Rah-e-taqdeer by Al...
 
Share:
Notifications
Clear all

Rah-e-taqdeer by Aleena Khan episode 02

1 Posts
1 Users
0 Reactions
236 Views
(@aleena-khan-officiall)
Eminent Member Customer
Joined: 11 months ago
Posts: 9
Topic starter  

ناول: راہِ تقدیر

از قلم : علینہ خان

 

دوسری قسط۔

 

           اجلال اپنے آفس میں بیٹھا کچھ فائلز  دیکھ رہا تھا جو مختلف یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس نے انٹرنشپ کے لیے بھیجی تھیں۔ وہ ان کو پڑھنے میں مصروف تھا جب اس کے پی۔اے نے اس کے کسی دوست کے آنے کی اطلاع دی۔

"سر آپ سے ملنے آپ کا کوئی دوست آیا ہے۔" پی۔اے کے بتانے پر وہ سوچ میں پڑ گیا آخر اس کا کون سا دوست اس کے آفس آیا ہے کیونکہ اس کے صرف چند ایک دوست تھے اور آج تک اس کا کوئی  اس کے آفس نہیں آیا تھا۔

"ٹھیک ہے بھیجو اور دو گلاس جوس بھی بھیج دینا۔" انٹرکام رکھنے کے بعد اس نے ٹیبل سے فائلیں اٹھا کر سائیڈ پر رکھیں تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

"کم ان۔"اس نے اجازت دیتے اندر آنے والے شخص کو دیکھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ آنے والا سلمان شیرازی تھا اس کا سب سے قریبی دوست۔

"ارے جناب السلام علیکم ، کیسے آنا ہوا محترم کا آج یہاں، کبھی ہمارے  بلانے پر تو آئے نہیں؟" اجلال نے اسے گلے لگاتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جس پر سلمان نے قہقہہ لگایا۔

"وعلیکم السلام ، کیا ہو گیا یار اب اگر آگیا ہوں تو تم ایسے ذلیل کرو گے۔ " اجلال نے اس سے دور ہو کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اس کے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھ گیا۔

"ذلیل کرنے والی بات نہیں ہے مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔" اجلال نے چہرے پر حیرت لاتے کہا۔

"لاؤ پھر تمھیں چٹکی کاٹ کر یقین دلاؤں۔"سلمان کی بات پر اجلال نے قہقہہ لگایا۔

وہ دونوں ابھی ہنس رہے تھے جب ڈور ناک کرکے ملازم اندر آیا اور اس نے جوس کے گلاس ٹیبل پر رکھے۔  ہر وقت اپنے سڑے ہوئے باس کو آج ہنستے دیکھ کر اسے گویا شاک لگا تھا۔

"کتنا اچھا ہوتا اگر باس ایسے ہی ہنس کر سب سے بات کرتے ہوتے ویسے ہنستے ہوئے اتنے اچھے لگتے ہیں۔" ملازم نے دل میں سوچتے ایک نظر ہنستے ہوئے اجلال انصاری کو دیکھا جس کے دائیں گال پر ہنسنے سے خوبصورت ڈمپل نمایاں ہوا تھا۔ایک بات تو واضح تھی یہ خبر اب پورے آفس میں پھیلنے والی ہے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"ہائے اللہ ، یہ کہاں سے لڑمر کے آئے ہو سمیر؟" سمیر کے چہرے پر جابجا چوٹوں کے نشانات دیکھتے صائمہ ممانی گھبرا کر بولیں۔

“یہ سب اس ایشل کے عاشق کا کیا دھرا ہے۔" سمیر نے پھنکارتے ہوئے کہا جبکہ صائمہ ممانی نے حیرانگی سے منہ پر ہاتھ رکھا۔

“ایشل کا عاشق… تو چل میرے ساتھ ابھی اس کی ماں کو اس کے کرتوت بتا کر آتے ہیں، بڑا مان ہے نا اسے اپنی بیٹی پر۔" ٹشو سے سمیر کے زخم صاف کرتیں وہ مسلسل بڑبڑاتے ہوئے بولے جارہی تھیں۔

“کیا ہو گیا بھابھی، اور یہ سمیر کو چوٹ کیسے لگی۔" آمنہ ممانی ہمیشہ کی طرح ساڑھی پہنے، تیار ہوئے نیچے والے پورشن میں آئیں تو صائمہ ممانی کو سمیر کے زخم صاف کرتے دیکھ کر بولیں۔

“یونیورسٹی میں اس ایشل کے کسی عاشق نے میرے بیٹے کو اس لیے مارا کہ یہ بیچارا اس منحوس ایشل سے کچھ نوٹس کا پوچھنے گیا تھا اور یہ بات اس کے عاشق کو بری لگ گئی۔ میں تو ابھی جا رہی ہوں اس کی ماں کو بھی تو پتہ چلے اس کی بیٹی کیا گل کھلا رہی ہے۔" صائمہ ممانی بات کو بڑھاؤا دیتے بولیں۔

“چلو میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں آخر پتا تو چلے اس لڑکی کا عاشق ہے کون؟" آمنہ ممانی کہاں پیچھے رہنے والی تھیں فوراً ان کے ساتھ جانے کے لیے مان گئیں۔

'کیسی کو نیچا دکھانا اور اسے بھرے مجمعے میں ذیل ہوتا دیکھنا، آج کے دور میں بہت عام بات ہے۔ مگر لوگ بھول جاتے ہیں جب وقت کا چکر الٹا گھومتا ہے تو اس کی چکی میں سب پستے ہیں۔'

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

" بس یہیں روک دو،آگے میں خود چلی جاؤں گی۔"گاڑی کو گھر کے دروازے سے تھوڑی پیچھے روکواتی، ایشل نے اپنا بیگ اٹھایا اور گاڑی کا دروازه کھولتے رکی۔

" امل تم بھی چلو میرے گھر،تمھیں امّی سے ملواتی ہوں۔" اس کی دوست آج پہلی بار اس کے گھر آئی تھی اور ایشل اسے کم از کم ایسے نہیں جانے دے سکتی تھی۔

"میں ضرور آتی مگر تم طلال کی شکل دیکھ رہی ہو اسے کتنی چوٹیں آئیں ہیں، ابھی یہاں سے  ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔ اب تمھارا گھر تو دیکھ لیا ہے، ان شاء اللہ پھر کبھی آؤں گی۔ اپنا خیال رکھنا۔" طلال کے آنکھوں کے اشارے سے منع کرنے پر امل نے جلدی سے بولی۔ ایشل ان کا شکریہ ادا کرتی اپنے گھر میں داخل ہوئی، جس کا دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔

"ارے بی بی، تم جانتی نہیں ہو تمھاری بیٹی باہر کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے۔" اندر داخل ہوتے اس کے قدم اچانک تھمے تھے، یہ اس کی ممانی کی آواز تھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ کمرے تک پہنچی جہاں اس کی امّی ، سمیر  اور دونوں ممانیاں موجود تھیں۔

"میری بیٹی ایسی نہیں ہے بھابھی ، سمیر کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔" امّی ان لوگوں کو اپنی بیٹی کے کردار پر کیچڑ اچھالنے پر بولیں اور کمرے کے باہر ایشل نے دیوار کا سہارا لے کر بامشکل خود کو سنبھالا۔

"لیں آگئی آپ کی صاحبزادی صاحبہ، پوچھیں اس سے، کون ہے وہ لڑکا جس نے اس کے پیچھے میرے معصوم بیٹے کو پیٹا ہے؟" ایشل کو وہاں دیکھ کر صائمہ ممانی  کھڑی ہوتیں اس کے پاس پہنچی۔

" یہ کیوں بتائے گی ؟ یونیورسٹی میں سارا دن یہ اس امیرزادے کے ساتھ پھرتی رہتی ہے اور اب بھی اسی کے ساتھ آئی ہو گی۔" سمیر کے جھوٹ پر اس نے نفی میں سر ہلاتے اپنی ماں کو دیکھااور دوڑ کر ان کے پاس آئی۔

" یہ… یہ جھوٹ بول رہا ہے امّی ۔ آپ…آپ جانتی ہیں میں ایسی نہیں ہوں،یہ مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔" اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھتے وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"پھر اس کا یہ حال کس نے کیا ہے بتاؤ۔ تم نے ہمیں پاگل سمجھ رکھا ہے کہ تم جو کہو گی ہم سن لیں گے۔ ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی یہ لڑکی ضرور ہماری ناک کٹوائے گی۔" ممانی نے اس پر بہتان لگایا۔

" آپ کا بیٹا مجھے راستے میں روک کر تنگ کر رہا تھا اور جس پر یہ الزام لگا رہا ہے اس نے صرف  میری مدد کی تھی۔" وہ جانتی تھی اس کی ممانی کبھی اپنے بیٹے کو کچھ نہیں کہیں گی۔

"سمیر نے بس تم سے امتحان کے لیے مدد ہی مانگی تھی۔آخر وہ لگتا کیا ہے تمھارا اور کس رشتے سے وہ تمھاری مدد کررہا تھا بی بی؟" آمنہ ممانی کیسے پیچھے رہ سکتی تھیں۔

"امّی وہ امل کا بھائی ہے اور جب سمیر نے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو مجھے بچانے کے لیے وہ بیچ میں آگیا۔ "  اپنی ماں کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔

"ہم اب تمھارے  گھر نہیں آئیں گے ، کل کلا کو یہ لڑکی کوئی چاند چڑھا دے پھر سب نے ہمیں ہی بولنا ہے کہ ماموں ممانیوں نے اس کی اچھی تربیت نہیں کی۔"اپنے بیٹے پر کوئی آنچ آئے بغیر وہ سارا الزام ایشل پر ڈالتیں چلی گئیں۔

" امّی آپ تو میرا یقین کریں… میرا کوئی قصور نہیں ہے… امّی…"اپنی ماں کو بھی خود سے رخ موڑتے دیکھ کر وہ زمین پر بیٹھی روتے ہوئے انہیں اپنی بے گناہی کا یقین دلاتی رہی۔   

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"تم نے کچھ سوچا کہ تم گھر میں سب کو کیا بتاؤ گے؟"  گاڑی کو مین روڈ پر ڈالتے وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا جب امل کی آواز پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"کیا مطلب کس بارے میں گھر بتانا ہے؟" اور امل کا دل کیا اسے چلتی گاڑی سے باہر پھینک دے۔

"یہ جو چہرے پر نقشونگار بنے ہیں اور یہ بینڈیج لگائی ہے، اس کا کہہ رہی ہوں۔" اس نے طلال کے سٹیرنگ پر رکھے بازو پر مُکہ مارا۔

"آوچ … تم میری بہن ہو یا ڈائن ؟" دوسرے ہاتھ سے بازو مسلتے اس  نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

"تم مجھے ڈائن بولو یا جو مرضی  کہو مگر میں گھر جاکر تمھاری حمایت نہیں کرنے والی۔"امل سینے پر بازو باندھے کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔

"یار بول دیں گے کچھ بھی۔"طلال کو خود کوئی بہانا سمجھ نہیں آرہا تھا، آج تک اس کی کسی سے لڑائی ہی نہیں ہوئی تو وہ گھر میں کیا کہے۔

"تم گھر جاؤ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں ، اگر ممی پوچھیں تو بول دینا اس کے کسی دوست کا فون آیا تھا وہاں چلا گیا۔" گھر کے باہر گاڑی روکتے اس نے امل کی طرف کے دروازے کا لاک کھولتے کہا۔

"تم مجھے جھوٹ بولنے کا کہہ رہے ہو۔"  امل حیرت سے طلال کو دیکھ رہی تھی۔

" کیا اب تم اپنے بھائی کے لیے ایک جھوٹ بھی نہیں بول سکتیں؟" طلال نے افسوس سے سر ہلاتے کہا۔

"طلال  ممی، پاپا نے ہمیں آج تک جھوٹ بولنا نہیں سکھایا۔ تم جانتے بھی ہو اس ایک جھوٹ کے بدلے پھر تم کتنے جھوٹ بولو گے۔" امل نے اسے سمجھانا چاہا۔

