(ماہِ نُور)
قسط وار ناول
ازقلم مناہل افضال
پہلی قسط۔
خلاصہ
زندگی بعزاوقات انسان کے لیے کوئلوں پر چلنے کے مترادف ہوتی ہے زندگی فیری ٹیلز کی کوئی کہانی نہیں جس کے اختتام پر کوئی شہزادہ آکر شہزادی کو بچالیگا یہ اصل زندگی ہے جس میں ہر انسان کو بقا کی جنگ خد لڑنی ہوتی ہے ۔۔۔
انتساب
یہ کہانی میری پہلی کہانی جس کا ہر لفظ اللہ تعالیٰ کے نام میں اس قابل نہیں تھی اگر اللہ تعالیٰ مجھ میں لکھنے کی صلاحیت نہ ڈالتے۔۔ یہ کہانی میرے استاد میرے کچھ دوست جنہوں نے اپنا وقت نکال کر مجھے دیا۔۔ میرے استاد سر دانیال میرے دوست دانیال بھائی عبد الرحمٰن اور سمیرا۔۔
ایک شہر
دو خاندان
دو منزلیں
دس کردار۔
اسلام آباد ای-7
نورے سنمبھل کر دیکھو تم گر جاؤ گی نورے۔۔۔۔۔۔
پھر سے وہی خواب فجر سر پر اتر آئی تھی لیکن حیرت تھی آج داد ابھی تک کمرے میں نہیں آئے اسکو فکر ہوئی تھی ۔۔
گہرے شہد رنگ بال جن کی لمبائی کمر سے نیچے تھی ان کو جوڑے کی شکل دیتے ہوئے وہ بستر چھوڑ کے آٹھ چکی تھی نومبر شروع ہوچکا تھا اور اسلام آباد کا موسم مزید سرد ہو چکا تھا ۔۔۔
دادا۔۔۔۔
حیدر سلطان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اجازت چاہی تھی۔۔
آجاؤ بیٹے۔۔۔
اجازت ملتے ہی وہ کمرے میں موجود تھی۔۔۔
کیسی بے میری بیٹی ؟ اسکو اپنے بٹھاتے ہوئے سوال کیا تھا
ہمیشہ کی طرح حسین۔۔۔
جواب ایک ادا سے آیا تھا ۔۔۔
حیدر صاحب کا قہقہہ جاندار تھا اثبات میں سر ہلا کر اپنی پوتی کو دیکھا تھا ۔۔۔
سرخ سفید رنگت شہد رنگ بال جو ہمیشہ لیرز میں کٹے رہتے تھے شہد رنگ کانچ سی سنہری آنکھیں اسکی آنکھیں بے حد حسین تھیں اسکی شخصیت کا خاصا اسکے لحجے کا ٹھہراؤ اسے مزید پر کششِ بناتا تھا ۔۔
وہ ٹھیک کہتی تھی وہ بلا شبہ حسین تھی اپنے نام کی طرح
ماہِ نور حیدر سلطان یعنی چاند کا نور۔۔۔
اگر آپ میرا مکمل جائزہ لے چکے ہوں تو کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ اپنے پھر کس بات کا اسٹریس لیا ہے؟
معصومیت سے تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے اب وہ سوال کر رہی تھی۔۔۔
بھلا کس نے کہا میری طبیعت خراب ہے اور میں نے اسٹریس لیا ہے؟
نورے حیدر نے۔۔
جواب کھٹاک سے آیا تھا ۔۔۔
میری پیاری بیٹی بڑھتی ہوئی عمر ہے اس میں طبعیت بغیر اسٹریس لیے بھی خراب ہو سکتی ہے ۔۔۔
جھوٹ بلکل جھوٹ اسکا پسندیدہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑنے کا انداز۔۔۔
میں نے خود آپکو پریشانی سے تھکتے دیکھا تھا لان میں اور پھر اپنے میٹھا بھی کھایا تھا آپ جانتے ہیں نہ شوگر بڑھنا آپکے لئے اچھا نہیں ہے؟
اب سے آپکا میٹھا بلکل بند۔۔۔
ڈاکٹر ماہِ نُور حیدر سلطان جیسا آپ حکم کریں اور یہاں وہ خوشی سے مسکرائی تھی۔۔۔
ابھی پورے دو سال ہیں دادا اور میں چاہتی ہوں آپ میرے ساتھ ہر قدم پر موجود رہیں اسکی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔۔۔
میرے بچے یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوگی تو مریضوں کو کیسے دیکھوگی؟
