Rah e taqdeer by Al...
 
Share:
Notifications
Clear all

Rah e taqdeer by Aleena Khan episode 04

1 Posts
1 Users
0 Reactions
205 Views
(@aleena-khan-officiall)
Eminent Member Customer
Joined: 11 months ago
Posts: 9
Topic starter  

ناول: راہِ تقدیر

از قلم: علینہ خان

 

قسط نمبر 04۔

 

 

 

                  شام کا منظر سحر انگیز اور پرسکون تھا۔ سورج افق کی طرف ڈھل رہا تھا، جس کی سنہری روشنی لان پر نرم اور مدھم سا سایہ ڈال رہی تھی۔ آسمان میں ہلکے سنہری اور نارنجی رنگ بکھر رہے تھے اور ہوا میں سردی کی ہلکی سی لہر محسوس ہو رہی تھی۔

ایک بچہ سائیکل کو لان میں تیزی سے بھاگا رہا تھا۔

"تم مجھے نہیں پکڑ سکتیں۔" وہ بچہ سائیکل کو اور تیز کرتا اپنے پیچھے بھاگتی بچی سے بولا۔

"میں تمھیں پکڑ لوں گی۔" بھاگنے کی وجہ سے بچی کی سانس پھول رہی تھی۔

"آؤ پکڑو پھر ،تم کتنا ہلکا بھاگتی ہو۔" اس بچے نے سائیکل لان کے آخری کونے میں روکی تو بچی اور تیز بھاگتی اس کی جانب بڑھی ہی تھی کہ اس کا پاؤں مڑا اور وہ منہ کے بل زمین پر گری۔وہاں پڑے پتھر کی نوک اس کے  ماتھے پر لگی اور  ایک خون کی دھار اس کے ماتھے سے بہتی چہرے پر پھیل گئی۔

"عشاء …" وہ ایک دم نیند سے جاگا۔ سائیڈ لیمپ جلاتے اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔

"یہ سب کیا تھا، اسے یہ خواب کیوں آیا تھا جب وہ اس کے پاس ہی نہیں تھی اس سے بہت دور جاچکی تھی؟"

  ⁕⁕⁕⁕⁕⁕       

اجلال طلال کے کمرے کے دروازے پر ہلکے سے دستک دیتے اندر داخل ہوا۔ صوفے پر لیٹے موبائل استعمال کرتے طلال نے چونک کر کمرے میں آنے والے کو دیکھا پھر موبائل ٹیبل پر رکھ کر وہاں سے نکلنے لگا۔

"کب تک تم مجھ سے بات نہیں کرو گے؟" اسے جاتا دیکھ اجلال نرم لہجے میں گویا ہوا۔

"کیوں آج پھر کوئی نیا الزام عائد کرنا ہے آپ نے؟" نا چاہتے ہوئے بھی طلال کے لہجے میں تلخی آئی۔

"میں اس دن کے لیے تم سے معزرت کرنے آیا ہوں۔" اب وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔

"آپ کے معزرت کرنے سے آپ اپنے بولے گئے الفاظ واپس نہیں لے سکتے۔" بازو سینے پر باندھے طلال اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔

"طلال تم میرے چھوٹے بھائی ہو اور مجھے بہت عزیز ہو۔ اس دن میں نے جو بولا وہ سب اس لڑکی کی وجہ سے غصے میں بول گیا۔" اجلال اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے بولا۔

"بھائی زبان سے الفاظ ایسے ہی نکلتے ہیں جیسے تیر کمان سے اور دونوں ہی ایک بار نکل جائیں تو سامنے والے کو زخمی کر دیتے ہیں یا مار دیتے ہیں۔" انتہائی نرمی سے طلال نے اپنے بازو سے اجلال کا ہاتھ ہٹایا۔

"طلال میں جانتا ہوں میرے لفظوں سے تمھیں تکلیف پہنچی ہے مگر ایک بار تم مجھے معاف نہیں کرسکتے؟" طلال جو باہر جانے لگا تھا دوبارہ اجلال کی طرف مڑا۔

"میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کو تیار ہوں پلیز یار بھول جاؤ اس دن کو، ایسے جیسے اس دن کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔" اجلال نے باقاعدہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ طلال نے تڑپ کر اپنے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے اجلال کو دیکھا اور ایک قدم آگے آتے اجلال کے گلے لگتے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگے تھے۔ایک اپنے بھائی کو خود سے ناراض کر کے پچھتا رہا تھا اور دوسرا اپنے بڑے بھائی کو اپنے سامنے جھکتے دیکھ کر تکلیف میں تھا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ایشل گھر کی صفائی سے فارغ ہو کر کچن میں کھانا بنانے آئی جب گلی کے دروازے پر دستک ہوئی۔

"ایشل بیٹا دیکھنا کون ہے، کب سے دروازہ بج رہا ہے۔" امّی کی آواز پر دوپٹہ سر پہ ٹکاتے دروازے کی جانب بڑھی جو اب بھی زوروں سے بج رہا تھا۔

"کون ہے؟" آج کل کے جو حالات تھے ایسے میں بغیر پوچھے دروازہ کھولنا بےوقوفی تھی۔

" ارے کھولو دروازہ کب سے ہم باہر کھڑے ہیں۔" اپنی ممانی کی آواز سنتے اس نے چاروناچار دروازہ کھولا۔

"السلام علیکم۔" ایشل نے انہیں سلام کیا مگر وہ لوگ بغیر جواب دیے اندر آگئے۔

" تم دونوں ماں بیٹی آخر کر کیا رہی تھیں جو دروازے کو کھولنے میں صدیوں لگ گئے۔" ممانی امّی کے کمرے میں جاتے اونچی آواز میں بولیں۔

" ہم فارغ نہیں ہوتے گھر میں جو آپ کے لیے فوراً دروازے پر پہنچ جائیں۔" ایشل نے طنز سے کہا۔