"مجھے پتا ہے مگر میں کچھ دیر دماغ کو پرسکون رکھنا چاہتا ہوں۔تم پلیز سب سنبھال لینا۔"طلال ونڈوسکرین سے  سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

 "اس طرح جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے لیکن پھر بھی میں ممی کو کہہ دوں گی مگر اس کے بعد سب تمھیں خود سمبھالنا ہو گا۔" گاڑی کا دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے امل گیٹ پار کر گئی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"پھر کیا سوچا ہے تم نے؟" حسان نے سکندر کو لان میں کھڑا پایا تو اس کے پاس جا کر بولا۔

“کس بارے میں؟" سکندر نے انجان بنتے پوچھا۔

“کل میں نے تمھیں کہا تھا تم اپنے بیوی بچوں کے لیے ہی آفس آجایا کرو۔" حسان نے اسے یاد دلایا۔

“دیکھیں بھائی میرے بیوی بچوں کا خرچ تو ویسے بھی بابا جان اٹھاتے ہیں پھر مجھے کیا ضرورت خود کو تھکانے کی۔" لان میں موجود چئیر پر بیٹھتے سکندر لاپرواہی سے بولا۔

“میں یہی کہنا چاہتا ہوں کب تک بابا جان تمھارا خرچ اٹھاتے رہیں گے۔ دیکھو سکندر تم اپنی ذمداریاں کسی دوسرے کے کندھوں پر ڈال کر خود کو برباد کر رہے ہو۔ تمھارے پاس اچھی تعلیم ہے پھر اپنی کمپنی ہے۔ کہیں باہر دھکے نہیں کھانے پڑ رہے۔ تمھیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے۔" حسان نے سکندر کو دوبارہ سمجھایا ۔

“میں بھی تو یہی کہہ رہا گھر بیٹھے سب مل رہا ہے پھر میں جاب کیوں کروں۔ آپ کو شوق ہے آپ کرتے رہیں مگر اب آپ دوبارہ مجھے آفس آنے کا مت بولیے گا۔" حسان کی ساری باتیں نظر انداز کرتے سکندر نے صرف اپنے مطلب کی بات کو دہرایا۔

حسان نے بےبسی سے سکندر کو دیکھا جسے اتنے لمبے لیکچر کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا۔

احمد صاحب اپنے کمرے کی کھڑکی سے ان کی باتیں سن چکے تھے اور اپنے دل پر پتھر رکھتے وہ اب اپنے فیصلے کو حتمی شکل دینے والے تھے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

جب اس کی آنکھ کھلی تو خود کو فرش پر لیٹے پایا، ایک دم اٹھتے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ دوپہر کا واقع یاد آتے اسے اندازہ ہوا وہ روتے روتے وہیں سو گئی تھی۔ کمرے میں باہر سے آتی ہلکی روشنی شام ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی کمزوری کے باعث اس سے اٹھا نہ گیا۔

اسے یاد آیا وہ صبح جلدی میں ناشتہ نہیں کرکے گئی تھی اور یونی میں جو کچھ ہوا، پھر ممانیوں نے اس کے گھر میں آکر اس پر جو کیچڑ اچھالی، اس سب کے بعد اسے کسی چیز کا ہوش نہیں رہا تھا۔ صوفے کے ہتے پر ہاتھ رکھتے وہ اٹھی۔ زمین پر سونے کی وجہ سے اس کی کمر میں درد بھی ہو رہا تھا۔ گھڑی پر شام کے پانچ بج رہے تھے۔ بھوک سے نڈھال قدم گھسیٹتے وہ ڈرائینگ روم سے باہر آئی جہاں ہر طرف سکوت تھا۔

" اس وقت امّی صحن کا بلب جلا دیتی ہیں ، آج کیوں نہیں جلایا۔" صحن کی لائٹ آن کرتے ایشل نے سوچا۔

"امّی… امّی ۔" سڑک کی طرف کا دروازہ بند دیکھ کر اس نے امّی کو آواز دیتے کچن میں جھانکا پر وہ وہاں بھی نہیں تھیں۔

" امّی آپ مجھ سے ناراض ہیں مگر میری بات کا جواب تو دیں۔ آج تو آپ نے لائٹس بھی نہیں آن کیں۔"وہ  ان کے کمرے میں چلی آئی، سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارتے لائٹ جلائی ،مگر انہیں اس وقت سوتے ہوئے دیکھ ٹھٹکی۔

"امّی، آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ناں ؟ " ایشل ان کا کندھا ہلاتے بولی مگر وہ نہ اٹھیں۔ اس نے تشویش سے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو ٹھنڈا تھا پھر ان کا چہرا بھی تھپتھپایا مگر وہ بےسد پڑی رہیں۔

"امّی خدا کا واسطہ آنکھیں کھولیں ، ایسے مت کریں میرے ساتھ ،امّی…۔" ایشل ان کا بازو ہلاتی رو رہی تھی۔موبائل کی تلاش میں نظر دوڑاتے اسے خیال آیا اس کا موبائل بیگ میں ہے ۔آنسو صاف کرتی وہ اپنی امّی کے پاس سے اٹھی،بھاگ کر بیگ سے فون نکال کر ایمبولینس کو فون کرکے ایڈریس بتاتی واپس آئی،الماری سے پیسے بیگ میں رکھ کر امّی کی چادرنکالی۔

کچھ ہی دیر میں ایمبولینس پہنچی تو محلے کے لوگ بھی ایمبولینس کی آواز سن کر گھروں سے باہر آگئے۔انہیں اسٹیچر پر لٹا کر ایمبولینس میں ڈالا گیا تو وہ گھر کو تالا لگا کر ایمبولینس میں بیٹھی جہاں عملہ انہیں آکسیجن لگا چکا تھا ۔ہسپتال پہنچنے تک  امّی کا ہاتھ پکڑ کے ایشل دعائیں پڑتی ان پر پھونک رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"امل، طلال کدھر ہے؟ وہ تو یونی سے آتے ہی تم سے پہلے مجھے سلام کرنے آتا ہے؟" امل ماں کو سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جانے لگی جب مقدس بیگم کی آواز پر رکی۔

"ممی اس کے کسی دوست کی کال آئی تھی اس لیے وہ مجھے گھر ڈراپ کرکے چلا گیا۔"اس نے گھبرا کر آنکھوں کو بند کر کے طلال کے کہے الفاظ دھرائے، چونکہ امل کا رخ دروازے کی جانب تھا تبھی وہ اس کے تاثرات نہیں دیکھ پائیں۔

"آج پہلی بار ایسا ہوا ہے ورنہ وہ یونی سے آنے کے بعد کہیں نہیں جاتا۔" انھوں نےحیرت سے کہا"۔

"شاید کوئی ضروری کام ہو کہہ رہا تھا شام تک آئے گا۔" اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ ان کا لاڈلہ لڑائی کے زخم چھپانے گیا ہے۔

" ایسا بھی کیا کام ہے جو شام کو فارغ ہو گا۔" انہیں تشویش ہوئی۔

"ممی وہ کون سا چھوٹا بچہ ہے آجائے گا آپ پریشان نا ہوں۔میں فریش ہو کر آتی ہوں پھر اکٹھے لنچ کرتے ہیں۔" اپنی ماں کو تسلی دیتی وہ دل ہی دل میں طلال کو سلاواتوں سے نوازنے لگی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"اپنا یہ سامان اٹھاؤ اور نکل جاؤ میرے گھر سے ابھی اور اسی وقت۔ تم جیسے انسان کو میں اب ایک منٹ بھی اور برداشت نہیں کرسکتا۔"احمد صاحب کی غصے میں بھری آواز لاونج میں گونجی۔ان کی آواز میں ایک تھرتھراہٹ تھی، جیسے وہ اپنے جذبات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

 "بابا جان آخر ہوا کیا ہے جو آپ اسے یوں گھر سے بےدخل کر رہے ہیں؟"حسان نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں حیرت اور فکر ملی جلی تھی۔

سکندر کے چہرے پر ایک تلخ مسکان ابھری۔

"ہاں ہاں جارہا ہوں۔ مجھے بھی شوق نہیں ہے آپ کے ٹکڑوں پر پلنے کا۔" اس کی آواز میں ایک کڑواہٹ تھی،آج وہ اپنے باپ سے ہر قسم کا رشتہ توڑ رہا تھا۔

"یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم بابا جان سے؟" حسان کی آواز میں ایک سختی تھی،  اس نے سکندر کو بدتمیزی کرنے سے روکا ۔لیکن وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

"جارہا ہوں میں یہاں سے ہمیشہ کے لیے اور اب کبھی مر کر بھی آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا اور جو آپ میرے ساتھ کر رہے ہیں میرا سب کچھ مجھ سے چھین کے، اس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ میری یہ بات یاد رکھیے گا۔" اس کی آواز تیز تھی پھر وہ اپنا سامان اٹھائے، بیوی بچے کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔

حسان نے اپنے باپ کی طرف دیکھا،  "بابا جان آپ نے اسے کیوں اس گھر سے نکلا ہے، کہاں جائے گا وہ اس کے پاس کون سا رہنے کے لیے کوئی ریہائش ہے؟" اس کی آواز میں ایک فکرمندی تھی۔

"وقت آنے پر تمھیں اندازہ ہوجائے گا کہ میں نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا۔"احمد صاحب نے ایک لمبی سانس لی، ان کی آواز میں ایک سنجیدگی تھی۔

حسان نے بے بسی سے اپنی بیوی کو دیکھا، جو اپنی گود میں موجود بچے کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"دراصل میں مجھے تم سے ایک کام تھا، یا یہ کہہ لو تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔"سلمان نے گہری سانس لے کر اپنے آنے کا مقصد بتایا۔

 "چلو اس بہانے تم میرے آفس تو آئے، ورنہ تم نے تو قسم کھائی ہوئی تھی یہاں نہ آنے کی۔"اجلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"تم میرے بچپن کے دوست ہو، اور میری بہن کو بھی تم جانتے ہو۔" سلمان نے آہستہ سے کہا۔

"تمھاری بہن ماہا، ہاں میں جانتا ہوں، کیوں کیا ہوا؟" اجلال نے حیرت سے پوچھا۔

"یار وہ کسی بڑی کمپنی میں انٹرنشپ کرنا چاہتی ہے، مگر ڈیڈ نے اسے منع کر دیا کہ وہ اپنی لائف انجوائے کرے، اور تم جانتے ہو ایک بار وہ کسی چیز کو لینے یا کسی کام کا کرنے کا بول دے تو پھر کر کے ہی رہتی ہے۔" اس نے تمہید باندھی۔

"ہاں، مگر میں اس میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟" اجلال نے نا سمجھی سے پوچھا۔

"ڈیڈ نے مجھے یہ کام سونپا ہے کہ کسی اچھی کمپنی میں اس کی انٹرنشپ کے لیے ڈھونڈوں، اور مجھے تمھاری کمپنی کے علاوہ کوئی بھروسے مند کمپنی نظر نہیں آئی۔" سلمان نے ماہا کی فائل اجلال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے، اگر ماہا بزنس میں انٹرسٹ رکھتی ہے تو تم لوگوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ آج کے معاشرے میں ایک لڑکی کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ وہ اپنے لیے کچھ کر سکے۔" اجلال نے ایک نظر فائل پرڈالی۔

"مطلب تم اسے ہائیر کرنے کو تیار ہو؟" سلمان نے حیرانی سے پوچھا۔

اجلال نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا، جس پر سلمان نے آٹھ کر اسے گلے لگایا۔

“تھینک یو یار تم نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی۔ “

"تمہیں پتا ہے سلمان، ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جو وہ ڈیزرو کرتی ہیں۔ ہم لوگ انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے اتنا کمزور بنا دیتے ہیں کہ وہ اکیلے گھروں سے نکلنے سے ڈرتی ہیں۔ اگر مرد یہ بات جان لیں کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے تو ہم انہیں کبھی پاؤں کی جوتی نہ سمجھیں بلکہ انہیں اپنے مقابل کھڑے ہونے کے قابل بنائیں۔ انہیں اتنی تعلیم و تربیت دیں کہ وہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کر سکیں تو یقین جانو ہمارا معاشرہ ترقی کرے گا۔" اجلال نے سنجیدگی سے کہا۔

