Urdu Romantic Novels
1
Posts
1
Users
0
Reactions
186
Views
Topic starter
12/08/2024 8:01 pm
قسط نمبر: 7
ضروری نہیں ہر ٹوٹی چیز جڑ جائے ۔اور اگر جڑ بھی جائے تو بھی بعض دراڑیں ایسی رہ جاتی ہیں جو انکی ہئیت کو پہلے جیسا رہنے نہیں دیتیں ۔پھر چاہے کتنی بھی کوشش کر لی جائے وہ پہلے سی خوب صورت اور مکمل نہیں رہتیں ۔"
نرمی سے کہتے ہوئے اسکا گال انگشت شہادت سے چھوتا وہ آخر میں ہلکا سا مسکرایا تھا ۔صلہ اسکے مبہم سے انداز پر الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھتی رہی تھی ۔وہ عجیب تھا یا صرف اسکا وہم تھا ۔مگر دونوں صورتوں میں یہ بات اسکے لئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی جس کا اندازہ اسکے چہرے سے لگانا مشکل ہرگز نہیں تھا ۔حیدر کی ذیرک نگاہیں بھی بھانپ گئیں تھی۔
"ایم سوری ۔ کافی ان رومینٹک آغاز ہوا ہے آج کی اس خوب صورت رات کا ۔کبھی کبھی چیزیں آؤٹ آف وے بھی چلی جاتی ہیں ۔میرے خیال میں مجھے ایک اور کوشش کرنی چاہیے ۔یہی سے سٹارٹ لوں یا نئے سرے سے باہر جا کر دوبارہ کمرے میں آؤں ؟"
اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے وہ اب کی بار بدلے ہوئے لب و لہجے میں کہہ رہا تھا ۔صلہ نے دل میں جنم لیتے بہت سارے بے مطلب اندیشوں سے فرار حاصل کرنا چاہی تھی ۔
اور ہر خدشے کو جھٹک کر وہ پورے دل سے مسکرا دی تھی ۔حیدر نے گرم جوشی مگر نرمی سے اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں مقید کیا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
حیدر کے پیرنٹس اگلے دن ہی صبح صبح واپس چلے گئے تھے ۔وہ ایئر پورٹ انہیں چھوڑنے گیا تھا ۔صلہ کو اس نے ساتھ چلنے کا نہیں کہا تھا اور نہ ہی وہ خود کہہ پائی تھی ۔حالانکہ اس کا خیال تھا اسے ساتھ جانا چاہیے تھا ۔پیچھے اس نے جہانگیر کو کال کی تھی ۔کافی دیر تک ان سے باتیں کرتی رہی ،پھر لیونگ ایریا میں آ کر بیٹھتی وہاں موجود میگزین دیکھنے لگی ۔بارہ کے قریب وہ واپس آیا تھا اور اپنے کمرے میں بند ہوتا سو گیا تھا اور وہ بے مقصد ہی گھر میں گھومتی رہی تھی ۔ملازمہ نے اس سے دوپہر کے کھانے کا پوچھا تھا اور اس نے جو مرضی ہے بنا لو کہہ کر جیسے جان چھڑائی تھی ۔
وہ دو بار کمرے میں گئی تھی اور وہ بے سدھ پڑا سویا ملا تھا ۔صبح کمرے سے جب وہ نکلا تھا تب وہ سوئی ہوئی تھی ۔انکل آنٹی کے جانے کی اطلاع بھی ملازمہ نے آکر اسے دی تھی اور وہ انہیں سی آف کرنے باہر گئی تھی ۔بنا اس سے کوئی بھی بات کیے وہ چلا گیا تھا اور واپسی پر بھی اس نے صلہ سے کوئی بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی ۔وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے انجان تھے ۔ایک دوسرے کی عادات سے نا واقف تھے مگر پھر بھی صلہ کو اسکا یوں خود کو صبح سے نظر انداز کرنا اندر ہی اندر چھبا تھا ۔نئی نویلی دولہن سے اب ایسی بھی کیا بے اعتنائی ۔جبکہ کل رات ہی وہ اسے پا کر اپنی بے پناہ خوشی کا کھل کر برملا اظہار کر چکا تھا ۔
