ALL RIGHTS OF THIS NOVEL HAS RESERVED WITH NOVELS HUB
قسط نمبر 2
خشک آنسو
"میرا پریشان ہونا بنتا ہے "
"نہیں تمہارا پریشان ہونا نہیں بنتا یہ ان دونوں کا پرسنل میٹر ہے انھیں حل کرنے دو ۔۔"
ہادی ضبط کے باوجود غصہ کر گیا۔
"تم تو لو گے اسکی سائڈ تمہاری چہیتی جو ہوئی"
"پلیز نینا میں نے کبھی ان دونوں کی بات نہیں کی تو تمہیں بھی نہیں کرنی چاہیے ''
"اسکی وجہ سے بابا چلے گئے ،میری زندگی کے سب سے بڑے دن میں وہ میرے ساتھ نہیں ہوں گے "
"پلیز نینا"
وہ اسکے آنسو دیکھ کر تڑپا۔
"مجھے یہ سمجھ نہیں آتا وہ تمہیں کیوں ٹھیک لگتی ہے؟"
"مجھے بھی یہی سمجھ نہیں آتا کہ وہ تمہیں غلط کیوں لگتی ہے؟"
ان دونوں کے درمیان کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
"اچھا بتاؤ نام سوچ لیے تم نے ؟"
تھوڑی دیر کے بعد وہ شرارت سے بولا۔
"کونسے نام ؟"
"بچوں کے"
"کس کے بچوں کے ؟"
"ظاہری بات ہے ہمارے بچوں کے ؟"
"ہمارے بچے کہاں سے ؟"
وہ کچھ بولتے بولتے رکی۔
"ہادی کے بچے "
"جی میری جان میرے بچے ضرور آئیں گے بس تم نکاح ہ۔۔"
'ہادی چپ کر جاؤ ۔۔"
وہ سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے اٹھی۔
"اچھا نا مزاق کر رہا تھا بیٹھو تو ۔۔"
ہادی نے شکر کیا تھا کہ اسکا دھیان بٹ گیا ہے۔
"گھنٹے سے ادھر ہی بیٹھی ہوئی ہوں ہم غالباً یہاں شاپنگ کرنے آئے تھے "
"ہاں تو چلو نا تم ہی باتیں بنا رہی ہو"
"ہاں تم تو جیسے منہ پر تالا لگا کر بیٹھے تھے نا۔۔"
وہ لوگ اب فورڈ کارنر سے نکل کر مختلف دکانوں میں جا رہے تھے جب اچانک ہادی ایک دکان کے باہر رکا۔
"کیا ہوا ہے اب تم رک کیوں گئے ؟"
"ادھر آو نینا جلدی ۔۔"
وہ اب سنجیدہ تھا۔
"کیا ہوا ہے ہادی"
وہ اسکے قریب پہنچی ۔
"وہ دیکھو سامنے ۔۔"
"کیا ہے ادھر ۔۔؟"
اس نے جیسے ہی سامنے دیکھا تو غصے سے آنکھیں بڑی ہوئی ،اس نے زور سے اپنا پاؤں ہادی کے پاؤں پر مارا وہ بیچارہ تو کراہ ہی اٹھا۔
"ہائے میرا پیر ،مار ڈالہ ظالم"
"یار رکو تو اس میں غصہ کرنے والی کونسی بات ہے ،بچوں کے کپڑوں والی دوکان ہی تو دکھا رہا تھا ،اب آئے ہیں تو انکی بھی شاپنگ کر لیتے کیا ہو جاتا ۔۔""
"ملیحہ ایک کپ کافی تو بنا دو"
وہ جو سلاد بنا رہی تھی یکدم اسکی آواز سن کر چھری انگلی پر لگی۔
"کیا کرتی ہو تم ؟"
وہ جلدی سے اسکی انگلی پر اپنے ہاتھ سے دباؤ ڈالتا بولا۔
"اتنی لاپرواہی حد ہے ؟اور کیوں کر رہی ہو تم یہ سب کلثوم کہاں ہے ؟"
"کہاں ہے کلثوم"
اسے کچھ نا بولتے دیکھ وہ اور غصے سے بولا۔
"و۔۔۔وہ۔۔۔آ۔۔ج ۔۔ن۔۔نہیں آئی ۔۔"
اپنے ہاتھ پر اسکی سخت گرفت اور اسکے ۔لہجے سے وہ کانپی
"یہ بات تم مجھے بغیر ہکلائے بھی بتا سکتی تھی ۔۔"
ملیحہ کی آنکھیں حیرت سے تب پھٹی جب عالہان نے اسے پکڑ کر شیلف پر بٹھایا۔
وہ جلد از جلد بس وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی کل سے وہ ایک بار بھی اسکے سامنے نہیں آئی تھی۔
"ادھر کرو ہاتھ تو۔۔۔؟"
وہ اب فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اسکے قریب آیا۔
ملیحہ کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔
وہ نرمی سے اسکے زخم پر مرہم رکھنے لگا،ملیحہ کی پہلی بےساختہ نظر اس پر پڑی،ماتھے پر بکھرے بال،کھڑی ناک،داڑھی قدرے بڑھی ہوئی ،اور سختی سے بھینچے ہونٹ،وہ سنجیدگی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔
"کیوں کر رہے ہیں آپ ایسے ؟"
"آپ تو نفرت کرتے تھے نا مجھ سے ؟"
"میرا وجود تو ناقابلِ برداشت تھا نا پھر یہ۔۔۔"
"ایسے دیکھو گی تو اپنے لئے مشکل پیدا کر لو گی "
وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ بوکھلائی۔
اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا ،چہر پل میں سرخ ہوا ،دھڑکنوں نے شور قیامت برپا کیا ،وہ شیلف سے اترتی وہاں سے بھاگی۔
"ملیحہ ۔۔"
اسکی پکار پر قدم رکے ،ننھا دل کانپ سا گیا ،اتنا پیار بھرا لہجہ ،وہ کہاں عادی تھی ان سب کی؟
وہ نظروں میں ڈھیر ساری حیرانگی لے کر مڑی۔
"جب جب میں تمہیں خود سے ڈرتے دیکھتا ہوں نا ،تو میں اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہوں ،میں جانتا ہوں اسکا زمے دار میں ہوں ،جو ہوا وہ میں بدل نہیں سکتا ،میرا لب و لہجہ کبھی تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں رہا پر کیا تم مجھے معاف نہیں کر سکتی ؟کیا ہم سب کچھ بھول نہیں سکتے؟ "
وہ یہ کیا کہہ رہا تھا ،اس سے معافی مانگ رہا تھا پر کیوں ؟غلطی تو اسکی تھی نا گناہ تو ملیحہ نے کیا تھا ،یقین تو ملیحہ نے توڑا تھا اسکا تو پھر یہ معافی وہ ؟
"ایم سوری ملیحہ پر میں چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں تمہیں مجھ سے جتنی شکایتیں ہیں وہ اب ختم ہو جائیں ،ہم اپنے رشتے کی شروعات سادی خلشوں اور ناراضگیوں کو بھول کر کریں"
اسکے لفظوں نے جیسے ماحول کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ، اسکی آنکھوں میں نمی اتری ،آج پھر وہ رو دی ،کاش اسے باتیں بنانا آتی ہوتی ،کاش وہ اس سے ساری شکایتیں کر سکتی اسے بتا سکتی کہ وہ کس کرب میں ہے لیکن کیا وہ سمجھے گا ؟
کاش وہ اس سے سب کچھ بول پاتی پر مقابل کی شخصیت دیکھ کر وہ بس ڈرتی ہی تھی ،اپنے ناکردہ گناہ اسکے سامنے آ جاتے تھے،قصور وار تو وہ تھی نا ،اس گھر کی خوشیوں کو کھا گئی۔
"خدارا مجھے اور ازیت مت دو۔۔"
اسکے آنسو دیکھ کر وہ تڑپا۔
"میں جانتا ہوں تمہارے زہن میں بہت سارے سوال ہیں"
وہ اسکے قریب آ کر کھڑا ہوا۔
"شاید تمہارے سوالوں کے میرے پاس کوئی جواب نہیں ہیں لیکن میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے پوچھو ،مجھ سے شکایتیں کرو"
"میں تمہیں سننا چاہتا ہوں"
اسکے ہاتھوں کو اس نے نرمی سے تھاما۔
وہ اس سے کیا شکایت کرتی؟کیا سوال کرتی؟یہ کہ وہ اسے کس جرم کی سزا دے رہا تھا ؟اور اگرعالہان نے اسے یہ بتا دیا کہ وہ اسے کس جرم کی سزا دے رہا ہے تو کیا وہ جی پائے گی؟عالہان اس سے شادی کر رہا تھا یہ کیا کم تھا اسکے لئے؟اسے ساری زندگی کے لئے اپنا سایہ فراہم کر رہا تھا ،اسے وہ چھت دے رہا تھا جو اس سے کوئی چھین نہیں سکتا تھا اسے یہی تو چاہیے تھا۔
''م۔۔م۔۔مجھے ۔۔آ۔۔پ۔۔س۔۔سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔۔"
"لیکن کیوں؟"
"کیونکہ میں قصوار تھی ،مجھے میری غلطی کی سزا ملی ہے بس ۔۔"
'تم قصوراور نہہ"
'میں نے گناہ کیا تھا،آپکی محبت کو آپ سے دور کر دیا ،آپکا مان توڑا ،میرے ایک انکار سے کئی زندگیاں بچ سکتی تھی "
" میں خود غرض بن گئی تھی اور میں اب بھی خود غرض ہی بن رہی ہوں"
وہ بول رہی تھی اور وہ اسے سن رہا تھا۔
"آپ کی خوشیوں کا قتل کیا ہے میں نے "
"نہیں ملی تم۔۔۔"
آپکا ایسا رویہ بنتا تھا ۔۔"
