ناول: راہِ تقدیر
از قلم: علینہ خان
قسط نمبر 03
سنہری اور ٹھنڈی صبح نے اپنے پر پھیلاتے لوگ اپنے کاموں اور بچے سکول جانے کی تیاری کرنے لگے۔دسمبر کے مہینے میں ویسے تو کراچی میں سردی نہیں پڑتی مگر اس سال دسمبر شروع ہوتے راتیں ٹھنڈی محسوس ہونے لگی تھیں اور صبح بھی موسم میں ہلکی پھلکی سی خنکی تھی۔
آج ان کا پہلا پیپر تھا۔ سارے اسٹوڈنٹس پیپر شروع ہونے سے پہلے کتابیں لیے ایک دوسرے سے مشورے کرنے میں مصروف تھے۔
"ہیلو ڈئیر کزن، کیسی ہو؟"ایشل جو اپنے دھیان میں بیٹھی پڑھنے میں مصروف تھی اس آواز پر چونکی۔اور اسے دیکھ کر غصہ ہوگئی
" تمھیں کوئی نیا تماشا دیکھانا ہے؟"کتاب سے نظر ہٹاتے وہ تلخ لہجے میں بولی۔
"لگتا ہے پیپر کی کافی اچھی تیاری ہے تمھاری۔" سمیر نے اس کے سامنے کھلے رجسٹر کی طرف اشارہ کیا جہاں سوالات حل کیے گئے تھے۔
"تمھیں اس سےکیا مطلب؟ " ایشل کے چہرے پر ناگواری ابھری۔
"لگتا ہے تم بھول گئی ہو کہ خوش قسمتی میرا رول نمبر تمھارے پیچھے ہے۔" سمیر نے اس کی یاداشت پر افسوس کرتے کہا۔
"خوش قسمتی نہیں ، بد قسمتی سے۔"ایشل نے اس کے لفظوں کی توصیح کی۔
"تم جو بھی کہو۔ میں تمھیں اس لیے یاد کروایا ہے کہ تم مجھے سارا پیپر دکھاؤ گی۔" سمیر اصل مدعے پر آیا۔
" خوش فہمیاں ہیں تمھاری کہ میں تمھیں اپنا پیپر دیکھاؤں گی۔" ایشل ہاتھ جھنجھلا کر بولی۔
"اوکے کزن پھر دیکھتے ہیں تمھیں تم میری مدد کیسے نہیں کرتی ہو۔" اس کے لہجے میں کچھ تھا جس نے ایشل کو ٹھٹکنے پر مجبور کر دیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آفس کے کاریڈور میں کھڑے وہ فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ابھی آفس آور شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ تھا۔
"جی پاپا ہم کل ان سے میٹنگ کر لیں گے۔" انصاری صاحب کے کچھ پوچھنے پر اس نے جواب دیا۔
"نہیں ابھی تو طلال کے پیپرز ہیں اس لیے میں نے اسے نہیں بولا۔" یقیناً دوسری طرف سے طلال کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
اجلال کا رخ ایسے تھا کہ لفٹ سے نکلنے والے کی پہلی نظر اس پر جاتی۔ماہا شیرازی اسی وقت آفس میں داخل ہوئی تھی اور اپنے سامنے کھڑے اجلال کو دیکھتے اس کے قدم تھمے جو بلیک ڈریس پینٹ کوٹ اور وائٹ شرٹ پہنے، بال ہمیشہ کی طرح جل لگا کر بنائے ، ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے سے فون کان پر لگائے پرکشش لگ رہا تھا۔اس کی پرسنیلٹی ایسی تھی کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں اس کا اسیر ہو جائے۔
"امل بتا رہی تھی اس کی دوست کل پڑھنے آئی تھی گھر اور تم نے اس کی دوست کو کل بہت ڈانٹا۔" انصاری صاحب کے استفسار پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
اجلال کے مسکرانے پر اس کے گال پر گڑھا نمودار ہوا اور یہاں ماہا شیرازی کو اپنا دل ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوا۔
خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے اجلال بات کرتے مڑا۔
"جی مس ماہا آپ کو کوئی کام ہے؟"فون کان سے ہٹاتے وہ سوالیہ انداز میں بولا ۔
"جی...وہ آگے...میرا مطلب ہے میرا آج آفس میں پہلا دن ہے تو مجھے معلوم نہیں آگے کس طرف جانا ہے۔" اجلال کے ایک دم سے سوال پوچھنے پر وہ بوکھلائی۔
"آپ آگے سے لیفٹ چلی جائیں وہاں مس مریم ہوں گی وہ آپ کو سمجھا دیں گی آگے۔"اس نے ایک نظر ماہا کے حلیے پر ڈالی جو ٹائٹ پینٹ کے ساتھ گھٹنوں سے تھوڑا اونچا کرتا پہنے، پاؤں بلیک اونچی ہیل میں قید تھے۔
"جی کچھ اور پوچھنا ہے؟"ماہا کو وہیں کھڑے دیکھ کر اس نے دوبارہ سوال کیا۔
ماہا نفی میں سر ہلاتی اجلال کے بتائے راستے کی طرف چلی گئی۔ انصاری صاحب کو خدا حافظ کہتے اس نے فون بند کیا اور اپنے آفس کی جانب بڑھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"بابا ہم اپنے گھر کب جائیں گے؟" عشاء کے سوال پر خدیجہ جو کپڑے تہ کر رہی تھی' نے سر اٹھا کر سکندر کو دیکھا۔
احمد صاحب کے گھر سے نکالنے کے بعد وہ لوگ خدیجہ کے میکے میں رہ رہے تھے۔
"بیٹا یہ گھر بھی تو ہمارا ہی ہے۔" خدیجہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
"نہیں...یہ ہمارا نہیں نانا ابو کا گھر ہے اور مجھے یہ نہیں پسند۔" عشاء نے ہاتھ میں پکڑی گڑیا بیڈ پر پٹخی۔ سکندر کے پاس اپنی بیٹی کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
"آپ کو وہاں کیوں جانا ہے عشاء؟" خدیجہ سکندر کی حالت سمھجتے عشاء سے بولی ۔
"بس مجھے یہ گھر نہیں پسند اور وہاں میرے دوست بھی تھے۔" عشاء کی آنکھوں میں پانی بھرتے دیکھ سکندر کے دل کو کچھ ہوا۔
"ادھر آؤ ، میں اپنی گڑیا کے لیے اس سے بھی اچھا گھر لوں گا اور جب میری گڑیا سکول جانے لگے گی تو وہاں آپ کے بہت سے نئے دوست بھی بن جائیں گے۔" سکندر اب اس ساڑھے تین سال کی بچی کی برین واشنگ کرنے لگا اور اس معصوم ذہن میں اپنے باپ کی باتیں فوراً سما گئیں۔
مگر وہ نہیں جانتے تھا کہ اس کی بیٹی کی زندگی کتنے عذابوں سے گزرنے والی ہے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"پیپر کیسا ہوا تم تینوں کا؟" وہ چاروں اس وقت امل کے روم میں بیٹھے تھے۔ ایشل آج آنا نہیں چاہتی تھی لیکن امل جب شام کو اسے لینے پہنچی تو مجبوراً اسے آنا پڑا۔
"بھائی پیپر تو اچھا ہوا ہے مگر چیک کرنے والے کا موڈ اچھا نہ ہوا تو ..." طلال صوفے سے ٹیک لگاتے بولا۔
