Sitamgar Episode 1 ...
 
Share:
Notifications
Clear all

Sitamgar Episode 1 by Saila Rubab

1 Posts
1 Users
0 Reactions
45 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 11
Topic starter  

 Novel Description :

بدلے کی بھڑکتی چنگاریوں میں کون کیا کھوتا ہے اور کیا پاتا ہے۔

اس ناول میں آپ کو وہ کردار ملیں گے جو ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے یا دیکھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں ۔

بھروسے اور یقین کے سفر کی داستان۔

نفرتوں کو محبتوں میں بدلنے کی داستان۔

پتھر دل کو موم کر دینے کی داستان۔

 

Novel Tags : Social Romantic Novel , Revenge Based Novel

ALL RIGHTS OF THIS NOVEL HAS RESERVED WITH NOVELS HUB

قسط نمبر 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

میں بنت حوا ہوں میرے کئی نام ہیں جیسے کہ بھائیوں کا مان ،باپ کا غرور ،شوہر کی عزت،اور قربانی کا جانور ۔

میں جب گھر سے باہر نکلوں تو ہزاروں لوگوں کی نظروں کا مرکز بن جاتی ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج بازار میں سب میرے ہی دیدار کو اکھٹے ہوئے ہیں۔

میں کسی کی بدتمیزی پر اسے تھپڑ ماروں تو میرے اوپر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ،

میں کسی دفتر یا کسی ادارے میں کام کروں تو تلخ و طنزیہ باتیں مجھے برداشت کرنی پڑتی ہیں،

میں سات  پردوں میں بھی چھپ جاؤں تو بھی میرا کردار داغ دار بنانے میں لوگ ایک لمحے کی بھی دیر  نہیں لگاتے۔

میں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہوں،کیونکہ میرا جہیز تیار نہیں ہوا اور جہیز تو فرض ہے شادی کے لئے،بدقسمتی سے میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جو جہیز کو لعنت نہیں فرض سمجھتا ہے اور یہ فرض نکاح کے تین بولوں اور رخصتی سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔

میں بنت حوا، ماں کی آنکھوں کا نور ،باپ کی شہزادی ،بھائیوں کی لاڈلی ،آج سسرال میں دن رات شوہر کے ہاتھوں مار کھاتی ہوں،میں جو کسی کی اونچی آواز برداشت نہیں کرتی تھی آج ساس کی طنزیہ باتوں پر لب سی لیتی ہوں،

میری  آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے،میرے جسم پر جا بجا پڑے نیل میرے ماں باپ، میرے بھائیوں کو نظر آتے ہیں لیکن وہ خاموش ہیں کیوں؟وہ تو مجھے پھولوں کی طرح رکھتے تھے تو اب کیوں کانٹوں کے حوالے کر دیا،چلو میری قسمت ،تو کیا یہ بھی میری قسمت ہے کہ میں ماں باپ کی عزت کی خاطر سسرال میں گالیاں اور جوتے کھاتی رہوں؟

میں بنت حوا ہوں مجھے قربانی دینی ہے کیونکہ میری جس گھر میں شادی ہوئی ہے میرا جنازہ ہی وہاں سے نکلنا چاہیے،اگر میں ناراض ہو کر مائکے چلی گئی تو باپ کی عزت ختم ہو جائے گی لیکن اگر میں دن رات ماں بہنوں کی گالیاں کھاتی رہوں تو میرے باپ کی عزت معاشرے میں بہت بلند رہے گی۔

مجھے سمجھوتا کرنا ہے کیونکہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کا کیا بنے گا؟

تو کیا وہ صرف میرے بچے ہیں انکا باپ نہیں ہے کیا؟

میرے ہاں پانچ سال اولاد نا ہو تو مجھ پر سوتن بٹھا دی جاتی ہے،

ارے تم صبر سے کام لو شوہر کی شادی کروا دو دیکھنا تمہارا ہی رتبہ زیادہ ہو گا؟

کروا دی شادی کیا ہوا؟جو سسرال میں میرا مقام تھا وہ بھی گیا۔

اگر میں دوسری شادی نا کرواؤں تو میں خودغرض بن جاتی ہوں۔

اگر میں ناراض ہو کر مائکے چلی آؤں تو بھابھی کے طنز کے تیر، بھائیوں کی تلخ باتیں،خاندان والوں کے صبر پر لیکچر شروع ہو جاتے ہیں، پورا خاندان بٹھایا جاتا ہے مجھے بات کا موضوع بنایا جاتا ہے پھر مجھ سے پوچھے بغیر ہی سمجھوتا کر دیا جاتا ہے،میں دوبارہ اسی مظلومیت کی چکی میں پسنے کے لئے واپس آ جاتی ہوں ،بلکل ویسے ہی جیسے میری شادی پر کیا تھا میری مرضی نہیں  پوچھی کسی نے باپ نے اپنی خواہش بتائی بس۔

میں کسی مرد کو برا نہیں کہہ رہی نا ہی میں کسی عورت کو قصوروار ٹھہرا رہی ہوں اگر کوئی قصوار ہے تو وہ ہے یہ معاشرہ،پر معاشرہ کن سے بنا ہے؟

لوگوں سے۔۔

اور وہ لوگ ہیں ہم۔

ہمیں ہر چیز پر تنقید کرنی ہے،ہمیں ہر ایک کی زات پر سوال اٹھانا ہے،ایک پل میں اپنے لفظوں سے کسی کی زات کو مجروع کرنا ہے،ہر چیز کا منفی پہلو تلاش کر کے اسے موضوع گفتگو بنانا ہے،عورت ہی عورت کی دشمن ہے،بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ عورت ہی خود کی دشمن ہے ،اگر وہ صنف نازک ہے تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے اوپر ہوئے ہر ظلم پر لب سی لے،اپنی آواز کو اتنا دبا دے کہ بولنا ہی بھول جائے ،لوگوں کے آگے اتنا جھک جائے کہ سیدھی کھڑی بھی نا ہو پائے،عورت کو ایسا کس نے بنایا ہے ؟آپ نے،میں نے ،اس معاشرے نے ۔

خدارا بس کر دیں۔

کیا ہیں آپ لوگ؟ خدا ہیں؟

کس نے حق دیا ہے آپکو دوسروں کی ذات پر بات کرنے کا؟یہ معاشرہ ہم نے بنایا ہے کوئی دوسرے ملک کا باشندہ بنا کر نہیں گیا۔

میں حیران ہوتی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیسے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے؟

لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ واقعے بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا چاہیے کیونکہ یہ معاشرہ ایک بیٹی ،ایک، ماں ایک بہن یا ایک بیوی کا کبھی نہیں بن سکتا۔

ساری زندگی سسکنے سے بہت  بہتر ہے وہ پیدا ہوتے ہی مر جائیں۔

عورت قربانی کا ایک جانور ہے جسے کسی بھی وقت کسی کی عزت کی خاطر بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے یہ جسے آپ صنف نازک کہتے ہیں یہ دراصل ایک جانور ہے جس کے ساتھ کوئی کیسا بھی سلوک کر لے نا یہ خود آواز اٹھا سکتی ہے نا اس کے لئے کوئی آواز اٹھائے گا۔

کیوں پھر عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے؟

صنف نازک پر اتنے ظلم کیوں؟؟

آخر کب تک بنت حوا اپنے بھائی کے جرموں کی سزا میں ونی بنتی رہے گی؟

یہ کیسی عزت ہے باپ کی جو بیٹی کے گالیاں کھانے سے محفوظ ہے؟

نکل آئیے جہالت سے خدارا دیکھئے تو سہی کیا یہ بیٹی آپکی کچھ نہیں لگتی؟

ہم نے کیا بنا دیا ہے اپنے معاشرے کو میرا دین تو اسلام ہے اس نے تو عورت کو بہت عزت دی ہے بہت بڑا مقام دیا ہے،تو پھر آپ یا میں کون ہوتے ہیں اس سے اسکا وہ مقام چھیننے والے؟

 حیرانگی کی کیا بات ہے ؟یہ معاشرہ ایسا ہی ہے، پتا نہیں اس معاشرے کے ان گھٹیا اصولوں کی بھینٹ کتنی بیٹیاں قربان ہو گئی۔

اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے یہ معاشرہ آپ نے بنایا ہے اس کے دو کوڑی کے اصولوں کو ختم بھی آپ کریں گے،میں بنت حوا بس ایک ایسے معاشرے کی تلاش میں ہوں جو مجھے کچھ نا سہی تحفظ تو دے سکے۔

مجھے اب بھی محبت ہے

رات کے بارہ بج رہے تھے ،جب اسے اسکی گاڑی کا

  مخصوص ہارن سنائی دیا ،نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کو بامشکل کھولتی وہ کرسی سے کھانا گرم کرنے کے لئے اٹھی۔

رات کے اس پہر ، مکمل راج کرتی خاموشی میں،  اسکے حرکت کرتے ہاتھوں میں پہنی چوڑیوں سے خاموشی میں ایک ارتعاش پیدا ہوا ۔

وہ ٹائی گردن سے ڈھیلی کرتا لاونج کی طرف آیا ،چال میں واضح سستی تھی ،اس نے لیپ ٹاپ کا بیگ وہیں صوفے پر گرایا ،کچن کی لائٹس آن تھی باقی پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا،ایک مخصوص چوڑیوں کی کھنک اسکے کانوں میں پڑی۔

"ناٹ اگین "

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا کچن کی طرف بڑھا، اور حسب معمول اسے دیکھتے ہی ماتھے پر بے شمار بل پڑے ،اس نے آنکھیں زور سے بند کر کے پھر کھولی ، شاید یہ غصہ کنٹرول کرنے کے لیے کیا تھا اس نے پر وہ ہنوز اپنے کام میں  مصروف تھی ،اپنے پیچھے کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے اس کے ہاتھ کانپے  ،وہ جلد از جلد اب اپنا کام ختم کر کے اسکی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتی تھی۔

"کیا کر رہی ہو تم یہاں ؟"

اسکی دھاڑ پر اس کے کانپتے ہاتھ رکے۔

"و۔۔۔وہ۔۔۔آپ کا۔۔کھا۔۔کھانا گ۔۔گرم "

نیند سے بوجھل اسکی آنکھیں اور آواز میں واضح لرزش کسی کے بھی دل کی دنیا ہلانے میں کاریگر ثابت ہوتی مگر سامنے کوئی اور نہیں ، عالہان آفریدی تھا جس کے سینے میں دل کی جگہ پتھر تھا۔

"کتنی دفعہ کہا ہے تمہیں میرے معاملات سے اور مجھ سے دور رہا کرو ایک دفعہ کہی ہوئی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ "

وہ ایک جھٹکے سے اسکا بازو دبوچتا دھاڑا۔۔

"پل۔۔پلیز۔۔ا۔۔ایم۔۔"

"سوری تو بالکل نہیں کرنا تم ابھی کے ابھی اپنی یہ منحوس شکل گم کرو نہیں تو اسے دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا میں"

اب کی بار لہجے میں اتنی نفرت تھی کہ ملیحہ کو اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا ،اسکے بازو پر اس بے حس انسان کی انگلیاں کسی لوہے کی طرح دھنس رہی تھی ،درد سے آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہونا شروع ہوا جنھیں دیکھ کر عالہان آفریدی کا میٹر ایک دم گھوما۔

"اپنے یہ مگر مچھ کے آنسو ان کے سامنے بہانا جنھیں اس سے فرق پڑتا ہو ،میری زندگی میں تمہاری حیثیت ایک ٹشو پیپر سے بھی بدتر ہے سمجھی تم ؟"

اسکے بازو کو ایک جھٹکے سے چھوڑتا وہ بے حسی کی انتہا پر تھا۔

لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ خاموش تھی اور اس خاموشی سے ہی تو چڑھ تھی اسے کیوں تھی وہ اتنی پتھر دل کیوں ؟

اپنے آنسوؤں کو پیتی وہ اسکی طرف سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔

اسکی ٹانگوں میں واضح لرزش تھی ،پر اب اسے  عادت ہو گئی تھی، یہ لہجہ، یہ نفرت برداشت کرتے۔

"ایک بات میری اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو تم اگر سونے کی بھی بن کر آ جاؤ تو بھی میری نظر میں کوئلہ ہی رہو گی ملیحہ عالہان آفریدی"

الفاظ تھے یا تیر جو اس کے نازک دل میں پیوست ہوئے ،ایک نازک دل چھن سے ٹوٹا  ، چادر کے کونے پر اس کے ہاتھوں کی گرفت مظبوط ہوئی۔

اپنی جھیل سی گہری نم آنکھوں کو اس نے ایک پل کے لئے اٹھایا ،ان میں تیرتے نمکین پانی کو دیکھ کرعالہان آفریدی کے چہرے پر کمینگی بھری مسکراہٹ رقم ہوئی۔

"آئی ایم سوری ۔۔"

ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی وہ اس کی نفرت کے آگے جھک گئی تھی ،کوئی شکوہ یا شکایت کرنے کے بجائے اس نے معافی مانگی اسے یہی کرنا آتا تھا،وہ واپس نظریں جھکاتے اندھیرے میں گم ہو گئی،اس کے ہاتھوں میں جلتی ٹارچ کی روشنی آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتی جا رہی تھی۔

عالہان آفریدی نے غصے سے اپنی کنپٹی سہلائی اور لمحے میں  میز پر سجا سارا کھانا زمین بوس ہوا۔

یہ تمہاری تلخ نوائیاں کوئی اور سہہ کے دیکھا تو دے

یہ جو تجھ میں مجھ میں نبھاہ ہے میرے حوصلے کا کمال ہے

                     

"علی میں قسم سے ابھی جا کر ماما کو بتاؤں گی، اگر تم نے میری سن گلاسز واپس نہیں کی تو"

نویرہ گلا پھاڑتے چیخی۔

"جب تک تم میرے ہینڈ فری واپس نہیں کرو گی یہ سن گلاسز تو بھول ہی جاؤ چھپکلی "

وہ ڈھٹائی سے کہتا اب ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھا۔

"تم خود ہو گے چھپکلی نہیں تم چھپکلے ہو اور وہ بھی بہت گندے بدتمیز "

"شکریہ ویسے کیا تم ناشتے میں کاکروج کھانا پسند کرو گی ؟"

علی نے اپنی بتیسی باہر نکالی۔

" گندے انسان منہ بند رکھو اپنا"

"میں منہ بند رکھوں گا تو ناشتہ کیسے کروں گا کیا ناک سے کھانا کھاؤں میں لیکن ناک میں تو"

"ماما ۔۔۔"

نویرہ اب کی بار پورے زور سے چیخی تھی ،علی نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھا۔

"کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟ ہر وقت چوہے بلی کی طرح لڑتے رہتے ہو چپ کر کے ناشتہ نہیں کر  سکتے اور تم نویرہ اتنا کیوں چیخ رہی ہو،  قیامت تو نہیں آ گئی نا؟ "

" اس نے میرے سن  گلاسز چوری کئے ہیں اس سے پوچھے لڑکیوں کی گلاسز کا کیا کرے گا یہ؟"

"ماما آپ اس سے پوچھئے پہلے اس نے میرے ہینڈ فری چوری کئے ہیں وہ کس خوشی میں کئے اس نے۔۔"

"تم منہ بند رکھو اپنا اس سے پہلے تم نے میری نیوی بلیو جیکٹ اپنی اس پٹاخہ گرل فرینڈ کو گفٹ کی تھی ۔۔"

"اور تم نے اس سے پہلے میرا فون توڑا تھا یاد کرو ۔۔"

"تم جھوٹ بول رہے ہو تمہارا فون اس سو کالڈ  معصوم ملیحہ میڈم نے توڑا تھا ۔۔"

نویرہ کے لہجے میں اس نام کے لئے واضح نفرت اور ہتک تھی۔

"نویرہ مائنڈ یور لینگویج تمہاری بھابھی ہے وہ "

"او پلیز ماما وہ میری بھابھی"

"جسٹ شٹ اپ نویرہ"

"اور تم علی واپس کرو اس کے سن گلاسز اور یہ لڑکیوں کا پیچھا چھوڑ دو نہیں تو بہت برا پیش آؤں گی میں "