"می۔۔میں نے ۔ک۔کبھی ۔آپ کو۔۔برا بھلا ۔۔نہیں کہا۔۔کیونکہ میرا قصور تھا ۔۔م۔۔می۔۔میں خود۔۔غرض۔۔"
اسکی زبان لڑکھڑانے لگی،پلکیں نم ہوئی۔
"میں نے۔۔۔"
عالہان نے اسے اپنے حصار میں لیا،وہ اسکے حصار میں تھی ،اسکی باہوں کا گھیرا تنگ تھا،وہ نرمی سے اسکے کمر پر بکھرے بال سہلانے لگا،وہ اتنا ظالم کیسے ہو سکتا تھا ؟
"غلط نا تم تھی نا میں تھا اگر غلط تھے تو حالات تھے ملیحہ"
'مجھ۔۔مجھے معاف کر دیں پلیز۔۔"
"مج۔مجھ۔۔مجھے نہیں پ۔۔پت۔۔پتا تھا ۔۔ی۔۔یہ سب۔۔ہ۔۔ہو جا۔۔جائے گا آپکے۔۔بابا ۔۔"
وہ بہت نرمی سے اب اسکے آنسو صاف کر رہا تھا۔
"شاید قسمت کو یہ ہی منظور تھا "
"اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں"
"آ۔۔۔آپ۔۔مج۔۔مجھے"
"میں نے کہا نا ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے ملیحہ ۔۔"
وہ اسے خود سے لگائے بہلانے لگا۔
"ویسے ہم اس وقت کچن میں کھڑے ہیں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں پر"
عالہان نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
"و۔۔وہ۔۔میں"
وہ ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوئی تھی پر مقابل نے گرفت سخت کر دی تھئ ۔
"ویسے کیا خیال ہے اب آج ہی رخصتی کر لی جائے صلح تو ہو گئی نا اب"
"ک۔۔کب صلح ہوئی ؟"
"ابھی جب آپ میرے گلے لگی رو رہی تھی تب"
عالہان نے آیک آنکھ دبائی ۔
وہ یکدم اس سے دور ہوتی وہاں سے بھاگی، عالہان کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا اور یہ اسکی نظروں کی تپش ہی تھی کہ وہ رکی اور پیچھے مڑ کر اسے دیکھا ، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے اچانک دیکھنے پر وہ لڑکھڑایا ،ملیحہ عالہان آفریدی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ، پھر وہ مسکراہٹ ہنسی میں بدلی تھی اور اسکی ہنسی کی کھنک نے ماحول کے ساتھ ساتھ عالہان آفریدی کو بھی جکڑ لیا تھا پتا نہیں کتنے عرصے بعد وہ ہنسی تھی اسکی آنکھوں میں محبت رقص کر رہی تھی،بے اختیار اس کے دل نے دعا مانگی تھی کہ یہ ہنسی اس کے لبوں سے کبھی جدا نا ہو ۔
"علی میں نے بول دیا تم میری شادی پر اپنے لفنگے اور آوارہ دوستوں کو نہیں بلا رہے مطلب نہیں بلا رہے ۔۔"
"او زرا مٹھی ہو میں تمہاری نہیں اپنے بھائی کی شادی پر اپنے دوستوں کو بلا رہا ہوں تمہارا بس نکاح ہو رہا ہے "
علی بھی فل تپا ۔
"میں بھی دیکھتی ہوں وہ شیرو ،مٹھو اور وہ ٹینڈا کیسے آتے میری شادی میں "
"تمہاری وہ ٹینا ،مینا ،نیلی پیلی وہ بھی تو آ رہی نا شادی پر تو میرے دوستوں سے کیوں مرچیں لگ رہی تمہیں "
"ہاں تو میری شادی ہے نا جب تمہاری ہوئی تم بھی بلا لینا ۔۔"
"آہ ۔۔آہ ۔۔ظالم کیسا طنز مارا ہے لاجواب کر دیا ہے ،میری دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا تو نے ،آہ وہ کیا کہتے ہیں ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا "
" بس ڈرامے نہیں کرو زیادہ تم اب نکلو یہاں سے فشل کرنے دو مجھے "
"بیٹا مجھے پتا ہے ضرور تمہاری دوستوں نے ہی منع کیا ہو گا کہ میرے دوست شادی پر نا آئیں پر وہ آئیں گے اور ڈنکے کی چوٹ پر آئیں گے جو کرنا ہے کر لو ۔۔"
علی جاتے جاتے دروازے پر رکا ،اور یہ فلائنگ جوتا لگا تھا اسے نہیں دروازے کو کیونکہ وہ اسکے ارادے بھانپتا بھاگ چکا تھا۔
"ہیلو بیوٹیفل لیڈیز کیا ہو رہا ہے ادھر؟"
وہ اب ملیحہ اور گل بیگم کے پاس باہر آ کر بیٹھا۔
"آ گئے تم مٹر گشتی کر کے ۔۔"
"مٹر گشتی کس کے ساتھ کروں گا ماما جان آپکے بیٹے ساتھ کوئی سیٹ ہی نہیں ہوتی ۔۔"
وہ کافی دکھ سے بولا۔
"ملیحہ تمہاری کوئی دوست ہوتی تو میں اسکے ساتھ ہی سیٹ ہو جاتا"
"دوست؟"
"ہاں ملیحہ تم نے کبھی اپنی دوستوں کے بارے میں نہیں بتایا ؟"
گل بیگم شاپنگ بیگز کو ایک طرف کرتی بولی۔
"دوست؟"
"ہاں تمہاری دوستیں نہیں ہیں کیا؟"
"ایک ہی دوست تھی"
"کون؟"
وہ دونوں ایک ساتھ بولے۔
"نینا۔۔"
عالہان آفریدی کے اٹھتے قدم رکے،وہ بات کرنے کے بعد دوبارہ سے کپڑوں کو تہہ لگانے لگ پڑی ،ماحول اچانک ہی غمگین ہو گیا تھا ،سب جانتے تھے نینا اور اسکی بہت دوستی تھی لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ وہ دوستی نفرت میں بدل گئی۔
"کیا کر رہے ہو تم یہاں؟"
عالہان کی آواز پر کام کرتے اسکے ہاتھ زرا دیر کے لئے رکے پر وہ نظریں جھکائے اپنے کام میں مصروف رہے وہ اسکے ساتھ والی خالی کرسی پر آ کر بیٹھا اور اپنا ہاتھ اسکی کرسی پر رکھا۔
"آپ کو آجکل آفس سے کچھ زیادہ ہی جلدی چھٹی نہیں ہو جاتی؟"
"میرا اپنا آفس ہے مجھے کیا اب تم سے پوچھ کر آنا پڑے گا؟"
"نہیں نہیں میں تو "
""اسکے کان کھینچو یہ لڑکیوں کے چکر میں ہے"
"جیسا آپکا حکم والدہ "
عالہان نے سچ میں اسکے کان پکڑے،جس پر وہ کراہ ہی اٹھا۔
ملیحہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی وہ آج ہنسی تھی اور اسکی ہنسی کی جلترنگ نے عالہان کو لمحے کے لئے فریز کر دیا۔
"بھائی میرا کان۔۔۔"
"عالہان چھوڑ بھی دو۔۔۔"
"ہاں۔۔۔"
وہ ہڑبڑا سا گیا۔
"حد ہے کتنے ظالم ہیں آپ"
اسکا کان سرخ ہو چکا تھا۔
ملیحہ کی مسکراہٹ سمٹی۔
"آپکا بڑا بیٹا اور بہو تو ہر جگہ رومینس کرتے پائے جاتے ہیں اور میں غریب بات بھی نا کروں"
علی اتنی معصومیت سے بولا تھا کہ عالہان اور گل بیگم بے ساختہ ہنس پڑے۔
جب کہ ملیحہ نے اپنا سرخ چہرہ چھپانے کے لئے شاپنگ بیگ میں جھکا لیا ۔
"کچھ ڈھونڈ رہی ہو ملی کیا گم ہو گیا ہے؟"
علی مسکراہٹ ظبط کرتا بولا۔
"ن۔۔نہیں تا۔۔تو کچھ نہیں گم ہوا ۔۔"
"اچھا ویسے مبارک ہو تمہیں "
"ک۔کس چیز کی مبارک"
"تمہیں وہ مل گیا نا اسکی مبارک ۔۔"
علی کی سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔
"کون مل گیا ؟"
" جو گم ہوا تھا "
"ہاں جو گم ہوا وہ تو مل گیا تمہیں ۔۔"
علی کی بات پر سب نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
"ک۔کیا گم ہوا تھا میرا ؟"
وہ تو روہانسی ہو گئی تھی اب ۔
"تمہارا شوہر گم ہوا تھا نا چار سال پہلے ابھی پرنسو تمہیں واپس مل گیا نا اسکی مبارک باد، اب اسی خوشی میں اچھی سی چائے بنا کر لائیں بھابھی جان"
"ج۔۔۔جی"
اسکے لئے وہاں بیٹھنا مشکل ہوا۔
"نہیں تنگ کرو یار اپنی بھابھی کو" عالہان نے
مصنوعی غصہ دکھایا ۔
"اچھا اور جو چار سال آپ نے تنگ کیا اسے اس پر کیا خیال ہے آپکا؟"
علی بھی ویسے ہی بولا تھا ۔
""تو میں اب ساری زندگی ان چار سالوں کا ازالہ بھی تو کروں گا"
"اور وہ کسیے کریں گے آپ ؟"
"جیسے اب کر رہا ہوں "
"ہاں پیار کرنا پڑے گا وہ بھی بہت زیادہ بھئی میری لاڈلی بیٹی ہے "
'"اسکی آپ فکر ہی نا کریں پیار میں تو بھائی نے ایم فل کیا ہوا کیوں بھائی ؟"
"پی ایچ ڈی ہی سمجھ لو"
ان دونوں کا قہقہ گونجا ،وہ سرخ پڑی۔
علی کی باتیں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں اور اب تو وہ سب بھی مل کر اسے تنگ کر رہے تھے ۔