"ہائے اللّٰہ کیا زمانہ آگیا ہے اب یہ لڑکی ہم سے زبان چلائے گی۔"کانوں کو ہاتھ لگاتے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

" بھابھی آپ بیٹھیں اور بتائیں ٹھنڈا پیئیں گی یا چائے لاؤں۔" امّی ایشل کو چپ رہنے کا اشارہ کرتیں اپنی بھابیوں کی طرف متوجہ ہوئیں۔

"ٹھنڈے کے نام پر پانی نہ پلادینا۔"

"نہیں نہیں بھابھی شربت بنواتی ہوں."  انھیں تسلی دیتے ایشل کو آواز دی۔"ایشل بیٹا ٹھنڈا شربت بنا لاؤ۔"

"خیریت سے آنا ہوا بھابھی۔" پھر انکی طرف متوجہ ہوئیں۔

"ہاں  ہاں۔" انھوں نے تسلی بخش جواب دیا.

دراصل ہم آج تم سے کچھ مانگنے آئے ہیں۔ تمھارے بھائی بھی آتے مگر وہ لوگ کام کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں، آخر کو بزنس بھی سنبھالنا ہے۔" صائمہ ممانی کے بولنے پر جہاں امّی کو عجیب لگا وہیں ایشل یہ سوچنے لگی آخر ان سے کیا لینے آئی ہیں۔

"ایشل بیٹا کچھ کھانے پینے کا انتظام کرو۔" وہ شربت لے آئی تو امّی نے اسے وہاں سے بھیجتے ہوئے کہا۔

"زہر نہ کھلا دوں ان دونوں۔"انہیں کولڈرنک دینے کے بعد ایشل فریزیر سے گوشت نکال کر بڑبڑاتے ہوئے کھانے کا انتظام کرنے لگی۔

"بھابھی ایسی کیا چیز آپ مجھ سے مانگنے آئی ہیں؟" کہیں اندر وہ دعا کر رہی تھیں جو وہ سوچ رہی ہیں وہ نہ ہو۔

"دیکھو بہن تمھارے پاس دینے کو صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے تمھاری بیٹی۔"صائمہ ممانی کے کہنے پر آمنہ ممانی کھسیانی ہنسیں۔

"تمھارے بھائی کی خواہش ہے کہ وہ اپنی اکلوتی بہن کی بیٹی کو اپنے سمیر کی دلہن بنانا چاہتے ہیں اور سمیر کی بھی یہی خواہش ہے۔" صائمہ ممانی نے ان کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ کسی کام سے کمرے میں داخل ہوتی ایشل خود کو 'چیز' کہنے پر تپی تھی اور سونے پہ سہاگا وہ اپنے آوارہ لڑکے کا رشتہ مانگ رہی تھیں۔

"صائمہ ممانی میں کوئی چیز نہیں ہوں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں اور اپنے آوارہ اور لوفر بیٹے کے لیے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرنے کے بجائے اس جیسی لڑکی ہی ڈھونڈیں۔" امّی کے بولنے سے پہلے ہی ایشل اپنی ممانی سے تلخ لہجے میں بولی۔

"دیکھ رہی ہو اپنی بیٹی کی زبان۔ ہمارا سمیر تو برداشت کر لے گا مگر اس کی شادی کسی اور سے ہوئی تو دوسرے دن تمھاری دہلیز پر طلاق لے کر آئے گی۔" آمنہ ممانی کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا۔

"آپ اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ کیوں نہیں کر دیتیں سمیر کے ساتھ آخر کو آپ ہم سے بہتر اسے جانتی ہیں۔" ایشل اب آمنہ ممانی پر گرجی۔

"میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے اس کے لیے شہزادہ آئے گا۔"ان کی مصنوعی میک اپ کر کے خوبصورت دیکھنے والی بیٹی کے لیے شہزادے کا لفظ سن کر ایشل طنزیہ ہنسی۔ امّی اب تک کچھ نہیں بولیں تھیں۔

"صاف کہیں چھوٹے ماموں اور آپ کے بیٹے نے سمیر جیسے لفنگے شخص کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔۔ ویسے بہت افسوس کی بات ہے۔ میں سوچتی ہوں جب لوگ اپنی اولاد کے لیے برے فیصلے نہیں کرسکتے تو دوسروں کی اولاد کا برا کیوں سوچتے ہیں۔"آمنہ ممانی نے ایشل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

"اگر تمھارے ماموں اور سمیر کی تم پسند نہ ہوتیں تو اس وقت میں تم پر تھوکتی بھی نا۔"صائمہ ممانی نے اپنے بیگ سے  کچھ نکالتے سامنے ٹیبل پر پٹخا۔

"اگر آپ مجھ سے بڑی نہ ہوتیں یا میری ممانی نہ ہوتیں تو میں دھکے دے کر آپ کو اپنے گھر سے نکال دیتی اور پورے محلے میں آپ کے بیٹے کی حرکتیں بتاتی۔" اب کہ ایشل چیخ کے بولی ایشل کی امی سے اسکی بدتمیزی برداشت سے باہر تھی ۔

"چٹاخ۔۔۔۔۔" ایشل گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔

" میں نے تمھاری تربیت ایسی کی تھی کہ تم بڑوں سے بدتمیزی کرو۔ بھابھی اس کی طرف سے میں آپ دونوں سے معافی مانگتی ہوں اور آپ بھائی جان کو بول دیجیے گا مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔" ایشل نے بے بسی اور لاچارگی سے اپنی ماں کا فیصلہ سنا۔

"یہ انگوٹھی تم اپنی بیٹی کو پہنا دینا باقی کی تقریب ہم مہینے تک کریں گے۔ میرے بیٹے کی منگنی اب سادگی سے تو ہوگی نہیں۔" صائمہ ممانی کے چہرے پر جیت کی خوشی تھی۔ آمنہ ممانی تو جیسے ہاں کے انتظار میں تھیں فوراً گاڑی میں رکھی میٹھائی لے آئیں۔

