آج تو تم بڑے اچھے لگ رہے ہو۔" امل اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھتی بولی ۔
"ارے واہ طلال ، ہمیں لگا تھا ہماری ساری محنت ضائع ہو جائے گی اور تم آفس جانے کے لیے تیار نہیں ہوگے۔" اجلال کو خوشی ہوئی تھی کہ ان کا دیر رات تک اسے سمجھانا رائیگاں نہیں گیا تھا۔
"میں نے سوچا آپ لوگ اتنا فورس کر ہیں تو کیوں نہ آفس کو اپنا دیدار ہی کروا دوں۔" طلال نے گلاس میں جوس ڈالتے کہا۔
"دیکھیں پاپا آج یہ لگ رہا ہے نہ انصاری کمپنی کے مالک کا بیٹا۔" اجلال نے اسے چھیڑتے ہوئے انصاری صاحب سے کہا تو وہ مسکرا کر طلال کو دیکھنے لگے جو نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔
"اب آپ لوگ مجھے ایسے نہ دیکھیں مجھے شرم آرہی ہے۔" جوس کا گلاس ٹیبل سے اٹھاتے اس نے شرمانے کی ایکٹنگ کی تو اجلال اور امل نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا۔
"ہاں اب آپ لوگ میرے بیٹے کو نظر نہ لگا دینا۔" مقدس بیگم نے سب کو طلال کی طرف متوجہ دیکھا تو اس کی نظر اتارتے بولیں۔
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد تینوں باپ بیٹے آفس کے لیے نکل پڑے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"آج کا ہمارا ٹاپک ہے حقوق کے بارے میں۔ حقوق دو طرح کے ہیں" پہلا حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔" نور الہدیٰ فاونڈیشن کی جانب سے کھولی گئی اسلامی تعلیم کی درس گاہ کے بڑے سے ہال میں ،بڑی عمر کی عورتوں کے علاوہ لڑکیاں بھی سامنے بیٹھیں خاتون کو غور سے سن رہی تھیں۔
"حقوق اللہ اور حقوق العباد مسلمان کی زندگی میں اس کے ایمان کی تکمیل کے لیے دو اہم ترین پہلو ہیں۔جو مسلمان حقوق اللہ کو پورا کرے گا وہ حقوق العباد کو بھی پورا کرے گا، یہ دو مختلف چیزیں ہیں لیکن پھر بھی آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔" وہ خاتون اپنے سامنے بیٹھیں عورتوں کو نرم لہجے میں بتا رہی تھیں۔
"حقوق اللہ کیا ہے؟ یہ حقوق اللہ نہیں ہے، یہ حق اللہ ہے، یہ اسم نہیں ہے، یہ ایک فعل ہے۔ حق اللہ سے مراد وہ حقوق ہیں جو آپ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے واجب ہیں۔اللہ کا کیا حق ہے کہ۔۔۔ تم اس کے ساتھ شریک نہ کرو اور اللہ کا تم پر کیا حق ہے کہ جب تم نے وہی کیا جو اس نے چاہا تو اللہ تمہیں جنت میں تمہارا پسندیدہ مقام عطا فرمائےگا۔"
"اس کے بارے میں میں آپ کو ایک حدیث سناتی ہوں۔' معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے معاذ ! جانتے ہو ، بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسولﷺ زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں ، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ ( کسی چیزکو ) شریک نہ ٹھہرائے ، اللہ اس کو عذاب نہ دے ۔ ‘" وہ سانس لینے کے لیے رکیں۔
