قسط نمبر : 9
"اس نے آج تک مجھ سے ایسے بات نہیں کی خالہ ۔میں نے اپنی زندگی کے نو سال اسے سینچا ۔اپنا آپ اسکے لئے وقف کر دیا ۔اور آج وہی میرے منہ پر یہ طمانچہ مار گیا ہے کہ میں اسکے لئے اسکے باپ کی جگہ کبھی نہیں لے سکتی ۔اولاد اتنی سنگدل کیوں ہوتی ہے خالہ ؟ماں اپنے بچے کو دیکھ کر دنیا بھلا دیتی ہے اور وہ میرے لئے ایک ان دیکھے شخص کو بھلانے کو تیار نہیں ۔"
نگاہ اٹھا کر انکی طرف رخ کرتے وہ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔رقيه خالہ نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا آنکھیں انکی بھی نم ہوئی جاتی تھیں ،اسکے آہستگی سے کانپتے وجود کو اپنی آغوش میں سمیٹتا تو انکی گود میں سر رکھتے وہ سسکی تھی ۔
آدھ کھلے دروازے میں ایستادہ شہیر نم پلکوں اور بے یقینی سے پھیلی آنکھوں سے اسے روتے بلکتے دیکھ رہا تھا ۔یہ پہلی بار تھا جب وہ اپنی ماں کو یوں روتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔اس نے تو اسے ہنستے دیکھا تھا ،دهیما سا مسکراتے دیکھا تھا ،خود کو پیار سے سمجھاتے تو کبھی غصے میں ڈانٹتے بھی دیکھا تھا مگر یوں روتے پہلی بار دیکھا تھا تو اسکی حیرانگی بجا تھا ۔آہستہ آہستہ اسکی آنکھوں میں تیرتی حیرت کی جگہ سہمے پن نے لے لی تھی ۔وہیں سے با آواز بلند روہانسی آواز میں اس نے ماں کو پكارا تھا ۔
"ماما ؟"
صلہ اور رقيه خالہ دونوں ایک ساتھ اسکی طرف متوجہ ہوئی تھیں ۔سر اٹھا کر گردن گھمائے صلہ ڈبڈبائی آنکھیں لئے اسے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جو دوڑ کر آتا اسکے گلے لگا تھا ۔سختی سے اسکی گردن کے گرد اپنی دونوں بازؤں کا حصار ڈالتے وہ خود بھی ایک دفعہ پھر سے رونے لگا تھا ۔اور صلہ کے آنسو تو ابھی تک تھمے بھی نہیں تھے ۔اپنے دونوں بازو اسکے گرد پھیلاتے وہ مسکراتے لبوں کے ساتھ آنسو بہا رہی تھی ۔
آئی ایم سوری ماما ۔آپ میری وجہ سے مت روئیں ۔میں نے آپ سے برے طریقے سے بات کی تھی نا سوری فار دیٹ ۔آئندہ کبھی نہیں کروں گا ۔آپ بس آئندہ ایسے رونا مت ۔میں بابا کا بھی نہیں پوچھوں گا ۔مجھے بابا نہیں چاہیے ۔مجھے بس آپ چاہیے ہو ۔آئی لو یو ماما ۔آئی ایم سوری ۔"اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے گال صاف کرتے وہ اسکا چہرہ چومتا پھر اسکے گلے لگتا ،یہ عمل وہ بارہا دوہرا رہا تھا اور صلہ چاہ کر بھی اپنے آنسوؤں پر بندھ نہیں باندھ پا رہی تھی ۔
"آئی ایم سوری ماما ۔آپ اب کبھی مت رونا پلیز ۔"
