Rah-e-taqdeer by Al...
 
Share:
Notifications
Clear all

Rah-e-taqdeer by Aleena Khan episode 05

1 Posts
1 Users
0 Reactions
185 Views
(@aleena-khan-officiall)
Eminent Member Customer
Joined: 11 months ago
Posts: 9
Topic starter  

ناول: راہِ تقدیر

از قلم: علینہ خان

قسط نمبر 05

طلال گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے اس وقت ساحل سمندر پر موجود تھا۔ اس نے تھکے ہوئے انداز میں گاڑی کے بونٹ پر اپنے ہاتھ کی پشت رکھی اور سر جھکا لیا۔ رات کی تاریکی میں سمندر کی لہریں بھی بے چین دکھائی دے رہی تھیں، جیسے وہ بھی طلال کے دل کی طرح مضطرب ہوں۔ سرد ہوا نے اس کے بالوں کو بکھیر دیا تھا۔ آنکھوں کے اشک تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ وہ اس ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں بس اکا دکا لوگ تھے کیونکہ اگر کوئی اس جوان مرد کو روتے دیکھ لیتا تو ضرور اسے عاشق سمھجتا۔
"زندگی نے مجھ پر آج ایسا راز کھولا ہے، جسے جاننے کے بعد میں نے خود کو کھو دیا ہے۔"وہ اس وقت خود سے مخاطب تھا۔اس کی آواز مدھم تھی، جیسے اس کے اپنے الفاظ بھی بوجھل ہوں۔ وہ بچپن سے ہنستے مسکراتے ہوئے ہر مشکل کا سامنا کرنے والا تھا۔ لیکن آج وہ ایک ایسے بوجھ تلے دب گیا تھا جس کا وزن ناقابل برداشت تھا۔
آسمان پر بادلوں نے چاند کو چھپانا شروع کر دیا، جیسے وہ بھی طلال کے جذبات کی شدت کو محسوس کر رہے ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنی انگلیوں سے آنسو صاف کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"یا اللہ، مجھے حیرت ہے اتنا سب سننے کے بعد بھی میں زندہ کھڑا ہوں۔ مجھے مر جانا چاہیے تھا اتنا سب سننے کے بعد مگر شاید زندگی نے ابھی بہت کچھ بتانا ہے۔یا اللہ، میں ہمیشہ دوسروں کے غم کو بٹانے والا رہا ہوں، مگر آج میں خود اپنے غم کے بوجھ تلے دب گیا ہوں۔"بے بسی سے آسمان کی طرف نظریں اٹھائے اس کے لبوں سے الفاظ نکلے، جیسے وہ اپنے رب سے سوال کر رہا ہو کہ وہ اس آزمائش سے کیسے گزرے گا۔
اچانک ایک موج زور سے کنارے پر آکر ٹکرائی، اور پانی کی چند بوندیں طلال کے چہرے پر گرا دیں۔طلال نے گہری سانس لی اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ مگر دل کی بے چینی اور بے بسی نے اسے جکڑ رکھا تھا۔
"میں ہمیشہ سب کو کہتا تھا جب بھی خود کو غم میں محسوس کرو تو ساحل سمندر کا رخ کرنا۔ سمندر کی ہوائیں آپ کے دل میں اتر کر آپ کے غم کو اڑا کر دور لے جاتی ہیں اور آج میں خود یہاں کھڑا ہوں۔شاید میرے لیے ابھی اور امتحان باقی ہیں۔"ہر وقت ہنسنے مسکرانے والا، دوسروں کے دکھوں کو اپنی باتوں سے پل میں بھلانے والا طلال انصاری آج خود سب سے چھپ کر رو رہا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
کچھ دنوں سے وہ پڑھائی پر بھی دھیان نہیں دے پا رہی تھی جس کی وجہ سے آدھے لیکچر اس کے غائب دماغی میں گزرتے۔آج بھی وہ لیکچرز لے کر کیفے ٹیریا سے اپنے لیے جوس لے کر اسی بینچ پر آبیٹھی جس پر روز بیٹھتی تھی۔
جوس ختم کرتے اس نے اسے قریب پڑے کوڑے دان میں ڈالا پھر ہاتھ میں پکڑے رجسٹر کو کھولا جہاں اس نے لیکچرز نوٹ کیے تھے۔ایشل نے رجسٹر کے صفحات کو خالی نظروں سے تکا، جیسے وہ الفاظ اس کی سمجھ سے باہر ہوں۔ دل کی بے چینی نے اسے ایسا جکڑا کہ وہ چاہ کر بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر رہی تھی، مگر وہ جانتی تھی کہ اس وقت یہاں رونا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ دو دن بعد اس کی منگنی تھی، مگر اس کے دل کے اندر بے چینی چھائی ہوئی تھی۔
"کاش کوئی ہوتا جو میری بات سن سکتا۔" اس نے دل میں سوچا۔ اس کی بہترین دوست، جو اس کی ہر بات سمجھ جاتی تھی، اب اس کے قریب نہیں تھی۔ فاصلے اور وقت نے انہیں جدا کر دیا تھا، اور اب ایشل خود کو اس بینچ پر اکیلا محسوس کر رہی تھی۔
دور کھڑی امل نے اس کی حالت کو محسوس کیا۔ ایشل کے چہرے کی پژمردگی اور خالی نظروں میں چھپا ہوا درد اسے صاف نظر آ رہا تھا۔ امل کے دل میں خیال آیا کہ وہ آگے بڑھے اور ایشل سے بات کرے، مگر قدم آگے بڑھانے سے پہلے ہی اپنے عقب سے آتی آواز پر اچانک رکی۔
"امل…کہاں جارہی ہو، گھر نہیں جانا کیا؟" اجلال کی آواز میں سوال تھا۔اس کی آواز سنتے امل کے قدم وہیں رک گئے۔