بوجھل دل کے ساتھ وہ بے زار سی ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ گئی تھی ۔ملازمه نے اس سے کھانا لگانے کا پوچھا تھا مگر وہ انکار کر گئی ۔اسے یاد آیا تھا صبح بھی اس کے اکیلے ہی ایک کپ چائے ناشتے میں لیا تھا اور اب بھوک بھی لگ رہی تھی مگر اک بے نام سی اداسی اس کے گرد حصار بناتی اسے باقی سبھی حسیات سے محروم کر رہی تھی ۔
ساڑھے تین کے قریب وہ کمرے سے باہر نکلا تھا ۔وائٹ کالر شرٹ اور نیلی جینز میں بڑی دل جمعی سے نم بال سیٹ کیے وہ اسے دیکھ کر مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا ۔صلہ نے بس ایک نظر اس پر ڈالی تھی ، واپس سے ٹی وی کی جانب دیکھتے اتنی دیر میں پہلی بار وہ پوری طرح سے سكرین کی جانب متوجہ تھی ۔وہ آ کر بڑے بے تکلف سے انداز میں اسکے پہلو میں بیٹھا تھا ۔
"کیا دیکھا جا رہا ہے ؟"اسکی طرف گردن گھما کر دیکھتے وہ دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا ۔صلہ کو بے طرہ غصہ آیا جسے وہ پی گئی تھی ۔
"میوزک کنسرٹ چل رہا ہے ۔"پہلی بار جیسے اس نے خود بھی غور کیا تھا ۔بنا نظر ہٹائے بولی تو حیدر نے سر ہلاتے اسکے ہاتھ سے ریموٹ لے لیا تھا ۔سامنے سکرین پر کوئی پاپ میوزک بینڈ تھا جو لائیو کنسرٹ میں پر فارم کر رہا تھا ۔
"ان اچھلتے کودتے انسان نما خلائی مخلوقات کو تم کافی دیر سے دیکھ رہی ہو ۔اب تھوڑی دیر مجھے بھی دیکھ لو ۔"
ٹی وی بند کرتے وہ اسکی طرف جھکا ہوا کہہ رہا تھا ۔صلہ نے خفگی بھری نظریں اسکے چہرے پر جمائی تھیں ۔وہ تو یوں گلہ کر رہا تھا جیسے صبح سے وہ نہیں بلکہ صلہ اسے نظر انداز کر رہی ہو ۔
"یہ میرا فیورٹ میوزیکل بینڈ ہے ۔اور مجھے پورا شو دیکھنا ہے ۔آپ ریموٹ واپس کریں ۔"حیدر کے ساتھ ساتھ جیسے اس پر بھی ابھی ابھی انکشاف ہوا تھا کہ وہ بینڈ اسکا فیورٹ ہے ۔جس کے نام سے بھی وہ بمشکل آدھا گھنٹہ پہلے متعارف ہوئی تھی ۔
"تم ان فرنگی نمونوں کے لئے اپنے چوبیس گھنٹے کے برانڈ نیو شوہر سے بحث کر رہی ہو صلہ ؟"ریموٹ صوفے پر دوسری طرف رکھتے وہ پوری طرح گھوم کر اسکی جانب مڑتا ملامتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ایک ہاتھ صلہ کے پیچھے صوفے کی پشت پر رکھا ہوا تھا ۔جس سے وہ کچھ اور بھی اسکے نزدیک ہو گیا تھا ۔اسکی قربت ،اسکے وجود سے پھوٹتی بھینی بھینی سی باڈی اسپرے کی مہک وہ غیر محسوس کن انداز میں تھوڑا سا پیچھے کی جانب سرکی تھی ۔
"میں بحث نہیں کر رہی صرف ایک بات کہی ہے ۔"اپنا ڈگمگاتا اعتماد وہ بحال کر چکی تھی ۔اسکا اتنا ٹھس سا انداز حیدر نے ماتھے پر بل لئے دیکھا تھا ۔اگلے ہی لمحے وہ سیدھا ہو کر بیٹھتا صوفے کی پشت سے اپنا ہاتھ ہٹا گیا تھا ۔چہرے کے خدوخال یک بار کھچاؤ کا شکار ہونے لگے تھے ۔