رقيه خالہ نے ان دونوں کو دیکھتے اپنی بہتی آنکھیں صاف کی تھیں اور پھر مسکراتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں ۔ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی انکے جانے کا احساس تک نہ ہوا تھا ۔جو اب باری باری ایک دوسرے کے آنسو صاف کر تے مسکرا رہے تھے ۔صلہ سے اسکا ماتھا چوم کر اسے سینے میں بھینچ ڈالا تھا جس کی آنکھیں اب بھی ڈری سہمی ہوئی سی لگتی تھیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سنگھار میز کے سامنے کھڑی وہ کان میں آویزہ ڈالنے کی تگ و دو میں تھی ۔آئینے میں نظر آتا عکس ہر لحاظ سے مکمل تھا ۔ہلکے آسمانی نیلے رنگ کی قمیض اور وائٹ كیپری کے ساتھ ہلکے پهلکے میک اپ وہ کافی جاذب نظر لگتی تھی ۔اسکے چہرے پر سب سے زیادہ توجہ کھینچنے والی وہ سبز آنکھیں تھیں جو اس وقت کاجل کی لكیر لئے اور بھی قاتل لگ رہی تھیں ۔
حیدر نے کہا تھا وہ آج رات ڈنر باہر کریں گے۔خود وہ فلحال غائب تھا ۔وہ وقت سے پہلے تیار ہو جانا چاہتی تھی ۔اسکی تیاری قریب قریب مکمل تھی جب نظر سفید نگوں والے ان گولائی نما جهمکوں پر جا رکی تھی ۔حالانکہ اس نے حجاب کرنا تھا ایسے میں وہ کان میں پہنے ویسے بھی دکھائی نہیں دینے والے تھے مگر پھر بھی وہ بڑے شوق سے انہیں پہن رہی تھی ۔ایک تو کان میں ڈال لیا تھا مگر دوسرا تھا کہ اسکا پیچھے کی جانب لگا لاک بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔
کچھ جهنجهلا کر اس نے ہاتھ کو ذرا سا جھٹکا تھا ۔جب پیچھے سے کسی کا ہاتھ اسکے ہاتھ پر آ رکا ۔قدرے چونک کر وہ پیچھے کی جانب مڑی تھی پھر ہلکا سا مسکرا دی ۔
وہ اسکی طرف متوجہ نہیں تھا ۔سارا دھیان اسکے بندھے کا معائنہ کرنے میں لگا ہوا تھا ۔صلہ نے اپنا ہاتھ نیچے گرا دیا ۔آئینے میں نظر آتا اسکا اور اپنا عکس کس قدر تقویت کا باعث تھا ۔وہ قد میں اس سے اونچا تھا اس لئے قدرے گردن جھکا کر اسکے جهمکے کو بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
"میں خود بند کروں ؟"ہاتھ نیچے گرائے ،باہم آگے کی جانب باندھ کر مسکراہٹ روکے اس نے آئینے میں اسکا اب رفته رفته کوفت کا شکار ہوتا چہرہ دیکھا تھا ۔اور اس وقت اسے کچھ اور نہیں بس "وہ بریسلٹ "یاد آیا تھا ۔
حیدر نے سر اٹھا کر آئینے میں سے اسے دیکھا تھا پھر دھیمے متبسم سجے چہرے کے ساتھ سر نفی میں ہلا دیا ۔
"اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوں اب کہ ایک ائیر رنگ نہ پہنا سکو۔۔۔۔"باقی کے الفاظ اسکے منہ میں رہے تھے اور وہ بندها اسکے دونوں ہاتھوں میں ،مگر ثابت نہیں ،دو حصوں میں تقسیم ہو کر ۔حیدر نے ہونٹ بھینچ کر ٹوٹی چھوٹی سی زنجیر کو دیکھا تھا جس کے ساتھ لاک لٹک رہا تھا ۔
"میں چیزیں توڑتا نہیں ہوں یہ خود بخود میرے ہاتھوں میں آ کر ٹوٹ جاتی ہیں ۔"کندھے اچکا کر کچھ بے چارگی و افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ وہ ہتھیلی پھیلائے اس پر رکھا جھمکا اسے دکھا رہا تھا ۔جو اب خود بھی اسکے ہاتھ لگنے پر اپنی قسمت سے نالاں نظر آتا تھا ۔
مسکراہٹ روکنے کے باعث آنکھوں میں آئی پانی کی ہلکی سی تہہ کے ساتھ تائیدی انداز میں سر ہلاتے صلہ نے اسکی ہتھیلی پر سے وہ اٹھایا تھا ۔
"بالکل میں اتفاق کرتی ہوں ۔آپ کی غلطی نہیں ہوتی ۔چیزوں کو خود احتیاط کرنی چاہیے آپ کے ہاتھوں میں جانے سے ۔"