امل نے لمحے بھر کو ایشل کی جانب دیکھا، جیسے وہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہو کہ کیا کرے۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی کشمکش تھی۔ ایک طرف وہ ایشل کی مدد کرنا چاہتی تھی، اور دوسری طرف اجلال تھا۔
"جی بھائی۔" امل نے بمشکل خود کو سنبھالا اور اجلال کی طرف مڑ گئی۔
"کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے؟"اجلال نے امل کے چہرے پر چھائی ہوئی گھبراہٹ کو بھانپ لیا تبھی نرمی سے پوچھا۔
"امل کو فوراً کوئی جواب نہیں سوجھا، اس کے دل میں اب بھی ایشل کا خیال تھا۔ "نہیں، وہ… شاید میں اپنا پین کلاس میں بھول آئی ہوں،" اس نے جلدی سے بہانہ بنا دیا۔
"جاؤ، لے آؤ۔" اجلال نے اس کی نظریں ایشل کی طرف جاتی دیکھیں، مگر اس نے کچھ نہیں کہا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ امل کچھ چھپا رہی ہے، لیکن وہ اس پر زور نہیں دینا چاہتا تھا۔
"نہیں میں نیا لے لوں گی۔"امل نے تھوڑا سوچا اور بولتے ساتھ گاڑی کی طرف چل دی اجلال نے چند لمحے امل کو جاتے ہوئے دیکھا، لیکن پھر اس کی نظریں دوبارہ ایشل کی طرف مڑ گئیں۔ جو اپنی سوچوں میں گم رجسٹر کو خالی نظروں سے تک رہی تھی۔
اجلال سر جھٹکتا واپس مڑ گیا۔
ایشل اب بھی رجسٹر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر رہی تھی، مگر اس کی توجہ کہیں اور تھی۔ وہ اپنی زندگی کے اس نئے موڑ کے بارے میں سوچ رہی تھی جو دو دن بعد آنے والا تھا، مگر اس کے دل میں خوف اور بے چینی تھی۔ وہ ایک طرف منگنی کی رسم کے بارے میں سوچتی تو دوسری طرف اس کے دل میں ایک سوال اٹھتا کہ کیا وہ اس رشتے کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ اس شخص کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہوگی، جس کے ساتھ اس کا نام جڑنے والا تھا؟
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"بھائی ہم خالہ اور ماموں سے کب ملنے جائیں گے؟"زینب فرہان کے پاس آتی اونچی آواز میں بولی۔
"کیا ہوگیا لڑکی کیوں میرے کان کے پردے پھاڑنے پر لگی ہوئی ہو۔"فرہان نے کانوں پر ہاتھ رکھے۔
"بتائیں ناں کب جائیں گے؟" اس نے فرہان کے گلے میں بازو ڈالے۔
"زینی بھائی کو تنگ مت کرو۔"صالحہ بیگم نے اسے ڈپٹا۔
"ایک دو دن میں چلتے ہیں اب خوش۔"وہ زینب کا گال کھنچتے بولا۔
"اتنی جلدی فرہان کو نہیں ہے جتنی تمھیں ہو رہی ہے حالانکہ ہم پچھلے مہینے خالہ کے گھر گئے تھے۔"عینا کے بولنے پر فرہان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"مجھے کیوں جلدی ہونے لگی؟"اس نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں ہمیں تو جیسے پتہ نہیں آتے ہی اگلے دن تم نے زینب سے نمبر لیتے اسے کال کی تھی۔"عینا کے کہنے پر وہ سٹپٹایا پھر اس نے زینب کو گھورا جس نے سب کچھ عینا کو بتا دیا تھا۔
"تو جناب، اب کیا ارادے ہیں؟" عینا نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ فرہان کو چھیڑا۔
"کک…کچھ نہیں آپی۔"فرہان نے اپنی گھبراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔
صالحہ بیگم جو یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں، ہنس پڑیں۔
"اچھا اب میرے بیٹے کو تنگ نہیں کرو تم دونوں۔"صالحہ بیگم فرہان کے سٹپٹانے پر بولیں۔
زینب اب کان پکڑے فرہان سے معافی مانگ رہی تھی مگر لگ نہیں رہا تھا وہ اس بات کیلئے اسے جلد معافی دینے والا تھا ۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"امل۔"اجلال نے گہری سانس لیتے اسے مخاطب کیا۔جیسے وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ گاڑی کے اندر خاموشی چھا گئی، اور بس انجن کی ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔
"جی بھائی۔"
"امل، تمھاری وہ دوست۔۔۔۔"
"دوست ۔۔ نہیں ۔۔ ہے اب۔"امل نے اجلال کی بات کاٹتے 'نہیں' پر زور دیتے کہا۔
"جب تم نے اس سے دوستی ختم کی تھی تو اس نے وجہ بھی پوچھی ہوگی؟"آج اتنے دنوں بعد اجلال ناجانے کیا جاننا چاہتا تھا۔
"جی پوچھی تھی۔" دل ایک بار پھر زخمی ہوا۔
"پھر تم نے کیا بتایا؟" ڈرائیو کرتے اجلال نے ہلکا سا چہرہ موڑ کر امل کو دیکھا۔
