قسط نمبر:8
کیوں کہ وہ بہت بھیانک تجربہ ہوتا ہے ۔ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے آپ کو اندھیری قبر میں اتار دیا ہو اور رفته رفته بہت سے ان دیکھے زہریلے حشرات آپ کی جانب رینگتے ہوئے آ رہے ہوں ،ذہن میں یہ خوف جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ ۔۔۔۔ابھی آنکھوں کی بینائی کو کھا جانے والے اس اندھیرے میں کہیں سے کچھ آ کر ہمیں ڈس لے گا اور ہم کچھ نہیں کر سکیں گے ۔ذہن کی دیواروں پر بہت سے ہیولے سے بننے لگتے ہیں خوفناک سی شکلیں ،جو ہمیں نگلنے کو تیار ہوں ۔ بے بسی کی انتہا ہوتی ہے جو اس خوف کے ساتھ مل کر ہمیں اور بھی ڈرانے لگتی ہے ۔کمزور کرنے لگتی ہے ۔"سپاٹ سے چہرے کے ساتھ وہ اس بند دروازے کو دیکھتا میکانکی سے لہجے میں بولتا جا رہا تھا ۔صلہ نے بے اختیار جھرجهری سی لی تھی ۔
"آپ اب مجھے ڈرا رہے ہیں ۔"اس نے آہستگی سے کہا تھا ۔حیدر نے گردن گھما کر اسکی طرف دیکھا ۔ہاتھ ابھی بھی جینز کی جیبوں میں اڑسے ہوئے تھے ۔ہلکا سا مسکراتا اسکی طرف پوری طرح گھوما ۔
"ڈرا نہیں رہا ۔حقیقت بتا رہا ہوں ۔"
"آپ کے ساتھ ہوا کبھی ایسے ؟"وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے ۔
"ہاں ۔بچپن میں ایک بار ایسا ہوا تھا ۔موم گھر پر نہیں تھیں ۔اور ڈیڈ مجھے اکیلا چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے اوپر روم میں چلے گئے ۔اور میں کھیلتا کھیلتا بیسمنٹ تک پہنچ گیا تھا ۔ڈور کا لاک خراب تھا ۔وہ بند ہوا تو مجھ سے کھل نہیں سکا ۔وہ ایک برا تجربہ تھا ۔تب میں چھوٹا تھا تو اندھیرے سے ڈر بھی لگتا تھا یہ تو بعد میں پتہ چلا اندھیرے نہیں ڈراتے ۔نہ ہی ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔یہ انسان ہوتے ہیں جو زیادہ خطرناک ہیں ،زیادہ ڈراؤنے اور زیادہ سفاک ۔"
اپنی بات کے اختتام پر وہ شانے اچکا گیا ۔
"آپ بچپن کی بات کر رہے ہیں مجھے تو اب بھی اندھیرے سے ڈر لگتا ہے ۔"صلہ نے دھیمے سے اقرار کیا تھا ۔
"سیریسلی ؟"ایک بھنو اوپر کی جانب اٹھا کر وہ ہنسا ۔صلہ نے جھینپ کر سر اثبات میں ہلا دیا تھا ۔
"پھر میں کہوں گا تم لڑکیاں عجیب ہوتی ہو اور پھر تمہیں برا لگے گا ۔"وہ بے چارگی سے کہہ رہا تھا ۔البتہ بھوری آنکھیں شرارت پر مائل تھیں ۔
"میں ہر بات کا برا نہیں مناتی ۔"مسکراہٹ ضبط کرتے صلہ نے کندھے ذرا بھر اچکائے ۔
"اچھا ۔۔۔۔۔یہ تو ساتھ رہ کر پتہ چلے گا ۔ایسے ہی کیسے مان لوں میں یہ بات ۔"
کھانے کے دوران جہانگیر اسے خاص پروٹوکول دے رہے تھے ۔وہ اصرار کرتے رہے تھے کبھی کسی ڈش کے لئے تو کبھی کسی کے لئے ۔اور حیدر بس دهیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر تسلیم خم کرتا تھوڑا تھوڑا سب لیتا رہا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اگلے کچھ دن انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں وقف ہوئے تھے ۔شادی کے بعد کا پیریڈ جس کا چارم ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں ضرور لیتا ہے صلہ بھی اسی فیز سے گزر رہی تھی ۔