اب وہ اسے بھلارہے تھے۔۔
میں آپکے معاملے میں کبھی بھی مظبوط نہیں ہوسکتی آپکے علاؤہ میرا کوئی نہیں ہے دادا۔۔۔
وہ باقاعدہ ان سے لپٹ گئی تھی ۔۔۔
حنان تو ہے نہ ۔۔۔
بہت آہستگی سے کہا گیا تھا اس نے سر اٹھا کر اپنے دادا کو دیکھا تھا۔۔۔
کیسا قرب تھا جو اسکی آنکھوں سے واضح ہوا تھا ۔۔۔
چلے جانے والے واپس نہیں آتے دادا۔۔ اس نے نظریں چُرائی تھیں۔۔
اس نے وعدہ کیا تھا ۔۔۔
وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہو جائیں؟
حیدر صاحب کا جواب ہوئے تھے
پھر اسکی نشانی کیوں ابھی تک سمنبھال رکھی ہے؟
میرے پاس۔۔۔ اسکی کوئی نشانی نہیں دادا جھوٹ بولنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
بیٹے وہ پسند کرتا ہے تمہیں۔۔۔ انھوں نے شدت جذبات سے کہا تھا۔۔۔
دادا جن بیٹیوں کے باپ انکو ڈس اون کردیں انھیں دنیا کا کوئی مرد کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔۔۔
اسکو ان سب باتوں سے فرق نہیں پڑتا ۔۔
ہاں کیوں کے وہ کچھ جانتا نہیں۔۔ بیٹے۔۔
وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن نورے کی بات پر رک گئے ۔۔۔
مجھے یاد ہے داد جب طائی چچی اور آنٹی کی طنزیہ باتوں کا اثر زائل کرنے کے لیے آپ مجھے بھلاتے تھے۔۔ مجھے لحجے سمجھ آتے تھے دادا مجھے بابا کی مار سے بچانے کے لیے اپنے ساتھ سلاتے تھے اور جب میری حفاظت آپکے لئے مشکل ہوگئی تو اپنے مجھے تھمینہ آنٹی کے گھر چھوڑ دیا ۔۔۔
نورے انکو تکلیف ہوئی تھی اسکو تکلیف میں دیکھ کر ۔۔
مجھے آپ سے ہرگز کوئی شکایت نہیں ہے بی جان بہترین ماں ثابت ہوئیں تھیں اور آغا جان وہ تو بلکل آپ جیسے ہیں
لیکن پانچ سال کی عمر میں بھی مجھے یہ پتا تھا داد کے وہ گھر میرا نہیں ہے میں وہاں مہمان ہوں اور مہمانوں کو اپنی حدود یاد رکھنی چاہئے۔
آنٹی ٹھیک کہتی ہیں میرے لیے حنان کبھی نہیں آسکتا وہ میرے لیے نہیں ہے دادا میرے اپنے بس آپ اور میرے خواب ہیں۔
زبردستی کے تعلقات سے عزت کی دوری بہتر ہوتی ہے۔۔۔
مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ وہ اٹھ گئی تھی ۔۔
اور حیدر صاحب بے بسی سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔۔
سلطان مینشن میں صبح کا سورج پوری طرح پھیل چکا تھا۔۔
سفید بلند و بالا وہ محل منہ گھر جس کے باغیچے میں چار سو ہریالی تھی اور ہر رنگ ک پھول موجود تھے۔
سلطان مینشن میں تین فیملیز رہتی تھی یعنی حیدر سلطان کی تین اولادیں اور انکے بچے
یہ گھر باہر سے جتنا حسین تھا اسکے رہنے والے اتنے ہی سیاہ تھے ہر ایک شخص اپنے اندر قدورتوں کا سمندر لیے ہوئے تھا۔۔
کریمن بی کیا آج ناشتہ نہیں ملے گا؟
بس دس منٹ چھوٹی بی بی ناشتہ لگا رہی ہوں۔۔
یہ جو مفت کی روٹیاں توڑتی رہتی ہو نہ کچھ اٹھ کر ہاتھ پاؤں بھی ہلایا کرو۔۔
نورے اور شاہ میر جو ناشتے سے لطف اندوز ہورہے تھے جو نورے کی مہربانی تھی ورنہ کریمن بوا کے ہاتھ کا کھانا کھانے سے بہتر بندا بھوکا رہے لے۔۔۔
وہ کیا ہے نہ "چھوٹی امی" بہت جتا کر کہا گیا تھا ۔۔