گل بیگم غصے سے پھنکاری۔

جب کے نویرہ کے دل میں ملیحہ کے لئے نفرت بڑھی تھی ،پچھلے چار سال سے ملیحہ نے اسکی جگہ لے لی تھی۔

"ماما کو بس وہی دکھائی دیتی ہے یہ جانتے ہوئے کہ اسکی وجہ سے میرے بابا"

"پلیز نینا وہ ایک حادثہ تھا اس میں ملی کا کوئی قصور نہیں "

علی کو اسکی نفرت کی وجہ کبھی سمجھ نہیں آئی تھی۔

"حادثہ نہیں قتل"

"کیا ہوا ہے میری گڑیا کو کیوں صبح صبح موڈ آف ہے ؟"

عالہان آفریدی کی آواز پر اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

"ایک ہی وجہ ہے بھائی جب تک وہ اس گھر میں ہے یہاں کسی کا موڈ ٹھیک ہو سکتا ہے کیا ؟"

اس کا لہجہ ہتک آمیز تھا ،کچن کے پاس کسی کا سرمئی آنچل لہرایا جسے عالہان نے بہت غور سے دیکھا۔

"نینا کیا تم چاہتی ہو کہ میرا سارا دن برا گزرے ؟"

"نہیں بھائی"

اسکی مسکراہٹ واضح ہوئی۔

"تواب اسکا نام نا لینا"

الفاظ کی گہرائی میں  ملیحہ عالہان آفریدی کو صرف اپنے لیے نفرت ہی محسوس ہوئی تھی ،جھیل سی گہری آنکھوں میں پانی بھر آیا  ،دودھیا رنگت پر جیسے کسی بن بادل کی برسات ہوئی  ،اس نے ریشمی آنچل  سے اپنے آنسو بے دردی سے صاف کئے جس سے رخسار پر سرخ نشان پڑ گئے  ،باہر سے اب ہنسنے اور مختلف قہقہوں کی آوازیں آنے لگی۔

اس نے دروازے کے سراخ سے باہر جھانکا۔

عالہان اپنے دونوں بہن بھائیوں کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہا تھا اور وہ مسلسل ایک ہی ضد لگائے بیٹھے تھے تنگ آ کر عالہان نے حامی بھری ،نویرہ خوشی سے اسکے گلے میں باہیں ڈالے جھومنے لگی تو علی نے نویرہ کے بال پکڑ کر کھینچے، اب پھر ان دونوں کی چیختی آوازیں ڈائننگ حال میں گونجنے لگی،گل بیگم اور عالہان انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے انکے چہروں پر ایک طمانیت تھی،کتنا مکمل اور حسین منظر تھا یہ ،ان سب میں ملیحہ تو کہیں بھی نہیں تھی ،وہ ستمگر اسے دیکھ لیتا تو ناشتہ کئے بغیر ہی آفس چلا جاتا،اس لئے وہ کبھی ناشتے کے ٹیبل پر نہیں بیٹھی تھی۔

" میرا کیا قصور تھا ان سب میں؟" ایک خاموش آنسو آنکھوں سے ڈھلکتا نیچے گرا۔

عالہان آفریدی کی نظریں کچن کی طرف اٹھی تو سرمئی آنچل جلدی سے گم ہوا۔

نا چاہتے ہوئے بھی اسکے کے لب نجانے کیوں مسکرائے۔

"ملیحہ تم یہاں بیٹھی ہوئی ہو "

"کتنی دفعہ کہا ہے ہمارے ساتھ ناشتہ کیا کرو"

"چلو آؤ باہر ؟''

"خالہ پلیز '"

"وہ چلا گیا ہے اب تم باہر آ سکتی ہو کچن سے"

گل بیگم کے لہجے میں اس وقت کیا کچھ نہیں تھا درد ،پچھتاوا، تکلیف اپنی بہن کی اکلوتی نشانی کو اس حالت میں دیکھ کر ان کا دل دھاڑیں مار کر رونے کو چاہا تھا پر وہ مجبور تھی اپنی اولاد کے آگے انکی ہٹ دھرم ضد کے آگے جو پتا نہیں اس معصوم کو کس بات کی سزا دے رہے تھے ۔

"مجھے معاف کر دو، میں تمہاری ماں جیسی نہیں بن سکی مجھے لگا تھا عالہان سے نکاح کر کے میں نے تمہیں محفوظ کر لیا ہے پر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا "

"کچھ نہیں ہوتا خالا"

آپ پریشان نا ہوا کریں میں ٹھیک ہوں "

اسکی آواز انھیں کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی ،انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا، سوجھی ہوئی آنکھیں، زرد چہرہ ،بکھرا حلیہ ،بیس سال کی عمر میں کیا کچھ نہیں جھیلا تھا اس نازک سی جان نے؟

"رات کو ڈانٹا اس نے تمہیں پھر؟ "

"ن۔۔نہیں تو کچھ بھی نہیں کہا میں نے کھانا گرم کر دیا تھا انھوں نے کھا لیا "

گل بیگم کچھ نہیں بولی ، وہ بول بھی کیا سکتی تھی ۔

"کیا حال ہیں مجنوں کے ؟"

عالہان اپنے کسی کام میں غرق تھا جب کوئی آندھی طوفان کی طرح بغیر دستک کے اس کے آفس میں داخل ہوا۔

"تم میں ذرا تمیز نہیں ہے نا ؟"

"زرا بھی نہیں "

ہادی کافی اطیمنان سے جواب دیتا اب بالکل اسکے سامنے آ کر بیٹھا۔

"تم ابھی کے ابھی دفعہ ہو جاؤ ادھر سے میں بہت مصروف ہوں"

"ہاں میں جوس پئوں گا اور آپکے باس وہی کڑوی بلیک کافی"

اس نے اسکی بات کو مکمل اگنور کرتے انٹرکام سے جوس اور کافی منگوائی۔

"اور پھر بھابھی جان کے کیا حال ہیں کوئی گھر سے باہر نکلی وہ یا ابھی مراقبے میں ہی ہیں"

"ہادی تم چپ ہونے کا کیا لو گے ؟"

" تم کیوں اس سے بھاگ رہے ہو جب کے تم جانتے ہو اس کا کوئی قصور نہیں "

"سارا قصور اسی کا ہے وہ زبردستی میرے سر پر مسلط کی گئی ہے اگر میرا اس سے نکاح نا ہوتا تو آج میں لاریب ۔۔"

اس نے بات ادھوری چھوڑی،لیکن کچھ باتیں ادھوری بھی مکمل معنی دے جاتی ہیں۔

"پھر تو قصور تمہاری ماما کا ہوا نا انھوں نے تمہارا زبردستی نکاح کیا ہے ملیحہ سے؟"

"تم انھیں کیوں نہیں سزا دے رہے ؟"

"تمہیں لگتا ہے میں اسے سزا دے رہا ہوں؟"

"کیا تمہیں نہیں لگتا عالہان؟"

 اس کے لہجے میں چھبن تھی وہ دو پل کے لئے خاموش ہوا۔

"تم صرف اس سے بھاگ رہے ہو عالی تمہیں ڈر ہے کہ جس لڑکی سے تم نفرت کرنا چاہتے ہو وہ تمہیں خود سے پیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے"

“ What rubbish?”

وہ غصے سے پاگل ہوا،اس کے مقابلے میں وہ بڑے پرسکوں سے بیٹھا تھا۔

وہ اپنی کرسی سے اٹھتا کھڑکی تک گیا۔

"وہ سولہ سال کی ہے "

"غلط اب وہ  بیس سال کی ہے"

"میں 26 سال کا ہوں "

عالہان نے جیسے ایک اور وجہ دی۔

"چار سال سے اس نے باہر کی دنیا نہیں دیکھی عالہان آفریدی وہ بہت معصوم ہے اس نے ایک حادثے میں اپنا سب کچھ کھویا ہے تم اتنے بےحس تو نہیں تھے کبھی؟"

"کوئی بھی بےحس نہیں ہوتا لیکن حالات انسان کو بنا دیتے ہیں کبھی بےحس تو کبھی بےبس"

" یہ اپنے اندر کا زہر ختم کرو خدارا "

"تمہیں ماما نے بھیجا ہے نا مجھے سمجھانے کے لئے لیکن انھیں ایک بات اچھے سے سمجھا دو میرے دل میں ملیحہ عالہان آفریدی کے لئے صرف اور صرف نفرت ہے"

" اب تم جا سکتے ہو"

"پر عالی"

"جسٹ گو ہادی "

اسکا لہجے میں مزید سختی آئی۔

"میں جا رہا ہوں لیکن۔۔۔۔"

پھر سے وہی ادھوری باتیں جو ادھوری ہو کر بھی کہیں نا کہیں مکمل ہوتی ہیں،ہم سب ان ادھوری باتوں کا مکمل مطلب سمجھتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے ہیں،وہ بھی انجان ہی بنا رہنا چاہتا تھا۔

 اس کے جانے کے بعد وہ تھک کر اپنی کرسی پر گرا ، سر سیٹ کے ساتھ ٹکا کے آنکھیں بند کی تو وہی آنسوؤں سے بھری آنکھیں سامنے آئی ،وہ جھٹکے سے اٹھا۔

"تم نے یہ اچھا نہیں کیا ملیحہ ماما کو بیچ میں لا کر تم نے بالکل اچھا نہیں کیا"

اسکی آنکھوں میں نفرت اتری ، اور اب اس نفرت کا شکار اس معصوم کو ہی بننا تھا جو سب چیزوں سے بے خبر تھی ،چار سال پہلے کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوما ۔

ماضی

"آپ لوگوں کا اس پر کوئی حق نہیں ہے وہ میری بہن کی نشانی ہے اور اسے میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی"

 گل بیگم کی آواز ملکوں کی حویلی میں گونجی۔

"تو بھول رہی ہے وہ میرے مرحوم بیٹے کی بھی نشانی ہے ہماری پوتی ہے یہ اور اب اسے ہم اپنے پاس ہی رکھیں گے "

جلال بیگم کی رعب دار آواز سے ملیحہ کانپتی عالہان کے پیچھے چھپی۔

"اے نسیم پکڑو اسے اور لے جاؤ ۔۔"

"ن۔۔نہ۔۔نہیں "

"خا۔۔خالا ؟"

"عالی۔۔۔"

مجھ۔۔مجھے ن۔۔۔نہی۔۔نہیں جانا ان کے ساتھ پ۔۔پلیز یہ ۔۔م۔۔مجھ۔۔مجھے مار دیں۔۔۔گے ۔م۔۔مجھ۔مجھے نہیں جانا"

ہچکیوں کے درمیان وہ سولہ سالہ لمبے بالوں والی لڑکی جب چیخی تو حویلی کے در و دیوار بھی کانپ کے رہ گئے۔

"تیری ماں تھی منحوس، بدچلن ،حرامی عورت بھاگ کر شادی کی اس نے میرے بیٹے سے اور اب اپنی منحوسیت سے مار دیا اسے ،تجھ میں بھی اسی  کا خون ہے لیکن بدقسمتی ہے ہماری کہ تمہاری رگوں میں ملکوں  کے بڑے بیٹے کا بھی خون ہے اور اب تیری بدقسمتی ہی تجھے اس در پر لے کر آئی ہے اس لئے اپنے یہ ٹسوے بہانہ بند کرو ہم لوگ تیری ماں جیسے بغیرت نہیں ہیں کہ اپنے گھر کی عزت کو یوں دوسروں کے گھر بھیج دیں "

جلال بیگم کی سوچ اتنی ہی گھٹیا تھی جتنے انکے الفاظ اور یہ الفاظ اس سولہ سالا معصوم لڑکی کی روح کو چھلنی کر گئے تھے۔

"آپ ایک عورت ہو کر ایک عورت کے لئے ایسے الفاظ کیسے استعمال کر سکتی ہیں ۔۔؟"

وہ بہت ضبط سے بولا تھا وہ کب سے انکی بکواس برداشت کر رہا تھا ۔

"تو زیادہ تعلیم نا جھاڑ یہ میرے گھر کا معاملہ ہے اور یہ لڑکی ہمارے گھر کی عزت ہے یہ اسی گھر میں رہے گی"

اس نے اپنی خالا کا دامن مضبوطی سے پکڑا ،لیکن وہ عورت جو رشتے میں اسکی دادی تھی اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئی۔

"پل۔۔پلیز ۔مج۔۔مجھے بچا لیں خالا جانی ۔۔۔بچا لیں مجھے ۔۔یہ مار دیں گی مجھے ۔۔ ۔۔چھوڑو مجھے جانے دو ،خالا ۔۔"

وہ مسلسل ان سے اپنا آپ چھڑوا رہی تھی جب جلال بیگم کا ہاتھ اٹھا، اور ملیحہ لڑکھڑا کر گری تھی ،یتیمی کے بعد یہ پہلا تھپڑ تھا جو اسے پڑا تھا،وہ زمین پر گری ،مٹی اسے اپنے منہ میں گھلتی محسوس ہوئی،وہ تڑپتا اسکی طرف بڑھا لیکن شہریار نے اسکا راستہ روکا۔

گل بیگم  بھی تڑپتی آگے بڑھی، پر شہر یار انکے راستے میں رکاوٹ بن کر آیا۔

"تم اپنی ماں کو لے کر شرافت سے نکل جاؤ یہاں سے نہیں تو یہ کام ہمارے گارڈز بھی سرانجام دے سکتے ہیں"

"چلیے ماما "

وہ بہت ضبط سے بولا وہ ابھی تک زمین پر گری ہوئی تھی اسے لگا وہ اب کبھی اٹھ نہیں پائے گی ،کوئی بھی تو نہیں تھا جو اسے سہارا دیتا ۔

"عالی میری ملیحہ یہ لوگ اسے مار دیں گے اسے بچا لو عالی ،میری بہن کی آخری نشانی ہے وہ ،میں نے وعدہ کیا تھا اس سے کہ ملیحہ کا خیال رکھوں گی ،میری بچی کو بچا لو عالی ۔۔"

"پلیز ماما ہم اسے لے جائیں گے پر ابھی چپ کر جائیں آپ اور چلئے یہاں سے "

فل وقت وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ملیحہ کو وہ کس حق سے اپنے ساتھ لے کر جاتے وہ اس گھر کے بیٹے کا خون تھی ،سب سے زیادہ یہ گھر والے ہی اس پر حق رکھتے تھے ۔

"یہ تم لوگوں کی بھول ہے یہ لڑکی اب مر کر ہی اس گھر سے نکلے گی "

جلال بیگم نے ملیحہ کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

"خا۔۔خالہ "

وہ سسکی  ،درد سے پورا جسم ٹوٹا  ،لمبے بال کسی آبشار کی طرح کمر پر بکھرے ،دوپٹہ بدن سے جدا ہو گیا  ،اجڑے بکھرے حلیے میں وہ کسی پرستان کی پری لگ رہی تھی جو بھول کر اس ظالم دنیا میں آ گئی تھی۔

"یہ خیال آپکو سولہ سال پہلے کیوں نہیں آیا جب آپ اپنے بیٹے سے ملتی تھی تو اپنے بیٹے کی نشانی سے کیوں نہیں ملتی تھی، اب جب آپکے بیٹے نے اپنی ساری جائیداد اس معصوم کے نام کروا دی ہی تو اچانک بیٹے کے خون کے لئے محبت پیدا ہو گئی آپ لوگوں کے دلوں میں ،تب عزت کا خیال نہیں تھا آپ لوگوں کو جب تک میری بہن زندہ رہی اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور اب جب مر گئی ہے تو اسکی بیٹی کو کس حق سے اپنے پاس رکھ رہی ہیں آپ ؟صرف اور صرف جائیداد کے لئے ،لیکن میں ایسے نہیں ہونے دوں گی ملیحہ میرے ساتھ جائے

گی میں اسے اس جہنم میں  نہیں رہنے  دوں گی"

"تو اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپکا ؟"

شہریار آئی برو اچکاتا بولا۔

"زرا تمیز سے"