"منہ میٹھا کرو اب تم ہمارے گھر کی بہو بننے والی ہو۔" ڈبے سے میٹھائی نکال کر ایشل کے منہ میں زبردستی ڈالتے بولیں۔ ایشل کو اس وقت میٹھائی سے زیادہ کڑوی چیز کوئی نہیں لگی تھی۔

"آپ لوگ بیٹھیں کھانے کھا کر جائیے گا۔" ایشل کو سخت نظروں سے دیکھتے وہ خود کچن میں چلی گئیں۔ ایشل کو اپنا وہاں کھڑا ہونا بے معنی لگا تھا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

جہاز کے لینڈ ہونے کے بعد، جہاز کا دروازہ کھلتے ہی اس نے باہر قدم رکھے۔ آسمان میں ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے ، ان  سے جھانکتے اور اپنی ہلکی سی جھلک دھکلاتے سورج کی روشنی زمین پر پڑ رہی تھی۔ وہ آرام سے چلتا ہوا آگے کی طرف بڑھتا۔

ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوتے اس نے اپنے آس پاس دیکھا جہاں اس کے اردگرد لوگ مختلف قومیتوں کے، سامان کے ساتھ، کچھ لوگ پاسپورٹ کنٹرول کی طرف بڑھ رہے تھے، جبکہ دوسرے سامان وصول کرنے کے ایریا کی طرف جا رہے تھے۔

اپنا سامان لیتے وہ ائیرپورٹ کے اندرونی حصے میں داخل ہوا جہاں فیملیز اپنے پیاروں کے استقبال کے لیے کھڑیں تھیں۔وہ قدم اٹھاتا اپنے سامان کی ٹرالی گھسیٹتے بلڈنگ کے خارجی دروازے کی جانب بڑھا جہاں سے اسے ٹیکسی لے کر گھر جانا تھا۔بلڈنگ سے باہر نکلتے اس نے گہری سانس لی۔اپنے وطن کی خوشبو کو محسوس کرتے وہ ہلکا سا مسکرایا اور ایک ٹیکسی کو روک کر اپنی منزل بتائی۔

ٹیکسی میں سوار ہوتے اس نے شیشے سے نظر آتے مناظر کو دیکھتے آنکھیں موندیں۔کتنے سالوں بعد وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن لوٹا تھا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ہمیشہ کی طرح اتوار کا دن پر لگا کر اُڑا اور سوموار کی سنہری صبح طلوع ہوئی۔آج سے ان کی یونیورسٹی میں نئے اور آخری سمیسٹر کا آغاز ہونا تھا۔

ایشل کلاس میں داخل ہوئی تو سب اسٹوڈنٹس کو نظر انداز کرتی دیوار کے ساتھ کونے والی چئیر پر جا بیٹھی۔ تبھی اس کی نظر لڑکوں کی لائن میں بیٹھے طلال پر گئی پھر اس نے نظریں گھما کر امل کو تلاشنا چاہا جو اسے نظر نہیں آئی۔

"ہیلو۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟"اپنی ایک کلاس فیلو کی آواز پر اس نے ہاں میں سر ہلاتے دوسری چئیر پہ رکھا اپنا بیگ اٹھایا۔

"آج آپ کی دوست کیوں نہیں آئی؟"ایشل کے ساتھ بیٹھتے اس لڑکی نے پوچھا۔

"پتا نہیں۔"اس نے سرسری سا جواب دیا۔

"اس کا بھائی تو آگیا ہے۔آپ دونوں نے اپنی دوستی کے پہلے دن سے اب تک کسی تیسرے کو اپنی دوستی میں شامل نہیں کیا۔ آپ دونوں کی دوستی کافی گہری ہے ماشاءاللہ۔" اور یہاں ایشل کا دل کیا وہ رو دے اور ساتھ اس شخص پر غصہ آیا جس کی وجہ سے یہ دوستی ختم ہوئی تھی۔ان کی دوستی میں داخل ہونے والا تیسرا شخص کون تھا اگر ایشل کو معلوم ہوتا تو اسے اس شخص سے پہلے سے زیادہ نفرت ہوجاتی۔

"مجھے آپ کا نام نہیں معلوم؟" اس لڑکی کے سوال پر ایشل نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"ایشل۔۔۔" اپنا نام بتاتے وہ بلاوجہ اپنے بیگ کو چھیڑنے لگی۔

"میں ارم۔۔،ارے وہ آپ کی دوست بھی آگئی۔ چلیں میں کہیں اور جگہ دیکھتی ہوں کہیں اس کو برا نہ لگے۔" ارم نے امل کو اسی طرف آتے دیکھا تو اپنا بیگ لیے پہلی رو میں موجود خالی کرسی پہ جابیٹھی۔

امل کو اپنی طرف آتے دیکھ ایشل دل میں خوش ہوئی تھی کہ شائد اس دن غصے میں امل نے اسے دوستی ختم کرنے کا کہا ہو مگر اس کی خوشی اس پل مایوسی میں بدلی جب امل پانچویں رو میں جا کر بیٹھی اور ان لڑکیوں سے باتیں کرنے لگی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

آج آفس میں غیر معمولی حرکات و سکنات محسوس کرتے اجلال اپنے آفس روم میں جانے سے پہلے اپنے پی۔اے کی جانب آیا۔

"السلام علیکم ، گڈ مارننگ سر۔"

"وعلیکم السلام، میرے آنے سے پہلے آفس میں کیا ہو رہا تھا مجھے ساری تفصیل چاہیے ابھی۔ ناؤ کم ان ٹو مائے روم۔" آج امل کو یونی چھوڑنے کی وجہ سے وہ آفس دیر سے آیا تھا۔ طلال تو صبح نکلتا اور رات دیر سے گھر لوٹتا تھا۔

