Share:
Notifications
Clear all

Mah-e-Noor episode 2 written by Manahil Afzaal

1 Posts
1 Users
0 Reactions
169 Views
(@manahil-afzaal)
Active Member Customer
Joined: 11 months ago
Posts: 2
Topic starter  

خلاصہ        

زندگی بعزاوقات انسان کے لیے کوئلوں پر چلنے کے مترادف ہوتی ہے زندگی فیری ٹیلز کی کوئی کہانی نہیں جس کے اختتام پر کوئی شہزادہ آکر شہزادی کو بچالیگا یہ اصل زندگی ہے جس میں ہر انسان کو بقا کی جنگ خد لڑنی ہوتی ہے ۔۔۔

 

انتساب       

یہ کہانی میری پہلی کہانی جس کا ہر لفظ اللہ تعالیٰ کے نام میں اس قابل نہیں تھی اگر اللہ تعالیٰ مجھ میں لکھنے کی صلاحیت نہ ڈالتے۔۔ یہ کہانی سجل سعید کے نام جنکے الفاظوں نے مجھے حوصلہ دیا جنہوں نے میری کہانی سنی میں انکی طحے دل سے مشکور ہوں۔ یہ قسط علیزہ کے نام جس نے مجھے اس وقت موٹیویشن دی جب میں بلکل سوچ چکی تھی کے مجھ سے نہیں لکھا جائے گا ۔۔

 

 

 

 

 

 

 

ایک شہر         

دو خاندان         

دو منزلیں         

دس کردار۔        

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

گیارہ سال پہلے:                   

''ماہ تم نہیں گئیں بی جان اور حسن کے ساتھ؟"

شہد رنگ بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیے وہ مسلسل اپنی نوٹ بک پر جھکی ہوئی تھی۔

حننان کی آواز کو باقاعدہ نظر انداز کیا تھا۔

جس پر حننان کو تعجب ہوا تھا۔

کرسی کھینچ کر وہ بلکل اسکے سامنے بیٹھ چکا تھا۔

خود کو ہنوز لاپرواہ ظاہر کرتے ہوئے وہ اپنے کام میں مصروف رہی تھی۔

جو دھوپ ماہِ نور کے چہرے پر پڑھ رہی تھی اس طرف اب حننان کی پشت تھی۔

یہ نہ محسوس انداز میں اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دھوپ سے بچانے کی کوشش تھی۔

بیٹھتے ساتھ ہی وہ اپنی دوست کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

وہ اس سے چھ سال چھوٹی تھی، مگر اسکا سینس آف ہیومر، اور اسکی باتیں اسے اپنی عمر کے بچوں سے منفرد بناتی تھیں۔

 

    *         *                *

 

''گرلز الرجک میر حننان سکندر کی اکلوتی بیسٹ فرینڈ، ماہِ نور حیدر سلطان سنہری آنکھوں والی ماہ"

 

 

''اہم ہم کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟"

ٹیبل پر جھکتے ہوئے مخاطب کرنے کی ایک اور کوشش کی تھی۔۔

 

نہیں۔۔

ہنوز ٹیبل پر جھکے جھکے ایک لفظی جواب آیا تھا۔۔

 

جو کہ محترمہ کی ناراضگی کی واضع نشانی تھی۔۔

 

حننان زیر لب مسکرایا تھا۔

(سبز آنکھوں والا ہینڈسم ہنک)

 

ادھر دیکھو پھر۔۔

ایک گھری سانس بھرتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی اس بار اس نے چہرا اٹھایا تھا۔۔

 

اور میر حننان سکندر ساکت ہوا تھا۔۔

 

آنسو ضبط کرنے کی جدو جہد میں سنہری آنکھیں لال ہورہی تھیں ۔۔

 

(چند سیکنڈز کے لیے سبز آنکھیں سنہری آنکھوں سے ملی تھیں)..

 

ماہِ نور؟

تم؟  تم رورہی ہو؟؟

لحجے میں دنیا جہاں کی فکر تھی۔۔

 

گٹھنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا پوچھ رہا تھا۔۔

 

نہیں میں بھلا کیوں رونے لگی؟؟

چہرا پھیر کر جواب دیا تھا۔۔

 

(You cannot hide your feelings in front of me)!!...

 

اسکا چہرا واپس اپنے سامنے کرتے ہوئے واضح لفظوں میں جتایا گیا تھا۔۔

 

''ماہِ نور حیدر سلطان کو میر حننان سکندر سے زیادہ کوئی بھی نہیں جانتا"۔۔

 

اسکے جملے پر بے ساختہ سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔

آنکھیں آنسؤں سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔

 

خود ماہِ نور حیدر بھی نہیں))

پونی ٹیل سے نکلتے ہوئے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے بہت آہستہ سے بات مکمل کی تھی۔۔۔

 

اور یہاں اسکا ظبط ٹوٹا تھا وہ باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی۔۔

 

دادا کے بعد حننان وہ واحد شخص تھا جس سے وہ واقع کچھ نہیں چھپا سکتی تھی ۔۔۔

 

 

ہشش ۔۔۔۔۔

یہ آنکھیں صرف مسکراتی ہوئی اچھی لگتی ہیں

ان میں آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔

(اور پھر میری دوست تو بہت بہادر ہے)

 

 اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بہت نرمی سے اسے سمجھارہا تھا ۔۔

 

تمہیں بابا یاد آرہے ہیں؟   

یہ کسی نے ڈانٹا ہے؟؟   

ہنوز اسکے سامنے گٹھنوں کے بل بیٹھے مختلف سوال پوچھ رہا تھا۔۔۔

نہیں۔                                

ہچکیوں کے درمیان سر نفی میں ہلایا تھا۔۔۔

پھر کیا بات ہے ؟؟۔               

سنہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا گیا تھا۔۔

 

 دادا کی۔ طرح۔۔ آ۔۔ آپ بھی مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔

ہچکیوں کے باعث لفظ توڑ توڑ کر ادا ہوئے تھے۔۔

ماہِ نور کی بات پر حننان کو دکھ ہوا تھا۔۔

سبز آنکھوں نے ایک بار پھر سنہری آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔

ان آنکھوں میں بےیک وقت بہت کچھ تھا۔

ڈر، ناراضگی، شکوہ سب کچھ۔۔

(سبز آنکھیں جھک گئی تھیں وہ اس عمر میں بھی ان آنکھوں میں تکلیف دیکھنے کا تابع نہیں تھا)۔۔

 

بابا جان ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گے نور۔۔

گھری سانس بھرکے اسکے ہاتھ تھامتے ہوئے سمجھانا شروع کیا تھا ۔۔

اور میں بھی۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں جلد واپس آؤں گا۔

 نہ ہی کوئی تمہاری جگہ لیگا، اور نہ ہی تمہارے علاوہ میری کوئی دوست بنے گی۔۔

I promise.

اسکے گال پر بہنے والے آنسو کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا۔۔

وہ یوں سمجھاتا ہوئے اپنی عمر سے کئی سال بڑا لگا تھا۔

وہ حسب ضرورت بولنے والا، ضرورت سے زیادہ سنجیدہ رہنے والا اسکے ساتھ ہمیشہ نرمی اور دوستانہ طریقہ سے پیش آتا تھا۔۔

وہ بلکل دادا جیسا لگتا تھا۔

(غلطی پر پیار سے سمجھاتا ہوا، رودینے پر یونہی لاڈ سے بیٹھ کر چپ کرواتا ہوا)۔۔

کیا ہوا؟

اسے یوں گم سم دیکھ کر وہ الجھا تھا ۔۔

نہیں کچھ نہیں ۔۔

اسی پر سوچ انداز میں جواب دیا تھا۔۔

پھر کیا سوچ رہی ہو؟؟

آپ سچ میں واپس آجائیں گے نہ؟؟

کسی ڈر کے تحت اپنا سوال پھر دوھرایہ تھا۔۔

(I promise Mah-e-Noor Haider sultan, Meer Hannan Sikander will be back to you at any cost)

 

اسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے یقین دلانے کی ایک اور کوشش کی تھی۔۔

 

اور۔۔۔۔  جب تک میں واپس نہیں آجاتا تب تک حسن تمہارا خیال رکھے گا۔۔

اور تم۔۔ مجھے ہر چیز کی اپڈیٹ دوگی، تم چاہے یہاں رہو یہ دادا کے پاس واپس چلی جاؤ میں ہمیشہ ساتھ رہوں گا تمہارے۔۔

اور جلد تمہارے پاس واپس آؤں گا۔۔

 

*         *            *          *   

 اسکی آنکھ کھل گئی تھی لیکن جسم پسینےمیں بھیگ رہا تھا۔۔

اتنی ٹھنڈ میں بھی وہ پسینےمیں بھیگی ہوئی تھی۔۔

ایک بار پھر وہ اپنے خواب کی وجہ سے بے دار ہوئی تھی۔۔

بیدار وہ بھلے ہی خواب کی وجہ سے ہوئی ہو پر حقیقت یہ تھی کہ وہ واپس آگیا تھا، اس نے وعدہ پورا کیا تھا۔۔۔

لیکن۔۔۔۔

وہ اسے بہترین دوست سمجھتے ہوئے وعدہ کرکے گیا تھا۔۔

پر۔۔ پر اسکے لوٹنے کی امید اور انتظار دوست سمجھ کر نہیں کیا تھا۔۔

بلکہ؟.. بلکہ محبت سمجھ کر کیا گیا تھا۔۔۔

آنسو بے ربط آنکھوں سے نکلے تھے ۔۔

محبت؟؟ بہت سرگوشی نمہ آواز میں اس نے آپنا جملہ دوہرایا تھا۔۔۔

جس احساس کو وہ گیارہ سال سے سوری لگاؤ کا نام دے رہی تھی، اس احساس کا اعتراف اسے تکلیف دے رہا تھا۔۔

