Rah e taqdeer by Al...
 
Share:
Notifications
Clear all

Rah e taqdeer by Aleena Khan episode 7

1 Posts
1 Users
0 Reactions
173 Views
(@aleena-khan-officiall)
Eminent Member Customer
Joined: 11 months ago
Posts: 9
Topic starter  

ناول: راہِ تقدیر
از قلم: علینہ خان

قسط نمبر 7۔۔

وہ سیٹی بجاتے گھر میں داخل ہوا تو صائمہ ممانی حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
"خیر ہے آج بڑے خوش لگ رہے ہو؟"ان کے پوچھنے پر سمیر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔
"آپ کی ہونے والی بہو کو اس کی اوقات بتا کر آیا ہوں بہت اڑ رہی تھی۔"وہ صوفے پر لیٹنے والے انداز میں بیٹھا۔
"کس بات پر اڑ رہی تھیں محترمہ؟کہیں اس کا یار واپس تو نہیں آگیا؟"اچانک سے خیال آتے انہوں نے پوچھا۔
"یار تو واپس آگیا اس کا مگر مجھے لگتا ہے ان کا بریک اپ ہو گیا تبھی اس کی بہن بھی ایشل کے آس پاس نہیں نظر آتی۔"طلال کے بارے میں بات کرتے اس کے لہجے میں زہر گھل گیا۔
"تبھی میں کہوں وہ شادی کے لیے کیسے مان گئی اب پتہ لگا اس کا یار اسے چھوڑ گیا۔"صائمہ ممانی فوراً بولیں۔
"اگرآپ نے منگنی کی جگہ سیدھا نکاح کیا ہوتا تو آج اس کا دماغ ٹھکانے پر ہوتا، کہتی ہے مجھے آپ نہیں کہے گی۔میں بھی اس کے دماغ کی ساری ہوشیاری نکال دوں گا۔"سمیر نے تلخی سے کہا اور صوفے سے اٹھ کر ٹانگیں سیدھی کیں۔
"ایسی لڑکیوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے، محبت و شفقت نہیں چلتی۔" صائمہ ممانی نے بھی قہر آلود انداز میں سر ہلایا۔ "سمجھ رہی ہے، منگنی کے بعد ہمارے قابو میں نہیں آئے گی؟"
"بس کچھ مہینوں کی بات ہے۔ نکاح کے بعد خود ہی سب یار وار بھول جائے گی۔زبان چلانا تو دور وہ پھر کبھی سر نہیں اٹھا سکے گی ہمارے سامنے۔" سمیر نے آخری جملہ سرد مہری سے کہا اور چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ لے آیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
رات کے ناجانے کس پہر اس کی آنکھ کھلی ،دل عجیب بے چین ہوا تھا۔ بستر سے اٹھتے اس نے وقت دیکھا۔ رات کے ساڑھے تین کا وقت تھا ابھی فجر میں بہت وقت باقی تھا۔یہ اس کا روز کا معمول تھا اس وقت اس کی آنکھ خود ہی کھل جاتی اور آج کل تو اس کی نیندیں ویسے ہی کہیں غائب ہو چکی تھیں۔وضو کے بعد تہجد ادا کرتے جب وہ سجدے میں گیا تو کمرے کی خاموشی میں اس کی سسکیاں گونجیں۔ ہاں ہر روز کی طرح آج بھی وہ سجدے میں اپنے رب سے محو گفتگو تھا۔کون جانتا تھا وہ اتنا مضبوط نظر آنے والا مرد رات کے اس پہر اپنے رب سے رو رو کر کسے مانگتا تھا؟یہ سب تو کئی سالوں سے چلتا آرہا تھا کہ وہ رات کے درمیانی پہر اپنے رب کے آگے اسے مانگتا تھا جو شاید اس کی تقدیر تھی بھی یا نہیں۔
نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے،آنکھیں بند کیے اس کی آنکھوں سے کچھ اشک اس کے سرخ و سفید ہتھیلی پر گرے۔
"اے میرے مالک بے شک تو رحیم ہے ،کریم ہے،سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے۔میرے دل کے حال سے بھی واقف ہے۔میں نہیں جانتا وہ دنیا کے کس کونے میں ہے یا۔۔۔۔" اگلے الفاظ ادا کرنے کے لیے اس نے خود کو ہمت دی۔
"یا وہ…اس دنیا میں ہے بھی۔۔ یا نہیں۔ میں بس اتنا چاہتا ہوں اس کی جگہ کوئی اور اس دل میں نہ آئے، نا جانے کیوں مجھے خدشہ سا رہتا ہے اگر میں اسے بھول گیا تو میرا کیا ہو گا۔ یا اللہ میں تجھ سے اسے اس جہاں اور دوسرے جہاں میں اپنے لیے مانگتا ہوں اور میرا یقین ہے اگر وہ زندہ ہے تو میری تقدیر اسے مجھ تک لے آئے گی مگر میں اپنے دل میں، اپنی سوچوں میں اس کے علاؤہ کسی لڑکی کو نہیں چاہتا…" وہ سجدے میں گرے اب رو رہا تھا اور تقدیر اس کا فیصلہ کیا ہونے والا تھا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
الارم کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تو دور کہیں سے فجر کی آذان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ بستر سے اترتے اس نے پہلے وضو کیا پھر امّی کے کمرے کی جانب بڑھی۔ کمرے کی لائٹ جلتے دیکھ وہ اندر داخل ہوئی تو انہیں قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھ ان کے پاس آئی اور سلام کرتے ان کے ماتھے پر بوسہ لیا تو امّی نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور اسے پیار کیا۔
اپنے کمرے میں واپس آتے اس نے جائے نماز بچھائی اور نیت باندھی رب کے حضور کھڑے ہوتے اسے کل کالج میں سمیر کی کہی بات یاد آئی تو آنکھوں سے اشک رواں ہوئے۔
"اے میرے مالک، میرے رب، بے شک تو سب سننے والا اور دیکھنے والا ہے یا اللّٰہ مجھے ان مشکلات سے نکال دے میرے مالک، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی تصور نہیں کر سکتی جس کا مقصد صرف مجھے تکلیف دینا ہو، جو مجھے توڑنا چاہتا ہو۔میرے مالک میں تجھ سے اپنے لیے بہتر انسان کو مانگتی ہوں جو مجھے ہر تکلیف ، ہر دکھ سے دور رکھے جسے دیکھ کر کبھی یہ احساس نہ ہو کہہ وہ مجھے میرے رب سے دور کر دے گا۔"اس کے آنسو مسلسل اس کی ہتھیلیوں کو بھگو رہے تھے۔
"اے میرے رب، میں کسی انسان کے لیے اذیت کا باعث نہیں بنی، پھر کیوں وہ کہتا ہے کہ میں نے ان سب کی زندگی خراب کر دی ہے وہ کیسے مجھے قصور وار ٹھہرا سکتا ہے۔اگر میں کسی کے لیے تکلیف کا باعث ہوں تو اللہ جی آپ مجھے ان لوگوں کی زندگیوں سے نکال دیں۔ویسے بھی سمیر جیسے شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے میں مر جاؤں۔ امّی کے لیے ان کے بھائی ہیں مگر میں امّی کے بغیر اس دنیا میں نہیں رہنا چاہتی۔اللہ جی آپ سن رہے ہیں ناں…" اس نے اپنی سسکیاں دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی ماں اسے دوبارہ روتے دیکھے۔