یہ روٹیاں تو میں نے خود ہی ڈالی ہیں اپنے ان ہی پیارے پیارے ہاتھوں سے۔۔۔
وہ نورے ہی کیا جو سدھر جائے ۔۔
شاہ میر کی ہنسی چھوٹی تھی جو اس نے بر وقت کھانسی میں تبدیل کی تھی۔۔
بہت اچھل رہی ہو نہ؟؟
اسکا ہاتھ مڑتے ہوئے زہر گھول رہی تھیں کیا ہو کے یہ پر ہی کاٹ دیئے جائیں اسے اپنی کلائی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی تھی لیکن اس نے زبان نہیں کھولی تھی۔۔
امی تکلیف کی شدت بڑھ رہی تھی اسی وقت میران تقریباً چیخا تھا اور اسی تیزی سے ماں کے ہاتھ سے بہن کا ہاتھ الگ کیا تھا
نورے تم ٹھیک ہو؟ زیادہ درد تو نہیں ؟؟
اس نے سر کو نفی میں ہلایا تھا۔۔ اسکی آنکھیں بے ساختہ نم ہوئیں تھیں دادا کے بعد اسکے بھائی تھے جو اسکی ڈھال تھے۔۔۔
ایک ماں نہ ہونے کے باوجود تینوں کی محبت مثالی تھی۔۔
ممی آپکو کتنی بار کہا ہے وہ بھی آپکی اولاد ہے مت کیا کریں ایسے۔۔۔
رافیہ بیگم کے تو آگ ہی لگ گئی تھی ۔۔
میران تم؟ تم اس لڑکی کی خاطر اپنی ماں سے جھگڑ رہے ہو؟؟ اس کی خاطر؟؟ جس کی ماں کا کردار تک ٹھیک نہیں تھا جو پیدا ہوتے ہی ماں کو کھاگئی۔۔۔
ممی بس کر جائیں خدا کا خوف کریں ۔۔میران نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے۔۔
یہ صبح صبح کیا شور مچا رکھا ہے۔۔
یہ آواز کامران سلطان اور احمد سلطان کی تھی۔۔۔
آئیں آپ سب آئیں اور دیکھیں اپنے بابا جان کی لاڈلی کے نے کرتوت کیسے میرے دونوں بیٹوں کو اپنی انگلیوں پر نچا رکھا ہے۔۔
اس میچ لڑکی کے سامنے انھیں اپنی ماں غلط لگ رہی ہے۔۔۔
بہو یہ کیسی زبان استعمال کر رہی ہو؟؟
بابا آپ اس کے بجائے مجھ سے بات کریں یہ سب آپکی دی ہوئی شے ہے جس پر یہ اتنا اچھل رہی ہے۔۔۔
جلد از جلد اسکا رشتہ ڈھونڈیں اور اسکو رخصت کریں اس گھر سے میں مزید اسکی حرکتوں کو اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا ۔۔
خاموش ۔۔۔
حیدر صاحب باقاعدہ دھاڑے تھے ان پر۔۔۔
لمحے میں سنناٹا چھایا تھا۔۔
نورے کا باپ ابھی زندہ ہے اور اسکی زندگی کا فیصلہ بھی میں کروں گا۔۔ میں مر نہیں گیا کہ جس کا جو دل چاہے گا وہ اسکے کردار پر بات کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا ۔۔
تم میں سے جس کو تکلیف ہے وہ اپنا انتظام کہیں اور کرلے۔۔
چلو نورے بیٹی میں تمہیں چھوڑ کر آؤں یونیورسٹی پیپر کا وقت نکل جائے گا ۔۔
دادا جان نورے تو روز میرے ساتھ جاتی ہے؟
میران نے یاد دلایا تھا۔۔
رہنے دو میاں ابھی نورے کے لیے اسکا دادا زندہ ہے اسکی ساری زمیداریاں اٹھا سکتا ہے۔۔
آؤ بچے۔۔
ہینڈ بیگ کندھے پر لٹکائے وہ صدر دروازہ عبور کر چکی تھی ۔۔
سلیم آج سے نورے کو چھوڑنا لانا تم کروگے۔۔
سلیم جو ہاتھ باندھے کھڑا تھا حکم کی تکمیل کرتے ہوئے ہوئے گاڑی کا دروازا کھول چکا تھا۔۔
گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن تھی اور نورے ٹکٹکی باندھ کر اپنے دادا کو دیکھ رہی تھی اسکی زندگی میں حیدر سلطان گرمی میں ٹھنڈی چھاؤں تھے پرسکون اور محفوظ۔۔
خود کو تکتی نورے کو دیکھا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہے میری بیٹی؟