"حقوق اللہ تو ہمیں معلوم ہیں کہ اللہ کے ساتھ کیسی کو شریک نہ کرنا، اس کی نازل کردہ آسمانی کتابوں پر، انبیاء اکرام اور رسولوں پر، آخرت پر ایمان رکھنا ہے۔ اور جانتے ہیں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کیسی کو شریک کرنا ہے ،جو بنی اسرائیل نے کیا جس کے بارے میں۔۔ سورت البقرا کی آیت نبمر 83 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ: 'اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، اسی طرح قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا ، نمازیں قائم رکھنا اور زکوۃ دیتے رہا کرنا ، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا ۔'یہ تو تھے حقوق اللہ اور اس آیت مبارکہ میں حقوق العباد بھی ہیں۔اب میں آپ کو حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کا بتاتی ہوں۔" وہ رجسٹر کا صفحہ پلٹتے بولیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
ہر ایک کے سلام کا جواب دیتا وہ اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ آفس کی لابی سے گزرا تو بہت سے لوگوں نے اسے مڑ کے دوبارہ دیکھا۔ وہ تھا ہی ایسا کہ یونی میں وہ جہاں سے بھی گزرتا تھا لوگ اسے مڑ کے دوبارہ دیکھنے کی خواہش کرتے تھے اور آج تو وہ خاصہ تیار ہوئے اپنے باپ کے آفس آیا تھا۔
اجلال اور انصاری صاحب کے ساتھ وہ کانفرنس روم کی طرف بڑھا، جہاں ایگزیکٹوز کا ایک گروپ پہلے سے موجود تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا یہ سب اس کے لیے بلکل نیا تھا۔
میٹنگ شروع ہوئی، وہ غور سے اپنے بھائی کوسن رہا تھا جو سامنے بیٹھے افراد کو پروجیکٹ کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ انصاری صاحب نے گروپ کو اپنا تازہ ترین پروجیکٹ پیش کیا جس پر مقابل نے فوراً دستخط کردیے۔
میٹنگ کے ختم ہونے کے بعد انصاری صاحب اسے اپنے روم میں لے آئے۔کافی کا آرڈر دیتے انہوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
" تو طلال کیسا رہا آج کا دن ؟" اجلال نے روم میں داخل ہوتے اس سے سوال کیا۔
"اچھا رہا اور مجھے خوشی ہے کہ آپ دونوں نے جس محنت سے یہ پروجیکٹ تیار کیا وہ رائیگاں نہیں گئی۔" اس کے چہرے پر خوشی واضح تھی۔
"طلال، یہ کمپنی تمھاری بھی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ پڑھائی کے ساتھ تم کاروبار کے معاملات میں بھی دلچسپی لو۔"انصاری صاحب اس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر بولے۔
"جی پاپا میں پوری کوشش کروں گا اور اب تو ہر سیچرڈے آفس آؤں گا۔" کافی کا کپ میز پر رکھتے طلال نے انہیں تسلی دی۔
"اجلال بیٹا آفس ورکرز سے طلال کا تعارف کرواو اور کچھ فائیلز وغیرہ کے معاملات بھی اسے سمجھا دو۔" ان کے کہنے پر وہ طلال کو لیے باہر آگیا جبکہ انصاری صاحب میز پر رکھی فائل پڑھنےلگے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"حقوق العباد کی دو قسمیں ہیں:'پہلا, مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق۔اور دوسرا, ہم پر (بطور انسانیت) دوسرے لوگوں کے حقوق'. عام طور پر مسلمان کی تمام چیزیں اس کے بھائی کے لیے مقدس ہیں: اس کا خون، اس کی جائیداد اور اس کی عزت۔ ایک مسلمان بھائی دو لڑنے والے بھائیوں میں بھی صلح کراتا ہے تو اسے اس کا بھی اجر دیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان بھائی کا دوسروں پر یہ حق ہے کہ وہ کسی بات کا حکم دے اور برائی سے روکے اور ان سے کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرے۔"ہال میں موجود لوگ دھیان اور سکون سے انہیں سن رہے تھے۔