اب کس کی دعائیں کیا رنگ لانے والی تھیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتانے والا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
صبح سورج کی کرنوں نے چاروں اور اپنی روشنی بکھری۔ وہ اپنے آفس کی گلاس وال کے پاس کھڑے باہر دیکھ رہا تھا مگر دھیان وہ تو کہیں اور ہی تھا۔ان دو لڑکیوں نے اس کی زندگی عذاب بنا دی تھی۔ایشل جسے وہ نفرت یا بے سکونی 'جو اسے اس کے آس پاس ہونے سے محسوس ہوتی تھی' کی وجہ دور کرنے کے چکر میں اسی کی سوچوں میں رہنے لگا تھا اور ماہا شیرازی جو پہلے دن سے اس کے لیے کسی عذاب سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی۔ اسے جلد ماہا شیرازی کو اس کمپنی اور اپنی زندگی سے دور کرنا تھا کیونکہ وہ اس کی کمپنی کی ساخت کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینے والی تھی۔گلاس وال کے سامنے سے ہٹتے وہ انٹر کام کی طرف بڑھا۔
"سٹاف کو بولو میٹینگ روم میں پہنچیں مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے سب سے،جلدی۔" اجلال نے انٹرکام رکھتے گہری سانس لی۔ آج یا کل اسے یہ فیصلہ کرنا ہی تھا تو اب کیوں نہیں۔مگر وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ وہ مصیبت کو خود اپنے قریب لا رہا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد وہ میٹنگ روم کی جانب بڑھ رہا تھا۔شکر تھا آج انصاری صاحب آفس نہیں آئے تھے ورنہ یہ فیصلہ لینا اس کے لیے مشکل ہو جانا تھا۔
اس کے میٹنگ روم میں داخل ہونے پر کچھ ایملائز کے علاؤہ کوئی کھڑا نہ ہوا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھنے کا کہا، شاید یہ نئے ایمپلائز تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ اجلال انصاری کو اپنے آنے پر لوگوں کا کھڑا ہونا اچھا نہیں لگتا تھا۔
"سب سے پہلی بات یہ کہ میرے پرانے ایمپلائز جانتے ہیں کہ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میرے آنے پر میرے لیے کھڑا ہو کیونکہ میں بھی آپ جیسا ہی انسان ہوں ہم سب برابر ہیں تو میں کیوں یہ چاہوں گا کے کوئی میرے لیے کھڑا ہو۔"اس نے سلام کرتے بات کا آغاز کیا۔
" اب آتے ہیں اس بات پر کہ میں نے اچانک میٹینگ کیوں بلائی۔آج سے میری نئی سیکرٹری ماہا شیرازی ہیں اور میرے پرانے سیکرٹری بھی میرے ساتھ ہی رہیں گے میں یہ بات اس لیے بول رہا ہوں کے میں کسی کی جگہ چھین نہیں رہا۔"وہ ہاتھوں کو باہم پھنسائے بول رہا تھا مگر دل کہہ رہا تھا کہ یہ فیصلہ بہت غلط ہے لیکن اجلال انصاری کے دماغ میں جو آجائے پھر وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ماما آپ کو ایک بار عینا آپی سے بات کر لینی چاہیے ۔اگر اجلال بھائی خالہ کے کہنے پر مان گئے تو عینا آپی کی رضامندی بھی ضروری ہے ۔"فرہان کی بات سنتے مجتبیٰ صاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تو صالحہ بیگم نے فوراً عینا کو آواز دی جو کچن میں موجود دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ چند لمحوں بعد عینا لاونج میں داخل ہوئی۔
"کیا ہوا ماما؟" عینا نے حیرت سے پوچھا۔
"بیٹا، ہم نے تمہاری شادی کے بارے میں مقدس سے بات کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمہارا اور اجلال کا رشتہ طے کر دیں۔"مجتبیٰ صاحب نے اسے اپنے پاس بٹھاتے بات کا آغاز کیا۔عینا نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا۔
"ماما، وہ تو کبھی بھی اس رشتے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔"عینا کو اس دن اجلال کی کہی باتیں یاد آئیں۔
"ہم نے سوچا ہے کہ اگر ہم سب مل کر اس بارے میں بات کریں تو شاید وہ مان جائے۔" صالحہ بیگم جانتی تھیں کہ عینا کو کس بات کا خدشہ ہے۔
"لیکن ماما، میں نہیں چاہتی کہ کسی کی زندگی میں زبردستی شامل ہوں۔" عینا نے اپنی رائے دی۔ "میں ان کی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتی۔" اسکی بات پر مجتبی صاحب نے بھی اکتفا کیا۔
"شاید عینا ٹھیک کہہ رہی ہے، اجلال کی زندگی میں اس میں جب کوئی اور ہے تو ہم زبردستی عینا کو اس کی زندگی میں شامل نہیں کرسکتے۔"مجتبیٰ صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھے بولے۔
"مقدس نے کہا ہے وہ اجلال سے بات کرے گی۔" صالحہ بیگم کو کہیں یقین تھا کہ اجلال مان جائے گا۔
"اگر وہ نہ مانے تو؟" عینا نے سوال کیا۔ "کیا خالہ انہیں اس رشتے کے لیے مجبور کریں گی؟"وہ جاننا چاہتی تھی کہ صالحہ بیگم آخر کیوں اس کی شادی اجلال سے کروانا چاہتی ہیں؟
"نہیں آپی میں نے خالہ کو پہلے ہی کہہ دیا ہے وہ اجلال بھائی کو زبردستی راضی نہ کریں اور اجلال بھائی سے ماما آپ کا رشتہ بس اس لیے کرنا چاہتی ہیں کہ آپ ماما کے سامنے رہیں اور کچھ نہیں۔"فرہان نے شاید عینا کے دل میں آئی بات جان لی۔
عینا نے سر ہلایا، مگر اس کے چہرے پر ایک سایہ سا آ گیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
کتنا مشکل ہوتا ہے نہ جب آپ اپنی جان سے پیاری دوست کو اداس دیکھتے ہوئے بھی اس کے پاس اسے دلاسہ دینے نہیں جاسکتے یہی حال اس وقت امل کا تھا جو کئی دنوں سے ایشل کو اداس و پریشان دیکھ رہی تھی مگر اس کے بھائی کے الفاظ زنجیر کی صورت اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالے ہوئے تھے۔