وہ بھی جب، جب اسے یہ یقین ازبر تھا کہ اسے تو محبت کرنے کا حق ہی نہیں ہے۔۔

 

(کسی نے ٹھیک کہا تھا اعتراف کا لمحہ عذاب ہوتا ہے)

اس نے بھی اس رات یہ عذاب بھگتا تھا۔۔۔

 

  **          **            **

 

حننان ؟؟

بچے تم جاگ رہے ہو؟؟

 

تھمینہ بیگم نے دستک دیتے ہوئے اس کے جاگنے کا سوال کیا تھا۔۔۔

 

جی بی جان۔۔۔

حننان نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے انکے لیے جگہ بنائی تھی۔۔۔

 

اپنے کیوں زحمت کی بی جان؟؟

آپ مجھے بلالیتیں۔۔

وہ اسکے چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ بیٹھ گئی تھیں۔۔

 

اپنے بچوں کے پاس آنے میں کیسی زحمت؟؟

 

آپ سوئی کیوں نہیں ابھی تک؟؟

آپکی طبعیت ٹھیک ہے؟؟

 

فکر مندی سے اب وہ ماں سے سوال کر رہا تھا۔۔

تھمینہ بیگم کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔۔۔

 

برخردار یہ سوال تو مجھے آپ سے کرنا چاہیے کہ آپ کیوں ابھی تک جاگ رہے ہیں؟؟

 

حننان کا قہقہہ جاندار تھا۔۔

یہ چیٹنگ ہے بی جان۔۔

آپ مجھے ڈبل کراس نہیں کر سکتیں، بڑا ہوگیا ہوں اب تو میں ۔۔

 

میاں تمہاری ماں میں۔۔ میرے لئے تم آج بھی میرے وہی چھوٹے سے حننان ہو۔۔

 

بتاؤ سوئے کیوں نہیں ابھی تک؟؟

 

بس یونہی نیند نہیں آرہی تھی۔۔

آپ بتائیں سب خیریت ہے؟؟

 

ہاں سب خیریت ہے.. میں بس تم سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی۔۔

 

تھمینہ بیگم ہاتھوں کو باہم ملاتے ہوئے کچھ ہچکچاتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تھا..

 

ایسی کیا بات ہے بی جان جو آپ یوں ہچکچا رہی ہیں؟؟..

 

حننان کو حیرت ہوئی تھی..

 

ہمم۔۔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے انھوں نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔

 

بیٹے تم جانتے ہو نہ کے میں اور تمہارے آغا جان نے تمہارے لئے ماہِ نور کا انتخاب کیا ہے؟؟

 

تھوڑا آگے جھک کر اس نے تھمینہ بیگم کے ہاتھ تھامے تھے..

 

جی جانتا ہوں..

 

کیا تم نے اپنی رضامندی سے ہاں کی ہے؟؟

 

گہری سانس لی تھی۔۔۔

 

جی بی جان میں نے اپنی رضامندی سے ہاں کی ہے..

 

لیکن...

 

لیکن کیا حننان؟؟

 

ریلیکس بی جان..

اسے بی جان کی پریشانی نے حیران کیا تھا...

 

کیا اس رشتے سے پہلے آپ سب نے ماہِ نور سے اسکی رضامندی پوچھیں تھی؟؟

 

مطلب؟؟

تھمینہ بیگم نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا..

 

مطلب یہ کہ جس طرح آپ میری رضامندی پوچھنے آئی ہیں، کیا ویسے ہی کیا ماہِ نور سے بھی پوچھا تھا؟؟

 

مجھے نہیں لگتا کہ ماہِ نور کو کوئی اعتراض ہوگا..

بیٹے وہ یہاں پلی بڑھی ہے تم سے بھی اسکی اچھی دوستی ہے؟؟

 

الجھتے ہوئے جو جواب بن پایا تھا وہ انھوں نے دے دیا تھا...

 

حننان زیرلب مسکرایا تھا...

 

بی جان ایک لڑکی ساری زندگی روایتوں اصولوں اور عزتوں کو نبھاتے ہوئے کبھی بھائی کبھی باپ کی مرضی اور خوشی کی خاطر اپنی پسندیدہ چیزوں سے دستبرداری دیتی ہے..

لیکن ہمسفر کا انتخاب کرتے ہوئے تو اسے یہ حق ہونا چاہیے نہ کہ وہ اپنی مرضی سے ایک ایسے مرد کا انتخاب کرسکے جسے وہ پسند کرتی ہے..

 

کسی سے دوستی ہونے کا یہ کسی جگہ پلنے بڑھنے کا مقصد یہ تو نہیں نہ کہ آپ اس شخص کو ہمسفر کے طور پر قبول بھی کرلے؟؟

    

ایک عورت اپنا بچپن جس گھر میں گزارتی ہے اس گھر میں گزارتی ہے اس گھر کو صرف اس لیے چھوڑتی ہے تاکہ کسی اور مرد کے گھر کو آباد کر سکے، اسکی نسل کو پروان چڑھا سکے..

 

(اور اگر ان سب قربانیوں کے بدلے اسے من پسند شخص بھی نہ ملے تو یہ زیادتی نہیں)؟؟

ماں باپ کا خود انتخاب کرنا غلط نہیں لیکن رضامندی لینے سے بیٹیوں کے مان بڑھ جاتے ہیں۔ کہ ان کی زندگی کا فیصلہ اندازوں کی بنا پر نہیں کیا گیا..

 تھمینہ بیگم کی آنکھیں فخر سے نم ہوئی تھیں اللہ نے انھیں بہترین اولاد سے نوازہ تھا وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتیں کم تھا..

مجھے تم پر فخر ہے حننان اللہ پاک تمہیں تمام جہانوں کی خوشیاں نصیب کرے..

میں خود ماہِ نور سے اسکی رضامندی لوں گی ٹھیک ہے؟؟..

اور اس نے ہاں کی تو یقین رکھیں میں اس رشتے کو پوری سچائی سے نبھاؤں گا..

تھمینہ بیگم کے ہاتھ چومتے ہوئے تسلی دی تھی...

 

**           **           **         **

 

یاد ماضی عذاب ہے یارب  

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

محبت رفاقت سب جھوٹ  

 وے سجناچھڈیے یار نوں کلا

      

ماہِ نور؟؟                    

دروازے پر دستک دے کر حیدر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے..

جی دادا؟؟                         

بے مقصد چیزوں کو سمیٹتے ہوئے اسکا ہاتھ رکا تھا...

کیا ہوا تم مریم کے ساتھ نہیں گئیں؟؟

وہ بس جارہی تھی..

چہرا ہنوز دوسری طرف تھا..

ماہِ نور ادھر دیکھو میری طرف..

 

بستر پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے اسے مڑنے کا  کہا تھا..

جی؟؟                              

بچے تم ساری رات روتی رہی ہو؟؟

فکر مندی سے ایک اور سوال کیا تھا..

نہ۔ نہیں دادا میں کیوں رونے لگی؟؟

ناب اٹکتے ہوئے آیا تھا..

اچھا ادھر میرے پاس آکر بیٹھو..

وہ صوفے پر سے اٹھ کر خاموشی سے آکر ان کے پاس بیٹھ گئی تھی..

اب مجھے سچ سچ بتاؤ کیا بات ہوئی ہے؟؟

کیا تمہیں دربارہ انسومنیہ کا مسئلہ کوریا ہے؟؟

تم چاہو تو ہم ڈاکٹر ابراہیم کو پھر سے وزٹ کر سکتے ہیں..

انکے لحجے میں فکر تھی خلوص تھا..

یہ وہ واحد انسان تھے جنہوں نے اسکے کتنے رشتے سمیٹے ہوئے تھے..

ہلکا سا سر اٹھا کر وہ پھیکا سا مسکرائی تھی..

اور ساری باتیں اس نے پھر سے خود تک محدود کرلی تھیں..

(ہمیں لگتا ہے ہم سب کچھ خود ہینڈل کرسکتے ہیں ہمیں کسی سے کچھ شیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے)..

لیکن ہم غلط ہوتے ہیں ہمیں خود کو ون مین آرمی سمجھ کر اپنے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیئے..

انسان جو یہ سوچتے ہیں کہ اپنی کوئی تکلیف بتاکر وہ کمزور پڑ جائے گا تو یہ غلط ہے انسان کو ہر دور میں سکی دوسرے انسان کی ضرورت ہوتی ہے..(مخلص انسان کی)

 

آپ نے میری عادتیں بگاڑدی ہیں دادا..

اسکی آواز بھرائی تھی..

تم میری پیاری بیٹی جو ہو..

اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے سر چوما تھا...

لیکن اسے ساتھ لگاتے یہ وہ پریشان ہوئے تھے..

نورے تمہیں اتنا تیز بخار کوریا ہے..

وہ اچانک سے ان سے الگ ہوئی تھی جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو..

موسم کی وجہ سے ہے دادا ورنہ اور کچھ نہیں..

آپ زیادہ پریشان نہ ہوں..

دیکھیں آپ نے مجھے باتوں میں لگا دیا مجھے مریم کے ساتھ پارلر جانا تھا وہ ناراض ہوگی۔

کتنے سارے کام ہیں اور شام میں بارات بھی ہے..

خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے وہ خود سے باتیں کرتی ہوئی چیزیں سمیٹ رہی تھی...

لیکن عجیب بات تھی آج بار بار اسے رونا پتا نہیں کیوں آرہا تھا، دل عجیب پریشان ہورہا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہو۔

ماہِ نور۔                         

وہ آنسو پینے کی جستجو میں تھی جب حیدر صاحب نے ایک بار پھر اسے پکارا تھا۔

چاہے کچھ بھی ہو جائے تمہارا دادا ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے، چاہے ساری دنیا بھی میری بیٹی کے خلاف کھڑی ہوجائے حیدر سلطان تب بھی ماہ نور حیدر سلطان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

یہ الفاظ نہیں تھے مرہم تھا جو    بغیر زخم دیکھے رکھ دیا گیا تھا.

وہ باقاعدہ کسی چھوٹے بچے کی طرح ان سے لپٹ گئی تھی۔

میں انتظار کروں گا جب میری بیٹی مجھے سب بتائے گی۔

اسکا سر چومتے ہوئے اپنی بات اس تک پہنچائی تھی۔

اور اسی لمحے ماہِ نور حیدر نے خود سے عہد کیا تھا کے وہ آج رات سب کچھ دادا کو بتادے گی۔

لیکن قسمت دور کھڑی اداسی سے مسکرائی تھی کیوں کے شاید ماہِ نور کی زندگی میں وہ رات آہی نہ سکے جس میں وہ اپنی ساری باتیں دادا کو بتا سکے گی۔

 

**                **                   ** 

Is there anything you would like to tell me Hassan?...

جان سکندر جو کہ کسی طرح خاموشی سے نہیں بیٹھتا تھا وہ یوں گم سم بیٹھا ہوا حننان کو عجیب لگا تھا..

حسن۔۔۔                          

اسکا کندھا ہلاتے ہوئے اسے پھر سے مخاطب کیا تھا، وہ جو مسلسل اپنی سوچوں میں گم تھا چونکا تھا..

 

ہا۔ ہاں؟                            

سوالیہ نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ حیران ہوا تھا۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔

سب ٹھیک ہے؟

سوال ایک بار پھر دوہرایا تھا۔

ہاں سب ٹھیک ہے کیوں کچھ ہوا ہے؟

اولو گرین کلر کی بیگی شرٹ پر کریم کلر کی شارٹس پہنے بالوں کو ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھیرے اپنے چھوٹے بھائی کو بغور دیکھا تھا۔

یہ تو تم مجھے بتاؤگے نہ میر حسن سکندر۔

صوفے پر بیٹھتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو مزید کریدنے کی کوشش کی تھی۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

پھر کیسی بات ہے؟

حننان کا بھر پور موڈ تھا اپنے چھوٹے بھائی کو تنگ کرنے کا۔

میں بس التمش کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

کیوں اسکے بارے میں کیوں سوچ رہے ہو؟

کہیں تمہارا بھی اسکی طرح شادی کرنے کا تو دل نہیں کر رہا؟؟

استغفرُللہ ۔                       

حسن نے جگر جھری لیتے ہوئے استغفار بھیجی تھی۔

اور یہاں حننان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔

"مجھے بس التمش پر عجیب سا شک ہے"۔

حننان ہنستے ہوئے ایک دم رکا تھا۔ لیکن پھر دربارہ اسی طرح ہنستا چلا گیا تھا۔

کیوں التمش نے چرس بیچنے کا کام شروع کردیا ہے؟؟

حد ہے حسن ایک تو جب سے لاء کی پریکٹس شروع کی ہے تم عجیب شکی مزاج آدمی بن گئے ہو۔

حننان نے اسکی بات مزاک میں اڑائی تھی۔۔

میرا شک غلط نہیں ہے بھائی۔

حسن کے لحجے میں کچھ تھا جو حننان جو کھٹکا تھا۔۔

وہ ایک دن سیدھا ہوکر بیٹھا تھا۔۔

مطلب؟؟                            

مطلب یہ کہ اسکی حرکتیں مشکوک سی ہیں، جیسے وہ کسی موقع کی تلاش میں ہو اور اسے وہ موقع نہ مل رہا ہو۔۔

 

حسن۔۔۔                           

بہت ضبط کے ساتھ حننان نے اسے پکارا تھا۔۔

حسن کی ٹکڑوں میں حننان کا ضبط آزمارہی تھیں۔۔۔

تم صاف صاف پوری بات کیوں نہیں بتادیتے؟؟

بہت نپے تلے انداز میں اس نے مہندی والے دن کا واقع اسے بتایا تھا اور جو کچھ اس نے پہلے نوٹس کیا تھا وہ بھی۔۔۔

حننان کے ہاتھوں کی رگیں تنی تھیں۔

پتا نہیں کیوں لیکن اسکا خون کھولا تھا۔۔

تو یہ ساری باتیں تم نے ۔جگے پہلے کیوں نہیں بتائیں؟؟

غصے جیسا لفظ حننان کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کم تھا۔۔۔

میں آپکو کیا بتاتا اور آپ کیا کرتے؟؟

ہمیشہ سیریس بات کے دوران بے تکی بات کی تھی۔۔

ابھی بتاکر کیا کیا ہے؟؟

حننان کو تپ چڑھی تھی۔۔

میں نے نہیں بتایا آپ نے پوچھا ہے..

کندھے اچکا کر لاپرواہی سے اسے چھیڑا تھا۔۔۔

تم۔۔۔۔                               

اس سے پہلے حننان اسے کسی اچھے الفاظ سے نوازتا اسکا فون بج اٹھا تھا جسے وہ سننے کے لئے اٹھ گیا تھا۔۔

اور حسن اپنے دماغ میں التمش نامی بلا سے نمٹنے کے لیے تانے بانے بن رہا تھا۔۔

 

**           **           **         **

حننان بیٹے تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے ہمیں دیر ہورہی ہے۔

تھمینہ بیگم اپنے دیہان میں بولتی جارہی تھیں جب حننان پر نگاہ ٹھر گئی تھی۔۔

کالی شلوار قمیض پر کریم کلر کی شال کندھوں پر ڈالے ہاتھ میں گھڑی اور آستینوں کو کہانی تک فولڈ کیے ساتھ پشاوری چپل پاؤں میں ڈالے وہ کسی سلطنت کا حسین شہزادہ لگرہا تھا۔۔

سبز آنکھوں میں آج عجیب سی چمک تھی۔۔۔

تھمینہ بیگم نے دل ہی دل میں کئی بار نظر اتاری تھی، گو کہ کہیں انکی آپکی ہی نظر نہ لگ جائے۔۔

لیجیے میں تیار ہوں۔۔

بالوں کو سلیقہ سے جماتے ہوئے وہ تھمینہ بیگم کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔۔

اللہ پاک تمہیں ہر بری نظر سے بچائیں۔۔

کیا ساری تعریفیں اور دعائیں اپنے بڑے بیٹے کو دے دیں گی؟؟

تھمینہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے ہمیشہ کی طرح شکوہ کیا تھا۔۔

تھمینہ بیگم نے ہنستے ہوئے اسکے گال پر بوسہ دیا تھا۔۔۔

حسن نے بھی اپنے بھائی کے ہم رنگ کالی شلوار قمیض پہن رکھی تھی بس فرق یہ تھا کہ اس نے شال کی جگہ کالی ویس کوٹ پہنی تھی۔

چھوٹے کٹے بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر پڑے تھے۔۔

حننان کو اپنے چھوٹے بھائی پر پیار آیا تھا (لیکن اس بات کا اعتراف قیامت تک نہیں کرے گا)

میری دعا ہے تم دونوں ہمیشہ خوش رہو۔۔

 

**            **            **         **

 

تقریباً سب ہی مہمان پہنچ چکے تھے اور چونکہ یہ التمش کی خواہش تھی کہ ساری تقریبات گھر میں ہونگی تو بارات کا فنکشن بھی سلطان ولا کے لان میں کیا گیا تھا۔۔

سلطان ولا کا لان واقع کسی شاندار محل کی طرح سجا ہوا تھا پورے لان میں تازہ گلاب اور موتیے سے سجاوٹ کی گئی تھی پورا لان ریڈ اور وائٹ تھیم سے سجا ہوا تھا۔۔۔

 

"ماہِ نور بیٹے مریم کو کتنی دیر ہے آنے میں؟؟"

یہ آواز امبرین چچی کی تھی جو باقی لوگوں کی بنسبت ٹھنڈے مزاج اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔۔۔

ماہِ نور جو اپنا سامان لیے کمرے میں جارہی تھی چچی کی آواز پر مڑی تھی۔۔

چچی بس آدھے ایک گھنٹے میں وہ یہاں موجود ہوگی۔۔

مسکراتے ہوئے ان کی بات کا جواب دیا تھا۔۔

ٹھیک ہے بچے ۔۔۔

ماشاءاللہ آج تو میری دوسری بیٹی بھی بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔

اسکے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح محبت سے تعریف کی تھی۔۔

تھینک یو چچی، آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔

ماہِ نور نے جواباً اسی محبت سے انکی تعریف کی تھی۔۔

خیال رکھنا امبرین جس کو بیٹی کی جگہ رے رہی ہو وہ کہیں بیٹی کی خوشیاں ہی نہ کھا جائے۔۔

رافیہ بیگم کی آواز میں کچھ ایسا تھا جس نے ایک لمحے کے لیے امبرین بیگم کو ہلاک تھا۔۔

 

اللہ نہ کرے بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں۔

میں تو بس تمہیں آگاہ کر رہی ہوں کہ جسے تم مسیحہ بن کر دودھ پلا رہی ہو وہ ایسا نہ ہو کہ وقت آنے پر آستین کا سانپ بن کر تمہیں ڈس لے۔۔

 

چلو تم دیکھو زرا میں باہر کے انتظامات دیکھ لوں بہت کام ہیں۔۔

رافیہ بیگم اپنا زہر اگل کر جاچکی تھیں لیکن پیچھے کھڑے دو نفوس خاموش رہے گئے تھے۔۔

 

رافیہ بیگم کے الفاظ واقعی کسی تیر کی طرح لگے تھے لیکن خیر۔۔

وہ ماہِ نور ہی کیا جو کسی پر کچھ ظاہر ہونے دے۔۔

 

**            **         **           **

اللہ رحم یہ سورج آج کہاں سے نکلا ہے؟؟

(اسے لڑکیوں کے لباس میں یوں تیار دیکھ کر حسن کو جھٹکا لگا تھا)۔۔۔

وہ جو اپنے دیہان میں گول سیٹ کر رہی تھی حسن کی آواز پر بدک کر پیچھے ہٹی تھی۔۔

 

حد ہے حسن بھائی ڈرادیا اپنے مجھے۔۔۔

ہیں؟؟ خیریت تو ہے یہ انقلاب کب سے آیا کہ جنگلی بلی بھی ڈرنے لگی ہے؟؟..