You’re the only man whom I love with all my heart…
اسکو حصار میں لیتے ہوئے اسکا سر چوما تھا۔۔
آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نہ؟
سکی ڈر کی خاطر وہ پوچھ بیٹھی تھی ۔۔
تم میرا فخر ہو ماہِ نُور بھلا کوئی اپنے فخر سے کیسے ناراض ہو سکتا ہے؟
وہ واقع حیدر سلطان کا فخر تھی ۔۔
یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ کر وہ ان سے الگ ہوئی تھی پھر بہت سی دعائیں لیکر اور ہدایتیں دیتی وہ گاڑی سے اتر گئی تھی۔
حیدر صاحب کی نظروں نے دور تک اسکا تعاقب کیا تھا جب تک وہ یونیورسٹی کے گیٹ کو پار نہیں کر گئی ۔۔
سلیم گاڑی سکندر ولا کی طرف موڑ لو۔۔
جی بہتر بڑے صاحب۔۔
کچھ سوچتے ہوئے انھوں نے سلیم کو سکندر ولا کی طرف رخ کرنے کا کہا تھا۔۔
سلطان صاحب کے تین بیٹے تھے کامران سلطان، احمد سلطان اور حبیب سلطان۔۔
کامران سلطان کے دو بیٹے تھے التمش سلطان جو کے باپ اور چچاؤں کے ساتھ خاندانی بزنس دیکھ رہا تھا اور دوسرا معیز سلطان جو کہ لندن میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہا تھا
احمد سلطان کی پہلی بیوی سے شادی کے پانچ سال بعد نورے پیدا ہوئی تھی اور پیدائش کے وقت ہی انکی پہلی بیوی خالق حقیقی سے جا ملی تھیں احمد صاحب نے دوسری شادی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے ہی کرلی تھی جن سے انکے دو بیٹے تھے پہلا بیٹا میران سلطان تھا جو کہ نیورو سرجن تھا نورے حیدر کا آئیڈیل بھائی ۔۔
پھر تھا شاہ میر سلطان جو کہ کلاس میٹرک میں تھا۔۔
پھر حبیب صاحب تھے جن کے دو بچے تھے پہلی بیٹی مریم سلطان جس کو فیشن ڈیزائننگ کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔۔
پھر تھا رافع سلطان جس نے مر مر کر ایٹتھ پاس کی تھی۔۔
فرید یہ میٹھا کس کے لیے لیکر جارہے ہو؟؟
آگئی مجھ غریب کی شامت ۔۔
بولو بھی فرید۔۔۔
وہ وہ ۔۔ بڑے صاحب کے لئے
ایک ہی سانس میں بول کر فرید نے اپنی جان چھڑائی تھی اور پلیٹ سمیت غائب ہوا تھا ۔۔
بابا آپ نہیں مانیں گے ناں میری بات؟؟
تھمینہ بیگم جاکر آغا جان کے سر پر کھڑی ہوئیں تھیں ۔۔
آغا صاحب کا ہاتھ پلیٹ میں جاتے جاتے رکا تھا
عینک کے پار کھڑی اپنی بہو کو دیکھا تھا جو آج بھی ویسی ہی تھیں خیال رکھنے والی فکر مند ہوتی ہوئی ۔۔
انکے عزیز ترین بیٹے عثمان سکندر کی بیوہ۔۔
بہو نہ بنو اتنی ظالم کھالینے دو تھوڑا سا نہیں ہوتا مجھے کچھ بھی۔۔
اللہ نہ کرے آپکو کچھ ہو مگر جو دو عدد آپکے پوتے ہیں نہ انھوں نے سختی سے منا کیا ہے کہ آپکو بلکل میٹھا نہیں دینا۔۔۔
اور انکے ہاتھ سے پلیٹ اچک لی گئی تھی ۔۔
بے وفا کہیں کے سکندر صاحب نے جل کر کہا تھا۔۔
تھمینہ بیگم ہنس پڑی تھیں دونوں پیار کرتے ہیں آپ سے بہت لیکن دیکھ لیں اصولوں کے معاملے میں آپ پر ہی گئے ہیں ۔۔
سکندر صاحب مزید کچھ کہتے کہ ملازم نے انکے جگری دوست حیدر سلطان کے آنے کی خبر دی تھی۔۔
اور وہ جوش سے اٹھے تھے ۔۔۔
یہ ہوئی نہ بات میرا جگری یار آیا ہے۔۔