"یہاں نہ تمھارا بھائی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا انسان جو تمھارے بھائی کو یہ بتائے کہ تم ایشل سے ملی ہو یا بات کی ہو۔"امل کے دل نے اسے ورغلایا۔
"نہیں تمھارے لیے تمھارا بھائی زیادہ اہم ہے،تم اپنے بھائی کو کیسے دھوکا دے سکتی ہو؟"دماغ نے ہمیشہ کی طرح دل کی نفی کی۔
"تم جاؤ اپنی دوست کے پاس، اسے تمھاری ضرورت ہے۔مشکل وقت میں ہمیشہ انسان کو ایک ایسے دوست کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے سمجھے،اس کے مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو،جس کے گلے لگ کر وہ اپنی ساری پریشانی بھول جائے۔"دل کی اس بات پر امل دماغ کی سوچوں کو جھٹکتے ایشل کی جانب آئی۔
"ایشل…"امل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے پکارا۔
ایشل نے نظر موڑ کر اسے دیکھا پھر اٹھ کر دور جانے لگی ۔
"ایشل پلیز رکو۔"امل کی آواز پر اس نے رکتے ابرو اچکائی۔
"مس امل انصاری آپ کو کوئی کام ہے مجھ سے؟" ایشل نے اپنے لہجے میں اجنبیت لاتے کہا مگر اس کا دل جانتا تھا اس کے لیے یہ کس قدر مشکل تھا۔
"ایشل پلیز ایسے بات مت کرو…"اپنے لیے ایشل کے لہجے میں اجنبیت اترتے دیکھ اس کی آنکھوں میں نمی اتری۔
"اوہ اچھا…"اس نے 'اچھا' کو لمبا کیا۔
"میں…میں صرف تم سے تمھاری انگیجمنٹ کا پوچھنے…"ایشل کے طنزیہ ہنسنے پر اس کے الفاظ آدھے ہی ادا ہوئے۔
"مبارکباد دینی ہو گی تمھیں بھی…یا ہمدردی دکھانے آئی ہو۔مگر یہ بات ذہن نشین کر لومجھے تم سے اور تمھاری ہمدردی سے کوئی غرض نہیں۔"وہ خود کو ٹوٹا ہوا دکھانا نہیں چاہتی تھی تبھی مضبوط لہجے سے بولی۔
"کیا ہم بات بھی نہیں کر سکتے؟"امل نے اسے روکنے کی آخری کوشش کی۔
"مس امل آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ مجھ سے دور رہیں اور میں امید کرتی ہوں آج کے بعد اور یونی ختم ہونے کے بعد بھی آئیندہ ہم کبھی نہ ملیں۔"وہ انتہائی سنگدلی سے بولی تھی اور امل کو لگا آج اس نے سب کھو دیا ہے۔
ایشل وہاں سے جا چکی تھی جبکہ وہ وہیں کھڑی اپنی دوستی کے تابوت میں ٹھونکی گئی آخری کیل پر افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
طلال آج یونی نہیں گیا تھا اس وقت وہ بالکنی میں کھڑا اپنے اس دن کے رویے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
"تم نکلو میرے کمرے سے اور آئندہ میری اجازت کے بغیر اس کمرے میں مت آنا۔"اسے اپنے الفاظ یاد آئے کس قدر بے رخی تھی اس کے لہجے میں۔
فون جیب سے نکال کر اس نے تانیہ کا نمبر ملایا مگر دوسری طرف کال جا ہی نہیں رہی تھی جس کا صاف مطلب تھا وہ اسے بلاک کر چکی تھی۔
"اب کیا کروں؟ممی سے بولوں؟ …نہیں… پتہ نہیں وہ کیا سوچیں گی۔" وہ ریلنگ پر ہاتھ جمائے سوچنے لگا۔
"اف…میرے اللّٰہ میں کیا کروں؟اس کے گھر بھی نہیں جا سکتا اور وہ میڈم زرا سی بات پر بلاک کر چکی ہیں۔"
"زرا سی بات…" دل نے فوراً دہائی دی۔
"ہاں زرا سی بات تو نہیں تھی، وہ اسے ذلیل کر کے اپنے کمرے سے نکال چکا تھا اور پھر اسے اچھی خاصی سنا دی تھیں اس پر بلاک ہونا تو بنتا تھا اس کا۔"طلال نے لمبی سانس کھینچتے حل تلاشنے کی کوشش کی۔
"زینب…ہاں زینب اس کی مدد کر سکتی ہے مگر وہ تو اس وقت کالج ہو گی ۔"کچھ سوچتے اس نے زینب کا نمبر ملایا۔
"السلام علیکم!طلال بھائی کیسے ہیں آپ؟آج کیسے یاد کر لیا ہمیں؟کہیں تانیہ آپی کی جگہ مجھے تو کال نہیں ملا دی؟"زینب نے کال اٹھاتے سوالات کی بھرمار کر دی۔
"آرام سے لڑکی،ایک ساتھ اتنے سوال۔پہلی بات میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو اور دوسری، فون میں نے آپ کو ہی کیا ہے گڑیا آپ کی تانیہ آپی کو نہیں۔"فون کے اسپیکر سے زینب کے پیچھے تانیہ کی آواز سنتے وہ جان بوجھ کر بولا۔یقیناً زینب ماموں لوگ کی طرف تھی۔
""اوہ..مجھے تو لگا شائد آپ تانیہ آپی کی جگہ مجھے غلطی سے کال ملا بیٹھے،ویسے میں تو ہمیشہ کی طرح بہت پیاری ہوں مگر تانیہ آپی سے کم۔"تانیہ نے اسے آنکھیں دکھائیں تو اس نے فون اسپیکر پر ڈالا۔
"میں نے کبھی غور نہیں کیا تمھاری آپی پر کہ وہ پیاری ہے یا نہیں مگر ہماری یہ چھوٹی سی گڑیا ضرور پیاری ہے۔"طلال نے جان بوجھ کر یہ بات کہی۔
"طلال بھائی۔۔۔۔میں چھوٹی نہیں ہوں اور مجھے معلوم ہے آپ نے مجھے کیوں کال کی اس لیے یہ فون میں اب تانیہ آپی کو دے رہی ہوں اور آئندہ مجھے چھوٹی نہیں بولیے گا ورنہ کبھی تانیہ آپی سے آپ کی بات نہیں کرواؤں گی۔" زینب کے روٹھنے پر طلال نے قہقہہ لگایا۔دوسری طرف موجود تانیہ نے گلا کھنکار کے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو وہ فوراً چپ ہوا۔زینب وہاں سے جا چکی تھی۔
"کیسی ہو؟"کچھ سیکنڈ بعد طلال نے بات کا آغاز کیا۔
"جیسی بھی ہوں تمھیں کیا؟"اس کے لہجے سے معلوم ہو رہا تھا وہ کافی خفا تھی۔
" آئی ایم سوری،مجھے اس دن تم سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔"طلال کو واقعی اس دن کے لیے شرمندہ تھا۔
"تم نے جو میری بےعزتی کی،مجھے کمرے سے دھکا دے کر نکالا اس کے لیے بس 'سوری'۔" اس نے سوری پر زور دیا۔"میں مانتی ہوں اس دن میں تمھارے کمرے میں تمھاری اجازت کے بغیر آئی مگر میں نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی جب تم نے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے پریشانی ہوئی کہیں تم بیمار نہ ہو مگر نہیں تم پر تو پتہ نہیں کون سا بھوت سوار تھا۔"بولتے بولتے اس کا لہجا بھیگا۔