اور جب وہ کہتا تھا وہ کم گو ہے تو اب اسے یقین ہونے لگا تھا ۔وہ واقع ہی میں ایسا تھا ۔کبھی بولتا تو بے تكان بولتا ۔اپنے بارے میں ،بچپن کے بارے میں بہت ساری باتیں کرتا تو کبھی چپ ہوتا تو پہروں خموشی کے نذر ہو جاتے ۔کبھی یوں ہوتا کہ اسکا بے حد خیال رکھتا واور کبھی یوں نظر انداز کر دیتا جیسے اس کے لئے صلہ کوئی وجود ہی نہ رکھتی ہو ۔دھوپ چھاؤں کا امتزاج رکھنے والی شخصیت کے باوجود وہ برا نہیں لگتا تھا ۔شاید نئی نئی شادی میں ایسے ہی مقابل کی خامیاں نظر انداز کرنے کو جی چاہتا ہے ۔
سب سے عجیب تو اسکا اپنے پیرنٹس سے بھی ایک محدود پیمانے پر رابطے کا ہونا تھا ۔صلہ کی اپنی ساس سے صرف ایک بار بات ہو پائی تھی وہ بھی حیدر کے موبائل پر ۔حیدر نے اسے بتا دیا تھا اسکے پیرنٹس جاب کرتے ہیں تو بزی ہوتے ہیں کبھی کبھی تو اسکی بھی دو دو ،تین تین دن ان سے بات نہیں ہو پاتی ۔صلہ کے لئے عجیب ضرور تھا مگر نا قابل یقین نہیں ۔ویسٹ کے کلچر میں یہ عام بات تھی وہاں زندگی جس قدر بھاگم بھاگ کا شکار تھی یہ بات اتنے اچنبھے کا باعث ہو بھی نہیں سکتی تھی ۔
شام ڈھلنے والی تھی ۔وہ کتنی دیر سے باہر لان میں ٹہل رہی تھی ۔تھک کر اندر آئی ۔کمرے میں بھاری پردے کھڑکی کے آگے پوری طرح حائل روشنی کو روکے ہوئے تھے ۔ایسے میں ملگجے سے اندھیرے میں وہ بیڈ پر سویا نظر آ رہا تھا ۔صلہ نے قدم آگے بڑھائے ۔باہر کی گرمی کی نسبت اندر کا ماحول اے سی کی خنکی لئے ہوئے تھا ۔سینے تک كمبل اوڑھے وہ بلیک بنيان میں چت لیٹا ہوا تھا ۔بھورے بال حسب معمول ماتھے پر بکھرے پڑے تھے۔صلہ کے ہونٹوں پر غیر محسوس کن مسکراہٹ در آئی ۔
اسکے پہلو میں ٹکتے اس نے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو انگلی کی مدد سے کان کے پیچھے کیا تھا مگر اگلے ہی لمحے وہ واپس اسکے رخساروں کو چھو رہی تھی ۔سختی سے بند ہونٹ اور آنکھیں سوتے ہوئے بھی اسے کچھ بارعب سا بناتے تھے ۔گردن کی ابھری ہوئی ہڈی چت لیٹنے کے باعث نمایاں ہو رہی تھی ۔صلہ نے بے اختیار ہاتھ بڑھا کرانگشت شہادت سے نرمی بھرے انداز میں اسے چھوا تھا ۔اور اگلے ہی لمحے وہ بھوجکا کر رہ گئی تھی ۔حلق سے بے ساختہ دبی دبی چینخ نکلی ۔حیدر نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لے کر اس شدت سے مروڑی تھی کہ اسے اپنی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئی تھیں ۔خوابیده سرخی مائل ڈوروں سے مزین آنکھوں میں یخ ٹھنڈا تاثر لئے وہ اسے عجیب سی نظروں سے گھور رہا تھا جو درد سے دوہری ہوتی اسی کے اوپر جھک سی گئی تھی ۔
"حیدر کیا کر رہے ہیں ؟"تکلیف کے درمیان وہ دبا دبا سا بولی تو جیسے وہ بھی کسی خواب سے بیدار ہوا تھا ۔پلکیں جھپک کر ادراک کی سیڑھی پر قدم رکھتے وہ چونک کر ہڑبڑی میں اٹھ بیٹھا تھا ۔صلہ کی کلائی کو یوں چھوڑا جیسے وہ کوئی شجر ممنوعہ ہو ۔اور اب خود نیم واہ ہونٹوں کے ساتھ اس کے تکلیف میں ڈوبے چہرے کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔جو اسکے کلائی چھوڑتے ہی دوسرے ہاتھ کی مدد سے اپنے سرخ پڑتے بازو کو سہلا رہی تھی ۔
