ناول: راہِ تقدیر
از قلم : علینہ خان
قسط نمبر 6
ہر طرف چھائی رات کی خاموشی میں ہیل کی آواز نے خلل ڈالا۔
"اس کام میں اور کتنا وقت لگے گا؟"کمپیوٹر پر کام کرتے لڑکے نے نظر گھما کر اس لڑکی کو دیکھا پھر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
"جلد ہو جائے گا مگر…"اس لڑکے نے بات ادھوری چھوڑی۔
"مگر کیا؟"اس لڑکی کے لہجے میں بیزاری ابھری۔
"اس کام میں بہت خطرہ ہے اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ یہ سب جھوٹ ہے تو آپ کے ساتھ میں بھی جیل میں چکی پیس رہا ہوں گا۔"اس لڑکے نے اسے ڈرایا۔
"اوہ پلیز شٹ اپ۔تم اتنا کچا کام کرو گے تو رہنے دو میں کوئی اور بندہ ہائر کر لوں گی ویسے بھی مجھے پیسوں کی کوئی کمی نہیں۔"اس نے سر جھٹکتے کہا۔
"کام تو پکا ہی کرونگا لیکن پھر بھی آپ پکڑی جاسکتی ہیں۔"وہ لڑکا اب بھی تیزی سے کمپیوٹر پر نظریں جمائے ہاتھ چلانے میں مصروف تھا۔
"جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا مگر تم نے اس کام میں کوئی گڑبڑ کی تو تم جان سے جاؤ گے۔"وہ لڑکی اسے وارن کرتے اب واپس چلی گئی تو وہ لڑکا منہ بناتا واپس کام کرنے لگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
ایشل کی منگنی کی خبر سننے کے بعد سے امل بیمار تھی، اس لیے وہ یونی نہیں آرہی تھی۔
سمیر اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ ابھی کچھ سیکنڈ پہلے وہ اس سے باہر لنچ کرنے کا بول رہا تھا۔ ایشل اس کے ساتھ لنچ کھانے سے پہلے زہر کھانا ضروری سمھجتی۔وہ اسے کسی طرح ٹال کر وہاں سے بھیج چکی تھی۔
ایشل ابھی وہیں بیٹھی تھی جب اسے اجلال انصاری اپنی طرف آتا دیکھائی دیا۔
"امل تو آج آئی نہیں پھر یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" ایشل نے حیرانی سے اسے دیکھا وہ سچ مچ اسی کی طرف ہی آرہا تھا۔
"ایک سے جان چھڑائی اب یہ کیا چاہتے ہیں؟"ایشل نے سوچا۔وہ وہاں سے بھاگنے کا سوچ ہی رہی جب اس نے ٹوکا۔
" محترمہ اگر مجھے دیکھ لیا ہے تو چلیں میرے ساتھ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" ایشل نے آنکھیں سکیڑتے اسے دیکھا وہ کتنے آرام سے اسے آرڈر دے رہا تھا ۔
"مسٹر میں آپ کے ساتھ کیوں آؤ۔" ایشل تنک کر پوچھا۔
" کیونکہ نا تو میں اب آپ کی بہن کی دوست ہوں اور نا ہی میرا آپ سے کوئی لینا دینا ہے؟" کھڑے ہوتے وہ اجلال کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔ اجلال اس کی سوجی آنکھیں اور رونے کی وجہ سے بھاری ہوئی آواز پر رکا۔ ایشل نے خوف سے اردگرد دیکھا اس کو ڈر تھا کہیں سمیر اسے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر تماشہ نہ لگا دے۔ اسی لیے جلدی سے جانے لگی مگر اس کے قدم تب تھمے جب اجلال نے اس کی کلائی پکڑی۔
ایشل نے کرنٹ کھا کر اپنی کلائی اس کے ہاتھ سے چھڑائی۔
"میرا ہاتھ پکڑنے کی ہمت کیسے ہوئی آپ کی؟اور مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔"ایشل کی آواز آہستہ مگر لہجہ سخت تھا۔
"اگر تم چاہتی ہو میں یہاں کھڑے ہو کر تم سے بات کروں تو سوچ لینا تمھارے کلاس فیلو کل پوری یونیورسٹی میں یہ مشہور کردیں گے کہ تم اپنی دوست کے بھائی سے ملتی ہو۔ اب فیصلہ تمھارا ہے یہاں بات کرنی ہے یا میرے ساتھ چلنا ہے۔" اجلال نے اسے ایک لڑکے سے بحث کرتے دیکھ لیا تھا۔ پھر اس کے ہاتھوں کی مہندی اور بائیں ہاتھ کی انگلی میں موجود ڈائمنڈ رنگ سے وہ بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔
چارو ناچار وہ اس کے پیچھے چل پڑی۔
" کیا چاہتے ہیں آپ؟" ایشل اجلال کی گاڑی میں بیٹھ گئی تو اجلال نے گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھائی جبکہ وہ ڈر رہی تھی کہیں سمیر یا اس کے دوست نے اسے دیکھ نہ لیا ہو۔
"یہی کہ تم ہماری زندگی سے بہت دور چلی جاؤ،میری بہن بھائی کی زندگی سے نکل جاؤ۔" جتنے آرام سے وہ بولا ایشل اسے دیکھ کر رہ گئی۔
" آپ نے اپنی بہن کو دھمکیاں دے کر ہماری دوستی ختم کروا تو دی اب اور کیا رہ گیا ہے؟" گاڑی ایک سائیڈ پر روک کر اجلال نے ایشل کے طنزیہ بولنے پر رکتے اسے دیکھا۔
" وہ میری بہن ہے اور تم…جب سے” تم “ ہماری زندگی میں آئی ہو سب تباہ ہوگیا ہے۔"اس نے تم پر زور دیا۔