 

حسن نے دانت نکالتے ہوئے اسے مزید رہانے کی کوشش کی تھی۔۔

وہ کیا ہے نہ                     

جب اتنا بڑا اور خوفناک جن میرے سامنے کھڑا ہوگا، تو مجھ پیاری معصوم اور بپچاری لڑکی کو تو ڈرنا ہی ہے۔

ہاتھ جھلا جھلا کر اس نے خوب اپنے معصوم ہونے کا اعلان کیا تھا۔۔

(سب سدھر سکتے ہیں لیکن ماہِ نور حیدر نہیں)

یہ جو تم اتنا بڑا خوفناک جن مجھے کہے رہی ہو نہ بتاؤں گا آغا جان کو کہ انکی معصوم بیٹی کیسے مجھے جن بول رہی ہے۔۔

 (ہوگیا جنگ عظیم کا آغاز)

دورکھڑے باقی فرد بڑی خوشی سے انکے جھگڑے کا ملاحظہ کر رہے تھے جس میں حننان صاحب پیش پیش تھے۔۔

(اسکو یوں لڑتے دیکھ احساس ہوا تھا کہ وہ بلکل نہیں بدلی تھی وہ دونوں آج بھی جانی دشمن تھے انکی دوسرے کے)

 

میں ابھی آغا جان سے آپکی شکایت لگاتی ہوں۔۔

کیا زمانہ آگیا ہے بھئی ایک تو چوری اپر سے زینہ زوری۔۔

اپنا فروک سنبھالتی ہوئے سکندر صاحب کے سامنے آئی تھی۔۔ 

ارے لڑکی سنووووو۔             

آغا اور حیدر صاحب جو انھی کے آنے کے منتظر وہ اپنی اپنی شکایتیں لیکر حاضر تھے۔۔

 

حننان بھرحال مکمل اگنورینس ٹریٹمنٹ پر تھا۔۔

اس بیچارے کے اپنے دکھ تھے۔

ماہِ نور نے غلطی سے بھی اسکی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔

 

"آغا جان آپ سمنبھالیں اپنے پوتے کو۔"

انکے سامنے پہنچ کر وہ پھٹ پڑی تھی۔۔

ارے ارے کس نے تنگ کیا میری پیاری سی بیٹی کو؟؟

بس ایک یہ مرد اور انکی لاڈلی پوتی۔۔

سکندر صاحب نے پچکارتے ہوئے سوال کیا تھا۔۔

یہ ہیں نہ آپکے پوتے نے۔۔"”

ہیں کون سے؟؟              

بڑے یہ چھوٹے نے؟۔         

 (آغا سکندر بھی بھئی)      

اسکی کینچی جیسی زبان کو بریک لگی تھی۔۔۔۔        

ارے ارے آغا جان کوئی پیاری پیاری بیٹی نہیں ہے یہ گز بھر لمبی زبان ہے اسکی، مجھے یعنی حسن سکندر کو خوفناک جن بول رہی تھی۔۔

 

بر وقت تینوں مردوں کے قہقہے بلند ہوئے تھے۔۔

"جھوٹ جھوٹ بلکل سفید جھوٹ بول رہے ہیں"۔۔

اپنا ازلی انداز اپناتے ہوئے وہ اب لڑاکا عورتوں کی طرح لڑ رہی تھی۔۔

پہلے انھوں نے مجھے جنگلی بلی تھا اور آپ۔ آپ دونوں ہنس رہے ہیں..

بابا؟؟ آغا جان آپ بھی؟؟

وہ افسردہ ہوئی تھی۔۔

ہمم ہمم نہیں ہم تو بس وہ ہاں پھندہ لگ گیا تھا۔۔

(اپنی اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی)۔۔

 

ٹھیک ہے آپ دونوں رہیں اپنے اس خوفناک جن جیسے پوتے کے ساتھ ۔

میں آپ دونوں سے ناراض ہوں۔

اور ہاں اگلے کئی دن تک میں آپ دونوں سے بات نہیں کرنے والی۔ (ایموشنل بلیک میلر کہیں کی)

گئی بھینس پانی میں۔۔۔

 

"آغا جان بہت بڑی ڈرامے باز ہے آپکی ہوتی"۔

چپ کرو میاں۔۔

سکندر صاحب کا تھپڑ رسید ہوا تھا حسن کے کندھے پر۔۔

آغا جان یار۔۔                    

میں واقع سوتیلا ہوں)۔           )

 "معصوم سا حسن اور بیچارے کے دکھ"(استغفرُللہ)

 

ناراض ہوگئی میری بیٹی تمہاری وجہ سے۔۔

انکا بس چلے تو قربان ہی ہو جائیں بیٹی پر۔۔

ڈرامے باز ہے آپکی بیٹی لڑاکا عورت کہیں کی۔

وہ بیچارا تپ یہ تو گیا تھا))

 

حسن۔                           

حننان نے حسن کو ٹوکا تھا۔۔۔

بھائی پلیز آپ نہیں۔ ابھی آپکو اگنورینس ٹریٹمنٹ پر رکھا ہوا ہے۔۔

 

"کیوں بولتے ہو تم اتنا فضول؟؟''

حننان کا دل کیا تھا سر پھاڑ دے اسکا۔۔۔

جنگلی بلی کی صحبت کا اثر ہے..

کندھے اچکتے ہوئے کھٹاک سے جواب آیا تھا۔۔۔

جاؤ حننان جاکر دیکھو اسے خامخا میری بیٹی کا موڈ اوف ہوگیا..

سکندر صاحب کا حکم صادر ہوا تھا..

حیدر صاحب نے بمشکل قہقہہ روکا تھا۔۔

رہنے دو سکندر ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔۔

 

"نہیں نہیں بابا آپ جانیں دیں بھائی کو ظاہر سی بات ہے ایک لاڈلی وہ لڑاکا عورت ہے اور ایک بھائی ہیں۔۔

مجھے تو گود لیا تھا ان لوگوں نے"۔۔

 

جو بات ہے۔۔۔

حننان بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔۔(سائیکوپیتھ بلیننر نہ ہو تو)

اسے مزید تپاتے ہوئے وہ اپنی جان عزیز کو منانے گیا تھا۔۔

 **            **          **         **

 

وہ جسے نظریں تلاش کرتی ہوئی بھٹک رہی تھیں، وہ محترمہ سامنے کھڑی کسی بچے سے لاڈ کر رہی تھیں، اور وہ چھٹانک بھر کا بچہ بھی بڑے مزے سے اسکی گود میں کہلکہلارہا تھا۔۔

بے شرم کہیں کا۔۔(عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو)

 

چنری کی کالی پاؤں کو چھوتی انگرھا فراک پر چوڑی دار پاجامہ ساتھ پینسل ہیلز پہنی ہوئی تھی۔

سرخ چنری کا ڈیٹا سلیقے سے کندھے پر جما تھا۔

کانچ سی سنہری آنکھوں میں کاجل کے ساتھ لال سرخ رنگ لپسٹک ہونٹوں پر سنی تھی۔

شہد رنگ بال ہلکے کرل کیے ہوئے کمر پر کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔

 

(دل کیا تھا وہ اسے ہر کسی کی نظر سے چھپالے تاکہ کسی کی نظر اس پر نہ پڑھ سکے)

اسکے لیے دل یوں ہی شدت پسند ہوتا تھا۔

دل کی خواہش بھی عجیب ہوتی ہے۔

اسے بے ساختہ اپنے دل کی دھڑکن بڑھی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔

وہ جس کو ناراضگی کی وجہ سے منانے بھیجا گیا تھا، وہ محترمہ بچے کے ساتھ خوشی سے چپک رہی تھیں۔۔

(حسن سہی کہتا تھا، ڈرامے باز کہیں کی)

وہ سر جھٹک کر مڑتا کہ نظر اس پر دربارہ پڑی تھی اس بچے نے کھیل کھیل میں اسکا جھمکا بالوں میں پھنسا دیا تھا جو الگ نہیں ہوریا تھا۔       

"حننان میاں تمہارا بھی کوئی حال نہیں لگادی اسکو نظر کس نے کہا تھا یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے کو"؟؟

لاشعور میں اس نے اپنے آپ کو ڈپٹا تھا۔۔

آب چلو عاشق صاحب اسے اس تکلیف سے آزاد کرواؤ۔۔

"یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے، ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے"۔

 

گھری سانس بھرتے ہوئے اسکی طرف بڑھا تھا۔۔

 

ماہِ نور صاحبہ جو بچے کو واپس دیکر مڑتی اپنے ساتھ کھڑے حننان کو دیکھ کر ساکت ہوئی تھی۔۔

وہ اتنا قریب کھڑا تھا کہ اگر وہ زرا بھی ہلتی تو اسکا سر حننان کے سینے سے ٹکراتا۔۔

عجیب مشکل تھی، ایک اسکے کلون کی خوشبو اپر سے وہ محترم پھاڑ کی طرح سر پر کھڑے تھے۔۔

پینسل ہیلز پہننے کے باوجود بھی وہ اسکی کندھے تک آرہی تھی۔۔ (آفت کی پر کالا)

 

“May I”??