صلہ کی آنکھ سے نمی کا ایک قطرہ ہتھیلی پر آن گرا تھا جس کے ساتھ ہی حیدر کے ساکت وجود میں بھی جنبش ہوئی تھی ۔برق رفتاری سے اسکا بازو اپنی گرفت میں لیتا وہ اب افسوس و ندامت کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے اسکی سرخ پڑی کلائی کا جائزہ لے رہا تھا ۔
"آئی ایم سو سوری صلہ ۔میں نیند میں تھا ۔زیادہ درد تو نہیں ہو رہا ؟"فکر مند سی آواز میں کہتا وہ اسکا چہرہ دیکھ کر چپ ہو گیا تھا ۔جہاں صاف لکھا ہوا تھا اسے کس قدر تکلیف سے گزرنا پڑا تھا ۔
صلہ کی آنکھیں اور تیزی سے بھرنے لگی تھیں ۔
"اتنی زور سے مروڑی ہے مجھے لگا تھا ٹوٹ ہی گئی ہو گی ۔"بھرائی آواز اور پر شکوہ پانیوں سے لدی آنکھیں ۔حیدر کا اگلا عمل بے ساختہ پن لئے ہوئے تھا جب اس نے اسکا سر اپنے شانے سے لگا کر دوسرے ہاتھ سے تهپتهپایا تھا ۔
"آئی سوئیر میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔نیند میں سمجھ نہیں لگی ۔"اسکا ملال کچھ اور بڑھا تھا ۔صلہ نے ہاتھ سے چہرے پر بکھرے موتی چنے ،آہستگی سے اس سے الگ ہوتے ایک بار پھر کلائی کو صدمے بھری نظروں سے دیکھا ۔
"اس طرح بھی کوئی کرتا ہے ؟"بنا اسے دیکھے شکایت کی گئی تھی ۔
"کہہ تو رہا ہوں انجانے میں ہوا ہے ۔اور تمہیں بھی کیا ضرورت تھی میری گردن کو چھونے کی ؟"وہ بے بسی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
"تو کوئی آپ کی گردن کو ذرا سا چھو لے تو یہ سلوک کریں گے آپ اسکے ساتھ ؟"حیدر نے اسکے اس سوال پر بے اختیار نظریں چرائی تھیں ۔ساتھ ہی سرعت سے بیڈ کی دوسری سائیڈ سے ہوتا بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
"میری بچپن کی عادت ہے ۔کوئی بھی میری گردن کو ذرا سا بھی ٹچ کرے مجھے بالکل نہیں پسند ۔نیند میں تھا اسی لئے پتہ نہیں چلا اور اتنا سخت رد عمل دے دیا ۔سوری فار دیٹ ۔مگر آئندہ کے لئے تم بھی ذرا احتیاط کرنا ۔"اسکی طرف پشت کیے کہتا ہوا وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
پیچھے صلہ نے ایک بار پھر صدمے بھری نظریں اپنی کلائی پر ٹکا دی تھیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ کتنی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا جو خلاف معمول آج نہ صرف چپ چپ سا تھا بلکہ اسکا بیگ بھی بند پڑا ہوا تھا ۔اور خود وہ نیچے سبزه زار پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کے بجانے اسکے ساتھ بینچ پر بیٹھا بجهی بجهی آنکھوں کے ساتھ دور کھیلتے بچوں پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔
"کیا ہوا ؟"اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھے مرتضیٰ نے تھوڑا آگے کو جھک کر دونوں کہنیاں گھٹنوں پر رکھے ہاتھ آگے کیے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔
"کچھ نہیں ہوا ۔"
"تو پھر چہرے پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں ۔جبکہ میری گھڑی بھی چھ بجانے والی ہے ۔"اپنی کلائی پر بندهی گھڑی کے ڈائل پر انگلی کی مدد سے دستک دیتے اس نے کلائی اسکے سامنے کی تھی ۔شہیر نے ایک نظر اسکی گھڑی پر ڈال کر دوسری اسکے چہرے پر ڈالی تھی ۔اگلے پل وہ پھر سے سامنے دیکھ رہا تھا ۔
"میں ناراض ہوں ۔"انداز اطلاع دینے جیسا تھا ۔مرتضیٰ نے آنکھیں حیرت سے سکیڑ کر اسے دیکھا ۔