وہ اپنی ماں کی ڈھال بنا۔

"میں یہ تمیز کا مظاہرہ ہی کر رہا ہوں کہ ابھی تک تم صحیح سلامت یہاں کھڑے ہو"

"مجھے آپ لوگوں کی جائیداد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے بس میری بچی چاہیے،خدارا اسے میرے ساتھ جانیں دیں یہ معصوم ہے اسکا کیا قصور؟"

"اگر یہ تمہارے ساتھ جائے گی تو ایک شرط پر جائے گی ۔۔"

وہ مدعے پرآئی۔

" کیسی شرط ؟"

"اس کا نکاح تمہارے بیٹے سے ہو گا، جب تک تمہارا بیٹا اسے اپنے نکاح میں نہیں لے گا یہ لڑکی اس گھر سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالے گی"

عالہان آفریدی کا وجود جھٹکوں کی زد میں آیا۔

"مجھے منظور ہے "

گل بیگم کی ہاں پر اس  نے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا ،انھوں نے لمحے بھر کو نہیں سوچا ،ایک پل بھی نہیں لگایا اور فیصلہ کر دیا۔

"ٹھیک ہے جب تک ساری جائیداد ہمارے نام نہیں ہو جاتی یہ ہمارے پاس ہی رہے گی ،تین دن بعد اس کا نکاح تمہارے بیٹے سے ہو گا "

"اور میں آپکی بات پر یقین کیسے کر لوں کہ تین دن بعد ملیحہ مجھے سہی سلامت ملے  گی"

"ملکوں میں بہت غیرت ہوتی ہے ہم جب ایک دفعہ زبان دے دیتے ہیں تو اس سے پھرتے نہیں ہیں چاہے ہماری جان بھی کیوں نا چلی جائے اور میں ان سب کے سامنے تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تین دن بعد یہ لڑکی تمہیں سہی سلامت ملے گی ۔۔"

"آپکی غیرت تو میں دیکھ ہی چکی ہوں"

وہ ملیحہ کی طرف بڑھی جو بالکل خاموش کھڑی تھی ،اسکے جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی۔

"ملیحہ تم نے پریشان نہیں ہونا میں  آؤں گی تمہیں لینے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئے یہ تین دن برداشت کر لو بس "

"ن۔نہیں ۔۔مجھے نہیں رہنا یہاں ،پلیز مجھے اپنے ساتھ لے جائیے ،یہ ما۔۔ماریں ۔گ۔۔گے مجھے پلی۔۔ز"

"کوئی تمہیں نہیں مارے گا میری جان کوئی بھی نہیں مارے گا میں وعدہ کرتی ہوں میں تمہیں لے جاؤں گی ۔۔"

انھوں نے اسے اپنے سینے میں بھینچا۔

" چلئے یہاں سے ۔۔۔"

عالہان آفریدی کی برداشت اب ختم ہوئی تھی ،گل بیگم نے اسے خود سے دور کیا تھا وہ ایسے تڑپی تھی جیسے کسی کو گھنی چھاؤں سے اٹھا کر کڑی دھوپ میں پھینکا ہو کسی نے۔

"نہیں جائیں ،خالا۔۔۔پلیز نا چھوڑ کر جائیں ،مجھے ساتھ لے جائیں ،میں مر جاؤں گی خالہ ،پلیز مت جائیں ۔۔"

وہ تڑپتی رہی سسکتی رہی پر عالہان آفریدی اپنی ماں کو لے کر وہاں سے چلا گیا تھا کبھی نا واپس آنے کے لئے۔

حال

"علی بھائی  پلیز مجھے پڑھنے دیں پہلے ہی کچھ سمجھ نہیں آ رہا"

وہ صوفے پر اپنے ارد گرد کتابیں پھلائے بیٹھی تھی ،وہ پرائیویٹ ایف اے کر رہی تھی خالہ نے اس بہت فورس کیا کہ وہ کالج میں  داخلہ لے لیکن اس نے انکی ایک نہیں مانی،وہ تو پڑھائی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی یہ تو بس علی اور خالا کے بار بار فورس کرنے پر وہ پڑھ رہی تھی ،وہ باہر بہت کم جاتی تھی ،یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ باہر کی دنیا سے واقف ہی نہیں تھی ۔

آخری دفعہ وہ اس گھر  فرسٹ ایئر کے پیپرز دینے کے لئے باہر نکلی تھی ۔

"بس کرو، یہ پڑھائی تمہارے بس کا روگ نہیں ہے میری چلی ملی تم بس ناول اور رسالے ہی پڑھ سکتی ہو "

"میں چلی ملی نہیں ہوں "

"ہاں تم لمبے بالوں والی چڑیل ہو"

"مجھے پڑھنا ہے"

"پھر لے کر دکھاؤ نوٹس"

وہ اسکے نوٹس لے کربھاگا،اب وہ اسے کیا بتاتی وہ نوٹس نہیں رسالہ تھا جس کو وہ نوٹس کے اندر رکھ کر پڑھائی کا ڈرامہ کر رہی تھی ۔

"میرے نوٹس واپس کریں علی  بھائی "

"تم مجھے نہیں پکڑ سکتی چڑیل"

"آپ خود ہوں گے چڑیل"

وہ اسکے قریب آتی پھولی ہوئی سانس سمیت بولی۔

"  اب تم میرا جینڈر چینج کر رہی ہو"

'پلیزمیرے نوٹس واپس کریں مجھے پڑھنا ہے ۔۔"

وہ روہانسی ہوئی۔

"اگر لے سکتی ہو تو لے لو۔۔"

اس نے نوٹس والا ہاتھ اوپر کیا۔۔

اب وہ بیچاری پانچ فٹ دو انچ کی لڑکی کیسے اس 6 فٹ کے لڑکے سے اپنے نوٹس واپس لیتی پر کوشش میں کیا جاتا تھا وہ اپنی ایڑیوں پر کھڑی ہوئی پر پھر بھی نوٹس اسکی پہنچ سے دور تھے ۔

وہ اسکی حالت دیکھتا ہنسا ،ان سب میں وہ اسکے بہت قریب آ گئی تھی وہ مسلسل اپنا ہاتھ اوپر کرتی نوٹس لینے کی کوشش میں تھی۔۔

"کیا ہو رہا ہے یہاں؟ "

عالہان آفریدی کی غصے بھری آواز پر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ رکے نوٹس اسکے ہاتھوں سے گرے اور اس میں رکھا رسالہ بھی گرتے اسکے قدموں میں پہنچا  ۔

وہ فوراً اس سے دور ہوئی،دوپٹے کے کونے کو سختی سے ہاتھوں میں پکڑ کر آںکھیں میچی۔

"وہ بھائی میں نے ملیحہ کے نوٹس  لئے تھے اسی لیے بس وہ ۔۔۔"

"تم چپ کرو اور اپنے کمرے میں جاؤ۔۔"

"پر بھائی میں بس ملی کو تنگ کر رہا تھا اس میں اسکا کوئی قصور۔۔"

"میں نے تمہیں صفائی دینے کو نہیں بولا تم اپنے کمرے میں جا سکتے ہو۔۔"

اب کی بار عالہان آفریدی خاصے سخت لہجے میں بولا ،علی کے بولنے یا رکنے کی گنجائش ختم ہوئی وہ وہاں سے چلا گیا۔

اپنے پاؤں میں سے رسالا اٹھاتا وہ اسکی طرف بڑھا۔

اس نے خوف کے مارے  اپنی آنکھیں بند کی،جب اسکا ہاتھ کسی کی آہنی گرفت میں آیا تھا۔

"چلو۔۔۔"

کمرے میں لا کر اس نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور رسالا اسکے پاؤں میں پٹکا۔

"کیا بتایا ہے تم نے ماما کو ؟"

اس نے بے یقینی سے اپنی نظریں اٹھائی وہ خاموش تھی ہر بار کی طرح خاموش اور اسکی خاموشی سے اسے مزید تپ چڑھی ،اسکا بازو پھر سے اسکی گرفت میں آیا۔

"م۔۔۔م۔۔می میں نے ک۔۔کچھ۔ نہیں بتایا" وہ بمشکل بولی۔

"تو کیا تمہارے فرشتوں نے بتایا ہے انھیں بولو یہ مظلومیت کے رونے انکے سامنے دن رات تم ہی روتی ہو نا ،کیا ظلم کیا ہے میں نے تم پر بتاؤ ذرا کس کس کو میرے خلاف استعمال کر رہی ہو تم امی ،علی ،ہادی؟"

"پ۔۔پل۔۔۔پلیز مجھے درد ہو رہا ہے چھ۔۔چھوڑئے مجھ۔۔مجھے"

"تمہیں  درد نہیں ہوتا تمہیں بس دوسروں کو درد دینا آتا ہے، اس معصوم چہرے کے پیچھے ایک خود غرض چہرہ ہے"

"تمہیں پتا  ہے درد کسے کہتے ہیں؟"

" جب میں تمہارے سامنے آ کر گڑگڑایا تھا میں نے تم سے گزارش کی تھی کہ اس نکاح سے منع کر دو ،پر تم نے اپنی غرض کے لیے۔۔"

"آ۔۔آئی۔۔ایم ۔۔سوری ؟"

عالہان نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔

اتنی نفرت اتنا ہتک آمیز لہجہ اسکا  دل کئی ٹکڑے ہوا ۔

"تمہیں پتا ہے تم ایک منحوس سایہ ہو جس دن سے تمہارے قدم اس گھر میں پڑے ہیں تم نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیا ہے میرا سکون ،میری محبت، میرا باپ سب کچھ ۔۔"

اس کی بند آنکھوں سے آنسو کسی لڑی کی طرح بہہ نکلے ،وہ اسے اپنے لفظوں سے مارتا تھا اور وہ ہر بار اسکے لفظوں سے ایک نئی موت مرتی تھی ۔

اور کتنے الزام لگنا باقی تھے اس پر؟ یہ چار سال، ہر پل اس نے عالہان آفریدی کی نفرت کے حصار میں گزارے تھے۔

وہ سسکی ، اسکی نظریں اسکی آنکھوں پر پڑی  وہ ان آنکھوں کی داستان پڑھ سکتا تھا لیکن وہ پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔

"تم صرف اس سے بھاگ رہے ہو عالی تمہیں ڈر ہے کہ جس لڑکی سے تم نفرت کرنا چاہتے ہو وہ تمیں خود سے پیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے "

ہادی کا جملہ اسکے کانوں میں گونجا تھا ایک جھٹکے سے وہ اس سے دور ہوا۔

"دفعہ ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے"

وہ جلدی سے بھاگی۔

پیچھے وہ تھک کر صوفے پر گرا۔

آج ہادی کی باتوں نے اسے اتنا ڈسٹرب کیا تھا کہ وہ پریزینٹیشن بھی صحیح سے نہیں دے پایا تھا ،بار بار ہادی کے کہے جملے کانوں میں گونجتے تھے وہ کنٹریکٹ اسے نہیں ملا تھا ،غصے سے وہ گھر آیا تو سامنے ہی اسے اور علی کو اتنے نزدیک دیکھ کر میٹر ایک دم شارٹ ہوا تھا کچھ ہادی کی باتوں کا غصہ تھا کچھ کنٹریکٹ نا ملنے کا غصہ اور پھر اسکا چہرہ نظر آتے ہی اپنا سارا غصہ اس پر نکالا تھا اور ہر بار کی طرح اسے تکلیف پہنچا کر اب خود  ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔

"کاش ملیحہ عالہان آفریدی تم اس طرح میری زندگی میں نا آئی ہوتی "

ماضی

"ماما آپ کیسے یہ فیصلہ کر سکتی ہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی"

"تو کیا خرابی ہے اس فیصلے میں بولو ؟"

" آپکو پتا ہے میں کسی بھی صورت میں اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔۔"

وہ تھک گیا تھا انھیں مناتے مناتے دو دن سے وہ کھانا پینا بند کر کے بیٹھی تھی ایک ہی ضد کہ وہ ملیحہ سے نکاح کر لے لیکن وہ چاہ کر بھی انکی یہ ضد  پوری نہیں سکتا تھا ۔

"تو کیا چاہتے ہو تم کہ میں اپنی بہن کی نشانی کو وہاں ان قصائیوں کے پاس چھوڑ دوں جن کی وجہ سے میری بہن مر گئی"

"ماما ہم انھیں سمجھائیں گے ،پولیس کیس کریں گے اسکی کسٹڈی لے لیں گے ضروری تو نہیں میں اس سے نکاح کروں"

"تم کیا سمجھتے ہو پولیس ہماری کوئی بات سنے گی وہ سب ان کے زر خرید غلام ہیں بس ایک ہی راستہ ہے اسے حاصل کرنے کا اور وہ ہے تم سے نکاح ۔"

" اگلے ہفتے میری شادی ہے اور آپ کہہ رہی ہیں میں نکاح کر لوں "

نا چاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ سخت ہوا۔

"تم بھول گئے ہو کہ تم اپنی ماں سے بات کر رہے ہو"

" میں کچھ نہیں بھولا لیکن آپ اپنی بھانجی کی محبت میں سب بھول گئی ہیں یہ بھی کہ آپکی اپنی بھی اولاد ہے انکی بھی کچھ خواہشیں ہیں انکے اپنے بھی ارمان ہیں ،آپ جانتی ہیں میں لاریب سے کتنا پیار کرتا ہوں پھر اس ضد کا کیا مطلب ہے ؟"

"میرے پاس اسے بچانے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے میرے بچے ،تم ایک دفعہ اس سے نکاح کر لو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ،تمہاری شادی لاریب سے ہی ہو گی یہ بات صرف ہمارے درمیان میں رہے گی "

"ماما ۔۔۔؟"

اس نے بے یقینی سے انکی طرف دیکھا۔

"آپ چاہتی ہیں میں سب کو دھوکے میں رکھوں ،اس سے نکاح کر لوں  جس سے میں کوئی سات سال بڑا ہوں؟ اور بابا انھیں کیا جواب دوں گا میں ؟ایم ۔۔سوری ماما پر میں اتنا خود غرض نہیں بن سکتا، میں کسی صورت بھی اس سے نکاح نہیں کروں گا"

"تو ٹھیک ہے تم اپنے فیصلے پر قائم رہو لیکن جب میں مر گئی تو میرے جنازے کو اپنا کندھا مت دینا"

"ماما ۔۔۔"

وہ تڑپا۔

"نہیں ہوں میں تمہاری ماں، میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے تم جا سکتے ہو "

" کیا وہ کل کی آئی لڑکی آپکو اتنی پیاری ہو گئی ہے کہ اسکے لئے آپ اپنی اولاد۔۔۔"

اس کے لہجے میں چھبن تھی ،بے اختیار اس کے دل میں ملیحہ ملک  کے لئے نفرت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے اسکی ماں اس سے ناراض ہو گئی تھی۔

"اگر اس سے نکاح کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو آپ علی کا کر دیں "

"تمہیں کیا لگتا ہے میرے دماغ میں یہ بات نہیں آئی ہو گی علی آسٹریلیا ہے وہ تمہارے بابا ساتھ ہی واپس آئے گا ،انکی مہلت میں سے دو دن پہلے ہی  گزر چکے ہیں ،اتنے کم وقت میں علی کا واپس آنا ناممکن ہے "

"ماما میں اس کل کی آئی لڑکی کے لئے لاریب کو دھوکہ نہیں دے سکتا "

"وہ کل کی آئی لڑکی میری بہن کی اکلوتی نشانی ہے "

پہلی دفعہ وہ عالہان سے اتنی اونچی آواز میں بات کر رہی تھی۔

"اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا میں نے کہ اسکی بیٹی کا خود سے زیادہ خیال رکھوں گی لیکن تمہاری وجہ سے میں قیامت والے دن اپنی بہن کے سامنے شرمندہ رہوں گی ،مجھے پتا ہے اگر کل نکاح نا ہوا تو وہ اسے مار دیں گے انھیں بس اسکی جائیداد سے غرض ہے وہ اسکا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں ،یہ راز جو سولا سالوں سے دفن تھا کہ انکے گھر کے بڑے بیٹے کی کوئی اولاد ہے اسے دفن کرنے کے لئے وہ اسے مار دیں گے "

"میں  کروں گا اس سے نکاح"