دونوں کی محبت مثالی تھی سگے بھائیوں سے بڑھ کر۔۔۔
السلام وعلیکم سلطان میاں آج کہاں سے راستہ بھول گئے آپ ہمارے غریب خانے کا؟؟
حیدر صاحب کا جاندار قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔
بس سکندر صاحب ہم نے سوچا آپ تو بڑے آدمی ہیں کہاں ہم غریبوں کے لئے وقت نکالیں گے ہم خود یہ حاضری لگا لیں۔۔
آپس میں بغلگیر ہوتے ہوئے دونوں اپنی نشت سنمبھال چکے تھے ۔۔
بابا آپ پھر آج میری بیٹی کے بغیر آگئے؟؟
بہو تم پریشان نہ ہو ہم اپنی بیٹی بہت جلد سلطان میاں سے واپس لے لیں گے۔۔
سلطان صاحب کے دل سے جیسے بغیر کہے بوجھ کو اٹھا لیا تھا۔۔
تھمینہ بیٹے نورے کا آج آخری پیپر تھا بس اسی لیے نہیں آئی بس دو سال اور پھر میری بیٹی نیورون سرجن بن جائے گی۔۔۔
انشاء اللہ ۔۔
بیک وقت سب نے انشاء اللہ کہا تھا اور اس میں پیش پیش حسن سکندر تھا سیاہ آنکھوں والا بائیک اوبسیسٹ ڈمپل بوائے ۔۔
سب کی گردنیں ایک ساتھ مڑی تھیں حسن سکندر اپنے ازلی انداز میں بلیک بیگی شرٹ پر کیمل کلر کی کارگو پینٹ پر اسنیکرز پہنے بائیک کی چابی گھماتا ہوا دھپ سے ان سب کے درمیان آکر بیٹھا تھا ۔۔
ہیلو لیڈیز اینڈ جینٹلمین ۔۔
شرم کرو سلام کرتے ہیں بڑوں کو۔۔
ہوگیا تھمینہ بیگم کی جھاڑ کا آغاز ۔۔
آپ کیسے ہیں بابا؟؟
لاڈ سے انکے گلے میں ہاتھ ڈالے پوچھ رہا تھا اور وہ جنگلی بلی کہاں ہے؟؟
حسن انسان بن جاؤ ۔۔
برخردار کہاں سے مٹرگشت کرکے آرہے ہو؟؟
وہ آغا جان آپکی بہو کو ڈھونڈنے گیا تھا سر جھکاتے ہوئے ڈھٹائی سے جواب دیا گیا تھا ۔۔
برخردار ۔۔۔
وہ دادا بس وہ بائیک کی ایک ریس تھی وہیں گیا تھا ۔۔
حسن سکندر اور اسکی بائیک سے ابسیشن کبھی نہ ختم ہونے والی۔۔
آنے دو تمہارے بھائی کو پوچھوں گی میں اس سے اسی نے بگاڑا ہے تمہیں ۔۔
بی جان میں واقع آپکی سگی اولاد ہوں نہ؟؟
حسن سکندر اور اسکے شکوے۔۔
سلطان تم اس برخردار کو تم بتاؤ کب آئیں ہم اپنی امانت تم سے لینے؟؟
ہیں کونسی امانت؟؟
نورے تمہاری بیٹی ہے سکندر جب چاہے لے جاؤ ۔۔
بس پھر طے رہا کہ التمش اور مریم کی شادی کے فورن بعد ہم اپنی نورے کو لے جائیں گے ۔۔
حسن سکندر جو اپنے کمرے میں جانے کے لیے مڑا تھا اس نے حیرت سے پلٹ کر اپنے آغا جان کو دیکھا تھا۔۔
آغا جان۔۔۔۔۔
وہ اتنی زور سے چیخا تھا کہ سب کواپنے کان کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے تھے ۔۔
آپ بھائی کے لیے اس جنگلی بلی کی بات کر رہے ہیں ؟؟
آپ جانتے ہیں نہ دونوں جانی دشمن ہیں میرے کچا کھا جائیںگے مجھے۔۔
آغا جان کا جوتا سیدھا اسکی کر پر رسید ہوا تھا ۔۔
میں واقعی سوتیلا ہوں میں نہ ہوں اس گھر میں تو جن بھی آپس میں بات نہ کریں یہ ساری رونک میری وجہ سے ہے۔۔
تم چھوڑو اسکو تم بتاؤ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہی نہ؟؟
یہ کہیں ارادہ بدل لیا ہے؟؟
دیکھو وعدہ خلافی کا تو سوچنا بھی مت ۔۔
ارے نہیں بھئی میں بس یہ کہے رہا تھا کہ اتنی جلدی؟؟
تیاری کیسے ہوگی؟؟