اسکی سوچوں کا ارتکاز حننان کی گھمبیر آواز نے توڑا تھا۔

وہ کھڑا اس سے اجازت لے رہا تھا۔۔

میں الگ کردیا ہوں"”

ایک بار اجازت لینے کے بعد اسکا ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ہوئے اسکے جھمکے پر رکھا تھا۔

سنہری آنکھیں سبز آنکھوں سے ملی تھیں۔ (اور ٹھر گئی تھیں)

 

"ماہِ نور کو احساس ہوا تھا کہ اسکے ہاتھ کے لمس میں آج بھی وہی نرمی تھی جو گیارہ سال پہلے تھی"۔

آہ یہ گیارہ سال) ۔               )

اسے اتنے قریب کھڑا دیکھ ماہِ نور کو اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا تھا۔ وہ باقاعدہ سانس روکے کھڑی تھی۔۔

وہ اتنا وجیہہ تھا کہ بے ساختہ دل نے بیٹ مس کی تھی۔۔ ہلکی بڑھی شیو سلیقے سے جمے بال اب قدرے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔

(وہ کیوں دل کو اتنا بھاتا تھا؟ کیوں اسکے سامنے سب دھندلا پڑتا تھا)۔

                      

بہت آہستہ سے اسکے جھمکے سے الجھے بال الگ کیے تھے۔

"لیکن میر حننان سکندر کا دل اسکی زلفوں میں الھج گیا تھا۔ اسکی زلفیں تو جھمکے سے آزاد ہوگئی تھیں لیکن میر حننان کو احساس ہوا تھا کہ وہ ان زلفوں کے حسار سے اب کبھی آزاد نہیں ہو سکے گا"

نظریں جھکائے ایک بار پھر دل کو ڈپٹا تھا۔۔

لو ہوگیا الگ۔                      

اسی نرمی سے اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا۔۔

Thankyou.

مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا تھا۔

“Always at your disposal Madam”۔

سنہری آنکھوں نے ایک بار پھر سبز آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔

ان میں جذبات کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔

یوں جیسے چاروں اوور کوث قضا پھیلادی گئی ہو۔

 

دور کھڑے شخص کو یہ منظر زہر لگا تھا۔۔

 

"ویسے اتنی حسین زلفوں کو یوں سرعام کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے، بندہ بشر بھٹک بھی سکتا ہے"۔۔

ہلکا سا کان کے پاس جھکتے ہوئے شدت جذبات سے کہا تھا۔

(کہاں سے آیا تھا اس میں ایک دم اتنا ٹھرک؟؟)

اور یہاں ماہِ نور صاحبہ کا پارہ چڑھا تھا۔۔

ٹیڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے پیچھے کیا تھا۔۔

تو بندہ بشر کو چاہیے کہ خود کو قابو میں رکھے۔

"ورنہ بندہ بشر کی ٹھیک ٹھاک ستھری بھی ہو سکتی ہے"۔

اسی کے انداز میں کان کے پاس جھکتے ہوئے بہت معصومیت لیکن پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا تھا۔

حننان نے جاندار قہقہہ لگایا تھا۔۔

"اور ماہِ نور حیدر سلطان کو یہ منظر حسین ترین لگا تھا مکمل اور مہبوت کرتا"۔

ملکہ کا شوق سلامت رہے، بندہ بشر کے جذبات یوں بھی اور بہت۔

"کیا زندگی ہمیشہ کے لیے یونہی نہیں ہوسکتی تھی؟ پرسکون؟ اسکے ساتھ تپتی دھوپ میں صحرا جیسی؟"

 

ماہِ نور بی بی۔               

(لو ماہِ نور بی بی کرلو ہمیشہ کے لیے ایسی زندگی)

آپ آکر بتادیں کے کون سے گلاس نکلیں گے مہمانوں کے لیے۔

ماہِ نور کو زہر سے زیادہ بری لگی تھی قریمن بی۔۔

"جی ضرور چلیے میں فرد واحد ہوں نہ جس نے سب بتانا ہے"۔

 

وہ پیر پٹختی ہوئی قریمن بوا کے پیچھے چلی گئی تھی۔۔

 

چلو حننان میاں دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپ نے واقع اپنی ستھری کروالی ہو تو ہم بھی چلتے ہیں۔۔

 

اوہو کیا ہوا بھائی لگتا ہے آپکی سہی والی ہوگئی ہے۔

کیا اس نے آپکو اپنی زبان کے جوہر دکھا دیے؟؟

(سہی اونٹ پھاڑ کے نیچے آیا تھا)

حسن نے اسکی حالت فائدہ اٹھایا تھا۔۔

"امم وہ کیا ہے نہ کہ میرا تو پتا نہیں لیکن، چاہو تو میں تمہاری سہی والی ستھری کر سکتا ہوں"۔۔

پہلا جملا تمیز اور دوسرا دانت پیس کر کہا تھا۔۔

کہو تو کر کے دکھاؤں؟؟

پھاڑ کھانے والی نظروں سے گھورا تھا اپنے چھوٹے بھائی کو۔

توبہ ہے یک نہ شد دو شد۔

وہ کم تھی جو آپ بھی شروع ہوگئے۔۔

جھرجھری لیتے ہوئے زچ ہوا تھا حسن۔۔

سدھر جاؤ تم۔۔                   

اسکے بال بگاڑے تھے۔۔۔۔

"خیر اس زندگی میں تو میرا ارادہ نہیں ہے"۔

 

**            **          **           **

جی فرمائیے بوا کونسا کام رہے گیا تھا میرے لیے، جس کے لئے اپنے مجھے زحمت دی ہے؟؟

اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ بوا سے سہی میں دو دو ہاتھ کرکے۔۔

 

وہ ماہِ نور بی بی یہ گلاس اپر رکھے ہیں نہ یہ اتارنے تھے کیبنٹ میں سے۔۔

ہیں؟؟

ماہِ نور کو انکی ذہنی حالت پر شک ہوا تھا۔۔۔

تو؟؟ اس میں، میں آپکی کیا مدد کرسکتی ہوں؟؟

بہت ضبط سے سوال کیا تھا۔۔

وہ کیا ہے نہ جی، کے ایک تو میرا قد چھوٹا ہے اپر سے مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔ کسی اور کو کہتی تو ڈانٹ پڑتی۔۔

تو اپنے سوچا کہ واحد ماہ نور ہے جس کو زحمت دینا مناسب ہے۔۔

ماہِ نور بی بی اب تو ہوگیا نہ اب نکال دیں آپ گلاس پلیز۔ ورنہ کسی نے دیکھ لیا تو میری شامت آ جائے گی۔۔

اوف۔۔                            

گھری سانس بھر کر اب وہ اپنے پاؤں ہیلز سے آزاد کر ہی تھی ایک تو بخار نے جان عذاب کی تھی اپر سے یہ کام۔۔۔

چڑتی ہوئی وہ کرسی پر کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

کونسے گلاس نکالنے ہیں؟؟ یہ بھی بتادیں۔۔

وہ، وہ جو ہیں نہ سب سے اپر والے۔۔

حد ہی ہے۔۔۔۔

اب میں گلاس نکال رہی ہوں آپ پکڑتی جائیں۔۔

دو دو گلاس انگلیوں میں تھامے اس نے نیچے کی کیے تھے۔۔

پکڑیں۔                            

چہرا ہنوز کیبنٹ پر تھا۔۔     

پکڑیں بھی بوا، کیا ہوگیا ہے؟؟

وہ کب سے ہاتھ نیچے کیے کھڑی تھی

۔۔

اور بل آخر ہاتھ بڑھا کر گلاس کی جگہ ہاتھ تھامہ گیا تھا۔۔

اورماہ نور کو کرنٹ سا لگا تھا مڑکر دیکھنے پراسکا اپر کا سانس اپر اور نیچے کا نیچے رہے گیا تھا۔۔

وہاں بوا نہیں التمش کھڑا تھا آنکھوں میں وحشت لیئے۔۔

ماہِ نور کے ہاتھوں سے گلاس چھوٹ کر زمین پر گرے تھے.