"سارے ہی پاگل ہیں "
وہ بڑبڑاتی وہاں سے اٹھی ،لیکن وہ خوش تھی ،دل میں کہیں جو ڈر تھا وہ اب آہستہ آہستہ دور ہو رہا تھا۔
"بھابھی جان رکئے تو کہاں جا رہی آپ؟"
'آپ کے لئے چائے بنانے "
ملی کافی تپ کر بولی اور حال ایک دفعہ پھر قہقوں سے گونج اٹھا۔
محبت نے اپنا آپ منوا لیا تھا اس گھر میں خوشیاں لوٹ آئی تھی،وہ سب خوش تھے ،انکی خوشی انکی انکھوں میں رقص کرتی دکھائی دے رہی تھی ،کبھی کبھی خوشیاں ہمارے دروازے پر ہی کھڑی ہوتی ہیں بس ہم دروازہ کھولنے میں تاخیر کر دیتے ہیں ہم اپنے غموں میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں انکو خود پر اتنا حاوی کر لیتے ہیں کہ خوشیاں ہمیں نظر ہی نہیں آتی حالانکہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے تو کیا ہر غم کے بعد خوشی نہیں ہو سکتی ؟
کل سے ملیحہ سے اسکی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ظالم سماج اور اسکی یہ ظالم رسمیں،وہ بوکھلایا ہوا ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔
"یہ کہاں لکھا ہے کہ دولہن کو نکاح کے بعد بھی مایوں بٹھایا جائے میں نے تو کہا تھا سیدھا ولیمہ کرتے ہیں لیکن نہیں میری اس گھر میں سنتا ہی کون ہے "
عالہان شام کے وقت گھر آیا تھا اور فل تپا ہوا تھا ۔
"برخوداد چار سال وہ آپکی نظروں کے سامنے ہی رہی ہے تب تو یہ اتنا بے چین نہیں ہوئے آپ؟"
"ماما کیا آپ مجھ پر طنز کرنا بند نہیں کر سکتی جو ہو گیا ہے وہ میں بدل تو نہیں سکتا"
"میں بس مزاق کر رہی تھی عالی "
"کلثوم کافی کدھر ہے میری تمہیں پتا ہے نا گھر آتے ہی مجھے کافی چاہیے ہوتی "
وہ اب کلثوم پر بھڑکا ۔
"س۔۔سر وہ مج۔۔مجھے لگا ملیحہ بیبی بنائے گی روز وہی بناتی ہیں ۔۔"
کلثوم سر جھکاتی بولی، جس پر سیڑھیوں سے اترتے علی کا قہقہ بے ساختہ تھا جبکہ عالہان کا میٹر اور شارٹ ہوا۔
"تم کس خوشی میں اتنی کھی کھی کر رہے ہو کوئی اور کام نہیں ہے تمہیں ؟"
"ارے ارے مجھ غریب پر کیوں غصہ کر رہے ہیں آپ میرا کیا قصور ہے ؟"
علی معصومیت کے ریکارڈ توڑتا اسے اور تپاتا بولا۔
"نینا کہاں ہے ؟"
وہ اب گل بیگم کی طرف گھوما۔
"وہ تو ہادی ساتھ گئی ہے شاپنگ پر "
"واہ جن کا نکاح نہیں ہوا وہ کھلے عام گھوم رہے اور جن بیچاروں کا چار سال سے نکاح ہوا ہے وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی۔۔۔"
علی کی چلتی زبان کو بریک لگی ،کیونکہ عالہان کی سرخ آنکھیں اسی پر تھی۔
"میں تو بس ہمدردی میں ۔۔"
"سر کافی ۔۔"
کلثوم نے بھاپ اڑاتا کافی کا مگ اسکے سامنے کیا۔
"بھاڑ میں جائے کافی ۔۔"
وہ اب غصے سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
گل بیگم اور علی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے شرارت سے کندھے اچکا گئے ۔
''صاحب کو کیا ہوا جی ؟"
"کچھ نہیں ہوا صاحب کو بس زرا دماغ گھوما ہوا ہے انکا ۔۔"
علی نے کلثوم سے کافی کا مگ لیا۔
"وہ کیوں جی ؟"
"وہ اس لئے کہ کل سے انکی ہونے والی بیوی سے ملنا ممنوع ہو گیا ہے اور اب وہ کل ہی مل سکیں گے مہندی پر ۔۔"
علی آرام سے کافی کے گھونٹ بھرتا صوفے پر بیٹھا۔
" کافی کس نے بنائی ؟"
"ملیحہ آ جاؤ کچن سے باہر اب چلے گئے آپکے مزاجی خدا ۔۔"
وہ کافی کا گھونٹ بھرتے ہی سمجھ گیا تھا یہ کس نے بنائی ہے ۔
ملیحہ تو شرم کے مارے مشکل سے کچن سے باہر آئی تھی جہاں علی اسے معنی خیز نظروں سے گھور رہا تھا۔
"آپکے ہونے والے وہ تو بڑے اتاولے ہو رہے ملنے کو کہو تو ملاقات کروا دوں ۔۔۔"
"خالہ ۔۔"
"ارے نہیں کرو تنگ اسے علی ۔۔"
گل بیگم نے اسکے منموہنے چہرے پر نظریں گاڑی،ایک ہفتے سے سب کچھ بہت بدل گیا تھا ،وہ کم ڈرتی تھی ،وہ کھل کر باتیں کرنے لگی تھی ،وہ اب بات کرتے ہوئے ہچکچاتی نہیں تھی ،وہ بدل رہی تھی،عالہان کا نرم لہجہ ،اسکا پیار سب اسکی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔
گل بیگم نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری تھی ۔
"اللہ تمہیں ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے میری دل سے دعا ہے "
وہ نم آنکھوں سے انکے گلے کا ہار بنی ۔
"کاش آج ماما بابا بھی ہوتے ۔۔"
آنسو خاموشی سے پلکوں سے اترے۔
"ارے لیڈیز میں بھی ہوں یہاں مجھے بھی لگاؤ گلے۔۔"
علی شرارت سے بولتا دھڑام انکے گلے لگا۔
رات کو باہر سے آتے شور پر اسکی آنکھ کھلی ،اسے علی اور عالہان کی آوازیں آ رہی تھی ،وہ جلدی ہی سو جاتی تھی اب ،پہلے تو عالہان آفس سے لیٹ آتا تھا تو اسکے انتظار میں خالہ کے کہنے پر اسے جاگنا پڑتا ،سائیڈ ٹیبل پر پانی کا جگ خالی بھی پڑا تھا وہ آرام سے جگ اٹھاتی کمرے سے باہر نکلی ہر بڑھتے قدم کے ساتھ کوئی آس پاس محسوس ہوا تھا۔
"عا۔۔عالہان ''
لبوں پر اسکا ہی نام آیا تھا ۔۔
اسے ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر دیکھا تھا پر وہ تو کہیں بھی نہیں تھا۔
پتا نہیں یہ بے چینی کیوں تھی ؟
پورا ہفتہ ہو گیا تھا عالہان کا ڈر اسکے دل سے آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا محبت کے رنگوں نے دل میں ڈیرا جمایا تھا منہ بولتے جزبات اب چہرے سے عیاں ہونے لگے تھے۔
کچن کی ساری لائٹس آن تھی۔
اس نے جگ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ کسی نے جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا اس سے پہلے کہ وہ چیختی مقابل نے سختی سے اسکے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھا ،سامنے وہی تو تھا ،عالہان آفریدی
ڈھیلی ڈھالی سی ٹی شرٹ پہنے ،رف سے بال جو ماتھے پر بکھرے پڑے تھے ز داڑھی کے نیچے سختی سے بھینچے ہوئے ہونٹ ،آنکھوں میں سرخی دوڑ رہی تھیں ،پل میں اسکی ساری ہمت جواب دے گئی
وہ غصے میں تھا پر کیوں ؟ اسکی گرفت سخت تھی ،آنکھوں میں آنسو آئے تو عالہان نے اپنا ہاتھ ہٹایا۔
خالا نے کہا تھا مہندی سے پہلے اسکے سامنے نہیں آنا ،پر اب تو وہ پھنس چکی تھی ایک طرف سے اس نے کھسکنے کی کوشش بھی ناکام بنائی۔
"کہاں تھی تم کل سے ؟"
لہجہ قطعاً نرم نہیں تھا۔
"و۔۔و۔وہ"
"ہکلائے بغیر بتاو ؟"
اسکے چہرے پر آئی لٹوں سے کھیلتا وہ شریر ہوا۔
"م۔۔میں۔۔"
مقابل نے سخت نظروں سے اسے گھورا ، اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اسکی قربت میں کچھ منہ سے نکلے تب نا ۔۔
"میں ا۔۔اپنے کمرے میں تھی ۔۔"
پوری ہمت جمع کر کے اس نے جواب دیا۔
"میرے لئے کافی کیوں نہیں بنائی ؟"
"بنائی تو تھی آپ نے پی ہی نہیں"
نجانے کیسے لبوں سے بات پھسلی ۔
"اسکا مطلب تم میری آواز سن سکتی تھی پھر بھی تم کچن سے باہر نہیں آئی ہینا ۔۔"
"می۔۔میں کچن م۔۔میں نہیں"
"جھوٹ سے سخت نفرت ہے مجھے ملیحہ عالہان آفریدی ۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولا۔