"مجھ سے ؟"شہیر نے سر کو نفی میں جنبش دی تو اس نے سر کو ذرا برابر خم دیا ۔
"تھینک گاڈ ۔دیٹس آ ریلیف ۔"سکون آمیز سانس خارج کی ۔پھر گویا ہوا ۔
"تو پھر کس کی شامت آئی ہوئی ہے ؟"رازداری سے اسکی طرف ذرا جھک کر پوچھا گیا تھا ۔شہیر نے بدلے میں اسے خفگی سے دیکھا ۔
"آئی مین ۔کس نے تمہیں ناراض کرنے کی غلطی سرزد کر دی ۔آئی ایم شیور سامنے والے نے ہی کچھ غلط کیا ہوگا ۔"اسکی ایک نظر پر ہی اس نے اپنے الفاظ بدل لئے تھے ۔اور ایسا کرتے ہوئے اسکی سرمئی آنکھیں اپنی اس طوطا چشمی پر مسکرائی تھیں ۔وہ ایک بچہ اس جیسے لئے دیےرہنے والے انسان سے کیا کیا کروا رہا تھا ۔
"ماما سے ناراض ہوں ۔"منہ پھلا کر بتایا گیا تو مرتضیٰ نے ہونٹ اوہ کے انداز میں سکیڑے ۔
پھر پیچھے کی جانب ہو کر بیٹھتے بینچ کی بیک سے ٹیک لگاتے ٹانگ پر ٹانگ جمائی ۔
"ماما سے ناراض ہونا تو اچھی بات نہیں ہے ۔مطلب ماما کتنی اچھی ہوتی ہیں ۔بچوں سے اتنا پیار کرتی ہیں اور تم انہی سے ناراض ہو کر بیٹھ گئے ہو ۔"گلہ کھنگار کر محتاط سے لہجے میں بولتے کن اکھیوں سے اسکا ستا ہوا چہرہ بھی ساتھ دیکھا۔
"میں کب ناراض ہوتا ہوں ؟اتنا گڈ بوائے تو ہوں اپنی ماما کا مگر ۔۔۔۔۔۔مجھے بابا بھی تو چاہیے ناں ۔"ٹھوڑی جھکا کر سینے سے لگاتے وہ سرگوشی نما آواز میں بولا تھا ۔
"کیا چیز ؟"مرتضیٰ سمجھ نہیں سکا تھا تبھی بازو پیچھے بینچ کی بیک پر دراز کرتے اسکی طرف ذرا سا جھکا ۔
"وہ مجھے کبھی میرے بابا کے بارے میں نہیں بتاتی ہیں ۔۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ وہ کون ہیں کیسے دکھتے ہیں ؟کہاں رہتے ہیں اور مجھ سے کبھی بات کیوں نہیں کرتے ،ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے جیسے باقی سب بچوں کے بابا ساتھ رہتے ہیں ۔وہ دیکھیں سامنے ۔۔۔۔وہ سب بچے بھی تو اپنے بابا کے ساتھ رہتے ہیں ،انکے ساتھ پارک آتے ہیں ،انکے ساتھ کھیلتے ہیں تو پھر میں کیوں نہیں ؟"
ایک دم سے گردن اسکی طرف موڑے ،سر اٹھا کر تیز تیز بولتے اسکی سبز آنکھوں میں چمکتا پانی مرتضیٰ کو ششدر کر گیا تھا ۔ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہوتا وہ ناسمجھی و پریشانی سے اسکی طرف دیکھتا کچھ اسکی طرف سرکا تھا ۔ہاتھ اسکے سر پر گیا ،جب شہیر اپنے بازو اسکے گرد لپیٹ کر زور زور سے رونے لگا ۔مرتضیٰ دنگ سی کیفیت میں گھرا گردن جھکا کر اسکا سر دیکھنے لگا تھا جو اسکے سینے پر رکھے وہ ہولے ہولے رونے کے باعث لرز رہا تھا ۔اور اسی سینے کے اندر مرتضیٰ کاظمی کا دل یکبار شدت سے دھڑکا تھا ۔دل پگھل کر موم کیسے ہوتا ہے یہ اس نے اس ایک لمحے میں جانا تھا ۔
"شہیر ۔"اسکا نام مرتضیٰ کے لبوں سے کسی نیم سرگوشی کی صورت نکلا تھا ۔جذبات سے بوجهل ،انجانی سی كسک لئے ہوئے ۔