"آپ کا نام نہیں لیا۔ بس یہ کہہ دیا، ہماری دوستی۔۔۔ بس یہی تک۔۔۔ تھی میں۔۔تم سے اب۔۔۔ دوستی نہیں۔۔ رکھنا چاہتی۔" اس کا ضبط جواب دے گیا۔ اپنے آنسو چھپانے کے لیے وہ باہر دیکھنے لگی۔ اجلال نے ہاتھ بڑھا کہ اسے چپ کروانا چاہا مگر پھر سر جھٹکتے ہاتھ واپس گیر پر رکھ دیا، زندگی میں پہلی بار اس کی وجہ سے اس کے بہن بھائی غمزدہ تھے۔ اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسوں دینے والا بھی وہ خود تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
ایشل گھر پہنچی تو اس کی ممانیاں امّی سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ گہری سانس لیتے ایشل نے سب کو سلام کیا جس پر صائمہ ممانی اٹھ کر ایشل کے پاس آئیں اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے بولیں۔
"خوش رہو، آباد رہو۔" ایشل ان کے بدلے رویے پر حیران ہوئی۔
"جاؤ بیٹا تم فریش ہو جاؤ پھر تمھیں ہمارے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے۔" آمنہ ممانی کے پیار سے بلانے پر وہ غش کھاتے بچی۔
کچھ دیر میں ایشل کپڑے بدلے سر پر دوپٹہ اور کندھوں پر چادر پھیلائے ان کے ساتھ مال میں موجود تھی۔
"کیا ضرورت تھی اسے یہ اتنی بڑی چادر لانے کی۔"صائمہ ممانی جو اپنے بیٹے اور شوہر کے کہنے پر ایشل کو اپنے ساتھ شاپنگ کے لیے لائیں تھیں اور سارا اچھا رویّہ اختیار کیے ہوئے تھیں اب اپنے آگے چلتی ایشل کے مسلسل چادر درست کرنے پر آمنہ ممانی سے بولیں۔
"جب تمھاری بہو بنے تو پہلی فہرست میں اس کے دماغ کو درست کرنا۔" آمنہ ممانی انہیں بھڑکاتی ہوئی بولیں۔
ایشل کو نا شاپنگ میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اس منگنی میں، مگر امّی کے کہنے پر وہ ان کے ساتھ آگئی تھی۔ وہ دونوں جس کپڑے اور چیزوں کو پسند کرتیں ایشل چپ چاپ لیے جارہی تھی۔
"کل تم پڑھنے نہیں جاؤ گی اس لیے کہ تم اور تمھاری امّی ہمارے گھر جائیں گے۔" گھر لوٹتے ممانیوں نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔ مگر وہ کیا کہہ سکتی تھی تبھی خاموشی سے بیٹھی رہی۔
گھر پہنچ کر جیسے ہی گاڑی رکی، وہ جلدی سے گاڑی سے اترتی اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنے کمرے کا رخ کرنا چاہا ۔
"ایشل!" صائمہ ممانی کی آواز نے اسے روک لیا۔ وہ پلٹی تو دیکھا کہ صائمہ ممانی اس کے ہاتھ میں کچھ شاپنگ بیگز تھما رہی تھیں۔
ایشل نے بے دلی سے بیگز لیے اور سر ہلاتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دروازہ بند کرتے ہی بیگز بے دلی سے صوفے پر پھینکے اور بستر پر بیٹھ گئی گہرے سانس لینے لگی ۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کاش وہ اپنی مجبوری اپنی کیفیت کسی سے کہہ سکے، مگر کس سے؟ امّی سے کہتی تو وہ ناراض ہو جاتیں، اور دوست وہ تو پہلے ہی دور ہو چکی تھی۔
ایشل نے شاپنگ بیگز کی طرف نظر ڈالی، چمک دار کپڑے، زیورات، اور دوسری چیزیں جو اس کی منگنی کے لیے خریدی گئی تھیں۔ اس کا دل ان چیزوں سے بے زار ہو گیا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
لنچ ٹائم کے بعد اجلال اپنے روم میں فائل کی ورق گردانی کررہا تھا جب دروازے کے کھلنے کی آواز پر سر اٹھایا۔ ماہا شیرازی ٹائٹ جینز اور جسم سے چپکی ہوئی شرٹ پہنے اندر آئی۔
"مس ماہا یہ کیا طریقہ ہے۔ آپ کو دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے تھا۔"اجلال نے ناگواری سے برہم لہجے میں کہا۔
"کیا میں یہاں بیٹھ کر تم سے بات کرسکتی ہوں؟" بنا کسی تکلف کے چئیر پر بیٹھتے ماہا ٹیبل کو اپنے نیل پینٹ لگائے بڑے ناخنوں سے بجانے لگی۔
" مس ماہا میں آپ کا باس ہوں کوئی کلاس فیلو نہیں اور میرے روم میں آنے سے پہلے آپ کو ناک کرنا چاہیے۔" اجلال چند دن سے نوٹ کر رہا تھا ماہا اس سے بلاوجہ فری ہونے کی کوششں کررہی ہے اور آج تو اس نے حد ہی کردی۔
"اوہ کم آن اجلال انصاری تم کتنے روکھے انسان ہو۔" اسکی بات جیسے ماہا نے سنی ہی نہیں وہ اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹ کر کھول رہی تھی۔
"مجھے مجبور مت کریں میں آپ کو اس جاب سے فائر کر دوں۔"زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے اجلال تیش میں بولا۔
"اتنی ہمت ہے کہ مجھے، ماہا شیرازی کو فائر کرو؟" وہ بےساختہ ہنستےمغرور لہجے میں بولی۔
"یہ میرا آفس ہے، میں جب چاہوں تمھیں یہاں سے نکال باہر کروں۔"اجلال کو آپ سے تم پر آنے میں لمحہ لگا تھا۔