"مطلب تمھارا پیپر اچھا نہیں ہوا۔" اجلال نے سختی سے کہا۔
"میرا پیپر الحمدللہ بہت اچھا ہوا ہے اور یہ چیک کرنے والی بات تو یونی میں ایشل نے کہی تھی۔" طلال نے سارا ملبہ ایشل پر ڈالا۔ ایشل کا دل کیا سامنے رکھی کتاب طلال کے سر پر دے مارے۔
"جی محترمہ آپ بتانا پسند کریں گی کہ آپ کا پیپر کیسا ہوا ہے؟" اجلال کے لہجے میں اس سے بات کرتے طنز شامل ہوا۔
"اچھا ہو گیا۔" ایشل نے دو حرفی جواب دیا۔اس کا چہرہ ہتک سے سرخ ہو رہا تھا۔
"بھائی ہم سب کا پیپر بہت ہی زبردست ہوا ہے اب آپ ہمیں جو کل پیپر ہے اس کی تیاری کروا دیں۔" اس سے پہلے کہ اجلال پھر ایشل کو کچھ کہتا امل فوراً بول پڑی۔
"چلو بتاؤ کیا سمھجنا ہے؟" اجلال نے میز پر رکھی ایشل کی کتاب اٹھائی تو پاس بیٹھا طلال پینسل سے نشان لگا کر اسے چیپٹرز بتانے لگا۔
"یا اللہ آج اس شخص سے بے عزت نہ کروانا۔" ایشل رجسٹر کے صفحات پلٹتے دل میں دعا کرنے لگی۔
"آپ اگر اپنی سوچوں کو سائیڈ پر رکھ دیں تو کیا میں سمجھانا شروع کروں۔" اجلال کے ٹیبل کے شیشے پر دستک دینے پر وہ سوچوں سے باہر آئی اور اس کتاب کی جانب متوجہ ہوئی۔
"بہت شکریہ، اب ذرا دھیان سے سنیے گا کیونکہ میں بار بار اپنی بات دہرانے کا عادی نہیں ہوں۔" اجلال پھر طنزیہ انداز میں بولا۔
"پتہ نہیں ان کا نام اجلال کیوں ہے؟ جیسے ہر وقت غصے میں رہتے ہیں ان کا نام جلاد ہونا چاہیے تھا۔" ایشل دل ہی دل میں اسے نئے نام سے نواز چکی تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آفس سے آنے کے بعد وہ نہا کر شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش پھیرتے اس کے چہرے پر اچانک مسکراہٹ ابھری۔
"ماہا شیرازی تم جو کہتی تھیں کہ کوئی تمھارے دل میں نہیں آئے گا آج کیا ہوا؟" برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے اس نے بال جھٹکے۔
"ہاں کہتی تھی کیونکہ اس سے پہلے کوئی اتنا اچھا نہیں لگا تھا۔" اپنے دماغ کے سوال پر وہ دل میں بولی۔
"اور اگر وہ تمھیں دیکھے بھی نہ؟" دماغ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"کوئی ماہا شیرازی کو ریجکٹ کرے یہ ناممکن ہے، ماہا شیرازی چیز ہی ایسی ہے کوئی اگنور نہیں کر سکتا۔" اس کے چہرے پر مغرویت تھی۔
"فرض کرو وہ تمھیں نہ ملے پھر کیا کرو گی؟" اب کے دماغ کی بات پر اس نے شیشے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا ۔
"جو چیز ماہا شیرازی کو آسانی سے نہ ملے اسے میں زبردستی حاصل کرکے رہتی ہوں اور اجلال انصاری کو حاصل کرنے کو میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔" اپنی مغروریت میں وہ یہ بھول گئی کہ وقت اس سے کیا کچھ کروانے والا ہے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"کیا بات ہے بیٹا جی آج کل پھپھو کی طرف نہیں جا رہیں؟" سلیم صاحب نے تانیہ کو بلاوجہ ٹی وی چینل بدلتے دیکھا تو بولے۔
"ضرور اس کی پھر طلال سے لڑائی ہوئی ہو گی۔" عالیہ بیگم نے تانیہ کے سر پر چیت لگاتے کہا۔
"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے بس میرے ایگزیمز تھے اور اب امل اور طلال کے بھی ایگزامز اسٹارٹ ہو گئے ہیں اس لیے نہیں جا رہی۔"اس نے ڈرامہ چینل لگاتے ریموٹ سائیڈ پر رکھا۔
"تمھاری پھپھو لوگ اور ہم سوچ رہے تھے کہ اب تم دونوں کی منگنی کر دینی چاہیے۔"سلیم صاحب کے کہنے پر وہ چونکی۔
"پاپا اتنی کیا جلدی ہے میں ابھی پڑھ رہی ہوں اور طلال کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی ۔" اس نے حیلہ سا بہانا بنایا۔
"ابھی منگنی کر دیں گے اور تم دونوں کی پڑھائی مکمل ہوتے شادی کر دیں گے۔" عالیہ بیگم نے حل بتایا۔
"جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔" وہ وہاں سے اٹھتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
وہ تینوں اس وقت اجلال کا دیے ٹیسٹ کرنے میں مصروف تھے۔ اجلال کے لیے ان تینوں کے چہروں کے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگانا آسان تھا کہ انہوں نے کتنی تیاری کی ہے۔
"ٹائم ختم ہونے میں صرف پندرہ منٹ ہیں تو ذرا جلدی ٹیسٹ مکمل کرو۔" ریسٹ واچ سے ٹائم بتاتے اس نے ہاتھ میں موجود کتاب کا ورک پلٹا جہاں بڑا حروف میں ایشل فاطمہ لکھا تھا۔
کچھ صفحات پلٹتے وہ رکا۔ اس صفحہ کے نیچے خالی حصہ پر ایشل نے اپنے سائن کیے تھے۔ اجلال اس سائن کے ساتھ لکھے لفظ کو دیکھ کر رکا تھا۔
"بھائی میرا ٹیسٹ ہو گیا۔" امل رجسٹر بند کرتے بولی لیکن اجلال کو متوجہ نہ دیکھ کر دوبارہ بولی۔
"بھائی میرا ٹیسٹ ہوگیا ہے آپ دیکھ لیں۔"امل کے دوبارہ پکارنے پر اجلال ہوش میں آیا ۔
"ہاں لاؤ میں دیکھتا ہوں اور تم دونوں بھی جلدی کرو۔" امل کا رجسٹر پکڑتے اجلال نے ایشل کی جانب دیکھا جو بال پوائنٹ ہلاتی سوچنے میں مصروف تھی۔
کچھ دیر بعد طلال بھی اپنا ٹیسٹ چیک کروا کر مقدس بیگم کے بلانے پر باہر جا چکا تھا۔
"محترمہ ٹائم ختم ہوگیا ہے اگر آپ نے اپنی سوچوں میں ٹیسٹ کرلیا ہو تو میں چیک کر لوں۔"اجلال کی آواز پر ایشل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جی ہوگیا۔" اس نے رجسٹر اجلال کو دینے کے بجائے ٹیبل پر رکھا۔
"بھائی... کیا آپ میری دوست کو ڈانٹا کم کریں گے اور اس کا نام محترمہ نہیں ایشل ہے۔" امل سے اب برادشت نہیں ہوا کہ اس کی دوست کے ساتھ اس کا بھائی ایسا سلوک کرے۔
"جی دیکھ لیا ہے ان کا نام اور جس طرح کی ان کی حرکتیں ہیں اس پر ڈانٹ ہی پڑے گی۔" رجسٹر پر دائرے لگاتے وہ طنزاً بولا۔