"قران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ' ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر ،کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے ، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکٰوۃ کی ادائیگی کرے جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچّے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔' ان آیات میں اللہ نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی بتائے ہیں لیکن افسوس ہم میں سے بہت کم ان کو پورا کرتے ہیں۔"اپنے سامنے رکھے رجسٹر سے نظریں اٹھا کر انہوں نے سامنے دیکھا۔
"کیا آج کے دور میں ہم اپنے رشتے داروں ، پڑوسیوں اور غریبوں کے حق ادا کر رہے ہیں؟ ہم تو ان سائلوں کو بھی اتنا ذلیل کر کے اپنے دروازوں سے لوٹاتے ہیں جو ناجانے کس مجبوری میں یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں امیر لوگ اپنے غریب رشتہ داروں کے ساتھ بھی برا سلوک کرتے ہیں اور اپنی پارٹیز اور فضول خرچیوں میں لاکھوں اڑا دیتے ہیں مگر اگر کوئی انہیں کسی غریب پر یہ پیسہ خرچ کرنے کا بول دے تو وہ یہ کہہ کر صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارا یہ پیسہ حام کا نہیں ہے۔ کیا ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں سے برا سلوک کریں؟ "
"آپ سب اور میں، ہم روز خبروں میں یہ خبر سن رہے ہوتے ہیں کہ بھائی نے جائیداد کے لیے بھائی کو قتل کر دیا یا فلاں نے زمین کے لیے چچا یا کسی رشتےدار کا قتل کر دیا۔ لیکن شائد وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور جن چیزوں کے لیے ہم دوسروں کو مار رہے ہیں اس کے بعد آخرت میں ہمیں جو سزا ہوگی وہ بہت دردناک ہے'۔
"اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو بہت نوازا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور ان پر جن لوگوں کے حقوق ہیں اسے پورا کرے نہ کہ دوسروں پر اپنے روپے پیسے کا روعب ڈالیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمیں سیدھے راستے پر چلائے، آمین۔" وہ خاتون درس دے کہ چلی گئیں تو وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتے باہر آگئی۔ اس انسیٹیوٹ کے بعد وہ سارے راستے اپنے رشتے داروں کے بارے میں سوچتی رہی تھی، جو صرف ان کے لیے مصیبت ہی لاتے تھے اس کے علاؤہ کبھی ان کے برے وقت میں ساتھ تک نہ دیتے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
" یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم نے سکندر؟" آج وہ اس کے آنے سے پہلے ہی دروازے پر موجود تھے۔
"کیا تماشا بابا جان۔" جواب انتہائی معصومیت سے دیا گیا تھا۔
" شکر ہے آج تم ہوش میں ہو، ورنہ مجھے لگا تھا آج پھر تم کسی کے سہارے گھر میں داخل ہوگے۔" احمد صاحب نے طنز کیا۔
"وہ کیا ہے نہ مجھے پتا تھا کہ آپ میرے استقبال کے لیے دروازے میں کھڑے ہوں گے ،اس لیے ہوش و ہواس میں گھر لوٹ آیا۔" اس نے عادتاً گاڑی کی چابی انگلی میں گھماتے ہوئے کہا۔
"باپ ہوں میں تمھارا کچھ شرم ہے یا ساری شرم وحیا بیچ آئے ہو؟" وہ اس کے ڈھیٹائی سے جواب دینے پر بولے۔
"میں نے کب کہا کہ آپ میرے باپ نہیں ہیں جو آپ روز مجھے یہ یاد کرواتے ہیں کہ آپ میرے باپ ہیں؟" دیوار سے ٹیک لگائے ایک پاؤں دیوار پر رکھے وہ سکون سے کھڑا انہیں جواب دے رہا تھا۔
"تم مجھے مجبور کر رہے ہو کوئی بڑا قدم اٹھانے کے لیے۔" ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسے زندہ زمین میں گاڑ دیں ۔