"شہیر ۔۔۔۔ادھر دیکھو میری طرف یار ۔تم تو بڑے بہادر ہو اتنے کہ مجھے بھی کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے ۔جس کے بیگ میں چلی اسپرے اور الیکٹرک شارٹس دینے والا چھوٹا سا ٹیڈی بئیر کا کی چین ہمیشہ رہتا ہے ۔جو عام بچوں کی طرح روتا بسورتا نہیں ہے اور جو بڑی سمجھداری کی اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا ہے ۔میں تو ایسے شہیر کو جانتا ہوں اینڈ بلیو می اس پر رونا بالکل سوٹ نہیں کرتا ۔"اسے خود سے الگ کرتے دھیرے سے اسکے گال صاف کرتے وہ آہستگی سے کہہ رہا تھا اور شہیر اسے دیکھ کر اب نظریں چراتا سیدھا ہو کر بیٹھ رہا تھا ۔جیسے اسے اپنی حرکت پر شرمندگی ہو ۔
"لیکن ہم سب انسان ہیں تو کبھی کبھی رو بھی لینا چاہیے ۔اس سے دل بھی اچھا ہو جاتا ہے اور آنکھیں بھی صاف ہو جاتی ہیں ۔"اسے خفت زدہ دیکھ کر اس نے مسکرا کر سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
"آئی ایم سوری ۔"وہ منمنایا ۔
"تھئیر اس نتھنگ ٹو بی سوری شہیر ۔"مرتضیٰ نے نرمی سے اسے ٹوکا ۔اسکا اپنا دل بوجھل سا ہونے لگا تھا ۔وہ معصوم سا بظاہر خوش باش ،کسی مکمل اور خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والا نظر آتا بچہ کس قدر احساس محرومی کا شکار تھا اسے تو آج علم ہوا تھا ۔اسے یاد آیا تھا شہیر نے کبھی اپنے بابا کا ذکر نہیں کیا تھا ۔اسکی باتوں میں اسکی ماما اور نانو کے علاوہ کبھی کسی تیسرے فرد کا نام تک نہیں آیا تھا ۔اور اب اسکی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا جیسے وہ کسی بروکن فیملی کا حصہ تھا ۔مرتضیٰ کو صحیح معنوں میں اسکی تکلیف ،اسکا دکھ محسوس ہوا تھا ۔
"لو پانی پیو ۔"اپنے پاس پڑی پانی کی بوتل اسکی طرف بڑھائی تو وہ بنا کچھ کہے اسے تھام گیا ۔گھونٹ گھونٹ پانی پیتے بھی وہ مغموم سا لگتا تھا ۔مرتضیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اسکے پہلے سے منتشر بالوں کو کچھ بھی بکھیر ڈالا تھا ۔تب تک دور سے رقیہ خالہ بھی آتی دکھائی دیں تو شہیر نے ایک بار پھر سے اپنا چہرہ ہاتھ پھیر کر صاف کیا تھا ۔
"السلام علیکم ۔"انکے قریب آنے پر وہ اٹھا تھا ۔ہلکے سے پھولے سانس کے ساتھ مسکرا کر اسکی سلامتی کا جواب دیتی وہ اسکا کندھا تهپتهپا گئیں ۔
"کیسے ہو بیٹا تم ؟"اس سے حال احوال پوچھتے ساتھ نظر چپ بیٹھے شہیر پر بھی ڈال رہی تھیں جس کا موڈ پارک آنے کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہو پایا تھا انہیں مایوسی ہوئی ۔
"میں ٹھیک ہوں ۔"انہیں دیکھ کر وہ مسکرایا پھر شہیر کو دیکھا ۔
"شہیر مجھے سامنے کینٹین سے ایک پانی کی بوتل لا دو گے ۔یہ تو ختم ہو گیا ہے ۔"بینچ پر رکھی پانی کی بوتل کو دیکھا تھا جس میں تھوڑا سا پانی باقی بچا تھا ۔سر ہلا کر شہیر اٹھ کھڑا ہوا ۔مرتضیٰ نے جیب میں سے والٹ نکال کر پیسے اسے تهمائے ،وہ سست روی سے آگے بڑھ گیا ۔کچھ دیر وہ اسکے ذرا دور جانے کا انتظار کرتا رہا پھر رقيه خالہ کی طرف متوجہ ہوا ۔
"آنٹی آپ مجھے غلط مت سمجھیے گا اور نہ ہی میں آپ لوگوں کے فیملی میٹرز میں انوالو ہونے کی کوشش کر رہا ہوں ۔مگر شہیر سے اک انسیت سی ہو گئی ہے اس لئے خود کو یہ کہنے سے روک بھی نہیں پا رہا ۔شہیر کے ساتھ کوئی مسئله ہے کیا ۔اسے آج سے پہلے اتنا ڈل ،اتنا اداس میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔"ایک ہاتھ میں دوسرا ہاتھ لئے وہ پر سوچ نظریں مگر فکر مند نظریں ابھی بھی دور کینٹین کی طرف جاتے شہیر پر گاڑھے ہوئے تھا ۔رقيه خالہ نے اسے دیکھتے جیسے جانچنے کی کوشش کی تھی آیا شہیر نے اسے کیا بتایا تھا اور کس حد تک بتایا تھا ۔تبھی تو وہ یوں استفار کر رہا تھا اور انہیں تو وہ ویسے بھی بڑا پسند تھا یوں ہی تو نہیں شہیر کے اسکے پاس بیٹھنے اور باتیں کرنے پر انہیں کبھی اعتراض نہ ہوا تھا ۔ گہرا سانس بھرتے انہوں نے افسوس سے سر جھٹکا ۔