"پتہ نہیں ایسی کون سی بری گھڑی تھی جو اس کھڑوس ہٹلر سے ٹکرا گئی تھی۔" ایشل نے اپنی کتابیں اور نوٹس سمیٹتے سوچا۔
"کون سا برا وقت تھا جب ان محترمہ سے سامنا ہوا تھا جو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔" اجلال نے منہ کے زاویے بگاڑتی ایشل کو دیکھتے سوچا تھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"یہ کیا کہہ رہے ہو تم تمھارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے ناں؟" صائمہ ممانی ایک دم چیخیں۔
"ارے میری پیاری ماں، بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔"سمیر ان کے ہاتھ پکڑتے بولا۔
"میں کبھی اس لڑکی کو اپنی بہو نہیں بناؤں گی۔"انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیا ۔
"آپ سمجھ نہیں رہیں، وہ لڑکی آسانی سے ہمارے قبضے میں آجائے گی اور پھوپھی کا گھر ہم اپنے نام کروا کر ان سے سب چھین لیں گے۔" سمیر کی بات پر وہ کچھ سوچنے لگیں۔
"اگر اس کی ماں نے یا ایشل نے خود انکار کر دیا تو؟" وہ سوچتے ہوئے بولیں۔
"انکار کر ہی نہیں سکتیں اور اگر ایشل انکار کرے تو صاف کہنا اس کا اس امیر زادے کے ساتھ کوئی چکر ہے پھر دیکھنا پھوپھی کیسے رشتے کو ہاں کہتیں ہیں۔" سمیر نے اپنے خرافاتی دماغ کو چلایا۔
"اچھا ٹھیک ہے مگر ابھی کچھ دن صبر کر تیرے باپ سے بات کروں گی پہلے۔" وہ دل میں ایشل سے اس دن کی بےعزتی کا بدلہ لینے کا سوچنے لگیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
کئی دن سے امل پیپرز کی تیاری کے لیے اسے اپنے گھر بلارہی تھی اور اس کی امّی کی دیکھ بھال کے لئے ملازمہ تھی تو وہ زرا بےفکری سے پیپرز کی تیاری کررہی تھی اور ان چند دنوں میں وہ اجلال کے جتنے طنز و طعنے سن چکی تھی اس کے بعد ایشل نے اس کا نام ہٹلر رکھ دیا تھا۔
آج بھی وہ اپنے آخری پیپر کی تیاری کے بعد گھر جانے کے لیے پورچ میں آرہی تھی۔ شکر تھا آج اجلال گھر نہیں تھا۔ امل سے باتیں کرتی وہ پورچ کی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب بے دھیانی میں پاؤں سیڑھی کے بجائے زمین پر لگا اور وہ لڑکھڑا کر نیچے گرتی کسی نے اسے بازو سے پکڑا۔
" محترمہ اگر سامنے دیکھ کر چل لیں تو ہر جگہ اس طرح گرتی نہ پڑیں۔" اجلال جو اسی وقت سیڑھیوں کے پاس پہنچا تھا ایشل کا پاؤں پھسلتے دیکھ اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کیا تھا ورنہ وہ ضرور اس کے قدموں میں گری ہوتی۔
"آپ کو اس سے کیا میں دیکھ کر چلوں یا آنکھیں بند کرکے۔" اپنا بازو چھڑواتے وہ اپنے گرد لپٹی چادر درست کرتے ہوئے بولی۔
" میری بلا سے تم آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلو مگر ہر بار میرے راستے میں مت آیا کرو۔ اب ہٹو اور مجھے اندر جانے دو۔" اسے راستے سے ہٹاتے وہ اندر جانے لگا۔
"ہنہہ۔۔ ہٹلر۔" ہمیشہ کی طرح ایشل نے اجلال کو کہا مگر اس بار اس کی آواز اتنی آہستہ نہ تھی کہ پاس سے گزرتے اجلال انصاری کے کانوں میں نہ جاتی۔
"اگر میں ہٹلر ہوں تو محترمہ تم کون سا کسی پرستان کی شہزادی ہو؟" اجلال الٹے پاؤں واپس گھوما تھا۔
"مجھے پرستان کی شہزادی بننے کا کوئی شوق بھی نہیں ہے مگر آپ ضرور ہٹلر کے خاندان سے آئے ہیں۔"
امل اور طلال جو ایشل کو گھر چھوڑنے جانے کے لیے باہر آئے تھے اب اپنے بھائی اور ایشل کو لڑتے ہوئے دیکھ کر وہیں کھڑے ہو گئے۔وہ دونوں بالکل ایسے لڑ رہے تھے جیسے چھوٹے بچے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔
" آئندہ تم نے مجھے ہٹلر کہا تو تمھارے اس گھر میں آنے پر پابندی لگا دوں گا۔" اب کے اجلال کا ضبط ختم ہوا تھا۔
"جو ہیں وہی کہوں گی اور طلال بالکل ٹھیک کہتا ہے آپ کے بارے میں۔" ناک منہ چڑاتے وہ غصے سے بولتی رخ پھیر گئی۔ طلال نے اپنے نام پر چونک کر ان دونوں کو دیکھا۔
"کیا کہتا ہے طلال زرا بتانا۔"اجلال نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
"یہی کہ جس بھی لڑکی کی آپ جیسے ہٹلر سے شادی ہو گی وہ زندگی بھر پچھتاتی ہی رہے گی۔اور آئندہ مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کریے گا ورنہ مجھے ہاتھ توڑنا بھی آتا ہے۔" اپنے بازو سے اجلال کا ہاتھ جھٹک کر چند قدم پیچھے ہوتے بولی۔
"میری شادی جس بھی لڑکی سے ہو تمھیں اتنی فکر کیوں ہورہی ہے اور میں نے کہا تھا مجھے دوبارہ ہٹلر مت بولنا۔" اجلال نے انگلی اٹھاتے طیش سے کہا۔
"طلال کچھ کرو، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں بھائی غصے میں ایشل پر ہاتھ نہ اٹھا دیں۔"امل اور طلال جو کب سے خاموش کھڑے اجلال کو کسی لڑکی پر یوں چلاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔مگر اب معاملہ بگڑنے لگا تھا۔
"بھائی۔۔۔ آرام سے بات کریں وہ ہماری مہمان ہے اور ایک لڑکی ہے۔" امل کے کہنے پر وہ ان دونوں کے درمیان آکر کھڑا ہوا۔
"اپنی دوست کو بول دو امل، آئندہ مجھے یہ اس گھر میں نظر نہ آئے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" ایشل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے وہ امل سے بولا۔
"آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔"ایشل نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا جس پر اجلال دوبارہ اس کی جانب مڑا۔
"بھائی آپ اندر جائیں، طلال تم لے کر جاؤ بھائی کو۔" امل ایشل کو دوسری طرف لے جاتی ہوئی بولی۔