"ہمارے گھر کا سکون برباد ہوگیا ہے۔تمھاری وجہ سے میری بہن بیمار رہنے لگی ہے اور طلال وہ نا جانے کہاں پھر رہا ہے۔ تم…تم چلی کیوں نہیں جاتیں، تاکہ ہماری زندگی پھر سے پہلے جیسی ہو سکے۔تم ہماری زندگی سے چلی جاؤ۔تم چلی جاؤ گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اجلال نے بولتے ہوئے یہ نہیں دیکھا تھا ساتھ بیٹھی لڑکی کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہو رہی تھی۔
" میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔" ایشل ایک دم چیخی۔
" میں نے آپ سب کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ڈلوائی سمجھے آپ۔ مجھے نہیں معلوم آپ کو مجھ سے کیا مسئلہ ہے، مگر جس بات کو بنیاد بنا کر آپ نے میری اور امل کی دوستی ختم کروائی ہے اس کے بعد مجھے آپ سے نفرت ہو گئی ہے۔ برے تو آپ مجھے پہلے ہی لگتے تھے مگر آج مجھے آپ سے جس قدر نفرت محسوس ہو رہی ہے اتنی نفرت تو میں نے شاید اس شخص سے بھی نہیں کی جس سے میری ماں نے میری نسبت طے کی ہے۔" نم سانس اندر کھینچتے ایشل نے خود کو رونے سے روکا۔
"جس دن کوئی آپ کو آپ کے دل کے سب سے قریب دوست سے جدا کرے گا اس دن آپ کو اندازہ ہوگا کہ دوستوں سے الگ ہونا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔" اجلال کو لگا کسی نے اس کے دل کو جکڑ لیا ہے۔وہ کچھ دیر تک بول نہ سکا۔یک دم گاڑی میں خاموش چھاگئی۔
" کچھ اور کہنا ہے یا بس۔۔۔؟"کچھ دیر بعد خاموشی کو اجلال نے ہی توڑا مگر اس بار اس کے لہجے میں وہ رعب نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے تھا۔
ایشل نے اپنے ہاتھوں سے نگاہیں اٹھا کر اجلال کی طرف دیکھا جو سامنے سڑک پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
"لاک کھولیں اور آئندہ مجھے حکم دینے سے پہلے سوچ لیجئے گا، میں آپ کی بہن نہیں ہوں جو آپ کی دھمکیاں سن کر بھی چپ رہے۔" وہ دانت پیستے بولی۔اجلال نے بنا کچھ کہے اس کی طرف کا لاک کھولا۔ ایشل اپنی چادر سمیٹتے باہر نکلی اور زور دار آواز سے دروازہ بند کیا۔
اجلال چند لمحے اسے وہاں سے جاتا دیکھتا رہا جو کچھ فاصلے پر رکشہ روکے اب اس میں بیٹھ گئی تھی۔اجلال نے گاڑی سٹارٹ کرتے اس رکشے کے پیچھے لگائی۔ جو بھی تھا وہ ایک لڑکی تھی اور جس طرح وہ بار بار آنسو صاف کررہی تھی اور اس کے ہاتھ میں پہنی ڈائمنڈ رنگ اسے کسی مصیبت میں بھی ڈال سکتی تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے اجلال نے اسے ان کی زندگیوں سے نکل جانے کو کہا تھا اور اب اس رکشے کے پیچھے اس کی حفاظت کے لیے کیوں گیا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"آپی…آپی۔"زینب کمرے میں آتی عینا کو گلے لگاتے بولی۔
"کیا ہو گیا ہے؟"اس نے زینب کے چہرے پر خوشی دیکھتے حیرانی سے پوچھا۔
"آپ کو پتہ ہے ابھی ماما بابا کیا بات کر رہے تھے؟" زینب کی آواز سے خوشی جھلک رہی تھی۔
"مجھے کیا معلوم زینی۔"
"اوہ ہو آپی…میں پوچھ نہیں رہی بتا رہی ہوں کہ ماما بابا کیا بات کر رہے تھے۔" زینب اس سے الگ ہوئی۔
"اب سسپینس کیریٹ نہ کرو جلدی بتاؤ۔"عینا اس کے تجسس پر چڑ کر بولی۔
"ماما بابا سے کہہ رہی تھیں کہ…کہ اب ہمیں عینا کی شادی کا سوچنا چاہیے۔"زینب کے بولنے پر عینا چونکی۔
"کیا…کیا کوئی رشتہ آیا ہے؟"اس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
"نہیں نہیں پوری بات تو سن لیں۔"زینب اسے کے پوچھنے پر ہنسی۔
"ماما نے بابا کو بولا ہے کہ وہ مقدس خالہ سے آپ کے اور اجلال بھائی کے رشتے کے لیے خالہ سے بات کرنے والی ہیں اور فرہان بھائی کے ساتھ آپ کی بھی شادی کر دیں گے۔"زینب جوش سے بتا رہی تھی اور عینا کے چہرے کا رنگ پیلا ہونے لگا۔
"کیا ہوا آپی آپ ٹھیک ہیں؟"زینب کی نظر جیسے عینا کے بدلتے رنگ کے پڑی وہ ایک دم چپ ہوئی۔
"ہاں…ہاں میں ٹھیک ہوں۔"عینا نے لمبی سانس لیتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
"میں ماما کو بولا کر لاتی ہوں۔ "زینب جلدی سے جانے لگی۔
"زینی میں ٹھیک ہوں اور تم دوسروں کی باتیں کب سے چھپ کر سننے لگیں؟"عینا نے بات کا رخ بدلہ۔
"میں تو لاونج سے گزر رہی تھی تو اس لیے سن لی۔"زینب منمنائی۔
"بہت بری بات ہے زینی آئندہ تم ایسی حرکت نہیں کرو گی۔"عینا اب اسے ہلکا سا ڈانٹتے سمجھا رہی تھی اور زینب خاموشی سے سر جھکائے اس کی ڈانٹ سن رہی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