"دیکھتے ہیں… لیکن ایک بات یاد رکھنا مسٹر اجلال جس دن تم نے مجھے یہاں سے نکالا اس دن تمھاری بربادی شروع ہو جائے گی ۔" اجلال کو وارن کرتے وہ وہاں سے نکل گئی۔ وہ لڑکی اجلال انصاری کو دھمکی دے کر گئی تھی اور یہ بات اجلال کی انا پر لگی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
منگنی کا دن بالآخر آپہنچا اس کی ممانیاں اور کزنیں ایشل کو لیے تیار ہونے مشہور پارلر آئی ہوئی تھیں۔
"یہ ہماری بہو ہے۔ آپ اس کا فیشل وغیرہ کریں اور مہندی میں میرے بیٹے سمیر کا نام ضرور لکھنا۔"صائمہ ممانی پارلر والی کو ایسے بول رہیں تھیں جیسے اس کی انگیجمینٹ نہیں نکاح ہو۔
پارلر والی فیشل وغیرہ کے بعد جب اس کی آئی برو کو شیپ دینے کے لیے بڑھی ایشل ایک جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔
"میم آپ اپنا سر نیچے کریں گی پھر ہی میں آپ کی آئی برو کو شیپ دوں گی۔" اس لڑکی نے ایشل کو سیدھے بیٹھے دیکھ کر کہا۔
"مجھے یہ نہیں بنوانی۔" پہلے ہی وہ پارلر نہیں آنا چاہتی تھی اور اب یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا۔
"ارے ایشل کیا ہو گیا یہ سب عام سی چیزیں ہیں۔ تم ایسے گھبرا رہی ہو جیسے وہ تمھاری آئی برو کاٹنے لگی ہے۔" ممانی جو خود بھی ابھی اپنے چہرے پر ناجانے کیا کچھ لگوا کر فارغ ہوئی تھیں ایشل کو بولیں۔
"یہ حرام ہے ممانی۔ میں یہ سب کروا کر اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔"ایشل کو انسیٹیوٹ کا درس یاد آیا جو عورت کے لباس اور اس کے فیشن پر دیا گیا تھا۔
"لڑکی کس زمانے میں جی رہی ہو۔آج کل کون دیکھتا ہے اسلام اور ایک بار یہ کروا لینے سے کون سا تم جنت میں پہنچ جاؤ گی۔ آپ اپنا کام کریں یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے۔" آمنہ ممانی کی باتوں سے اسے تکلیف ہوئی۔
"میرے اللہ نے جب اسے حرام کیا ہے پھر میں کیوں کرو۔ اور رہی بات جنت کی ، وہ کسی کو نہیں پتا کون کہاں جائے گا۔ آپ کو مہندی لگانی ہے تو لگائیں اور اس میں کسی کا نام مت لکھیے گا۔" پارلر والی بیچاری اس کی ممانیوں کی گھوریاں سہتی اب ایشل کے ہاتھوں پر مہندی لگانے لگی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"تانیہ تم تیار نہیں ہوئیں؟"عالیہ بیگم نے تانیہ کو رف حلیے میں ٹی.وی. کے سامنے بیٹھے دیکھا تو گویا ہوئیں۔
"ماما میرا دل نہیں کہیں جانے کو۔آپ اور پاپا چلے جائیں۔"اس نے لاپرواہی سے کہا۔
"کیا ہو گیا تانیہ،تمھاری پھوپھو نے بلایا ہے اور صالحہ بھی آرہی ہے اس طرح اچھا نہیں لگتا۔تم اس گھر کی ہونے والی بہو ہو۔"عالیہ بیگم نے اسے سمجھایا۔
"ان کے بیٹے کو تو پرواہ نہیں ہے جب فون کرو فون بند ہوتا۔"وہ بڑبڑائی۔دو دن سے وہ طلال کو کال کر رہی تھی مگر اس کا نمبر بند جارہا تھا۔
"کچھ کہا تم نے؟"عالیہ بیگم نے اسے بڑبڑاتے دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔آپ دو منٹ انتظار کریں میں تیار ہو کر آئی۔"وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جبکہ عالیہ بیگم اس کے بدلتے موڈ پر حیران ہوئیں۔
تانیہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو دروازہ بند کرتے ہی گہری سانس لی اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں الجھن صاف جھلک رہی تھی۔
ایک بار پھر اس نے فون ملایا مگر طلال کا نمبر بند جا رہا تھا، اور اس کی بے چینی ہر لمحے بڑھتی جا رہی تھی۔ "آخر کہاں ہو تم، طلال؟" تانیہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ اس کا دل ایک طرف سے یقین دہانی دے رہا تھا کہ کوئی معمولی مسئلہ ہوگا، لیکن دماغ میں شک و شبہات کا طوفان برپا تھا۔
اس کی نظر فون کی سکرین پر گئی، جہاں طلال کا نمبر مسلسل غیر فعال ہونے کا نوٹیفیکیشن دکھا رہا تھا۔ تانیہ کا دل جیسے ایک بار پھر ڈوب گیا۔
"یہ رشتہ کب تک چل پائے گا یا پھر چل بھی پائے گا یا نہیں؟" اس کے دل میں بے شمار سوالات جنم لے رہے تھے۔
وہ سست روی سے الماری کی طرف بڑھی اور ایک ہلکے کام والا جوڑا نکال کر بستر پر پھینک دیا۔ دل چاہ رہا تھا کہ کچھ بھی نہ پہنے اور بس اسی رف حلیے میں چلی جائے، لیکن ماما کی باتیں ذہن میں گونجنے لگیں: "تم اس گھر کی ہونے والی بہو ہو۔" اس جملے کا وزن اسے مزید بوجھل کر گیا۔
تیار ہو کر وہ آئینے میں اپنے عکس کو دیکھنے لگی، عالیہ بیگم کی آواز دوبارہ دروازے کے پیچھے سے سنائی دی، "تانیہ، بیٹا، جلدی کرو۔"