"میں اب کبھی یہاں نہیں آؤں گی امل تمھارے بھائی نے ان چند دنوں میں میری جتنی بےعزتی کی ہے وہ تمھیں بھی پتا ہے۔"کب سے رکے آنسو اب بہنے کو بے تاب تھے جنہیں بے دردی سے رگڑتے وہ گیٹ پار کر گئی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"مما میں پھپھو کی طرف جارہی ہوں۔" کچن میں کھانا بناتیں عالیہ بیگم کو بتاتے تانیہ نے دوپٹہ سر پر اوڑھا۔
"بیٹا رات ہونے کو ہے اب صبح چلی جانا۔"عالیہ بیگم نے آواز لگائی۔
"مما کچھ نہیں ہوتا میں ڈرائیور انکل کے ساتھ جاؤں گی خود ڈرائیو نہیں کر رہی۔"عالیہ بیگم کی پریشانی بھانپتے ان کے پاس جاکر بولی۔
"تمھارے پاپا بھی آنے والے ہوں گے پھر کھانا کھا کر ان کے ساتھ چلی جانا۔" انہوں نے ہانڈی میں چمچہ ہلاتے کہا۔
"مما پاپا ابھی سارا دن کے تھکے آئیں گے میں ابھی جاؤں گی اور تھوڑی دیر میں آجاؤں گی ویسے بھی مجھے امل سے کچھ کام بھی تھا۔"
"اچھا جلدی آنا۔خیر سے جاؤ۔" وہ تانیہ کو دعا دیتے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
تانیہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہاں اسے کیا کچھ دیکھنے کو ملنے والا ہے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
گھر پہنچنے تک وہ خود کو کمپوز کرچکی تھی۔ بیگ کمرے میں رکھ کر وہ امّی کے کمرے میں آئی مگر انہیں سوتا دیکھ کر کچن میں آ گی جہاں ملازمہ ان کے لیے سوپ بنا رہی تھی۔
"امّی کب سوئی تھیں۔" دوسرے چولہے پر چائے کا پانی رکھتے اس نے ملازمہ سے پوچھا۔
"جی وہ دوا کھا کر ابھی سوئیں ہیں۔ آپ مجھے بول دیتیں ،میں چائے بنا دیتی۔آپ ابھی تو گھر آئیں ہیں۔" ایشل کو چائے بناتے دیکھ کر وہ بولیں۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے عادت ہے اپنے لیے چائے خود بنانے کی۔ آپ امّی اور اپنے لیے کھانا بنالیں، میں چائے پی کر پیپر کی تیاری کروں گی۔" چائے کپ میں انڈیلتے بولی۔
"آپ کھانا نہیں کھائیں گی؟"
"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔" ایشل انہیں جواب دیتی چائے کا کپ پکڑے کمرے میں آکر دروازے کو کنڈی لگاتے اسے اجلال سے ہونے والی بےعزتی یاد آئی اور ساتھ ہی آنکھوں میں سرخی اترنے لگی۔
"میں اب کبھی امل کے گھر نہیں جاؤں گی۔" آنسو صاف کرتی وہ بیڈ پر رکھے بیگ سے نوٹس نکال کر پڑھنے لگی لیکن کچھ ہی دیر میں اکتا کر اس نے نوٹس واپس رکھ دیے اور سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھی اپنی ڈائری نکال کر آج کے دن کا حال لکھنے لگی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"بھائی آپ کو ایشل سے ایسے لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔" ایشل کے جانے کے بعد امل تو اپنے روم میں بند ہو گئی تھی مگر طلال سے یہ برداشت نہیں ہوا تھا اور وہ اب اجلال کے کمرے موجود تھا۔
" تم اس لڑکی کی وجہ سے اپنے بھائی سے لڑو گے؟" اجلال غصے سے چیخا۔ اس کی آواز اتنی تھی کہ امل بھی اپنے روم سے باہر آئی تھی۔
"یا اللہ خیر یہ اجلال کس سے اتنی اونچی آواز میں بات کررہا ہے۔" مقدس بیگم اور انصاری صاحب جو لاونج میں بیٹھے خبریں سن رہے تھے اجلال کی آواز پر اس کے کمرے کی طرف بڑھے۔
"بھائی میں لڑ نہیں رہا بس یہ کہہ رہا ہوں آپ کو اس سے معافی مانگنی چاہیے۔" اجلال کے مقابلے طلال آہستہ آواز میں بولا۔امل اور ان کے والدین دروازے میں کھڑے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
" وہ جاہل گنوار لڑکی جسے بڑوں سے بات کرنے تک کی تو تمیز نہیں ہے میں اس سے معافی مانگوں۔معافی تو ان محترمہ کو مجھ سے مانگنی چاہیے جس نے تمھیں یہ سب بولا ہے۔" اجلال کا غصے سے پارا ہائی ہوا۔
"بھائی آپ غلط بات کر رہے ہیں۔ ایشل نے مجھے کچھ نہیں کہا، انفیکٹ ہمارے پاس تو ایک دوسرے کا نمبر بھی نہیں ہے۔" طلال کو اندازہ نہیں تھا بات کتنی بڑھنے والی ہے۔
"تو لے لو نمبر ویسے بھی تم امل کے ذریعے اس سے بات کرتے ہی ہو اور ہمیں کیا پتا تمھارا اس جاہل لڑکی سے رابطہ ہو۔" بنا سوچے سمجھے اجلال بس بولے جارہا تھا۔
"بس کریں بھائی۔ آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔" اب کی بار طلال کی آواز بھی اونچی ہوئی تھی ۔اپنے والدین کی موجودگی سے بے خبر وہ دونوں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے۔
"بتاؤ مجھے کیا تم اس لڑکی کی فکر نہیں کرتے؟ اس کی ماں ہسپتال گئی تو سارا خرچ تم نے کیوں اٹھایا، اس کے رشتے داروں کے ہوتے ہوئے تم اسے حوصلہ دینے گئے، کیوں؟" طلال ساکت کھڑا اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا۔
"جواب دو اب، چپ کیوں کھڑے ہو بولو کیا لگتی ہے وہ تمھاری؟" اجلال کے الفاظ اس کے دل پر چھریوں کے وار کی طرح لگے۔ طلال نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا پھر بغیر کچھ کہے سب کی آوازوں کو نظر انداز کرتے اپنے کمرے میں جانے لگا لیکن تانیہ کو سامنے پا کر اک لمحے کو رکا پھر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"یہ سب کیا ہے پھپھو؟ طلال اگر کسی اور میں انٹرسٹڈ تھا تو آپ نے مجھے اس کے ساتھ کیوں باندھا؟" تانیہ تو اجلال کے لفظوں پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔ مقدس بیگم نے اسے زبردستی روکا تھا ورنہ تانیہ تو گھر جا کر یہ رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