"میں تمھاری مدد کا بہت شکر گزار ہوں، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تمھارا شکریہ کیسے ادا کروں۔" سلمان کے چہرے پر خوشی کا تاثر تھا۔

"شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چلو اب اس خوشی میں تمھیں ڈنر کرواتا ہوں۔" اجلال نے اسٹینڈ سے کوٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے مگر بل میں پے کروں گا۔"سلمان اس کے پیچھے قدم اٹھاتے بولا۔وہ دونوں باتیں کرتے آفس سے باہر نکل گئے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"یا اللہ میری ماں کو صحت دے میرا ان کے علاؤہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔" آئی.سی.یو. کے باہر رکھے بینچ پر بیٹھی وہ نظریں زمین پر جمائے مسلسل دعائیں کررہی تھی۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا انہیں دوسری بار ہارٹ اٹیک ہوا تھا، گھنٹے سے وہ باہر بیٹھی ڈاکٹرز  کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی تھی جو کوئی بھی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے تھے۔

"مریض کے ساتھ آپ کے علاؤہ اور کون آیا ہے؟" ایک ڈاکٹر آئی.سی.یو. سے باہر نکلی۔

" میری امّی کا میرے سوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے." ڈاکٹر نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"آپ لوگوں کے کوئی رشتےدار تو ہوں گے آپ ان کو بلائیں ہمیں کچھ پیپرز سائن کروانے ہیں۔"ایک سینئر ڈاکٹر  نے باہر آ کر کہا۔

"پیپرز … کیسے پیپرز ڈاکٹر صاحب ، مم… میری امّی ٹھیک تو ہیں ناں؟ آپ لوگ کچھ بتا کیوں نہیں رہے؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اندر جا کے اپنی ماں کو دیکھ آئے۔

"دیکھیں  ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں اور آپ بھی جانتی ہیں کہ آپ کی امّی کو دوسری دفعہ اٹیک ہوا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں ان کی سرجری کی جائے مگر اس کے لیے مریض کے گھر والوں سے سائن لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کسی مرد کو گھر سے بلائیں تاکہ باقی معاملات ہم ان سے طے کریں۔" ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں بول کر چلے گئے اور ایشل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سرجری کے پیسے وہ کہاں سے ادا کرے گی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ہسپتال سے دوا لینے اور زخموں پر مرہم لگوانے کے بعد طلال اب اپنے زخموں کو چھپانے کے لیے گاڑی کو بے مقصد سڑکوں پر دوڑاتا رہا ،اب شام کے دھندلے اندھیرے میں  اس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈالی۔ سورج کی آخری کرنیں افق کے پار چھپنے کو تھیں، اور آسمان پر نارنجی اور گلابی رنگ کی شفق بکھری ہوئی تھی۔

گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، طلال نے اس خوبصورت منظر کو محسوس کیا۔اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی اسے اپنے زخموں کو چھپانے کے لیے گھر سے باہر بے مقصد پھرنا پڑے گا مگر وہ زیادہ دیر بھی گھر سے باہر نہیں رہ سکتا تھا۔ گھروں کی چھتوں پر جلتے بلب کی روشنیاں، گلیوں میں پھیلتی کھانوں کی خوشبو، اور ہوا میں گونجتی مسجدوں سے آتی اذان کی آواز نے شام کے منظر کو اور بھی دلکش بنا دیا تھا۔

جیسے جیسے وہ گھر کے قریب پہنچ رہا تھا، آسمان پر تارے جگمگانے لگے تھے اور چاند نے بھی اپنی مدھم روشنی سے شام کے منظر کو رات میں بدل دیا۔ طلال گاڑی گھر کے پورچ میں کھڑی کر کے گھر میں داخل ہوا۔

لاونج میں قدم رکھتے اس نے سکون کا سانس لیا کیونکہ اس وقت سب مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے تو کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں تھا۔ 

"طلال کہاں تھے تم سارا دن اور صبح سے تم اب گھر لوٹے ہو، موبائل تمھارا آف تھا آخر تھے کہاں تم؟" وہ سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگا تھا جب مقدس بیگم کی آواز پر وہ رکا۔”اُفس یار پھنس گئے۔“

"کہیں نہیں تھا بس دوستوں کے ساتھ آوٹنگ کا پلان بن گیا تھا اور سوری موبائل کی بیٹری ڈیڈ تھی۔" طلال نے بغیر رخ موڑے انہیں جلدی سے بہانہ بنایا ،وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں اس کے چہرے پر لگے زخم دیکھیں۔

"ادھر دیکھو میری طرف طلال، مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو۔" انہیں تشویش ہوئی۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے ممی آپ بلاوجہ پریشان ہو رہی ہیں۔" طلال اپنی بات کہہ کر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوا گیا جبکہ مقدس بیگم ابھی تک اس کی حالت سمھجنے سے قاصر تھیں۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

امل نے نماز سے فارغ ہو کر ایشل کو کال ملائی مگر کافی دیر جواب موصول نہ ہونے پر اسے پریشانی ہونے لگی۔ اس نے ایک بار پھر ایشل کا نمبر ٹرائی کیا۔

"ایشل پلیز فون اٹھاؤ، یا اللہ ایشل کے گھر سب خیریت ہو۔" بار بار نمبر ملانے پر بھی کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا۔ اب تو اسے صحیح معنوں میں ٹینشن ہو رہی تھی۔ امل اپنا فون لیتی دھاڑ سےطلال کے کمرے کا دروازہ کھولتی داخل ہوئی جہاں وہ شیشے کے سامنے کھڑا چہرے پر آئے زخموں پر کوئی کریم لگا رہا تھا۔ امل کو اس طرح کمرے میں دیکھ کر اس کے دل سے صرف ایک ہی دعا نکلی تھی "اللہ خیر کرے۔"

"کیا ہو امل سب خیریت تو ہے تمھارے چہرے کی ہوائیاں کیوں اُڑی ہوئی ہیں۔"

"طلال وہ ایشل…" اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بولے۔

"کیا ہوا ہے ایشل کو، وہ خیریت سے تو ہے؟" ایشل کے نام پر طلال سب کچھ چھوڑکر امل کی جانب متوجہ ہوا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

"طلال ایشل میرا …فون نہیں اٹھا رہی میں… اسے کب سے کالز کر رہی ہوں، بیل جا رہی ہے مگر کوئی جواب موصول نہیں ہورہا۔" امل کی آواز بولتے بولتے بھرا گئی۔

"یا اللہ مجھے ایسے کیوں لگ رہا ہے جیسے ایشل کسی مشکل میں ہے۔"طلال نے دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا۔

"امل تم…تم ایک بار پھر کوشش کرو کیا پتا وہ کسی کام میں مصروف ہو یا اس کا فون سائیلنٹ پر ہو۔" اس نے امل سے زیادہ خود کو تسلی دی۔

امل ایک بار پھر ایشل کا نمبر ملا رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ایشل نے نماز کے بعد آنکھیں بند کر کے دعا کیے جارہی تھی۔ اس کا فون مسلسل بج رہا تھا، لیکن اس کی توجہ صرف اپنی ماں کی صحت کی دعا میں مرکوز تھی۔ پرئیر روم سے باہر آ کر، وہ اسی کرسی پر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، دل میں بے چینی اور دماغ میں سوالات کا طوفان۔

 اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی فون پر خبر نہیں دی تھی۔رشتےداروں کے نام پر اس کے ماموں اور ممانیاں تھیں جن سے وہ مر کر بھی مدد نہ مانگتی۔ مگر اب سرجری کے لیے وہ پیسوں کا بندوبست کہاں سے کرے گی اس کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے پھر نانا کی پینشن جو وہ مرنے سے پہلے اس کی ماں کے نام کر گئے تھے وہ بھی اتنی نہ تھی کہ سرجری ہوسکے۔

وہ ابھی اسی کشمکش میں تھی جب ایک بار پھر اس کا موبائل بجا۔ ایشل نے گود میں رکھے موبائل پر جگمگاتے نام کو دیکھا۔ کال امل کی تھی اسے ویسے بھی کسی سہارے کی ضرورت تھی اس نے کال یس کرتے فون کان سے لگایا۔

"ایشل تم کہاں ہو یار میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں تمھیں اندازہ ہے میں کتنی پریشان ہو گئی تھی۔ایشل تم سن رہی ہو۔" ایشل کے فون اٹھاتے امل نے نان سٹاپ بولنا شروع کر دیا۔

"امل، میری امّی…"ایشل کی سسکی فون میں گونجی تھی۔

"ایشل آنٹی ٹھیک تو ہیں؟ مجھے بتاؤ یار۔"امل نے پریشانی سے پوچھا طلال کو بھی پریشانی نے گھیرا تھا۔ طلال نے اشارے سے فون سپیکر پر ڈالنے کو کہا۔

"امل امّی…امّی کو ہار…ہارٹ اٹیک ہوا ہے… ان کی …حالت بب…بہت خراب ہے،ڈاک… ڈاکٹرز کہہ رہے… ہیں کہ فوری سر…سرجری کی ضرورت ہے۔میں بلکل اکیلی ہوں امل مجھ ۔۔مجھے کچھ سمجھ نن…نہیں آرہی۔تت…تم پلیز آجاؤ۔"اس کی سسکیاں فون کے سپیکر سے باہر گونجی رہی تھیں۔

""تم…تم پریشان نہ ہو میں کچھ کرتی ہوں بلکہ میں تمھارے پاس آرہی ہوں تم خود کو سنبھالو پلیز۔" امل نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کہا۔اس کی دوست مشکل میں تھی اور جب ایک دوست مشکل میں ہو تو دوسرا دوست اس کے لیے بےچین ہو جاتا ہے۔

"پلیز… جلدی آنا۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔" ایشل فون بند کرتے ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔

دوسری جانب امل نے فون بند کرتے طلال کو دیکھا جو ساکت کھڑا تھا اور اس کی آنکھیں میں ایشل کے لیے تکلیف امل کے لیے نئی نہیں تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

یونیورسٹی کے پہلے روز امل نے صرف ایک ہی دوست بنائی تھی۔ ایشل شروع میں طلال کو مخاطب بھی نہیں کرتی تھی اور طلال ہمیشہ اس وقت امل کے پاس جاتا جب وہ دونوں باتیں کررہی ہوتیں یا کوئی اسائنمنٹ بنارہی ہوتی۔ مگر کچھ  ہی مہینوں بعد ایشل کی امّی کو مائینر ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس کی وجہ سے ایشل اکثر غائب دماغی سے لیکچر سنتی تھی۔ طلال کو شروع میں ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ضرور ایشل کیسی پریشانی میں ہے۔ اس نے یہ بات امل کو بتائی ۔

" تمھیں کیسے پتا ایشل پریشان ہے؟" امل نے آنکھیں سکیڑتے طلال سے پوچھا۔

"بس مجھے پتا ہے کہ وہ کسی بات کو لے کر پریشان ہے۔" طلال نے کہا۔

"جہاں تک میں ایشل کو جانتی ہوں وہ تم سے بات تک نہیں کرتی تو اس نے تمھیں اپنی پریشانی کا کیسے بتادیا۔ دیکھو طلال اگر تم کوئی مذاق کر رہے ہو تو میں بہت برا پیش آؤ گی، یہ مت بھولنا میں تم سے ایک سال بڑی ہوں۔" امل کو لگا وہ مذاق کررہا ہے۔

"پتہ نہیں مگر میرا دل کہہ رہا ہے وہ پریشان ہے ، اگر تمہیں نہیں یقین تو اسے فون کر کے پوچھ لو۔" طلال صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