ملیحہ نے زور سے اپنی آنکھیں میچی ،شاید وہ ماضی کا حوالہ دے رہا تھا،وہی غصہ وہی سرخ آنکھیں جو اسے خوف میں مبتلا کرتی تھی ،رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔
"۔۔ا۔۔ایم۔۔۔سو۔۔سوری ۔۔"
"تم اسکے علاوہ کچھ نہیں بول سکتی کیا ؟"
لہجہ بدلا تھا گرفت نرم پڑی۔۔
"ک۔۔کیا بولوں؟"
"سچ"
"س۔۔سچ بولتی تو آپ غصہ کرتے ۔۔"
وہ نم چہرہ جھکاتی بولی۔
" جھوٹ تمہیں پتا ہے سخت نا پسند مجھے "
وہ کچھ بولنے کے بجائے اپنے ہاتھوں کو سختی سے ایک دوسرے سے الجھانے لگی ،نرم ہاتھ سرخ پڑ چکے تھے۔
“Stop hurting my things Mrs”
اسکے ہاتھوں کو آزاد کرواتا وہ سختی سے بولا تھا ۔
ملیحہ کے چہرے پر ہزاروں رنگ بکھرے تھے ،کیا تھا وہ شخص؟
"پل میں تولہ پل میں ماشہ"
"مجھے کافی بنا کر دو ۔۔"
"اس وقت ۔۔"
وہ حیرانگی سے آنکھیں بڑی کرتی بولی تھی۔
"کیوں اس وقت کافی نہیں پی جا سکتی کیا ؟'
مقابل جیسے بھرا بیٹھا تھا۔
"می۔۔میرا۔۔و۔۔وہ مطلب نہیں تھا۔۔"
اس نے جلدی سے صفائی دی۔
"جو بھی مطلب تھا ،مجھے کافی چاہیے ۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولتا چئیر گھسیٹ کر بیٹھا۔
وہ کافی کے لئے کیٹل میں پانی ڈالنے لگی۔
"کھانا گرم کر دو پہلے ۔۔"
ایک اور حکم آیا۔
اس نے جلدی سے فریج کھولی پر اندر تو کچھ بھی کھانے لائق نہیں تھا۔
"جلدی کرو مجھے بھوک لگ رہی ۔۔"
وہ جھنجلا کر بولا۔
"و۔۔وہ۔۔ک۔۔۔کھ۔۔کھانا ت۔۔تو ہ۔۔ہے ہی نہیں ۔۔"
"تو بنا لو ؟"
اسے اگنور کرتا وہ موبائل کھول کر بیٹھا۔
"اس وقت کیا بناؤں ؟"
" کیا اس وقت اس وقت لگا رکھی ہے ابھی ساڑھے گیارہ ہی ہوئے ہیں پہلے بھی تو تم ہی اس وقت کھانا دیتی نا مجھے ؟"
وہ طنز کے تیر چلاتا سخت لہجے میں بولا۔
"میں بس پ۔۔پوچھ رہی تھی کیا بناؤں؟"
اس نے صفائی پیش کی وہ اسے کیا بتاتی نوڈلز کے علاؤہ اسے بنانا ہی کچھ نہیں آتا تھا،خالا نے اسے کبھی کسی کام کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیا تھا۔
"چکن کڑھائی ،بریانی اور میٹھے میں کھیر"
وہ خاصے آرام سے بولا،حیرت کی زیادتی سے اسکی گہری آنکھیں اور بڑی ہوئی۔
"اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو بناؤ نا" عالہان نے فون سے نظریں ہٹائی ۔
"مجھے ی۔۔یہ نہیں بنانا آتا ۔۔"
"کیا؟"
وہ غصے سے چیخا ہی تو تھا ،خوف سے وہ دو قدم پیچھے ہوئی،رویہ سمجھنے سے وہ قاصر تھی۔
" رونے کے علاوہ آتا کیا ہے تمہیں ؟"
اسکے آنسوؤں کو دیکھتا وہ سخت لہجے میں بولا۔
"مجھے نوڈلز اور کافی بنانی آتی ہے "
نا چاہتے ہوئے بھی وہ غصے سے بولی تھی وہ کب سے اسکی بے عزتی کئے جا رہا تھا،اسکی معصومیت پر وہ اش اش ہی کر اٹھا تھا۔
"اسکے علاوہ کیا بنا لیتی آپ ۔۔؟"
وہ اسکے قریب آیا۔
"چائے بھی بنا لیتی ہوں میں "
"اور ؟ "
"ا۔۔اور۔۔"
وہ اب سوچ میں پڑ گئی اسکے علاؤہ کیا آتا تھا اسے؟
"فرائی ایگ۔۔۔"
وہ خوشی سے بولی۔
پھر تو انڈا بھی ابائل کر لیتی ہو گی تم؟
"ہاں ہاں وہ بھی ۔۔"
اسکی خوشی میں مزید اضافہ ہوا۔
"پر مجھے تو ان سب میں سے ایک چیز بھی نہیں پسند ۔۔"
اسکی آنکھوں میں دیکھتا وہ جانچتی نظروں سے اسے گھورنے لگا۔
"نوڈلز بھی نہیں "
معصومیت ہی معصومیت اسکے چہرے پر رقصاں تھی،عالہان نے نفی میں سر ہلایا۔
"پر نوڈلز بہت اچھے ہوتے ہیں بہت مزے کے آپ کھائیں گے تو آپ کو بھی لگیں گے "
وہ اسے نوڈلز کے فائدے بتانے لگی۔
لیکن اس نے پھر سے نفی میں سر ہلایا، آنکھیں مسلسل اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھی،
شرارتی لٹیں چہرے کا طواف کر رہی تھی جن سے وہ تنگ آئی ہوئی تھی وہ بھول گئی تھی وہ اسکے اتنے قریب کھڑا ہے،فلحال تو وہ بس اسکی بھوک مٹانے کی فکر میں تھی۔
"میں انڈہ بنا دیتی ہوں وہ تو بہت"
"مجھے کچھ بھی نہیں کھانا "
وہ غصے سے بولتا اس سے دور ہوا۔
"لیکن۔۔۔؟"
"کوئی ایک کام جو تمہیں کرنا آتا ہو رونے کے علاؤہ"
وہ چپ کر گئی۔
"اس گھر میں کیا کر رہی ہو تم پھر ؟"
اس نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا وہ سنجیدہ تھا ،حد درجے کا سنجیدہ ،اسے اسکی سرخ آنکھوں سے خوف سا آیا ۔
"عا۔۔لی۔"
"بس اب ایک اور لفظ نہیں چلو میرے ساتھ "
اسکا ہاتھ عالہان کی جارہانہ گرفت میں آیا۔
"عالی۔۔مجھے کہاں لے کر۔۔۔چھوڑیں مجھے۔۔"
وہ گھسیٹتے ہوئے اسکے ساتھ جا رہی تھی،رونا اسکی اسی وقت شروع ہو چکا تھا۔
"اب میری جان تمہاری غلطی کی سزا بھی تو دینی ہے نا تمہیں ۔۔"
عالہان ریلکس موڈ میں بولا۔
"ک۔۔ک۔۔کیسی سزا ؟"
وہ رونے لگ پڑی تھی ،خوف کی ایک لہر تو تب پورے جسم میں دوڑی جب اس نے اسے گھل اندھیرے میں گھر کے لان میں آ کھڑا کیا۔
اسکا ہاتھ نرمی سے چھوڑتا وہ دو قدم پیچھے ہوا ،آج چاند بھی آسمان پر موجود کہیں بادلوں میں ہی چھپ گیا تھا، شدید قسم کے اندھیرے سے اسکا جسم کانپا ۔
"ا۔۔ایسا۔۔ن۔۔نہیں کریں پلیز ۔۔ا۔۔ایم۔ایم۔ایم سوری عا۔۔عالہان۔۔مجھے چھوڑ کر مت جائیں ۔۔م۔میں سیکھوں گی ۔۔ک۔۔کھانا بنانا پلیز۔۔"
وہ اسے اپنے سے دور جاتا دیکھ چلائی، اندھیرے کے باعث وہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھی،لیکن وہ سائے ؟وہ اسے نظر آ رہے تھے ،خون؟سرخ چہرے ،کسی کی چیخ و پکار۔
"ع۔۔عالی "
وہ بے بسی سے رو پڑی ،اتنی تزلیل؟ اتنا خوف تھا اس پر اس اندھیرے کا ،وہ اپنے کسی خوف سے چھٹکارا کیوں نہیں پا سکتی تھی ۔۔؟
عالہان بدل گیا تھا پھر سے وہ سب جھوٹ نکلا،اسکی آنکھوں کے وہ سب رنگ جھوٹے تھے ،وہ جھوٹا تھا ،سب کچھ جھوٹ تھا ،اس نے یہ سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ وہ اس سے پیار کر سکتا ہے ،وہ بھلا کیوں اس سے پیار کرے گا ؟وہ اسکی خوشیوں کی قاتل تھی۔
" م۔۔ماما"
وہ اندھیرے میں ہی اندر کی طرف بھاگی ، پر پاؤں سے کوئی پتھر ٹکرایا ،اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی کسی کی مظبوط باہوں کے حصار نے اسے تھاما،جانی پہنچانی کلون کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی۔
"عالی۔۔۔"
"آئی۔۔ایم سوری عالی ۔۔"
اس نے سختی سے اسکے گرد اپنے نازک بازوؤں کا حصار باندھا۔
آنسو عالہان کی شرٹ کو بھگو رہے تھے وہ خوف سے کانپ رہی تھی، عالہان کو خود پر ڈھیروں غصہ آیا۔
"پل۔پلیزمجھے س۔۔سز۔۔سزا ن۔۔نا۔۔دیں نا سوری کر ر۔۔۔رہی۔۔میں ۔۔کھانا ب۔۔بنا۔۔نا ۔۔"
وہ ہچکیوں کے درمیان مشکل سے بولی ،لان ایک پل میں روشنیوں سے جگمگا اٹھا ،پھولوں کی نرم پتیاں انکے چہرے پر گری،تو اس نے اپنا چہرا اوپر اٹھایا،پورے لان میں لایٹینگ ہی لایٹینگ تھی اور وہ جدھر کھڑی تھی وہ سارا راستہ گلاب کے پھولوں سے آراستہ تھا،وہ پھولوں پر کھڑی تھی ،اس پر پھول گر رہے تھے ،اسکے ارد گرد روشنیاں تھی ،وہ سائے کہیں نہیں تھے اس نے گھبرا کر عالہان کے چہرے کی طرف دیکھا۔
"Happy birthday meri jan.."