"ایسا کچھ نہیں ہے بیٹا جو تم ںے سنا۔وہ بچی بس امل کی دوست ہے اور طلال نے انسانیت کے ناطے اس کی مدد کی تھی بس اجلال اسی کا کہہ رہا تھا۔" انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح تانیہ کو روکیں۔
"بچی۔۔۔ ممی آپ اس لڑکی کو بچی بول رہی ہیں جو میرے گھر میں کھڑے مجھے ہی باتیں سنا کر گئی ہے اور امل تم اب اس لڑکی سے کوئی دوستی نہیں رکھو گی اور نا یونیورسٹی میں اس کے ساتھ رہو گی۔" مقدس بیگم کا ایشل کو بچی بولنا جیسے آگ ہی لگا گیا۔
"بھائی وہ میری دوست ہے..." امل نے بے یقینی سے کہا۔
" ٹھیک ہے پھر رکھو اس لڑکی سے دوستی مگر پھر مجھے اپنا بھائی مت بولنا۔"امل روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ اجلال نے آج پہلی بار امل سے غصے میں بات کی تھی۔
"پتا نہیں کیا ہوگیا ہے اسے پہلے طلال پر غصّہ کیا اور اب امل کو اس کی دوست سے ملنے سے منع کر دیا۔"مقدس بیگم نے افسوس سے کہا۔ انصاری صاحب تو بس اپنے بچوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر ساکت بیٹھے تھے۔
"بیٹا تم بھائی جان سے ابھی کوئی بات نہیں کرنا۔ طلال نے دل سے اس رشتے کو قبول کیا تھا اور اب بھی کرتا ہے بس اجلال کو شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔" تانیہ کو دلاسہ دیتے وہ خود کو بھی اس بات کا جیسے یقین دلا رہی تھیں۔
آج کی رات ان سب نے آنکھوں میں گزاری تھی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"ارے تانیہ اتنی جلدی آگئیں پھپھو کی طرف سے؟" سلیم صاحب نے وقت دیکھتے پوچھا۔
"جی پاپا۔" تانیہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔
"تانیہ بچے کیا کوئی بات ہوئی ہے؟" سلیم صاحب اس کا مرجھایا چہرہ دیکھتے چونکے۔
"جی۔" جواب یک لفظی تھا۔
"تم تو کہہ رہی تھیں امل سے کچھ ضروری کام ہے مگر تم تو آدھے گھنٹے میں آگئیں۔"عالیہ بیگم سلیم صاحب کو چائے پکڑاتے بولیں۔
"امل پیپر کی تیاری میں مصروف تھی اس لیے میں بس پھپھو سے مل کر آگئی۔" ناجانے کیوں اس کی آواز ایک دم بھرائی۔
"کھانا لگاؤں تمھارے لیے؟" عالیہ بیگم کے پوچھنے پر وہ انکار کرتی اپنے کمرے میں آگئی۔کمرے میں آتے اجلال اور طلال کی لڑائی، اجلال کے الفاظ اس کے ذہن میں گھومنے لگے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
اگلی صبح وہ تینوں یونیورسٹی اپنا آخری پیپر دینے پہنچے تھے۔
"رکھو اس لڑکی سے دوستی مگر پھر مجھے اپنا بھائی مت بولنا۔" کلاس میں داخل ہوتے اس کی نظر ایشل پر گئی تو امل کی سماعت میں کل رات اجلال کے بولے الفاظ گونجے۔
"یا اللہ میں بھائی کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اور ایشل سے دوستی بھی رکھنا چاہتی ہو، میں کیا کروں؟" اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔
چونکہ ان کے رول نمبر ایک دوسرے سے دور تھے اس لیے امل گہری سانس لیتے اپنے رول نمبر والی کرسی پر آ بیٹھی۔ طلال تو پہلے ہی پورے گھر میں کسی سے بات کرنا تو دور دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ ایشل نے امل کو اپنی طرف آنے کے بجائے اسے اس کی کرسی پر بیٹھتے دیکھ کر چہرہ واپس موڑ لیا۔
کچھ دیر میں پیپر سٹارٹ ہو گیا ایشل مکمل توجہ سے اپنا پیپر کر رہی تھی مگر اس کے آگے والی سیٹ پر بیٹھے طلال اور کچھ دور بیٹھی امل کے ذہن میں کل کی باتیں گھوم رہی تھیں۔
پیپر ختم ہونے کے بعد سب کلاس سے باہر نکلے تو ایشل امل کے پیچھے گئی، طلال تو شاید پہلے ہی وہاں سے جاچکا تھا۔
"امل۔۔۔کیسی ہو، پیپر کیسا ہوا تمھارا؟" امل کے قریب پہنچتے اس نے پھولی ہوئی سانسوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ لیکن امل اسے دیکھے بغیر آگے جانے لگی۔
"امل میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں...؟ امل کے نا رکنے پر وہ اس کے آگے آئی۔
"کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ، کیوں آوازیں دیں رہی ہو؟" امل نے لہجے کو سخت کرتے کہا۔
"امل... تمھیں میری کوئی بات بری لگی ہے تو مجھے بتاؤ۔ آخر تم مجھ سے ایسے بات کیوں کررہی ہو؟" امل کے رویے پر وہ حیران ہوئی۔
"میرے راستے سے ہٹو ایشل،طلال باہر میرا ویٹ کررہا ہے۔" ایشل کو ہٹاتے وہ جانے لگی۔
" امل آخر ہوا کیا ہے؟ ہم اچھے دوست ہیں تم مجھے بتاؤ جو بھی بات ہے؟" امل کو روکتے وہ دوبارہ آگے آئی۔
"تمھارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ایشل؟جب میں تم سے بات نہیں کر رہی تو کیوں میرے راستے میں آرہی ہو۔" امل نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔
"تم کل والی بات پر ناراض ہو؟" ایشل نے اندازہ لگایا کل امل نے اسے رات کو فون بھی نہیں کیا تھا۔
"دیکھو ایشل ہماری دوستی کا سفر یہی تک تھا، میں تم سے مزید دوستی نہیں رکھ سکتی، اس لیے تمھارے لیے بھی بہتر ہے تم اب میرے راستے سے خود ہٹ جاؤ۔ اللہ حافظ۔" امل بول کے رکی نہیں تھی اور ایشل اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا اتنے سالوں کی دوستی وہ بغیر کوئی وجہ بتائے توڑگئی تھی۔
امل روتے ہوئے پارکنگ ایریا میں آئی۔
' کتنا مشکل ہوتا ہے، اپنے عزیز جان دوست کو یہ بولنا کہ ہماری دوستی یہی تک تھی۔'
امل نے کس طرح دل پر پتھر رکھ کہ اپنے بھائی کی وجہ سے اس دوستی کو ختم کیا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔
آنکھیں صاف کرتے اس نے طلال کی گاڑی ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اسے طلال کی جگہ اجلال اپنی طرف آتا دیکھائی دیا۔