"تم نے بھی تو بعد میں مجھے بلاک کر دیا اس کا کیا؟ میں بھی کب سے کال کر رہا ہوں اور تم نے مجھے اپنی بلاک لسٹ کا حصہ بنایا ہوا ہے۔اب میں بھی اس پر ناراض ہو جاؤں؟" اسے افسوس ہوا تھا اس دن کے لیے مگر تانیہ کو اس کے بعد اس سے رابطہ کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے بلاک کر دیا۔
"واہ طلال انصاری صاحب اتنے دنوں سے تو جیسے میں آپ کی روٹھی محبوبہ بنی ہوئی تھی ناں، میں گھر سے غائب تھی، سب سے رابطہ ختم کیا ہوا تھا، فون کو آف کر کے سب کو عذاب میں ڈالا ہوا تھا،ہے ناں۔ تم…تم سمھجتے کیا ہو خود کو ہاں…تم اتنے دن گھر سے غائب رہ کر ، سب سے رابطہ ختم کر کے، فون بند کر کے جب لوٹ کر آؤ گے تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔"تانیہ نے نم سانس کھینچتے شکوہ کیا۔
"اوکےبابا میں مانتا ہوں میں نے سب کو بہت تنگ کیا، تمھارے ساتھ مِس بیہوو کیا مگر تم نہیں جانتیں میں کس مشکل سے گزر رہا تھا۔میں اگر یہاں رہتا تو شاید خود کو ختم کر چکا ہوتا۔اب پلیز یہ مت پوچھنا کیا ہوا تھا۔میں دوبارہ اس اذیت سے نہیں گزرنا چاہتا بہت مشکل سے خود کو کمپوز کیا ہے۔"وہ آسمان پر نظریں جمائے ہوئے تھا اور آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
"طلال…تم ٹھیک ہو؟ "جب کچھ دیر تک طلال کچھ نہ بولا تو تانیہ نے پوچھا۔
"ہاں…ٹھیک ہوں اب۔تم بتاؤ تمھاری ناراضگی کیسے ختم ہوگی؟" طلال آنکھوں کو صاف کرتے ایسے بولا کہ تانیہ کو شک نہ ہو کہ وہ رو رہا تھا۔
"کیا تمھیں پرواہ ہے میری ناراضگی کی؟"تانیہ نے بےاختیار سوال کیا۔
"تمھاری پرواہ ہے تو کال کی تھی ورنہ میں پاگل ہوں ایک لڑکی کو منانے کے لیے دوسروں کا سہارا لوں گا۔"اس کے الفاظ تانیہ کے گال سرخ کر گئے۔
"اچھا سنو…"طلال نے اسے پکارا۔
"ہاں…"پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔
"کیا اب تم مجھے ان بلاک کر دو گی؟"وہ جس طرح بولا تانیہ نے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا۔
"نہ کروں تو…؟ "اب وہ باقاعدہ اسے چڑانے کے موڈ میں تھی۔
"یارر...آج تو تکا لگ گیا کہ تمھارے پاس زینی تھی ورنہ میں تمھارے گھر آنے والا تھا تمھیں منانے، پھر تم سب کو جواب دیتی پھرتیں کہ تم مجھ سے ناراض کیوں ہو۔کیونکہ میں تو بہت معصوم ہوں تمھیں کبھی ناراض کر ہی نہیں سکتا۔"طلال نے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے منہ پر رکھی۔
"تم اور معصوم…آج کا سب سے بڑا جھوٹ ہے یہ مسٹر طلال۔ویسے تم مجھے بجائے منانے کے خود مظلوم بن گئے اور اب الٹا مجھے ہی بول رہے ہو کے میں ناراض تھی۔"طلال کی بات پر تانیہ کا دل کیا اگر وہ اس کے سامنے ہوتا تو اس کے بال کھینچ لیتی۔
"اچھا معافی مانگ تو رہا تھا تم نے ہی مانگنے نہیں دی۔" ہائے اس کی معصومیت۔
"تم ایسے کیوں ہو طلال؟"تانیہ اس کے بدلتے موڈ پر حیران تھی۔کھبی وہ اتنا اجنبی لگتا جیسے اسے جانتا نہ ہو اور کبھی اتنا اپنا کہ جیسے اس کے علاؤہ اس کا کوئی دوست نہ ہو۔
"کیسا ہوں؟"طلال نے الٹا سوال کیا۔
"یوں پل میں بدلتے موڈ،کبھی اتنے اجنبی اور کبھی اتنے اپنے۔"وہ آخر پوچھ بیٹھی۔
"شاید خون کا اثر ہے اس لیے۔" طلال نے بہت آہستگی سے کہا، شاید ہی اس کی آواز تانیہ تک پہنچی ہو۔
"کیا کہا؟" اس کی سرگوشی تانیہ کی سمجھ سے باہر تھی۔
"کچھ نہیں۔ بس اب نہیں بدلتا۔ تم ابھی مجھے ان بلاک کرو ورنہ پھر میں تمھاری طرف آ کر خود ممانی کو بولوں گا کہ اس نے مجھے بلاک کر رکھا ہے۔"اس نے پل میں بات گھمائی۔ہاں وہ بات گھمانے میں ماہر تھا۔
"تم …طلال تم بہت برے ہو۔"مطلب وہ اپنا سارا الزام اس پر ڈال رہا تھا۔
"تم سے کم، مائے ڈئیر۔اب شرافت کے ساتھ زینی کو اس کا فون واپس دو اور میرے نمبر کو اپنی بلاک لسٹ سے نکالو۔اللہ حافظ۔"طلال نے حکم دیتے فون بند کیا جبکہ تانیہ وہ تو اس کے 'مائے ڈئیر' کہنے پر ہی اٹک گئی۔
"ہنہہ…فضول انسان۔"اپنا فون اٹھاتے طلال کے نمبر کو ان بلاک کرتے اب وہ اسے دل ہی دل میں اچھی خاصی سنا چکی تھی۔ دوسری طرف طلال اب ابھی آسمان پر اڑتے پرندوں کو تکنے میں مصروف تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آج بہت سوچنے کے بعد مقدس بیگم اجلال سے باتیں کرنے والی تھیں مگر اندر کہیں وہ جانتی تھیں اجلال کبھی نہیں مانے گا اور اگر مان بھی جائے تو وہ ویسی زندگی نہیں گزار سکے گا جو وہ چاہتا ہے۔
"کیا بات ہے بیگم آج بہت اداس لگ رہی ہیں؟"انصاری صاحب جو کب سے انہیں سوچوں میں گم بیٹھے دیکھ رہے تھے بولے۔
"میں سوچ رہی ہوں اجلال سے کیسے بات کروں شادی کی؟صالحہ کو تو بول دیا کے میں اجلال کو شادی کے لیے راضی کر لوں گی مگر یہ بہت مشکل ہے۔"مقدس بیگم کی پریشانی بنتی بھی تھی۔
"کیوں پریشان ہو رہی ہو؟اجلال کی زندگی ہے اور زندگی کے اس فیصلے کے لیے ہم اس کے ساتھ زور زبردستی نہیں کریں گے۔طلال اور امل کے رشتے طے کرنے سے پہلے بھی ہم نے ان کی رائے لی تھی تو اجلال کی شادی کیسے اس کی مرضی کے بغیر کریں گے۔"انصاری صاحب نے عینک اتار کر آنکھوں کو مسلا اور نرم لہجے میں بولے، "مقدس، ہم خوابوں کو زبردستی حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔ جو زندگی اجلال چاہتا ہے، وہ اسے خود ہی جینی ہوگی۔"