"اسکا کم بخت باپ اسکی پیدائش سے پہلے بھاگ گیا تھا پھر کبھی واپس نہیں آیا ۔میری بیٹی نے اسکی پرورش میں کوئی کمی نہیں آنے دی مگر پھر بھی باپ کی جگہ تو کوئی اور رشتہ نہیں لے سکتا پھر چاہے ماں ہی کیوں نہ ہو ۔یہ تو بچہ ہے ابھی نا سمجھ ہے ،ان پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا بس ایک ہی ضد پر اڑا ہوا ہے ،بابا بابا کی رٹ لگائی ہوئی ہے ۔وہ کل موا اس قابل ہوتا تو منہ چھپا کر بھاگتا ہی کیوں ۔زندگی برباد کر کے رکھ دی میری بچی کی بھی ۔"دو پٹے سے آنکھیں رگڑتے اگر اس لمحے صلہ انہیں یوں کسی اجنبی کے سامنے دکھڑا سناتے دیکھ لیتی تو آگ بگولا ہو کر رہ جاتی ۔مرتضیٰ نے تاسف بھرے دکھ سے پانی کی بوتل لے کر آتے شہیر کو دیکھا تھا ۔
"مجھے افسوس ہے آنٹی جو کچھ آپ کی بیٹی کے ساتھ ہوا ۔آپ پلیز شہیر کا خیال رکھیں وہ کافی ڈسٹرب لگ رہا ہے ۔"متوحش سا کہہ کر وہ چپ کر گیا تھا ۔رقيه خالہ نے بھی سر کو اثبات میں جنبش دی تھی ۔تب تک شہیر انکے قریب پہنچ چکا تھا ۔مرتضیٰ کو بوتل تهمائی تھی ۔
"چلیں بیٹا ۔"رقيه خالہ نے اسکے شانے پر بازو رکھتے کہا تو وہ سر ہلاتا اپنا بیگ اٹھانے جھکا ۔
"اللّه حافظ شہیر ۔"مرتضیٰ اسے دیکھ کر مسکرایا تھا ۔بدلے میں شہیر نے بھی مسکرانے کی کوشش کی تھی مگر یہ مسکراہٹ معمول کے جتنی روشن اور چمکدار نہیں تھی ۔
مرتضیٰ نے نظروں کے اوجهل ہونے تک انہیں اپنی نگاہوں کے حصار میں رکھا تھا ۔انکے منظر سے ہٹ جانے پر وہ روز کی طرح وہاں سے چلا نہیں گیا تھا بلکہ وہیں بینچ پر بیٹھ گیا تھا ۔چہرے پر سوچ و ملال کےسائے ڈھلتے سورج کے ساتھ بڑھتے جا رہے تھے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات کو دودھ کا گلاس اسکے سامنے رکھتے صلہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا تھا ۔اس نے چپ چاپ گلاس اٹھا کر منہ سے لگایا تھا۔صلہ چند لمحے اسکے بولنے کا انتظار کرتی رہی تھی مگر پھر اسے خموشی سے دودھ پیتے دیکھ کر رک نہیں سکی ۔
"رکو شہیر ۔میں ہنی ڈالنا بھول گئی تھی شاید میں ڈال لاتی ہوں ۔"شہیر نے اسی خموشی سے دودھ کا گلاس اسے واپس کر دیا تھا ۔بجھے دل کے ساتھ وہ کچن کی طرف بڑھ گئی تھی ۔گویا اسے بلانے کی یہ کوشش بھی ناکام رہی ۔اس نے جان بوجھ کر دودھ میں شہد نہیں ڈالا تھا اس امید پر کہ وہ اس سے کہے گا "ماما آپ ہنی ڈالنا کیسے بھول سکتی ہیں آپ جانتی ہیں مجھے اسکے بغیر دودھ ٹیسٹی نہیں لگتا ۔"
مگر اسکی ناراضگی تو ہنوز برقرار تھی ۔جو وہ اس سے بات بھی نہیں کر رہا تھا ۔پچھلے دو دن سے وہ دیکھ رہی تھی ۔وہ اسکی ساری باتیں مان رہا تھا ۔اسکی بات کا جواب بھی دے رہا تھا مگر خود سے اسے مخاطب نہیں کر رہا تھا ۔اور ناراضگی کا یہ اظہار اب صلہ کی طبیعت پر بڑا نا گراں گزر رہا تھا ۔