وہ جھک گیا تھا ،ہار گیا تھا،اپنی ماں سے وہ کیسے جیت سکتا تھا،اپنے آنکھوں میں آئی نمی کو اندر دھکیلتا وہ وہاں سے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح اٹھا۔

کچھ رشتوں کے آگے ہم بےبس ہو جاتے ہیں، کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ہم اپنی عزیز سے عزیر تر چیز بھی قربان کر دیتے ہیں ۔

آج عالہان آفریدی نے بھی اپنی ماں کی خاطر اپنی سب سے عزیز تر چیز قربان کر دی تھی لیکن کیا کسی کو دھوکہ دینا اتنا آسان ہوتا ہے ؟کیا وہ لاریب کو اتنی آسانی سے چھوڑ پائے گا ؟

حال

لڑکھڑاتے قدموں سے وہ بمشکل اپنے کمرے تک پہنچی  ،کانپتے ہاتھوں سے دروازہ بند کیا۔

"ماما۔۔ "

 لبوں سے سسکی نکلی ، وہ وہیں دروازے کے ساتھ بیٹھی ، آنسوؤں کے سارے بندھن ٹوٹے ،ہاتھوں پر ابھی بھی اس ستمگر کی انگلیوں کے نشان موجود تھے ۔۔

اسکا پورا وجود زلزلوں کی زد میں آیا تھا ،اپنی سسکیوں کو روکنے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ مظبوطی سے منہ کہ آگے رکھا،دل پھٹنے کے قریب تھا،درد تھا کہ روز بروز بڑھتا ہی جاتا تھا،ایک ہی شخص کا نام زبان پر آیا۔

"ماما۔۔۔"

"ماما پلیز واپس آ جائیں م۔۔میں بہت اکیلی ہو گئی ہوں ،ماما ۔۔پلیز۔۔۔دیکھئے آپکی ملیحہ رو۔۔ر۔۔رہی ہے ۔۔بابا ۔۔۔پلیز واپس۔۔آ۔۔ج۔۔جائیں۔۔یہ سب برے لوگ ہیں آپکی ملیحہ کو م۔۔۔م۔مار دیں گے ،سب کو ملیحہ بری لگتی ہے ،ما۔ما ۔۔میں مر۔۔رہی ہوں"

اسکا دل چیخ چیخ کر انھیں پکار رہا تھا،اسکی آنکھوں میں ناختم ہونے والا سمندر تھا جو بہتا ہی جا رہا تھا،وہ اونچی اونچی آواز سے رونا چاہتی تھی ،چیخنا چاہتی تھی پر کیا یہ ممکن تھا؟

"بابا ۔۔۔"

اسکی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں تھا ،پر یہ پہلی دفعہ تھوڑی ہوا تھا جو وہ اس طرح رو رہی تھی وہ ستمگر تو یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس پر غصہ نکالتا تھا اس کی غلطی کیا تھی یہ کبھی اس کا معصوم زہن سمجھ نہیں سکا تھا ۔

"تمہیں پتا  ہے درد کسے کہتے ہیں جب میں تمہارے سامنے آ کر گڑگڑایا تھا میں نے تم سے گزارش کی تھی کہ اس نکاح سے منع کر دو پر تم نے اپنی غرض کے لیے۔۔"

اس کی کہی باتیں اس کے کانوں میں گونجی،زہن کچھ پیچھے گیا۔

ماضی

"ماما۔۔۔"

"بابا۔۔"

اس اندھیرے بند کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھی ،جب کھڑکی کے زریعے کوئی اندر آیا۔

"ک۔۔ک۔۔کون۔۔ہ۔۔ہے۔۔؟"

وہ ڈر کے مارے کانپتی دیوار سے لگی۔

"م۔۔میرے پ۔۔پاس ۔۔مت۔۔آنا "

وہ چیخی، پر کسی نے سختی سے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسے چپ کروایا،جھیل سی گہری آنکھوں میں خوف اترا ۔

"میں  ہوں عالہان اب چیخنا نہیں اوکے"

 عالہان آفریدی کی نرم آواز پر وہ تڑپتی اسکے سینے سے لگی

اس کے ہاتھ اسکے گرد حصار باندھتے رکے۔

"م۔۔مجھ۔۔مجھے بچا لیں عالی بھیا ۔۔۔مج۔۔مجھے مارتے،ہیں یہ ۔۔سب۔۔۔وہ ۔۔و۔ہ۔۔شہری۔۔بھیا۔مجھے"

"اس نکاح کے لئے منع کر دو ملیحہ"

اس  نے اسے خود سے دور کیا۔

"م۔۔مجھے ل۔۔لے ۔ج۔۔جائیں عا۔۔لی بھیا۔۔انھوں نے۔۔مجھ۔۔مجھے مارا۔وہ۔۔شہری بھیا می۔۔۔میرے۔۔"

"میں تمہیں بچا لوں گا ،پر تم کل اس نکاح سے انکار کرو گی ،کرو گی نا"

وہ اسکی بات کاٹتا اپنے مدعے پر آیا۔

"بولو ملیحہ تم اس نکاح سے انکار کرو گی نا ،دیکھو میری شادی ہونے والی ہے تم جانتی ہو نا میں لاریب سے پیار کرتا ہوں ،تمہیں اس نکاح سے انکار کرنا ہے پلیز،ماما میری بات نہیں مان رہی پر تم انکار کرو گی تو وہ مان جائیں گی "

وہ شاید خود غرضی کی انتہا پر تھا ،اس لئے اسے اس معصوم کے چہرے پر پڑے نیل نظر نہیں آئے تھے ،اس کے ہاتھوں پر کسی کی درندگی کے نشان نظر نہیں آئے تھے وہ ایک سولہ سالہ لڑکی سے پتا نہیں کونسی قربانی مانگ رہا تھا؟

اسکا معصوم زہن سمجھنے سے قاصر تھا۔

"پ۔۔پر۔۔م۔۔م۔۔مجھے ۔۔یہاں۔۔ن۔۔نہیں رہنا عالی بھیا م۔مجھے اپنے ساتھ لے جائیں "

وہ اسکے بازو پکڑے منتیں کرنے لگی۔

"میں تمہیں لے جاؤں گا پر تم اس نکاح کے لئے کل سب کے سامنے انکار کرو گی"

"اے ذرا دیکھ یہ اندر سے کیسی آوازیں آ رہی ہیں کوئی منحوس ملنے تو نہیں آیا اس سے"

دروازے کے باہر سے کسی کی آواز گونجی ،ملیحہ نے مظبوطی سے اسکا کا ہاتھ پکڑا ۔

پر اس نے اسکا ہاتھ سختی سے اپنے ہاتھوں سے نکالا اور جس طریقے سے آیا تھا ویسے ہی کھڑکی کے ذریعے واپس بھی  چلا گیا،وہ پیچھے پھر سے اکیلی رہ گئی وہی خوفناک اندھیرا ،اس کے اردگرد مایوسی نے باہیں پھیلائی۔

حال

"یار کیا ہوا ہے؟ دروازہ تو کھولو"

دروازے پر ہوتی مسلسل دستک سے وہ اپنے ماضی سے باہر نکلی  ،اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کر کے ،واش روم میں جا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارے  ،اپنی حالت درست کر کے اس نے دروازہ کھولا۔

"کیا ہوا ہے تمہیں دروازہ کیوں نہیں  کھول رہی تھی تم؟ بھائی نے ڈانٹا تمہیں"

"ن۔۔نہیں  تو مجھے کیوں ڈانٹے گے وہ"

"ہاں ۔۔۔چلو ماما بلا رہی ڈنر کے لئے"

علی جانتا تھا وہ کچھ نہیں بتائے گی پر اسکے آنسوؤں کے مٹے نشان اور سفید کلائیوں پر کسی کے ہاتھوں کے نشان دیکھ کر وہ سب سمجھ گیا۔

"و۔۔وہ میرے سر۔۔میں بہت درد ہو رہا ہے "

"لیکن ۔۔"

"میں سونا چاہتی ہوں  ۔۔"

اس نے دروازہ بند کر دیا۔

" ملی آئی نہیں کھانا کھانے ۔۔"

گل بیگم کی آواز ڈائننگ ٹیبل پر گونجی۔

کھانے کی طرف جاتا عالہان آفریدی کا ہاتھ رکا۔

"آج اسکے سر میں پھر سے بہت درد ہے وہ سونا چاہتی تھی ۔۔"

اس نے درد پر کافی زور دیتے کہا ،سب جانتے تھے اس کے سر میں کب بہت درد ہوتا تھا ۔

اسکا  دل کھانے سے اچاٹ ہوا تھا۔

"بھائی آپ تو کھائیں کھانا اسکے تو روز کے ڈرامے ہیں "

نویرہ کافی اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔

"تم اپنی زبان کو ذرا تھوڑا ہی استعمال کیا کرو اس وقت سے ڈریں آپ لوگ جب اس معصوم کی سسکیاں آپکا سب کچھ تباہ کر دیں گی ۔۔"

علی کا لہجہ سخت تھا ،کھانے کی پلیٹ کو اس نے دور دھکیلا ، اور غصے سے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا ۔

"ابھی تک تو اس نے ہی ہمارا سب کچھ تباہ کیا ہے اب تباہ ہونے کو بچا ہی کیا ہے "

نویرہ کی زبان اب بھی چل رہی تھی ۔۔

"کلثوم کھانا نکالو ملی کا"

گل بیگم ملیحہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔

"دیکھا بھائی آپ نے ؟اسکی وجہ سے اب علی اور ماما ہمارے ساتھ کھانا بھی نہیں کھا سکتے،مجھے سمجھ نہیں آتا آخر وہ لڑکی کیا چیز ہے ؟"

"نینا پلیز تم بھی بس کر دیا کرو، ضروری تو نہیں ہر وقت ہم اس کی باتیں کریں"

وہ بھی تنگ ہو کر وہاں سے اٹھا۔

"تمہیں بہت پچھتانا پڑے گا ملیحہ ،تم نے مجھ سے میرا سب کچھ چھینا ہے میری فیملی ،ماما ،بابا ،علی  لیکن اب عالہان بھائی کو کبھی تمہارا نہیں ہونے دوں گی میں "

اسکے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی۔

∆∆∆

"کھانا کیوں نہیں کھا رہی تم اور یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی "

"خالا چند خیال میری روح سے لپٹ گئے ہیں ،میں جتنا ان سے دور بھاگ لوں یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتے ،یہ کسی کالے سایے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں ، روز میری روح  کو کریدنے آ جاتے ہیں ،میں پرانے زخموں پر مرہم رکھتی ہوں تو کہیں سے نیا زخم رسنے لگتا ہے ،یہ ،جان لیوا ہیں ،ازیت ناک اور بڑے ظالم ہیں"

"میں چپ ہوں،اس امید سے کسی روز انھیں احساس ہو گا کہ کہیں نا کہیں انھوں نے میرے ساتھ غلط کیا ،لیکن میں جانتی ہوں یہ احساس انھیں کبھی نہیں ہو گا "

"میرے زخموں سے اب خون رسنے لگا ہے ،میری آنکھوں کا  نمکین پانی بےتابی سے باہر آنے کو بیتاب  رہتا ہے،لیکن میں خاموش ہوں اس ڈر سے کہ اگر بولی تو پھر کچھ ایسے الفاظ سننے کو ملیں گے کہ یہ زخم ناسور بن جائینگے ،میں دل کے ایسے زخموں سے ڈرتے ہوئے خاموش ہوں،لیکن ان آنسوؤں کا کیا کروں جو تھمتے ہی نہیں ہیں ؟"

"میں نے بول کر اکھاڑ بھی کیا لینا ہے؟"

"جو لوگ مجھے اتنے سالوں میں نہیں سمجھ سکے وہ ایک یا دو دن میں کیسے سمجھیں گے؟"

"میں منحوس ہوں ،ایک قاتلہ۔۔۔"

"ملیحہ۔۔۔"

وہ تڑپتی اسکی طرف بڑھی جس کی گردن بھی آنسؤں سے تر تھی۔

سب کو میری وجہ س۔۔سے دکھ ملتے ہیں ،انکل کو۔۔می۔۔میں نے م۔مار دیا۔۔ماما بابا بھی چھوڑ گئے مجھے ،پلیز مجھے ان کے پاس چھوڑ آئیں نا خالہ مجھے ادھر نہیں رہنا ۔۔میں م۔۔مرنا۔۔چاہتی ہوں"

اسکی آواز دروازے کے باہر عالہان آفریدی کو جھنجھوڑ کر رکھ گئی۔

" ایسے نہیں بولتے میری بچی ،تم منحوس نہیں ہو، تم نے کسی کو نہیں مارا "

گل بیگم نے تڑپ کر اسے اپنے سینے سے لگایا۔

دروازے کے باہر کھڑے عالہان آفریدی کی آنکھوں کے گوشے بھیگے۔

" سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔"

بعض دفعہ مظلوم کے لئے صرف تسلی کافی نہیں ہوتی یہ کہہ دینے سے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا کبھی کبھار ہمیں کچھ چیزیں خود ٹھیک کرنی پڑتی ہیں۔

∆∆∆∆

وہ خود کو گھسیٹتے  اپنے کمرے میں لایا،یہ سسکیاں اس کے دل پر گہرے وار کرتی تھی ،یہ آنسو اسکے دل پر گرتے تھے،

وہ معصوم ہے اسکا دل کہتا تھا ،وہ بہت معصوم ہے ،پر وہ اس نکاح سے انکار تو کر سکتی تھی نا؟

"میں نے اس سے وعدہ کیا تھا اسے بچا لوں گا پر اس نے۔۔ "

ماضی

"ملحیہ اعظم ملک کیا آپکو محمد عالہان آفریدی سے یہ نکاح بالعوض ایک لاکھ سکہ راج الوقت حق مہر میں قبول ہے "

اس کی بے تاب نظریں اس سولہ سالہ گڑیا کی طرف اٹھی، جسے آج لال جوڑا پہنایا گیا تھا ،ہاتھوں میں لال چوڑیاں بھر بھر کر ڈالی گئی تھی ،چہرے پر بڑا سا گھونگٹ تھا پر وہ مسلسل کانپ رہی تھی۔

"بولو ملیحہ"

"اے لڑکی تو بول کیوں نہیں رہی "

"ملی بولو ۔۔"

گل بیگم نے اسے جھنجھوڑا۔

گھونگٹ میں ہی اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا ،ریشمی آنچل سے وہ چہرہ نظر آیا ،جو اشارے سے نا میں سر ہلا رہا تھا ،اسکی آنکھوں میں بے بسی ہی بے بسی رقم تھی ایک امید تھی کہ وہ منع کر دے گی۔

"ق۔قبول ہے ۔۔"

عالہان آفریدی کی آنکھوں میں سے ایک آنسو خاموشی سے نکلا ۔

"ق۔۔قبول۔۔ہے"

اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں بند کی۔

"ق۔۔قبول ہے "

دماغ کی رگیں تنی  ،پورے جسم کا خون جیسے جمع ہو کر اسکے چہرے پر آ گیا تھا پہلی بار کسی نے اس کا بھروسہ توڑا تھا،ایک مان جو کسی کو اس پر تھا اور اس کو کسی پر تھا ،کہنے کو بھروسہ ایک لفظ ہی تو ہے لیکن جس شخص سے یہ اٹھ جائے پھر آپکی نظروں میں اسکی کوئی وقعت نہیں رہتی۔

بھروسہ یہ وہ چیز ہے جو آپ کسی پر کریں تو یا آپ نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا محبت،اور ملیحہ نے اسکا بھروسہ توڑ کر اسے خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اسکی آنکھوں میں کسی کا عکس نظر آیا تھا اسکی لاریب کا عکس بابا ،آج وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا ،باہر پولیس کھڑی تھی ،وہ جانتا تھا اگر ملیحہ نکاح سے انکار کرے گی تو یہ ظالم لوگ اس پر تشدد کریں گے ،اسے ماریں گے اور تب ہی پولیس اندر داخل ہو گی اور ملیحہ کو انکی کسٹڈی میں دے دیا جائے گا،