اگلی صبح امل کے پوچھنے پر ایشل نے اسے اپنی امّی کے بارے میں بتایا تو وہ کچھ حیران ہوئی مگر پھر اکثر جب بھی ایشل کسی وجہ سے پریشان ہوتی طلال ہمیشہ اس کی پریشانی کو بھانپ جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب امل کے لیے نیا نہیں رہا تھا جبکہ ایشل طلال سے زیادہ فری نہیں ہوتی تھی مگر طلال جب بھی اسے پریشان دیکھتا تو ہمیشہ اسے ہنسانے کے لیے امل سے جان بوجھ کر لڑتا اور ان کی نوک جھونک دیکھ کہ وہ  اپنی پریشانی کچھ پل کو بھول کے ہنس دیتی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

طلال نے گاڑی کی چابیاں جیب میں ڈالیں اور امل کی طرف متوجہ ہو کر کہا، "تم ایسا کرو، ممی کو بتا کے آؤ، میں گاڑی نکالتا ہوں۔"

 "تمہیں چوٹ لگی ہے طلال، اور پھر پاپا اور بھائی بھی آ گئے ہوں گے ۔ اگر ان میں سے کسی نے تمھارے چہرے پر لگے زخم دیکھ لیے تو کیا جواب دو گے؟"امل نے طلال کے چہرے پر لگے زخم کی طرف دیکھا اور فکرمندی سے بولی۔

 "میری فکر چھوڑو، ایشل کو تمھاری ضرورت ہے۔ تم بس کچھ رقم ممی یا پاپا سے لے لینا۔" طلال نے ایک گہری سانس لی اور جواب دیا اور پھر اپنے والٹ میں چیک بک سے ایک چیک نکال کر باہر نکل گیا۔

سیڑھیاں اترتے ہوئے، طلال نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ ممی کچن میں تھیں، اور اس کا فائدہ اسے یہ ہوا کہ کسی نے اسے روکا نہیں۔

باہر پورچ میں صرف دو ہی گاڑیاں موجود تھیں: ایک اس کی اپنی اور ایک گھر کی، جو اس بات کا ثبوت تھیں کہ انصاری صاحب اور اجلال ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔ گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے، طلال نے گارڈ کو اشارہ کیا۔ اتنے میں امل ہینڈ بیگ تھامے باہر آئی۔

"ممی کو بتا دیا ہے، مگر وہ کہہ رہی ہیں اگر کوئی زیادہ پریشانی کی بات ہے تو پاپا یا بھائی کو کال کرکے بلالیں۔" امل نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

"نہیں، شاید اس کی ضرورت نہ پڑے۔ تم نے پیسے تو لے لیے تھے نا؟" طلال نے گاڑی ہسپتال کے راستے میں ڈالتے ہوئے پوچھا جس پر امل نے ہاں میں سر ہلایا۔

باقی سارا سفر خاموشی سے گزرا۔ ہسپتال پہنچ کر طلال نے امل کو اندر بھیجا، جبکہ وہ خود چیک کیش کروانے چلا گیا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

حسان کی آنکھوں میں اپنے بھائی کے لیے ترس اور بابا جان کے فیصلے کی وجہ سے مایوسی جھلک رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اب سکندر کی ان کی زندگی میں واپسی مشکل ہوگی۔

بابا جان کے غصے اور سکندر کا گھر چھوڑ کے چلے جانا، حسان  اور اس کی بیوی کے لیے یہ سب بہت عجیب تھا۔ اس رات وہ دوبارہ بابا جان کے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوئے تو بابا جان کو کھڑکی کے پاس کرسی پر بیٹھے دیکھا۔

“بابا جان، آپ نے اسے گھر سے کیوں نکالا؟ وہ آفس نہیں آرہا تھا مگر میں اپنی پوری کوشش کر رہا تھا اسے راضی کرنے کی۔” حسان نے آخرکار پوچھ ہی لیا۔

بابا جان نے گہری سانس لی اور کہا، “وہ شخص جو اپنے خاندان کی عزت کو خاک میں ملانے میں لگا ہو، میرے گھر میں رہنے کا حق نہیں رکھتا۔”

“لیکن بابا جان، کیا ہوا تھا؟” حسان نے پھرسے پوچھا۔

“اس نے میری بات نا مان کر نہ صرف ان آوارہ لڑکوں سے دوستی رکھی بلکہ خود کو نشے کا عادی بنایا اور دوسرے غلط کاموں میں بھی پڑ گیا، یہ سب میرے گھر کی روایات کے خلاف ہے۔” ان کی آواز غصے سے لرز رہی تھی۔

"بابا جان، میں جانتا ہوں کہ سکندر نے غلطی کی ہے، لیکن کیا ہم اسے ایک موقع نہیں دے سکتے؟" حسان نے نرمی سے کہا۔

حسان کو اپنے بھائی کی اس حرکت پر شرمندگی ہوئی۔کاش بابا جان اسے پہلے اس بارے میں بتا دیتے کہ سکندر نشے جیسی چیز میں لگ گیا ہے تو وہ  اپنے بھائی کو سمجھانے اور زندگی میں صحیح راستے کی پہچان کروانے میں ضرور مدد کرتا۔

بابا جان نے حسان کی طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں سختی کے باوجود ایک باپ کی محبت جھلک رہی تھی۔ "میں نے اسے بہت مواقع دیےحسان، لیکن اس نے ہر بار میری امیدوں کو توڑا ہے۔"

"تو کیا آپ اسے کبھی معاف نہیں کریں گے، اگر میں…"حسان کے آگے بولنے سے پہلے احمد صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کہنے سے روکا۔

"تم اس سے نہیں ملو گے حسان اور اگر تم نے اس سے ملنے یا اسے میرے سامنے لانے کی کوشش کی اس دن میں تمھارے لیے مرجاؤں گا۔اب فیصلہ تمھیں کرنا ہے کہ تم سکندر کو اس گھر میں لاؤ گے یا میرے فیصلے کا احترام کرو گے۔" حسان نے تڑپ کر بابا جان کو دیکھا۔

"میرے لیے آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہے بابا جان۔"اس نے احمد صاحب کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا، مگر دل میں بھائی کی جدائی کا بھی دکھ تھا۔

مگر اب بابا جان کے فیصلے کے بعد وہ جانتا تھا کہ اب سکندر بھی کبھی ان سے نہیں ملے گا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ہسپتال کے کوریڈور میں، امل نے ایشل کو بیٹھے دیکھا جو اپنی ماں کے لیے مسلسل دعا کیے جارہی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ امل نے ایشل کے کندھے پر تسلی بھرا ہاتھ رکھا ، "ایشل میری جان تم ٹھیک ہو، یہ سب کیسے ہوا؟ اسےدیکھتے ہی ایشل اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔"

"امل میں نے تمھیں کہا تھا نا وہ سمیر سب برباد کر دے گا۔“ وہ روتے ہوئے بولی۔ “اس نے اور ممانیوں نے ساری بات بڑھا کر امّی کو بتائی اور اب امّی مجھے سے بات نہیں کر رہیں تھیں پھر میں جب ان سے بات کرنے ان کے کمرے میں گئی تو ۔۔۔۔ “ باقی الفاظ اس سے ادا نا ہو پائے۔

 “امل میں مر جاؤں گی اگر میری امّی کو کچھ ہوا تو …میرا ان کے علاؤہ اور کوئی نہیں ہے…میں مر جاؤں گی امل …میں مر جاؤں گی…" ایشل بولتے بولتے اونچی آواز میں رونے لگی تھی۔

"ایشل ہم دعا کریں گے دیکھنا آنٹی بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گی۔تم پلیز چپ ہو جاؤ۔"امل اسے سینے سے لگائے چپ کروانے کی کوشش کررہی تھی۔

"تم نے کچھ کھایا ہے؟"امل کے پوچھنے پر ایشل نے نفی میں سر ہلایا۔"میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔" امل اپنا بیگ اٹھانے لگی جب اس نے اسے روکا۔

“تم کہیں مت جاؤ مجھے کچھ نہیں کھانا ہے۔“ امل نے بے بسی سے اسے دیکھا۔

“پاگل لڑکی حالت دیکھو اپنی کچھ کھاؤ گی نہیں تو ہوش میں کیسے رہو گی میں بس دو منٹ میں آتی ہوں۔“ اسے تسلی دے کرجلدی سے ہسپتال کی کینٹین کی طرف چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ہاتھ میں جوس اور سینڈوچ لیے اسے زبردستی کھلا رہی تھی۔

“اب بتاؤ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ؟" ایشل کو زبردستی سینڈوچ کھلانے کے بعد اس نے نرمی سے پوچھا۔

“ڈاکٹرز کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے ہیں۔ اس سرجری میں بہت خطرہ ہے امل اور  اگر امّی کی سرجری نہ ہوئی تو بھی ان کی جان کو خطرہ ہے۔" وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

“دعا میں بہت برکت ہوتی ہے۔ جب ہم مل کر دعا کریں گے تو دیکھنا آنٹی جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔" امل اس کے چہرے سے بال پیچھے کرتے تسلی دینے لگی۔

"امل، تمھارے ہونے سے مجھے حوصلہ ملا ہے۔"ایشل نے تشکر بھری نظروں سے امل کی طرف دیکھا اور ایک گہری نم سانس لی۔

طلال جب چیک کیش کروا کر سیدھا آئی.سی.یو کی طرف چلا آیا اس کی نظر سامنے بینچ پر پڑی جہاں امل، ایشل کو تسلی دے رہی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر ان دونوں کو دیکھا۔امل سے بات کرتی ایشل کی نظر اچانک سامنے کھڑے طلال پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں غصّہ کی ایک لہر تھی، جو طلال کے دل کو دہلا گئی۔

 ایشل طلال کو دیکھتے تیزی سے اٹھی اور ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔ تھپڑ کی گونج سے کوریڈور کی خاموشی ٹوٹی۔امل حیرت سے منہ پہ ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔میری ماں اس وقت صرف تمھاری وجہ سے ہسپتال میں داخل ہے۔میری ایک بات یاد رکھنا طلال انصاری اگر میری ماں کو کچھ ہوا تو میں تمھاری جان لے لوں گی۔" ایشل کی آواز میں درد اور غصّہ کی ملی جلی کیفیت تھی۔ مسلسل رونے کی وجہ سے اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا۔

طلال خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا، اس کی آنکھوں میں پچھتاوے کی جھلک ابھری۔ وہ اپنی صفائی میں بولنا چاہتا تھا مگر سامنے کھڑی لڑکی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اس کی کوئی بات سمجھ سکتی۔

"آپ میں سے کوئی ایک آکر پیپرز پر سائن کر دے تاکہ ہم مریض کی سرجری کرسکیں ورنہ زیادہ دیر کرنے سے ان کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔" ڈاکٹر نے آ کر ایک بار پھر سرجری کے لیے کہا تو طلال ایشل پر نظر ڈالتے ڈاکٹر کے پیچھے ان کے کیبن میں چلا گیا۔

"ڈاکٹر صاحب آپ مجھے بتائیں کہاں سائن کرنے ہیں۔"طلال کے لہجے میں انتہا کی سنجیدگی تھی۔

"آپ کا مریض سے کیا رشتہ ہے؟" ڈاکٹر نے فائنل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے سوال کیا۔

"میں ان کا بیٹا ہوں اور ان کے علاج پر جتنا بھی خرچ ہو گا یا کوئی بھی بات ہو گی آپ مجھے بتائیں گے۔" فائل پر سائن کرتے اس نے ڈاکٹر کو اپنا نمبر لکھواتے ہوئے کہا۔

"مگر مریض کے ساتھ آنے والی لڑکی تو بول رہی تھی کہ ان کی ماں کے علاوہ اس دنیا میں ان کا کوئی نہیں ہے۔" ڈاکٹر نے تعجب سے پوچھا۔

"آپ انہیں چھوڑیں اور سرجری کی تیاری کریں۔" اپنی آواز میں ایک فیصلہ کن لہجہ لاتے ہوئے طلال نے کہا۔ اگر ایشل کی امّی اس کی وجہ سے اس حالت کو پہنچیں تھیں تو اب سب اسے ہی ٹھیک کرنا تھا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