"کیسی ہے میری گڑیا اور پیپر کیسا ہوا؟" امل کو گلے لگاتے اجلال نے پیار سے پوچھا۔
"اچھا ہوگیا۔" فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے وہ ہلکی آواز میں بولی۔
"تم روئی ہو امل؟" اجلال اس کے بھاری آواز پر چونکا۔
"نہیں۔" ایک لفظی جواب دے کر وہ باہر دیکھنے لگی۔ اجلال نے بھی مزید کوئی سوال نہیں کیا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
یونی سے نکلتے وقت اس نے اجلال کے پی۔اے کو فون کردیا تھا کہ وہ اجلال سے کہے کہ امل کو یونیورسٹی سے پک کر لے اور خود کار لے کر سی ویو پر آگیا۔
بغیر کسی سویٹر یا جیکٹ کے ہاف بازو کی ٹی۔ شرٹ پہنے، جوتے کار میں رکھ کر وہ ساحل سمندر پر کھڑا تھا۔ دسمبر کی ٹھنڈی ہوائیں اور سمندر کا ٹھنڈا پانی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ رہے تھے۔
فون کی رنگ ٹون پر اس نے موبائل جیب سے نکال کر نام دیکھا جہاں تانیہ کالنگ کے الفاظ جگمگا رہے تھے۔ کچھ دیر فون بجنے کے بعد بند ہوگیا۔ طلال نے ہوا سے اڑتے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کال بیک پر کلک کیا تو دوسری طرف سے فوراً کال اٹھا لی گئی۔
"السلام علیکم!" سمندر کے شور میں ائیرپوڈز میں تانیہ کی آواز گونجی۔ طلال کے لب اس کے سلام کرنے پر مسکراہٹ میں پھیلے۔اک لمحے کو وہ اپنی سوچوں کو بھول گیا۔
" وعلیکم السلام! کیسی ہو؟ ویسے بڑی بات ہے آپ نے فون اٹھا کر پہلے سلام کر لیا۔" گاڑی کی طرف واپس مڑتے وہ بولا۔
"میں جیسی بھی ہوں تم اس بات کو چھوڑو اور الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔ مجھے یہ بتاؤ، تم کدھر ہو؟"تانیہ کے لہجے میں ناراضگی کو محسوس کرتے طلال نے لمبی سانس لی۔
" ساحل سمندر پر، کیوں تمھیں آج میری یاد کیسے آگئی؟" گاڑی میں موجود پانی کی بوتل سے پاؤں دھونے کے بعد اس نے جوتے بند کرتے بولا۔
" مجھے تم سے بات کرنی ہے مگر وہ بات میں گھر پر نہیں کرسکتی۔" وہ اتنی آہستہ آواز میں بولی کہ طلال نے اگر ائیرپوڈز نہ لگائے ہوتے تو اسے شاید سمجھ بھی نہیں آتی۔
"تمہیں بھی کوئی الزام لگانا ہے تو تم گھر آجاؤ میں بھی کچھ منٹ میں پہنچ جاؤں گا۔" طلال کے لہجے کا طنز دوسری طرف موجود تانیہ کو چبھا۔
" تم مجھے میرے گھر سے پک کر لو۔ میں اپنے یا تمھارے گھر بات نہیں کرنا چاہتی۔" طلال کو حکم دے کر اس نے فون بند کردیا۔
"چل طلال اب اس لڑکی سے بھی باتیں سننی پڑیں گی۔" گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے بےبسی سے سوچا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"آنٹی آپ اب اپنے مالکوں کے پاس واپس چلی جائیں۔ امّی اب پہلے سے کافی بہتر ہیں۔" گھر پہنچنے تک ایشل یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ امل نے اس پر جو بھی احسانات کیے ہیں اب اسے واپس کرے گی۔
"پر ایشل بیٹی بڑی بیگم صاحبہ نے مجھے رکھا ہے آپ کی امّی کی دیکھ بھال کے لئے۔" ملازمہ نے حیرت سے کہا۔
" مگر اب میری امّی بالکل ٹھیک ہیں اور آپ مجھے بتا دیں آپ کی جو بھی تنخواہ بنی ہے۔" اپنی ماں کے چہرے پر ابھرنے والی حیرانگی کو اگنور کرتے ایشل دوبارہ بولی۔
"میری تنخواہیں تو ساری اس اکاؤنٹ میں جاتی ہیں جو بڑے صاحب نے ملازوں کو کھلوا کر دیے ہیں۔" سلمیٰ نے بتایا۔
"ایشل بچے کیا بات ہے، کیوں بیچاری کو نکال رہی ہو۔" وہ ماں تھیں اس کے لہجے میں موجود درد کو محسوس کررہی تھیں۔
" کچھ نہیں ہوا امّی، اور ان کو تو اس گھر میں کام مل جائے گا میں ان سے ان کا روزگار نہیں چھین رہی۔ اور آنٹی آپ اپنے صاحب کو فون کر دیں کہ وہ آپ کو یہاں سے لے جائیں۔" بولتے ساتھ اس نے سلمیٰ کا فون اٹھا کر ان کی طرف بڑھایا اور خود صحن میں بچھے پلنگ پر بیٹھ گئی۔
" تم اس کی باتوں پر دھیان نہ دو شاید پیپر میں کچھ بھول آئی ہوگی تبھی غصّہ نکال رہی ہے۔" انہوں نے سلمیٰ کو تسلی دی۔
"امّی میں غصے میں نہیں ہوں اور آپ پلیز جائیں اور ان لوگوں سے پوچھ کر مجھے اپنی اتنے دنوں کی تنخواہ کا بھی بتائیے گا میں اپنے سر کسی کا احسان نہیں رکھنا چاہتی۔" امّی کی بات سنتے وہ اندر آتے غصے سے بولی۔ سلمیٰ نے انہیں دیکھا۔
"سلمیٰ تم جاؤ اور جو یہ کہہ رہی ہے وہ کرو۔" امّی نے سلمیٰ کو کہا تو اس نے انصاری صاحب کو فون کیا اور پھر اپنے ساتھ لائے بیگ میں کپڑے رکھنے لگیں۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
امل کو گھر ڈراپ کر کے وہ آفس آیا تو اپنے آفس روم میں ماہا کو بیٹھے دیکھ کر ٹھٹکا۔
"مس ماہا آپ کو کوئی کام تھا۔" اپنی چئیر پر بیٹھتے بولا۔
"یہ فائل آپ کو دکھانی تھی مگر آپ یہاں نہیں تھے۔" اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل اجلال کے سامنے رکھتے گال پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔
"آپ یہ میری سیکرٹری کو دے دیتیں، خیر آپ جا کر اپنا کام کریں میں فائل پڑھ کر آپ کو بھیجتا ہوں۔" ماہا جس طرح اسے دیکھ رہی تھی اجلال نے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا۔
" اوہ مسٹر اجلال پلیز آپ مجھے آپ مت بولا کریں۔" ایک ادا سے اپنے ڈائی ہوئے بال جھٹکتی وہ کھڑی ہوئی۔
" مس ماہا آپ میری ایمپلائی ہیں اور میں سب ایمپلائز کو آپ ہی کہتا ہوں، ناؤ یو گو اینڈ فوکس ان یور ورک۔" ماہا کی بات پر اجلال کے لہجے میں سختی آئی تھی۔