تقدیرنے اسے اس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا، جہاں سے پلٹنا جتنا مشکل تھا آگے بڑھنا اس سے بھی زیادہ دشوار تھا۔وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی مگر اس راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ سمیر تھا اور اگر پیچھے جانا چاہتی تو وہاں ماضی اپنے پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔
" یہ کیسی آزمائش ہے میرے مالک۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ اپنے اچھے نصیب کی دعا کی لیکن میری تقدیر میں وہ شخص آیا جس میں دنیا کی ہر برائی ہے۔" مغرب کی نماز کے بعد ایشل جائے نماز پر بیٹھی اللہ سے مخاطب ہوئی۔
" اللہ جی آپ تو ہمارے دلوں میں ہیں، ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، آپ اپنے بندوں سے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ یا اللہ پھر میری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوئیں۔ یہ دنیا والے بہت ظالم ہیں اللہ جی۔آپ نے میری دعاؤں پر کن کیوں نہیں فرمایا……۔" آنسو مسلسل اس کے گالوں پر پھسل رہے تھے۔
"ایشل۔۔۔۔ یا میرے اللہ۔ ایشل ادھر دیکھو، کیا ہوا ہے اس طرح کیوں رو رہی ہو؟" اس کی ہچکیاں سن کر امّی اسے ہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھیں جو سجدے میں سر گرائے بری طرح سسک رہی تھی۔
"میرا دل ہول رہا ہے ایشل بیٹا کچھ تو بتاؤ، سمیر نے کچھ کہا ہے۔۔۔؟" امّی اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے بولیں۔
" امّی وہ مجھے یونیورسٹی میں تنگ کرتا ہے، کلاس میں سب لڑکوں کو اس نے انگیجمینٹ کی پکس بھیجی ہیں۔ جان بوجھ کر میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے میرے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔آج وہ مجھے اپنے ساتھ کسی ریستوران لیجانے کا کہہ رہا تھا۔ میں کیا کروں امّی وہ شخص میرے لیے عذاب بن گیا ہے۔" وہ اپنی ماں کے سینے سے لگی۔
" تمھاری دوست امل تمھارے ساتھ ہوتی ہے تو وہ کس طرح تمھیں یونیورسٹی میں نقصان پہنچائے گا۔" انہوں نے ایشل کو چپ کرانا چاہا۔
" امّی امل نے۔۔۔ مجھ سے دوستی ختم کرلی ہے۔ اس۔۔۔اس کے بڑے بھائی۔۔۔ نے مجھے آج۔۔۔ بولا کہ میری وجہ۔۔۔۔ سے ان کے گھر ۔۔۔۔ کا سکون برباد ہوگیا۔ امّی۔۔میری کوئی۔۔۔۔ دوست نہیں ہے۔ میں کس سے۔۔۔ اپنے دل کا۔۔۔ حال بیان کروں۔"وہ ہچکیاں لیتے بولی۔
" کسی بات پر تم دونوں کی لڑائی ہوئی ہے؟" انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
"نہیں بس اس۔۔۔۔ کا بھائی نہیں ۔۔۔۔ چاہتا میں۔۔۔ امل سے دو۔۔۔ دوستی رکھوں۔"
"ادھر دیکھو میری طرف۔"وہ اس کے آنسو صاف کرتے بولیں۔
"تمھیں پتا ہے ہمارا سب سے قریبی دوست کون ہے؟ جس سے ہم بلا جھجک ہر بات کہہ دیتے ہیں اور ہم اکثر اس سے شکوئے بھی کرتے ہیں مگر وہ دوست ہماری سب باتیں ، ہمارے شکوئے سنتا ہے؟ وہ اللہ ہے۔ اگر ہم انسانوں کے بجائے اللہ سے اپنی ہر بات کہیں، اسے اپنے دکھ بتائیں ،تو وہ سنتا ہے۔ تم بھی اللہ کو اپنا دوست بنا لو، وہ تمھاری ہر بات پوشیدہ رکھے گا۔ تمھاری حفاظت کرے گا اور کوئی انسان سوائے تمھارے خود کے کوئی اللہ سے تمھاری دوستی ختم نہیں کرواسکتا۔" اب وہ اسے بیڈ پر بیٹھائے پانی دے رہی تھیں اور وہ خاموشی سے انہیں سننے لگی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
اجلال اپنے کمرے میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے پرسوں ہونے والی میٹنگ کے لیے پریزنٹیشن بنا رہا تھا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین کو مسلسل دیکھنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں درد کرنے لگیں۔
لیپ ٹاپ بیڈ کی دوسری طرف رکھ کر آنکھیں بند کرتے اس نے تکیے پر سر رکھا۔
اس سے پہلے وہ نیند کی آغوش میں جاتا، دو نم سنہری آنکھیں چھن سے ذہن کے پردے پر ابھرئیں۔ ان نم آنکھوں میں اداسی اور ویرانیاں نظر آرہی تھیں۔اجلال نے فوراً آنکھیں کھولیں۔
" اُففف۔۔۔۔۔" دوبارہ آنکھیں بند کرنے پر جب پھر یہی منظر اُبھرا تو وہ جھنجھلا کر اٹھا۔
"یہ تمھارا ظمیر ہے اجلال انصاری۔" کوئی اس کے قریب بولا۔ یہ آواز اس کے دل کی تھی۔