چمک کر کہتے ہوئے وہ سنگھار میز کی سب سے اوپر والی دراز کھول ،اس کے اندر سے وہی باکس بر آمد کر چکی تھی جس میں پہلے ہی وہ ٹوٹا ہوا بریسلٹ پڑا ہوا تھا ۔اس جهمکے کو بھی صلہ نے اسی میں منتقل کرتے وہ باکس سامنے رکھے اپنے بیگ میں ڈال دیا تھا ۔
"اب یہ تو سیدھا سیدھا طنز تھا صلہ حیدر ۔"اسکی کہنی پکڑ کر رخ اپنی جانب کیا ، بھوری پر شوق نگاہیں اسکے چہرے کے طواف میں مگن تھیں ۔
صلہ نے بے وجہ ہی چہرے کے گرد کسی نا دیده بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرنا چاہا تھا۔
"پیاری لگ رہی ہو ۔"بہت سادہ سا جملہ تھا مگر پھر بھی اسکے گالوں کو بلش کرنے کو کافی ثابت ہوا تھا ۔
"تھینک یو ۔"آہستگی سے کہتے وہ آئینے کی طرف گھومی ۔
"ویسے ایک بات تو بتائیں صرف چیزیں ہی توڑتے ہیں یا دل بھی توڑنے کا شوق رکھتے ہیں ۔"سنگھار میز کے کونے پر ٹک کر بیٹھتے ،ایک بازو سینے پر لپیٹ ،دوسرے سے ٹھوڑی كهجاتے اسکا گہری نظروں سے جائزہ لینے پر وہ یوں ہی خود کو پر اعتماد ظاہر کرنے کو بول پڑی تھی ۔
خفیف سا سر کو جھٹک کر نیچے کرتا وہ بالکل مدهم سا ہنسا تھا ۔
"نہیں دل تو آج تک کسی کا نہیں توڑا ۔"دوبارہ نگاہیں اسکے چہرے پر ٹکائی ،جو اب حجاب لے رہی تھی ۔
"میں نہیں مانتی ۔"مشکوک سی نظروں سے ایک پل کے لئے اسے دیکھتے انداز چڑانے والا تھا ۔وہ ہنوز متبسم سا اسے دیکھ رہا تھا ۔صلہ کی نظریں خود ہی اس کے چہرے پر سے ہٹ گئی تھیں ۔
"تم نہ بھی مانوں تو بھی میں یہی کہوں گا ۔میں نے آج تک کسی کا دل نہیں توڑا اور کسی لڑکی کا تو بالکل نہیں ۔"شرارت سے اسے دیکھتے لڑکی پر خصوصی زور دیا گیا تھا ۔صلہ باوجود ضبط کے بھی مسکرا دی ۔
"میں دل نہیں توڑ سکتا ہاں مگر سر ضرور پھوڑ سکتا ہوں جب مجھے شدید غصہ آ رہا ہو تو ۔"سر ہلا تا وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا ، صلہ نے خائف نظروں سے اسے گھورا تھا ۔
"بیوی کو اپنے رعب میں رکھنے کی ٹپیکل مشرقی مردوں والی ٹرک تھی یہ ۔اچھا طریقہ ہے سامنے والے پر اپنے غصے کی دهاک بٹھانے کا ۔"کچھ جلے ہوئے سے انداز میں کہتے اس نے سیفٹی پن لگائی تھی ۔جب حیدر نے انگشت شہادت سے اسکے دائیں آنکھ کے اوپر بنے اس نشان کو چھوا تھا ۔
"تمہیں یہ چوٹ لگی تھی کیا ؟یا کوئی برتھ مارک ہے ؟"اسکی بھنو کے بالکل آخر میں بنے آدھے چاند نما اس نشان کو دھیرے سے چھوتے ہوئے وہ سادگی سے پوچھ رہا تھا ۔صلہ کا ہاتھ بے اختیار اپنے ماتھے تک گیا تھا ۔انگلیاں حیدر کے ہاتھ سے ٹکرائیں تو اس نے اپنا ہاتھ واپس لے لیا ۔
"یہ ۔۔۔۔برتھ مارک نہیں ہے ۔شاید بچپن میں مجھے کوئی چوٹ لگی تھی صحیح سے یاد بھی نہیں ہے اب ۔تب بہت چھوٹی تھی میں ۔"
اسکے مسکرا کر سرسری سے انداز میں بتانے پر حیدر نے ایک گہری نگاہ اس پر ڈالتے، اپنا ہاتھ پیچھے کرتے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔ساتھ ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