“سلمان تم نے اپنے دوست سے بات کی۔"  ماہا سلمان کے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوتے ہوئے بولی۔

“ہاں کی ہے۔" سلمان نے اپنے دو سالہ بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے جواب دیا۔

“پھر کیا کہا تمہارے دوست نے کیا وہ مجھے انٹرنشپ کے لیے ہائر کرے گا؟" ماہا نے بے چینی سے پوچھا۔

"آہ…تمھاری فائل دیکھ کر تو شاید وہ انکار ہی کرتا…" سلمان نے مسکراہٹ روکنے کے لیے ہونٹ بھینچے۔

“کیا مطلب میں بیرون ملک سے اتنی اچھی تعلیم حاصل کر کے آئی ہوں، اتنے اچھے گریڈز ہیں اور تمھارے دوست نے منع کر دیا۔" ماہا کو دھچکا لگا۔

“میں نے کب کہا اس نے انکار کیا ہے۔ میں نے کہا تمھاری فائل دیکھ کر انکار کرتا مگر  میں نے تمھاری سفارش کی  تو وہ تمھیں ہائر کرنے کے لیے تیار ہے۔" اب کے سلمان نے ماہا کا چہرہ دیکھا جو سرخ ہو چکا تھا۔ یقیناً اب وہ اس پر برسنے والی تھی۔

“تم…تم مجھے پہلے نہیں بتاسکتے تھے۔ اس طرح کے ڈرامے تم اپنی بیوی کے ساتھ ہی کیا کرو اور مجھے پتا ہے تم نے کوئی سفارش نہیں کی۔ میری فائل اس قابل ہے کہ کوئی بھی کمپنی مجھے  یوں جاب دے۔" ماہا نے چٹکی بجاتے فخر سے کہا اس کے چہرے پر غصے اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔

“تمھیں وہ ہائر تو کر رہا ہے مگر تم وہاں آرام اور سکون سے اپنی انٹرنشپ مکمل کرنا یہ نہ ہو تمھاری حرکتوں پر چار دن میں فائر ہو جاؤ " سلمان نے اب کے سنجیدگی سے کہا۔

“ہاں ہاں مجھے پتا ہے کہاں کیا کرنا ہے۔ویسے تمھارا شکریہ۔" وہ ہاتھ ہلا کر بولتی باہر چلی گئی۔ سلمان اپنی بہن کو خوش دیکھ کر مسکرایا مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا اس کی بہن کسی کی زندگی جہنم بنانے والی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

طلال نے ڈاکٹر کے کیبن سے باہر آتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ایشل کی طرف بڑھا۔

"ایشل، میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے ناراض ہو، لیکن میں اگر اس وقت وہاں نہ آتا تو وہ گھٹیا انسان تمھیں کوئی نقصان پہنچا سکتا تھا۔" طلال نے نرمی سے کہا۔

"اگر تم اس وقت وہاں نہ آتے تو میری ماں اس وقت زندگی اور موت کی جنگ نہ لڑرہی ہوتیں۔"ایشل نے طلال کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں غصہ اور درد کی ملی جلی کیفیت تھی۔

طلال نے ایشل کی بات سنی اور ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس نے ایشل کی آنکھوں میں دیکھا، اور پھر آہستہ سے کہا، "میں جانتا ہوں کہ تم مجھے اس سب کا قصور وار سمجھتی ہو لیکن اگر مجھے زرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ سمیر اور اس کے گھر والے تم پر اس طرح الزام تراشیاں کریں گے تو میں اسے سیدھا پولیس کے حوالے کرتا ۔" اس کے لہجے میں بلا کی سختی تھی۔

"مجھے کچھ نہیں سننا طلال، بس اگر میری ماں کو کچھ بھی ہوا نہ تو اپنے مرنے سے پہلے تمھیں مار کے جاؤں گی، سمجھے تم۔" اس کی آنکھوں سے آنسو کے چند قطرے زمین پر گرے تھے۔

"میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آنٹی کا سارا علاج میں کرواؤں گا چاہے کسی بھی دوسرے شہر یا ملک سے ہی کیوں نہ کروانا پڑے میں کراؤں گا اور تم دونوں دیکھنا وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔" اس کی آواز میں ملال تھا۔

اسی لمحے، ڈاکٹر  باہر آئے اور کہا، "سرجری کی تیاری ہو چکی ہے۔ ہم سرجری جلد ہی شروع کرنا چاہتے ہیں مگر ہارٹ کی سرجری میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے آپ لوگ ہر خبر کے لیے اپنے ذہن کو تیار رکھیں۔" وہ اپنے پروفیشنل انداز میں بولے جس پر ایشل نے دہل کر امل کو دیکھا جو اس کے سرد پڑتے ہاتھوں کو تھامے کھڑی تھی۔

"جی ٹھیک ہے آپ سرجری شروع کریں اور اگر آپ نہیں کرسکتے تو ہم انہیں کہیں اور بھی لے جانے کو تیار ہیں۔"طلال نے نرمی سے کہا۔

"آپ لوگ دعا کیجیے گا باقی ہم پوری کوشش کریں گے آپ کے مریض کو بچانے کی۔" ڈاکٹر نے انہیں تسلی دی۔

کچھ ہی دیر میں ایشل کی امّی کو آپریشن روم میں شیفٹ کردیا گیا تھا جہاں سرجری کی تیاری مکمل تھی۔ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی ایشل مسلسل روئے جارہی تھی اور امل اسے صرف تسلی دیتی اس کی امّی کی صحت کے لیے دعاگو تھی۔

طلال نے گھر فون کرکے انصاری صاحب کو ایشل کی امّی کی کنڈیشن کا بتا کر ان کے لیے دعا کرنے کو کہا تھا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

“امل اور طلال نظر نہیں آرہے؟" اجلال فریش ہو کر نیچے آیا تو لاونج میں مقدس بیگم اور انصاری صاحب کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر بولا۔

“امل کی دوست کی امی ہسپتال میں ہیں انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ طلال اور امل شام سے وہیں گئےہوئے ہیں۔" مقدس بیگم نے جواب دیا۔

“اوہ، اللہ انہیں صحت دے۔ اب تو کافی رات ہو گئی ہے اب تک تو آجانا چاہیے انہیں۔" اجلال نے دعا دیتے وقت دیکھا۔

“امل بتا رہی تھی اس کی دوست کے والد ہیں نہیں اور وہ اپنی ماں کے ساتھ اکیلی ہی رہتی ہے۔ طلال نے فون پر بتایا تھا ان کی ہارٹ سرجری ہو رہی ہے بس اللہ خیر کرے۔" انصاری صاحب نے طلال سے ہونے والی گفتگو انہیں بتائی۔

“اس لڑکی کے خاندان میں بھی تو کوئی ہو گا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی رشتے دار نہ ہو؟" اجلال کو تعجب ہوا۔

“بیٹا اس جہاں میں غریب کا کوئی نہیں ہوتا اور مشکل وقت میں تو رشتے دار سب سے پہلے پیچھے ہٹتے ہیں کہیں انہیں کوئی مالی مدد ہی نہ کرنی پڑجائے۔" انصاری صاحب افسوس سے بولے۔

“اب ان کی سرجری کا خرچ کون اٹھا رہا ہے کیونکہ ڈاکٹر بغیر پیسے لیے سرجری شروع نہیں کرتے۔" اجلال نے دوبارہ پوچھا۔

“طلال کچھ پیسے لے گیا تھا اور ان کی سرجری کے لیے میں نے طلال کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیج دیے تھے۔اب تو سرجری شروع ہوئے کافی گھنٹے ہوچکے ہیں۔" انصاری صاحب کے بتانے پر اجلال سر ہلاتے موبائل کی جانب متوجہ ہوا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

چار گھنٹے ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک نہ کوئی نرس باہر آئی تھی نہ کوئی ڈاکٹر۔ ایشل کی نظریں اس سرخ بتی پر جمی تھیں، انتظار تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور ساتھ ایشل کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

چار گھنٹے کی طویل اور نازک سرجری کے بعد، جب ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر آئے، ایشل کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی اور امید کی جھلک تھی۔

"ڈاکٹر میری امّی کک…کیسی ہیں؟" ڈاکٹر کے باہر آتے وہ ان کے پاس گئی۔اس کی آواز میں لرزش تھی۔

"مبارک ہو، آپ کی امّی کی سرجری کامیاب رہی ہے۔" ڈاکٹر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔ "کچھ گھنٹوں تک انہیں ہوش آجائے گا ابھی وہ انڈر آبزرویشن ہیں، جلد انہیں روم میں شیفٹ کردیا جائے گا۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔"

ڈاکٹرز نے ایشل کو سرجری کامیاب ہونے کی خبر دی اور پھر طلال کو لیے اپنے کیبن کی طرف بڑھے۔

"میں آپ کو مریض کی کچھ دوائیں وغیرہ لکھ کر دے رہا ہوں یہ آپ کو ہسپتال کی فارمیسی سے مل جائیں گی۔" ڈاکٹر نے پیڈ پر دوائیں لکھتے ہوئے طلال کو ان کے اوقات کار بتائے۔

"اور آپ نے اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ مریض کو کسی بھی قسم کی کوئی ایسی بات نہ بتائی جائے جس سے ان کو تکلیف پہنچے کیونکہ یہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔" ڈاکٹر نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔

"شکریہ ڈاکٹر صاحب، ہم پوری کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔" طلال نے ڈاکٹر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور پھر ہسپتال کی فارمیسی کی طرف دوائیں لینے چلا گیا۔

"ایشل میں نے کہا تھا ناں آنٹی بلکل ٹھیک ہو جائیں گی۔"امل اور ایشل ابھی شکرانے کے نوافل ادا کرکے آئیں تب تک ایشل کی امّی کو روم میں شیفٹ کردیا گیا تھا۔

"تمھارا بہت شکریہ امل، اگر تم لوگ نہ آتے تو شاید آج…" اس سے آگے ایشل سے بولا نہیں گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔

"اللہ نے ہمیں آنٹی کے لیے وصیلہ بنا کر بھیجا تھا اور تم تو جانتی ہو اللہ ہماری مدد وہاں سے کرتا ہے جہاں ہماری سوچ بھی نہیں جاتی۔چلو اب رونا بند کرو، اور کچھ دیر ہمارے ساتھ گھر چل کر آرام کر لو اتنے گھنٹوں سے تم روئے جارہی ہو، ایسا نہ ہو تمھاری طبیعت خراب ہو جائے۔" امل نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"نہیں میں امّی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گئی اور مجھے نیند تب تک نہیں آئے گی جب تک امّی کو ہوش نہیں آتا۔" سکرین پر ابھرتی لائنوں پر نظریں جمائے وہ نم آواز میں بولی۔

"ایشل یہ آنٹی کی کچھ دوائیں وغیرہ ہیں اور امل یہ لو اس میں بسکٹ اور سینڈوچیز ہیں تم دونوں کب سے بھوکی ہو کچھ کھا لو۔" طلال نے کمرے میں داخل ہوتے دوائیں ٹیبل پر رکھیں اور دوسرا شاپر امل کی طرف بڑھایا۔

"مجھے کچھ نہیں کھانا۔" وہ طلال کی طرف دیکھے بغیر بولی۔

"امل تم اسے کچھ کھلاؤ پھر میں تمھیں گھر چھوڑ دوں گا کیونکہ ایک سے زیادہ لوگ پیشنٹ کے پاس نہیں رہ سکتے۔"امل کو بولتے وہ باہر جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ جانتا تھا ایشل کبھی اس کے سامنے نہیں کھائے گی مگر امل اسے زبردستی کچھ نہ کچھ کھلا دے گی۔کچھ دیر بعد وہ امل کو لیے گھر جانے لگا تو ایشل کے پاس رکا۔