لیکن ملیحہ نے اس پر بھروسہ نہیں کیا تھا، اسکی باتوں کی لاج نہیں رکھی تھی اس کے کے نکاح کے تین بولوں نے سب تباہ کر دیا تھا۔

وہ بہت مشکل سے پولیس کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا ،انہوں نے اسکا جعلی بے فارم بنوا رکھا تھا جس پر ملیحہ کی عمر اٹھارہ سال تھی سکے پاس اور کوئی ثبوت نہیں تھا سوائے اسکے کہ ملیحہ اس نکاح سے انکار کر دے ،پر یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا پولیس اپنی بات کے مطابق جا چکی تھی کیونکہ اگر ملیحہ اس نکاح کے لئے حامی بھرتی ہے تو وہ کوئی کاروائی کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔

حال

ایک ہفتہ گزر گیا تھا پر ملیحہ آفریدی اس کے سامنے نہیں آئی تھی ،صبح جب وہ آفس جاتا تو وہ اپنے کمرے میں ہی ہوتی، اور اس کے آنے سے پہلے ہی خود کو دوبارہ کمرے میں بند کر لیتی۔

دو بار وہ لیٹ گھر آیا تھا دل میں کہیں امید تھی کہ کچن کی لائٹ جل رہی ہو گی ،وہ نیند آنکھوں میں لئے اسکے لئے کھانا گرم کرے گی پر اس دفعہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ،عالہان آفریدی کو یہ بھی کہاں برداشت تھا،اپنا نظر انداز کئے جانا۔

دل میں بے شمار غصہ تھا ،ان کچھ سالوں میں اسکی اتنی عادت جو ہو گئی تھی ،لیکن خود ہی تو اسے کہا تھا،

"میری نظروں سے دور رہو تو اب میں کیوں سوچ رہا ہوں؟ "

باہر آج بارش ہونے کے امکان تھے ،رات کے نو بجے وہ تھکا ہارا گھر آیا تھا اور خاموشی نے اسکا استقبال کیا۔

نومبر کا مہینہ چل رہا تھا ،اور باہر ٹھنڈی ہوائیں جسکی وجہ سے آج اسے سردی محسوس ہو رہی تھی،باہر موسم بھی کچھ ایسے ہی خراب تھا کہ اس نے جلدی گھر آنا ہی مناسب سمجھا۔

"ماما کدھر ہیں آپ ؟"

صوفے پر تھک کر وہ گرا ،دل نے اسے دیکھنے کی خواہش کی ، جو ایک ہفتے سے اس سے چھپ کر بیٹھی تھی ۔

"صاحب وہ میڈم نویرہ بییی کے ساتھ ہادی صاحب  کے گھر گئی ہیں "

"ابھی تک واپس نہیں آئے وہ لوگ باہر موسم بھی اتنا خراب ہے "

"صاحب وہ میں جاؤں میڈم پتا نہیں کب آئیں گی میرے بچے گھر اکیلے ہیں، میڈم نے بولا تھا جب تک آپ نہیں آتے میں ملحیہ باجی پاس ہی رہوں انھیں بخار ہے "

"ہاں تم جاؤ ،میں ماما کو فون کر کے بلاتا ہوں"

اس نے نویرہ کے نمبر پر فون کیا تھا چوتھی بیل پر اس نے فون اٹھایا ۔

" نینا بچے کہاں ہو آپ لوگ ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے؟ باہر موسم بھی خراب ہے "

"بھائی ہم آج نہیں آ سکیں گے ادھر بہت بارش ہو رہی ہے راستے بھی سارے بلاک ہو گئے ہیں "

فون سے نینا کی آواز آئی۔

"پر ملیحہ۔۔"

وہ کوئی بات کرتے کرتے رکا۔

"بھائی ادھر نیٹ ورک کا پرابلم چل رہا ہے، آپ فکر نا کریں ہم بالکل ٹھیک ہیں آج ہادی کے گھر ہی رکیں گے ہم "

"ٹھیک ہے اللہ حافظ "

عالہان آفریدی نے ایک نظر سامنے بند دروازے پر ڈالی ،بارش اور اندھیرے سے تو ملیحہ کی جان جاتی تھی اور اب تو بخار بھی تھا اسے ۔

"کیا میں ایک بار اسکا حال نہیں پوچھ سکتا؟ "

 دل سے  آواز آئی۔

"نہیں میری طرف سے وہ مر جائے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا "

دماغ نے دل کی خلاف ورزی کی۔

"ایک ہفتے سے نہیں دیکھا اسے وہ ضرور زیادہ بیمار ہو گی "

دل نے گزارش کی۔

"تم بھول رہے ہو یہ لڑکی تمہاری بربادی کا سبب بنی ہے تمہیں اس کے ہونے یا نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے عالہان آفریدی "

دماغ پھر باغی ہوا۔

ہر بار کی طرح عالہان آفریدی سنگدل بنتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔

ادھر ملیحہ کی آنکھ زور دار بجلی چمکنے سے کھلی ۔

"ماما"

وہ پورے زور سے چیخی تھی، کمرے میں اندھیرا راج کر رہا تھا ،لائٹ کسی نے بند کر دی تھی جیسے "خا۔۔خالہ۔۔"

وہ سسکی  ،خوف کی ایک لہر پورے جسم میں پھیلی  ،باہر طوفانی بارش ہو رہی تھی ،یہ ویسی ہی بارش تھی جس نے ملیحہ کا سب کچھ چھین لیا تھا ،ایک ہنستا بستہ آشیانہ اجاڑ دیا تھا ۔

اس کا دم گھنٹنے لگا تھا ،اتنی سردی میں بھی پورا جسم پسینے میں شرابور ہوا۔

وہ ڈرتی کانپتی دروازے تک پہنچی ،باہر بھی پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ،سب سے پہلے اس نے خالا کے کمرے میں دیکھا ؟کوئی بھی نہیں تھا۔

" ۔۔خا۔۔خالہ گھر نہیں آئی ۔۔"

ملیحہ کی سسکی گونجی۔

کچن کی کھڑکی کھلی تو تیز ہوا کی وجہ سے وہ شور مچاتی گھر کی پراسرار خاموشی میں ایک خوفناک آواز پیدا کرنے لگی ،اس نے ہاتھ بڑھا کر حال کی ساری لائٹس آن کرنی چاہی تھی پر بجلی ایک بار پھر زور سے چمکی ، اور اس دفعہ وہ سیڑھیوں پر بھاگی کسی کا دروازہ زور سے بجایا۔

عالہان جو ابھی تھک ہار کر سویا تھا اب دروازے پر مسلسل ہوتی دستک نے اس کے اوسان خطا کئے۔

"اس۔۔وقت کون ہو سکتا ہے ؟"

اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی وہ دشمن جاناں،

آنکھوں میں ڈھیر سارا خوف اور آنسو لئے کانپ رہی تھی ، ،بکھرے بال ،سفید پاؤں جوتوں سے آزاد تھے ،سردی سے کانپتا وجود ۔

بخار کی تپش سے سرخ پڑتی ناک اور گال ۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟"

وہ بہت ظبط سے بولا تھا پھر بھی آواز میں سختی آ گئی تھی۔

"و۔۔وہ۔خا۔۔خالہ؟"

"ہادی گھر ہیں وہ نہیں آئیں گی آج اور کچھ ؟"

عالہان نے مشکل سے اپنی نظریں اس سے ہٹائی تھی وہ جانتا تھا وہ ڈری ہوئی ہے لیکن اس وقت وہ خود بھی بہت ڈر گیا تھا خود سے اپنے دل میں ہوتی اس ہلچل سے۔

"و۔۔وہ۔۔۔باہر۔۔۔با۔۔رش۔۔۔ہو۔۔رہی ہے "

"تو؟"

'م۔۔مجھے۔مجھے ڈر لگتا ہے بارش سے ۔۔"

کانپتے لبوں سے وہ بمشکل بولی ۔

"تو؟"

آنسوؤں کا پھندا گلے میں اٹکا  ،کیسی بے بسی تھی ،وقت نے پھر سے اسے اس ستمگر کے روبرو کھڑا کر دیا تھا ،کاش وہ اپنے ڈر پر قابو پا سکتی۔

"م۔۔میں آپکے روم۔۔۔میں سو جاؤں؟"

Are you in your senses?

عالہان آفریدی کا میٹر پورا کا پورا گھوما وہ اتنی زور سے چیخا  کہ ملیحہ ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہوئی۔

"پلیز۔۔۔۔"

"جاؤ یہاں سے"

"مج۔۔مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔میں کچھ نہیں بولوں گی آپ۔۔کو۔۔۔پلیز مج۔۔مجھے اپنے کمرے میں آنے دیں"

 ملیحہ نے منت کی ۔

"تم میرا دماغ اور نیند دونوں خراب کر رہی ہو اپنے روم میں جاؤ ملیحہ"

 وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا۔

"م۔۔مجھے نہیں جانا مجھے آپکے پاس ہی  سونا ہے جب تک خالہ نہیں آ جاتی میں نہیں جاؤں گی اپنے روم میں"

وہ ضدی انداز میں بولی،وہی ضد جو چار سال پہلے اسکی طبعیت کا حصہ تھی۔

"میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم ،پر میرے کمرے میں تم نہیں سو سکتی سنا تم نے "

"پل۔۔پلیز ۔۔"

وہ سسکی ۔

"نو جاؤ اپنے روم میں "

وہ سنگدل بنا ،وہ تو تھا ہی سنگدل ۔

اسکا دل کیا اتنی بے عزتی پر وہ مر جائے پر اسے تو موت بھی نہیں آتی تھی وہ نازک سی جان تو اس اندھیری خوفناک رات  سے اتنا ڈرتی تھی،ڈر اسکی رگوں میں خون کی طرح شامل تھا۔

وہ تڑپتی وہاں سے ایک قدم آگے بڑھی۔

"کہاں جا رہی ہو تم تمہارا کمرہ نیچے ہے ۔۔"

وہ  ایک دفعہ بار پھر دھاڑا تھا۔

"و۔۔وہ۔۔ع۔۔علی بھائی کے روم میں "

اسکی برداشت ختم ہوئی،اگلے ہی لمحے وہ اسے کمرے میں تھی ،دروازہ اس نے زور سے بند کیا جیسے سارا قصور اسکا ہی تو ہے۔

 " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا اس وقت تم اس کے روم میں جاؤ گی؟ "

وہ چیخا۔

وہ کچھ نہیں بولی  ،بس سر گھنٹوں میں دئے رو دی  ،اسے کہاں باتیں کرنی آتی تھی ،وہ نہیں بتا پاتی تھی کسی کو اس کے دل میں کیا چل رہا ہے ،اسے اس بارش سے اتنا خوف کیوں آتا ہے؟

وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔

عالہان آفریدی کو اپنے رویے پر ڈھیروں شرمندگی ہوئی وہ سب جان کر بھی کیوں انجان بن رہا تھا؟

"رونا بند کرو ملیحہ نہیں تو میں تمہیں ابھی باہر پھینک دوں گا بارش میں"

 عالہان کی دھمکی پر وہ اپنا سانس بھی روک گئی۔

"اب لیٹ جاؤ تم خدارا رحم کرو مجھ پر"

 وہ تھک کر بیڈ کے ایک طرف گرا تھا یہ لڑکی اسکی برداشت آزما رہی تھی۔

وہ بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں بھینچے اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے جیسے باہر بادل گرجتے تھے ادھر اسکی سسکی نکلتی۔۔

اور اب تو ظلم یہ ہوا تھا کہ لائٹ بھی چلی گئی تھی ،پورا کمرا اندھیرے میں ڈوب گیا تھا،کچھ سائے اسے اپنی طرف آتے محسوس ہوئے،اسکا دم گھٹنے لگا،خون آلودہ چہرے،تڑپتی چیخ و پکار،گولیوں کے چلنے کی آوازیں اور بارش،سسکیاں لیتا اسکا تن تنہا وجود ،اسکا جسم برف کی ماند ٹھنڈا پڑنے لگا،خوف،خوف اور خوف۔

عالہان نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔

"اب اگر مجھے تمہاری آواز آئی نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔"

"عالی۔۔۔"

اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے اس کی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں بھینچا ،گرم سیال اسکی آنکھوں سے بہتا عالہان کی گردن پر گر رہا تھا پتا نہیں کیوں لیکن وہ اسے خود سے دور نہیں کر پایا تھا۔

"ما۔۔ما۔۔۔"

وہ سسکی ۔

"بابا"

"واپس۔۔آ جائیں ماما۔۔"

بخار میں تپتا اسکا وجود وہ اپنے حواس کھونے لگی اسکی یہ حالت پہلی دفعہ تھوڑی ہوئی تھی وہ اس سے دور تھا لیکن اس سے بے خبر نہیں۔

"ریلکس ۔۔۔"وہ ایک ہاتھ سے اسکے بال سہلانے لگا۔

"سو جاؤ ۔۔"

"وہ۔۔م۔۔۔مجھ۔،مجھے م۔۔۔م۔۔مار دے گا "

اب کی بار اسکی بات نے عالہان آفریدی کو جھنجھوڑ کر رکھ  وہ اکثر نیند میں بھی ڈر جاتی تھی اور یہ ڈر کس کا تھا وہ کبھی جان نہیں پایا تھا یا یوں کہنا ٹھیک ہو گا کہ اس نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔

" کوئی نہیں مارے گا تمہیں جب تک میں تمہارے پاس ہوں کوئی تمہارے قریب نہیں آئیگا"

مرد کی بھی عجیب فطرت ہوتی ہے پگھلنے پر آئے تو عورت کے ایک آنسو پر ہی پگھل جاتا ہے۔

پتا نہیں وہ یہ سب کیوں بول رہا تھا لیکن یہ سچ تھا وہ کبھی بھی ملیحہ سے نفرت نہیں کر پایا تھا ،وہ بس خود کو اس سے دور رکھنا چاہتا تھا ،ہادی کی باتیں سچ ثابت ہو رہی تھی یہ لڑکی اسے خود سے پیار کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔

                   

صبح عالہان کی آنکھ کھلی تو وہ  ایک ہاتھ اسکے پہلو میں رکھے نیند میں گم تھی ،پوری رات وہ ڈھنگ سے نہیں سوئی پتا نہیں کب اسکی آنکھ لگی۔

"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا عالہان ،کبھی معاف نہیں کروں گا "

کسی کا کہا جملہ کانوں میں گونجا  وہ اپنی آنکھیں کھولتا جلدی سے پیچھے ہٹا۔

آنکھوں میں یکدم غصہ اور نفرت اتری ۔

"تم مجھ سے محبت نہیں کرتے اگر کرتے تو مجھے یہ دھوکہ کبھی نا دیتے عالہان ،آئی ہیٹ یو"

ایک اور جملہ ۔۔۔

"تم ملیحہ سے پیار کرتے ہو۔۔"

" اس نے بابا کو مار دیا ،بھائی بابا کو مار دیا اس نے"

نفرت سے آنکھیں سرخ انگارا ہوئی ۔

"اٹھو تم"

اسکی گرج داد آواز پر وہ ہڑبڑاتی اٹھی،اس سے پہلے وہ کچھ سوچتی سمجھتی،عالہان نے اسکا بازو پکڑا اور اگلے ہی لمحے وہ اسے کمرے سے نکال چکا تھا ،اس سے پہلے وہ گر جاتی گل بیگم نے اسے تھاما۔

آج کے بعد اگر تم مجھے نظر آئی تو میں عالہان آفریدی تمہیں آگ لگا دوں گا"

"عالہان یہ کیا بدتمیزی ہے ؟"

گل بیگم جو ابھی گھر لوٹی تھی ملیحہ کو اپنے کمرے میں نا پا کر اوپر آئی تھی لیکن سامنے ہی یہ سلوک ۔۔

عالہان بنا کوئی جواب دئے دروازہ بند کر چکا تھا۔

"ملی۔۔۔کیا ہوا ہے ؟ "

وہ لب کاٹتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ،اسکی خاموشی نے سب اعتراف کر دیا تھا ،اب انھیں جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا تھا۔

"میں تم سے محبت نہیں کر سکتا ۔۔نہیں کر سکتا ملیحہ۔۔۔"