"میں نے کب منع کیا ہے آپ کو کچھ کرنے سے۔"
"تمھاری ماں زندہ ہوتی تو آج تم مجھ سے اس طرح زبان نہ چلاتے اور مجھے تو ڈر ہے کہیں تمھاری اولاد بھی تم جیسی نہ بن جائے۔" احمد صاحب نے اسے شرم دلائی مگر شاید وہ واقعی بہت ڈھیٹ تھا۔
"کیا آپ یہ لیکچر کل دے سکتے ہیں اس وقت میں بہت تھک گیا ہوں ۔" ان کی بات سنے بغیر وہ سائیڈ سے گزرتا اندر چلا گیا۔ احمد صاحب کوفیصلہ کرنے میں ایک لمحہ لگا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ہیلو، کیسے ہو دونوں۔" ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے وہ دونوں میچ دیکھ رہے تھے جب تانیہ جو ان کے ماموں کی بیٹی تھی ،صوفے پر بیٹھتی بولی۔
"کیا تمھیں کیسی نے بتایا نہیں تانیہ کہ کیسی کے گھر جا کر سلام کرتے ہیں یا ہر دفعہ میں ہی تمھیں یاد کرواتا ہوں۔" طلال نے اسے دیکھ کر کہا۔
"اینی وے، تم کیا کر رہے ہو؟" تانیہ اس کی بات کو نظرانداز کرتی بولی۔
"لوڈو کھیل رہے ہیں تم بھی کھیل لو۔" طلال طنز کرتے بولا۔
"لوڈو تو کہیں نظر نہیں آرہی۔"
"کیوں تمھیں نظر نہیں آرہا میچ دیکھ رہے ہیں یا ان آنکھوں کی جگہ بٹن فکس کروالیے ہیں؟" جواب اجلال نے دیا تھا۔ اجلال انصاری بہت کم بولتا تھا مگر جب بولتا تھا تو سامنے والا کچھ بولنے کے قابل نہیں رہتا تھا۔
"پھوپھو اور امل کہاں ہیں؟" اس نے ادھر ادھر دیکھتےکہا کم از کم وہ ان دونوں کے ساتھ مزید بیٹھ کر اپنی بےعزتی نہیں کروانا چاہتی تھی۔
" امل کچن میں ہے اور ممی اپنے کمرے ہیں۔" طلال امل کو آواز دیتا بولا۔
"کیسی ہو امل؟" امل کو ادھر آتے دیکھ کر تانیہ بولی۔ امل کو وہاں دیکھ کر ان دونوں نے بھی سکون کا سانس لیا۔
"میں ٹھیک ہوں، تم کب آئیں؟" امل نے اسے گلے لگاتے کہا۔
"بس ابھی آئی تھی مگر شاید یہاں مہمانوں کی میزبانی کا کوئی رواج نہیں ہے۔" تانیہ نے طلال اور اجلال کو سنانے کے لیے زرا اونچی آواز میں کہا۔
"جو بندہ تقریباً روز ہی ہمارے گھر آیا بیٹھا ہو اسے کس زبان میں مہمان بولتے ہیں۔" طلال نے صوفے پر بیٹھے گردن موڑ کر تانیہ کو دیکھا۔
مقدس بیگم کا ایک ہی بھائی تھا اور وہ اپنے بھائی سے رشتےداری قائم رکھنا چاہتی تھیں۔ امل کا رشتہ پہلے ہی خالہ کے بیٹے سے طے تھا۔ مقدس بیگم چاہتی تھیں کہ ان کے بھائی کی بیٹی ان کی بہو بنے مگر اجلال نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ وہ کسی سے بھی شادی تو کیا منگنی بھی نہیں کرنا چاہتا ۔ سب جانتے تھے اجلال انصاری کا انکار کبھی اقرار میں نہیں بدلتا تھا۔ انصاری صاحب کے کہنے پر مقدس بیگم نے طلال سے تانیہ کا رشتہ طے کر دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں کی بلکل نہیں بنتی تھی۔ تانیہ سلجھی ہوئی اور پڑھی لکھی لڑکی تھی اور کافی کانفیڈینٹ بھی۔ مگر وہ ہمیشہ کچھ ایسا کر دیتی تھی جس پر طلال ہمیشہ اس پر طنز ہی کرتا تھا۔
"تم ممی کے کمرے میں جاو میں ابھی آتی ہوں۔" تانیہ کو مقدس بیگم کے کمرے میں بھیجتے اس نے اپنے دونوں بھائیوں کی طرف دیکھا جنہوں نے دوبارہ اپنا دھیان میچ کی طرف کرلیا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"امّی آخر اس ڈبے میں ایسا بھی کیا ہے جو آپ ہر تیسرے دن اسے کھول لیتی ہیں؟" ایشل نے اپنی امّی کو لکڑی کا باکس کھولے دیکھ کر کہا۔
"تم جانتی ہو اس میں تمھارے بابا کی تصویریں اور کچھ اہم چیزیں ہیں۔" ڈبے کو الماری میں واپس رکھ کر اسے دیکھا۔