" نہیں میں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ اس لڑکی کا ہماری زندگیوں سے چلے جانا ہی صحیح ہے۔" اس نے دل کی نفی کی۔
" اس لڑکی کی وجہ سے میرا بھائی گھر سے باہر رہ رہا ہے، میری بہن نے اپنے کمرے سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ ہماری ہیپی فیملی آج اس کی وجہ سے بروکن فیملی بن گئی۔ " اس نے اپنا سارا الزام بڑی آسانی سے ایشل پر ڈالا۔
اپنی سائیڈ ٹیبل کی ڈرا سے ایک تصویر نکالی اور اسے اپنے سینے پر رکھتے آنکھیں موند گیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ نماز پڑھ کر ابھی لیٹی تھی جب اس کا فون بجا۔نماز سے پہلے وہ طلال کو فون ملا رہی تھی تبھی اس نے نمبر دیکھے بغیر فون کان سے لگایا۔
"کہاں ہو تم…تمھیں کیسی کی کوئی پرواہ ہے بھی یا نہیں؟"وہ فون اٹھاتے بولنے لگی۔
"ہمیں تو آپ کی پرواہ ہے مگر آپ کو شاید ہماری کوئی پرواہ نہیں۔"دوسری جانب سے ابھرتی آواز پر امل نے فون کان سے ہٹاتے نمبر دیکھا۔ یہ وہی نمبر تھا جس سے اس دن کال موصول ہوئی تھی مگر وہ نمبر بلاک کرنا بھول گئی تھی۔
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی دوبارہ فون کرنے کی؟"اس نے غصے سے کہا۔
"ہم نے تو اس لیے نمبر ملایا کہ دیکھا جائے ہم آپ کی بلاک لسٹ کا حصہ بنے ہیں یا نہیں مگر ہماری قسمت واقعی اچھی ہے۔"امل ایک دم اس آواز پر چونکی۔یہ آواز تو فرہان کی تھی۔
"لگتا ہے آپ کا نمبر مجھے اپنے بھائیوں کو دینا ہی پڑے گا۔"آواز پہچانتے بھی وہ اب انجان بننے کی کوشش کرنے لگی۔
"دے دیں ہم تو انتظار میں ہیں آپ کے بھائیوں سے آپ کو مانگنے کے لیے۔"فرہان کی بات پر اس کا چہرہ سرخ ہوا۔
"پھر تو مجھے اپنے شوہر کو آپ کا نمبر دینا چاہیے۔"اس نے جان بوجھ کر کہا۔
"آپ…آپ شادی شدہ ہیں؟"فرہان تو امل کے انکشاف پر ملائے گئے نمبر کو دیکھنے لگا کہ نمبر ہی غلط نہ مل گیا ہو۔
"ہاں ہاں تین بچے بھی ہیں۔"اب کی باری امل فرہان کی حالت سوچتے اپنی ہنسی روکنے میں لگی تھی۔
"آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کا نمبر اپنے ہسبینڈ کو دوں یا پھر بھائیوں کو؟"فرہان کی چپ پر امل نے سوال کیا جبکہ دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔ امل کا فرہان کی حالت سوچتے ہنس ہنس کر برا حال ہونے لگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
طلال اتنے دن باہر رہنے کے بعد آج گھر لوٹا تھا۔ اس وقت گھر میں مقدس بیگم اور ملازمین کے علاؤہ کوئی نہیں ہوتا تھا۔
بغیر کسی آہٹ کے وہ اپنے کمرے میں آیا۔ ڈریسنگ کے آئینے میں اپنا عکس نظر آتے طلال نے ایک نظر خود کو دیکھا۔ بڑھی ہوئی شیو، روکھے مٹی سے اٹے بال اور روکھی جلد۔ یہ طلال انصاری کہیں سے نہیں لگ رہا تھا۔
جیب سے والٹ، موبائل وغیرہ نکال کر وہیں رکھتے وہ وارڈروب سے کپڑے لیتے باتھ روم میں چلا گیا۔
کچھ دیر بعد وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنے گیلے بالوں سیٹ کر رہا تھا۔
اتنے دنوں سے نہ سونے کی وجہ سے اب اپنے بیڈ پر لیٹتے وہ فوراً نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
تانیہ لان میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتی بار بار طلال کا نمبر ملا رہی تھی۔ تین چار دن سے وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر طلال نے پہلے فون نہیں اٹھایا پھر کچھ دن سے اس کا نمبر آف تھا۔ اسے اب غصّہ آنے لگا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ تیار ہوکر پورچ کی طرف جانے لگی۔
"تانیہ اس وقت کہاں جارہی ہو؟" اس کی ماما عالیہ بیگم جو ملازمہ سے لاونج کی صفائی کروا رہی تھیں بولیں۔
"ماما میں پھپھو کی طرف جا رہی ہوں کچھ دیر میں آجاؤ گی۔" اپنی ماما کی آواز پر وہ رکی۔
" اس وقت تو امل یونی ہوتی ہے۔" عالیہ ٹائم دیکھتے بولیں۔
"ماما میں پھپھو سے ملنے جارہی ہوں اور پھپھو گھر ہی ہوتی ہیں۔" امل کو فون کرکے وہ پہلے ہی معلوم کرچکی تھی کہ طلال یونیورسٹی میں ہے یا نہیں۔ مگر اپنی ماں کو وہ یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ طلال سے ملنے جارہی ہے۔
" ڈرائیور کے ساتھ جانا اور مقدس کو میری طرف سے سلام بول دینا۔" تانیہ انہیں پیار کرتی گاڑی میں سوار ہوئی جہاں ڈرائیور پہلے ہی اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
انصاری ہاؤس میں داخل ہوتے اسے طلال کی گاڑی نظر آئی۔