بابا یہ کیسی غیروں والی باتیں کر رہے ہیں بیٹی لینے آرہے ہیں یہ ساری لوازمات غیروں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔۔
میاں نورے صرف تمہاری ہی بیٹی نہیں ہے۔۔
وہ ایک باپ کے گھر سے دوسرے باپ کے گھر آرہی ہے تم پریشان نہ ہو۔۔
شکر کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن جو اس وقت حیدر صاحب نے محسوس کی تھی وہ بیان سے باہر تھی۔۔
جاؤ تھمینہ بیٹے مٹھائی کا انتظام کرو وہ خوشی سے مثال ہوتی ہوئی آٹھ کھڑی ہوئیں تھیں ۔۔
اور ان دونوں دوستوں کو تو میٹھا کھانے کا موقع مل گیا تھا۔۔
نورے گھر لوٹی تو خلاف معمول گھر میں خاموشی تھی۔۔
کریمن بوا ۔۔۔ کریمن بوا ۔۔۔
ہوگیا گھر کا سکون غارت ۔۔۔
نورے ڈارلنگ کیسی ہو تم؟؟
شکل مت دکھانا مجھے تم اپنی ۔۔
ہوگیا جنگ کا آغاز
کیوں آپ دونوں نے ہر وقت لڑنے کی قسم کھا رکھی ہے؟؟
کریم بوا وہ کیا ہی نہ کے بس آپکی صحبت کا اثر ہے ۔۔
پتا نہیں حیدر صاحب کو کہاں سے اسکی شخصیت میں ٹھہراؤ کہاں سے نظر آتا تھا ۔۔۔
نورے جان مان جاؤ نہ پلیز ۔۔۔۔
شاہ میر میں سر پھاڑ دوں گی تمہارا شکل گم کرو اپنی ابھی کے ابھی۔۔۔
نورے بیٹی آپکے دادا کہے کر گئے ہیں کہ آپ واپس آجائیں تو آپ سے کہوں کے آپ کھانا کھاکر آرام کر لیجیے گا انکو دیر ہو جائے گی ۔۔۔
خیریت؟؟
دادا کہاں گئے ہیں ؟؟
وہ اپنے کسی خاص دوست کے گھر گئے ہیں۔۔
خاص دوست؟؟
یعنی آغا جان کے گھر؟؟
میرے بغیر؟؟
ہوگیا نیا ڈرامہ شروع ۔۔۔
دھپ کر کے صوفے پر بیٹھ چکی تھیں ۔۔۔
وہ کیا ہے نہ نورے جان۔۔
یہ صرف ہماری برداشت ہے جو تمہیں برداشت کر رہے ہیں ۔۔
پتا نہیں کونسا دن آئے گا جب تمہاری شادی ہوگی اور سارا پروٹوکول مجھے ملے گا۔۔
شاہ میر تم۔۔۔۔۔
اب شاہ میر آگے تھا اور نورے اسکے پیچھے اور بوا بیچاری اپنا سر پکڑ کر رہے گئی تھی ۔۔۔
بتائیے گا اپنے بڑے صاحب کو کے نہیں کھاؤںگی میں کھانا سخت ناراض ہوں میں ان سے ۔۔۔
وہیں سیڑیوں پر کھڑے کھڑے ہانک لگائی تھی اس نے اور پھر زوردار آواز کے ساتھ اسکے کمرے کا دروازا بند ہوگیا تھا ۔۔
رات کو جب حیدر صاحب واپس آئے تو انکی لاڈلی کا پیغام ان تک پہنچا دیا گیا تھا اور وہ اسی لمحے کمرے کے سامنے کھڑے تھے۔۔
نورے بیٹی کھول دو دروازہ ۔۔
وہ پچھلے دس منٹ سے مسلسل دروازہ بنارہے تھے اور وہ محترمہ لاڈ اٹھورہی تھیں ۔۔
اچھا ٹھیک ہے اگر آپ دروازہ نہیں کھول رہی تو میں یہیں کھڑا رہوں گا ۔۔۔
اور یہاں اسکی ناراضگی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی ۔۔
موں پھلا کر دروازہ کھول دیا گیا تھا ۔۔۔
اچھا تو کیا میری بیٹی میری طرف دیکھے گی بھی نہیں؟؟
دوسری طرف موں کیے وہ مسکرائی تھی۔۔
میرے بیٹے ناراضگی ختم کردو نہ؟
آپ مجھے لیکر کیوں نہیں گئے تھے ؟؟
موں پھلائے سینے پر ہاتھ باندھ کر سوال کر رہی تھی ۔۔۔
یعنی سارا مسئلہ یہ ہے ۔۔۔
اسکو اپنے پاس بٹھا کر اب بھلا رہے تھے ۔۔
اچھا دادا اپنی بیٹی کو اگلی بار وہیں چھوڑ آئیں تو؟؟
وہ بدک کر پیچھے ہٹیں تھی ۔۔۔
اللہ اللہ میں کیوں جانے لگی ہمیشہ کے لیے ؟؟
میں بس اپنے دادا کے پاس رہوں گی۔۔