"اوکے ۔یہ رہا ریموٹ ۔کیری آن اینڈ انجوائے یور "فیورٹ" بینڈز کنسرٹ ۔"
ریموٹ اٹھا كر اسکی گود میں رکھتا رکھائی سے کہتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
"سمیرا !کھانا لگا دیں پلیز ۔"وہیں سے قدرے بلند آواز میں پکارتا وہ واپس کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔اور پیچھے وہ ہق دق سی ہونقوں کی طرح اسکی پشت دیکھتی رہی تھی ۔
وہ اتنی سی بات پر یوں روڈ ہو کر اٹھ گیا تھا اور خود جو صبح سے اسکے ساتھ کر رہا تھا وہ کس کھاتے میں جاتا تھا پھر ؟۔کچھ دیر بعد وہ واپس باہر آیا تھا اس بار اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی ۔وہ ابھی تک یوں ہی سر جھکائے ہاتھ میں ریموٹ پکڑے بیٹھی تھی ۔ٹی وی آن نہیں کیا تھا ۔اسکے پاس سے گزر کر وہ ڈائنگ ہال میں چلا گیا تھا ۔جھوٹے منہ بھی اسے کھانے کا پوچا تک نہیں تھا ۔دل کا بوجهل پن کچھ اور بڑھا تھا تو آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی تہہ بننے لگی تھی ۔
"صلہ بی بی ؟"سمیرا کی آواز پر وہ سر اٹھا کر خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔
"صاحب آپ کو بلا رہے ہیں ۔آ کر کھانا کھا لیں ۔"کہہ کر بنا اسکے جواب کا انتظار کیے وہ کچن کی طرف چل دی تھی ۔
صلہ کے گلے میں نمکین پانی گھلنے لگا تھا ۔یہ بات وہ اسے خود بھی تو کہہ سکتا تھا ۔مگر اس نے نہیں کہا ۔دل میں اک اور گرہ سی پڑنے لگی تھی ۔صبح سے نجانے کتنی گرہیں لگ چکی تھیں ۔لاشعوری طور پر وہ اس سے بہت سی توقعات وابستہ کر چکی تھی جن پر وہ پورا نہیں اتر رہا تھا اور یہ بات اسے اس سے بدظن کر رہی تھی ۔کچھ دیر وہ وہیں بیٹھی سوچتی رہی تھی آیا اسے جانا چاہیے یا نہیں ؟پھر پیٹ کے دہائی دینے پر بے دلی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
جس لمحے اس نے ڈائینگ ہال میں قدم رکھا تھا ۔حیدر نے اسکی طرف دیکھا تھا ۔اس نے ابھی تک کھانا شروع نہیں کیا تھا ۔پلیٹ سامنے رکھی تھی اور وہ دونوں کہنياں ٹیبل پر جمائے دونوں ہاتھوں کی باہم مٹھی بنائے ان پر اپنی ٹھوڑی ٹکائے ہوئے تھا ۔
"صلہ یہاں آ جاؤ ۔"اسے وہیں آخری والی کرسی کھینچتے دیکھ کر اس کی تحکم آمیز آواز ابھری تھی ۔صلہ نے کرسی کی پشت پر رکھا ہاتھ روک کر نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو خود سربراہی کرسی پر براجمان اسے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔
بنا کچھ کہے وہ کرسی واپس اپنی جگہ دهكیل کر وہ اسکی بتائی ہوئی کرسی کی جانب چل دی تھی ۔
"اٹس بیٹر ناؤ ۔"اسکے بیٹھنے پر کہتا وہ سالن کا ڈونگا اسکے آگے سركا گیا تھا ۔