"مگر زندگی کے اتنے سال وہ کیسے اکیلے گزارے گا، کبھی نہ کبھی تو زندگی میں ساتھی کی ضرورت پڑے گی۔"مقدس بیگم نے مایوس ہو کر سر جھکا لیا۔
"تمہیں معلوم ہے کہ ہر رشتہ آسان نہیں ہوتا، کچھ فیصلے مشکل ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ وقت لے لیتے ہیں۔ ہم بس دعا کر سکتے ہیں کہ جو فیصلہ اجلال کرے، وہ اس کی خوشیوں کا ضامن ہو۔" انصاری صاحب نے تسلی دی۔
"اللہ کرے ایسا ہی ہو..." مقدس بیگم نے آہ بھری۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
گھر پہنچتے وہ امّی کو سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آئی۔اس کا دل اس وقت خون کے آنسو رو رہا تھا۔کس دل سے وہ امل کو وہ تکلیف دہ الفاظ بول کر آئی تھی یہ اس کا دل جانتا تھا۔بیڈ پر بیٹھتے اس نے آنکھیں موندے امل کے ساتھ گزارے لمحات یاد کیے۔اجلال کی اس کی زندگی میں آنے سے پہلے سب کتنا اچھا چل رہا تھا، اس نے کبھی نہیں سوچا تھا اس کی اور امل کی دوستی کا اختتام اس طرح لکھا ہو گا۔
بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ امل کے ساتھ گزاری ہر خوشگوار یاد اب دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی تھی۔ ہر وہ لمحہ جب وہ دونوں بےفکری سے ہنستی تھیں، جب ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دل کی باتیں بانٹتی تھیں، سب کچھ جیسے ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔
"کاش امل تم نے اپنے بھائی کہنے پر ہماری دوستی کو ختم نہ کیا ہوتا؟"وہ دل میں امل سے مخاطب ہوئی۔
"تم نے بھی تو یہی کیا،وہ جب تم سے واپس دوستی کا ہاتھ بڑھانے آئی تم نے بھی اس کے بھائی کے کہنے پر اس سے اتنے برے لہجے میں بات کی۔"اس کے ضمیر نے اسے جگایا۔
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا…اس کا بھائی چاہتا ہے کہ میں ان کی زندگیوں سے نکل جاؤں اس لیے میں نے اس سے اس طرح بات کی۔"ایشل نے خود کو بری کرنے کی کوشش کی۔
"امل نے تو اپنے بھائی کے کہنے پر یہ سب کیا مگر تمھارا اس سے کیا رشتہ تھا ایشل، جو تم نے اس کے ایک بار کہنے پر اپنی جان سے پیاری دوست سے اس قدر برے لہجے میں بات کی۔"اب کے اپنے ضمیر کی آواز پر وہ چونکی۔
ہاں اس کا تو اجلال سے کوئی رشتہ نہیں تھا پھر اس نے اجلال کے ایک بار کہنے پر کیوں امل سے اس طرح بات کی۔وہ۔تو اجلال کو سنا کر آئی تھی کہ اس کی کوئی بات نہیں مانے گی پھر…
"یا اللہ۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟اے میرے رب میرے لیے آسانیاں پیدا فرما۔"ایشل آنکھیں بند کیے اللہ سے دعاکرنے لگی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
اگلی صبح جب سب ناشتے کی میز پر موجود تھے طلال کو پینٹ کوٹ میں تیار دیکھ حیران رہ گئے۔
"کہیں جا رہے ہو بیٹا؟"مقدس بیگم نے اسے عام دن کے مقابلے تیار دیکھ کر پوچھا۔
"آفس۔"جواب یک لفظی تھا۔
"یہ تو اچھی بات ہے مگر آج تو آپ کی یونی تھی اور آپ کے میڈز کے پیپرز بھی شروع ہونے والے ہیں۔"انصاری صاحب کو اچھا لگا تھا اس کا خود سے آفس کے لیے تیار ہونا مگر اس کی پڑھائی بھی ضروری تھی۔
"جی معلوم ہے پاپا، مگر میں نہیں چاہتا آپ مجھے لے کر دوبارہ پریشان ہوں۔"طلال نے ناشتہ کرتے عام سے لہجے میں کہا مگر اس کی بات پر مقدس بیگم اور انصاری صاحب ٹھٹکے۔
"اس بات کا کیا مطلب ہے طلال؟پاپا نے تمھیں کبھی فورس نہیں کیا۔ان کے لیے تمھاری پڑھائی زیادہ ضروری ہے۔"اجلال نے اسے سمجھانا چاہا لیکن انصاری صاحب اور مقدس بیگم کو خدشہ لاحق ہوا کہیں طلال نے ان کی کوئی بات نہ سن لی ہو۔
"جانتا ہوں پاپا میرے لیے فکر مند ہیں،بس میں نہیں چاہتا میں ویسا بنوں جیسا پاپا کو خدشہ ہے۔"وہ کتنے آرام سے کہہ رہا تھا اور انصاری صاحب ان کے چہرے کا رنگ بدلہ۔
"طلال۔۔۔کیا تم نے…"مقدس بیگم نے بات ادھوری چھوڑی۔
"سوری ممی ،پاپا۔ اس دن میں صرف آپ سے بات کرنے آرہا تھا لیکن آپ کی باتیں سن لیں۔ویسے اچھا ہی ہوا مجھے یہ حقیقت معلوم ہو گئی۔"طلال نے چہرہ اٹھاتے انصاری صاحب کو دیکھا۔"آپ لوگ پریشان نہ ہوں میں بالکل ویسا نہیں بنوں گا یہ میرا…طلال انصاری کا آپ سے وعدہ ہے۔"اس کا لہجہ میں کوئی طنز یا کچھ ایسا نہ تھا جو اس کے والدین کے لیے تکلیف کا باعث بنتا۔اجلال تو بس چپ بیٹھا اس سوچ میں گم تھا آخر طلال نے ایسا بھی کیا سن لیا تھا جس نے اسے بدل دیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ماہا شیرازی آخر کار تم نے اجلال انصاری کے قریب اپنی جگہ بنا ہی لی۔"آفس کے لیے تیار ہوتے ماہا آئینے میں خود کو دیکھتے بولی۔آج اجلال کی سیکرٹری کے طور پر اس کا پہلا دن تھا۔
"کیا واقعی تم اسے حاصل کر لو گی؟"دل نے سوال کیا۔
"آج تک ماہا شیرازی نے جس چیز کو چاہا ہے اسے حاصل بھی کیا ہے۔"اس نے ڈریسنگ سے اٹھا کر کانوں میں ننھے ڈائمنڈ ٹاپس پہنے۔
"مگر وہ کوئی چیز نہیں ایک جیتا جاگتا انسان ہے۔"
"ماہا شیرازی کی خوبصورتی نے اچھے اچھوں کو گھائل کیا ہے یہ اجلال انصاری کیا چیز ہے پھر۔"ہونٹوں کو گہری لپ اسٹک سے رنگتے اس نے اپنے عکس کو آئینے میں دیکھ کر سراہا۔
"پرفیکٹ۔آج میں اسے بلیک میل کر کے اس کی سیکرٹری بنی ہوں۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا ماہا شیرازی ابھی اس سے کیا کیا کروانے والی ہے ان جھوٹی تصویروں کے ذریعے۔"کیا غرور تھا اس میں اپنی خوبصورتی کو لے کر مگر شاید وہ بھول گئی تھی اس کے مقابل اجلال انصاری تھا۔