"آ رہی ہوں، ماما!" وہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولی ایک مطمئن نظر خود پر ڈالی اور پرس اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"سلمان مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے۔" اجلال آج سلمان کے آفس میں بیٹھا تھا۔
"تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟"سلمان اس کی پریشانی بھانپتے گویا ہوا۔
"پتہ نہیں تم میری بات پر یقین کرو گے یا نہیں۔"ماہا سلمان کی بہن تھی اور ایک بھائی کے سامنے اس کی بہن کی جو حرکت وہ بتانا چاہتا تھا اسے مشکل لگنے لگا۔
"تم میرے دوست ہو اور سچے دوست وہی ہوتے ہیں جو دوستوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیں۔" اجلال کے کندھے پر ہاتھ رکھے سلمان نے کہا۔
"تمھاری بہن… ماہا۔ "اس نے بات کا آغاز کیا۔
"کیا ہوا کوئی پرابلم ہے۔" سلمان پوری طرح سے متوجہ ہوا۔
“ نہیں بس مجھے اس کے ارادے کچھ درست نہیں لگ رہے۔"سلمان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"یار تمہیں کیسے سمجھاؤں وہ میرے آگے پیچھے پھرتی ہے مجھے کنفیوز کرتی ہے اور کل بغیر ناک کیے آفس روم میں آگئی۔ جس طرح کی ڈریسنگ اس کی ہے میل ایمپلائز کے ساتھ فیمیل ایمپلائز بھی اسے دیکھ کر نظریں جھکا لیتی ہیں۔" دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں باہم پھنسائے اجلال بولے گیا۔
"کیا کچھ کیا ہے ماہا نے؟" سلمان نے آہستہ آواز میں کہا۔ اس دن ماہا اجلال کی شادی کا کیوں پوچھ رہی تھی وہ اب سمجھا۔
"پتا نہیں کیا کیا بولتی ہے۔ جب میں نے اسے آفس سے فائر کرنے کا کہا تو مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے اسے آفس سے نکالا تو وہ مجھے برباد کردے گی۔"بولتے بولتے اجلال کے ہاتھوں کی نسیں ابھرئیں۔
" ایم رئیلی سوری یا میں تم سے شرمندہ ہوں۔ مجھے یہ تو پتا ہے کہ میری بہن نخریلی اور ماڈرن مزاج کی ہے لیکن وہ اس حد چلی جائے گی مجھے نہیں معلوم تھا۔" اجلال کو اس کی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
”تم ابھی جا کر اسے ٹرمینٹ لیٹر دو باقی میں گھر جا کر دیکھتا ہوں۔"وہ حد درجہ شرمندہ تھا ۔
"نہیں میں صحیح وقت کا انتظار کررہا ہوں تاکہ وہ مجھ پر کوئی الزام لگانا چاہے بھی تو سب گواہ ہوں کہ جھوٹا کون ہے۔ تم بھی ابھی اس سے کوئی بات نہیں کرو گے۔"اجلال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
" مگر۔۔۔"اس نے کچھ بولنا چاہا۔
" میں نے تمھیں اس لیے یہ بتایا ہے اگر کبھی مجھ پر کوئی الزام لگے تو تم گواہ ہو۔" سلمان کی بات کاٹتے وہ نرمی سے بولا۔ سلمان کا سر مزید جھک گیا تھا
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آج انصاری ہاؤس میں رونق لگی تھی۔مقدس بیگم کے بھائی اور بہن اپنی فیملی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔طلال کو مقدس بیگم نے فون کر کے زبردستی بلایا تھا اور اب وہ چپ چاپ بیٹھا تھا ایسے جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔
"خالہ ایک بات تو بتائیں، آپ نے طلال بھائی کو ایسا کیا کھلایا ہے جو وہ چپ بیٹھے ہیں؟"زینب سے اس کی چپ برداشت نہ ہوئی تو مقدس بیگم سے پوچھ بیٹھی۔ مجتبیٰ صاحب اور سلیم صاحب، انصاری صاحب کے ساتھ ڈرائنگ روم میں تھے۔
"ہاں خالہ بتا دیں تاکہ وہ چیز ہم زینی کو بھی کھلا دیں تاکہ اس کی زبان بھی بند ہو۔"عینا کے بولنے پر وہ منہ پھلا گئی۔
"تانیہ آپی آپ نے طلال بھائی سے لڑائی کی ہے کیا جو وہ سب کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں؟"زینب نے اب تانیہ کو بولا۔تانیہ بیچاری تو خود اس کے رویے سے پریشان تھی کیا جواب دیتی۔
"السلام علیکم۔"تانیہ کچھ بولنے والی تھی جب اجلال نے لاونج میں داخل ہوتے سلام کیا جس کا جواب سب نے مسکراتے ہوئے دیا۔
"آج تو بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر۔"اجلال فرہان سے گلے ملتے بولا جس پر وہ ہنس دیا۔
"ارے نہیں بھائی بس میں آپ سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھا اس لیے بتایا نہیں۔"فرہان کے کہنے پر اس نے سر ہلایا۔
"ہمیں سرپرائز دینا تھا یا کسی اور کو؟"اجلال نے امل کی جانب دیکھتے شرارت سے پوچھا جس پر امل جھینپ گئی اور فرہان مسکراہٹ دبائے سر جھکا گیا ۔
"ویسے اجلال بھائی یہ زیادتی ہے۔"زینب کے بولنے پر سب نے اسے دیکھا۔
" کیا؟"اس زینب کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔
"دیکھیں طلال بھائی،فرہان بھائی دونوں آپ سے چھوٹے ہیں ان دونوں کے رشتے طے ہو گئے ہیں مگر آپ ہیں کہ ہماری بھابھی لا ہی نہیں رہے ہیں۔"زینب کی بات پر عینا نے چونک کر اجلال کی جانب دیکھا۔
"ہاں بھائی ہم سے پہلے آپ کی شادی ہونی چاہیے۔خالہ آپ نے بھائی کے لیے ابھی تک کوئی لڑکی نہیں ڈھونڈی کیا؟" اب کہ فرہان نے مقدس بیگم سے پوچھا۔
"دیکھی تھی ایک لڑکی مگر آپ کے بھائی صاحب نے اس بیچاری کو اتنا ڈانٹا کہ وہ دوبارہ ہمارے گھر آئی ہی نہیں۔"مقدس بیگم کی بات پر جہاں اجلال اور طلال چونکے وہیں امل نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا۔
"بھائی آپ نے ایک لڑکی کو ڈانٹا…"زینب کا تو صدمے سے منہ کھلا جبکہ تانیہ نے طلال کو دیکھا جس کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے۔
"ویسے کون تھی وہ لڑکی؟"تانیہ نے سب جانتے ہوئے بھی سوال کیا۔
"امل کی دوست تھی اور امل ہی اسے گھر اپنے ساتھ پڑھنے کے لیے لائی تھی۔"ان کے جواب پر سب نے حیرت اجلال کی طرف دیکھا اجلال کو اسکا ذکر بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا اور ان کا ارادہ تو قطعی طور پر نہیں ۔
"ممی آپ سب جانتی ہیں میں کیوں شادی نہیں کر رہا۔"
"دیکھو بیٹا زندگی ایک شخص پر ختم نہیں ہوجاتی۔ زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے کب تک اس کی یاد دل سے لگائے بیٹھو گے۔"اجلال کو جواب صالحہ بیگم نے دیا۔
"وہ مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ ساری زندگی بھی اس کی یادوں کے سہارے گزارنی پڑی تو گزار دوں گا۔اور آپ سب کے کہنے پر اگر کسی سے شادی کر بھی لوں تو اس لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو گی کیونکہ میں اپنے دل میں کسی اور کو وہ مقام نہیں دے سکتا جو اس کا ہے۔"اجلال اپنی بات کہہ کر وہاں رکا نہیں تھا۔
سب ایک دم خاموش ہو گئے تھے اور عینا اسے اس لڑکی پر رشک آیا تھا جس سے اجلال انصاری محبت کرتا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آج اس کی منگنی کی تقریب تھی۔ پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ منگنی کی تقریب چونکہ گھر میں ہی رکھی گئی تھی اس لیے کچھ خاص لوگوں اور گھر والوں کے علاوہ کسی کو باہر سے انوائٹ نہیں کیا گیا تھا۔
ایشل اور باقی گھر والوں کو تیار کرنے کے لیے پارلر والیوں کو گھر بلایا گیا۔
ایشل پستے رنگ کی گھیرے دار ٹخنوں کو چھوتی فراک میں ملبوس ، سر پر کام دار ڈوپٹہ جو اس نے ضد کر کہ سامنے سے اچھی طرح پھیلا کر کندھوں پر پن اپ کروایا تھا، لائٹ میک اپ میں افسردے چہرے کے ساتھ بھی حسین لگ رہی تھی۔
"ایشل باہر بھائی کے خاص مہمان ہیں اس لیے ان کے سامنے کوئی تماشا مت کرنا۔"باہر سٹیج پر لانے سے پہلے اسے امّی کی بات یاد آئی۔
یہ گھر جہاں اس کے باپ کی موت کے بعد نانا اسے اور اس کی ماں کو لائے تھے۔ اسے یاد تھا کیسے اس کی ممانیاں اسے اور اس کی امّی کو تزلیل کا نشانہ بناتی تھیں۔ اپنی ماں کی عدت ختم ہوتے اس نے اپنے گھر جانے کی ضد لگائی تھی اور دوبارہ وہاں نہ آنے کو کہا تھا۔ مگر نانا کے مرنے پر وہ آخری بار آئی تھی۔
"ماشاءاللہ تم میرے لیے تیار ہوئیں اس وقت کتنی اچھی لگ رہی ہو یہ میرے دل سے پوچھو۔"سمیر کو جب اس کے ساتھ بیٹھایا گیا تو ایشل کھسک کر سائڈ پر ہوئی۔
ایشل نے کوئی جواب نہیں دیا بس بے مقصد ناخن کو کھرچنے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں بڑے بھی اسٹیج پر رِنگ سیرمنی کے لیے ان کے پاس آئے۔
"یہ لو ایشل پہناؤ سمیر کو۔"اپنی ماں کے انگھوٹی بڑھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
"امّی میں نہیں پہناؤں گی۔ پلیز آپ سمجھیں وہ میرے لیے نامحرم ہے۔" اپنی ماں کے کان میں آہستہ آواز میں بولی۔ جس پر انہوں نے خود سمیر کو رنگ پہنائی۔
"ہماری طرف سے سمیر خود اپنی فیانسی کو رنگ پہنائے گا۔"ممانی نے اتنی اونچی آواز میں کہا کہ آس پاس کے مہمانوں نے بھی سنا۔
سمیر نے جیسے ایشل کا ہاتھ پکڑا اس نے آنکھیں زور سے بند کیں۔ اس کی ماں نے اسے کسی بھی تماشے سے منع کیا تھا ورنہ وہ سمیر کو تھپڑ لگانے میں سیکنڈ بھی ضائع نہ کرتی۔
مہمان خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے جن کی آواز ایشل کو اپنے حواسوں پر بری طرح چُبھتی محسوس ہوئی۔