"اپنا خیال رکھنا اور اندر سے دروازے کو بند کرلینا اور جیسے آنٹی کو ہوش آئے گا تم امل کو فون کرو گی ٹھیک ہے اور اگر کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو تم  مجھے کال کرنا امل تمھیں میرا نمبر دے دے گی، ٹھیک ہے۔" طلال اسے سمجھاتے ہوئے بول رہا تھا اور وہ صوفے پر بیٹھی سر ہلا رہی تھی۔ وہ اس کی احسان مند تھی اگر وہ بروقت پیسوں کا انتظام نہ کرتا تو آج اس کی دنیا اجڑ جاتی۔

'اچھے دوست ملنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور جب دوست آپ کے اپنوں سے زیادہ آپ کا ساتھ دیں تو ان کے لیے جان بھی قربان کرنی پڑے تو وہ بھی کم ہے۔'

ان کے جانے کے بعد اس نے طلال کی ہدایت پر عمل کرتے دروازے کو لاک کیا پھر واپس اس صوفے پر آ بیٹھی۔ سوچوں میں گم کب نیند کی وادیوں میں اتری اسے اندازہ نہیں ہوا۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

رات کے ڈیڑھ دو بجے وہ گھر پہنچے تھے۔ لاونج میں پہنچتے ان کی نظر سامنے صوفے پر بیٹھے اپنے والدین پر گئی جو ان کے انتظار میں اس وقت بھی جاگ رہے تھے۔ ان کو دیکھتے دونوں سے سلام کیا اور وہیں ان کے پاس پیٹھ گئے۔

"آپ لوگ ابھی تک جاگ رہے ہیں؟" امل نے مقدس بیگم کے کندھے پر تھکاوٹ سے سر رکھتے پوچھا۔

"جب اولاد گھر سے باہر ہو تو ماں باپ کو تب تک نیند نہیں آتی جب تک ان کی اولاد گھر نہ آ جائے۔" انہوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"اب کیسی طبعیت ہے تمھاری دوست کی امّی کی۔"انصاری صاحب کے لہجے میں فکر مندی تھی۔

"اللہ کا شکر ہے آپریشن کامیاب رہا مگر ابھی وہ ہوش میں نہیں تھیں ہم تو ابھی وہیں رکنا چاہتے تھے مگر رات میں کوئی ایک بندہ ہی وہاں رک سکتا تھا اس لیے ہم آگئے۔" نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں طلال نے بتایا۔وہ صوفے کی پشت پر سر رکھے بیٹھا تھا۔

"بیٹا تم رک جاتے وہاں اب بیچاری بچی کیسے اکیلے سب ہینڈل کرے گی۔" مقدس بیگم طلال سے بولیں۔

"ممی میں نے اسے کہا تھا مگر وہ اپنی امّی کے پاس رکنا چاہتی تھی اور وہ ابھی ہوش میں بھی نہیں تھیں۔" جواب امل نے دیا تھا۔

"اس کا کوئی رشتے دار بھی اس مشکل وقت میں نہیں آیا کیا؟" انصاری صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

"پاپا ان کے کچھ فیملی ایشوز ہیں اور میں نے آپ کو بتایا تھا اس کے فادر بھی نہیں ہیں سارا خرچ اس کے نانا کی پینشن سے پورے ہوتے ہیں ایسے میں رشتے دار بھی مدد نہیں کرتے کہ کہیں سارا خرچ انہیں نہ اٹھانا پڑے۔ " امل نے افسوس سے کہا۔

"کل میں تمھارے ساتھ ہسپتال چلوں گی اور پھر تم ایسا کرنا اس بچی کو یہاں لے آنا تاکہ وہ تھوڑا آرام کر لے۔" انہیں ایشل سے ہمدردی ہوئی تھی۔

"اب تم دونوں بھی جا کر آرام کر لو پھر صبح اس کے لیے ناشتہ بھی لے جانا۔"انصاری صاحب کے کہنے پر دونوں اپنے کمرے کی طرف جانے لگے جب انہوں نے طلال کو آواز دے کر روکا۔

"ایک منٹ روکو یہ تمھارے چہرے پر زخم کیسے آئیں ہیں طلال؟" انصاری صاحب نے تشویش سے پوچھا۔ طلال اور امل نے ایک دوسرے کو دیکھا کہ اب کیا کریں؟صبح ہونے والی لڑائی کے زخموں کو طلال بلکل بھول چکا تھا۔

"کچھ نہیں پاپا، وہ بس کچھ لوگوں کی لڑائی ہو گئی تھی انہیں چھڑانے میں کچھ زخم آگئے۔آپ فکر نہیں کریں میں نے دوا لگا لی تھی۔"طلال بولنے کے بعد ایک سیکنڈ وہاں نہیں رکا تھا۔

طلال کی جلدی میں جانے کی وجہ سے انصاری صاحب کو اور بھی فکر ہونے لگی۔ انہوں نے امل کی طرف دیکھا، جو طلال کے پیچھے پیچھے جانے کو تیار تھی۔

"امل رکو، کیا واقعی سب ٹھیک ہے؟"انصاری صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔

امل نے ایک گہری سانس لی اور جواب دیا، "جی پاپا، طلال نے صحیح کہا۔ وہ بس دوسروں کی مدد کر رہا تھا۔ آپ بے فکر رہیں۔"

 "ٹھیک ہے تم آرام کرو۔"انصاری صاحب نے امل کو دیکھا اور ایک مطمئن مسکراہٹ دی۔

امل نے طلال کے پیچھے جانے سے پہلے انصاری صاحب اور مقدس بیگم کو گلے لگایا اور پھر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

اس کی آنکھ موبائل پر بجتے آلارم سے کھلی۔ اٹھتے ساتھ اسے پہلا خیال اپنی امّی کا آیا۔ آلارم بند کرتے اس نے وقت دیکھا، صبح کے ساڑھے چار کا وقت تھا اور ہسپتال کی خاموشی میں مسجدوں سے آتی اذان کی آواز اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ کمرے میں بنے اٹیچ باتھ سے وضو کر کے کمرے میں رکھی جائے نماز قبلہ رُخ کی طرف بچھا کر نماز ادا کی ، دعا کرتے اس کی نظر اپنی امّی کے ہاتھ پر گئی جہاں اسے ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی۔ جائے نماز واپس اس کی جگہ پر رکھتے وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی اپنی امّی کے بیڈ کے پاس آکر رکی۔

"امّی۔"ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے اس نے ہلکی آواز میں کہا۔ سکرین پر ابھرتی لائن زرا سی بے ترتیب ہوئی تھی اور یہاں اس نے ایک پل کو سانس روکی تھی۔ اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ باہر سے ڈاکٹر یا کسی نرس کو بلا لائے۔ بیڈ پر لیٹے وجود کے ہاتھوں میں اب باقاعدہ لرزش پیدا ہورہی تھی۔

"امّی…امّی…، یا اللہ میں کیا کروں۔ہاں امل…امل کو فو…فون کرتی ہوں۔"فون ملانے کے کچھ دیر بعد اسے سپیکر سے امل کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی۔

"امل امّی… امّی نے اب…ابھی ہا…ہاتھ کو ہلایا۔وہ…وہ ٹھیک ہیں۔میری امّی کو ہوش آرہا ہے امل۔" وہ اتنی ہواس باختہ تھی کہ اسے سمجھ ہی نہیں آئی وہ کیا بول رہی ہے۔دوسری طرف امل کی نیند ایشل کی آواز پر فوراً غائب ہوئی تھی۔

"ایشل تم کسی ڈاکٹر یا نرس کو بلاؤ ہم ابھی پہنچتے ہیں۔" امل نے فون بند کرتے جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلے پھر طلال کا دروازہ بجانے لگی جو دو منٹ بعد کھل گیا۔

"کیا ہوا امل، سب خیریت ہے؟" طلال نے نیند سے بامشکل آنکھیں کھولتے پریشانی سے پوچھا۔

"ایشل کا فون آیا ہے اس کی امّی کو ہوش آرہا ہے ہمیں جانا چاہیے تم جلدی سے نیچے آؤ میں تب تک ایشل کے کھانے کے لیے کچھ لے لیتی ہوں۔" جلدی سے سڑھیاں اترتی وہ سامنے سے آتے اجلال سے ٹکراتے ہوئے بچی۔

"تم کیوں اتنی صبح صبح تیز گام بنی بھاگتی پھر رہی ہو۔" امل کے سر پر ہاتھ رکھتے اجلال نے پیار سے کہا۔ "اور ہاں وہ تمھاری دوست کی مدر کی طبیعت کیسی ہے اب؟" اچانک خیال آنے پر اس نے پوچھا۔

"میں اور طلال ابھی وہیں جارہے ہیں۔ ایشل کا فون آیا تھا کہ آنٹی کو ہوش آرہا ہے۔" بھاگنے کی وجہ سے اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اسی وقت طلال بھی نیچے آیا تھا۔

"طلال تم نے کیا اپنے کمرے میں بلیاں پال لی ہیں؟"اجلال کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے امل کی طرف دیکھا پھر اجلال کو۔

"زرا آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھو اتنے زخموں کے نشانات ہیں اس پر۔"اس کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے اجلال بولا۔

"یہ بہت لمبی کہانی ہے ہم آپ کو آ کر بتائیں گے، اللہ حافظ ۔ ابھی ہمیں راستے سے کچھ چیزیں بھی لینی ہیں۔"امل کے کہنے پر طلال نے اسے گھور کر دیکھا جس پر وہ بات بدل گئی۔

"کیا ضرورت تھی بھائی کو یہ بولنے کی کہ بہت لمبی کہانی ہے۔تمھیں وہی بولنا چاہیے تھا جو کل ممی پاپا کو بولا تھا۔" طلال نے ہسپتال کے باہر گاڑی روکتے امل سے کہا۔

"ارے بھائی کو کون سا یاد رہنا ہے تم خوامخواہ پریشان ہو رہے ہو۔"ہسپتال کی بلڈنگ میں داخل ہوتے وہ بولی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

امل کو فون کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر کو بلا لائی تھی۔

"آپ کی پیشنٹ کو جلد مکمل ہوش آ جائے گا مگر بہتر یہی ہوگا کہ ان سے زیادہ بات چیت نہ کی جائے۔ ان کو ہوش آنے کے کچھ دیر بعد غنودگی کا انجیکشن لگے گا تاکہ بولنے یا ہلنے سے ان کے زخم خراب نہ ہوں۔" چیک اپ کے بعد ڈاکٹر کچھ ضروری ہدایات کرتے چلے گئے۔

ڈاکٹر کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ امل نے ایشل کو گلے لگاتے اس کی امّی کی خیریت دریافت کی۔ طلال نے کھانے کا شاپر ٹیبل پر رکھا اور خود کسی کام سے باہر چلا گیا۔

سرجری کے تقریباً پانچ گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا تھا۔ جب انہوں نے آنکھیں کھولیں، ایشل اورامل  دونوں ان کے بیڈ کے پاس موجود تھیں۔

ایشل نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔

ایشل کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔

"امّی۔۔ مجھے۔۔۔معاف ۔۔کردیں…"وہ ان کے ہاتھوں پر سر ٹکائے روتے ہوئے بولی۔

"ای۔۔ایشل۔۔ مم۔میں۔۔ تم۔۔۔سے۔۔۔ نا۔۔۔ناراض۔۔نن۔۔نہیں ہوں…"بولنے کی وجہ سے ان کے زخم کھچ رہے تھے۔آپریشن کی وجہ سے وہ زیادہ بات چیت نہیں کر سکتی تھیں اور ایشل کے لیے یہی غنیمت تھا کہ اس کی امّی اس سے ناراض نہیں تھیں۔امل خاموشی سے کھڑی ان دونوں ماں بیٹی کو دیکھ رہی تھی جو ایک دوسرے کو دیکھتے صرف آنسو بہا رہی تھیں۔

تھوڑی دیر میں نرس نے آکر انہیں غنودگی کا ٹیکہ لگایا اور چلی گئی۔کچھ منٹ بعد طلال کمرے میں داخل ہوا۔