"سمیرا نے بتایا تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔نیکسٹ ٹائم ایسی بیوقوفی مت کرنا ۔میری کھانے پینے کی کوئی خاص روٹین سیٹ نہیں ہے ۔کبھی کھایا تو کبھی نہیں کھایا ۔تم مجھے دیکھتی رہو گی تو بھوکی مر جاؤ گی جو میں بالکل نہیں چاہتا ۔"ڈونگے کا ڈھکن ہٹاتے وہ ساتھ میں بنا اسکی طرف دیکھے نارمل سے انداز میں کہہ رہا تھا ۔
"مجھے بھوک نہیں تھی ۔"بنا اسکی طرف دیکھے ہاتھ گود میں دھرے جیسے وہ اسے جتانا چاہتی تھی وہ اسکی منتظر نہیں تھی ۔
"ٹھیک ہے تمہیں بھوک نہیں تھی اس لئے تم نے کھانا نہیں کھایا ۔میں تمہیں بس انفارم کر رہا ہوں ۔"
کندھے اچکا کر اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے جیسے اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا تھا ۔اور اب یہ برداشت کی حد سے باہر ہونے لگا تھا ۔
حیدر نے مزید کوئی اصرار نہیں کیا تھا ۔وہ خموشی سے اپنی پلیٹ میں سالن نکال کر کھانا شروع کر چکا تھا ۔
صلہ کو اپنی وہاں موجودگی پر اب اعتراض ہونے لگا تھا ۔وہ آئی ہی کیوں تھی ؟اسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔ایک دن کھانا نہ کھانے سے کون سا اس نے مر جانا تھا ۔ہاتھ ابھی بھی گود میں دھرے تھے اور وہ اپنی لا متناہی سوچوں میں غرق کہیں کی کہیں نکلی ہوئی تھی ۔
"مجھے یہ شادی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔جھوٹا کہیں کا ۔رات کو کیسے کیسے دعوے کر رہا تھا اور اب اپنے اصلی رنگ ڈھنگ دکھا رہا ہے ۔ابھی باہر میری ذرا سی بٹی توجہ برداشت نہیں ہو پائی تھی اور اب جو خود مجھے سامنے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اسکا کیا ؟فرنگی نمونہ ہے خود بھی ۔پتہ نہیں کون سے میوزیم سے اٹھ کر یہاں چلا آیا ہے اور آ کر مجھ سے ٹکرایا ہے ۔"
دل ہی دل میں وہ اس سے بری طرح متنفر ہوتی ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔اسے یاد آیا تھا کیسے اس کے کبھی ناراض ہونے پر اسکے پاپا اسے مناتے تھے اور جب تک وہ کھانا شروع نہیں کرتی تھی وہ بھی ہاتھ روکے بیٹھے رہتے تھے ۔وہ غلط وقت پر دو غلط لوگوں کا موازنہ کر رہی تھی ۔مگر اس وقت اپنی کیفیت اسکی اپنی سمجھ سے بالاتر تھی ۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے والوں میں سے نہیں تھی مگر اس وقت اس کا ڈھیر سارا رونے کا دل کر رہا تھا ۔اور اس نے خود کو بالکل نہیں روکا تھا ۔پانی کا گلاس اٹھاتے حیدر کی غیر ارادی نگاہ اسکی جانب اٹھی تھی اور گلاس کی طرف جاتا ہاتھ رک سا گیا تھا ۔قدرے جھک کر اس نے یقین دہانی کرنی چاہی ،اور اگلے ہی پل وہ حیرت سے نیم واہ ہونٹوں کے ساتھ اسکا جھکا چہرہ اوپر کی جانب اٹھا رہا تھا ۔آنسوؤں سے بھیگے گال لئے وہ پانیوں سے پر آنکھوں کے ساتھ خفگی سے اسے دیکھنے لگی تھی جو اب اپنا ہاتھ اسکی ٹھوڑی کے نیچے سے ہٹا رہا تھا ۔
"تم رو رہی ہو صلہ ؟"بے یقینی بھرا شاک اسکی آواز میں نمایاں تھا ۔صلہ کے آنسوؤں میں کچھ اور روانی در آئی تھی ۔