جس نے ہمیشہ ایک ہی لڑکی کو اپنے دل و دماغ میں سجا کر رکھا تھا۔اس کے علاؤہ کسی کو آج تک اس نے اپنی سوچوں میں بھی نہیں آنے دیا تھا سوائے ایک لڑکی کے اور وہ تھی۔۔۔ 'ایشل'جو خود بخود اس کی سوچوں کا حصہ بن گئی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
انصاری ہاؤس میں آج مجتبیٰ صاحب اور سلیم صاحب کی فیملی موجود تھی۔امل، زینب اور تانیہ کالج ،یونی اور طلال اور اجلال آفس تھے۔
"بچوں کی پڑھائی مکمل ہونے والی ہے تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بچوں کی منگنی کر دینی چاہیے اور پڑھائی مکمل ہوتے ان کی شادی کے فرائض سے سبکدوش ہو جائیں۔آپ سب کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟"انصاری صاحب نے ان سب کو آج اپنے گھر بلانے کا مقصد بتایا۔
"ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھائی صاحب، تانیہ آپ کی امانت ہے آپ جب چاہیں اسے لے جائیں۔"سلیم صاحب کے چہرے پر جہاں خوشی تھی وہیں افسردگی بھی ابھری۔ ان کی اکلوتی بیٹی اب بہت جلد ان سے الگ ہونے والی تھی۔
"ہم تو کب سے انتظار میں تھے کب فرہان لوٹے اور ہم امل کو اپنے گھر کی رونق بنائیں۔"مجتبیٰ صاحب کے کہنے پر عینا نے شرارت سے فرہان کو دیکھا۔
"بس پھر اگلے مہینے طلال کے میڈز شروع ہو رہے ہیں اس کے ختم ہوتے منگنی کی رسم ادا کر دیتے ہیں۔"انصاری صاحب خوشی سے بولے۔
"بس اجلال بھی شادی کے لیے مان جائے۔"مقدس بیگم دکھی ہوئیں۔
"فکر نہ کرو مقدس، ہر چیز کا وقت ہوتا ہے اور کیا پتا اجلال جس کی تلاش میں ہے وہ اس کے نصیب میں بھی ہو تبھی قدرت کی طرف سے دیر ہو رہی ہے۔"صالحہ بیگم نے انہیں سمجھایا۔
"میں تو ہر پل یہی دعا کرتا ہوں وہ اجلال کو مل جائے۔کیونکہ وہ اس کے علاؤہ اپنی زندگی میں کسی کو شامل نہیں کرے گا۔"انصاری صاحب کی آنکھیں اچانک نم ہوئیں۔
"آپ پریشان نہ ہوں بھائی صاحب،اللہ پر یقین رکھیں سب بہتر ہو گا ان شاءاللہ۔"سلیم صاحب نے انہیں تسلی دی۔
"جاؤں فرہان بیٹا میٹھائی لے کر آؤ،خوشی کے موقع پر افسردہ نہیں ہوتے۔"مجتبیٰ صاحب ماحول میں افسردگی دیکھ کر بولے۔
"جی پاپا۔عینا آپی آپ بھی چلیں ساتھ۔"وہ فوراً اٹھا اور عینا کو آنکھ سے اشارہ کرتے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔
"کیا بات ہے آج کل اکیلے اکیلے مسکرایا جا رہا؟"عینا نے گاڑی میں بیٹھتے اس کی خوشی محسوس کی۔
"تو کیا نہیں ہونا چاہیے؟"فرہان نے گاڑی سڑک پر دوڑاتے عینا کو دیکھا۔
"پھر فون کروں اسے؟"عینا نے فون پر نمبر نکالا۔
"کیا کر رہی ہیں آپی،ابھی وہ یونی میں ہو گی اور خالہ خود بتا دیں گی اسے۔"فرہان کے چہرے پر شرماہٹ دیکھتے عینا نے اپنی ہنسی کو دبایا۔
"پھر مجھے کیوں ساتھ لائے ہو؟"اسے لگا وہ امل سے بات کرنا چاہتا ہے تبھی اسے ساتھ لایا ہے۔
"آپی…اگر اجلال بھائی شادی کے لیے نہ مانے؟"اب کے وہ سنجیدگی سے بولا۔ عینا کے چہرے سے مسکراہٹ مدھم ہوئی۔
"دیکھو فرہان یہ سب تقدیر اور نصیب کے کھیل ہیں۔کسے کب اور کون ملنا ہے یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔"سامنے نظریں جمائے وہ کہہ رہی تھی۔
"آپ کو دکھ نہیں ہو گا اگر وہ جسے اجلال بھائی چاہتے ہیں انہیں مل گئی؟"فرہان نے جتنی سادگی سے بات کہی عینا نے چونک کر سر اس کی طرف گھمایا۔
"ایسے نہیں دیکھیں میں جانتا ہوں آپ کے دل کا حال۔کیا ہوا اگر آپ سے چھوٹا ہوں مگر آپ کے چہرے پر جو رنگ اجلال بھائی کو دیکھ کر آتے ہیں مجھے معلوم ہیں۔"عینا نے ایک لمحے کو گہری سانس لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اسے لگا جیسے فرہان نے اس کے دل کا کوئی ایسا راز کھول دیا ہو جسے وہ خود سے بھی چھپاتی آئی تھی۔ وہ ایک مضبوط عورت تھی، اپنی جذباتی کمزوریوں کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے والوں میں سے نہیں۔
"فرہان، تمہیں یہ سب باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔" عینا نے مدھم لہجے میں کہا، جیسے اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔
"آپی، آپ میری بڑی بہن ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ خوش رہیں۔ اگر اجلال بھائی کو آپ کے دل کی حقیقت پتا ہوتی، تو شاید وہ بھی... " وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر سڑک پر نظریں مرکوز کر گیا۔
"زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں، فرہان۔" عینا نے سنجیدگی سے کہا، "کچھ چیزیں ہمیں اللہ کے حوالے کر دینی چاہئیں۔"
"تو پھر آپ نے دل کی بات کبھی کیوں نہیں کہی؟" فرہان نے ایک لمحے کے بعد پوچھا، جیسے وہ اس بات کا جواب سننا چاہتا ہو جس کا کوئی جواب نہ ہو۔عینا نے ایک سرد آہ بھری۔
"کیونکہ، کچھ باتیں کہنے سے زیادہ سنبھالنے میں طاقت ہوتی ہے۔ فرہان، میری ایک بات یاد رکھنا،اگر اجلال نے شادی سے انکار کیا،'جس کا مجھے یقین ہے کہ وہ نہیں مانیں گے' تو تم امل سے شادی کے بعد اسے اس بات پر کبھی طعنے یا کبھی باتیں نہیں سناؤ گے۔"فرہان نے گاڑی بیکری کے سامنے روکی۔
"آپ بے فکر رہیں،کبھی بھی امل کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا۔"اس نے عینا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے وعدہ کیا اور دروازہ کھولتے بیکری کی طرف چل دیا۔پیچھے عینا نے سیٹ سے ٹیک لگائے ان کی آنے والی زندگی کے لیے دعا گو تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"کیسا رہا آج کا دن؟"اجلال اس وقت طلال کے آفس میں موجود تھا۔