"میں چینج کر لوں تو پھر نکلتے ہیں ۔"کہتا وہ وارڈ روب کی جانب بڑھ گیا تھا ۔صلہ ایک آخری نگاہ اپنی تیاری پر ڈالتے مطمئین ہوتے وہاں سے ہٹ گئی تھی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اگلی صبح بالکل ویسی تھی جیسے رات دبیز دھند کی چادر میں لپٹی ہو اور سورج کی کرنوں نے آتے ہی دھند کے سبھی پردے فاش کر دیے ہوں اور ب روشنی کی تہیں جم کر سارا منظر نکھرا نکھرا سا کرنے کو بے تاب ہوں ۔
کچن میں کھڑی صلہ کے ہاتھ انڈا پهینٹتے زیادہ چابکدستی سے چل رہے تھے ۔چہرے پر اطمینان کا راج تھا ۔
سکول جانے کے لئے بالکل تیار شہیر کمرے سے نکل کر اپنے مخصوص انداز میں بازو ناف پر لپیٹتے جھک کر اسے گورنش بجالاتے آگے بڑھتا ہے ۔اور اتنے دنوں کے بعد اسکا یہ پیارا سا انداز دیکھ کر صلہ کے ہونٹوں پر پر سکون مسکراہٹ رینگ سی جاتی ہے ۔وہ فیری ٹیلز کا دیوانہ تھاروز رات کو اسے کوئی نہ کوئی کہانی سننی ہی ہوتی تھی ۔کبھی صلہ سے تو کبھی رقيه خالہ سے ۔اور اپنی ماں اسے کسی کہانی کی خوب صورت شہزادی لگتی تھی ۔شروع شروع میں اسکے ایسا کرنے پر صلہ کو ہنسی آتی تھی ۔جب وہ قدیم فیری ٹیلز کی طرح جھک کر تعظیم سے اسے "یور ہائی نیس "کہا کرتا تھا مگر پھر آہستہ آہستہ اسے بھی جیسے عادت سی ہو گئی تھی ۔جب صبح اٹھ کر شرارت سے اسے کچن میں کام کرتے دیکھ کر وہ یہ عمل دوہراتا تھا ۔تو کام کرتی شہزادی سر جھٹک کر مسکرانے پر مجبور ہو جاتی تھی ۔
"آ جاؤ مسخرے باز ۔ناشتہ کر لو اب ۔فرائی پین سے انڈا پلیٹ میں منتقل کرتے وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی تھی ۔بیگ صوفے پر رکھتے وہ بھاگتا ہوا اپنا اسٹول سنبھال چکا تھا ۔ساتھ بیٹھتے صلہ نے نوالا بنا کر خود اسکے منہ کی جانب بڑھایا جسے مسکراتی ،خوشی سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ اس نے ہلکی سی کلکاری کے ساتھ اچک لیا تھا ۔
"آج پراٹھا کتنا ٹیسٹی بنا ہے ماما ۔"جلدی جلدی منہ ہلاتے ہوئے کہا ۔صلہ نے سر ہلاتے دوسرا نواله اسکے منہ میں رکھا تھا ۔
"مكهن لگا رہے ہو ۔"مصنوئی پن سے اسے گھورا تو بھرے منہ کے ساتھ وہ تیز تیز سر کو دائیں بائیں جنبش دینے لگا ۔
"وہ تو آپ نے پراٹھے پر لگایا ہوا ہے ماما ۔"ہنستے ہوئے انگلی کے اشارے سے پراٹھے کی جانب اشارہ کیا تو صلہ نے ہلکی سی چپت اسکے سر پر لگائی تھی ۔
"بیٹا جی میں تمہاری ماں ہوں ۔"
"اؤفو ماما ۔میرے بال خراب ہو جائیں گے ۔پہلے ہی اتنی مشکل سے سیٹ ہوتے ہیں پھر فار ہیڈ پر آئیں گے تو آپ غصہ ہوں گی اور ایسے مجھے گھور کر کہیں گی شہیر بال پیچھے کرو ۔"
تیزی سے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے انہیں جما کر وہ خفگی سے کہتا آخر میں ماں کا انداز اپناتے کہہ رہا تھا ۔صلہ نے بے آرامی سے پہلو بدلا ۔