رات کو ایک بار پھر سے وہ رقيه خالہ کے کمرے میں جا گھسا تھا ۔وہ اسکے پیچھے آئی تھی ۔خالہ واش روم میں تھیں ۔
وہ بیڈ پر بیٹھا خود پر چادر پھیلا رہا تھا ۔صلہ کی موجودگی پا کر بھی وہ اسکی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا جو ہونٹ بھینچ کر سینے پر دونوں بازو لپیٹے اسکی حرکات و ساکنات ملا خطہ کر رہی تھی ۔
"شہیر اپنے کمرے میں چلو ۔"اسکے لیٹنے پر اس نے آواز کو نرم رکھتے کہا تھا ۔جواب موصول نہیں ہوا تھا ۔وہ یوں ہی کروٹ لئے رہا ۔
"شہیر ۔سنائی نہیں دیا ماما کیا کہہ رہی ہیں ؟اپنے کمرے میں چلو ۔"اس بار آواز میں ذرا سختی در آئی تھی ۔وہ ہنوز پڑا رہا ۔ایک گہرا سانس خارج کرتے صلہ نے اپنے ماتھے کو دائیں ہاتھ سے چھوا تھا پھر ضبط کرتے آگے بڑھ کر اسکے عین سامنے کھڑی ہوئی جو سختی سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھا ۔
"میں دیواروں سے نہیں تم سے بات کر رہی ہوں شہیر ۔بس بہت ہوا ۔دو دن سے یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے اب اسکے ڈراپ سین کا وقت ہے ۔اس لئے شاباش چپ چاپ اٹھو اور میرے ساتھ چلو ۔"اسکے اوپر سے چادر اتاری تو وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر بیٹھا تھا ۔دبا دبا غصہ آنکھوں میں لئے وہ اسے بے خوفی سے دیکھ رہا تھا ۔اس طرح کے اسکا تنفس تیز ہوتا جا رہا تھا ۔
"مجھے بھی آپ کی کوئی بات نہیں سننی جس طرح آپ میری بات نہیں سنتی ہیں ۔"اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ تیز آواز میں بولا تھا ۔صلہ کو غصہ آیا ۔
"شہیر اب تم بد تمیزی کر رہے ہو ۔"مٹھی بھینچ کر صلہ نے اسے سختی بھرے انداز میں سرزنش کی تھی ۔
"میں بد تمیزی نہیں کر رہا ۔مگر اب جب تک آپ میری باتوں کا جواب نہیں دیں گی میں بھی آپ کو کسی بات کا جواب نہیں دوں گا ۔"نظریں چرا کر نیچے کرتے ہوئے اسکی آواز اب پہلے جتنی اؤنچی نہیں تھی ۔
"تو اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ ماں سے سوال جواب کرو گے ہاں ۔"صلہ دونوں بازو سینے پر باندھتی ،سر کو ہلاتے ہوئے تکلیف بھری نظریں اس پر جمائے ہوئے تھی ۔
شہیر نے اس بار کچھ نہیں کہا تھا یوں ہی منہ پھلائے بیٹھا رہا ۔گویا وہ اپنی بات پر قائم تھا ۔وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر گویا ہوئی ۔
میں آخری بار تم سے کہہ رہی ہوں تم چل رہے ہو یا نہیں ؟"
اسکی بات پر شہیر اٹھ کر بستر پر کھڑا ہوا تھا ۔چہرہ اوپر اٹھایا تو وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا ۔
"آپ بالکل بھی اچھی ماما نہیں ہیں ۔آپ کی وجہ سے کل کلاس میں سارے بچے مجھ پر ہنسے ۔کیوں کہ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے بابا کیسے دکھتے ہیں ۔ٹیچر نے کہا شہیر آپ ہوم ورک کر کے نہیں لائے ۔مجھے ڈانٹا ،پہلی بار مجھے ڈانٹ پڑی آپ کی وجہ سے ۔سب نے اپنے فادر کے بارے میں بتایا اور میں چپ کھڑا رہا کیوں کہ مجھے انکے نام کے علاوہ انکے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا ۔