"السلام علیکم پھپھو ۔ کیسی ہیں آپ؟" مقدس بیگم کو لاونج میں ہی بیٹھے دیکھ کر تانیہ ان کے گلے لگی۔
"وعلیکم السلام۔۔ کیسی ہے ہماری بیٹی اور آج اتنے دنوں بعد ہماری یاد کیسے آگئی؟" وہ پیار سے بولیں۔
" بس ایگزیم چل رہے تھے اس لیے آ نہیں سکی مگر اب روز آپ کو تنگ کرنے آؤں گی۔" تانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" میں کیوں تنگ ہونے لگی تم میری جان ہو۔ ویسے بھی یہ گھر بھی تمھارا ہے جب چاہے آجاؤ۔" مقدس بیگم نے کہنے پر اس کے گال سرخ ہوئے۔
" پھوپھو طلال گھر ہے کیا؟ اس کی گاڑی باہر کھڑی ہے۔" سیڑھیوں پر نظر ڈالتے وہ کچھ ہچکچا کر بولی۔
" پتہ نہیں بیٹا، یہ لڑکا کب گھر ہوتا کب باہر کسی کو پتا نہیں لگتا۔" ایک دم سے ان کی آواز بجھی۔
" آپ کہیں تو میں دیکھ آؤں؟" اس نے اجازت مانگی۔
" ہاں ہاں جاؤ۔۔۔۔ میں تمھارے لیے ناشتہ بناتی ہوں۔" تانیہ جیسے ان کی اجازت کے انتظار میں تھی فوراً اٹھی۔
" اچھا سنو بیٹا۔۔ طلال کو بھی اپنے ساتھ نیچے لے آنا۔ کب سے باہر کا کھانا کھا رہا ہے اس کی صحت نہ خراب ہوجائے۔" مقدس بیگم کے کہنے پر وہ 'جی اچھا' کہتی اوپر آگئی۔
طلال کے کمرے کے باہر وہ اس کشمکش میں تھی کہ اندر کیسے جائے۔امل اس وقت گھر ہوتی پھر وہ اس طرح نہ ہچکچاتی۔
کندھے پر ڈالا ڈوپٹہ درست کرتے تانیہ نے دروازہ ناک کیا۔ دو تین بار ناک کرنے پر بھی جب جواب نہ آیا تو اس کے چہرے پر پریشانی پھیلی۔
ہینڈل گھماتے تانیہ نے دروازہ کھولا۔ طلال کا کمرہ دن کے اجلالے میں بھی اندھیرے میں ڈوبا دیکھ کر تانیہ کو وحشت ہوئی۔اس نے اندھیرے میں سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹس آن کیں پھر کھڑکی کے پردے ہٹا کر طلال کی طرف آئی۔ جو ہوش و حواس سے بیگانہ بستر پر آڑھا ترچھا لیٹا تھا۔
"طلال۔۔۔ طلال اٹھو۔۔" بیڈ کے قریب کھڑے ہوتے تانیہ نے اسے آواز دے کر جگانا چاہا۔
"طلال۔۔۔۔"اب کہ اس نے طلال کا بازو ہلایا۔
طلال نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔ سامنے تانیہ کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پل میں پوری کھلیں۔
" کب سے آوازیں دے رہی ہوں مگر تم پتا نہیں کون سا نشہ کرکے سوئے ہو۔ یہ فون تم نے منہ دیکھنے کے لیے رکھا ہے۔" ٹیبل پر پڑا موبائل طلال کی طرف اچھالا۔
" تین دن سے کالز کررہی ہوں اور آگے سے جواب ملتا ہے، آپ کا ملایا ہوا نمبر فلحال بند ہے برائے مہربانی کچھ دیر بعد فون کریں۔" فون آپریٹر کی نکل اتارتے وہ نان سٹاپ بولے گئی۔
" کیوں فون کررہی تھیں؟" وہ سرد لہجے میں بولا۔
"کیا مطلب کیوں فون کررہی تھی۔ ماما اور پھپھو لوگ ہماری منگنی کرنا چاہتے ہیں اور تمھیں کوئی فکر ہی نہیں ہے۔" کل تانیہ نے اپنے والدین اور انصاری صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لی تھی۔ تب سے وہ طلال کو بتانا چاہتی تھی مگر طلال کا نمبر آف تھا۔
" تمھارا دماغ درست ہے یہ لوگ مجھ سے پوچھے بغیر کیسے یہ سب اچانک طے کررہے ہیں۔" طلال کا پارہ ہائی ہوا۔ وہ جتنا نرم اور خوش مزاج تھا اسے غصہ بھی اتنی ہی جلدی آتا۔
" اس بات کو چھوڑو تم چینج کرکے نیچے آؤ پھپھو تمھارے لیے ناشتہ بنا رہی ہیں۔" تانیہ اس کا غصہ دیکھتے فوراً نے بات بدل گئی۔
"تم نکلو میرے کمرے سے اور آئندہ میری اجازت کے بغیر اس کمرے میں مت آنا۔" طلال نے اس کا ہاتھ پکڑتے کمرے سے باہر نکال کر دروازہ اس کے منہ پر بند کیا۔
اپنی اتنی بے عزتی پر تانیہ آنسو صاف کرتی واپس لاونج میں آگئی۔ ان دونوں میں لاکھ نوک جھوک، لڑائی جھگڑا سہی مگر آج تک طلال نے کبھی اس طرح بات نہیں کی تھی۔
" طلال نہیں آیا نیچے؟" مقدس بیگم نے کچن سے باہر آکر پوچھا۔
"جی۔۔۔ وہ۔۔" تانیہ کے الفاظ ابھی منہ میں تھے جب سیڑھیوں پر قدموں کی آہٹ پر رکی۔
" السلام علیکم ممی۔" مقدس بیگم کو گلے لگاتے طلال نے نارمل لہجے میں کہا۔
"وعلیکم السلام۔۔۔ آگئی ماں کی یاد؟" وہ تھوڑی ناراضگی سے بولیں۔
طلال کل رات ہی یہ سوچ کر گھر لوٹا تھا، وہ گھر والوں پر یہ ظاہر نہیں کرے گا کہ اس دن اس نے ان کی باتیں سن لی تھیں۔
" سوری۔۔۔" طلال نے کان پکڑتے کہا۔طلال نے تانیہ کو فل اگنور کیا جیسے وہاں ان دو کے علاؤہ کوئی تیسرا وجود موجود ہی نہیں ہے۔