"سر آفس ورکرز نے آج آپ کے لیے لنچ پارٹی ارینچ کی ہے۔" پی۔اے کے بتانے پر اجلال نے اپنے ٹیبل کیلنڈر پر تاریخ دیکھی۔ 15 دسمبر، اس کی سالگرہ کا دن۔

"اوکے آپ سب سے کہیں جو ورک ان کو دیا ہے اسے مکمل کریں۔ اور اس لنچ پر جو خرچ آیا ہے آپ مجھے سب سے پوچھ کر بتائیں۔"پی۔اے کے جانے کے بعد اس نے اپنا موبائل نکالا جہاں اسے رات سے اب تک کئی برتھڈے وشئز موصول ہوئی تھیں۔

" یا اللہ آج میری زندگی کا ایک برس اور کم ہوگیا۔ میں بس تجھ سے یہ چاہتا ہوں وہ جہاں بھی ہے اسے اپنی حفاظت میں رکھنا۔ ہمارا ملنا اگر اِس دنیا میں نہیں لکھا تو ہمیں اُس دنیا میں ایک کر دینا جہاں کبھی جدائی نہیں ہے۔" اپنے موبائل میں ایک تصویر کھولتے وہ اللہ سے مخاطب ہوا۔ وہ اسے کبھی بھولی ہی نہیں تھی ہمیشہ اس کی دعائیں اس ایک نام سے شروع ہوتی تھیں اور اسی کے نام پر ختم ہوتی تھیں اور اب بھی وہ اسی کو سوچ رہا تھا۔

انٹرکام کی ٹون پر موبائل رکھتے اجلال پی۔اے سے ساری تفصیلات معلوم کرنے لگا۔

"آج سب کے بونس ان کے اکاؤنٹ میں بھیج دیجیئے گا۔" اس خاص دن پر اپنے ایمپلائز کو بونس دے کر اسے خوشی ہوتی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

آج کی کلاسیز لے کر ایشل گراؤنڈ میں بنے بینچ پر آبیٹھی۔ دوستوں کے بغیر زندگی ویران ہوتی ہے۔ یہی حال ایشل کا تھا۔ وہ ابھی انہی سوچوں میں تھی جب کوئی اس کے پاس آکر رکا۔

"تمھارے اور امل کے درمیان کیا ہوا ہے؟"ایشل نے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے طلال کو دیکھا۔

"کچھ نہیں ہوا۔"جواب دے کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

"تم دونوں اکٹھے نہیں بیٹھتیں۔امل دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہے اور تم یہاں اکیلے بیٹھی ہو۔ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔"طلال اس بینچ کے دوسرے کونے پر بیٹھا۔

"ہماری دوستی کی مدت شاید یہی تک تھی اور اب پلیز تم بھی مجھ سے بات مت کیا کرو۔" جو بھی تھا طلال سے وہ اسی لیے بات کر لیتی تھی کہ وہ اس کی دوست کا بھائی تھا اور اب دوستی نہیں رہی تھی پھر طلال سے بغیر وجہ بات کرنا اسے اچھا نہیں لگا۔

"جاؤ تم بھی امل کی طرح نئی دوستیں بناؤ اور اسے بتاؤ کہ اگر اس نے کسی کہ کہنے پر اتنی پرانی دوستی کو چند لمحوں میں توڑا ہے تو تمھیں بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔"دوسری لڑکیوں کے ساتھ باتیں کرتی امل کی طرف اشارہ کرتے طلال بولا۔

"مجھے فرق پڑتا ہے طلال کیونکہ وہ میری واحد دوست تھی جس سے میں اپنی ہر بات بلاجھجک بول دیتی تھی۔ اگر وہ آگے بڑھ گئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں بھی آگے بڑھ جاؤں۔" جانے کیوں وہ آج پھر طلال کے سامنے سب بغیر رکے بول گئی تھی۔

"وہی تو میں کہہ رہا ہوں اسے سوچنا چاہیے تھا اس بارے میں۔ آخر تم اتنی نرم دل کیوں ہو؟" امل اب ان لڑکیوں کے ساتھ کسی بات پر ہنس رہی تھی۔

"امل کو سوچنا چاہیے تھا کہ کسی تیسرے کو۔۔۔" اچانک بات کرتے وہ رکی طلال کو حیرانگی سے دیکھا۔

"تم نے کہا کسی کہ کہنے پر اس نے دوستی ختم کی تو تم یہ بھی جانتے ہو گے ہماری دوستی میں دراڑ ڈالنے والا کون ہے؟"طلال نے اسے کچھ دیر پہلے ہی تو کہا تھا امل نے کسی کے کہنے پر یہ سب کیا۔

"میں تمھیں اس شخص کا نام بتاؤں گا مگر تم امل سے بھی دوستی ختم کرنے کی وجہ پوچھو گی اور اسے یا کسی کو بھی یہ نہیں بتاؤ گی کہ تمھیں میں نے بتایا ہے۔" طلال کی آواز اتنی ہی تھی کہ ایشل باآسانی سن سکے۔ اس نے ایشل سے وعدہ لیتے کہا۔

"تمھاری دوستی میں آنے والا تیسرا شخص اجلال انصاری ہے۔" اس نے جیسے ایشل کے سر پر بم گرا دیا تھا۔ “ اس دن تمھارے جانے کے بعد گھر میں ماحول کافی کشیدہ رہا تھا پھر بھائی نے امل کو دھمکی دے کر تم سے دوستی ختم کرنے کو بولا تھا۔"اسے ساری بات بتاتے اسکی اور اجلال ہوئی تلخ کلامی کو چھپا گیا ۔

ایشل حیرت کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔" کیا وہ شخص مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ مجھ سے میری دوست ہی چھین لی۔" اسکا دل چیخ رہا تھا لیکن لب سے الفاظ ادا نا ہو پائے۔