"سب ایمپلائز ، لیکن میں آپ کے ان ایمپلائز جیسی نہیں ہوں، میں ماہا شیرازی ہوں۔"وہ بول کر وہاں رکی نہیں تھی۔ ماہا کے زور سے پاؤں زمین پر مار کر چلنے سے اس کی ہیل کی آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی۔
جس طرح وہ بول کر گئی تھی اس کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یقیناً اجلال اسے اب تک آفس سے نکال چکا ہوتا مگر وہ اس کے دوست کی اکلوتی اور سر پھری بہن تھی۔
اپنے غصے کو قابو کرتے اجلال فائل دیکھنے لگا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"میں کب سے تمھارا انتظار کررہی ہوں اور تم اب آئے ہو۔" کمر پر ہاتھ رکھے تانیہ لڑاکا عورتوں کی طرح بولی۔
" شرم کرو لڑکی، بجائے تم باہر آکر سلام کرتیں، تم تو لڑاکا عورتوں کی طرح لڑنے لگ گئی ہو اور تم کون سا میرے انتظار میں بوڑھی ہو گئی ہو۔" طلال نے پیسنجر سیٹ کا لاک کھولتے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو تانیہ نے اندر بیٹھتے زور سے دروازہ بند کیا۔
"آرام سے تو یہ لڑکی کوئی کام کر ہی نہیں سکتی۔" طلال نے سوچتے گاڑی ریسٹورنٹ کے راستے پر ڈالی۔
" عورت... میں تمھیں کہاں سے عورت لگ رہی ہوں زرا بتانا۔ اور کیا کہا تم نے بوڑھی ہو رہی ہوں۔ بوڑھی ہو گئی تمھاری ہونے والی، بیوی میں تو ابھی..." تانیہ کی کینچی کی طرح چلتی زبان کو طلال کے ہنسنے پر اچانک بریک لگا۔
" ہاں سہی کہا میری ہونے والی بیوی بوڑھی ہوگی، بیچاری پتا نہیں کدھر میرے انتظار میں بیٹھی ہے اور میں تمھیں سڑکوں پر اپنے ساتھ گھوما رہا ہوں۔" طلال نے تپانے والے انداز میں کہا اور تانیہ صاحبہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پرس اس کے کندھے پر دے مارا۔
" کیوں اپنے ساتھ مجھے بھی مارنا چاہتی ہو۔ اگر ابھی گاڑی سامنے والی گاڑی میں لگ جاتی پھر تم نے سیدھا جہنم میں جانا تھا۔"اس نے جان بوجھ کر گاڑی دوسری گاڑی کے قریب سے گزاری۔
" جہنم میں جاؤ تم۔ میں نے تمھیں کس لیے بلایا تھا اور تم ہو کہہ اپنی چلائے جارہے ہو۔" تانیہ کو طلال پر غصّہ آیا جس نے اسے اصل بات بھلا کر دوسری باتوں میں لگا دیا تھا۔
" یہ تم کیا ہوتا ہے، کتنی بار کہا ہے آپ بولا کرو تم سے بڑا ہوں میں۔" طلال نے ایک ریستوران کے باہر کار روکتی۔ فیملی کیبن کی بکنگ وہ پہلے کروا کے تانیہ کو لینے گیا تھا۔
" ایسی بھی کیا بات کرنی تھی جو تم گھر پر نہیں کرسکتی تھیں؟" ویٹر کو اپنا آرڈر لکھوانے کے بعد طلال سنجیدگی سے بولا۔
"کل تمھارے گھر جو ہوا...تمھارے اور اجلال بھائی کی لڑائی، وہ کس لڑکی کی بات کررہے تھے؟" طلال کے چہرے پر اب پہلے والی مسکراہٹ نہیں تھی۔
" سب کچھ تو تم سن چکی ہو پھر کیا پوچھنا ہے؟" طلال کے لہجے میں طنز ابھرا۔
"میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں تم اگر کسی اور لڑکی ...یا کوئی لڑکی تمھاری زندگی میں ہے..." طلال کے چہرے پر سختی ابھرتے دیکھ کر تانیہ کے گلے میں گلٹی ابھر کر ڈوبی۔ طلال کے کچھ کہنے سے پہلے ویٹر کھانا لے آیا۔
" اگر میرا کسی لڑکی کے ساتھ افئیر ہے یا میں کسی کے ساتھ اِنولوّڈ ہوں تو تم سب کو اتنا برا کیوں لگ رہا ہے؟" تانیہ کی آنکھوں میں جلن ہوئی۔ اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتی وہ تیزی سے اٹھی اور یہاں طلال کو احساس ہوا تھا وہ کچھ غلط بول چکا ہے۔
"تانیہ بیٹھو۔" اپنی جگہ سے اٹھتے اس نے تانیہ کو روکا۔
" تم کرو یہ لنچ میں ویسے بھی صرف تم سے بات کرنے آئی تھی۔" تانیہ کی بھرائی ہوئی آواز پر طلال کو خود پر غصّہ آیا۔
"یہاں بیٹھو اور میری بات غور سے سنو۔ میں جو کچھ تمھیں بتاؤں گا وہ سچ ہو گا اور یہ بات تم میری اجازت کے بغیر کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی۔"اسے واپس بیٹھنے کا بول کر طلال نے نرمی سے کہا۔
" پہلے اپنے یہ آنسو صاف کرو، اس طرح روتے ہوئے بلکل چڑیل لگ رہی ہو۔" تانیہ کی طرف ٹیشو بڑھاتے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا جہاں رونے کی وجہ سے اس کا مسکارا پھیل گیا تھا۔
تانیہ نے آنکھیں صاف کرتے خفگی سے اسے دیکھا۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
"امّی آپ کے پاس اس وقت کنتی رقم رکھی ہے اور جو زیور آپ نے الماری میں چھپا کر رکھا ہے وہ سب آپ مجھے دیں۔" سلمیٰ کے جانے کے بعد ایشل اپنی امّی کے پاس بیٹھتی بولی۔
" پیسے اور زیور کیوں چاہیے بیٹا؟" انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی آخر ان کی بیٹی کیا کرنا چاہتی ہے۔
" آپ کے علاج پر جو پیسہ امل کے گھر والوں نے خرچ کیا تھا مجھے ان کا وہ قرض انہیں لوٹانا ہے۔"امل کے گھر ہونے والی لڑائی ایک بار پھر سے یاد آئی۔
"آخر ہوا کیا ہے میں کل سے دیکھ رہی ہوں تم پریشان ہو، کیا تمھاری دوست کے گھر میں کچھ ہوا ہے؟" وہ کل سے اس کے اندر بدلاؤ دیکھ رہی تھیں۔
"امّی میں نے ان سے قرض مانگا تھا اور ان کا یہ بہت احسان ہے کہ اتنا وقت ہوگیا اور ان لوگوں نے قرض کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔"ایشل اب انہیں اپنی اور اجلال کی لڑائی کا نہیں بتاسکتی تھی۔
" مجھے پتہ ہے ایشل بات کچھ اور ہے کیونکہ امل سے جب میں نے ان کی رقم واپس کرنے کا کہا تو اس نے یہ بول کر وہ رقم لینے سے انکار کر دیا کہ آپ بھی میری ماں کی جگہ ہیں اور ایشل میری دوست نہیں بہن ہے اور اپنوں کے مشکل وقت میں ان کی مدد کی جاتی ہے،احسان نہیں۔" یہ سچ تھا ایک بار انہوں نے امل کو رقم دینی چاہی تھی جس پر اس نے صاف انکار کردیا تھا۔