اپنی امّی کو تھکن کا بول کر ایشل اس کمرے میں آئی جہاں وہ کل سے رہ رہے تھے۔ اندر آتے اس نے دروازے کو اچھی طرح بند کیا پھر اپنے سر پر ٹکا بھاری ڈوپٹہ اتار کر نیچے پھینکا۔
باتھ روم میں جا کر اپنے بائیں ہاتھ کو صابن سے رگڑ کر دھوتے اس کے آنسو جاری ہوئے۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کسی طرح اپنے ہاتھ کو کھرچ ڈالے۔
ہاتھ کی جلد مسلسل ناخنوں سے رگڑنے کی وجہ سے لال ہو گئی تھی۔ آخر تھک کر ایشل باہر آئی اور بیڈ کی پائنتی کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھے ہچکیوں سے رونے لگی۔
اپنے ہاتھ پر سمیر کی انگلیوں کا لمس اسے ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا۔ ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں ہاتھ زمین پر مارنے سے ٹوٹ کر اس کی کلائیوں میں زخم کر گئیں، مگر ادھر پروا کسے تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
بظاہر سب ٹھیک ہو کہ بھی کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ طلال اپنا کھانا پینا چونکہ اپنے روم میں کرتا تھا اور صبح جاتا ،آدھی رات کو لوٹتا۔اس لیے کوئی جان نہ سکا وہ دو دن سے گھر نہیں لوٹا۔اس دن بھی مقدس بیگم کے کہنے پر گھر آیا تھا پر رات گھر نہیں رکا تھا۔
تانیہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہو چکی تھی مگر اب بھی طلال سے رابطہ کرنے کی کوشش میں اسے ہمیشہ مایوسی ہی ملتی تھی۔
امل جن چند لڑکیوں سے بات کرتی تھی اب وہ بھی نہیں کررہی تھی۔
ایشل دو چھٹیوں کے بعد آج یونی آئی۔ اپنے ہاتھوں میں بھر بھر کہ لگی گہرے رنگ کی مہندی اور رِنگ' جسے اس نے انگلی سے نکالنا چاہا مگر وہ انگلی میں تنگ ہونے کی وجہ سے نہیں نکال سکی' چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
کلاس میں بھی ہاتھوں کو گود میں رکھ کر بیٹھی تھی جب ایک لڑکی اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔
"کانگریٹس ایشل، یار تم نے اور سمیر نے چھپ چھپا کر انگیجمینٹ کرلی اور کسی کو تو کیا اپنی دوست امل کو بھی نہیں بلایا۔"اس لڑکی کی آواز پر ساری کلاس ایشل کی طرف متوجہ ہوئی۔
"اگر ہمیں سمیر تصویریں نہ دکھاتا تو تم دونوں نے شادی کا بھی پتا نہیں لگنے دینا تھا۔"دوسری کلاس فیلو کے بولنے پر سب نے اس کی تائید میں ہاں میں ہاں ملائی۔
"ارے تم لوگ کیوں میری فیانسی کو تنگ کررہے ہو۔ میں نے بتا دیا ایشل نے بتا دیا ایک ہی بات ہوئی۔ کیوں ایشل؟" سمیر نے جتاتے ہوئے کہا۔
امل جو آگے والی کرسی پر موجود تھی گردن موڑے خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔ ایشل کی خاموشی اسے کھل رہی تھی،آخر وہ کیوں نہیں کہہ رہی یہ جھوٹ ہے جو سمیر اور سب کلاس فیلو بول رہے ہیں۔
"ہمیں بھی اپنی انگیجمینٹ کی پکس دیکھاؤ سمیر۔" ایک لڑکے کے کہنے پر سمیر نے موبائل نکالا اور کچھ منٹ بعد بولا۔
"ساری پکس میں نے گروپ میں بھیج دیں ہیں۔ ناؤ یو سی اینڈ انجوائے۔" ایشل کو بے اختیار اپنی آنکھوں میں جلن محسوس ہوئی۔ وہ کم از کم یہاں ساری کلاس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی تبھی خاموشی سے کلاس سے نکل کر واشرومز کی طرف چلی گئی۔
"شرما رہی ہے اسی لیے چلی گئی۔" سمیر کے قہقہے پر ساری کلاس ہنسی۔ صرف امل جانتی تھی ایشل کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی ہے۔
مگر وہ اسے نہ حوصلہ دے سکتی تھی اور نہ ہی اب اس کے آنسو پونچھنے کا حق رکھتی تھی۔
"کیا ہو جاتا اگر وہ اپنے بھائی کے کہنے پر ایشل سے دوستی نہ توڑتی؟" امل نے گہری سانس لیتے سوچا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
اجلال نے اپنے پی۔اے اور سیکٹری کو سختی سے کہا تھا کہ ماہا کو اس کے روم میں نہ آنے دیا جائے۔
انصاری صاحب اور اجلال اس وقت میٹنگ روم سے باہر آئے جب انہیں کسی لڑکی کے چیخنے چلانے کی آواز آئی۔
"پاپا رکیں میں جا کر دیکھتا ہوں۔" اجلال نے آواز پہچانتے انصاری صاحب کو ان کے آفس روم میں جانے کا کہا اور خود اس سمت آیا جہاں سے آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
"تم لوگ ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے۔ تم جیسے لوگوں کو یوں چٹکیوں میں اس جاب سے نکلوا سکتی ہوں۔" انگلیوں سے چٹکیاں بجاتے وہ غصے سے چینخ رہی تھی۔
"ہمیں سر نے منع کیا ہے آپ کو اس سائیڈ پر نہیں آنے دینا۔" سیکٹری کے بولنے پر اس نے آئی برو اٹھائی۔