"وہی تو کہہ رہی ہوں آخر ایسا کون سا سامان ہے جو آج تک آپ نے مجھے نہیں دیکھایا؟ " آخر اس میں ایسا بھی کیا تھا۔ل
"میں صحیح وقت کا انتظار کررہی ہوں۔" وہ اس سے نظریں ہٹا کر بولیں۔
"اور یہ صحیح وقت کب آئے گا؟ ویسے بھی بابا نے ہمارے لیے کوئی زمین جائیداد تو چھوڑی نہیں جس کے کاغذات آپ صحیح وقت پر دیں۔" ایشل نے ان کے کندھے پر سر رکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔
"دیکھو ایشل وہ جیسے بھی تھے تمھارے ابو تھے، تم کیوں اپنے دل سے ان کی نفرت نہیں نکال رہیں۔" وہ چاہ کر بھی اس کے دل سے اپنے شوہر کی نفرت ختم نہیں کرسکی تھیں۔
"اچھا اب آپ رونے مت لگ جائیے گا۔" ان کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر کہا۔ "اب آپ دوا کھا کر آرام کریں، میں بھی سونے جارہی ہوں صبح یونی بھی جانا ہے۔" انہیں دوا کھلا کر وہ خود باہر صحن میں آگئی۔
"آخر ایسی کون سی بات ہے جو امّی مجھے بتا نہیں رہیں۔" آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتی وہ سوچوں میں گم ہوگئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"مجھے لگتا ہے…میرا آخری…وقت قریب آ… آگیا ہے۔" اکھڑتی سانسوں کے ساتھ وہ عورت مدھم آواز میں اپنے شوہر سے بولیں۔
"ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں تم ٹھیک ہو جاؤ گی پھر تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔" انہیں اپنی بیوی کی بات سے تکلیف ہوئی۔
"ڈاکٹرز۔۔۔ کے کہنے سے۔۔۔ قدرت۔۔۔ کے فیصلے ۔۔۔۔ نہیں بدلتے۔"ان کی سانسیں گہری ہوتی جارہی تھیں۔ " آپ۔۔۔ آپ مجھ سے ایک۔۔۔۔ ایک وعدہ کر۔۔۔ کریں۔"وہ اپنی بیوی کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے انہیں دیکھ رہے تھے۔
"میرے ۔۔۔۔ میرے بعد۔۔۔ آپ ہمارے بچوں۔۔۔ کو خاص ۔۔۔ خاص طور پر ۔۔۔۔ سکندر کو خود۔۔۔ خود سے الگ ۔۔۔۔۔ نہیں کریں گے۔۔۔ وہ بہت جز۔۔۔جزباتی ہے۔" یہ آخری الفاظ تھے جو انہوں نے کہے تھے۔ اتنے سالوں کا ساتھ ایک پل میں ختم ہوگیا تھا۔
" کاش آج تم زندہ ہوتیں ۔ میں تم سے کیے وعدے کو توڑنا نہیں چاہتا مگر اب لگتا ہے کہ مجھے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے معاف کر دینا عافیہ۔"اپنی بیوی کی تصویر دیکھتے، ماضی کو یاد کرتے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"اسٹوڈنٹس آپ لوگوں کے فائنلز دسمبر کے پہلے ہفتے سے سٹارٹ ہو رہے ہیں، پیپرز کا شیڈیول بہت جلد آپ کو مل جائے گا۔" کلاس ختم ہونے کے بعد سر پیپرز کا بتا کر چلے گئے تو طلال اٹھ کر ان دونوں کے پاس آیا۔
" مجھے پتہ ہے تم دونوں نے بہت سارے نوٹس تیار کیے ہوِئے ہیں اس لیے پیپرز میں تم دونوں میری مدد کرو گی۔"ہمیشہ کی طرح آنکھوں پر کالا چشمہ پہنے ، بیگ کندھے پر ڈالے وہ ان کو حکم دیتا بولا۔
"کس خوشی میں، میں تمھیں اپنے نوٹس نہیں دوں گی۔ کبھی خود بھی کچھ کر لیا کرو۔" ایشل اپنا بیگ اٹھاتے امل کو لیتی جانے لگی تو طلال ان کے سامنے آگیا۔
"کتنی بےمروت ہو، اپنے دوست کی مدد بھی نہیں کر سکتیں؟" ایشل وہاں سے جانے ہی لگی تھی جب طلال کے دوست لفظ پر اس نے رک کر امل کی طرف دیکھا۔
"امل اگر اب یہ میرے سامنے آیا تو میں اس کا سر پھاڑ دوں گی۔ میں لائبریری جارہی ہوں تمھیں آنا ہو تو آجانا۔" طلال کی بات پر غصہ سے کہتی اس نے لائبریری کا رخ کیا ۔