"اب کل تم مجھے اکیلی بیٹھی نظر نہ آؤ۔"سامنے دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اٹھ کر جلدی سے دوسری جانب نکل گیا جبکہ امل سامنے اب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کھڑی بات کر رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ٹیکسی ایک گھر کے باہر روکواتے اس نے اپنا سامان نکالا اور چند نوٹ جو وہ راستے میں بینک سے ایکسچینج کروائے تھے ٹیکسی ڈرائیور کو دیے اور گھر کی بیل بجائی۔

کچھ سیکنڈ بعد چوکیدار کے دروازہ کھولنے پر وہ اندر داخل ہوتے چوکیدار کو سلام کیا جس کا جواب اس نے خوشی سے دیا۔اس کا حال احوال پوچھنے کے بعد وہ گھر کے داخلی دروازے سے بنا چاپ کیے اندر داخل ہوا۔

"ماما آپ زینی کو سمجھائیں اس نے سارے کچن میں گند مچایا ہوا ہے۔"عینا کچن سے باہر آتی اونچی آواز میں بولی۔

"آپی آپ کو پتہ ہے میں کیک بیک کر رہی ہوں۔"زینب اس کے پیچھے کچن سے باہر آئی۔اس کے چہرے پر ہلکا ہلکا میدہ لگا تھا۔

"ایک کیک بیک کررہی ہو اور کچن کا حال ایسے ہے جیسے پورے شہر کے لیے کیک بیک کیے ہوں۔"عینا اب کے غصے سے بولی۔وہ جو لاونج کے دروازے کے پاس کھڑا ان کی لڑائی انجوائے کر رہا تھا زینب پر نظر پڑتے اس کی ہنسی نکلی۔

"بھائی…"اس کی ہنسی کی آواز پر ان دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور ایک دم زور سے چیخیں۔

"اللہ لڑکیوں آہستہ، میرے کان پھاڑنے ہیں کیا۔"وہ آگے بڑھتے انہیں اپنے ساتھ لگاتے بولا۔

"کیوں چیخ رہی ہو…"صالحہ بیگم ان کی چیخ پر کمرے سے باہر آئیں مگر سامنے اپنے بیٹے کو دیکھتے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔

"فرہان میرا بیٹا۔"وہ صالحہ بیگم کے گلے لگا۔

"ماما اگر آپ اس طرح روئیں گی تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔"ان سے دور ہوتے فرہان خفگی سے بولا۔

"میں بابا کو کال کرتی ہوں فرہان تم تب تک فریش ہو کے آجاؤ۔"عینا نم آواز سے کہتے مجتبیٰ صاحب کو کال ملانے لگی۔

"آپی بابا کو میں نے راستے میں کال کر کے بتا دیا تھا وہ آتے ہی ہوں گے۔"اس نے عینا کو منع کیا۔

"بابا نے ہمیں بتایا کیوں نہیں پھر؟"زینی منہ پھولاتے بولی۔

"میری جان میں نے بابا کو بتانے سے منع کیا تھا کیونکہ میں اپنی گڑیا کا شاکنگ فیس دیکھنا چاہتا تھا۔"زینب کو روٹھتے دیکھ فرہان نے پیار سے اس کا گال کھینچا۔

"شیف زینی اگر آپ کو یاد ہو تو آپ کچن میں کیک بیک کرنے رکھ کر آئی ہوئی ہیں۔" عینا کے یاد دلاتے وہ فوراً کچن میں بھاگی کہ کہیں کیک جل نہ گیا ہو۔

"تم جا کر منہ ہاتھ دھو آؤ تب تک میں کھانا لگاتی ہوں تمھارے بابا بھی آجائیں گے۔"صالحہ بیگم کے کہنے پر وہ سر کو خم کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"اور بھائی تجھے نہیں لگتا اب شادی کر لینی چاہیے؟" وہ دونوں اس وقت پی۔سی میں موجود تھے۔سلمان نے اجلال کو برتھے ڈنر دیا تھا۔

"میں نے کب منع کیا ہے تم بھابھی سے اجازت لے کر کرلو دوسری شادی۔"کانٹے سے پیس توڑتے اجلال کندھے اچکاتے بولا۔

"استغفراللہ کیوں مجھے قتل کروانے پر لگا ہے۔"سلمان نے جھرجھری لی۔

"پھر پوچھا کیوں تھا۔"

"میں نے تم سے تمھاری شادی کا پوچھا ہے اپنی کا نہیں۔"سلمان نے خفگی سے کہا۔

"اگر وہ مل گئی تو کرلوں گا شادی نہ ملی پھر ساری زندگی ایسے ہی گزاروں گا۔"اس کے لہجے میں بےشک سکون تھا مگر دل میں بے چینی ہوئی۔

"اتنے سالوں سے تم اس کا انتظار کر رہے ہو جو پتہ نہیں یہاں ہے بھی کہ۔۔۔۔"سلمان کی نگاہ اجلال کے چہرہ پر گئی تو الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔

"میں اللہ تعالیٰ سے ہر دعا میں اس کی حفاظت کی دعا مانگتا ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ جہاں بھی ہوگی بلکل ٹھیک ہوگی۔"

"میرا یہ مطلب نہیں تھا جو تم سمجھے ہو میں بس یہ کہہ رہا تھا اگر وہ کسی اور کی ہوگئی ہو اور اسے تم یاد ہی نہ ہو۔"سلمان نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔

"ہاں شاید اسے میں یاد ہی نہ ہوں اور اگر وہ اِس دنیا میں کسی اور کی ہو یا نہ ہو مگر میں نے اپنے رب سے اُس دنیا میں اس کا ساتھ مانگا ہے جہاں وہ صرف میری ہوگی۔"اجلال اب کھانا چھوڑے اس چہرے کو ذہن میں لائے بول رہا تھا۔

"میری دعا ہے اللہ اس لڑکی کو تم تک لے آئے۔ آمین۔"سلمان اسے حوصلہ دیتے بولا۔ اور اجلال یہ سوچنے لگا کہ اگر وہ اس کے سامنے آگئی تو وہ اسے پہچانے گا کیسے؟