ایشل کی امّی نے غنودگی میں جانے سے پہلے آہستہ سے سرگوشی میں کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ اتنی آہستہ تھی کہ کمرے میں کسی کو نہیں سنی۔

"ہسپتال کے سارے بل اور آنٹی کی سرجری اور ادویات سب کے بل پے کردیے ہیں۔ اگر کوئی بھی تمھیں بل پے کرنے کو بولے تو تم مجھے کال کرنا باقی میں دیکھ لوں گا۔" طلال اس کو دیکھے بغیر بولا۔

"تم… تم دونوں کا بہت شکریہ اس مشکل وقت میں میری مدد کرنے کا… میں پوری کوشش کروں گی کہ اس سب پر جو بھی خرچ آیا ہے میں اسے اتار دوں گی، میں نہیں چاہتی میرے اُوپر کوئی قرض رہے۔" وہ ان کی قرض دار تھی اور وہ جانتی تھی اس قرض کو اتارنے میں اسے سالوں لگ جانے تھے۔

"تم سچ میں پاگل ہو۔ دوست تو نام ہی بھروسے کا ہے اور ایک سچا دوست وہی ہوتا ہے جو آپ کے اچھے وقتوں میں آپ کے ساتھ خوش ہو اور برا وقت آنے پر آپ کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھے۔ ایک بات یاد رکھنا میں نے یہ سب اس لیے نہیں کیا کہ تم مجھے یہ بول کر شرمندہ کرو کے یہ تم پر قرض ہے۔ میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ تم پھر سے مسکرا سکو اور خوش رہ سکو۔"طلال نے ایشل کی آنکھوں میں دیکھتے بولا، ایک معذرت خواہ نظر سے دیکھا۔

ایشل اور امل ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں، دونوں کی آنکھوں میں سوال تھے۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

آج انٹرنشپ کے لیے چنے گئے اسٹوڈنٹس کے انٹرویوز تھے۔ ان اسٹوڈنٹس میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی تھی جو اپنے باپ ،بھائی کا سہارا بننے کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔

"سر آپ نے زیادہ گرلز اسٹوڈنٹس کو چنا ہے اور باہر بیٹھی کچھ لڑکیاں اتنی ڈری ہوئی لگ رہی ہیں مجھے نہیں لگتا یہ انٹرویو کےسوالات کے جواب درست دیں گئیں۔" اجلال کے پی۔اے نے سب کی فائلز ترتیب سے رکھتے ہوئے کہا۔

"کوئی بات نہیں اسد، اگر آج یہ ڈر کر جواب دیں گیں تو یہ جاب انہیں اس قابل بنا دیں گی کہ یہی لڑکیاں کل کو مستقبل میں اپنے اوپر یا کسی دوسری لڑکی پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔" اجلال کے لہجے میں سکون تھا۔

"سر ماہا شیرازی ان کا انٹرویو لیا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہی ہیں۔"پی۔اے کی بات پر اس نے سر ہلایا۔

"ٹھیک ہے اسد، باقی سب کے انٹرویوز ہو جائیں پھر ان کے ساتھ ہی ماہا کو بھی اپائنٹمنٹ لیٹر بھیج دینا۔ اور جن کے ٹرانسفر لیٹر اور پروموشن لیٹر تیار کرنے کو کہا تھا وہ کام بھی جلد ہونا چاہیے، اس سے آفس ورک میں ڈسٹربنس پیش نہیں آئے گی۔"اس نے طلبہ کے ناموں کی لسٹ اسد کو دی۔

"جی سر وہ کام پہلے ہی شروع کردیا گیا تھا جس دن آپ بولیں گے ہم انہیں لیٹر دے دیں گے۔"اسد نے تفصیلات دیتے ہوئے کہا۔

کچھ دیر میں انڑویوز کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اجلال کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ اس قوم کا مستقبل اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کو کوشاں ہے اور یہ بات ان کی کمپنی کے لیے بھی اچھی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

ایشل کی امّی کو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ان تینوں کے فائنلز کا شیڈیول بھی آگیا تھا مگر چونکہ ایشل کئی ہفتوں سے یونیورسٹی نہیں گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا بہت سا کام رہ گیا تھا۔اتنے دنوں بعد اس نے امل کا نمبر ملایا۔

"تم میرے گھر آجاؤ ہم تینوں مل کر پیپرز کی تیاری کریں گے۔" اس دن فون پر بات کرتے امل نے اسے بولا۔

"نہیں یار میں نہیں آسکتی۔" وہ نہیں چاہتی تھی اب کوئی اس کے کردار پر انگلی اٹھائے۔

"اب تو آنٹی بھی گھر آگئی ہیں اور ان کے پاس ملازمہ ہوگی اس لیے میں کوئی بہانے نہیں سنوں گی۔" امل حکمیہ لہجے میں بولی۔ طلال اور امل نے اپنے گھر کی ایک ملازمہ کو ہی آنٹی کی دیکھ بھال کے لئے ایشل کے گھر میں رکھوایا تھا۔جو چوبیس گھنٹے اس کی امّی کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

"امل تم سمجھ نہیں رہی ہو میں کسی کے گھر نہیں جاتی، پھر امّی بھی مجھے اجازت نہیں دیں گی۔" اس نے بےبسی سے کہا۔

"آنٹی سے میں خود بات کرتی ہوں ابھی جاکر تم بس تیار ہو جاؤ۔" ایشل کی سنے بغیر اس نے فون بند کیا اور ایشل اس وقت کو کوسنے لگی جب وہ اس کے ساتھ گھر آئی تھی۔

ایشل اپنے کمرے سے نکل کر امّی کے کمرے میں آئی جہاں ملازمہ انہیں دلیہ کھلا رہی تھی۔

"کیا بات ہے کچھ پریشان ہو؟" انہوں نے اسے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا۔

"نہیں بس پیپرز کی ٹینشن ہے اور کچھ نہیں۔"چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتے بولی۔ اب وہ ملازمہ کے سامنے امل کے آنے کا بتا کر، انہیں اپنے اس کے ساتھ جانے سے روکنے کا نہیں بول سکتی تھی۔

"میری بیٹی نے  آج سے پہلے تو کبھی پڑھائی کی ٹینشن نہیں لی اور ہمیشہ اچھے سے کامیاب ہوئی ہے، دیکھنا اب بھی اللہ تمھیں کامیاب کرے گا۔" انہوں نے اسے تسلی دی۔ اتنا تو وہ جانتی تھیں وجہ کچھ اور ہے۔

کچھ وقت بعد گلی کے دروازے پر دستک ہوئی اور ایشل جانتی تھی کہ باہر کون ہو گا۔ دوپٹہ درست کرتے وہ اٹھی تھی ۔ دروازہ کھولتے اس کے سامنے امل کھڑی تھی۔ شاید وہ ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی۔ وہ جب بھی طلال کے ساتھ آتی طلال ہمیشہ ملازمہ کو باہر بلا کر امّی کے بارے میں پوچھتا مگر وہ اندر نہیں آتا تھا۔

سلام کرنے کے بعد وہ امل کو لیے امّی کے کمرے میں داخل ہوئی، اور وہ اسے دیکھ کر ہر بار کی طرح پیار کرتیں اپنے پاس بٹھا کر باتیں کرنے لگیں۔ ایشل نے ملازمہ کے ساتھ کھانا کا سامان لگانے لگی۔

"آنٹی اب آپ ہی اسے بولیں میری تو یہ سنتی نہیں۔آپ اسے بولا کریں کہیں آیا جایا کرے گھر میں رہ کر صرف فضول ہی سوچتی ہے۔ہمارے پیپرز بھی سر پر ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں ایشل میرے ساتھ گھر چلے ہم مل کر تیاری کریں گے۔" امل کے کہنے پر ایشل نے ناراض نظروں سے اسے دیکھا۔

"ایشل بیٹا اگر بچی اتنے پیار سے تمھیں لینے آئی ہے تو چلی جاؤ اس طرح تم لوگ پیپرز کی تیاری بھی کر لو گے اور تمھارا ذہن بھی بٹ جائے گا۔" امّی کے بولنے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کے منع کرنے پر بھی نہیں مانیں گئیں۔

"تم جا کر تیار ہو مجھے آنٹی سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔"ایشل اسے گھورتے ہوئے تیار ہونے چلی گئی۔

"آنٹی میں کئی بار آپ سے یہ بات کرنا چاہتی تھی مگر ہر بار ایشل کے کہنے پر چپ تھی۔ " امل نے چائے کا کپ میز پر رکھتے کہا۔

"کیا بات ہے بیٹا آپ مجھے بتائیں۔" وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے بولیں۔

"آپ کے رشتے داروں نے ایشل پر اس دن الزام لگایا تھا۔ اصل میں اس دن میرے بھائی نے ایشل کو سمیر سے بچانے کے لیے اسے مارا تھا اور خود اس کو بھی چوٹیں آئیں تھیں۔ ہم لوگ بس اچھے دوست ہیں اور سمیر ایشل کو راستے میں روک کر تنگ کر رہا تھا۔ جب میرے بھائی نے ایشل کی مدد کی تو سمیر نے اسے غلط لفظوں میں بیان کیا۔ " آج وہ سوچ کر آئی تھی ایشل کی بے گناہی ثابت کرکے رہے گی۔

"ایشل صرف میری دوست نہیں ہے وہ بلکل میری بہنوں جیسی ہے۔ ایشل نے مجھے اس دن ہی بتا دیا تھا کہ سمیر گھر میں اس کے بارے میں ضرور غلط بیانی کرے گا۔ آپ پلیز میرے بھائی کو بھی غلط مت سمجھیں وہ تھوڑا لاابالی ہے مگر دل کا بہت اچھا ہے۔ وہ اس گھر میں بھی اس لیے نہیں آتا کہیں آپ ایشل سے دوبارہ ناراض نہ ہو جائیں۔ میں کسی دن آپ کو اس سے ملواؤں گی پھر دیکھنا آپ بھی اس کی باتوں کو انجوائے کریں گی۔" ایشل کے آنے تک امل ان کا دل طلال کی طرف سے صاف کر چکی تھی۔

"آپ امّی کے پاس ہی رہیں گی اور ابھی ان کی دوا کا وقت بھی ہو رہا ہے، آپ دوا کھلانے کے بعد امّی کے پاس ہی بیٹھیں گی۔"ایشل نے جانے سے پہلے ملازمہ کو اچھے سے سمجھاتے ہوئے کہا۔ امل نے دل میں اس کی امّی اور اس کے لیے دعا کی تھی۔

"تم تو ایسے سمجھا رہی ہو جیسے اس کے گھر ہمیشہ کے لیے رہنے جارہی ہو۔" امّی اسے چھیڑتے ہوئے بولیں مگر اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاریک تاثرات کو دیکھتے وہ چپ ہو گئیں۔

وہ دونوں انہیں اللہ حافظ کہتے گاڑی میں سوار ہوئیں۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

آج آفس میں کام کم ہونے کی وجہ سے اجلال جلدی گھر لوٹ آیا تھا۔ لاونج میں داخل ہوتے اس کی نظر صوفے پر بیٹھی لڑکی پر گئی، جو کالی لمبی فراک پہنے اور ہم رنگ دوپٹہ سر پر اچھے سے جمائے، کندھوں پر سفید چادر لیے ہوئے سر جھکائے انگلیوں کو مروڑ رہی تھی۔

صوفے پر بیٹھی لڑکی نے قدموں کی آواز پر سر اٹھایا تھا اور سامنے کھڑے شخص پر نظر پڑتے اس کو یونی کا واقع دیا آیا۔

"تم"

"آپ" وہ دونوں ایک ساتھ بولے تھے۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" اجلال حیرانی سے اس لڑکی سے بولا۔

"ارے بھائی آپ اتنی جلدی آگئے؟" امل ہاتھ میں ٹرے پکڑے ادھر آئی تو اجلال کو وہاں دیکھ کر بولی۔ ایشل کو اس کے بھائی بولنے پر شاک لگا۔