" آج میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرواں گی۔ باہر کا کھانا کھا کر کمزور ہو گئے ہو۔" طلال کے چہرے کو ہاتھوں میں لیتے بولیں۔
" آجاؤ تانیہ بیٹا۔" مقدس بیگم کے پکارنے پر طلال نے زرا سی نظر اٹھا کر دوسرے صوفے پر موجود تانیہ کی طرف دیکھا۔
"نہیں پھپھو میں ناشتہ کرکے آئی ہوں۔ میں بس آپ سے ملنے آئی تھی اب بس گھر جاؤں گی۔"سرد تاثرات سے طلال کی جانب دیکھتے صوفے سے اٹھی۔
"چپ کرکے میرے ساتھ آکر ناشتہ کرو میں کوئی ایکسیوز نہیں سنو گی۔" وہ ڈپٹ کر بولیں تو تانیہ ان کے ساتھ کچن میں چلی گئی۔ طلال نے اس کے بجھے چہرے پر نظر ڈال کر اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آفس آورز ختم ہوتے ورکرز اپنے گھروں کو جا چکے تھے بس اس وقت اجلال اپنے پی۔اے اور سیکٹری کے ساتھ آفس میں موجود تھا۔
سیکٹری کو چند ہدایات دے کر وہ تینوں آگے پیچھے نکلے۔
اجلال لفٹ کے ذریعے گراؤنڈ فلور پر پہنچا جب اسے کوئی آہٹ سنائی دی۔
"سب لوگ چلے گئے ہیں پھر یہاں کون ہے؟" ریسٹ واچ پر وقت دیکھتے وہ اس جانب جانے لگا پھر پاکٹ سے موبائل نکال کر باہر کھڑے گارڈ کو اندر آنے کا کہا۔
" کون ہے یہاں؟" اس کی رعب دار آواز خالی آفس میں گونجی۔ ایک بار پھر کوئی چیز گرنے کی آواز سنائی دی۔
"میں آخری بار پوچھ رہا ہوں کون ہے ادھر؟" موبائل کی روشنی میں اجلال محتاط انداز میں آگے بڑھا۔
"اجلال انصاری میں نے تمھیں کہا تھا میں تمھیں تباہ کردوں گی۔" اجلال اس کمرے میں داخل ہوا جہاں سے چیزیں گرنے کی آواز آئی تھی۔ دروازے کے بند ہونے کی آواز پر وہ مڑا اور ساکت رہ گیا۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" اس لڑکی کی ہمت پر اجلال دنگ رہ گیا۔
" ہاہاہا۔۔۔ اجلال انصاری تمھاری اس آفس میں جو عزت آج تک تھی وہ اب نہیں رہے گی۔" ماہا شیرازی آج خود کو فاتح بنانے والی تھی مگر وہ بھول گی کہ سامنے اجلال انصاری ہے۔
" تم نے اگر کوئی بھی ایسی ویسی حرکت کی تو میں تمھیں نا صرف اس کمپنی سے ٹرمینٹ کروں گا بلکہ اس کے ساتھ میری ساکھ خراب کرنے پر پولیس کے حوالے بھی کروں گا۔" اجلال نے موبائل پر ریکارڈنگ آپشن آن کیا۔
"مجھے فائر کرنے اور پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے سامنے ٹیبل پر موجود لفافے کو دیکھ لو اجلال صاحب۔" ماہا کا لہجہ اجلال کو ٹھٹکا گیا۔
ٹیبل سے لفافہ اٹھا کر اسے چاک کرتے جو چیز اجلال کے ہاتھوں میں آئی اسے دیکھ کر صحیح معنوں میں اجلال کے پیروں سے زمین نکل گئی۔
"کیا بکواس ہے یہ؟" ہاتھ میں پکڑی تصویروں کو زمین پر پھینکا۔
" سوچو اجلال انصاری اگر یہ جھوٹی تصویریں تمھارے اسٹاف اور گھر والوں تک پہنچی پھر تم کس کس کو اپنے کردار کی صفائی دوگے؟" سینے پر بازو باندھے ماہا اجلال کے قریب آئی۔ اجلال کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وہ تصاویر اتنی صفائی سے ایڈیٹ کی گی تھیں کہ اصل معلوم ہوتیں۔
" اب تمھیں یہ کرنا ہے اجلال انصاری کے تم مجھے اپنی پرسنل سیکرٹری رکھو گے اور جلد اپنے گھر والوں کو میرے گھر بھیجو گے رشتے کے لیے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انجام کے لیے تیار رہنا۔" اس کا لہجہ حکمیہ تھا۔
" ٹھیک ہے میں تمھیں اپنی سیکٹری رکھو لوں گا مگر دوسری شرط کے لیے مجھے وقت چاہیے۔"کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ اپنے دماغ میں پلین ترتیب دیتے بولا۔
"جتنا وقت چاہیے لے لو لیکن کوئی بھی چالاکی کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا میں کچھ بھی کرسکتی ہوں۔۔۔۔ کچھ بھی۔۔۔۔" ماہا 'کچھ بھی ' پر زور دیتے بولی۔
اجلال نے اس وقت کو کوسہ جب اس نے سلمان کے کہنے پر ماہا کو جاب دی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"آپ کو ایک بار آپی سے پوچھ لینا چاہیے تھا اس بارے میں۔"فرہان صالحہ بیگم کے فیصلہ سنتے بولا۔
"ہم جو بھی فیصلہ کریں گے عینا سے پوچھ کر کریں گے مگر میں چاہتی ہوں پہلے مقدس سے بھی اس بارے میں بات کر لوں۔"وہ دونوں اس وقت لاونج میں تھے زینی کالج گئی تھی اور مجتبیٰ صاحب آفس اور عینا اپنے کمرے میں تھی۔
"ماما کیا اس طرح بات کرنا ٹھیک رہے گا مطلب خالہ لوگوں کو برا نہیں لگے کہ ہم ان سے آپی کے رشتے کی بات کریں؟"فرہان نے سوچتے ہوئے کہا۔
"مقدس برا نہیں مانے گی اور بھائی صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔"صالحہ بیگم کی آواز میں یقین تھا۔