کمرے کی ہر چیز اس کے قہر کا شکار ہوئی تھی ،وہ اس لڑکی سے شکست کھا رہا تھا جس نے چار سال پہلے عالہان سے اسکا سب کچھ چھین لیا تھا۔

"یہ نہیں ہو سکتا میں تم سے نفرت کرتا ہوں صرف اور صرف نفرت ۔۔''

اس نے واز پورے زور سے آئنے میں نظر آتے اپنے عکس پر مارا۔۔

"تم قاتل ہو میری خوشیوں کی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا "

"میں کبھی نہیں بھول سکتا ملیحہ جس طرح تم نے میرے باپ کو مارا تھا تمہارا وجود ناقابل قبول ہے اور تمہارا جرم نا قابل معافی'

اس نے آئنے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا تھا۔

کبھی کبھی ہمارا ماضی ہہمارے لئے ایک ناختم ہونے والی ازیت بن کر رہ جاتا ہے ہمیں پتا ہی نہیں چلتا اور ہم اپنے ماضی کی وجہ سے اپنا حال اور مستقبل دونوں تباہ کر بیٹھتے ہیں۔

ماضی

"ارے کہاں رہ گئے تھے تم دونوں میں ادھر تم لوگوں کو سرپرائز دینے کے چکر میں تھا اور یہاں آیا تو پورا گھر خالی ہے "

آفریدی صاحب خاصے بدمزہ ہوئے ۔

"کیا ہوا ہے عالہان اور ملیحہ تم؟"

آفریدی صاحب جیسے سب سمجھ کر بھی انجان بننا چاہتے تھے۔

"بابا وہ"

پہلی دفعہ اس نے اپنے باپ سے نظریں چرائی تھی۔

"ادھر آؤ بیٹا ،مجھے گل نے بتایا کہ تم اب ہمارے ساتھ ہی رہو گی "

"یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ،نینا بھی خوش ہو جائے گی کیوں عالی"

وہ کچھ بول نہیں پایا۔

"بھئی عالی آج شاپنگ پر جا رہا لاریب ساتھ تم بھی بھائی کی شادی کی شاپنگ کرو۔۔۔"

عالہان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی۔

"جاؤ ملی تمہارے ماموں  ہیں ڈرو نہیں "

گل بیگم نے اسے اشارہ کیا تھا ،وہ گھبراتی انکی طرف بڑھی۔۔

ملیحہ کچھ نہیں بولی تھی وہ ویسے ہی بت بن کر کھڑی تھی جیسے کوئی مجسمہ ہو۔

"اگر آپ ایسے اداس رہیں گی تو آپکے ماما بابا جنت میں اداس ہوں گے انھیں فکر ہو گی آپکی آپ چاہتی ہیں وہ اداس ہوں"

ملیحہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے ،جنھیں آفریدی صاحب نے بہت پیار سے صاف کیا ۔

" یاد ہے نا آپکے بابا کیا کہتے تھے آپ بہت بہادر ہیں"

وہ بہت پیار سے اس سے باتیں کر رہے تھے جیسے وہ نینا سے کرتے تھے ۔

"یہ تمہارے منہ پر نشان کیسے ہیں کیا ہوا ہے بچی کو گل؟"

انھوں نے اسکے چہرے پر پڑے نیل دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔

"ملیحہ "

نینا خوشی سے اسے پکارتی اسکی طرف بڑھی۔

"بھائی کیا ملی سچ میں ہمارے ساتھ رہے گی "

ملیحہ کے لبوں پر کچھ پل کے لئے مسکراہٹ رینگی۔

پھر وہ اسے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی ، ان دونوں کی آپس میں بہت بنتی تھی ویسے تو نینا اس سے بڑی تھی لیکن وہ بالکل اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتی تھی،اسکا اور نینا کا رشتہ سب سے الگ تھا ،عالی سے اسکی اتنی بات کبھی نہیں ہوئی تھی پر نینا ،علی ،ہادی ان سب میں تو اسکی جان تھی۔

"گل کیا ہوا ہے؟"

"کچھ نہیں ہوا آپ ریسٹ کریں اتنے لمبی سفر سے آئے ہیں میں بعد میں آپکو تفصیل سے بتاؤں گی ''

" کہاں کا لمبا سفر آخر میرے بڑے بیٹے کی شادی ہے وہ بھی میری لاڈلی بہن کی بیٹی ساتھ کیوں برخوردار پھر تیار ہو گھوڑے پر بیٹھنے کے لئے ۔۔"

عالہان آفریدی شرمندگی کے کسی گہرے کنویں میں جا  گرا ،ایک نظر اپنے باپ کے پہلو میں بیٹھی اس لڑکی پر ڈالی تھی جس کا ایک انکار کتنے لوگوں کی زندگیاں بچا سکتا تھا وہ گم سم نینا کی طرف بس دیکھے جا رہی تھی ۔

"بابا مجھے کچھ ۔۔"

'عالی تم جا کر چینج کرو پھر تمہیں لاریب کو شاپنگ پر بھی لے کر جانا ہے ۔۔"

گل بیگم نے اسے کچھ کہنے سے روکا۔

"پر ماما ۔۔"

"ہاں عالی جاؤ تم فریش ہو جاؤ نہیں تو لاریب آ کر پورا گھر سر پر اٹھا لے گی ۔۔"

آفریدی صاحب کی بات پر وہ ایک نظر دکھ اور افسوس سے اپنی ماں کو دیکھتا اوپر چلا گیا۔

                    

حال

"مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں عالہان بیٹھو "

"ماما میں پہلے ہی آفس کے لئے اتنا لیٹ ہو چکا ہوں"

وہ کچھ جلدی میں بولا ،کچن کے پاس کسی کا سرمئی آنچل لہرایا ۔

"عالہان ایسا کب تک چلے گا؟ "

"کیا کب تک چلے گا ؟"

"تم اچھی طرح جانتے ہو تم کیا کر رہے ہو ؟"

"میں کیا کر رہا ہوں؟"

"تمہارا رویہ ملی ساتھ دن بدن بدتر ہوتا جا رہا ہے اسے کیا سمجھوں میں؟"

گل بیگم نے آج ساری بھڑاس نکالی ،انھیں ملیحہ کے خاموش آنسو سونے نہیں دیتے تھے اور کل تو جیسے عالہان نے اسے کمرے سے نکالا تھا وہ دیکھ کر تو وہ چپ نہیں رہ سکتی تھی ۔

"پلیز ماما آپ کیوں صبح صبح میرا موڈ آف کر رہی ہیں مجھے بہت دیر ہو رہی ہے آفس کے لئے اللہ حافظ"

 وہ ہمیشہ کی طرح اس ٹاپک سے جان چھڑا کر بھاگا۔

"آج گھر فیصلہ کر کے آنا یا تو چپ چاپ اسے رخصت کر دیتی ہوں میں تمہارے ساتھ یا تم اسے طلاق دے دو"

 گل بیگم کی بات پر جہاں کچن میں بیٹھی ملیحہ کا دل کانپا ،وہاں عالہان کے چلتے قدم بھی تھمے۔

اس نے مڑ کر انکی طرف دیکھا  وہ واقعے ایسا سوچ رہی تھی؟

لیکن ان کی آنکھوں میں اعتماد دیکھ کر وہ ڈگمگایا۔

پھر نظریں کچن کی طرف اٹھی، جہاں وہ کانچ سی آنکھوں میں ڈھیر ساری نمی لیے گم سم تھی۔

"میرا فیصلہ آپ جانتی ہیں میں اس کے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہ سکتا تو آئی تھنک دوسرا آپشن ٹھیک رہے گا"

اس نے ایک پل میں فیصلہ سنایا ، وہ ستمگر تھا اس نے ستم ہی کیا تھا اسے ستم کرنے ہی آتے تھے ،اپنا فیصلہ سنا کر اس نے ایک طنزیہ نظر ملیحہ پر ڈالی ، جو اب ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی ہونٹوں کو بے دردی سے کچلتے وہ اسے ایک ٹوٹا ہوا مجسمہ محسوس ہوئی ۔

"ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی ۔۔"

گل بیگم کا دو ٹوک انداز دیکھ کر وہ غصے سے وہاں سے نکلا ، پتا نہیں کیوں پر اسکا دل اس فیصلے پر راضی نہیں تھا دل میں کہیں امید تھی کہ ماما نہیں مانیں گی؟لیکن؟

" تو کیا اب وقت آ گیا ہے ملیحہ عالہان آفریدی کو چھوڑنے کا ؟"

گل بیگم ٹیبل سے چیزیں اٹھاتی کچن کی طرف بڑھی۔

"کیا اب آپ بھی مجھے اس گھر سے نکال دیں گی ؟"

اس کے سوال پر وہ تڑپی۔

"نہیں میری جان میں کبھی تمہیں خود سے الگ نہیں کروں گی کبھی نہیں ۔۔"

"و۔۔وہ۔۔۔م۔۔مجھے ۔۔چھوڑ۔۔دیں۔۔۔گے ۔۔پھر اس گھر سے ۔کہاں جاؤں گی میں ۔باہر۔کی ۔دنیا کیسے ؟

ملیحہ کے لہجے میں صدیوں کی تڑپ تھی گل بیگم نے اسے خود سے لگایا۔

" مجھ پر یقین ہے نا تمہیں ۔۔؟'

"آپ پر ہی تو یقین ہے بس لیکن میں ڈرتی ہوں یہ یقین چار سال پہلے بھی  میں نے کیا تھا آپ پر ۔۔"

"وہ تمہیں چھوڑ دے گا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا"

"وہ مجھے چھوڑ دیں گے انھوں نے مجھے اپنایا ہی کب تھا ؟"

وہ آج پہلی بار شکوہ کر رہی تھی آج چار  سالوں میں پہلی دفعہ وہ انکے گلے لگی انھیں سب بتا رہی تھی کہ وہ کس تکیلف سے گزری ہے وہ کتنا اکیلا پن محسوس کرتی ہے اس ستمگر کی باتیں اس کے دل پر کیسے گہرے وار کرتی ہیں آج اسے اپنے ماں باپ شدت سے یاد آئے تھے آج اسے اندازہ ہوا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ماں باپ نہیں مرنے چاہیے آج اسے یاد آیا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کیسی شہزادیوں والی زندگی گزارتی تھی  ۔

ماضی

"ملیحہ کتنا تنگ کرتی ہو مجھے تم بس کرو اب کب تمہاری شکایتوں سے جان چھوٹے گی پتا بھی ہے آج پھر تمہاری پرنسپل نے مجھے کال کی اور مجھے پھر تمہاری وجہ سے شرمندہ ہونا پڑا '

نائلہ بیگم تو پھٹ ہی پڑی ۔۔

" اس لڑکی نے مجھے گرایا تھا پہلے ماما "

"تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ بھی اسے دھکا دے کر نیچے گراؤ،اس نے برا کام کیا تو آپ نے بھی تو کیا تو پھر آپ دونوں میں کیا فرق رہ گیا ؟"

"پر ماما میں نے اسے سزا دینی تھی "

''آپ تو میری پری ہو اور پریاں کسی کو سزا نہیں دیتی ۔۔"

یہ بولنے والے اعظم ملک تھے جو ہاتھ میں ڈھیر ساری چاکلیٹس پکڑے اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔

"پاپا ۔۔"

وہ بھاگ کر انکے گلے ملی۔

"بابا کیا میں سچ میں آپکی پری ہوں ؟"

"ہاں میری جان آپ ایک پری ہو اور پریاں بہت رحمدل ہوتی ہیں، اگر اس لڑکی نے آپکو تکلیف دی تھی تو آپ اگنور کر کے آگے بڑھ جاتی "

" کبھی کبھی  کچھ مسئلوں کا یہی حل ہوتا ہے کہ انھیں اگنور کر دیا جائے ۔۔"

" کیا میرا بھی شہزادہ آئے گا جیسے باقی پریوں کے آتے ہیں ۔۔"

وہ معصومیت سے بولی ۔

نائلہ بیگم اور اعظم ملک نے یکدم ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،پھر انکے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیلی۔

"ہاں میری جان آپکا شہزادہ آئے گا وہ آپکو لے جائے گا ہم سے دور اور وہ آپ کی حفاظت کرے گا جیسے آپ کے بابا کرتے ہیں آپ کی"

"پر بابا آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کسی شہزادے کی ضرورت نہیں آپ میری حفاظت کرتے رہیں گے نا، مجھے دور نہیں جانا آپ سے ۔۔"

" تم ماما کو اسی طرح تنگ کرو گی تو وہ بہت جلد تمہیں تمہارے شہزادے ساتھ بھیج دیں گی "

" میں تنگ نہیں کروں گی پر آپ مجھ سے پرامس کریں آپ میرے پاس رہیں گے نا اور ماما کو بھی رکھ لیں گے ۔۔"

وہ شوخی سے بولی ۔۔

"ہاں بھئی ادھر ایک نوکرانی کی بھی تو ضرورت ہو گی ۔۔"

" میری ماما ملکہ ہیں نوکرانی نہیں ۔۔"

وہ غصے میں بولی۔

"ہاں نوکر تو میں ہوں انکا "

نائلہ نے سخت نظروں سے انھیں گھورا ۔

"جی نہیں آپ بادشاہ ،ماما ملکہ اور میں آپ دونوں کی شہزادی "

وہ خوشی سے کہتی دونوں کے گلے لگی ۔

"ویسے ملی یہ اتنا مکھن کیوں لگا رہی ہو تم ؟"

انھوں  نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔

"اف کورس بابا اس لئے کہ ماما ساری شکایتیں بھول جائیں ۔۔"

اس نے ایک آنکھ دبائی ، جیسے وہ دباتے تھے ۔

"یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہیں بادشاہ اور انکی شہزادی بیٹی "

نائلہ بیگم کی بات پر وہ دونوں ہنسے تھے۔

"یہ ریاست کا ایک اہم مسئلہ ہے آپکو نہیں بتا سکتے ،ملکہ عالیہ "

اعظم صاحب شوخی سے بولے ۔

" ریاست کے اہم مسئلے پر بحث بعد میں کیجئے گا پہلے بادشاہ سلامت اپنی شہزادی بیٹی کو لے

کر شاہی باورچی خانے میں تشریف لے کر جائیں اور رات کے کھانے کا بندوبست کریں"

"بابا آپ واقعے نوکر ہیں ،بادشاہ کون سے کام کرتے ،آپ کی ریاست میں تو ملکہ کی ہی چلتی ہے "

"بیٹا یہ تو قدرت کے اصول ہیں اب کیا بادشاہ کیا فقیر اپنی بیوی کے سب نوکر ہی ہوتے "

وہ شوخی سے ہنسے ، اور پھر انکی ہنسی میں ملیحہ کی ہنسی بھی گونجی ۔

"آپ لوگ ٹائم ویسٹ کر رہے جائیں کھانا بنائیں ۔۔"

نائلہ بیگم واپس مڑتی بولی ۔

"جو حکم ملکہ عالیہ ۔۔"

ان دونوں نے سر جھکایا جس پر نائلہ بیگم اپنا قہقہہ نہیں روک پائی تھی،انکے قہقے ،وہ چھیڑ خانی ،انکا گھر ،اسکا کمرا ،اسکا آشیاں،اسے سب یاد آیا ،وہ تھے تو دنیا کتنی رنگین تھی ،آسمان کتنا حسین تھا ،زندگی میں کتنی رونقیں تھی،لیکن اب وہ نہیں تھے تو آسمان کا رنگ کالا تھا  ،زندگی ساری رونقوں سے محروم ہو گئی تھی ،دنیا بے رنگ ہو گئی تھی،والدین کی محرومی نے اسکے سارے رنگ چھین لئے تھے۔

"مجھ پر یقین رکھو میں نے نا تب تمہارے حق میں غلط فیصلہ کیا تھا نا آج کیا ہے ۔۔"