"باتیں کم کیا کرو کھاتے ہوئے ۔جلدی جلدی فنش کرو ۔وین آتی ہو گی ۔"اسے کھرک کر ایک اور نوالا اسکے منہ میں ڈالتے اس نے گھڑی کی جانب نگاہ دوڑائی تھی ۔شہیر بھی فوری شرافت کے جامے میں آ کر چپ ہوتا بیٹھ گیا تھا ۔ویسے بھی تازہ تازہ ٹھیک ہوئے سفارتی تعلقات وہ کسی صورت بگاڑنا نہیں چاہتا تھا ۔کہیں نہ کہیں وہ اب بھی رات کو اسے روتا دیکھنے کی وجہ سے خائف سا تھا ۔اور یہ طے تھا کہ اگلے کہیں دن وہ اسکی ہر بات بنا چوں چراں کیے ماننے والا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ آج چار دن کے بعد پارک آیا تھا ۔اور یہ چار دن مرتضیٰ نے بلا شبہ اسکا انتظار کرنے میں صرف کیے تھے ۔اس دن کے اگلے دو دن وہ نہیں آیا تھا جس کے بعد ویک اینڈ شروع ہو گیا تھا اور ویک اینڈ پر تو وہ ویسے بھی کم کم ہی آیا کرتا تھا ۔آج اسکے آنے سے پہلے ہی وہ وہاں موجود تھا ۔اورنج شرٹ اور بلیک جینز کے ساتھ خلاف معمول اسکے بال کچھ منتشر سے تھے۔
اپنی ڈرائنگ نوٹ بک نیچے سبزه زار پر رکھے وہ اس پر جھکا ہوا تھا ۔مرتضیٰ بینچ کی جانب بڑھنے کے بجائے آفس بیگ اور کوٹ پاس زمین پر رکھتے وہیں اسکے پاس نیچے بیٹھ گیا تھا ۔
"آ گئے آپ ؟"بنا سر اٹھائے كلرنگ میں مشغول وہ مسکرایا تھا ۔
"میں تو روز آتا ہوں تم ہی آنا بھول جاتے ہو۔"ہلکی سی ناراضگی کی تہہ میں لپٹی آواز پر شہیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو نظریں اسکی ڈرائنگ پر جمائے ہوئے تھا ۔
"آپ جانتے تو ہیں ویک اینڈ پر میں ماما کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرتا ہوں ۔"کہہ کر دوبارہ نیچے جھکتے وہ ہاتھ چلانے لگا تھا ۔
مرتضیٰ نے سر کو خم دیتے ذرا جھک کر اسکے چہرے کو جانچا تھا ۔حالات سازگار لگتے تھے ۔یعنی کہ اسکی ناراضگی کا دورانیہ ختم ہو چکا تھا ۔
"ماما سے دوستی ہو گئی تمہاری ؟"سامنے بکھری كلر پینسلز میں سے ایک اٹھا کر انگلیوں میں گھماتے وہ اسے نہیں اب سامنے دیکھ رہا تھا ۔
شہیر نے ہاتھ روک دیا تھا ۔دونوں بازو اپنی گود میں رکھتے وہ پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا تھا ۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ماما ہم سے اتنا پیار کرتی ہیں ان سے بھلا کون ناراض ہوتا ہے ۔اور میری ماما تو پوری دنیا میں سب سے زیادہ پیار مجھ سے کرتی ہیں ۔"فخریہ گردن اکڑا کر وہ مسکرایا تھا ۔مرتضیٰ نے ٹانگیں لمبی کرتے دونوں ہاتھ پیچھے کی جانب زمین پر ٹکا دیے تھے ۔
"پھر تو شہیر بہت لکی ہے ۔اسکے پاس ماما ہیں جو اسے پوری دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہیں ۔"
مرتضیٰ نے گردن موڑ کر نرمی سے اسے دیکھا۔
"وہ تو سب کے پاس ہوتی ہیں ۔آپ کے پاس نہیں ہیں کیا ؟"ایک ہاتھ گال کے نیچے رکھے وہ اسے متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔مرتضیٰ نے سر نفی میں ہلا یا ۔
"میں آپ سے تھوڑا سا بڑا تھا جب میری ماما چلی گئی تھیں ۔مگر میں بھی بہت لکی ہوں ۔میرے پاس ماما نہیں ہیں مگر بوبی ہیں اور وہ مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔"اسی کے انداز میں گردن اکڑا کر کہنے پر وہ دونوں ہی ایک ساتھ ہنس دیے تھے ۔