اب یہ فیصلہ تقدیر نے کرنا تھا کہ اس کی زندگی میں کون آتا ہے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"فرہان بیٹا آپ ہمیں تو اپنے آنے کا بتاتے تاکہ ہم ائیرپورٹ پر آپ کو لینے آجاتے۔"کھانا کھاتے مجتبیٰ صاحب بولے۔

"بابا میں نے سوچا آپ سب کو سرپرائز دوں۔"اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"بھائی اگر آپ ہمیں بتا دیتے تو ہم  پھولوں کے ہار لے کر آپ کا استقبال کرتے۔"زینب فوراً بولی۔

"جیسے میں لندن پڑھنے نہیں جنگ لڑنے گیا تھا۔"وہ زینب کی عقل پر افسوس کرتے بولا۔

"پڑھائی کیسی جنگ سے کم بھی نہیں ہوتی۔"زینب نے منہ بنایا۔

"اچھا اسے چھوڑیں میرے پاس آپ سب کے لیے ایک سرپرائز اور ہے۔"سب کھانا چھوڑے اب فرہان کی طرف متوجہ ہوئے۔

"بھائی کہیں آپ نے وہاں کسی گوری سے شادی تو نہیں کر لی اور اب اسے ہمارے گھر لانے کے لیے ماما بابا کو منانا چاہتے ہیں؟"زینب ایک دم اونچی آواز میں چیخی۔

"توبہ کرو لڑکی کیسی باتیں کر رہی ہو۔"فرہان نے اس کے سر پر چپت لگائی۔

"میں نے لندن میں ایک کمپنی میں انٹرنشپ کی تھی اور اب انہوں نے مجھے ہائر کر لیا ہے۔"فرہان کی آواز میں جوش تھا۔

"ماشاءاللہ بہت مبارک ہو بیٹا۔"

"بہت مبارک ہو بھائی۔"

"ماما بابا آپ لوگ ابھی خاندان میں کسی کو بھی میرے آنے کا نہیں بتائیں گے ہم ان کے گھر جا کر انہیں سرپرائز دیں گے۔"فرہان کے کہنے پر زینب اور عینا نے،  اووہ،  کی آواز نکالی۔

"اچھا اب بھائی کو سکون سے کھانا کھانے دو اس نے پھر آرام بھی کرنا ہے۔"صالحہ بیگم ان دونوں کی بات سمجھاتے بولیں جبکہ مجتبیٰ صاحب بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے دیکھ کر دل میں ان کی خوشیوں کی دعا کرنے لگے مگر کچھ دعائیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"ہے برو…کیا ہو رہا ہے؟" ماہا نے لاونج میں سلمان کو بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس آکر بولی۔

"کچھ خاص نہیں تم بتاؤ جاب کیسی جارہی؟"لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتے سلمان اب اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"اچھی جا رہی مگر تمھارا دوست بہت ہی روّڈ ہے۔سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا۔"ماہا نے اس دن کو یاد کرتے کہا جب اجلال نے اسے اپنے آفس روم سے نکلنے کو کہا تھا۔

"اجلال روّڈ نہیں ہے بس اس کی طبیعت میں ایک ٹھہراؤ ہے وہ ہر کسی سے فریلی بات نہیں کرتا۔"سلمان نے اپنے دوست کو ڈیفینڈ کیا۔

"تمھاری دوستی اجلال انصاری سے کیسے ہوگئی مطلب آفس میں سب اس سے ڈرتے ہیں انفیکٹ انکل بھی میٹنگ اور پروجیکٹ کا سارا کام اس سے پوچھ کر رکھتے ہیں۔” ماہا پر تجسس ہوئی ۔

"ہماری دوستی تب ہوئی تھی جب ہم پاکستان آئے تھے اور میرا ایڈمیشن آٹھویں جماعت میں اس سکول میں ہوا جہاں اجلال پڑھتا تھا۔ شروع میں وہ مجھے بہت عجیب لگا کہ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا۔ پھر ایک دن میں اس کے پاس گیا اور اس سے وجہ پوچھی۔ قصہ مختصر۔۔۔ اس نے بتایا اس نے زندگی میں ایک ہی دوست بنایا تھا اور وہ الگ ہو گئے پھر کچھ دن میں روز اس سے باتیں کرتا اور پھر ہماری دوستی ہو گئی۔" سلمان نے ساری بات مختصر کرتے بتائی۔

"ہممم۔۔۔ کیا وہ شادی شدہ ہے؟ کیونکہ صبح جس طرح تپے ہوئے وہ آفس آتا ہے ایسے لگتا ہے بیوی سے لڑ کر آرہا ہو۔" ماہا نے اپنی انفارمیشن کے لیے جھوٹ بولتے کہا مگر سلمان اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا۔

"اس کی شادی نہیں ہوئی۔ مگر دعا ہے جو لڑکی وہ چاہتا ہے اسے مل جائے۔"اجلال کو دعا دیتے وہ مسکرایا لیکن ماہا اپنی جگہ برف ہو گئی۔

“ مطلب وہ کسی کو چاہتا ہے۔“ اس نے دل میں سوچا۔

"آپ کبھی اسے ڈنر پر کیوں نہیں بلاتے۔ آخر اتنی پرانی دوستی ہے بندہ اپنے دوستوں کے گھر آتا جاتا رہتا ہے۔"ماہا کے دل میں اس لڑکی کو دیکھے بغیر اس سے حسد محسوس ہوا جبکہ اس کی بات پر سلمان نے نفی میں سر ہلایا۔

"میں نے کوشش کی تھی مگر وہ یہاں نہیں آیا۔ اب بھی نہیں آئے گا۔"سلمان لیپ ٹاپ اٹھاتے کھڑا ہوا۔ مطلب صاف تھا وہ مزید اپنے دوست کی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ماہا شیرازی کے خرافاتی دماغ کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"امل موبائل استعمال کر رہی تھی جب اس کے وٹس ایپ پر انجان نمبر سے کال آنے لگی۔