گل بیگم کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی معلوم ہوئی ۔

ماضی پیچھے رہ گیا تھا اب یہ حال ہے یہاں اسکی ملکہ اور بادشاہ نہیں رہتے جن کی وہ

شہزادی ہوا کرتی تھی وہ ملکہ اور بادشاہ سب کچھ جیسے اپنے ساتھ ہی لے کر چلے گئے تھے  ،یہاں تک کے شہزادی کی ساری خوشیاں بھی ،اب تو بس وہ قید تھی ،زندگی کی قید میں۔

اب کیا خواب کیا آرزو کیا ارمان سب کسی کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے تھے اور اب جڑنا ناممکن تھا۔

"مجھے لگتا ہے میری زندگی کی ڈور ہی امید سے بندھی ہوئی ہے ایک ہی امید کہ کسی دن وہ میرے پاس ہوں گے لیکن میں ڈرتی ہوں کہ اگر وہ امید بھی ٹوٹ گئی تو؟"

زندگی کی تلخیوں نے اسے سکھا دیا تھا۔

"ارے ماما یہ آپ دونوں اداس روحیں بن کر کیوں گھوم رہی ہیں ؟"

علی  یونیورسٹی کے لئے تیار ہو کر نیچے آیا۔

"کچھ نہیں تم بیٹھو میں ناشتہ لگاتی ہوں"

گل بیگم اپنے آنسو صاف کرتی وہاں سے اٹھی۔

"کیا بھائی نے پھر سے تمہیں ڈانٹا۔۔؟"

علی کے سوال پر اس نے آنکھیں اٹھائی اور علی جیسے ساری داستان سمجھ گیا ۔

"تم کیا چیز ہو یار ملی جب وہ تمہیں ڈانٹتے ہیں تو تم چپ کیوں رہتی ہو کیوں نہیں جواب دیتی؟"

" تمہاری کوئی سیلف رسپیکٹ نہیں ہے کیا ؟وہ کس حق سے تمہیں باتیں سناتے ہیں ؟اور اب رونے بیٹھ گئی ہو ؟تم ایسی تو نہیں تھی؟  اتنی خاموش "

"تب میں یتیم نہیں تھی"

"یتیم ہونا ایسا ہے کہ جیسے انسان جنت سے اٹھ کر جہنم میں چلا جائے،ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں سے نکل کر کسی تپتے صحرا میں پہنچ جائے

جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا انکے لئے یہ زندگی بس ایک تپتا صحرا ہے جس میں وہ ننگے پاؤں زندگی کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ،کیا پتا کہیں سے کوئی سایہ دار شجر مل جائے؟"

"ماں باپ یہ دنیا کا سب سے بہترین چھت ہوتے ہیں"

دنیا مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں بھی چلے جاؤ ماں باپ ساتھ ہیں تو انسان خوش ہے اسکی طرف کوئی انگلی اٹھانے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسکے پیچھے اسکے ماں باپ کھڑے ہیں اور ایک لڑکی کے لئے ماں باپ کا سایہ بہت ضروری ہے شاید سانس لینے سے بھی زیادہ۔

اس ایک جملے میں کیا کچھ نہیں تھا ۔

"پر ہم سب تو ہیں نا تمہارے ساتھ"

"میرا اس دنیا میں اللہ اور اسکے رسول کے علاؤہ کوئی اپنا نہیں ہے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے سے ثواب ملتا ہے اور مجھے خوشی ہے آپ لوگ بہت ثواب کما رہے ہیں "

بیس سالہ لڑکی کی یہ باتیں سن کر وہ حیران پریشان تھا ،وہ بات ختم کر کے وہاں سے چلی گئی۔

وہ بچپن سے جانتا تھا ملی کو وہ ایک بہت شرارتی اور ضدی بچی تھی لیکن زندگی کی تلخیوں اور عالہان کی نفرت نے اسے کتنا بدل دیا تھا۔

زندگی بہت ظالم ہے یہ کسی کو نہیں بخشتی موت جب آتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ ایک شخص کی موت سے کئی لوگ مریں گے۔

ملیحہ ملک کے ماں باپ کے ساتھ ہی وہ بھی مر گئی تھی،اب تو وہ ایک زندہ لاش تھی بس جو اپنی  سانسیں پوری کر رہی ہے ،اس دنیا کی سنگدلی سے ڈرتے ہوئے چار سال گزر گئے تھے۔

خوب رونق تھی ان آنکھوں میں پھر ایک خواب آیا

ایسے جیسے کسی بستی میں وبا آتی ہے

ٹھیک ہے ساتھ رہو مگر ایک سوال

تم کو وحشت سے حفاظت کی دعا آتی ہے ؟

وہ ابھی آفس سے باہر نکلا ہی تھا کہ گارڈ نے اسے کچھ کاغذات تھمائے۔

اس نے فائنل کھولی آسماں اس کے سر پر گرا وہ اپنی جگہ سے لڑکھڑایا وہ طلاق کے کاغذات تھے

وہ اسے خود سے الگ ہونے نہیں دے سکتا تھا ،یہ سوچنا بھی اسے ازیت دے رہا تھا وہ چار سالوں سے اسکے نکاح میں تھی ،لاکھ شکوے سہی پر وہ اسکی بیوی تھی ،وہ اس پر سب سے زیادہ حق رکھتا تھا ،وہ کیسے اسے طلاق دے سکتا تھا ؟چار سالوں میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔

"میں اسے نہیں چھوڑ سکتا میں اسے نہیں چھوڑ پاؤں گا "

" وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی "

"ملیحہ کو طلاق دینے کا مطلب ہے اسے اپنی زندگی سے نکالنا لیکن وہ میری زندگی سے نکل کر کسی اور کی زندگی میں کیسے جا سکتی ہے نہیں کبھی نہیں"

آج پہلی دفعہ وہ اعتراف کر رہا تھا  کہ وہ زبردستی کا وجود اسکی زندگی میں کتنا ضروری ہے ہادی کے چند جملوں نے اسکی زندگی میں طوفان برپا کر دیا تھا۔

گاڑی ایک جھٹکے سے آفریدی مینشن میں آ کر رکی

"ماما ۔۔۔ماما۔۔۔"

آفریدی مینشن میں اسکی آواز گونجی۔

"کیا ہو گیا ہے عالہان؟ کیا بات ہے؟"

"میں ملیحہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی ہفتے "

اس نے بم پھوڑا۔

سیڑھیوں سے اترتے علی اور نینا بھی اسکی بات سن کر سکتے میں  چلے گئے تھے ۔

"صبح تک تو آپ اسے طلاق  دے رہے تھے اب شادی کا خیال کیسے آ گیا "

"مائنڈ یور لینگویج علی ۔۔۔"

"آج کے بعد یہ لفظ برداشت نہیں کروں گا میں"

" آپ لوگ شادی کی تیاری کریں اس ہفتے کو میرا ولیمہ ہے اور ساتھ ہی ہادی اور نینا کا نکاح ۔۔"

اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔۔

"وہ ایک جیتا جاگتا وجود ہے کوئی چیز نہیں جسے جب چاہو تم اٹھا کر پھینک دو اور جب چاہے واپس اپنی زندگی میں شامل کر لو۔۔۔"

"وہ میری بیوی ہے ،میرے نکاح میں ہے ،میں اس پر سب سے زیادہ حق رکھتا ہوں "

"کیسا حق؟"

"سوائے نفرت کے تم نے اسے دیا ہی کیا ہے؟"

"یہ نکاح میری ایک غلطی تھی اور مجھے اب یہ غلطی دوبارہ نہیں دہرانی۔۔۔"

"ماما پلیز۔۔۔"

وہ تڑپا۔

"بس عالہان آفریدی اب اور نہیں "

"میں مر جاؤں گا۔۔۔"

نینا تڑپتی سیڑھیوں سے اتری،اس کے ایک جملے میں کیا کچھ نہیں تھا ،گل بیگم کچھ بول نہیں سکی۔

"آپ نے تب بھی میرے ساتھ غلط کیا تھا آپ اب بھی میرے ساتھ غلط کر رہی ہیں "

اسکی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

"تب جو غلطی کی تھی اب اسے سدھار رہی ہوں"

"اب جب یہ دل اسے دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے تب ؟"

"اب جب میرے کانوں کو صرف اسکی آواز بھاتی ہے"

"وہ میری بیوی ہے یہ چیز کیوں نہیں سمجھ رہی آپ،ہم دونوں کے درمیان جو بھی مس انڈرسٹینڈنگ ہیں وہ ہم دیکھ لیں گے آپ۔۔۔"

"بھائی ۔۔"

"آپ اس لڑکی کے ساتھ کیسے ،کبھی نہیں،آپ ایسا نہیں کر سکتے"

" کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے؟"

"آپ پر بھروسہ ہے پر میں کیسے وہ سب بھول جاؤں  بھائی وہ لڑکی ۔۔ہماری خوشیوں کی قاتل"

"پلیز نینا میں سب بھولنا چاہتا ہوں تم بھی بھول جاؤ اور نکاح کی تیاری کرو میں چاہتا ہوں کہ میری بہن اس دنیا کی سب سے خوبصورت دولہن لگے"

عالہان نے پیار سے اسکے بال سنوارے ۔

"پر بھائی ۔۔"

"پر ور کچھ نہیں ۔۔"

"اب زیادہ نخرے کیوں کر رہی ہو دل میں تو تمہارے لڈو پھوٹ رہے ہیں"

علی نے منہ بنایا۔

"تم میرے سے بکواس نا ہی کرو تو بہتر ہے ۔۔"

نینا نے انگلی سے اسے  وارن کیا ۔

"او چھپکلی کے پر نکل آئے آخر شادی جو ہو رہی ہے ۔۔"

"ہاں ہو رہی ہے تم بیٹھ کر سڑو"

"میں کیوں سڑوں گا مجھے تو ہادی کے لئے بہت افسوس ہو رہا ہے ۔۔"

" اس کے لئے کیوں افسوس ہو رہا تمہیں ؟"

"ظاہری بات ہے تم سے شادی کرنے کے بعد بیچارے کی قسمت پھوٹے گی نا اس لیے بس"

"بھائی ۔۔۔"

نینا نے اب تنگ آ کر عالہان کو پکارا ۔

"بس چپ تنگ نہیں کرو تم ہماری دولہن کو"

اس نے ایک آنکھ شرارت سے دبائی۔

"بھائی آپ بھی ۔۔"

نینا نے اب منہ بنا کر کہا تھا جس پر وہ ہنس پڑا۔

"سب کی شادیاں ہو رہی ہیں ،مجھ بیچارے کا کیا قصور اپنی مہندی والے دن میرا بھی کسی سے پڑھوا دیجئے گا نکاح ۔۔"

اس نے بھی اپنی خواہش ظاہر کی ،جس پر عالہان نے اس پر ہاتھ کے اشارے سے ہی لعنت بھیجی۔۔

گل بیگم سب سمجھنے سے قاصر تھی آخر عالہان آفریدی کے دماغ میں چل کیا رہا تھا لیکن اس دفعہ وہ کسی کو بھی ملیحہ کی زندگی کے ساتھ کھیلنے نہیں دیں گی؟

اب وہ تینوں پھر کسی بات پر الجھ رہے تھے دونوں بھائی مل کر اسے تنگ کر رہے تھے۔

وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی، لیکن نظر جیسے ہی عالہان پر پڑی تھی تو نازک دل کانپ اٹھا تھا کتنا خوش تھا آج وہ۔

"ہونا بھی چاہیے آج اس بے نام رشتے سے جان جو چھوٹ جائے گی"

"اگر عالہان نے مجھے دیکھ لیا تو ؟" اس کی دھمکی یاد آئی، اس سے پہلے وہ واپس مڑتی عالہان آفریدی کی آواز نے اسکے پاؤں جکڑے۔

"ملیحہ ۔۔؟"

کتنا نرم لہجہ تھا اسکا ،ایک پل تو اسے یہ اپنا وہم لگا ،کیونکہ آج تک اس نے ملیحہ کو اپنے غضب و غصے کا ہی نشانہ بنایا تھا ، اتنے نرم لہجے میں پکارنے والا عالہان آفریدی تو نہیں ہو سکتا تھا۔

وہ اپنے قدموں پر گھومی،بمشکل نظریں اٹھائی وہ سب اسے ہی دیکھ رہے تھے البتہ نینا منہ بنا کر اپنے کمرے میں جا چکی تھی ۔

"کہیں مجھے مارنے کے لیے تو نہیں بلا رہے؟"

رہ رہ کر اسکی دھمکی یاد آ رہی تھی پورے وجود میں کپکپی سی طاری ہوئی۔

"ادھر کیوں کھڑی ہو ملی ادھر آؤ نا ؟"

اب کی بار تو علی بھی اسکے لہجے پر حیران پریشان کھانسنے لگ پڑا تھا۔

"بھاگ لو ملی نہیں تو یہ آج پکا مجھے مار دیں گے ۔۔"

اس نے دوپٹے کے کونے کو سختی سے اپنی مٹھیوں میں بھینچا۔

"علی زیادہ کھانسی ہو رہی ہے تو پانی پی لو جا کر"

علی خجل ہوتا کچن کی طرف بڑھا اس کے لئے یہ سب ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

"ماما میں کچھ دیر اکیلے میں اپنی بیوی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔"

بیوی کے لفظ پر وہ گرتے گرتے بچی۔

وہ جو سوچ رہی تھی خالا کی موجودگی میں اسے کچھ نہیں کہے گا اب تو اور ڈر لگنے لگا تھا ۔

عالہان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے قریب پہنچا ،ہر بڑھتے قدم کے ساتھ وہ پیچھے ہوتی گئی ،عالہان آفریدی کی نظریں  اسے اپنے وجود کے آر پار ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔

اسکے لبوں پر یہ مسکراہٹ کیسی تھی ؟

"میں نے کچھ کہا تھا تم سے؟ "

عالہان آفریدی کی سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔

"مجھے نہیں۔۔پتا۔۔تھا آپ باہر۔۔۔میں اندر جانے لگی تھی آپ۔۔۔"

کانپتے لبوں اور سسکیوں کو روکنے کی کوشش میں وہ بمشکل بولی۔

اسکی نظریں اسکی آنکھوں پر ٹھہری ،ہمیشہ کی طرح کانچ سی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لئے ،وہ بے دردی سے اپنے لب کچل رہی تھی۔

وہ اس کے کندھوں تک بمشکل آتی تھی دیوار سے لگے اس وجود کی حالت بہت خراب تھی اسے شرمندگی ہوئی۔

کیا وہ اس قدر ظالم ہو گیا تھا؟ کیا اتنا ڈر پیدا ہو گیا تھا اس نھنی سی جان میں اسکا۔

"تمہیں پتا ہے نا تم میری بیوی ہو"

"ج۔۔۔جی؟"

"رونا تو بند کرو یار۔۔"

اس نے بڑے آرام سے اسکی آنکھوں میں آئے آنسؤں کو صاف کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا وہ ڈر کے مارے پیچھے ہوئی۔

اسکا لہجہ ،اسکی آنکھیں ،اسکے مسکراتے لب،یہ عالہان آفریدی نہیں ہو سکتا۔

"چلو۔۔۔"

اسکا ہاتھ عالہان کے ہاتھ میں تھا وہ جانتا تھا اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے آزاد کروا سکتی وہ اسے لئے اسکے کمرے کی طرف بڑھا،پیچھے سے علی اور گل بیگم جو کچن میں چھپے ہوئے تھے وہ بھی باہر نکلے ،وہ جیسے ہی کمرے کے اندر گئے ،وہ دونوں آہستگی سے قدم اٹھاتے آ کر دروازے سے کان لگا کر کھڑے ہو گئے۔

اسکا نرم ہاتھ اسکے مظبوط ہاتھوں میں ہوتے ہوئے بھی کانپ رہا تھا،اسکی ٹانگوں کی لرزش وہ محسوس کر سکتا تھا۔

"بیٹھو۔۔۔"

اسے صوفے پر بٹھا کر وہ ٹیبل سے پانی والا جگ اٹھا کر گلاس میں پانی ڈالنے لگا،وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پریشانی کے عالم میں مسلنے لگی۔

"انکی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی تم ؟"

وہ سامنے ٹیبل پر براجمان ہوا اور پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا۔

"میں سچ میں۔۔۔"

"مجھے۔۔پ۔۔پتا۔۔ہوتا کہ آپ باہر۔۔۔"