عالہان نے اسکے کانوں میں ہلکی سے سرگوشی کی،وہ ہونقوں کی طرح منہ کھولے آس پاس دیکھنے لگے،سامنے ہی علی، گل بیگم ،ہادی یہاں تک کے نینا کھڑے تھے ہاتھوں میں ڈھیر سارے غبارے لیے
گل بیگم نے اسکا فیورٹ چاکلیٹ کیک ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا۔
"اگر آپ دونوں کا رومینس ختم ہو گیا ہو تو کیا ہم سب بھی آپکو سالگرہ کی مبارک باد دے سکتے ہیں ؟"
علی نے نیند سے بھرپور ایک انگڑائی لی،وہ جو عالہان سے چپکی کھڑی تھی جلدی سے اس سے دور ہوئی ۔
"ملی اب اتنا بھی دور ہونے کو نہیں بولا تھا ہم نے"
ہادی نے انکے فاصلے پر چوٹ کی۔
وہ کچھ شرم اور غصے سے عالہان کی طرف دیکھ رہی تھی،آنکھوں میں واضح سوال تھا کہ ایسے کوئی سرپرائز دیتا کیا ؟
"ایم سوری میری جان میرا تمہیں ہرٹ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ،لیکن یہ جو علی کا بچہ نا اس نے یہ سب فضول آئیڈیا دیا ۔۔"
عالہان نے اپنا ایک کان پکڑا۔
"استغفراللہ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا بہن ،پہلے خود ہی کہا کہ آئیڈیا دو کیسے سرپرائز دینا یہ تو وہ بات ہوئی نا نیکی کر دریا میں ڈال ۔۔"
"میرے خیال سے اگر تمہارا ہو گیا ہو تو ہمیں ملی کو وش کرنا چاہیے "
ہادی شاید علی کی ایکٹنگ سے بور ہو گیا تھا،ایسا نہیں تھا کی اس نے پہلے کبھی سالگرہ نہیں منائی تھی ،ان چار سالوں میں خالا اور علی کو ہمیشہ اسکی سالگرہ یاد رہتی تھی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو جان کر بھی انجان رہتے تھے،وہ دل سے خوش تھی کیونکہ نینا بھی انکے ساتھ تھی ،نینا جو ایک وقت میں اسکے جینے کا دارومدار ہوا کرتی تھی۔
"نینا آؤ تم بھی وش کرو۔۔۔"
"میں جھوٹی خوشیوں میں شریک نہیں ہوتی"
"نینا۔۔۔"
"گڈ نائٹ۔۔۔"
اسکے مسکراتے لب سمٹے،وہ سب اپنی اپنی جگہ شرمندہ سے ہو گئے۔
"اچھا چلو بھی اب کیک کاٹو۔۔۔"
وہ سب تالیاں بجا رہے تھے ،عالہان اسکے ساتھ کھڑا تھا،اب وہ کیک کاٹ رہی تھی ،اسکے ارد گرد مسکراتے چہرے تھے ،اس نے ان مسکراتے چہروں کو بہت غور سے دیکھا ،ان میں کچھ چہرے گم ہو چکے تھے ،اسکی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہونا شروع ہوا،سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا ،پھر دل میں یہ اداسی کیوں،آج تو روشنیاں جمع تھی ،مسکراہٹیں رقصاں تھے ،قہقوں کی گونج تھی ،آس پاس خوشبیں بکھری پڑی تھی ،روشنیوں کی بھرمار تھی ،اسکے پہلو میں اسکا شوہر کھڑا تھا ،لیکن وہ انکے بیچ میں پھر بھی اکیلی تھی ،سب کچھ مدھم پڑتا چلا گیا ،اس نے سب کو کیک کھلایا صرف عالہان کو نہیں ،علی نے اسکے ہاتھ میں غبارے دئے۔
"انھیں ہوا میں چھوڑ دو"
"پھر یہ کہاں جائیں گے علی؟"
"دور۔۔۔"
اس نے غباروں کو چھوڑ دیا،وہ واقع میں اس سے دور جا رہے تھے ،پہلے آہستگی سے ،وہ انھیں دیکھ سکتی تھی لیکن اسکے پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ وہ گم ہو گئے ،اسکی آنکھوں میں اداسی اتری۔
"علی وہ گم ہو گئے؟"
وہ پلٹی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا سوائے عالہان
کے جس نے تھوڑی دیر پہلے اسکی جان نکالنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ،وہ غصے سے اسے دیکھتی آگے بڑھنے لگی جب کلائی اسکی گرفت میں آئی،وہ بڑے ہی وسوق اور حق کے ساتھ اسکی کلائی پکڑتا ،قدموں کے ساتھ اسکی سانسیں بھی رکی۔
"کیا ناراض ہو ؟ "
نرمی سے پوچھا گیا۔
وہ خاموش رہی بس سر جھکایا۔
"یہ سب اس علی کا پلین تھا اس نے کہا میں تمہیں مصروف رکھوں بس اسی لیے ایم سوری یار"
"مجھے آپ سے خوف آنے لگا ہے اب ؟"
ملیحہ کی بات پر وہ حیران ہوا۔
"کیسا خوف؟"
"آپکے بدل جانے کا خوف"
وہ پتھر بنا۔
''ایسا کبھی نہیں ہو گا"
کسی گہری کھائی سے آواز آئی۔
"جس دن ایسا ہوا نا اس دن ملیحہ عالہان آفریدی ٹوٹ جائے گی ،میں نے بہت مشکل سے اپنے بکھرے وجود کو سنبھالا ہے ،یاد رکھئے گا میرے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں بچا"
وہ پتا نہیں یہ سب کیوں بول رہی تھی، شاید وہ ڈر گئی تھی اسے لگا تھا عالہان اسے سچ میں گھر سے نکال دے گا پھر وہ کہاں جائے گی۔
عالہان نے بغیر کچھ بولے نرمی سے اسے اپنے حصار میں لیا۔
"پلیز ملی میرا ارادہ تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا ،ایم سوری یار"
"آپ سوری نہیں کریں بار بار اٹس اوکے"
وہ اس سے دور ہوتی بینچ پر بیٹھی، اسے ٹھنڈ محسوس ہوئی تھی ۔
"اندر چلتے ہیں باہر سردی بڑھ رہی ہے"
وہ اسکے سردی کی وجہ سے تھر تھر کانپتے وجود کو دیکھ کر بولا۔
"مجھے سردی اچھی لگتی ہے"
"آپکو پتا ہے میں ماما بابا سے بہت ضد کرتی تھی آئس کریم کھانے کی وہ بھی سخت سردی میں ،دھند تو مجھے بہت پسند تھی ،ٹھنڈی ہوا نرم گھاس اور اس پر ننگے پاؤں چلنا ،اور پھر تاروں سے بھرا یہ روشن آسمان۔۔"
وہ بند آنکھوں سے جیسے سردی کو محسوس کرنے لگی۔
"پھر کیا تمہاری ماما تمہاری خواہش پوری کرتی تھی ۔۔"
عالہان اسکے قریب بیٹھا ۔
"کبھی بھی نہیں"
"کیوں؟"
کیونکہ میں بیمار بہت جلد ہو جاتی تھی ،پر بابا وہ مجھے چھپ چھپ کر آئس کریم کھلوا دیتے تھے لیکن بعد میں جب مجھے فلو لگ جاتا تھا تو میرے سے ڈبل انھیں ڈانٹ پڑتی تھی ۔۔"
وہ ہنستے ہنستے کب رونے لگی۔
"ملیحہ"
"دیکھیے آج خواہش پوری ہو گئی میری میں سردی انجوائے کر رہی پر ماما بابا"
وہ سسکی۔
"پتا ہے ہر سال میری بہت بڑی برڈے پارٹی ہوا کرتی تھی ،بابا ہر دفعہ سب سے پہلے مجھے وش کرتے تھے اور اسی بات پر ماما کا ان سے جھگڑا ہوتا تھا کہ دونوں کو ساتھ مل کر وش کرنا چاہیے"
"پتا ہے ہر سال میں اپنی برتھڈے کے آنے سے پہلے اتنا شور مچاتی تھی کہ اللہ کی پناہ"
یہاں تک کے ہمارے گھر کے چوکیدار کو بھی میری سالگرہ یاد رہتی تھی ۔۔"
وہ ہنسی تھی پر اس ہنسی میں دکھ کا عنضر زیادہ تھا ۔
"لیکن اب مجھے اپنی سالگرہ یاد نہیں رہتی مجھے آج بھی یاد نہیں تھی مجھے کوئی تاریخ یاد نہیں رہتی ،مجھے وقت کے گزرنے کا پتا نہیں چلتا ،میرے لئے جیسے وقت تھم سا گیا ہے ،نجانے کتنے موسم گزر گئے ،کتنے مہینے ،کتنے سال ،پر میں آج بھی اسی جگہ پر ہوں میں وہاں سے آگے نہیں بڑھ سکی ،میری شوخی ،میری ہنسی ،وہ سب چھین کر لے گئے ،جب سے وہ دونوں گئے ہیں ملیحہ اکیلی ہو گئی ہے ،میری کوئی دوست نہیں ہے، انھوں نے وعدہ کیا تھا وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے ،پھر۔۔و۔۔وہ ک۔۔کیوں چلے گئے ۔م۔۔مجھے ۔اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔کاش وہ واپس آ سکتے ۔۔۔وہ ایک دفعہ واپس آ جائیں ،میں ان کی ساری باتیں مانوں گی ماما کو تنگ بھی نہیں کروں گی،بابا کے سامنے کوئی ضد نہیں کروں گی "
" عالی کیا اللہ تعالی انھیں واپس نہیں بھیج سکتے؟"
وہ نم چہرہ اسکی طرف اٹھاتی ایک امید سے پوچھنے لگی،اسکا دل چھلنی ہوا،اگر وہ لفظوں سے مارنے کا ہنر جانتا تھا،تو وہ بھی اپنی آنکھوں سے کسی کا بھی سرعام قتل کر سکتی تھی۔