"آج آفس میں کام تھوڑا تھا اس لیے جلدی آگیا۔ یہ محترمہ  کون ہیں ؟" اپنے آنے کی وجہ بتاتے اس نے ایشل کی طرف اشارہ کیا۔

"یہ میری بیسٹ فرینڈ ہے ایشل، جس کے بارے میں آپ سب نے ابھی تک میری باتوں میں ہی سنا تھا اور ایشل یہ میرے بڑے بھائی ہیں اجلال۔ " ان دونوں کا آپس میں تعارف کرواتے اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی۔

"السلام علیکم۔" ایشل نے جھجھکتے آہستہ آواز میں کہا جس پر اجلال نے سر ہلاتے اس کے سلام کا جواب دیا۔اب وہ اپنی بہن کے سامنے اس کی دوست کی برائی تو کرنے سے رہا تھا۔

"اب آپ جلدی آگئے ہیں تو آپ کو ہم تینوں کی پڑھائی میں ہیلپ کرنی ہوگی۔" ایشل جو فوراً یہاں سے جانے کا سوچ رہی تھی اس نے چونک کہ امل کو دیکھا۔

"تینوں کون؟" اجلال ناسمجھی سے بولا۔

"میں، طلال اور ایشل۔ ایشل کی امّی بیمار تھیں تو اس نے کافی کلاسز نہیں لیں اور اس لیے میں اسے یہاں لے آئی تاکہ ہم مل کر تیاری کریں۔ اس کیے جب تک پیپرز ختم نہیں ہوں گے ہم روز اکھٹے پڑھائی کریں گے اور اس میں آپ ہماری مدد کریں گے۔" طلال جسے امل نے کتابیں اور نوٹس وغیرہ لانے بھیجا تھا وہاں آتے اب امل کی بات پر سر پیٹ کر رہ گیا۔ ایشل نے بھی امل کو منع کرنا چاہا لیکن وہ تو ان کو دیکھے بغیر اجلال کو منانے میں لگی تھی۔

"اوکے مگر پڑھائی کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں تم دونوں تب تک اپنی دوست کی خاطر داری کرو آخر کو یہ پہلی بار یہاں آئی ہیں۔" اس کے لہجے میں موجود طنز پر ایشل نے سر اٹھا کر اجلال کی طرف دیکھا۔

اجلال کے جانے کے بعد ایشل دل ہی دل میں اسے "ہٹلر" کامیاب دیا تھا اب وہ ان دونوں کے سامنے ان کے بھائی کو ہٹلر بولنے سے تو رہی تھی۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

آدھے گھنٹے بعد وہ تینوں اجلال کے سامنے بیٹھے تھے جو انہیں کوئی سوال سمجھا رہا تھا۔

"اب تم تینوں مجھے یہ دوسرے سوال کرکے دکھاؤ گے وہ بھی پندرہ منٹ میں ۔ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ میں تین بار یہ سمجھا چکا ہوں۔" ان تینوں کو الگ الگ سوال دیتے اس نے وارننگ دی۔

"آپ کو کوئی پریشانی ہے…؟ ایشل جو پانچ منٹ سے فارمولا یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی اجلال کی آواز سنتے اسے غصّہ آیا تھا۔

"نن… نہیں۔ " اس جواب دیتے دوبارہ سوال حل کرنے لگی مگر خود پر کسی کی نظریں محسوس کرتے اس نے ایک بار پھر سر اٹھایا مگر اجلال کو خود کو دیکھتا پاکر وہ سر جھکا گئی۔

"ناؤ ٹائم از اپ۔" اجلال نے پندرہ منٹ کا وقت مکمل ہوتے کہا جس پر تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"کیا بھائی، ابھی تو سوال رہتا ہے۔"طلال نے برا سا منہ بنا کر کہا۔

"ایگزیمز حال میں بھی یہی بولنا تاکہ وہ تمھیں ویسے ہی فیل کردیں۔" ان سے رجسڑ پکڑتے وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔

"محترمہ آپ نے ایکویشن ہی غلط لکھی تھی تو جواب کیا خاک ٹھیک آنا تھا۔" ایشل کے لکھے سوال پر اس نے چوٹ کی۔

"میں نے صحیح لکھی تھی، پتہ نہیں کیسے غلط ہو گئی۔" اسے دیکھے بغیر ایشل نے رجسٹر پکڑتے کہا۔

" محترمہ اگر آپ ان آنکھوں کا صحیح استعمال کرلیں تو کیا ہی بات ہے۔" ایشل جانتی تھی اس کا اشارہ کسی طرف ہے۔

"کیا ہو گیا اجلال کیوں بچی کو ڈانٹ رہے ہو، اس سے غلطی ہو گئی ہو گی؟ کوئی بات نہیں ایشل بیٹا آپ دوبارہ بھائی کو سوال کر کے دکھا دو۔" مقدس بیگم جو اجلال کی آواز پر ادھر آئیں تھیں، اسے ایشل پر غصّہ کرتے دیکھ کر اجلال کو بولیں مگر ان کی بھائی والی بات پر دونوں کے چہرے کے زاویے بگڑے تھے۔

"یہ ہٹلر اور میرا بھائی۔۔ کبھی مر کر بھی اسے اپنا بھائی نہ بناؤں۔"

"یہ محترمہ اور میری بہن۔۔۔ استغفار۔ایسی بہن سے تو بندہ بغیر بہن کے ہی اچھا ہے۔" ایک دوسرے کو دیکھتے وہ دل میں بولے تھے۔

کسی نے ان دونوں کو دیکھا ہو یا نہ مگر درمیان کے صوفے پر بیٹھے طلال نے ضرور یہ منظر دیکھا تھا۔

"ممی آپ جانتی ہیں میں پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت ہوں اور لڑکیوں کی تعلیم میرے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ میرا گول ہے کہ ہمارے معاشرے کی لڑکیاں مضبوط ہو نہ کے ڈر پوک۔اب اگر یہ پڑھیں گئے نہیں تو مجھے غصّہ تو آئے گا۔" اجلال باقاعدہ ایشل کو گھورتے ہوئے بولا۔

"امل بیٹا آپ ایشل کو اپنے روم میں لے جاتیں۔ بچی کب سے یہاں بیٹھی ہے۔" اب کی باری انہوں نے امل سے کہا۔

"نہیں آنٹی امل نے مجھے کہا تھا مگر میں نے ہی اسے یہاں بیٹھنے کے لیے بولا تھا۔ " ایشل امل کی جانب دیکھتے بولی۔

"چلو آپ لوگ پڑھو میں کھانے کا انتظام کرتی ہوں۔" ایشل کے سر پر ہاتھ پھیرتے وہ کچن میں چلی گئیں۔ اجلال اب ان دونوں کو ان کی غلطیاں بتا رہتا تھا جبکہ ایشل سوال دوبارہ حل کرنے لگی۔

دو گھنٹے ان کے ساتھ مغز ماری کرنے کے بعد آخر وہ سارے سوالات کرنے میں کامیاب رہے تھے مگر اس سب میں اجلال کے طنز کا نشانہ ایشل ضرور رہی تھی۔

"امل اب مجھے جانا چاہیے کافی ٹائم بھی ہو گیا ہے۔ وہ دوپہر دو بجے کی آئی ہوئی تھی اور اب شام ہونے کو تھی۔ امل اسے اپنے روم میں لے آئی تھی۔

" ممی تمھارے لیے اسپیشل کھانا بنا رہی ہیں اس لیے تھوڑا صبر اور کر لو، تم کون سا گھر سے باہر ہو۔" طلال نے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"طلال بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تم گھر میں بیٹھی ہو اور آنٹی کو میں نے فون کر کے بول دیا ہے ایشل آج کا کھانا ہمارے ساتھ کھائے گی اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب زرا آرام سے بیٹھو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔" امل نے اسے پریشان ہوتے دیکھ کر کہا۔

"تمھاری اسی سوچوں کی وجہ سے آج تم نے پہلے ہی دن بھائی سے اچھی خاصی باتیں سن لیں۔ پیپرز ختم ہونے تک تو پتا نہیں کیا تمھارا کیا حال ہو گا، مجھے تو سوچ کر ہی ہنسی آرہی ہے۔" طلال نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا مگر اس کی ہنسی کو بریک تب لگا جب کسی نے اس کے کان کو مروڑا تھا۔

"زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم روز ان محترمہ سے زیادہ مجھ سے سنتے ہو۔" اجلال جو انہیں کھانے کے لیے بلانے آیا تھا طلال کی باتیں سنتے اسے خود بھی ہنسی آئی تھی مگر ضبط کرتے طلال کو ہی بیچ میں لے آیا۔

" میں سچ کہتا ہوں آپ کی جس سے بھی شادی ہو گی وہ بیچاری تو دن رات آپ کی کڑوی باتیں ہی سنتی رہے گی۔" اپنا کان مسلتے وہ کمرے سے باہر بھاگا تھا۔جبکہ امل اور ایشل اس کے بھاگنے پر ہنسی تھیں۔

"آپ محترمہ کل سے اگر صحیح پڑھنا ہے تو اپنی تمام سوچیں گھر چھوڑ کر آئیے گا۔ کھانا لگ گیا ہے امل تم انہیں لے آؤ۔" ایشل پر طنزکے تیر برساتے وہ دوسری بات امل کو بول کر چلا گیا۔

"ہنہہ… سو ہٹلر مرے ہوں گے تو یہ دنیا میں آئے ہوں گے۔" اجلال کی باتوں پر اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور پھر امل کے ساتھ نیچے ڈائنگ روم میں آگئی جہاں مقدس بیگم،طلال اور اجلال پہلے سے موجود تھے۔ انصاری صاحب میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے ملک گئے ہوئے تھے تو وہ اس دعوت سے قاصر رہے ۔

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

"بابا جان مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" احسان نے انہیں لان میں بیٹھے اخبار پڑھتے پایا تو ان کے نزدیک رکھی دوسری کرسی پر بیٹھتے بولا۔

"کیا بات ہے احسان، آفس میں تو سب سہی ہے ناں؟" اخبار فولڈ کرتے احمد صاحب نے کہا۔

"ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے اسے گئے ہوئے۔ آپ کو نہیں لگتا اب آپ کو اسے واپس بلانا چاہیے۔"احمد صاحب کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

"تم کیا چاہتے ہو اس شخص کو ہم اس گھر میں واپس لائیں جو سارے زمانے میں ہماری بدنامی کرانے پر لگا تھا۔" وہ غصے میں اخبار ٹیبل پر پٹختے ہوئے بولے۔

"بابا جان میرا بیٹا بیمار پڑ گیا ہے آپ نے اسے اس کے دوست سے الگ کر دیا ہے۔" اب کی بار احسان کے لہجے میں بےبسی تھی۔

"تمھارا بیٹا ابھی چھوٹا ہے آج یا کل وہ ان سب کو بھول جائے گا۔ اسے سکول بھیجو، وہاں نئے دوست بنیں گے یا اس کے کسی دوست کو گھر بلالیا کرو۔ پھر دیکھنا وہ سنبھل جائے گا۔" احمد صاحب نے حل پیش کیا مگر ان کے فیصلے نے سب کی زندگیاں بدل دیں تھیں۔

"بابا جان مگر…" احسان نے کچھ کہنا چاہا لیکن احمد صاحب وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

" ہم نے کہہ دیا کہ اب اس گھر میں سکندر کا نام بھی نہیں لیا جائے گا اور اگر تم یا کوئی بھی اس سے ملنے گیا یا اس سے رابطے کی کوشش کی تو سمجھ لینا میں تمھارے لیے مر گیا۔" وہ سفاک لہجے میں بولے۔ اب شاید قسمت میں بھی ان کا ملنا نہیں لکھا تھا۔

‘اگر ہم جان لیں کہ کچھ لوگوں سے ہم۔زندگی میں کبھی نہیں مل سکیں گے تو یقیناً انھیں کبھی خود سے دور نہ کریں۔'

⁕⁕⁕⁕⁕⁕

جاری ہے۔۔

 

 

This topic was modified 10 months ago by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?