"میں نے سوچ لیا ہے میں آئندہ کبھی ماما سے اس طرح بات نہیں کروں گا ۔مجھے بابا چاہیے مگر اس طرح نہیں ۔اگر ماما روئیں گی تو پھر مجھے بابا نہیں چاہیے ۔بہت سارے بچے ہوتے ہیں جن کے پاس ماما نہیں ہوتیں آپ کے پاس بھی تو نہیں ہیں ۔"کہتے ہوئے رک کر اسکی طرف دیکھتے تائید چاہی تھی ۔مرتضیٰ کو کبھی کبھی وہ اپنی عمر سے زیادہ میچیور لگتا تھا ۔بغور اسے دیکھتے اس نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا جس پر ذرا رک کر وہ پھر سے بولنے لگا ۔
"بہت سارے بچے ہوتے ہیں جن کے پاس بابا نہیں ہوتے جیسے میرے پاس نہیں ہیں ۔ہمیں خوش رہنا چاہیے اس طرح اللّه تعالیٰ بھی ہم سے خوش ہوتے ہیں ۔شاید میرے بابا اللّه تعالیٰ کے پاس چلے گئے ہیں اسی لئے ماما اتنا روئی تھیں ۔"اپنی قياس آرائی پر وہ کچھ اداس سا نظر آیا تھا مگر اگلے ہی لمحے مسکرا دیا ۔
"خیر اب میں بابا کے بارے میں سوال نہیں کروں گا ۔میں بس اپنی ماما کے ساتھ خوش رہوں گا ۔"
"گڈ ۔"ایک ہاتھ بڑھا کر اسکے پہلے سے بکھرے بال کچھ اور منتشر کرتے مرتضیٰ نے اسے داد دی تھی ۔
"اس طرح مت کریں میری ماما سے مجھے ڈانٹ پڑ جائے گی ۔"
اپنے بال ٹھیک کرتے وہ کھلکھلاتے اسے ٹوک گیا تھا ۔مرتضیٰ نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔
"کیا چیز ؟"
"انہیں میرے بکھرے بال بالکل نہیں پسند ۔"بال سائیڈ پر جمانے کی کوشش کرتے وہ بتا رہا تھا ۔
"حالانکہ تم پر سوٹ کرتے ہیں ۔"مرتضیٰ نے ستائش بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔
"وہ تو میں پیارا بہت ہوں نا اس لئے ۔میں نے ایک بار ماما سے پوچھا تھا میں کس کی طرح دکھتا ہوں تو جانتے ہیں انہوں نے آگے سے کیا کہا ؟"چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتا وہ پر جوش سا لگتا تھا ۔مرتضیٰ نے سوالیہ انداز میں اسے مسکرا کر دیکھا ۔
"وہ کہتی ہیں شہیر بس شہیر جیسا ہے ۔اس جتنا کوئی اور پیارا ہو ہی نہیں سکتا ۔"اسکے معصومیت بھرے انداز پر مرتضیٰ گردن پیچھے کی جانب پهینک کر ہنسا تھا پھر اسکی طرف دیکھتے تائیدی انداز میں سر ہلایا ۔
"یہ تو ٹھیک کہتی ہیں ماما ۔شہیر بس شہیر جیسا ہے کیوں کہ وہ واقع ہی بہت پیارا ہے ۔"
اسکی تعریف پر وہ کچھ جھینپ کر نیچے گردن جھکاتا اپنی ڈرائنگ بک دیکھنے لگا تھا ۔مرتضیٰ نے سرعت سے نظریں پھیری تھیں ۔
"اچھا یہ بتائیں اس کار میں کون سا كلر کروں ۔"ڈرائنگ بک پر بنائی کار پر انگلی رکھے وہ سوالیہ نظریں ایک بار پھر اسکی طرح اٹھائے ہوئے تھا ۔
مرتضیٰ نے کچھ دیر غور و فکر کی تھی ۔گھروں اور بلڈنگز کے درمیان سڑک کنارے ایک چھوٹا بچہ ایک عورت کا ہاتھ پکڑے مخالف سمت میں چل رہا تھا جس کی وجہ سے دونوں کی پشت دکھائی دیتی تھی ۔پاس ہی سڑک سے ایک کار گزر رہی تھی ۔بلا شبہ اسکی ڈرائنگ کافی اچھی تھی ۔