گراونڈ سے لائبریری کی طرف مڑتے اسے لگا جیسے کوِئی اس کا پیچھا کر رہا، ایشل نے رک کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ سر جھٹک کر وہ آگے بڑھنے ہی لگی کہ ایک لڑکا اس کے راستے میں کھڑا ہوگیا۔ ایشل سائیڈ سے گزرنے لگی جب اس نے ہاتھ آگے کر کے دوبارہ اس کا راستہ روکا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے سمیر، ہٹو میرے راستے سے۔"اپنے کزن کو سامنے دیکھ کر ایشل پہلے خوفزدہ ہوئی مگر پھر اپنے لہجے کو مضبوط کرتی بولی۔
"ارے کزن، ہم تو صرف آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ ہیں کہ ہر بار دور بھاگتی ہیں۔" وہ لڑکا گلے میں پہنی چین انگلی میں لپیٹتا اس کی طرف بڑھا۔
"مجھے تمھاری کوئی بکواس نہیں سننی اب ہٹو یہاں سے۔" ایشل نے غصے سے کہا۔
"اپنی دوست کے بھائی کے ساتھ تو بہت ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہو، میں تو پھر تمھارے ماموں کا بیٹا ہوں۔" سمیر اس کی طرف بڑھتا بول رہا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"طلال تمھیں ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا۔" امل اس پر غصہ کرتی بولی۔
"یار میں صرف مذاق کر رہا تھا اور وہ سیریس ہوگئی۔" طلال کو حیرت ہوئی تھی۔
"میں ایشل کو ڈھونڈنے لائبریری جا رہی ہوں اگر تمھیں اسے سوری بولنا ہے تو چلو ورنہ میرے پیچھے مت آنا۔" وہ اسے وارن کرتی کلاس سے نکلی۔
"مطلب اب اتنے سے مذاق پر معافی بھی مانگوں۔" طلال کی آواز پر امل نے گھور کر اسے دیکھا۔
"امل روکو آرہا ہوں میں۔" گلاسز دوبارہ آنکھوں پر لگاتے وہ امل کے پیچھے بھاگا۔
وہ دونوں لائبریری کے پاس پہنچے تو گراونڈ کے پلر کے پاس انہیں ایشل نظر آئی جو پیچھے کی طرف قدم بڑھا رہی تھی اور ایک لڑکا اسے تنگ کر رہا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر جہاں امل رکی وہیں طلال کا پارہ فوراً ہائی ہوا تھا، وہ بھاگتا ان کے پاس پہنچا اور اس لڑکے کے منہ پر مُکا مارا۔ ایشل بےاختیار پیچھے ہٹی اور پاس کھڑی امل نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔ طلال نے سمیر کو پکارتے اس پر مُکوں کی برسات کی تو سمیر نے اپنے بچاؤ کے لیے اس کی ناک پر مُکا مارا جس کی وجہ سے طلال کی ناک سے خون بہہ نکلا۔
"طلال… بس کرو ، چھوڑ دو اسے۔" امل نے معاملہ بِگڑتے دیکھ طلال کو روکنا چاہا وہ دونوں آپس میں گتم گھتا ہوئے ایک دوسرے کو مارے جارہے تھے۔ ان دونوں نے ہی آج تک طلال کو کسی سے سخت لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا اور آج اسے اسے لڑتے ہوئے دیکھ کر ان دونوں کے ساتھ ساتھ کچھ کلاس فیلوز کو بھی شاک لگا تھا۔
وہ دونوں طلال کو آوازیں دیں رہی تھی مگر طلال کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سمیر کا قتل کردے، اس کے اپنے منہ سے بھی خون نکل رہا تھا۔ معاملہ زیادہ بگڑتے دیکھ کر کچھ لڑکوں نے آگے بڑھ کر دونوں کو الگ کیا۔