اور اگر دادا ہی نہ رہے تو؟؟
یہ سوال نہیں تھا خنجر تھا جو اسکی دوسری ماں نے اسکے دل میں گھونمپہ تھا۔۔
سوال جواب آزمائش خواہش ۔۔۔
زندگی امتحان ہے کڑا امتحان ۔۔۔
بہو یہ کس طرح کی بات کی ہے؟
ایان بابا میں تو بس ویسے یہ کسی خدشے کے تحت بولی تھی۔۔
خیریت اس وقت یہاں ؟؟
انکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
او ہاں میں یہ سوٹ لائی تھی نور کے لیے ۔۔
استزاہیہ لحجے میں نورے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا گیا تھا۔۔
کیوں اسکی کیا ضرورت پڑ گئی؟؟
وہ کیا ہے نہ بابا اب میں سب کے لئے ہی شادی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کے رہی تھی یہاں تک کہ کریمن بوا اور سلمی کے لیے بھی تو سوچا نور کے لئے بھی لیلوں۔۔
ابھی میں ۔۔
دادا حیدر صاحب کچھ سخت بولتے کہ نورے پہلے ہی ٹوک چکی تھی۔۔
دادا "چھوٹی امی" اتنے پیار سے لائی ہیں تو یوں رد کردینا تو اچھی بات نہیں ہوگی نہ؟
معصومیت چہرے پر سجائے وہ انہی کے انداز میں آگے بڑھی تھی اور کان کے پاس جھکتے ہوئے اسی لحجے میں جواب دیا تھا۔۔
آپ چاہیں کتنی ہی کوشش کرلیں جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نہ وہ مجھے آپکے سامنے جھکنے دیگا نہ ہی رسوا ہونے اور اگر خدا ناخواستہ دادا کو کچھ ہو بھی گیا تب بھی میں آپ میں سے کسی کے آگے نہیں جنہوں گی ۔۔۔
چھوٹی امی۔۔
رافیہ بیگم جس خوش گوار موڈ میں اسکو نیچا دکھانے آئیں تھی وہ سب غارت ہوا تھا ۔۔۔
دیکھ لوں گی تمھیں تو میں ۔۔۔
دروازے کو زور سے بند کرتی پیر پٹختی وہ جاچکی تھیں ۔۔
بیڈ پر بیٹھتے ہوئے گھری سانس بھر کر خود کو نارمل کر رہی تھی جب حیدر صاحب نے اسکو اپنے ساتھ لگایا تھا ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر انکو دیکھا تھا ۔۔۔
جانتا ہوں تمہارا دل آج بھی چھوٹا سا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا نورے تم یوں اداس نہ ہوا کرو۔۔
اللہ اللہ میں کیوں اداس ہونے لگی جو لوگ ہم سے منسلک نہیں ہوتے ان کے لیے اپنے جذبات کو ضائع نہیں کرتے ہر انسان اپکی توجہ اور آنسؤں کا حقدار نہیں ہوتا۔۔ حیدر صاحب کو اس پر حیرت ہوئی تھی وہ کیوں تھی ایسی ۔۔ اور ہاں مجھے یاد آیا وہ زرا نکالیں اپنا اے ٹی ایم ان سے الگ ہوتے ہوئے پھر نئی فرمائش آئی تھی ۔۔۔
اور حیدر صاحب آنکھیں پھاڑے اسے تک رہے تھے۔۔
لڑکی انسان بنو اب کس لیے اے ٹی ایم کی ضرورت پیش آگئی ؟؟
کیوں بھلا میں شادی کے کپڑے نہ بناؤں؟؟
بس آپ بھی یہی چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے..
پھر ڈرامہ شروع ۔۔
اور وہ جو آپ اپنے کارڈ میں پیسے جما کیے جارہی ہیں ؟؟
وہ کیا ہے نہ کہ وہ میں نے برے وقت کے لیے سنمبھال رکھے ہیں۔۔۔
سرگوشی نمہ آواز میں بہت آہم بات تھی جو حیدر صاحب کو بتائی گئی تھی۔۔۔
اور وہ ہنس پڑے تھے۔۔۔
لڑکی تم مجھے کنگال کردوگی ۔۔
تو ؟؟؟ حیرت کا جھٹکا لگا تھا نورے کو۔۔
آپکی ایک ہی بیٹی ہوں مجھے نہیں تو کس کو دیں گے آپ اپنی دولت؟؟
اترا کر جتایا گیا تھا...