"یہ کس کا نمبر ہے؟"ایک تو انجان نمبر اوپر سے نہ کوئی پروفائل پیچر اور نہ ہی کوئی نام سیدھا کال ہی کر رہا تھا فون دو تین بار بج کر بند ہوا تو اس نے سکون کا سانس لیا تبھی دوبارہ کال آنے لگی۔

"کیا کروں اس وقت تو پاپا اور بھائی بھائی بھی گھر نہیں ہیں۔"کچھ سوچتے اس نے کال کو یس کرتے کان سے لگایا مگر بولی کچھ نہیں۔

"اگر فون اٹھا لیا ہے تو کچھ بول بھی لیں۔"ایک منٹ بعد سپیکر سے کسی مرد کی آواز سنائی دی اور ادھر امل کے ہوش اڑے۔

"کک…کون؟"وہ ڈرتے ہوئے بولی۔

"آپ نے فون اٹھایا ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ کال کس نے کی ہے؟" دوسری طرف سے جواب کے دینے کے بجائے الٹا سوال کیا گیا۔امل نے کان سے فون ہٹاتے اسے گھورا۔

"میں بھی یہی پوچھ رہی ہوں کہ آپ نے فون کیا ہے تو آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ کون ہیں؟"اب کے وہ قدرے غصے سے بولی تو دوسری جانب قہقہہ لگایا گیا۔

"ویسے بہت ہی بے مروت نکلیں آپ۔چچ…بہت افسوس ہوا۔"وہ افسوس کرتا بولا ،امل کی حالت سوچتے اسے ہنسی بھی آرہی تھی۔

"جہنم میں جاؤ تم جو بھی ہو۔"امل نے بولتے ساتھ کال کاٹنی چاہی جب اس کی اگلی بات پر اس کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوا۔

"آپ کے ساتھ تو ہم جہنم میں بھی جانے کو تیار ہیں آپ ایک بار بولیں تو سہی۔"اب اس سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا جبکہ اس کے پاس کھڑی لڑکی نے افسوس سے اس کو دیکھا۔

"اگر پہلی فرصت میں تم نے کال بند نہ کی تو میں تمھارا نمبر اپنے بھائیوں کو دے دوں گی پھر وہ تمھیں جہنم سے بھی نکال لائیں گے۔"امل زچ ہوتے بولی۔

"ضرور…ضرور آپ اپنے بھائیوں کو میرا نمبر دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"ہاتھ کی مٹھی بناتے اس نے اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اپنا قہقہہ روکا۔

"اب اگر تمھاری کال آئی تو سوچ لینا تمھارا کیا ہوگا…جاہل انسان۔"اسے سنانے کے بعد جلدی سے کال کاٹی جبکہ دوسری طرف وہ جو کب سے اپنے قہقہہ روکے بیٹھا تھا یک دم زور سے ہنس دیا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

دن گزرتے جارہے تھے۔ایشل اور اس کی ماں کے درمیان بات نہ ہونے کہ برابر ہوتی۔ اسے غصہ اس تھپڑ کا نہیں تھا بلکہ اس بات کا تھا اس کی ماں اس کا رشتہ ایک ایسے مرد سے کرنے پر راضی ہوگئی تھیں جو ہر برے کاموں میں ملوث تھا۔

دوسری طرف طلال بھی صبح گھر سے نکلتا اور رات سب کے سونے کے بعد گھر لوٹتا۔

کئی دفعہ انصاری صاحب نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ان کی نظروں سے غائب ہی رہتا۔

"ممی یہ طلال کدھر ہے آج کل نظر نہیں آرہا؟"اس دن جب سارے شام کی چائے پینے باہر لان میں موجود تھے، اجلال نے مقدس بیگم سے پوچھا۔

"اللہ جانے یہ لڑکا کہاں غائب رہتا ہے؟ تم سے لڑائی والے دن کے بعد اس کا روز کا معمول ہے جو صبح فجر سے نکلتا ہے رات بارہ ایک بجے لوٹتا ہے۔"مقدس بیگم نے پریشانی سے بتایا۔

"مگر میں اس سے معافی مانگ چکا ہوں اور طلال نے بھی مجھے معاف کردیا تھا پھر وہ کس بات پر یہ سب کر رہا ہے؟" اجلال کو حیرت ہوئی۔

"مجھے ڈر ہے وہ کسی غلط کاموں میں نہ لگ گیا ہو، اس کے دوستوں کا بھی ہمیں نہیں معلوم کون ہیں کیسے ہیں۔"مقدس بیگم نے اپنا ڈر ظاہر کیا اور یہاں انصاری صاحب پہلی دفعہ چونکے تھے۔

"امل کو پتا ہوگا اس کے دوست کون ہیں، کیسی نیچر کے ہیں؟" انصاری صاحب نے کب سے خاموش بیٹھی امل سے پوچھا۔

"طلال نے یونیورسٹی میں کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی بس کچھ لڑکوں سے اس کی تھوڑی بہت بات چیت ہے اس کے علاؤہ وہ ہمیشہ میرے اور۔۔۔۔" امل کے گلے میں آنسو کا گولہ اٹکا۔"ایشل کے ساتھ ہوتا تھا۔ جب سے میں نے بھائی کے کہنے پر ایشل سے دوستی ختم کی ہے اس کے بعد طلال نہ ایشل سے ملتا ہے نہ ہی مجھے بلاتا ہے۔"آدھا پیا کپ چائے کا  ٹیبل پر چھوڑتے امل وہاں سے اٹھ گئی۔

"آج طلال آتا ہے پھر میں خود اس سے بات کروں گا۔"اجلال امل کو دکھ سے دیکھتے بولا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

طلال کی بات مانتے اس نے کلاس کی دوسری لڑکیوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر آخری سمیسٹر تھا اور سب کی اپنی دوستیں تھیں اس لیے ایشل نے اکیلے رہنا ہی مناسب سمجھا۔