" اگر اب تم مجھے اس کے یا کسی بھی لڑکی کے آس پاس نظر آئے تو میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" شرٹ کی آستین سے منہ صاف کرتے طلال غصے سے چینخا۔ ایشل کے ساتھ امل کو بھی طلال کو اس طرح سمیر کو مارتے دیکھ کر جھٹکا لگا تھا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟ آپ لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، روز روز یہاں لڑائی کر کے یونی کا ماحول خراب مت کیا کریں، تم دونوں چلو زرا میرے آفس میں۔" کسی طلباء نے ایچ۔او۔ڈی۔ کو لڑائی کی اطلاع دی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ایشل پلیز چپ ہو جاو۔" ایچ۔او۔ڈی، طلال اور سمیر کو اپنے آفس لے گئے تھے۔ ایشل وہی سیڑھیوں پر بیٹھی سر گھٹنوں پر رکھے روئے جارہی تھی۔
"ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا امل، تم جانتی نہیں ہو اگر سمیر نے سب اپنے گھر بتا دیا تو ممانیاں سب کچھ بڑھا چڑھا کر امّی کو بتائیں گئیں اور میرا جینا حرام کر دیں گئیں۔" رورو کر اس کی آنکھیں لال ہو گئیں تھیں۔
"تم دیکھنا ایسا کچھ نہیں ہو گا، پلیز رونا بند کرو سب اسٹوڈینٹس ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ لو پانی پیو۔ " امل پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھاتی بولی۔
" یا اللہ ، میں کیا کروں۔ امل اگر سمیر نے یہ سب امّی کو غلط بیانی کرکے بتا دیا پھر میں کیا کروں گی۔ اس کی حالت دیکھ کر سب اس کی بات کا یقین کر لیں گے اور میرا کیرئیر میرے خواب سب تباہ ہو جائے گا۔" اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے۔
" میری جان، تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟ کچھ نہیں ہو گا ان شاء اللہ۔" امل اس کے آنسو صاف کرتی بولی۔
"میں۔۔۔ میں گھر جا رہی ہوں۔" آنسو صاف کرتی وہ اٹھنے لگی۔
"پاگل مت بنو ایشل، آنٹی کا سوچو تم ایسے گھر جاو گی تو وہ تمھاری حالت دیکھ کر پریشان ہو جائیں گی۔" امل نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرکے کہا جو رونے کے باعث سرخ ہورہی تھیں۔
"اب اٹھو ہم کامن روم چلتے ہیں یہاں بیٹھ کر رو گی تو سب پتا نہیں کیا سوچیں گے۔"امل اس کا ہاتھ پکڑتی بولی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"کیوں یونی کا ماحول خراب کر رہے تھے تم دونوں؟"ایچ۔او۔ڈی۔ غصے سے بولے۔
" سر میں اپنی کزن سے بات کر رہا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔" سمیر سارا الزام طلال پر ڈالتے بولا۔
"بکو مت، تم اس سے بات نہیں کررہے تھے تم اس کو ہراساں کرنا چاہ رہے تھے۔" طلال نے طیش کے عالم میں کہا۔
"وہ میری کزن ہے میں اس سے جیسے مرضی بات کروں ،تمھیں اتنا برا کیوں لگ رہا ہے؟" سمیر کے کہنے پر طلال اسے مارنے آگے بڑھا۔
"بس کر جاو۔" ایچ۔او۔ڈی۔ کی روعب دار آواز پر دونوں سیدھے ہوئے۔
" ابھی میں تم لوگوں کے گھر فون کرکے تمھارے کرتوت انہیں بتاتا ہوں۔ " فون ہاتھ میں پکڑتے وہ دھمکی دی۔" سمیسٹر بتاو دونوں اپنا؟"
" سیون سمیسٹر ہے۔" جواب سمیر کی طرف سے آیا۔
"شرم کرو کچھ ،کیوں ایک لڑکی کے پیچھے اپنی چار سال کی محنت ضائع کر رہے ہو۔اپنی پڑھائی مکمل کرو اور اچھا کیرئیر بناؤ ۔اب آئندہ کوئی تماشا لگایا تو فائنل کے پیپرز میں باہر ہوگے۔ " ہاتھ سے انہیں باہر جانے کا اشارہ کرتے وہ بولے۔
ایچ۔او۔ڈی۔ کے آفس سے باہر آنے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"تم آفس کیوں نہیں آرہے تھے سکندر؟" انہیں سکندر آج بہت دنوں بعد آفس میں نظر آیا ۔
"میرا موڈ نہیں تھا، آپ بتائیں کیا چل رہا ہے۔" اپنے بھائی کے آفس روم کی چیئر پر بیٹھے وہ مسلسل پاؤں ہلا رہا تھا.