"اچھا رہا بھائی،بس تھوڑی تھکاوٹ ہو گئی روز آؤں گا تو عادت ہو جائے گی۔"وہ اپنی کرسی چھوڑتے اجلال کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"ممی کا فون آیا تھا،پاپا نے تم لوگوں کی منگنی طے کر دی ہے۔"اجلال نے خوشی سے اسے بتایا۔
"کب؟"بغیر کسی تاثر کے پوچھا گیا۔
"تمھارے میڈز کے امتحانات ختم ہوتے ساتھ ہی۔"اجلال نے اس کے چہرے پر خوشی یا افسردگی کا تاثر تلاشنا چاہا۔
"ہمم۔۔۔ ٹھیک ہے،شادی تک شاید میں اس قابل ہو جاؤں کہ آنے والی زندگی میں مشکل پیش نہ آئے۔"طلال کے کہے الفاظ اجلال کے سر سے گزر گئے۔
"کیا مطلب؟"اس نے فوراً پوچھا۔
"کچھ نہیں،آپ بتائیں آپ کا کیا ارادہ ہے؟"طلال نے بات بدلی۔
"کس بارے میں؟"پتہ نہیں وہ کیا بولے جا رہا تھا اجلال کو سمجھ نہیں آئی۔
"آپ نے اپنی شادی کے بارے میں کیا سوچا؟"طلال نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"تم ہی تو کہتے ہو جس سے میری شادی ہو گی اس کی قسمت ہی پھوٹے گی اس لیے میں شادی ہی نہیں کر رہا۔"طلال کے چہرے پر حیرت ابھری پھر اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔
"اللہ۔۔۔ بھائی مجھے لگا آپ مجھے دعا کرنے کو بولیں گے کہ آپ کو وہ لڑکی مل جائے مگر آپ نے میری بات اتنا سیریس لے لیا۔"اس کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور اجلال اسے مسکراتے دیکھ خود بھی ہنس دیا۔آج کتنے وقت بعد اسے پرانا طلال نظر آیا تھا۔ہر وقت ہنسی مذاق کرنے والا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں مجھے شرم آرہی ہے۔"اجلال کو اپنی جانب تکتا پا کر اس نے شرارت سے کہا۔
"میری دعا ہے اللہ تمھاری مسکراہٹ کو ایسے ہی آباد رکھے،آمین۔"اجلال نے دل سے دعا دی۔
"اور میری دعا ہے اللہ آپ کو وہ لڑکی دے جس سے آپ کی ہر خوشی جڑی ہے تاکہ ہم بھی مسٹر ہٹلر کو مسکراتے دیکھ سکیں۔"طلال کے کہنے پر اجلال نے جہاں دل میں آمین کہا وہی ساتھ ہی مسٹر ہٹلر کے لفظ پر ناجانے کیوں وہ ذہن میں اتری تھی۔وہ سر جھٹکتے اب طلال کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
مقدس بیگم نماز سے فارغ ہوتے اجلال کے کمرے کی جانب بڑھیں۔دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے وہ اندر داخل ہوئیں۔
"ممی آپ پلیز یوں دروازے پر دستک نہ دیا کریں آجایا کریں ایسے ہی۔"مقدس بیگم کو دروازے پر دیکھتے وہ لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کر ان کے پاس آتے انہیں بیڈ پر بیٹھایا۔
"اتنا کام کیوں اپنے زمہ لیا ہوا ہے بیٹا اور انصاری صاحب کو بھی تم آفس نہیں جانے دیتے۔"ان کے بیٹھتے وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔
"ممی اتنا کام نہیں ہوتا بس آج کل کچھ پروجیکٹس لینے ہیں ان کی پریزنٹیشن کا کام کر رہا ہوں اور پاپا نے ہمارے لیے اتنی محنت کی ہے تو ہمارا فرض ہے اب انہیں آرام کروائیں اور انہیں کما کر دیں۔" اجلال مقدس بیگم کا ہاتھ تھامے بولا۔
"کب تک یوں تنہا رہو گے، تمھارے سے چھوٹوں کی شادی ہونے جا رہی ہے اب تمھیں بھی اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔"وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتیں کہہ رہی تھیں۔
"آج آپ لوگوں کو میری شادی کی اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے۔طلال بھی آفس میں یہی کہہ رہا تھا کہ میں شادی کر لوں اب۔"اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بیٹا صالحہ نے مجھ سے عینا کے رشتے کی بات کی ہے تمھارے لیے مگر میں نے اسے ابھی کوئی جواب نہیں دیا۔"مقدس بیگم کی بات پر وہ چونکا۔
"ممی میں عینا تو کیا کسی لڑکی سے بھی شادی کر کے اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا۔"
"نا انصافی کیسی؟"انہوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"آپ جانتی ہیں میرے دل میں پہلے سے وہ موجود ہے پھر میں کیسے کسی کو اپنی زندگی میں شامل کر کے اسے اس محبت سے محروم رکھوں جو وہ ڈیزرو کرتی ہوں؟ممی میں محبت میں شراکت نہیں کر سکتا،اس کا مقام ،اس کی محبت کبھی کسی دوسری عورت کو نہیں دے سکتا۔"بولتے بولتے اسے لگا آج وہ اپنا ضبط کھو دے گا۔
"اچھا تم سوچ لو جتنا وقت چاہیے میں ابھی صالحہ کو کوئی جواب نہیں دے رہی۔"
"ممی آپ دعا کیا کریں نہ میرے لیے وہ مل جائے مجھے۔"
"ہر پل دعا کرتی ہوں بیٹا وہ جہاں ہو محفوظ ہو اور اللہ اسے تمھارے نصیب میں لکھ دے۔"اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے وہ بولیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
امل ٹیریس میں موجود ٹین کی کرسی پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔
اس کی زندگی کی اتنی بڑی خوشی وہ ایشل سے بانٹنا کرنا چاہتی تھی مگر اس دن ایشل کے رویے نے اسے توڑ دیا تھا۔
"کاش اس دن میں ایشل کو پڑھنے کے لیے گھر نہ لائی ہوتی تو بھائی کی اس سے لڑائی بھی نہ ہوتی۔"وہ انہی سوچوں میں تھی جب اس کے پاس کوئی آ کر بیٹھا۔
"کیا بات ہے بچے کوئی پریشانی ہے؟"اجلال نے اسے سوچوں میں ڈوبے دیکھ کہا۔
"نہیں بھائی۔"اس کی آواز نم تھی۔
"تم خوش ہو اس رشتے سے؟"اسے لگا شاید امل منگنی والی بات پر پریشان ہے۔
"جی بھائی۔"اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"پھر اداس کیوں ہو؟"اجلال کے وجہ پوچھتے امل نے نم آنکھوں سے اپنے بھائی کی جانب دیکھا۔