پل میں اسکا چہرا سفید پڑا تھا۔۔

کیا ہوا؟ میرا ہاتھ پکڑنا اچھا نہیں لگا؟؟ مکاری سے بولا تھا ۔

یہ، یہ کیا بے حودگی ہے التمش بھائی دروازا کھولیں۔ در۔ دروازا کیوں بند کیا ہے؟؟

ہواس پر قابو پاتے ہوئے وہ چیخی تھی۔۔

اسے دروازے کے پاس کھڑا دیکھ وہ ایک جست سے کرسی سے اتری تھی، یہ دیہان کیے بغیر کے نتیجے کانچ ہے ۔

کانچ کے چھوٹے بڑے ریزے باقاعدہ اس کے پاؤں میں گھپ گئے تھے۔۔

تکلیف اتنی شدید تھی جیسے کسے نے باقاعدہ اسکے پاؤں کانچ سے مسل دیے ہوں۔۔

لیکن بات جب عزت کی ہو تو ظاہری تکلیف کسے نظر آتی ہے؟؟

 

حننان کے ساتھ تو بڑا مسکرا مسکرا کر بات کر رہی تھیں تب ہوائیاں نہیں اڑی؟؟

التمش کے لحجے میں شدید وہشت تھی ماہِ نور کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی تو تھی۔۔

التمش بھائی میں نے کہا دروازا کھولیں۔۔

وہ ہلک کے بل چلائی تھی۔۔

او۔ اوہو کیا ڈر لگ رہا؟؟

قریب آتے ہوئے اسکے بالوں کو چھوتے ہوئے مکاری سے کہا تھا۔۔

دور رہیں مجھ سے اپنی پوری قوت لگاکر اسے دور دھکیلا تھا۔۔

اور نہ رہوں تو؟؟۔ کیا کروگی؟؟

چیخوگی؟؟ چلاؤگی؟؟           

پھر؟؟                              

پھر کیا ہوگا؟؟                   

کون کرے گا تمہارا یقین؟؟   

کس کو اپنے کردار کی گواہی دوگی؟؟

 

میں۔ میں سب کو چیخ چیخ کر آپکی اصلیت بتاؤں گی۔۔

"اور۔ اور مجھے کسی کے یقین کرنے کی ضرورت نہیں سوائے اس کے میرا اللہ جانتا ہے کہ میرا کردار صاف ہے"۔

تکلیف کی شدت سے بے حال ہوتی وہ مظبوطی سے کھڑی تھی۔۔

 

مرد جب جانور کا روپ دھارلے تو عورت کو چاہیے کہ وہ چٹان کی طرح مظبوط بن جائے۔

مرد کی ساری وحشت جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔۔

اس ظاہری مظبوطی سے بھلے وہ اندر سے لہو لہان ہو جائے لیکن کسی بھی طرح اس مرد کا خوف خود پر طاری نہ ہونے دے۔۔

 

مردوں کو محافظ بنایا گیا ہے

انھیں چاہیے وہ محافظ رہیں بھیڑیے نہ بنیں۔۔

 

"اور عورت کو مرد کی عزت کا ضامن"

تو عورت کو چاہیے وہ اس عزت کی ضمانت داری پوری ایمانداری سے کرے۔

پھر چاہے وہ مرد اسکا باپ ہو، بھائی کو، یا شوہر۔

بھائی ہو باپ ہو یہ شوہر، عورت ان مردوں کو نیچا دکھاکر کبھی سر اٹھا کر زندگی نہیں گزار سکتی۔

کچھ مردوں کی وجہ سے آپ تمام مردوں کو برا نہیں کہے سکتے۔ اور نہ ہی کچھ عورتوں کے غلط ہونے کی وجہ سے آپ تمام عورتوں کی تذلیل کر سکتے ہیں۔۔

 

بڑی زبان نکل آئی ہے؟؟ لگتا ہے کسی نے سہانے خواب دکھانا شروع کردئیے ہیں۔

وہ ابھی بھی باز نہیں آیا تھا۔۔

لیکن یہ کیا؟ وہ خواب تو پورے ہونے سے پہلے یہ ٹوٹ جائیں گے۔۔

پھر تم کیسے حننان کا سامنا کروگی؟؟

اور کاری تھا۔۔۔

کسی کی چھوئی پلیٹ نہ تھامنے والا وہ ایک استعمال شدہ عورت کو کیسے اپنائے گا؟؟

اس کمرے سے باہر نکل کر کون مانے گا کہ تمہارا کردار اب بھی صاف ہے؟؟

یہ الفاظ نہیں تھے سیسہ تھا جو اس کے کان میں پگھلایا تھا۔

وہ مظبوط نظر آرہی تھی لیکن اندر سے اسکی روح تک لرز گئی تھی۔۔۔

 

بس صرف ایک رات کی بات ہے صرف ایک بار میری بات مان لو نہ تم پر کوئی بات آئے نہ مجھ پر۔۔

جو تم تھپڑ تم نے مجھے مارا تھا میں وہ بھولا نہیں ہوں لیکن بھول جاؤں گا۔۔

آہ مرد کی آنا)۔                  )   

التمش اپنے اسی وحشت زدہ لحجے میں اسکے قریب آیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرپاتا،                                               ماہِ نور نے پوری قوت سے ٹیبل پر رکھا گلدان اسکی سر پر مارا تھا۔

حملہ جان لیوا نہ ہونے کے باوجود التمش کے ہوش اڑا گیا تھا۔۔

**           **        **          **

 

بابا اپنے نور کو کہیں دیکھا ہے؟؟

مریم جو کب سے لان میں موجود تھی ماہِ نور کو نہ پاکر پریشان ہوئی تھی۔

عروسی لباس میں دلہن کے روپ میں سجی ہوئی مریم سلطان ہماری حسین دلہن ۔۔

نہیں بیٹے میں بھی کب سے اسی کو ڈھونڈرہا ہوں۔۔

تم نہ پریشان ہو دیکھو تو کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی اللہ پاک تمہارے نصیب تم سے بھی زیادہ حسین کریں آمین۔۔

 

التمش کی حالت سے فائدہ اٹھاکر وہ کانچ کی پرواہ کئے بغیر دیوانہ ور باہر بھاگی تھی۔۔

حننان ھو اسے ہی دیکھنے آرہا تھا، اچانک افراد پر اس سے ٹکرایا تھا۔۔

اسکا ہولیا اجڑا ہوا تھا دوپٹا جو کچھ دیر پہلے سلیقے سے کندھے پر تھا وہ اب غائب تھا۔

پاؤں خون سے کندھے ہوئے تھے اسکا دل ڈوب کے سکتا تھا۔ کیا یہ وہی لڑکی تھی؟

جسے وہ ابھی کہلکہلاتا ہوا دیکھ رہا تھا؟؟

 

"ماہِ نور؟؟"

یہ۔ یہ سب کیا ہے؟؟۔ 

اسکی بکھری ہوئی حالت بہت کچھ غلط ہونے کی عقاصی کر رہی تھی۔۔

 

وہ۔ وہ التمش بھ. بھائی۔        

اس کے لفظ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔

ادھر دیکھو۔                      

“Mah-e-Noor I said look at me!! Please”…

ضبط کے پھرے ٹوٹے تھے۔۔۔

"کیا کیا ہے التمش نے؟؟"       

ان۔ انھو۔ انھوں نے۔ سب۔ سب۔ برباد کردیا۔ سب کچھ ۔۔

انھوں نے سب کچھ برباد کردیا۔۔۔

وہ با مشکل لفظ ادا کر پائی تھی۔۔

کھڑا رہنا دشوار ہوا تھا یوں جیسے ہمت ٹوٹ گئی ہو، وہ زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔

(کیوں اسکی زندگی میں خوشیوں کی معیاد اتنی تھوڑی کیوں تھی؟ آخر کیوں تھا ایسا کیوں)؟؟؟

اسکے پاس پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے بہت آہستہ سے اپنی شال اسکے کندھوں کے گرد لپیٹی تھی۔۔

تحفظ، یقین، اعتماد۔       

جیسے ایک ہثار میں آگیا ہو۔۔

مجھے تم پر یقین ۔     

یقین تسلی دعوے سارے لفظ کم تھے۔۔

دادا جان، دادا جان،

وہ ابھی سنبھلی بھی نہیں تھی کہ التمش اپنا سر پکڑے چیختے ہوئے باہر آیا تھا ۔۔

دیکھیں آپکی لاڈلی نے کیا کیا ہے۔۔

چچا، بابا، مریم دیکھو اب آئیں

وہ کسی اداکار کی طرح سب کو اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہا تھا۔۔

تمم۔۔۔                                

حننان نے اسے گریبان سے پکڑ کر دیوار سے لگایا تھا۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس پر غلط نگاہ ڈالنے کی؟؟ حننان حلق کے بل چلایا تھا۔۔

میں تمہاری جان لے لوں گا خبیس انسان۔۔

وہ جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔۔

 

کیا شور ہے التمش اور نور تم؟؟

حیدر صاحب کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔۔

بابا...                                  