"پانی پیو۔۔"

اسکے ہاتھوں کو آپس سے آزاد کروا کر اس نے پانی کا گلاس اسکے ہاتھوں میں تھمایا۔

وہ گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارنے لگی،وہ اسے دیکھ رہا تھا فرصت سے ،پورے حق سے ،پہلی دفعہ ،ملیحہ کی جان نکلنے میں تھوڑی ہی دیر رہتی تھی۔

وہ بمشکل پانی پی رہی تھی۔

"اگر تمہیں پیاس نہیں ہے تو ذبردستی پینے کی ضرورت نہیں"

"نہیں میں پی۔۔۔"

عالہان نے اس سے گلاس لے کر واپس ٹیبل پر رکھا تو نظر اسکے رسالوں پر پڑی۔

"یہ پڑھتی ہو تم ؟"

اس نے جلدی سے رسالہ اسکے ہاتھ سے کھینچا ،اسکی اتنی ہمت پر وہ حیران ہوا لیکن ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ بھی رقم ہوئی۔

"یہ والا میں نے پڑھا ہوا ہے"

ملیحہ کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی،وہ اسی گلاس سے اسکا چھوڑا ہوا پانی پینے لگا،اس کا سانس صحیح معنوں میں اٹکا۔

"یہ بھائی کرنا کیا چاہتے ہیں؟"

چپ کر کے کھڑے رہو"

گل بیگم نے کان مزید آگے کئے جس پر علی نے انھیں دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کی۔

"بخار کیسا ہے تمہارا ؟"

"ج۔۔جی؟"

"ہر بات کا جواب جی نہیں ہوتا بیگم"

اس نے اپنا ہاتھ اسکے ماتھے پر رکھا۔

" جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر ہم نے شاپنگ پر بھی جانا ہے پرنسو تو مہندی ہے تو آج اور کل کا دن ہی بچا ہے تیاری کے لیے ۔۔"

وہ کیا بات کر رہا تھا ملیحہ نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا تھا صبح تو وہ اسے طلاق دے رہا تھا تو اب ؟

"تم چلو گی نا میرے ساتھ ؟"

"ملیحہ؟"

"ج۔۔جی"

"جو کچھ ہوا ہے کیا ہم اس بھول نہیں سکتے ؟"

ان چار سالوں میں آج پہلی دفعہ وہ اس سے مخاطب تھا وہ بھی اتنے پیار سے لیکن ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ اتنا بدل گیا تھا ؟کیوں اس سے شادی کر رہا تھا جب کے صبح وہ رشتہ ختم کرنے کی بات کر رہا تھا اور اب ؟اسے آج بھی یاد تھا چار سال پہلے نکاح کے بعد جب پہلی دفعہ وہ اس سے بات کرنے گئی تھی۔

ماضی

ملیحہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے کمرے کی طرف بڑھی۔۔

نازک ہاتھوں سے دستک دی، ایک بار دو بار تین بار لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ،تنگ آ کر وہ ڈرتی گھبراتی دروازہ کھولتے اندر آئی ،پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

"عال۔۔۔عالی ۔۔"

اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی۔

عالہان نے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹایا ،ان آنکھوں کی سرد مہری دیکھ کر ملحیہ کانپی۔

"کیا دیکھنے آئی ہو اب یہاں تم ؟"

"میری تباہی دیکھنے آئی ہو تو دیکھ لو ہو گیا میں تباہ ۔۔"

عالہان آفریدی بولا نہیں دھاڑا تھا۔

"م۔۔۔میں ۔مج۔۔مجب۔۔مجبور تھی ۔۔"

اسے اتنے غصے میں دیکھ کر وہ وہ بمشکل بولی۔

"دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔"

اس نے آج زندگی میں پہلی دفعہ کسی پر اتنا غصہ کیا تھا۔

"م۔۔میری۔۔ب۔۔بات۔،س۔سن لیں پل۔۔پلیز۔۔ایک دفعہ"

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے قریب آئی۔

"وہ میں"

"جسٹ شٹ اپ ۔۔۔"

"مجھے تمہاری کوئی مجبوری نہیں سننی سچ تو یہ ہے کہ تم ایک حد درجے کی خود غرض لڑکی ہو جسے صرف اور صرف اپنی پرواہ ہے "

"تم میری زندگی میں ایک بیکار وجود ہو جسے بہت جلد میں خود سے الگ کر دوں گا ،جیسے ایک ناسور کو الگ کیا جاتا ہے '

عالہان آفریدی کے ایک ایک لفظ میں نفرت تھی۔

"م۔۔مجھے۔۔درد۔۔ہو۔۔رہا۔ہے ۔۔"

وہ اپنے بازو میں دھنستی اسکی فولادی گرفت سے کانپی ،چوڑیاں  ٹوٹنے سے خون نکلا تھا ،درد سے منہ سے سسکی نکلی۔

"جو درد تم نے مجھے دیا ہے نا اسکے سامنے یہ درد کچھ بھی نہیں ہے تمہاری وجہ سے مجھے بے وفا ہونے کا طعنہ ملا ہے، اپنے باپ سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہا میں ،میرے خوابوں میرے ارمانوں کو بے دردی سے کچلا ہے تم نے اب یاد رکھنا عالہان آفریدی کی نفرت تمہیں  جلا کر راکھ کر دے گی"

"م۔۔۔میں ۔مج۔مجبور۔۔"

"تمہاری مجبوری مائی فٹ ۔۔۔کاش جس دن تمہارے ماں باپ مرے تھے تم بھی انکے ساتھ مر جاتی،ٹھیک کہتی ہیں تمہاری دادی ہو تو تم ایک خود غرض انسان کی بیٹی جس طرح انھوں نے خود غرض بن کر اپنے خاندان والوں سے بےوفائی کی تم نے بھی ویسے ہی اپنی خود غرضی سے میرے ارمانوں کا قتل کیا ہے ۔۔"

عالہان آفریدی کی گرفت سے زیادہ اسکے الفاظوں نے ملیحہ کو درد پہنچایا، اس ایک رات میں وہ بڑی ہو گئی تھی وہ جو سمجھ رہی تھی اب یہاں آ کر سب ٹھیک ہو جائے گا پرعالہان کی نفرت

کاش وہ ایک دفعہ اسکی بات سن لے ۔

"کوشش کرنا کہ اپنے کمرے میں ہی رہو  "

دفعہ ہو جاؤ اب ۔۔۔"

"تم یہ ڈرامے ماما سامنے کرنا ،تم جتنی معصوم ہو مجھے اندازہ ہو گیا ہے"

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے ملی؟"

عالہان کی آواز سے وہ حال میں واپس آئی تھی ،دل میں ہزاروں وسوسے تھے۔

"میں جانتا ہوں کہ تم یہ سب دیکھ کر پریشان ہو ،میں یہ بھی جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے ،تمہیں ہمیشہ دکھ دیئے ہیں ،لیکن اب میں تھک گیا ہوں ،مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ میری قسمت تھی ۔۔"

"اس میں تو کسی کا کوئی قصور نہیں تھا کیا تم مجھے معاف کرو گی ۔۔"

"معافی پر کیوں؟"

کس چیز کی معافی کیا اسکا بدلہ پورا ہو گیا یا یہ بھی کوئی؟

"میں جانتا ہوں تم سوچ رہی ہوں گی کہ میں اتنا کیسے بدل گیا ؟"

ملیحہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا وہ اسکا ذہن پڑھ رہا تھا ۔

"چار سال پہلے جو ہوا وہ میں دہرانا نہیں چاہتا ،

قصور وار تم نہیں تھی پر ۔۔"

پر آپ نے مجھے پھر بھی سزا دی اپنے لفظوں سے میرے دل میں تیر پیوست کئے،ایک لڑکی کی معصومیت اسکے خواب اسکے ارمان سب کا قتل کیا۔

میں نے جو گناہ کیا ہی نہیں اسکی سزا دی مجھے

میرے مرے ہوئے ماں باپ کو بھی نہیں چھوڑا اور آج صبح آپ مجھے چھوڑنے والے تھے اور اب آپکو اچانک مجھ سے ہمدردی ہو گئی ہے اچانک آپکو اپنے گناہوں کا علم ہوا اچانک آپکو پتا چلا کہ میں تو بے قصور تھی اور اب آپ اپنے گناہوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں؟

یہ سب کہنے کی ہمت ملیحہ آفریدی میں کہیں نہیں تھی۔

یہ سب سوال وہ کرنا چاہتی تھی ،لیکن اسکا ڈر،اور خوف ایسا طاری تھا کہ وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔

گزرے سالوں میں جو اسکے ساتھ ہوا تھا وہ تو باہر کی دنیا سے اتنا خوف کھاتی تھی کہ کبھی باہر ہی نہیں نکلی تھی اور گھر میں اس وجود سے وہ کتنا ڈرتی تھی ،وہ تو شاید اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی مر گئی تھی، اسکی زندگی میں صرف اور صرف خوف

تھا اب ہر چیز کا خوف ،وہ تو بولنے سے بھی خوف کھاتی تھی ان سالوں میں  وہ بولی ہی کب تھی، خاموش رہتی تھی شاید اسے زمانے کی ٹھوکروں نے خاموش کروا دیا تھا۔

"میں تم سے بہت شرمندہ ہوں ملیحہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آ سکتا لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آنے والے وقت میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔۔۔"

"کیا تم مجھے ایک موقع دو گی ؟"

عالہان نے اسکا نازک ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔

اس کی آنکھوں میں آنسو جمع ہوئے تھے وہ کیا بولتی ۔ل؟

"تم کچھ نہیں بولوں گی ۔۔"

عالہان کو اسکی خاموشی کھٹکی۔

"م۔۔میں۔۔ک۔۔ک۔۔کیا۔۔بولو؟"

"کچھ بھی بولو ۔۔"

"م۔۔مجھے۔۔ڈر۔لگ۔۔لگتا ہے ؟"

"کس سے ؟"

"ب۔۔بولنے س۔۔سے “

وہ کتنے ہی لمحے خاموش رہا ،اسکی شکایتوں سے بھری نگاہیں اور ان میں تیرتا نمکین پانی،وہ کیوں تھی ایسی؟اس کے ساتھ ایسا کیا ہو گیا تھا ؟وہ چار سال پہلے والی ملیحہ کہاں گم ہو گئی تھی ،اسکے مظبوط ہاتھوں میں بھی اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا ،وہ ڈرتی تھی اس سے ،یہ بات اسے جیتے جی مارنے کے لئے کافی تھی ،اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اسکے کانپتے ہاتھ پر رکھا۔

"ملیحہ ایک چاند ہے، ایسا چاند جس میں کوئی داغ نہیں ہے  وہ لوگ کم ظرف تھے جنھوں نے تم سے نفرت کی مجھے دکھ ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوا پر اب اور نہیں تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"

عالہان آفریدی نے ایک نرم لمس اسکے ماتھے پر چھوڑا اور وہاں سے اٹھا لیکن جیسے ہی دروازہ کھولا تو گل بیگم اور علی اندر کھچے چلے آئے۔

"ماما؟"

عالہان حیرانگی سے بولا وہ بھی اپنی جگہ سے ہلی۔

"وہ م۔۔میں۔۔۔"

"آپ دونوں چھپ چھپ کر ہماری باتیں سن رہے تھے؟"

"نہیں تو "

وہ دونوں اکھٹے بولے۔

"وہ میں تو ملی سے بات کرنے۔۔۔"

"میں بھی ملی سے۔۔۔"

"بھابھی نہیں بول سکتے تم؟"

"کیا۔۔۔؟"

صدمے سے اسکی آنکھیں باہر آئی۔

"چلو میرے ساتھ تم۔۔۔"

عالہان نے اسکا کان پکڑا۔

"پر بھائی میں ملی سے۔۔۔"

"ملی بچاؤ۔۔۔۔"

ناچاہتے ہوئے بھی اسکے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔

"ملیحہ۔۔۔"

"یہ سب کیا ہے خالا ؟"

"گھبراؤ نہیں جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہو گا "

"بتاؤ کیا چاہتی ہو تم؟"

"میں کیا چاہتی ہوں؟"

وہ طنزیہ مسکرائی۔

"ملیحہ میں تمہارے ساتھ اب اور کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی "

"قسم لے لیں خالا عالہان نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی،میں نے جو انکے ساتھ کیا اسکے بعد یہ چھوٹی موٹی باتیں یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔"

"لیکن ملیحہ۔۔۔"

"میں بہت کمزور ہوں خالا"

"میں طلاق کا دھبہ اپنے دامن پر لگا کر کہاں جاؤں گی ؟"

"اسکی فکر تم مت کرو میں۔۔۔"

"یہ دنیا مجھے جینے نہیں دے گی"

"دنیا کی فکر مت کرو "

"میں اس دنیا میں رہتی ہوں مجھے اس کی فکر بھی کرنی پڑے گی"

"تمہیں اس پر بھروسہ ہے؟"

"مجھے کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے،مجھے اپنی زندگی کے دن پورے کرنے ہیں وہ کیسے بھی ہوں،مجھے نہیں پتا وہ کیا چاہتے ہیں؟وہ یہ کیوں کر رہے ہیں پر میں مزید اپنے لئے بدنامی اکھٹی نہیں کر سکتی آپ جانتی ہیں نا؟"

"ملیحہ۔۔۔"

"پلیز خالا۔۔۔"

ان دو سالوں میں ملیحہ عالہان آفریدی کے دل میں نا چاہتے ہوئے بھی عالہان کے لئے وہ جذبات پیدا ہوئے تھے جو ہر لڑکی کے خواب ہوتے ہیں ،اس واقعے کے بعد عالہان سب کچھ چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا پورے چار سال بعد وہ واپس آیا تھا اگر اسکا رویہ ملیحہ کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا تو غلط بھی نہیں تھا ہاں وہ اس پر غصہ کرتا تھا اگر وہ اسے نظر آ جاتی تھی یا اس کے کسی کام کو ہاتھ لگاتی تھی اسے ملیحہ عالہان آفریدی سے محبت نا سہی لیکن نفرت بھی نہیں تھی ہاں وہ گناہگار تھی وہ اسے گنہگار ہی سمجھتا تھا لیکن وہ اسے سزا نہیں دے سکتا تھا اس کے پاس یہ اختیار نہیں تھا وہ بس اب اس سے جو یہ رشتہ ہے وہ بھی ختم

کرنا چاہتا تھا لیکن اب جب وہ چار سال بعد واپس آیا تھا تو حالات بدل رہے تھے جیسے ملیحہ عالہان آفریدی کی دل کی حالت بدل رہی تھی اس کے دل میں بھی اس کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو رہا تھا اسے ملیحہ کی عادت ہو رہی تھی اور عادت محبت سے بھی بری چیز ہے ۔

ملیحہ کی ہر دعاؤں میں بس ایک ہی دعا تھی کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور عالہان سب بھول جائے،

اور نکاح کے دو بولوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ دو لوگوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیتی ہے ملیحہ کا دل بھی عالہان کے ہونے سے دھڑکتا تھا آج محبت نے پہلی دفعہ اسکے خراج بخشا تھا دل ایک نئے مرکز پر چلا تھا شاید دعائیں ایسے ہی قبول ہوتی ہیں،زندگی کا ایک دردناک پہلو ختم ہونے والا تھا ،وقت لگا تھا لیکن خوشیاں اب اسکے دروازے پر دستک دے رہی تھی ،اسے بس ہاتھ بڑھا کر دروازے کو کھولنا تھا۔

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے

تیرے قدموں کی آہٹ سے

تیری ہر مسکراہٹ سے

تیری باتوں کی خوشبو سے

تیرے آنکھوں کے جادو سے

تیری دلکش اداؤں سے

تیری قاتل جفاؤں سے

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے

تیری راہوں میں رکنے سے

تیری پلکوں کے جھکنے سے

تیری بے جا شکایت سے

تیری ہر ایک عادت سے

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے

DON'T FORGET TO GIVE US YOUR FEEDBACK 🤩 🤩 

 

This topic was modified 1 month ago 2 times by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?