"پتہ ہے بھائی میں نے اپنی کزنوں کے علاؤہ اس ایک ہی دوست بنائی تھی۔میں اپنے تمام دکھ سکھ اسے سب سے پہلے بتاتی تھی اور وہ زیادہ نہیں مگر اپنے دکھ درد مجھ سے بانٹ لیتی تھی۔اب وہ درد میں ہے تو کوئی اس کا درد بانٹنے والا نہیں ہے اور میں اپنی خوشی اسے سب سے پہلے بتانا چاہتی تھی مگر کچھ دن پہلے میں اس سے بات کرنے گئی…"بولتے بولتے اس کی ہچکی بندھی۔اجلال کے دل کو کچھ ہوا۔
"میں اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر اس نے کہا ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس سے دور رہوں اور ہم آج کے بعد اور یونی ختم ہونے کے بعد بھی آئیندہ کبھی نہ ملیں۔"اجلال نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ اس کے کندھے سے لگے رونے لگی۔اس سب کا زمہ دار وہ تھا۔اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسوں دینے والا۔آج اس کی بہن ایشل کی نہیں بلکہ اپنے بھائی کی انا کی وجہ سے رو رہی تھی۔
اس نے اس پل شدت سے دعا کی تھی ایشل ان کی زندگیوں سے نکل جائے مگر کوئی اجلال انصاری کو بتاتا کچھ دعائیں فوراً سن لی جاتی ہیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وقت ہمیشہ کی طرح پر لگا کر اڑا۔ ان کی یونیورسٹی میں آج میڈز کا آخری پیپر تھا۔ امل اور ایشل کی دوستی میں پڑی دراڑ پہلے جیسی تھی۔ طلال اور امل اب ایک ساتھ یونیورسٹی آتے تھے لیکن امل کو لینے اجلال ہی آتا کیونکہ طلال یونی ورسٹی کے بعد سیدھا آفس چلا جاتا تھا۔
آج بھی اجلال واپسی پر امل کو لینے آیا اور روز کی طرح اس بینچ کی جانب دیکھا جہاں روز ایشل اکیلی بیٹھی ہوتی تھی مگر آج وہ بینچ خالی تھا۔
پچھلے کئی دنوں سے وہ سکون کی نیند نہیں لے سکا تھا۔ جب بھی آنکھوں کو بند کرتا دو روئی سنہری آنکھیں اس کے سامنے آجاتیں یا وہ الفاظ اس کے ذہن میں گونجتے۔
"جس دن کوئی آپ کو آپ کے سب سے قریبی دوست سے جدا کرے گا اس دن آپ کو اندازہ ہوگا کہ دوستوں سے الگ ہونا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔"
پھر جب اس دن امل کو بے تحاشا روتا دیکھا تھا تب سے اس کا دل عجیب سی کیفیت کا شکار تھا اور آج کل وہ کچھ زیادہ ہی ایشل کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
"بھائی چلیں۔" امل کی آواز پر وہ سوچوں سے نکلا۔
"ہہ۔۔ہاں چلو۔" ایک بار پھر اس خالی بینچ پر نظر ڈال کر ملتے وہ آگے بڑھ گیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ اپنے کمرے میں موجود تھا۔ابھی وہ تانیہ سے بات کر کے انسٹاگرام پر سکرول کررہا تھا جب اچانک ایک تصویر اس کے سامنے آئی۔ طلال کے ہاتھوں سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
اس تصویر کا کیپشن اور آئی۔ ڈی دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا جہاں کیپشن میں لکھا تھا۔
" انگیجمینٹ ڈے۔ میٹ مائے فیانسی ایشل۔۔" اور ساتھ دو دل بنے تھے۔
پہلے تو اس نے پر تصویر کو غور کیا کہیں اسے کوئی مبالغہ نہ ہوا ہو مگر تصدیق کے بعد طلال چند منٹ سکتے میں بیٹھا رہا اس کی نظر اس تصویر کے نیچے لکھی تاریخ پر گئی۔
اس تصویر کا سکرین شاٹ لیتے طلال نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی گاڑی کی چابی اٹھائی اور فل سپیڈ میں گاڑی سڑک پر دوڑانے لگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"یا اللہ مجھے سکون عطا فرما۔"نماز کے بعد وہ سر ہاتھوں میں گرائے ہوئے تھا۔
"یا اللہ میں نہیں جانتا مجھے اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے،میرا دل، میرا ضمیر مجھے اس کی باتیں، اس کی آنسو بھری آنکھیں بھولنے نہیں دے رہا۔"وہ سر سجدے میں گرائے ہوئے تھا۔کچھ مل بعد وہ اٹھا اور جائے نماز جگہ پر رکھتے وہ نیچے آیا جہاں انصاری صاحب ،مقدس بیگم اور امل موجود تھیں۔انہیں سلام کرتے وہ امل کے ساتھ بیٹھا اور اس کے گرد بازو حائل کیے۔
"اپنی دوست سے ملنے چلو گی؟"اجلال کے سوال پر امل کے چہرے پر حیرت ابھری اور یہی حال انصاری صاحب اور مقدس بیگم کا بھی تھا۔
"کیا کہا بھائی آپ نے؟"اسے لگا شاید اس نے غلط سنا۔
"تم اپنی دوست…ایشل سے ملنے چلو گی؟"اب کے اس نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔
"بھائی آپ…آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟" امل خوشی سے چینخی۔
"آہستہ بولو لڑکی میرے کان کے پردے پھاڑنے ہیں۔" اپنی بہن کے چہرے پر خوشی دیکھتے اس کے دل کو سکون ملا۔
"ممی پاپا کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں…تمھاری منگنی میں ان کو انوائیٹ بھی کر آئیں گے اور میٹھائی بھی لے جائیں گے ٹھیک ہے۔"اجلال اسے خوش دیکھتے بولا اور امل اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی اڑ کر ایشل کے پاس پہنچ جائے۔
"بیٹا ہم کیا کریں گے، آپ دونوں جاؤ۔" انصاری صاحب نے انکار کرتے کہا۔
"پلیز آپ لوگ بھی چلیں نہ اور ممی آپ ایشل کی امّی سے بھی مل لیجیے گا بہت نائس آنٹی ہیں۔ پلیز پلیز۔" مقدس بیگم کے گلے میں بازو ڈالے وہ لاڈ سے بولی۔
"اچھا بابا اب جا کر تیار ہو میں اور تمھارے پاپا بھی ساتھ جائیں گے۔" امل ان کے گال پر پیار کرتی تیار ہونے چلی گئی۔ اجلال کو اب واقعی افسوس ہوا کہ اس کی بہن کی ہنسی سب اس کے ایک فیصلے نے ختم کردی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ چاروں ایشل کے گھر کی جانب روانہ ہو چکے تھے یہ جانے بغیر وہاں ایک طوفان ان کا منتظر تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
جاری ہے۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?