"خود سے کر لو یار ۔رنگوں کی اتنی سمجھ مجھے خود نہیں ہے ۔بلکہ تمہاری شرٹس کے کلرز دیکھ کر میں نئے سرے سے رنگوں سے آشنا ہو رہا ہوں ۔"اپنی بات سے جیسے وہ خود ہی محظوظ ہوتا دبا دبا سا مسکرایا تھا ۔شہیر جھک کر اپنی شرٹ دیکھتا کھل کر ہنسا تھا
"مجھے رنگ اچھے لگتے ہیں ۔یہ ہر چیز کو بیوٹی فل بناتے ہیں ۔اب دیکھیں اگر یہ درخت گرین نہ ہوتا تو کیا اتنا پیارا لگتا ۔اور وہ مختلف کلرز کے پھول ۔۔۔"اس نے دور كياری میں لگے پھولوں کی طرف اشارہ کیا ۔"وہ نہ لگے ہوں تو پارک اتنا اچھا نظر آتا ۔یہ نیچے دیکھیں اللّه تعالیٰ نے گرین گراس اگایا ہوا ہے اور اوپر نیلے رنگ کا آسمان ۔اللّه خود سب سے بڑے آرٹسٹ ہیں اور انہیں خود رنگ کتنے پسند ہیں ۔"وہ بولنے پر آتا تو بے تكان بولتا تھا اور بلا شبہ بہت پیارا بولتا تھا ۔مرتضیٰ دلچسپی سے اسے دیکھتا سن رہا تھا ۔
"اچھا میں خود اس میں اچھا سا رنگ بھرتا ہوں ۔ٹھہریں ذرا آپ ۔"اسے یوں ہی چپ دیکھ کر اب وہ جھک کر رنگ کا انتخاب کرنے لگا تھا ۔مرتضیٰ نے نظریں دور پھیلے نیلے آسمان پر جما دی تھیں ۔اور اسکا رنگ اسے آج صحیح معنوں میں نیلا ہی لگا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
"جی پاپا ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں ۔یہاں کا راستہ تھوڑا ٹوٹا پھوٹا سا ہے اس لئے پہنچنے میں دیر ہو گئی ۔آپ پریشان مت ہوں ہم بالکل ٹھیک ہیں ۔"
دور تک پھیلی سر سبز وادی کے بیچ و بیچ بنا وہ چھوٹا سا مگر انتہائی خوب صورت گیسٹ ہاؤس تھا ۔جس کی بالائی منزل پر لکڑی کی بنی بالکونی میں وہ کھڑی تھی۔ڈوبتا سورج نارنجی رنگ کا گولا سا لگتا تھا جو ان فلک شگاف پہاڑوں کے پیچھے اب آہستہ آہستہ زوال کی جانب گامزن کچھ مغموم سا لگتا تھا ۔ایسے میں صلہ کا چہرہ بھی اسکی نارنجی پڑتی روشنی کی تمازت لئے ہوئے تھا ۔ایک ہاتھ لکڑی کی بنی گرل پر جما ہوا تھا ۔دوسرے میں موبائل پکڑے وہ کان سے لگائے کھڑی تھی ۔آواز میں محبت و احترام کی بیک وقت چاشنی گھلی تھی ۔سگنل ٹھیک سے آ نہیں رہے تھے ایسے میں اسے کمرے سے نکل کر اور قدرے اؤنچی آواز میں بولنا پڑ رہا تھا ۔اندر بیڈ پر جوتوں سمیت ،دونوں بازو سر کے نیچے رکھے ،چت لیٹے حیدر کے کانوں تک اسکی آواز با آسانی پہنچ رہی تھی ۔حیدر کی واپسی میں چند دن باقی تھے ۔صلہ سے اسکے ڈاکومنٹس وہ لے چکا تھا تاکہ جلد از جلد اسکے ویزے کے لئے اپلائی کر سکے ۔
وہ اسے لے کر چند دنوں کے لئے ناردن ایریا کی طرف نکل آیا تھا ۔اب سے پندرہ منٹ پہلے ہی وہ دونوں یہاں پہنچے تھے ۔ اور تب سے صلہ سگنل مل جانے کو بے تاب ہوئی جا رہی تھی ۔بلا آخر بالکونی کے ایک کونے میں اسے یہ راحت نصیب ہو ہی گئی تھی جو اس وقت باپ سے بات کرتے اسکے لہجے سے جهلک رہی تھی ۔
دس منٹ کے بعد وہ واپس کمرے میں لوٹی تو چہرے پر اطمینان کی تحریر بڑی واضح رقم تھی ۔
"پاپا پریشان ہو رہے تھے ۔ہمیں بھی تو پہنچنے میں کتنی دیر ہو گئی ۔"
موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے وہ بتا رہی تھی ۔ساتھ نظر اس پر بھی ڈالی جو سپاٹ پن لئے یوں ہی پڑا رہا تھا ۔شاید سفر کی تھکان کا اثر تھا ۔جواب میں کچھ بولا تک نہیں ۔بس ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر سے ہوتی اسکے موبائل تک گئی تھی اور اگلے ہی لمحے اس نے آنکھیں موند لی تھیں ۔اسے یوں ہی چھوڑ کر خود وہ فریش ہونے واش روم کی جانب چل دی ۔اسکی بہت سی عادتیں اب اسے پریشان نہیں کیا کرتی تھیں ۔جن میں سے ایک اسکا اپنے موڈ کے حد درجہ تابع ہونا تھا ۔واپس آئی تو اسکی جگہ خالی تھی ۔کمرے میں کہیں وہ موجود نہیں تھا ۔مغرب ہونے کے قریب کا وقت آن پہنچا تھا ۔ماحول میں کچھ ٹھنڈ کا احساس نمایاں ہونے لگا تھا پہاڑوں کے دامن میں بچھی وادیاں انکی سرد مہری دیکھ کر شاید کچھ یوں ہی سرد مزاج سی ہونے لگتی تھیں ۔
شال کندھوں کے گرد اچھے سے پھیلا کر وہ واپس بالکونی میں آ کھڑی ہوئی تھی ۔پہلی نظر ہی برف پوش سفید پہاڑوں پر پڑتی تھی ۔طبیعت پر خوش گوار سا تاثر پڑا تھا ۔نگاہ نیچے دوڑائی تو وہ بھی دکھائی دیا تھا ۔ڈھیلی سی نیوی بلیو ہاف سلیوز ٹی شرٹ (وہ ہمیشہ ایسے ہی نیوٹرل رنگ پہنتا تھا )اور بلیک جینز میں گیسٹ ہاؤس کے باہر رکھی کرسی میز میں سے ایک کے گرد بیٹھا ہوا ۔
"حیدر ۔"
اپنی حرکت اسے خود بھی بچگانی سی لگی تھی ۔وہیں سے قدرے اؤنچی آواز میں اسے پکارا ۔حیدر کی اسکی طرف پشت تھی ۔ذرا ترچھا ہو کر گردن اوپر اٹھائے وہ بالکونی کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔ملگجے سے اندھیرے میں بھی اسکی آنکھوں میں ابھرنے والا نرم تاثر بڑا واضح تھا ۔
صلہ ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے نیچے آنے کا بتا رہی تھی مگر وہ اسے ہاتھ اٹھا کر منع کرتا خود اٹھ کھڑا ہوتا شرٹ صحیح کرتا اندر کی جانب قدم بڑھانے لگا ۔
اسکے کمرے میں داخل ہونے پر صلہ نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا جو بدلے میں ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں سکا تھا ۔
"میرا موبائل تھا یہاں ؟"مصروف سے انداز میں یہاں وہاں نظر دوڑاتی وہ بلند آواز میں بڑبڑائی تھی ۔
حیدر نے بے اختیار پہلو بدلا ۔تھوک نگل کر گلہ تر کرتے وہ کھنگارا تھا جیسے کچھ کہنے سے پہلے عموماً کیا جاتا ہے ۔صلہ رک کر اسے دیکھنے لگی ۔
"میں اسی لئے نیچے گیا تھا ۔یہاں کے مینجر سے کتنی دیر بحث بھی کرتا رہا مگر اسکا کہنا ہے کہ یہ شہر چھوٹا ہے اور ایسے قیمتی موبائلز کی ری پئیرنگ کی کوئی مارکیٹ آپ کو یہاں نہیں ملے گی ۔"ہاتھ جهلا کر کہتے اسکے چہرے پر کچھ نادم سا تاثر تھا ۔صلہ نے نا سمجھی بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔وہ کیسی بے ربط سی ،مبہم باتیں کر رہا تھا ۔بھلا اس سب کا اسکے موبائل سے کیا تعلق ؟"
اسے سوالیہ نظروں سے اپنی طرف ناسمجھی بھرے تاثرات چہرے پر سجائے دیکھتا پا کر وہ اسکی طرف چند قدم بڑھا تھا ۔