"میں رونا نہیں چاہتی پر نجانے کیوں میرے آنسو نہیں تھمتے۔۔"
"لوگوں کے رو رو کر آنسو خشک ہو جاتے ہیں،کیا میں ابھی اتنا نہیں روئی کہ میرے آنسو بھی خشک ہو جائیں"
"تم رو لیا کرو ملیحہ"
اس نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔
"تمہیں کیا پتا خشک آنسو کتنے ازیت ناک ہوتے ہیں"
اس نے اسکے گرد شال اوڑھی،وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں ایسے لئے بیٹھا تھا کہ وہ چھپ گئے تھے، کتنے درد میں تھی وہ ،لیکن وہ اس درد کا مداوا نہیں کر سکتا تھا۔
کوئی تسلی کام نہیں آ سکتی تھی لیکن وہ اسکا یہ دکھ سمجھ سکتا تھا کیونکہ اس نے بھی اپنے باپ کو کھویا تھا وہ پہلی چوٹ تھی جو اسکے دل پر لگی تھی اور وہ چوٹ اب تک اتنی ہی تازہ تھی جتنی چار سال پہلے۔
"آئس کریم کھانے چلو گی ؟"
"ایسے ۔۔"
اس نے اپنے حلیے کی طرف اشارہ کیا۔
"کوئی بات نہیں تم گاڑی میں ہی بیٹھی رہنا "
وہ اسکے آنسو صاف کرتا بولا۔
"ویسے اس حلیے میں تم کب س میرے دل پر بجلیاں گرا رہی ہو ؟"
"ج۔۔۔جی"
"ہاں جی "
آج پتا نہیں کتنے عرصے بعد وہ گھر سے باہر نکلی تھی لیکن اس کے دل میں کوئی خوف نہیں تھا وہ خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی ،تاروں سے بھرا آسمان۔
"ملیحہ وہ اوپر دیکھو۔۔"
عالہان کے کہنے پر اس نے آسمان کی طرف غور سے دیکھا تو اسے وہ غبارے نظر آئے ،اسکے لب مسکرائے ،تو وہ گم نہیں ہوئے تھے۔
"کچھ لوگ بھی یوں ہی ہوتے ہیں ملیحہ"
"وہ گم نہیں ہوتے بس ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،وہ ہمیں نظر نہیں آتے ،لیکن ہم پر ہر وقت انکی نظر ہوتی ہے۔۔"
وہ اسے تسلی دے رہا تھا وہ سمجھ گئی تھی۔
"تمہیں کونسا فلیور پسند ؟"
ماحول بدلنے کے لئے یکسر مختلف سوال۔
"چاکلیٹ تو بالکل نہیں"
اسے پتا تھا عالی کو چاکلیٹ پسند ہے ،وہ سخت بدمزاہ ہوا اور وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتی دوبارہ باہر دیکھنے لگی۔
"بابا میرا شہزادہ آ گیا ہے میری حفاظت کرنے لیکن شہزادی اب بھی آپکی کمی محسوس کرتی ہے "
آج چار سال بعد آفریدی ہاؤس پھر سے دولہن کی طرح سجایا گیا،سفید رنگ میں رنگا یہ خوبصورت گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا،گیندے کی پھولوں کی لڑیاں اور ان سے آتی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی،ڈھولک کی تھاپ اور تالیوں کی گونج پر ہوائیں رقص کرنے لگی ،کھلے آسمان تلے مہندی کا سٹیج بڑی ہی شان سے سجایا گیا،مہندی کی مہک روح تک اترنے لگی،
ان سب میں علی ساری لڑکیوں کے درمیان سرفرہست بیٹھا نظر آ رہا تھا ،جب کہ شرمائی گھبرائی سی ملیحہ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی،عالہان اسکے پہلو میں بیٹھا تھا شوخ اور چنچل،اسکی معنی خیز نظریں،مسکراتے ہونٹ،بولتی آنکھیں،وہ خود میں ہی سمٹنے لگی،اسکے ہاتھوں پر لگی مہندی کی خوشبو اسے پاگل کر رہی تھی ،وہ بار بار اسے دیکھتا اور ہر بار ایسے دیکھتا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو اور وہ ہر بار اسکے دیکھنے پر ایسے ہی سمٹتی جیسے وہ پہلی دفعہ دیکھ رہا ہو۔
"ارے علی ادھر آؤ یار کیا کر رہے ہو تم۔۔"
ہادی اسے گھسیٹ کر باہر لایا۔
"یار کیا ہے تمہیں اچھی خاصی لڑکی پھنس رہی تھی"
"شرم کرو بھائی کی شادی میں کیوں یہ چھچھوڑی حرکتیں کر رہے ہو تم کب سےعالی تمہیں گھور رہا ۔۔"
ہادی نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی۔
"بھائی بھی نا کبھی میری سیٹینگ نہیں ہونے دیں گے ،یہ نہیں کہ پہلو میں بیوی بیٹھی ہے اس پر دھیان دیں"
"تو نے کنوارہ ہی مرنا ہے میرے بھائی اب چل جا کر کھانے کا انتظام دیکھتے"
''نہیں مجھے نائلہ پاس جانا ہے ۔۔"
"اب یہ نائلہ کون ہے یار ؟"
ہادی سخت قسم کا جھنجلایا۔
"ارے تمہیں نائلہ کا نہیں پتا "
اس نے بات میں تجسس پیدا کیا۔
"میری کونسا سالی لگتی جو مجھے پتا ہو گا ؟"
"ارے یہ نائلہ وہ ہی ہے وہ اس کی بہن اور اسکی دوست"
" کیوں دماغ خراب کر رہا ہے میرا آسان لفظوں میں بتا ۔۔۔"
ہادی نے اب اسکے پیٹ میں ایک مکا مارا وہ اسی کے لائق بھی تھا۔
"کیا کر رہا ہے؟ اسکی ماں دیکھ رہی کیا ایمپریشن پڑے گا اسکی ماں پر اپنی بیٹی کے ہونے والے شوہر کا "
"تو جا کر مر جا مجھے نہیں تجھ سے کچھ پوچھنا تو جا اس کے پاس جو اسکی دوست اور اسکی ماں ہے "
ہادی غصے سے آگے بڑھا،ہزاروں کام تھے اسے اوپر سے نینا بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی اسکے غصہ الگ تھا اور اب یہ اسکے دماغ کی دہی کرنے بیٹھ گیا تھا۔
"ارے ارے تو تو غصہ کر گیا رک بتاتا ہوں تجھے،وہ جو نیلی ہے نا وہ شینی کی بہن ہے اور وہ دونوں نینا کی دوستیں ہیں "
"اور یہ نیلی شینی کون ہیں ؟"
"ارے بٹ دماغ کے بندے ،نیلی نائلہ ہے اور شینی شبانہ "
علی نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا ۔
اب کی بار ہادی نے تہہ دل سے اس پر لعنت بھیجی اور سٹیج کی طرف بڑھا تھا فلحال وہ اس پر اپنا مزید وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا ،جبکہ علی
دوبارہ اپنی نیلی شینی کے پاس پہنچ چکا تھا۔
"یہ ناخن اصلی ہیں کیا؟"
"ج۔۔جی؟"
"جی کے علاؤہ بھی کچھ بولنا سیکھو بیگم"
ملیحہ نےاپنے نیلز اس کے ہاتھ میں گاڑے۔
"آہ ۔۔۔"
"کیا ہوا عالی ؟"
"ک۔۔کچھ نہیں ماما بس ایسے ہی"
سب کی نظریں خود پر محسوس کرتا وہ کنفیوز ہوا۔
"تو چیخے کس خوشی میں تم ؟"
جبکہ ملیحہ تو ایسے نظریں جھکائیں بیٹھی تھی جیسے وہ وہاں پر موجود ہی نہیں کب سے وہ اسے تنگ کئے جا رہا تھا،بدلہ لینے کے لئے اسے یہی سوجھا۔
"میرا دل کر رہا تھا چیخنے پر اور کچھ ۔۔"
عالہان کچھ تپ کر بولا تھا جس پر ملیحہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی جسے اس نے بہت غور سے دیکھا۔
"مسکرا لو جتنا مسکرانا ہے کل سے میرے اچھے دن شروع ہیں ۔۔"
عالہان کی دھمکی کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تھا الٹا وہ اور مسکرائی تھی ۔
" خالہ میں تھک گئی ہوں بہت سر درد کر رہا میرا ۔۔"
"جاؤ نینا اندر لے جاؤ بھابھی کو اور تم لوگ بھی اب بس کرو ناچ گانا ۔۔"
گل بیگم نے علی لوگوں کو جھڑکا کہاں آدھی رات سے بھی زیادہ کا وقت ہو گیا تھا اور اسکا شغل میلہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا ،عالہان نے مہمانوں کو بلانے سے منع کیا تھا کیونکہ ملیحہ زیادہ لوگوں سے گھبراتی تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے ہی فنکشن میں کسی خوف کے زیر اثر رہے اس لئے
صرف علی اور نینا کے چند دوست ہی آئے تھے۔
جتنا بھاری بھرکم جوڑا اس نے پہن رکھا تھا نا بس اس میں وہ گم نہیں ہوئی تھی ،اسے مشکل سے سنبھالتی وہ نینا کی مدد سے اب کمرے کی طرف جا رہی تھی ،دونوں کے درمیان ایک خاموشی تھی،شود برپا کرتی خاموشی،اسکا کمرا آ گیا ،نینا اسے چھوڑ کر مڑی۔
"نویوا۔۔۔؟"
اسکی پکار پر اسکے قدم رکے لیکن اس نے گردن نہیں موڑی۔
"کیا ہم پہلے جیسے نہیں ہو سکتے؟"