"اور اجلال بھائی۔۔۔؟"وہ جانتی تھیں فرہان کیا کہنا چاہتا ہے۔
"مقدس اسے سمجھائے گی تو وہ مان جائے گا۔"انہوں نے تسلی دلائی۔
"ٹھیک ہے پھر آپ کریں بات باقی جو اللہ کومنظور۔"فرہان نے سمجھتے سر ہلایا مگر لاونج کے دروازے کے پار کھڑی عینا جانتی تھی وہ شخص کبھی نہیں مانے گا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
ایشل گھر کی صفائی کے بعد کھانے بنانے میں مصروف تھی مگر اس کا دل بجھا ہوا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی صائمہ ممانی نے اپنے آنے کا بولا تھا اور اب وہ امّی کے کہنے پر ان کے لیے نا چاہتے ہوئے بھی کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
"ایشل تم یہ چھوڑو اور جاؤ تم اپنا حلیہ درست کرو میں دروازہ کھولتی ہوں۔"امّی دروازے کے بجنے کی آواز پر کچن میں آتیں ایشل سے بولیں۔
"حلیہ کیا درست کرنا امّی اور ویسے بھی بعد میں بھی انہوں نے مجھے ایسے ہی دیکھنا ہے۔"وہ چاول کو دم پر رکھتے ان کی جانب آئی۔
"جا کر تیار ہو میں دروازہ کھولوں کب سے بج رہا۔"اسے حکم دیتے وہ دروازہ کھولنے گئیں تو ایشل پیر پٹختے کمرے میں چلی آئی۔
"السلام علیکم!"وہ تیار ہو کر امّی کے کمرے میں آئی جہاں اس کے دونوں ماموں ممانیاں بیٹھیں تھیں۔
"وعلیکم السلام!کیسی ہے ہماری بیٹی؟"ماموں اس کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھ رہے تھے۔
"جی ٹھیک۔"دو لفظی جواب دیتے وہ امّی کے ساتھ بیٹھی۔اب وہ کیا جواب دیتی کہ ان کے بیٹے سے منگنی کے بعد سے اس کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔
"ہم لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں کی تعلیم ختم ہوتے شادی کر دی جائے۔"بڑے ماموں نے بغیر تمہید باندھے بات شروع کی۔
"بھائی صاحب اتنی جلدی…؟"وہ ایشل کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے بولیں۔
"بھئی ہم چاہتے ہیں جتنی جلدی شادی ہو اتنا اچھا ہے۔ویسے بھی نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔"صائمہ ممانی اس کی بدلتی رنگت دیکھتے دل میں خوش ہوئیں۔
"جی بھابھی مگر ایشل ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے۔"ان کی آواز بہت ہلکی تھی۔
"لو بہن اتنا پڑھنے کے بعد بھی اس نے چولہا ہانڈی ہی کرنی ہے اور ہم نے کون سا اس سے نوکریاں کروانی ہیں جو اسے آگے پڑھنا ہے۔"صائمہ ممانی تمسخرانہ لہجے میں بولیں تو آمنہ ممانی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ایشل تو ان کی بات پر تپ ہی گئی مگر سامنے اس کے ماموں بھی بیٹھے تھے وہ ان کے سامنے کوئی بدمزگی کر کے اپنی ماں کی تربیت پر حرف نہیں آنے دینا چاہتی تھی۔
"صائمہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ہم نے ایشل سے جاب تو کروانی نہیں اسی لیے امتحان ختم ہوتے ان کی شادی کردینی چاہیے۔"بڑے ماموں کے کہنے پر اس نے اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کو دیکھا۔اس نے پڑھے لکھے جاہل لوگوں کا تو سنا تھا مگر آج دیکھ بھی لیا تھا۔
"جیسا آپ چاہیں بھائی صاحب۔"اپنی ماں کو اس کے حق میں نہ بولتے دیکھ اس کی آنکھوں میں نمی اتری۔
"دیکھو بہن جہیز تو ہم لے نہیں رہے اور کپڑے وغیرہ بھی ہم کر لیں گے تم بس بیٹی کو رخصت کرنے کی تیاری کرو۔"صائمہ ممانی کے لہجہ فاتحانہ تھا۔
"بس پھر دیر کس بات کی منہ میٹھا کروائیں سب کا۔"چھوٹے ماموں میٹھائی کا ڈبہ کھولتے اس کی جانب بڑھے اور ایک ٹکڑا توڑتے اس کے منہ میں ڈالا۔
"اللہ تمھیں ڈھیروں خوشیاں عطا کرے آمین۔"اس کے سر پر پیار کرتے وہ دعا دینے لگے۔ایشل کے گلے میں آنسؤں کا گولا پھنسا۔
"کیا اس کے نصیب میں خوشیاں تھیں؟اسے تو آج تک کوئی خوشی راس نہیں آئی تھی اور سمیر جیسے انسان سے شادی کے بعد تو شاید وہ خوشی جیسے لفظ کو بھی ترس جائے۔"سب اسے مبارک باد دے رہے تھے مگر اس کا دھیان ہی نہیں تھا۔
"جس کو بھی سوچ رہی ہو اسے بھول جاؤ کیونکہ اب تم میرے سمیر کی دلہن بننے والی ہو۔"صائمہ ممانی نے اسے گلے لگاتے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"میں کچھ نہیں سوچ رہی۔"وہ بھی آہستہ آواز میں بولی۔