وہ ہنستے ہوئے تاعید کر رہے تھے ۔۔
لیکن کوئی تھا جس کو یہ بات بری طرح چبھی تھی۔۔
آج صبح سے ہی سلطان مینشن میں رونک تھی شادی سر پر کھڑی تھی تو تیاری بھی اسی حساب سے چل رہی تھیں۔۔۔
ہر ایک کو اپنے اپنے کام تھے۔۔۔
حال سکندر ولا کا بھی کچھ اسی طرح کا تھا آج گھنا گھمی وہاں بھی تھی۔۔
حسن حسن کی بی جان ۔۔۔
حسن گیارہ بجھ رہے ہیں اور تم ابھی تک سورہے ہو؟؟
بی جان بس گیارہ ہی تو بجے ہیں ۔۔۔
حسن دس منٹ دے رہی ہوں فورن اٹھ کر تیار ہو ناشتہ کرکے بابا کے گھر جاؤ اور نورے کے کپڑے پہنچا کر آؤ ۔۔۔
ہیں ؟؟؟
اسکی نیند ایک سیکنڈ میں آڑی تھی میں کیوں جاؤں گا بی جان؟؟
اور وہ اتنی بڑی ہوگئی ہے ابھی تک ہر تقریب میں آپ اسکے کپڑے کیوں بنواتی ہیں ؟؟
کیوں کے میری مرضی ۔۔۔
اب آٹھ رہے ہو یہ کروں بھائی کو فون ۔۔۔
بی جان۔۔۔ یہ اچھا ہے ہونے والی بیوی وہ بھاءی کی ہے ملازم میں بنا ہوا ہوں۔۔
حسن ایک آواز آئی تھی ۔۔
جی آٹھ رہا ہوں بی جان ۔۔۔
اس جنگلی بلی سے چن چن کر میں نے بدلے نہ لیے نہ تو میرا نام بھی حسن سکندر نہیں ۔۔۔
پیر پٹختا خالص عورتوں کی طرح بڑبڑاتا واشروم میں بند ہوچکا تھا ۔۔۔
السلام وعلیکم بی جان۔۔۔
تھری ہوئی خوبصورت مردانی آواز اسپیکر سے ابھری تھی۔۔
وعلیکم السلام میرے بیٹے ۔۔۔
کیسی طبعیت ہے آپکی؟؟
شکر ہے اللہ کا ۔۔
بی جان یہ حسن کہاں ہے میں کب سے اسے کال کر رہا ہوں اسکا فون بندھ جارہا۔۔
وہ سورہا تھا بیٹے ابھی اٹھا کر آئی ہوں تاکہ وہ نورے کے کپڑے دے آئے۔۔۔
نورے کے نام پر لندن میں اپنے آفس میں بیٹھے حنان سکندر کے دل کی رفتار تیز ہوئی تھی کچھ سوچتے ہوئے مسکراہٹ بھی آئی تھی جو فورن ہی غائب ہوگئی تھی ۔۔
خیریت؟؟
جانتے ہوئے بھی سوال کیا تھا ۔۔
بچے التمش اور مریم کی شادی شروع ہے آج سے ۔۔
اوو۔۔۔
حننان بس اب بہت ہوگیا تم واپس آجاؤ ورنہ میں زندگی بھر تم سے بات نہیں کروں گی۔۔۔۔
بی جان ایسے تو نہ کہیں ۔۔
بس میں نے کہے دیا ہے ۔۔۔
ہاں ہاں کرلیں سارے لاڈ اپنے بڑے بیٹے سے کرلیں میں تو آپکی اولاد ہوں ہی نہیں ۔۔۔
بھائی میں آخری بار جارہا ہوں اس جنگلی بلی کے کپڑے دینے وہ آپکی زمیداری ہے آکر خود سمنبھالیں اسے ۔۔۔
سوالیہ بھنویں آچکا کر حننان نے حسن کو دیکھا تھا ۔۔۔
کبھی جو تمہاری زبان کو بریک لگے۔۔۔
میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں حننان ۔۔۔
فون بند ہوتے ہی اسکی سوچ ماہِ نور پر پر اٹکی تھی آغا جان نے کچھ دن پہلے ہی اسے فون کرکے بتایا تھا اور پوچھا بھی تھا کہ اسے کوئی اعتراض تو نہیں تاکہ وہ حیدر صاحب سے بات کر سکیں اور اس نے رضامندی دی تھی ۔۔
مماہِ نُور حیدر اسکے دل کی مکین گیارہ سال کی عمر میں بنی تھی اس وقت وہ بہت چھوٹی تھی اور خود حننان بھی اس وقت حننان کو لگتا تھا کے ماہِ نُوراسکی بس بہت اچھی دوست ہے لیکن وقت اور عمر کے ساتھ احساس ہوا کہ ماہِ نُور حیدر میر حننان سکندر کا قیمتی اثاثہ ہے جسے وہ کسی کے ساتھ نہیں بانٹ سکتا۔۔۔
نورے بی بی اب اگر آپ نے مزید اس کمرے کا حشر بگاڑنے کی کوشش کی تو میں بڑے صاحب کو آپکی شکایت لگاؤں گی ۔۔۔
شام میں ڈھولکی تھی اور ماہِ نُور صاحبہ اپنے کمرے کو سکی جنگ کے میدان کی شکل دیے بیٹھی تھیں ۔۔
تو میرے کپڑے خراب کر دیے ہیں میں کیا پہنوں گی رات کو؟؟؟؟
یہ چھٹی دفعہ تھا جب بوا کی دھمکی پر اس نے یہی جملا دوھرایہ تھا۔۔
اس سے پہلے بوا تنگ آکر باہر نکلتی سامنے سے آتے حسن سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھیں۔۔
یا اللہ یہاں کونسا طوفان آیا ہوا ہے؟؟
وہ جو کپڑوں میں موں دیے پڑی تھی سیکنڈ کی رفتار سے سر اٹھا کر دیکھا تھا اور اسکی حالت