"تم گزرے وقت کو واپس لا سکتی ہو؟"
اس نے غور سے دیکھا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے،وہ نظریں جھکا گئی تھی وہ جانتی تھی وہ کیوں رو رہی ہے۔
"کیا تمہیں مجھ پر یقین۔۔۔؟"
"لگتا ہے بھائی کے پیار کی بدولت تمہاری زبان بھی واپس آ گئی ہے؟"
"لیکن کوشش کرنا اسے میرے سامنے کم ہی چلانا"
"تمہیں بھائی نے اپنایا ہے میں نے نہیں"
اسکی آنکھوں سے دو آنسو گرے۔
"یہ مہندی کا رنگ سرخ ہے،تم تو سرخ رنگ سے بخوبی واقف ہو نا؟"
ملیحہ نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا،سرخ رنگ،گہرا لال اسکے ہاتھ مہندی میں رنگین تھے،نہیں مہندی میں نہیں خون میں۔
"تمہارے ہاتھوں میں یہ رنگ ہی جچتا ہے ملیحہ "
وہ اسکے کانوں میں زہر پھونک رہی تھی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو کیا میرا تعریف کرنا تمہیں اچھا نہیں لگا؟"
اسکا سانس اٹکا۔
"ا۔۔ایسی بات نہیں ہے آپی میں بس"
ملحیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس سے کیسے برتاؤ کرے کیونکہ آج تک ان میں بس تکرار ہی ہوتی آئی تھی وہ بھی نینا کی طرف سے اسکی بچپن کی دوست جو اسے چھوٹی بہنوں کی طرح چاہتی تھی وہ تو گم ہو چکی تھی شاید چار سال پہلے اس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ نینا کو بھی کھو دیا تھا ۔
نینا اسے کمرے میں حیران پریشان چھوڑ کر جا چکی تھی ،اسکے ہاتھ کانپنے لگے،سانس لینا دشوار ہوا، اس نے دوپٹے کو کھینچ کر اتارا،اتنی سردی میں بھی اسے پیسنے آنے لگے ۔
"بھائی اس نے بابا کو مار دیا"
کانوں میں جملے گونجے،اسکا حلق خشک ہوا۔
"لٹل گرل میرے پاس آؤ؟"
وہ پانی لینے کے لئے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ کی طرف بڑھی۔
"م۔۔۔م۔۔ل۔۔ی۔۔ح۔۔ملیحہ"
شیشے کا گلاس اسکے ہاتھوں سے گرا اس نے زور سے اپنے دونوں کانوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔
"ملیحہ"
کسی کی آواز اسے قریب سے آئی،اس نے دیکھا تو وہ عالہان تھا،ہاں وہ عالہان ہی تھا اسکا عالہان،وہ اسکے ہاتھوں کو نرمی سے کانوں سے ہٹا کر سہلانے لگا۔
"مہندی اچھی لگتی ہے تمہارے ہاتھوں پر"
اسکا سانس ہموار ہوا۔
"کہتے ہیں مہندی کا رنگ گہرا آئے تو اسکا مطلب ہے آپکا شوہر آپ سے بہت محبت کرتا ہے"
اسکا سانس اٹکا۔
"کیا یہ سچ ہے؟"
اسکا حلق خشک تر ہوا،عالہان اٹھا اور دوسرے گلاس میں پانی ڈال کر اسے دیا جسے وہ ایک ہی سانس میں ختم کر گئی ،عالہان کی نظریں کانچ کے ٹکڑوں پر تھی۔
"میں انھیں ابھی اٹھا دیتی ہوں وہ غلطی سے پتا نہیں کیسے میرے ہاتھوں۔۔۔"
وہ جانتی تھی اسے گندگی سخت نا پسند ہے وہ نجانے کیوں اسکی خشک آنکھوں سے خوف کھانے لگی۔
"تمہیں ضرورت نہیں ہے کلثوم آ کر صاف کر دے گی صبح "
"نہیں میں۔۔۔"
"سو جاؤ ملیحہ رات بہت ہو گئی ہے"
"مجھے ڈر لگ رہا ہے"
"کس سے؟"
"ان کانچوں سے۔۔۔"
وہ حیران ہوا وہ ہر دفعہ اسکے بولنے پر حیراں ہی تو ہوتا تھا۔
"کیوں۔۔۔؟"
"پتا نہیں کیوں۔۔"
"سو جاؤ میں یہیں ہوں۔۔۔"
وہ ان سے نظریں ہٹاتی لیٹی تو عالہان نے اس پر بستر درست کیا۔
"آپ یہیں ہیں نا"
وہ بند آنکھوں سے بولی ،وہ کچھ نہیں بولا بس اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا،وہ نیند میں جا رہی تھی ،عالہان نے دیکھا ،اسکے لب ہل رہے تھے وہ شاید آیت الکرسی پڑھ رہی تھی اسکا زہن مختلف سوچوں میں منتشر تھا وہ اسے دیکھ دیکھ کر تھکتا بھی نہیں تھا لیکن آج کی رات یہ اس پر بہت بھاری تھی اسکی نظر اس سے ہٹتی کانچ کے ٹکڑوں پر پڑی اسے بھی اب ان سے خوف آنے لگا۔
∆∆∆∆
وہ صبح دیر سے اٹھی تھی اسکی فجر بھی قضا ہو گئی تھی وہ کمرے میں اکیلی تھی ،فرش صاف ہو چکا تھا،وہ جو دیکھ رہی تھی وہ خواب نہیں تھا وہ سچ تھا ،یہ سب سچ میں ہو رہا تھا؟
"اس کا مطلب میری دعائیں قبول ہو گئی"
"جی مس از آپ کی ساری دعائیں قبول ہو گئی ۔۔"
عالہان کی آواز اسکے پیچھے سے آئی ،وہ حیرت کی زیادتی سے آنکھیں بڑی کرتی گھومی۔
ملیحہ کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں نمودار ہوئی تھی۔
"تم گھبرا کیوں رہی ہو ؟ "
"م۔م۔۔میں ت۔۔۔ت۔۔تو نہ نہیں گھبرا رہی"
"تو پھر یہ پسینہ کیوں آ رہا ہے تمہیں؟"
عالہان نے اسکے ماتھے پر آئی نھنی بوندوں کو ہاتھوں سے چنا ۔
"و۔۔وہ گ۔۔گرمی ۔کی وجہ سے ۔۔'
" ٹھنڈ میں بھی تمہیں گرمی لگ رہی ہے "
عالہان نے اسکے ماتھے پر سجی چمبیلی اور گلاب کی بنی بندیا کو چھیڑا جو ابھی تک لگی ہوئی ہو۔
"آ۔۔پ یہ۔۔یہاں کیوں آئے ہیں ؟"
"تمہیں دیکھنے ؟"
"ج۔جی؟"
"ہاں جی"
"کل تو بہت چہک رہی تھی آپ ،اب یہاں آ کر بولتی کیوں بند ہو گئی "
وہ بالکل اسکے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لایا تھا۔
ایک اور سوال ۔۔
جان لیوا لہجہ ملیحہ کو لگا تھا اب وہ نیچے ہی گر جائے گی
"ک۔۔کوئی دیکھ ل۔۔لے گا ۔۔"
اپنی دونوں آنکھوں کو میچتی وہ بامشکل بولی تھی۔
"ت۔۔تو د۔۔دیکھ لے۔۔"
"پلیز عالہان۔۔۔"
نازک نرم ہاتھ عالہان کے لبوں پر آیا۔
اور پھر وقت جیسے رک سا گیا ،چٹیا سے باہر آتی اسکے بالوں کی شریر لٹیں جو اسکے چہرے پر بوسہ دے رہی تھی ، اسکے وجود سے پھولوں کی اٹھتی مہک ،گہری نم آنکھوں میں کچھ غصہ اور کچھ شرم سے چھائی چہرے پر سرخی، اس پر مہندی کی یہ بھینی بھینی خوشبو اور اسکی آنکھون میں محبت کے رنگ۔
یہ ہمت اس نے پہلی دفعہ کی تھی وہ اسکے اتنے نزدیک تھی اسکا حسن جان لیوا تھا ایک پل لگا تھا اور جیسے عالہان افریدی فریز ہو گیا،
دل کی دھڑکنوں نے شور مچایا تھا ،منہ بولتے جزبات چہرے سے عیاں ہونے لگے تھے
وہ بنا کسی پل کی دیر کئے اس سے دور ہٹا ،اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
آج کی رات سب پر ہی بھاری تھی،کئی دل غمگین تھے،کئی خوش ،کسی کو خوشیاں ملنے جا رہی تھی اور کسی کی خوشیاں مٹنے جا رہی تھی،
آج کس کمبخت کو نیند آنی تھی ،مستقبل کے ہزاروں سہانے خواب آنکھوں میں سجائے وہ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی لیکن نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
کئی وسوسے تھے دل میں کہ کہیں یہ سب خواب تو نہیں؟ کیا وہ ان سب کے قابل تھی ۔۔؟
اگر کبھی ماضی اس کے سامنے آ گیا تو ؟ اسکا ماضی اسکا حال خراب کر دے گا۔
کسی کی آواز گہرے کنویں سے آئی،اسکے لبوں پر آیت الکرسی کا ورد جاری ہوا، وہ آہستگی سے نیند میں جانے لگی۔
"لٹل گرل تم بہت پیاری ہو کیا میں تمہیں پیار کر سکتا ہوں ؟'"
"ن۔۔۔نہیں ۔۔م۔۔م۔۔ماما۔۔"
آوازیں اسکے قریب آنے لگی ۔
"کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا ،میرے قریب آؤ لٹل گرل "
"ع۔۔ع۔۔عال۔عالہان"
"ایک دن تمہیں میں اپنا بنا کر چھوڑوں گا"
سایہ اسکے نزدیک سے نزدیک تر آنے لگا۔
"پلی۔۔پلیز م۔۔مج۔۔مجھے مت مارو "
نازک کانپتے وجود کی خوف سے سہمی ہوئی آواز آئی ۔
"تمہیں نہیں ماروں گا تمہیں تو پیار کروں گا میں"
اسکے بھاری ہاتھ اسے اپنے پیٹ پر رینگتے محسوس ہوئے۔
"د۔۔د۔۔دور ر۔۔۔رہو مجھ سے۔۔"