"سوچنا بھی نہیں۔"اس کا گال تھپتھپاتے وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھیں۔امّی اب سب کے لیے کھانا نکالنے کے لیے جا چکی تھیں۔ایشل بھی آہستہ سے اٹھتے سب کو ایکسیوز کرتے اپنے کمرے میں چلی آئی پیچھے دونوں ممانیاں ایک دوسرے کو دیکھتے فاتحانہ مسکرا رہی تھیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"مقدس ہم لوگ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے مگر پتہ نہیں تم کیا سوچو؟"اس وقت صالحہ بیگم اپنی فیملی کے ساتھ انصاری ہاؤس میں موجود تھے۔صالحہ بیگم نے تمہید باندھتے بات شروع کی۔
"ایسی بھی کیا بات ہے صالحہ؟"وہ ناسمجھی سے بولیں۔
"دراصل ہم لوگ چاہ رہے تھے کہ عینا کی شادی اگر اجلال سے ہو جائے۔"صالحہ بیگم کی آواز میں ڈر تھا کہیں ان لوگوں کو برا ہی نہ لگ جائے۔ بےشک وہ بہنیں تھیں مگر اپنی زبان سے اپنی بیٹی کے رشتے کی بات کرنے میں وہ ہچکچا رہیں تھیں۔
"مجھے تو بہت خوشی ہو گی عینا میرے گھر کی زینت بنے مگر اجلال ہماری سنتا ہی نہیں۔"خوشی سے کہتیں آخر میں ان کے لہجے میں مایوسی اتری۔
"تم اجلال سے بات کر کے دیکھو۔" صالحہ بیگم نے مشورہ دیا۔
"بہت دفعہ کر چکی ہوں مگر وہ اسے بھولتا ہی نہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ مجھے عزیز نہیں، وہ آج بھی مل جائے تو میں اسی وقت اسے اپنے اجلال کی بنا دوں لیکن شاید اللہ کو کچھ اور منظور ہے۔"مقدس بیگم کے لہجے میں مایوسی تھی۔
"خالہ آپ پریشان نہ ہوں اجلال بھائی کی تقدیر اگر اس لڑکی کے ساتھ جڑی ہے تو کوئی ان کو ایک ہونے سے روک نہیں سکتا۔"فرہان نے مقدس بیگم کو تسلی دیتے کہا۔
"میں بات کروں گی اجلال سے ان شاءاللہ وہ مان جائے گا۔"مقدس بیگم نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کی۔
"خالہ آپ بھائی کو پریشررائز نہیں کریں گی۔اگر عینا آپی کا نصیب اس گھر میں ہوا تو انہیں مل جائے گا نہیں تو جو اللہ نے ان کے لیے لکھا ہو گا وہ ملے گا۔"امل جو عینا کے ساتھ لاونج میں آرہی تھی فرہان کی آواز سنتے ایک سیکنڈ کو رکی۔
"لو میری بیٹی آگئی۔"صالحہ بیگم امل کو دیکھتے بولیں تو فرہان نے گردن گھماتے پیچھے کھڑی امل پر نظر ڈالی جو سادہ شلوار قمیض میں دوپٹہ سر پر سجائے اب صالحہ بیگم کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔اچانک فون پر ہوئی بات یاد آتے اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے اور امل اسے اپنی جانب تکتا پاکر رخ فوراً اپنی خالہ کی جانب موڑ گئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ہائے ڈئیر وائف ٹو بی…"سمیر اس کے پیچھے کھڑے ہوتے اس کے کان میں سرگوشی کرتے بولا تو وہ ایک دم ڈر کر سیدھی ہوئی۔ایشل لائبریری سے کتاب لینے آئی تھی اور وہیں بیٹھ گئی تھی۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے سمیر؟"ایشل طیش سے کہتی وہاں سے اٹھنے لگی۔
"پہلی بات تو یہ کہ اب تم مجھے آپ کہنے کی عادت ڈال لو آخر کو میں تمھارا ہونے والا شوہر ہوں اور دوسری بات میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی جو تم مجھے لیکچر دیتی پھرو۔" سمیر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا خباثت سے بولا۔
"ہنہہ آپ بولتی ہے میری جوتی۔"ایشل نے صرف سوچا۔
"میں تمھیں کوئی لیکچر نہیں دے رہی اور نہ ہی مجھے دینے کی ضرورت ہے اور آئندہ اس طرح تم نے مجھے مخاطب کیا تو اپنے پیروں پر واپس نہیں جاؤ گے۔"لائیبریری کا خیال کرتے وہ دھیمی لہجے میں کہہ رہی تھی ورنہ اب تک ایک تھپڑ تو وہ اسے مار ہی چکی ہوتی۔
"تمھارا وہ عاشق آتا مجھے پیٹنے ہاہاہاہا…وہ جو خود نا جانے کہا مجنوں بنا پھر رہا ہے۔ویسے کہاں ہیں وہ آج کل نظر نہیں آتے دونوں بہن بھائی؟"ایشل کا بس نہیں چل رہا تھا وہ لائبریری کی ساری الماریاں سمیر کے سر پر گرا دے۔
"اپنی بکواس بند کرو سمجھے۔کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ ہم خود کیسے ہیں۔"ایشل نے کتابیں اٹھاتے وہاں سے جانا چاہا۔
"تمھارے جو یہ پر ہیں نا یہ میں بہت جلدی کاٹنے والا ہوں پھر اڑتی رہنا تم خوابوں میں۔"سمیر اس کی جانب جھکتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے بول کر وہاں سے نکل گیا پیچھے ایشل آنکھوں میں آنسوں لیے اپنی آگے کی زندگی کا سوچنے لگی جو اسے صرف تاریک نظر آرہی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
جاری ہے ۔۔۔