طیب نے بریک ٹائم مجھ سے پوچھا کیا میرے بابا اللّه تعالیٰ کے پاس چلے گئے ہیں تو مجھے اسکا جواب بھی نہیں پتہ تھا ۔آپ بتا کیوں نہیں دیتیں مجھے ؟"وہ چینخ کر کہہ رہا تھا ۔آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر گال بھگو رہے تھے ۔صلہ کے بازو سینے پر سے کھل کر ہاتھ بے جان سے ہوتے پہلو میں آن گرے تھے ۔واش روم کے کھلے دروازے میں سے رقيه خالہ دل پر ہاتھ رکھے ہق دق سی اسے دیکھ رہی تھیں ۔جو اب تیز تیز سانس لیتے ،اپنی شرٹ کی آستین سے اپنے گال رگڑ رہا تھا ۔
صلہ کے چہرے کا رنگ فق پڑا تھا ۔وہ بالکل سپید چہرہ لئے اسے زخمی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ایسے جیسے بے جان بت ہو ۔رقيه خالہ اسکی طرف بڑھی تھیں مگر انکے قریب آنے سے پہلے ہی بے جان بت میں روح پھونک دی گئی تھی ۔وہ بنا کسی کی بھی طرف دیکھے تیز تیز قدم لیتی کمرے سے نکل گئی تھی ۔شہیر اسکے جانے کے بعد دهپ کر کے بیڈ پر بیٹھا اب بھی رو رہا تھا ۔رقيه خالہ نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔
"شہیر اس طرح بات کرتے ہیں ماں سے بیٹا ۔کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟اتنے تمیز دار بچے تھے میرے لگتا ہے کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔نظر اتارنی پڑے گی ۔"اپنے ماتھے کو فکر مندی سے چھوتے ہوئے کہتیں وہ اسے وہیں چھوڑ کر خود صلہ کے پیچھے گئی تھیں ۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ دروازہ بند کرتی بیڈ کے ساتھ اکڑوں حالت میں بیٹھی تھی ۔دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ کر اس نے ایک گهٹن آمیز سانس رک رک کر ہونٹوں سے خارج کیا تھا ۔آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہتے گال گیلے کرنے لگے تھے ۔اس نے ایک آخری کوشش کی تھی خود کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچانے کی ۔مگر وہ خود بھی جانتی تھی یہ جہد ناکام ہے ۔اور بس ہر کوشش ترک کرتے اس نے اپنا سر بازوؤں پر رکھتے خود کو رونے کی اجازت دے دی تھی ۔
رقیہ خالہ نے کمرے میں داخل ہوتے دکھ سے اسے دبی دبی آواز میں روتے دیکھا تھا ۔چل کر اسکے قریب آتے وہ بیڈ کے کنارے ٹک گئیں ۔ہاتھ بڑھا کر اسکے بھورے بالوں پر رکھا تھا ۔مگر اس نے پھر بھی سر نہیں اٹھایا تھا ۔نہ ہی اسکے رونے کی شدت میں کوئی کمی آئی تھی ۔
"وہ بچہ ہے صلہ ۔تم اسکی باتوں پر اپنا جی برا مت کرو ۔"
اسکے سر کے بالوں کو سہلاتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں جب ایک زكام زدہ سی سانس کھینچتے اس نے سر اٹھایا تھا ۔
"اس نے کہا میں اچھی ماں نہیں ہوں ۔میری ہر ممکن کوشش کے بعد بھی میں اسکے لئے اچھی ماں نہیں بن پائی خالہ ۔"کسی غیر مرئی نقطے کو دهندلائی ،پانیوں سے بھری سبز آنکھوں سے دیکھتی وہ یاسیب بھری آواز میں بول رہی تھی ۔رقيه خالہ نے پر زور انداز میں سر کو نفی میں ہلایا ۔
"وہ غصے میں ایسے بول گیا ہے ناراض ہے ناں ابھی ۔بعد میں دیکھنا کیسے خود آ کر تم سے معافی مانگے گا ۔جانتی نہیں ہو کیا اسے تم صلہ جو یوں اسکی باتیں دل سے لگا رہی ہو ۔"
صلہ اب بھی بہتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