"مائے گاڈ ۔تم لڑکیاں نمک کی بنی ہوتی ہو کیا یا پھر برف کی جو ذرا سی بات پر پگھلنے لگتی ہو ۔"وہ متاسف سا سر دائیں بائیں ہلا رہا تھا ۔صلہ نے اس بار غصے بھری نظروں سے اسے گھورا تھا ۔
"ہاں ساری غلطی تو ہم لڑکیوں کی ہوتی ہے ۔اور خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپکا ۔صبح سے آپ کیا کرتے پھر رہے ہیں ۔آپ کو ذرا بھی آئیڈیا ہے آپ خود کتنے عجیب ہیں ۔"روتے ہوئے وہ غصیلی آواز میں تیز تیز بول رہی تھی ۔حیدر کا ماتھا ٹھٹکا ، گردن کی گلٹی ڈوب کر ابھری تھی ۔
"عجیب سے کیا مراد ہے تمہاری ؟"نظریں اسکے چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے وہ پیچھے کی جانب ہو کر بیٹھا تھا ۔
صلہ نے دونوں ہتھیلیوں سے اپنے گال پونچھ ڈالے ۔
"عجیب سے میری مراد عجیب ہی ہے ۔آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھتے رہیں ۔"چٹخ کر کہتے وہ اٹھ کر جانے لگی تو سرعت سے حیدر نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا تھا ۔
"تم بیٹھ جاؤ صلہ ہم بات کر رہے ہیں ۔اس طرح سے بات ادھوری چھوڑ کر جانا مینرز کے خلاف ہوتا ہے ۔"اسکی آواز میں واضح ناپسندیدگی تھی ۔صلہ کا بھڑکنا یقینی تھا ۔ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے وہ بول اٹھی ۔
"اپنی دفعہ آپ کو میری چھوٹی چھوٹی باتوں پر مینرز یاد آ رہے ہیں اور خود جو آپ صبح سے کر رہے ہیں اس کے بارے میں کیا خیال ہے آپکا ؟"
"میں صبح سے ایسا کیا کر رہا ہوں جس کا مجھے خود آئیڈیا نہیں ہے ۔تم کھل کر بتاؤ گی کیا ۔"ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ وہ اسے واپس بٹھا چکا تھا ، اس بے مطلب کی بحث سے جیسے اب وہ بے زار ہونے لگا تھا ۔کوفت کے تاثرات اسکے چہرے پر بڑے نمایاں تھے ۔اور اسکے یہی انداز صلہ کو متوحش کرنے کو کافی تھے ۔
"آپ صبح سے مجھے ۔۔۔۔مجھے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں ۔جیسے میں یہاں ہو کر بھی یہاں نہیں ہوں آپ کے لئے ۔اور یہ کتنا امبرسنگ ہے آپ کو پتہ بھی ہے ؟میرے لئے یہ نئی جگہ ہے ،آپ سے تعلق نیا ہے اور آپ مجھے یوں ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے تیس سالوں کی رفاقت کے بعد آپ مجھ سے شدید بے زاریت کا شکار ہوں ۔"
کہتے ہوئے اس کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی بھرا گئی تھی ۔دوسری طرف اسکی بات سنتے حیدر کے تنے ہوئے اعصاب پر سکون حالت میں لوٹ آئے تھے ۔ایک گہرا سانس خارج کرتے اسکے چہرے پر اب اضطراب کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا ۔
"بس اتنی سی بات ۔"