وہ کسی ننھے بچے کی طرح حیدر صاحب سے لپٹی تھی۔۔

بابا۔۔۔۔۔                                

ماہِ نور میرا دل بیٹھا جارہا ہے بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے؟؟

"بابا التمش بھائی نے میرے ساتھ زبردستی"۔۔

اسکے الفاظ موں میں ہی رہے گئے تھے جب احمد صاحب نے ایک جست سے اسکو حیدر صاحب سے الگ کرتے ہوئے تھپڑ رسید کیا تھا۔۔۔

حننان چھوڑو اسکو پاگل ہوگئے ہو؟؟

حبیب صاحب نے اسکو التمش سے الگ کیا تھا۔۔

احمد۔۔۔۔                          

حیدر صاحب چیخے تھے۔۔۔۔

بس بابا۔ بس بہت ہوگیا۔ یہ سب آپکی دی ہوئی شے ہے جس کی بنا پر آج اس لڑکی نے ہمارے موں پر کالک ملی ہے۔۔۔

(وہ کیوں کرتے تھے اتنی نفرت؟؟)

"میں نے کچھ نہیں کیا بابا جان میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا"۔۔

وہ صرف ایک انسان کو دیکھ رہی تھی جس نے اس وقت اسے محبت اور تحفظ دیا تھا جب اسکا اپنا باپ اسے ہاسپٹل میں چھوڑ آیا تھا۔۔۔

 

جھوٹ جھوٹ بول رہی ہے چچا جان یہ، اس نے خود مجھے میسج کر بلایا تھا۔۔

اور جب جب میں نے سمجھانے کی کوشش کی کے میں تمہیں بہنوں کی طرح مانتا ہوں تو اس نے مجھے زخمی کرنے کی کوشش کی اور دھمکی بھی دی کہ سب کے سامنے مجھے بدنام کردے گی۔۔

 

کیا یہ دیکھنا بھی باقی تھا؟؟ اتنی ذلت؟ اتنی رسوائی؟ اسکے پاس اپنی عزت کے علاؤہ تھا یہ کیا؟؟ جو اس سے یہ بھی لے لی گئی تھی؟؟

"لیکن اسے یاد تھا کہ عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کسی کو نہ کچھ دے سکتا ہے، نہ اس سے کچھ لے سکتا ہے"...

 

آ۔ آپ یہ میسج خود پڑھ لیں دیکھیں۔۔۔

تیر سہی نشانے پر لگا تھا،

داد دینا تو بنتا ہے۔۔۔۔    

"بابا یہ سچ نہیں ہے میں نے۔ میں نے کوئی میسج نہیں کیا آپ قریمن بوا سے پوچھ لیں، حننان آپ تو وہیں تھے نہ؟؟ بوا مجھے خود بلاکرلیکر گئی تھیں".

میں اسے جان سے ماردوں گا

احمد صاحب اسے مارنے کے لیے آگے بڑھے تھے۔۔

لیکن حننان نے اسے اپنے پیچھے کیا تھا۔۔

  (وہ کیوں گرم ہوا میں چھاؤں دینے پر تلا ہوا تھا؟؟ اسے کوئی بولے کہ ماہِ نور حیدر کو چھاؤں راس نہیں آتی)

 

"کیا آپ ساری حیا بیچ چکے ہیں؟

اپنی  جوان اولاد وہ بھی بیٹی پر ہاتھ اٹھارہے ہیں؟؟

وہ بھی سب کے سامنے؟؟ جہاں اسکی ڈھال بننا چاہیے وہاں اسے ذلیل ہونے کے لیے پیش کر رہے ہیں؟".

حننان کی گرجدار آواز پورے لان میں گونجی تھی۔۔

آج یہ وہ حننان نہیں تھا جو خاموش رہتا تھا۔ اور غصہ؟ وہ تو وہ جانتا یہ نہیں تھا ۔۔۔

زبان سنمبھال کے حننان میاں یہ میرے گھر کا معاملہ ہے، اپنی مداخلت اپنے پاس رکھو۔۔

گھر کا معاملہ؟؟ آپ یہ بات کہنے کی تراب رکھتے ہیں؟؟

آپ جس پر ہاتھ اٹھارہے ہیں نہ احمد صاحب وہ میری اور میرے گھر کی عزت ہے۔۔

سب کو سانپ ہی تو سونگ گیا تھا۔۔

(اور میر حننان سکندر کی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسکی عزت پر کوئی غلط نگاہ بھی ڈالے، ہاتھ اٹھانا تو دور کی بات ہے)...

گھر کے معاملوں اور عزتوں کو ذلیل ہونے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا، اپنے گھر کی عورت اگر غلط بھی ہو تو مرد کی غیرت کا تکازہ یہ ہے کہ اسکی تصیح بند کمرے میں کرے اور اس میں بھی یہ یاد رکھے کے وہ محافظ ہے جابر نہیں!!..

 

واہ حننان بھائی جب اپنے سب بتا ہی دیا ہے تو یہ بھی بتادیں، جو آپکی عزت نے کیا وہ ٹھیک تھا؟؟؟

اس پورے وقت میں مریم کی آواز پہلی بار گونجی تھی۔۔

 

قریمن بوا، قریمن بوا ۔۔۔۔۔

بتائیے کہ کیا آپ بلا کر لائی تھیں ماہِ نور کو؟؟؟

بولیں بوا۔ پوچھ رہی ہوں میں کچھ؟؟؟

بتائیں بوا۔ آپ۔ آپ نے بلایا تھا نہ.؟؟

کاش وہ بول دیں ہاں۔۔ کاش۔۔

ماہِ نور بی بی یہ آپ کیا کہے رہی ہیں؟؟

اسکے ہاتھ پہلوؤں میں گرے تھے۔۔ (آخر کس کس نے اسکا اعتبار توڑنا تھا؟؟ اور کیوں؟؟)

میں؟ میں بھلا اپنے کسی کام کے لیے آپکو کیوں بلاؤں گی؟؟

(فرون دیکھے ہیں کبھی؟؟ انسان کو انسان کھاتے ہیں یہ بھوت آسیب جانور نہیں)!!

جب تم کسی کے ساتھ نیکی کرو، تو تمہیں چاہیے کہ تم اسکے شر سے بچو۔

 

وہ جو دل کی مسند پر پوری شان سے براجمان تھی جس نے کبھی کسی کو کسی بات کی صفائی نہیں دی تھی، اسے یوں بھرے مجمعے میں اپنے کردار کی صفائی دیتے دیکھ میر حننان کا دل کیا تھا کہ وہ پوری دنیا کو آگ لگادے۔۔

آغا جان آپ تو میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔

اس سے پہلے کے وہ بات پوری کرتی۔

حیدر صاحب بے حوش ہوگئے تھے۔

 

یعنی؟ یعنی یہ جو مرد اسکی ڈھال تھا وہ بھی نہیں رہا تھا؟

ایسا کیوں تھا کہ وہ جس سے محبت کرتی تھی وہ اس سے چھوٹ جاتا تھا؟؟

 

دادا نہیں دادا آپ ایسا نہیں کر سکتے۔

دادا پلیز۔۔۔۔۔۔۔                      

اگلے کئی لمحوں میں کیا ہوا تھا اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔۔

بس جو آخری الفاظ یاد رہے گئے تھے، وہ یہ تھے۔۔۔

میں نے کہا تھا کوئی تمہارا یقین نہیں کرے گا لو، دیکھو میں نے اپنی بات ثابت کرکے دکھائی۔

تم نہ سہی، تمہاری رسوائی ہی سہی۔۔

وہ اس محل کی چوکھٹ پر اکیلی رہے گئی تھی۔۔

شاید اس نے دادا کو بھی کھو دیا تھا۔

وہ جو اللہ کے بعد اسکے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔۔۔

**           **         **           **

 

اللہ غارت کرے اس لڑکی کو کیسی معصوم سی دکھتی ہے اور توبہ توبہ کیسے کرتوت ہیں، اللہ معاف کرے۔۔۔

بس کریں یہ ہاسپٹل ہے آپکا گھر نہیں، کوئی ایک اور لفظ میں برداشت نہیں کروں گا۔۔۔

حننان  بیٹے ہوش کرو۔۔۔

تھمینہ بیگم نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی۔۔

 

حسن۔ تم ہیاں ہو تو ماہِ نور کے پاس کون ہے؟؟

اس کے اکیلے ہونے پر حسن ہر غصہ آیا تھا۔۔

 

اس جیسے کردار کی لڑکی کو بھلا کہاں کسی کی ضرورت ۔۔

رافیہ بیگم کی زبان اب بھی زہر اگل رہی تھی۔۔۔

 

ڈاکٹر پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے؟؟

انکو میجر ہارٹ اٹیک آیا ہے لیکن ماننا پڑے گا انکی اسٹرانگ ول پاور ہونے کی وجہ سے وہ اب خطرے سے باہر ہیں لیکن ہم پھر بھی چوبیس گھنٹے کے لیے انھیں انڈر اوبزرویشن رکھیں گے۔۔

 

آپ میں سے حننان اور آغا صاحب کون ہیں؟؟

جی ہم۔                       

حننان آگے آیا تھا۔            

پیشنٹ آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور پلیز انکی پوری ماہِ نور کو بھی بلالیں وہ مسلسل انکے لئے اسٹریس لے رہے ہیں۔۔

 

حننان جاؤ بیٹے ماہِ نور بیٹی کو لیکر آؤ۔۔

اندر کیا بات ہوئی وہ فلحال پوشیدہ ہے۔ لیکن جو اب ہونے والا تھا وہ پتا نہیں کیا اثر ڈالتا۔۔

 

"اس حال میں بھی تمہارے باپ کو اس لڑکی کی فکر ہے جس نے موں پر کالک مل دی" ۔۔

بس کچھ دیر کا کھیل ہے پھر سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔۔۔

بازی تو پھر ایسی ہونی چاہیے نہ کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے؟

یہ گفتگو بغاوت کی ہوک اٹھارہی تھی۔۔

سایہ ہوا میں تحلیل ہوا تھا۔۔

 

**            **            **         **

حننان شکستہ قدموں سے واپس آیا تھا۔۔

وہ دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھی تھی۔۔

شکستہ چال کے ساتھ وہ اسکے سامنے بیٹھا تھا۔۔

وہ جو میر حننان سکندر کی نظروں کا حسین ترین نظارہ تھی اسے اس حال میں دیکھ دل پر کسی نے کاری ضرب لگائی تھی۔۔۔

لیکن وہ ہار نہیں مانی سکتا تھا، وہ ان آنکھوں میں آنسو دینے والے ہر انسان سے حساب لے گا یہ طے تھا۔۔

"ماہ اٹھو دادا نے تمھیں بلایا ہے."