"یا اللہ امّی یہ بات آپ اب مجھے بتا رہی ہیں۔" ایشل سر پکڑے وہی بیٹھ گئی۔
"مجھے لگا تمھاری دوست نے تمھیں یہ بات بتا دی ہوگی۔" عصر کی اذانیں سنتے وہ نماز ادا کرنے کے لیے اٹھ گئیں۔ ایشل وہیں بیٹھی یہ سوچ رہی تھی اب کس طرح وہ اس احسان کا بدلہ اتارے۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آج ناشتے کی میز پر امل اور طلال موجود نہیں تھے۔ طلال تو اس دن کے بعد ویسے ہی سب کے ساتھ کم بیٹھتا تھا اور جس وقت اجلال گھر ہوتا وہ یا تو گھر سے باہر چلا جاتا یا اپنے کمرے میں بند رہتا۔
"آج امل نہیں اٹھی، روز تو سب سے پہلے یہاں موجود ہوتی ہے۔" انصاری صاحب نے امل کی کمی محسوس کرتے کہا۔
" نہیں، ابھی پیپرز ختم ہوئے ہیں اس لیے آپ کی شہزادی آج آرام کررہی ہیں۔" مقدس بیگم نے چائے بناتے ہوئے بتایا۔
" اور طلال کا کب تک ہم سے بات نہ کرنے کا ارادہ ہے...؟" سوال اجلال نے کیا۔
" اجلال تم نے اس سے غلط طریقے سے بات کی تھی۔ تمھیں اگر اس بچی کا یہاں آنا اچھا نہیں لگا تھا تو تم ہمیں یا امل کو بتاتے۔ ایشل یہاں آئی بھی امل کے بلانے پر تھی۔تم نے خوامخواہ بچی کو ڈانٹا اور اب امل سے اس کی دوستی بھی ختم کروا دی۔" مقدس بیگم نے اجلال کو پچھلے دن کی نسبت آج بہتر موڈ میں دیکھ کر بولیں۔
" ممی پہلی بات وہ بچی نہیں کوئی پچیس چھبیس سال کی لڑکی ہے اور دوسری اس کی وجہ سے طلال مجھ سے لڑنے آیا۔ میں مانتا ہوں میں نے طلال کو غصے میں بہت سخت سنائی لیکن وہ میرا بھائی ہے، ہمارے درمیان آج تک کسی بات پر لڑائی نہیں ہوئی اور آج اس لڑکی کی وجہ سے ہم بہن بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔" نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے اجلال نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیا ہوگیا اجلال بیٹا، ہماری امل بائیس کی ہونے والی ہے تو وہ کہاں سے چھبیس سال کی ہوئی۔ تم نے امل سے اس کی دوستی اس لیے ختم کروائی ہے کہ تمھیں ایشل، امل سے بڑی لگتی ہے؟" انصاری صاحب اپنے بیٹے کی منطق پر حیران ہوئے۔
"السلام علیکم!" امل نے ڈائنگ روم میں آتے سب کو سلام کیا اور چئیر گھسیٹتے مقدس بیگم کے ساتھ بیٹھی۔
"وعلیکم السلام! ہو گئی ہماری شہزادی کی صبح؟" اجلال نے امل کو پیار سے پچکارا۔
"جی۔"امل نے یک لفظی جواب دیا۔
" تم ساری رات سوئی نہیں، آنکھیں دیکھو کیسے سوجی ہوئی ہیں۔" مقدس بیگم نے امل کو ٹوسٹ پکڑاتے کہا۔
"رات کو کتاب پڑھتے وقت کا اندازہ نہیں ہوا اس لیے دیر سے سوئی۔" وہ اپنے لہجے کی نمی کو چھپاتے بولی۔
"ٹھیک ہے آپ ناشتہ کریں ہم آفس کے لیے نکلتے ہیں۔ اللہ حافظ۔" اجلال کہیں اندر جانتا تھا امل جھوٹ بول رہی۔ مگر وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔
آہ یہ انا! انسان کو کبھی جھکنے نہیں دیتی۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
آج ہفتہ تھا اور دو دن بعد ان کی یونیورسٹی پھر شروع ہو جانی تھی۔ ایسے میں ایک ہی ڈیپارٹمنٹ اور ایک ساتھ بیٹھ کر لیکچرز لینے والیں کیسے ایک دوسرے کو ان دیکھا کریں گی۔
" آج ہفتہ ہے نا، تم گئی نہیں انسیٹیوٹ؟" پہلے اپنی ماں کی بیماری اور پھر پیپرز کے درمیان وہ انسیٹیوٹ کو بلکل فراموش کر چکی تھی۔
"آپ گھر پر اکیلی ہوں گی، اب آپ کا خیال کرنے کے لیے ملازمہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نہیں گئی۔" سردیوں کی ہلکی دھوپ میں بیٹھے وہ سوچو میں گم تھی جب امّی کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔
" تم کون سا پہلی دفعہ جاؤ گی یا پہلے میں کون سا ملازموں کے ساتھ رہتی ہوں۔ اب تمھاری پڑھائی شروع ہو گی تب بھی میں اکیلے ہی گھر رہوں گی۔"انہوں نے ایشل کے پاس چارپائی پر بیٹھتے کینو چھیل کر اس کے سامنے رکھے۔
کراچی میں سردی نہ ہونے کے برابر پڑتی ہے مگر اس بار پڑنے والی سردی نے کراچی والوں کو سورج کی اہمیت بتائی تھی۔
"امّی میں کچھ بندوبست کر لوں گی ملازمہ کا یا پڑوس والی آنٹی کو کہہ دیا کروں گی آپ کا خیال رکھنے کا۔" کینو کی کاش منہ میں رکھتے بولی۔
"کب تک پڑوس والے میرا خیال رکھیں گے اور ملازمہ کو تنخواہیں کہاں سے دیں گے ہم۔"وہ اب دوسرا کینو چھیل رہی تھیں۔
"آپ جانتی ہیں سردیاں اور یہ کھٹے پھل آپ کے لیے نقصان دہ ہیں، پھر بھی آپ بغیر سوئیٹر،جرسی کے بیٹھی ہیں اور یہ آپ کے لیے زہر کی طرح ہیں۔" چارپائی سے اترتی وہ کمرے سے ان کا سوئیٹر لے آئی۔
"بیماری کا کیا ہے یہ تو اب ساری زندگی ساتھ رہنی ہے۔ اب بندہ کچھ کھا کر ہی مر جائے کم ازکم مرنے کے بعد یہ تو نہ ہو کہ ہم نے اللہ کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔" ان کی بات پر ایشل کے گلے میں کچھ اٹکا تھا۔
"امّی آپ ایسی باتیں مت کیا کریں۔ میرا اس دنیا میں آپ کے علاؤہ کوئی نہیں ہے اگر آپ کو کچھ ہوا تو میں بھی مر جاؤں گی۔" ہمیشہ کی طرح وہ ان کے مرنے کی بات کرنے پر رونے لگی تھی۔
" میں مرنے سے پہلے تمھیں تمھارے گھر کا کر کے جاؤں گی جو میرے بعد تمھارا سب کچھ ہوگا۔" ایشل کے آنسو صاف کرتے وہ پیار سے بولیں مگر اب ایشل ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔
" آپ کو کچھ ہونے سے پہلے میں مروں گی۔" ہچکیوں کے بیچ انہیں ایشل کی بات سمجھ نہیں آئی۔
کہتے ہیں ہر بات سوچ سمجھ کر بولنی چاہیے۔کسے پتا کب اور کون سا وقت قبولیت کا ہو۔
⁕⁕⁕⁕⁕⁕
جاری ہے