مقابل کے ہاتھوں نے اسکی کمر کو اپنی جارہانہ گرفت میں لیا اور اسکی گردن میں اپنے دانت گاڑے۔
"م۔۔ما۔۔ماما ۔۔۔"
اپنا پورا زور لگا کر اس نے اپنے اوپر پڑتے بھاری وزن کو دھکیلنا چاہا۔
"خاموش بالکل خاموش"
مقابل نے اسکا منہ ہاتھوں میں لیا ، اسے لگا اسکا جبڑہ ٹوٹ جائے گا، جان تو اس وقت نکلی تھی جب اس کے ناپاک ہاتھ اسکی قمیض کے بازؤں تک آئے۔
"ماما ۔۔۔"
وہ ہاتھ پاؤں ہلانے کی مکمل کوشش کر رہی تھی لیکن اسکے جسم برف تھا ،فالج زدہ،اسکے ہونٹ کسے نے سی دئے تھے،اس نے چیخنے کی ہر ممکن کوشش کی ،سایہ اسکے نزدیک آتا جا رہا تھا،اسکی انگلی ہلی،دماغ جاگنے لگا، یہ خواب تھا۔
"ملیحہ اٹھو یہ خواب ہے"
اس نے خود کو خود ہی جھنجھوڑا،اس نے آیت الکرسی یاد کرنے کی کوشش کی ،اسکا دماغ ماؤف ہونے لگا،اسکے کپڑے پھٹتے ہوئے تھے،کمرے کے روشن دان سے آتی روشنی بھی بند ہوئی،کسی نے دروازہ زور سے بند کیا،وہ دروازے کی طرف بھاگی،ڈر اسکے جسم میں پھیلا،سامنے کھڑا شخص شیطان تھا ،شاید شیطان سے بھی بدتر،وہ اس پر ہنس رہا تھا ،کمرے کا اندھیرا اسکے حواسوں پر چھانے لگا،وہ اسکے قدموں میں گری ،اسکی ٹانگوں سے لپٹی،وہ گڑگڑانے لگی،اسکے ہاتھ میں کیمرا تھا،وہ اسے کیمرے میں قید کر رہا تھا ،اسکی ہر حرکت ،اسکی بے بسی ،اسکا خوف سے کانپتا جسم ،کیمرے کی فلیش لائٹ کی روشنی میں وہ اسکا خبیث چہرہ دیکھ سکتی تھی۔
"ش۔۔شہر۔۔۔"
اسکے ہونٹ تھر تھر کانپنے لگے،وہ کسی گہرے کالے کنویں میں دھنستی جا رہی تھی ،وہ سایہ ہر طرف تھا ،اس نے اپنا جسم رگڑا،اپنے منہ پر تھپڑ مارے،،دماغ جاگنے لگا،یہ اگر خواب تھا تو وہ اس خواب سے باہر آنا چاہتی تھی ،لیکن یہ خواب کیسے ہو سکتا تھا ،یہ خواب نہیں تھا حقیقت تھی،وہ بے بسی سے رونے لگی لیکن اسکے رونے کی آواز اس کنویں سے ٹکڑا کر واپس اسی کی طرف آ جاتی ،ایک آخری وار ہوا ،اسکے ہاتھ اسکے پیٹ پر تھے ،اسے لگا کوئی گرم لوہے سے اسے مار رہا ہے ،آیہ آخری چیخ اسکے لبوں سے نکلی۔
اب سایہ کہیں بھی نہیں تھا۔
آنکھیں کھلی ،تو پورا کمرہ روشنی میں ڈوبا ہوا تھا،اس نے پاگلوں کی طرح اپنے اردگرد دیکھا ،کوئی بھی نہیں تھا،وہ کنویں میں نہیں تھی ،یہ اسکا کمرا تھا،روشن کمرا،یہاں اندھیرا نہیں تھا،وہ اندھیرے سے نکل آئی تھی،اب صرف روشنیاں ہی روشنیاں تھی،ساری آوازیں آنا بند ہوئی،آیت الکرسی کا ورد کانپتے لبوں سے جاری ہوا۔
دور کہیں سے موزن کی آواز گونجی۔
"اللہ اکبر"
" اللہ اکبر "
جیسے کوئی دلاسہ دے رہا ہوں۔
"اللہ سب سے بڑا ہے ۔۔"
"اللہ سب سے بڑا ہے"
وہ بیڈ سے اٹھی ،وضو کرتے کرتے جیسے جیسے پانی چہرے پر پڑ رہا تھا ،ڈر بھی کم ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ فجر کی نماز کے لئے کھڑی ہوئی ،اسکی روح میں طمانیت اترنے لگی وہ رکوع میں تھی اسکا خوف کم ہو گیا تھا ،وہ اب سجدے میں گئی،لیکن سجدے سے اٹھنا مشکل ہو گیا، سجدہ طویل ہوتا گیا،لبوں پر ایک ہی ورد تھا۔
پاک ہے میرا رب عظیم ہے میرا رب
"بے شک نماز ہمارے سارے خوف سارے ڈر دور کر دیتی ہے نماز اللہ تعالی کی قربت کا سب سے بہترین زریعہ ہے ۔۔"
"یا اللہ تو جانتا ہے میں قصوروار نہیں ہوں ،یا اللہ مجھے ان گناہوں کی س۔۔۔سزا مت دینا جو مجھ سے سر زرد نہیں ہوئے "
"اے ۔میرے ۔۔پا۔۔پاک رب ۔۔۔م۔۔مجھے اپ۔۔اپنی پ۔۔پناہ میں ۔۔لے ۔۔یا اللہ ۔۔"
آنسوؤں کا دامن بہہ نکلا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے سیکریٹ کیپر ہوتے ہیں انکے پاس ہمارے سارے راز محفوظ ہوتے ہیں اللہ سے بہتر کوئی راز دار نہیں ہوتا۔
ہم کیا ہیں؟ہمارا ماضی کیسا تھا ؟یہ سب اللہ کو پتا ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی ہمارے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں ہمارے راز پوشیدہ رکھتے ہیں لیکن انسان وہ کسی کا بھرم نہیں رکھتے ،وہ ہمیں ہماری ماضی میں کی گئی غلطیوں پر باتیں سناتے ہیں ہمارے رازوں کو دنیا کے سامنے ایک الگ ہی انداز میں پیش کرتے ہیں انسان بہت بڑا خیانت دار ہے اس لئے انسانوں سے ڈرنا چاہیے ملیحہ بھی کچھ ایسے ہی انسانوں سے ڈرتی تھی لیکن اسے یقین تھا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہیں وہ اس کے راز پوشیدہ رکھے گیں جیسے اب تک رکھتے آئے ہیں۔
اپنے گرد شال لپیٹتی وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ باہر لان میں آئی تھی ،دسمبر کی سرد ہواؤں نے اسکا استقبال کیا۔
دھند کے باعث مشکل سے گھر کا گیٹ نظر آ رہا تھا پر باہر سے گھر جیسے روشنیوں میں نہایا ہوا تھا،ہر طرف لائٹنگ اور گہری خاموشی ۔
پاؤں کو جوتوں سے آزاد کر کے اس نے گھاس پر پڑے شبنم کے قطروں پر اپنا پاؤں رکھا،ٹھنڈ کی ایک لہر اسکے جسم میں دوڑی ،آنکھیں بند کر کے اس نے دسمبر کی اس سرد صبح کو محسوس کیا۔
اچانک اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے اس نے آنکھیں کھولی،
اوپر کھڑکھی سے عالہان آنکھوں میں الجھن اور پریشانی لئے اسے ہی دیکھ رہا،پریشانی کے بادل دونوں کے چہرے پر نظر آئے،وہ دونوں اپنی ہی سوچوں میں الجھے ہوئے تھے،دونوں کے دلوں میں بہت سارے راز تھے،لیکن آج رات سارے رازوں سے پردہ اٹھنے والا تھا،وہ دونوں ایک ہی راہ کے مسافر بننے والے تھے،انکے درمیاں کے فاصلے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹنے والے تھے ،وقت کی رفتار بہت سست تھی،پتا نہیں رات کب آئے؟وہ اسے سب راز بتا دے گی ؟اس سے کچھ نہیں چھاپئے گی ،وہ بھی اس پر اپنی حقیقت آشکار کرے گا ،انکے رشتے پر چھائی یہ دھند ختم ہو جائے گی۔
ایک خاموش آنسو ملیحہ کی آنکھوں سے نیچے گرا تھا وہ نظریں چرا گئی،پتا نہیں اس سے نظریں ملانا آج اتنا مشکل کیوں تھا؟
وہ کھڑکی کے پردے برابر کرتا بیڈ پر گرا،گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک اسکے کانوں سے ٹکرانے لگی،اسکی نظریں سائیڈ ٹیبل پر پڑی تصویر پر تھی۔
تصویر میں وہ ہنس رہا تھا اور اسکے پہلو میں آفریدی صاحب کھڑے تھے،یہ انکے ساتھ اسکی آخری تصویر تھی جو چار سال پہلے اسکی مہندی والی رات لی گئی تھی،اسکی آنکھوں میں خشک آنسو تھے۔ملیحہ نے دوبارہ نظریں اوپر اٹھائ پر وہاں کوئی نہیں تھا،دھند ختم ہو رہی تھی۔
پتا نہیں کیوں آج کی صبح اتنی اداس تھی؟
میری صدا بھی کمال تھی تیرا تکلم کمال تر تھا
جو میں نے پوچھا ملو گے کب تم جواب مبہم کمال تر تھا
جو اس نے آنگن میں پاؤں رکھا شرم سے جھکتی نظر اٹھائی
زرا سا ٹھہرا ،زرا سا جھجکا ،وہ سارا عالم کمال تر تھا
فضا میں خوشبو تھی بھینی بھینی ،جو اس جیسے نشے میں سارے
جو گھر کا آنگن تھا خوب روشن تو دل کا موسم کمال تر تھا
وہ شرمگیں سی ہنسی لبوں کی ،وہ چوڑیاں وہ سنگھار تیرا
نشیلی آنکھیں وہ پیاری باتیں ،وہ لہجہ مدہم کمال تر تھا
الگ تھا منظر وصال رات کا عجب ہی رنگ میں تھے جسم و جان بھی
وہ تال جزبوں کی کچھ الگ تھی وہ حال رقصم کمال تر تھا
***
DON'T FORGET TO GIVE US YOUR FEEDBACK 🤩 🤩