"تمھارے باس میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ ماہا شیرازی کو کہیں آنے جانے سے روک سکے۔" اس طرف آتے اجلال کے کانوں میں ماہا کے الفاظ پہنچے۔
"آپ دونوں جائیں ان کو میں خود ہینڈل کرتا ہوں۔" اجلال دونوں کو بھیج کر ماہا کی طرف مڑا۔
"تم اپنی ان چیپ حرکتوں سے باز نہیں آؤ گی؟" وہ الفاظ چبا چبا کر بولا۔
"ماہا شیرازی پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگا سکا پھر تم کیا چیز ہو۔" ماہا قدم اٹھاتی اس سے ایک انچ کے فاصلے پر رکی تو اجلال دو قدم پیچھے ہوا۔
"مس ماہا تم مجھے مجبور مت کرو ورنہ میں ابھی تمھارا ٹرمینیشن لیٹر تمھیں دے کر تمھیں یہاں سے نکال دوں گا۔" انگلی اٹھا کر ماہا کو وارن کرتے وہ پلٹا۔
"شوق سے فائر کرو۔ اس کے بعد جو سزا تم بھگتو گے اس کے لیے بھی تیار رہنا۔ مائی ڈئیر۔"وہ ہاتھ ہلا کر بولتی وہاں سے جا چکی تھی۔اجلال کو وہ لڑکی بالکل پاگل لگی تھی جسے دوسروں کی کیا خود کی عزت کی پرواہ بھی نہیں تھی ۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
امل اپنے بستر پر بیٹھی موبائل ہاتھ میں تھامے اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ آیا وہ ایشل کو فون کرے یا نہیں۔
آج ایشل کو سمیر کے سامنے بے بس دیکھ کر اسے دکھ ہوا تھا۔ اور جس طرح سمیر اسے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کی غلاظت امل سے چھپی نہیں تھی۔
اپنی سوچوں سے لڑتے آخرکار اس نے فون پر ایشل کے نام کر کلک کیا۔ اس سے پہلے وہ کال بٹن دباتی اجلال دروازہ ناک کرتے اندر آیا۔ امل کے جسم میں سنسناہٹ ہوئی۔
"کیا ہوا تمھارے چہرے کی ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں؟" امل کے چہرے کے بدلتے رنگ اجلال سے چھپے نہیں۔
"کک…کچھ نہیں بھائی بس سر میں کچھ درد تھا۔ آپ بتائیں آفس سے آج جلدی آگئے؟"امل نے اپنے لہجے کو نارمل کرتے اجلال سے پوچھا۔
"زیادہ درد ہے تو ہم ڈاکٹر کے چلتے ہیں۔" امل کے موبائل آف کرنے سے پہلے وہ کانٹیکٹ میں کھولے ایشل کا نام پڑھ چکا تھا۔
"نہیں بس آخری سمیسٹر ہے اس وجہ سے پڑھائی کا برڈن زیادہ ہو گیا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے۔" اجلال کی اپنے موبائل پر نظر دیکھ کر جلدی سے بولی۔
"ہمم۔۔۔۔ طلال کی کوئی خبر ہے۔ مطلب پڑھائی میں دلچسپی ہے یا نہیں؟ گھر میں وہ سارا دن دکھتا نہیں ہے۔" اجلال کے سوال پر امل چونکی۔
"طلال دو تین دن سے یونیورسٹی نہیں آرہا۔ بلکہ اب تو وہ گھر بھی نہیں ہوتا۔" امل کے بتانے پر اجلال کو تشویش ہوئی۔
"کیا ممی پاپا کو پتا ہے طلال نا گھر ہے نا یونیورسٹی جارہا ہے؟" امل نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔
" یا اللہ۔۔۔۔ رکو میں اس کے روم میں دیکھتا ہوں شاید وہ گھر ہو۔" امل کے استفسار پر پریشان لہجے میں بولا۔
"بھائی طلال گھر نہیں ہے۔ میں ابھی اس کے روم سے آئی ہوں۔" امل ایشل کو فون ملانے سے پہلے طلال کو ایشل اور سمیر کی انگیجمینٹ کا بتانے گئی تھی مگر کمرہ خالی دیکھ کر لوٹ آئی۔
اجلال اب طلال کا نمبر ٹرائی کررہا تھا جو مسلسل بند جارہا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ایشل بیٹا صحیح سے کھانا کھاؤ۔" ایشل کے پلیٹ میں بے وجہ چمچ ہلانے پر اسکی امی بولیں۔
"بس کھا لیا۔"وہ پلیٹ اٹھا کر کچن میں جانے لگی۔
"میں دیکھ رہی ہوں تم دو نوالے کھا کر کھانا چھوڑ دیتی ہو۔" امّی کے بولنے پر ایک افسردہ مسکراہٹ اس لبوں پر آئی۔
"آپ پریشان نہیں ہوں۔ بس زیادہ بھوک نہیں لگتی۔" کہہ کر ایشل کچن میں برتن رکھنے چلی گئی۔
برتن دھو کر نماز ادا کرنے کے بعد جب وہ اپنے بستر پر لیٹی تو اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جمائیں، جہاں زبردستی ہاتھ کو کھرچ کر مہندی اترنے کی کوشش کی وجہ سے خراشیں پڑیں تھیں۔آج پھر اسے اذیت سے نیند نہیں آنی تھی آج پھر دل کا بوجھ ویسے کا ویسا، آج پھر اسکا کوئی ہمدرد نہیں تھا۔ جسے سے وہ اپنا غم بانٹتی یا کوئی اسکے آنسو صاف کرتا آج پھر وہ تنہا تھی ہمیشہ کی طرح آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ۔ اور یہی ہوا تھا ساری رات اس کی آنسوں میں گزری جانے قسمت کیا کھیل کھیل رہی تھی اس کے ساتھ ۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕

جاری ہے۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?