تمام تر ہمت جما کر کے اس نے مخاطب کیا تھا۔۔۔

چلو؟؟                          

اس نے نظریں تو اٹھائی تھی لیکن بولی کچھ نہیں تھی۔۔

"میں؟ میں کیسے جاسکتی ہوں؟؟."

بابا۔ بابا تو ناراض ہونگے نہ مجھ سے؟؟

میں نے یہ کیا کردیا حننان؟؟

یہ مجھ سے کیا ہوگیا؟؟       

وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔

میں نے۔ میں نے انکا سر جھکا دیا۔ میں۔ میں۔۔۔

ہششش۔                             

بس ریلیکس بلکل چپ۔         

کچھ نہیں کیا تم نے۔۔            

کوئی غلطی نہیں ہے تمہاری۔

اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھتے ہوئے پر سکون کرنے کی کوشش کی تھی جہاں تھپڑ کا نشان واضح تھا۔۔۔

 

آپ۔ آپ کیسے کہے سکتے ہیں یہ کیسے؟؟؟

بری طرح اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے چیخی تھی۔۔

ماہِ نور ریلیکس گھری سانس لو۔

اسکی سانس اکھڑ رہی تھی۔۔۔

ابھی ہمیں بابا کے پاس جانا ہے۔ وہ بلا رہے ہیں۔

"جب بابا گھر آئیں گے تو میں

خود سب کچھ ٹھیک کروں گا۔''’’

 

“I Promise Noor”..

یقین رکھو پلیز۔۔                 

وہ جیسے جھاگ کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی۔۔

آج پھر اسکے وعدے پر اعتبار کیا تھا۔۔

بلکل ویسے ہی جیسے گیارہ سال پہلے کیا تھا۔۔

"لیکن ضروری تو نہیں نہ کہ ہر بار وعدے پورے ہوں؟؟."

 

**            **             **        **

گاڑی ہاسپٹل کے باہر رکتے ہی ماہِ نور پاگلوں کی طرح اندر بھاگی تھی۔۔۔

یہ پروہ کیے بغیر کے اسکے پاؤں کسے پھوڑے کی طرح دکھ رہے ہیں۔۔

 

ماہِ نور بیٹے؟؟               

اسکو دیکھ سکندر صاحب نے روکا تھا۔۔

آغا جان؟؟ بابا کہاں ہیں؟؟ وہ ٹھیک ہیں نہ؟؟ انھیں ہوا تو نہیں ہے؟؟

بیٹے ریلیکس۔۔۔                 

پھولی سانسوں کے درمیان ایک ہی سانس میں کئی سارے سوال کرلیے تھے۔۔

آرام سے بیٹے آو میرے ساتھ میں لیکر چلتا ہوں آپکو۔۔

اپنے حصار میں لیے وہ اسے حیدر صاحب کے کمرے میں لیکر گئے تھے۔۔۔

 

بابا۔                              

لاکھ ضبط کے باوجود وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکی تھی۔۔

حیدر صاحب کو نلقیوں سے جکڑا دیکھ اسے خود سے نفرت ہوئی تھی شدید نفرت۔۔ 

نورے میری پیاری بیٹی۔۔     

اوکسیجن ماسک ہوئے اپنے پاس بلایا تھا۔۔

وہ جیسے اسی حصار کے انتظار میں تھی۔ اسکی محفوظ ترین پناہ گاہ۔۔

مجھے معاف کردیں دادا۔۔ میں آپکا ماں نہیں رکھ سکی۔۔

میں آپکی اچھی بیٹی نہیں بن سکی۔۔۔

وہ سسکتے ہوئے ان سے لپٹی تھی۔۔

ایسا بھلا کس نے کہا؟؟

نقاہت زدہ لحجے میں بھی وہ اسے حفاظت کا احساس دلاتے تھے۔۔

میری بیٹی تو بہت بہادر ہے۔۔

اور مجھے اس پر فخر ہے۔۔

اولاد اپنی تکلیف کتنی ہی چھپالے، ماں باپ سے کبھی نہیں چھپتی۔۔۔

ماہِ نور حیدر، حیدر سلطان کا فخر ہے اسکا مان ہے۔۔

 

مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے میری پیاری بیٹی۔۔

اسکی زندگی پر کتنا احسان تھا نہ اللہ کا، کہ اسے شفیق باپ کی محبت اور ساتھ نصیب تھا۔۔

 

بس میں چاہتا ہوں تم میری ایک خواہش پوری کردو۔۔

وہ جو سسکیاں روکنے کی کوششوں میں تھی، وہ فورن سیدھی ہو بیٹھی تھی۔۔

الھج کر حیدر صاحب کو دیکھا تھا۔۔

میں چاہتا ہوں کہ تم، حننان سے نکاح کرلو ابھی اور اسی وقت میرے سامنے ۔۔

ان جملوں نے اسکے سننے کی صلاحیت کو مفلوج کیا تھا ۔۔

دادا؟؟                           

حیرت اور دکھ سے انھیں پکارا تھا۔۔

تم نے وعدہ کیا تھا نہ نورے؟؟

میں جو کہوں گا مانوگی؟؟

یہ کیسی قربانی تھی جو اس سے مانگی جارہی تھی؟؟

دادا۔ آپ۔ آپ جان لے لیں بس یہ ظلم نہ کریں۔۔

وہ بس اتنا ہی کہے سکی تھی۔۔

یہ ظلم نہیں ہے بیٹے میں تمہیں کسی کے آثرے پر نہیں چھوڑ سکتا۔۔

میں التجا۔۔

وہ شفیق انسان جس کے اتنے احسان تھے، کیا ماہ نور انکو اپنے سامنے التجا کرتا دیکھ سکتی تھی؟؟

 

مجھے منظور ہے۔۔           

اس پورے ٹائم میں کیا ہوا، کیا نہیں اسکا دماغ پراسس نہیں کر سکا تھا۔۔

پراسس کر سکتا تھا؟؟

 

اسے ہوش جب آیا تھا جب حننان کی اڑھائی گئی شال اسکے کندھوں پر سے اسکے سر پر ڈالی گئی تھی۔۔۔

وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں تھی۔۔

 

مولوی صاحب کی آواز جس وقت کانوں میں گونجی تھی اس وقت اسکا دل کیا تھا کہ زمین پھٹتی اوہ وہ اس میں سما جائے۔

کوئی اور قیامت ہے اسکے لئے باقی ہے؟ یہ بس یہی ہے؟؟

 

ماہِ نور حیدر سلطان

ولد حیدر سلطان آپکا نکاح میر حننان سکندر ولد حننان سکندر سے باعوض بیس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا۔

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے.؟؟))

نورے بیٹی کہو؟؟      

تھمینہ بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

(جس شخص کے سامنے وہ ساری عمر سراٹھا کے رہنا چاہتی تھی قسمت نے اسے سی کے سامنے ساری عمر کے لیے جھکا دیا تھا)۔۔

 

قبول ہے              

ماہِ نور حیدر سلطان۔     

ولد حیدر سلطان آپکا نکاح میر حننان سکندر ولد حننان سکندر سے باعوض بیس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا۔

 

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے.؟؟))

 

جس شخص سے محبت تھی قسمت نے اس سے ترس اور احسان کا تختہ جوڑ دیا تھا۔۔

قبول ہے۔            

ماہِ نور حیدر سلطان     

ولد حیدر سلطان آپکا نکاح میر حننان سکندر ولد حننان سکندر سے باعوض بیس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا۔

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے.؟؟) )

اکیس سال ان چاہی اولاد بن کر گزارے تھے، بقایہ زندگی ان چاہی ہمسفر بن کہ گزاروگی ۔

کیوں کہ تم یہی ڈزرو کرتی ہو۔

قبول  ہے۔          

 

میر حننان سکندر۔       

ولد عثمان سکندر آپکا نکاح ماہِ نور حیدر سلطان، ولد حیدر سلطان سے باعوض حق مہر بیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟؟.))

سبز آنکھوں نے ایک بار پھر سنہری آنکھوں والی کے چہرے کا طواف کیا تھا۔۔

تم کل بھی میرے لئے قابل عزت تھیں اور آخری سانس تک رہوگی۔۔۔        

           قبول ہے۔

میر حننان سکندر۔۔     

ولد عثمان سکندر آپکا نکاح ماہِ نور حیدر سلطان، ولد حیدر سلطان سے باعوض حق مہر بیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا

(کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟.)

اس رشتے کو میں اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر قائم کرتا ہوں، ترس اور ہمدردی کی بنیاد پر نہیں،

بلکہ بے لوس محبت کی بنیاد پر۔

قبول  ہے۔              

میر حننان سکندر۔۔       

ولد عثمان سکندر آپکا نکاح ماہِ نور حیدر سلطان، ولد حیدر سلطان سے باعوض حق مہر بیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟.))

تم سولہ سال کی عمر میں بھی میرے دل کی چاہت تھیں، اور آج ستائیس سال کی عمر میں بھی دل کی چاہت ہو۔    

میں میر حننان سکندر۔   

 آج سے آخری سانس تک                 تمہارے نام۔۔         

    اور یہ دل اور اسکی ہر دھڑکن اللہ اور اسکے رسول کے بعد تمہاری امانت  

ماہِ نور حننان سکندر آج سے میر حننان سکندر سارے کا سارا تمہارے نام۔"    

          قبول ہے).    )

 

 

 

 

اگلی قسط انشاء اللہ جلد ۔۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?