"تم جانتے ہو تمھاری وجہ سے بابا جان کتنے پریشان رہتے ہیں۔ آخر تم اُن آوارہ لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں ختم کردیتے، تم خود سمھجدار ہو پھر بھی ناجانے تم باتوں کو کیوں نہیں سمجھتے؟" حسان کے لہجا میں اپنے بھائی کے لیے پریشانی صاف ظاہر تھی۔
"بابا جان کو تو آپ رہنے ہی دیں، وہ مجھ سے کبھی خوش نہیں ہوتے۔ " اس نے جھنجھلا کر کہا۔
"اگر تم دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا کم کر کے کاروبار پر دھیان دو گئے تو بابا جان ضرور خوش ہوں گئے۔" اس نے سکندر کو سمجھانے کی کوشش کی۔
"ہمم… بھائی اگر میں آفس آنے لگ گیا نا پھر میرے غصے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سب ایمپلائز ریزائن کر دیں، اس لیے بہتر یہی ہے میں آفس نہ ہی آؤں۔" پیپر ویٹ گھوماتے اس نے لاپرواہی سے کہا۔
"اس غصے کو کہیں آگ لگا کر اپنے بیوی بچوں کا سوچو ، ابھی بچے چھوٹے ہیں کل کو ان کی ضروریات بڑھ جائیں گی ،تم اپنے ساتھ ان کا مستقبل بھی برباد کررہے ہو۔" سکندر کی اس قدر لاپرواہی نے حسان کوغصہ دلایا۔
"اوہ…پلیز بھائی، اب آپ بابا جان کی طرح بھاشن دینے مت شروع ہوجانا۔ میں صرف اس لیے آفس آیا تھا کہ مجھے کچھ پیسے چاہیے تھے اور آپ کاروبار کی باتیں لے کر بیٹھ گئے۔" کاروبار کے نام پر ہمیشہ کی طرح اس کے چہرے پر بے زاری آگئی۔ بھائی سے چیک پکڑتے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا ۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ وہاں سے سیدھا واش رومز کی طرف آیا۔ واش بیسن کے سامنے لگے شیشے میں اپنا چہرا دیکھتے وہ ایک دم چونکا۔ چہرے پر پانی کی چھینٹے مار کر آستن پر لگے خون کے نشان صاف کیے۔ یونی کی ڈسپینسری سے سنی پلاسٹ لینے کے بعد اس نے امل کو کال کی۔
"کہاں ہو تم؟" امل کے کال اٹھتے ہی طلال بولا۔
"کامن روم میں ایشل کے ساتھ۔" جب طلال نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ دوبارہ بولی ۔" طلال۔۔ تم ٹھیک ہو؟"
"ہاں تم پارکنگ ایریا کی طرف آجاو میں وہیں ہوں۔" امل کی بات سنے بغیر فون جیب میں رکھ کر اپنی گاڑی میں آبیٹھا۔
" چلو ایشل، ہم تمہیں گھر ڈراپ کر دیتے ہیں؟" طلال کا فون سننے کے بعد امل ایشل کے پاس آئی۔
"نہیں، میں چلی جاؤں گی۔ تم جاؤ." اس نے اپنے ہاتھوں پر نظریں جمائے کہا۔
"ہماری دوستی کو اتنے سال ہوگئے ہیں ایشل پر آج تک نہ تم میرے گھر آئی ہو اور نہ ہی اپنے گھر کا پتہ بتاتی ہو۔ تم میرے ساتھ چل رہی ہو ،اب میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گی۔ "ایشل کا بیگ اٹھاتی امل باہر نکلی۔
سیٹ سے ٹیک لگائے طلال کی نظر سامنے سے آتیں امل اور ایشل پر گئی۔ اس نے موبائل نکال کر ٹائم دیکھا، ابھی چُھوٹی میں دیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔
"ایشل کو ہم گھر ڈراپ کریں گئے۔" امل نے گاڑی کا بیک ڈور کھولتے حکم دیا۔
"امل پلیز، رکشے والے انکل آنے والے ہوں گئے میں چلی جاؤ گی۔" ایشل کے بولنے پر طلال گاڑی سے باہر آکر ایشل کے پاس آیا۔
"ایشل… آئی۔ایم۔ سوری۔ میں صرف تم سے مذاق کر رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی سے بات پر ناراض ہو جاو گی۔" طلال اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
"اتنی سی بات…طلال تم جانتے نہیں ہو جو تم نے ابھی کیا اس کے بعد وہ شخص میری اور میری ماں کی زندگی برباد کردے گا۔" ایشل ارد گرد کی پروا کیے بغیر چیخی۔
یہ دیکھو میرے جوڑے ہوئے ہاتھ اور پلیز گاڑی میں بیٹھو اس سے پہلے یہ سب مجھے مارنا شروع کردیں کہ شائد میں تمھیں چھیڑ رہا ہوں۔" اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"ایشل بیٹھ جاو، میں تمھیں رکشے میں ہرگز نہیں جانے دوں گی کہیں تمھارا وہ لفنگا کزن راستے میں تمھیں تنگ نا کرے۔" امل کی بات پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی طلال کو ایڈریس بتاتی گاڑی میں بیٹھی یہ جانے بغیر کے ایک بہت بڑی مصیبت اس کے انتظار میں ہے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
جاری ہے۔۔