ویسے بھی جس تیزی سے دن گزر رہے تھے ان کے میّڈز کے پیپرز آجانے تھے۔

کچھ دن بعد اس کی سمیر سے انگیجمینٹ تھی اور ایسے میں وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنا چاہ رہی تھی مگر ہر رات اپنے بستر پر لیٹتے اس کی آنکھوں کے ساتھ دل بھی رونے لگتا۔

ابھی وہ انہی سوچوں میں تھی جب اس کی نظر اجلال انصاری پر گئی جو امل کے سر پہ ہاتھ رکھے اسے کچھ کہہ رہا تھا۔

اجلال نے نظریں اٹھیں جو خود کو دیکھتی ایشل پر گئیں۔ جب سے اجلال امل کو یونیورسٹی لینے آنے لگا تھا وہ روز ایشل کو اسی بینچ پر دیکھتا تھا اور اس کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوتا۔

"کیا میں نے اپنی ضد کی خاطر ان کی دوستی تڑوا کر صحیح کیا؟" اس کے دل سے آواز آئی۔

  تم نے جو کیا ٹھیک کیا۔" دماغ کی بات پر کن کہتے وہ امل کو وہاں سے لیے واپس چلا گیا۔

ایشل اب بھی وہاں بیٹھی اپنے رکشے  کا انتظار کر رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"کیا سوچ رہے ہیں، آج آپ آفس بھی نہیں گئے؟" مقدس بیگم دودھ کا گلاس انصاری صاحب کو پکڑاتے بولیں۔

"طلال کی طرف سے پریشان ہوں۔ بس جو میں سوچ رہا ہوں ویسا نہ ہو۔" انصاری صاحب کنپٹی مسلتے بولے۔

"کیا مطلب میں کچھ سمجھی نہیں؟" وہ بیڈ پر بیھٹتیں پریشانی سے بولیں۔

طلال آج یونی سے جلدی گھر آگیا تھا۔ اس کا موڈ بھی آج فریش تھا۔ مقدس بیگم کو ڈھونڈتے وہ پہلے کچن میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا پھر اسے یاد آیا انصاری صاحب کی گاڑی گھر ہے مطلب وہ بھی آج آفس نہیں گئے۔

ان دونوں سے ملنے کے لیے  ان کے کمرے کے سامنے رکتے طلال نے دروازہ بجانے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر اندر سے آتی انصاری صاحب کی آواز پر اس کا ہاتھ ہوا میں معلق ہوا۔ انصاری صاحب کے الفاظ اس کے کانوں میں سیسہ انڈیل رہے تھے۔

طلال اندر جا کر ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ ایسے کیوں بول رہے ہیں مگر اسے اپنا آپ جلتا ہوا لگ رہا تھا۔ آہستہ سے پیچھے کی طرف قدم رکھتے وہ باہر آگیا،گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تیزی سے نکال کر لے گیا۔

"آپ جو سوچ رہے ہیں مجھے یقین ہے طلال ایسا کبھی نہیں کرے گا۔" وہ انصاری صاحب کے بتانے یقین سے بولیں مگر وہ دونوں نہیں جانتے تھے ان کی ساری باتیں طلال سن چکا ہے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"ایشل یہاں آؤ۔" اپنی ماں کے آواز دینے پر ایشل نوٹس باہر چارپائی پر چھوڑتے اٹھی۔

"جی بولیں۔"دروازے میں کھڑے کھڑے اس نے جواب دیا وہ ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"ادھر آؤ۔" انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ بغیر کوئی سوال کیے ایشل ان کے قریب جا کر بیٹھی۔

"ایشل میری جان ابھی تک اپنی ماں سے ناراض ہو؟ ادھر دیکھو اس دن تم جس لہجے میں بھابھی سے بات کررہی تھیں وہ مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں کہ دیکھو یہ کی ہے تم نے اپنی اولاد کی تربیت۔ مجھے بس اسی بات کا غصہ تھا۔"وہ ایشل کا چہرہ ہاتھوں میں لیتیں پیار سے بولیں۔

"میں آپ سے اس بات پر ناراض نہیں ہوں کہ آپ نے مجھے تھپڑ مارا بلکہ اس بات پر ہوں کہ آپ نے ممانیوں کے سامنے نہ صرف مجھے تھپڑ مارا اور پھر اس آوارہ سمیر کے ساتھ میری منگنی کے لیے بھی راضی ہو گئیں۔"ان کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے وہ ناراضگی سے بولی۔

"میرے بھائیوں کے مجھ پر بہت احسان ہیں ایشل اور میرے بھائی کی خوشی تمھیں اپنے گھر کی بیٹی بنانے کی ہے اس کے لیے میں انکار نہیں کرسکی۔"اپنے بھائی کے وہ شاید جان بھی دے دیتیں۔

"ماموں کی خوشی آپ کے لیے اولاد سے زیادہ اہم ہے امّی؟" اس کی ماں اپنے بھائی کی خوشی کے لیے اسے سولی چڑھا رہی تھیں۔

"نہیں مجھے تم عزیز ہو۔ مجھے اگر کچھ ہو بھی جائے گا تو مجھے اطمینان ہوگا میری بیٹی کے پاس اپنے ہیں ایک سہارا ہے۔"ان کی آنکھیں نم ہوئیں اور ایشل شکوہ کناں نظروں سے انھیں دیکھ کر رہ گئی۔

"ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی میری قربانی اگر آپکو گوارا ہے تو پھر میں حاضرہوں۔ مگر آپ ممانیوں کو بتا دیجیے گا کہ منگنی پر یا اس کے بعد اگر سمیر نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو میں اسے جان سے مار دوں گی۔" اپنی بات بول کر ایشل چارپائی پر رکھے نوٹس سمیٹنے لگی۔

کون جانے ایشل کی تقدیر میں کون لکھا تھا؟

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

 

جاری ہے۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?