اس نے تو کہہ دیا تھا مگر صلہ کے دل پر یہ بے فکری سے کہے الفاظ پتھر کی مانند لگے تھے ۔اس پر غصہ تو آیا ہی تھا ساتھ خود کو بھی ملامت کی تھی ۔بھلا کیا ضرورت تھی اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے اس سے یوں منہ اٹھا کر سب کہنے کی ۔جبکہ اسے کوئی خاص فرق پڑا بھی نہیں تھا ۔رونے کے باعث سرخ ہوا چہرہ سبکی کے احساس سے کچھ اور بھی تمتما اٹھا تھا ۔اس بار وہ خاموش رہی تھی ۔مزید الفاظ کا ضیاء کرنے سے بہتر یہی تھا ۔
"دیکھو صلہ مجھے واقع ہی اندازہ نہیں تھا اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں تمہیں اس طرح سے ہرٹ کریں گی ۔میں ویسے بھی کم بولتا ہوں مگر میرا کم بولنا ایشو بن جائے گا یہ آئیڈیا نہیں تھا مجھے ۔"وہ ہلکے سے ہنسا تھا ۔صلہ نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا ۔جی چاہا کہہ دے بات اسکے بولنے کی نہیں اسکے رویے کی ہو رہی ہے مگر پھر بھی اسکی خموشی نہیں ٹوٹی ۔
"چلو مان لیتے ہیں میں نے صبح سے تم سے بات نہیں کی اور یہ بالکل سچ ہے ایسا ہی ہوا ہے ۔لیکن یہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا ۔صبح بات نہیں کر سکا کیوں کہ مجھے جلدی تھی میں نے موم ڈیڈ کو ڈراپ کرنا تھا ایئر پورٹ ۔واپسی پر نیند سے برا حال تھا تب میں صرف سکون سے سونا چاہتا تھا ۔اور تم نے خود سے کیا کیا سوچ لیا یار ۔میں کیوں تمہیں جان بوجھ کر نظر انداز کروں گا ؟کوئی وجہ بھی تو ہو ۔شام میں اٹھ کر میں نے ہی بات کی تھی نا تم سے ۔تو اگر اگنور کرنا ہوتا تو پہل کیوں کرتا ؟ تم لڑکیاں کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ری ایکٹ کرنے لگتی ہو لائک سیریسلی ؟"
کھانا وہ قریباً کھا چکا تھا پلیٹ سامنے سے ذرا ہٹاتے وہ دونوں بازو میز پر رکھے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جو بار بار پلکیں جھپک رہی تھی ۔آنکھیں اب پانیوں سے لبریز نہیں تھیں مگر پلکوں کی نمی اب بھی باقی تھی ۔بنا کسی قسم کے میک اپ کے وہ سادہ سے انگوری رنگ کے کاٹن کے سوٹ میں روئی روئی سی اور بھی پیاری لگنے لگی تھی ۔حیدر چند لمحے مبہوت سا اسے دیکھتا رہا تھا ۔صلہ کو اسکی اتنی لمبی چوڑی وضاحت سن کر کچھ افاقہ سا ہوا تھا ۔
"آپ بار بار یہ مت کہیں ۔لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں اور وہ بے وجہ ری ایکٹ نہیں کرتیں ۔"اس کی کیفیت سے قطع نظر وہ بضد سی کہہ رہی تھی ۔حیدر کے ہونٹوں کے کناروں میں ہلکا سا تبسم آ کر کھیلنے لگا ۔
"ٹھیک ہے مگر میرا تجربہ نہیں رہا کبھی لڑکیوں کا ۔اس لئے مجھے تھوڑا عجیب سا لگ رہا ہے ۔"وہ جیسے اسکی بات کو مذاح میں لے رہا تھا ۔اور لفظ عجیب صلہ کو اس عجیب ترین شخص کے منہ سے سن کر کچھ اور بھی عجیب لگ رہا تھا ۔
"تو پھر آپ کو کسی لڑکی سے شادی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔"برا مناتے ہوئے کہتی اب وہ پہلے سی اپ سیٹ نہیں لگتی تھی ۔حیدر کا قہقہہ گونجا تھا ۔
"نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے شادی تو مجھے لڑکی ہی سے کرنی تھی ۔"سر ہلا کر مدبر سے انداز میں کہتا وہ اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر رہا تھا ۔اور یہ بلا شبہ صبح سے اب تک کی پہلی مسکراہٹ تھی جس پر اسکا دل بھاری نہیں تھا ۔
"یہ اب بہتر لگ رہا ہے ۔"اسکے مسکراتے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ توفیفی انداز میں گویا ہوا تھا ۔صلہ کے دل سے رہی کلفت بھی جانے لگی تھی ۔
"چلو اب کچھ کھا لو پہلے پھر تمہیں تمہارے پاپا سے ملوا لاتا ہوں ۔"وہ اب سالن خود سے اسکی پلیٹ میں نکالنے لگا تھا ۔صلہ نے انکار نہیں کیا تھا ۔دل کی حالت ذرا بہتر ہوئی تو بھوک ایک دم سے چمک اٹھی تھی ۔
"شاید یہ ٹھیک کہہ رہا ہے میں ہی تھوڑا اؤور ری ایکٹ کر رہی ہوں ۔ورنہ بھلا یہ مجھے اس طرح نظر انداز کیوں کرے گا ۔"کن اکھیوں سے اسکی طرف دیکھتی وہ سوچ رہی تھی ۔جب روٹی اسکی پلیٹ میں رکھتا وہ اسے آنکھ کے اشارے سے کھانا شروع کرنے کا کہہ رہا تھا ۔وہ بنا کچھ کہے کھانا شروع کر گئی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
لیونگ ایریا کے پیچھے والی دیوار کے ساتھ رکھی دو کرسیوں کے درمیان دیوار سے جڑی اس چھوٹی میز کے آگے وہ کھڑا تھا ۔وہ اس کے عقب سے آئی تھی ،نظریں اسکے شانے کے پار سے نظر آتے ہاتھ میں پکڑے فوٹو فریم پر گئی تھی۔
"یہ میری مما کی فوٹو ہے ۔"مسکرا کر اسکے پہلو میں کھڑے ہوتے وہ بھی فوٹو فریم پر نگاہ جمائے ہوئے تھی ۔جہاں وہ خوب صورت سی عورت آٹھ سالہ صلہ کو گود میں بٹھائے مسکرا کر کیمرے کی آنکھ میں دیکھ رہی تھی ۔
اسکی آواز پر حیدر کی محویت ٹوٹی تھی ۔ وہ قدرے چونک کر گردن گھمائے اسکی طرف دیکھنے لگا جو دهاتی رنگ کے فینسی سوٹ میں ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ شام میں روتی ہوئی صلہ سے بالکل مختلف لگ رہی تھی ۔
سر کو ہلکی سی جنبش دیتے بنا کوئی تبصرہ کیے اس نے فریم واپس رکھ دیا تھا ۔اور پہلی بار صلہ کو اسکا انداز بہت سپاٹ سا لگا تھا ۔وہ الجھی نظریں اسکے چہرے پر مركوز کیے سوچ میں پڑ گئی تھی ۔
کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو کے بعد انکے درمیان تناؤ مٹ سا گیا تھا ۔وہ گھر سے بھی جلدی نکلے تھے ۔حیدر نے اسے راستے میں اسی کافی شاپ سے کافی پلائی تھی جہاں وہ شادی سے پہلے ملے تھے ۔گاڑی میں بھی وہ بہت خوش گوار موڈ میں اس سے باتیں کرتا رہا تھا ۔مگر اب جب سے یہاں آیا تھا ۔چپ چپ سا تھا ،جہانگیر اس سے جس گرم جوشی سے ملے تھے بدلے میں اسکے رویے میں ویسی پرتپاکی مقفود تھی ۔وہ کافی دیر انکے ساتھ بیٹھا رہا تھا ،انکی سبھی باتوں کا بہت ہی محتاط سے انداز میں وہ جواب بھی دیتا رہا تھا لیکن کھچا کھچا سا رہا تھا ۔لیکن اس بار اس نے یہ بات سر پر سوار نہیں کی تھی ۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو حیدر نے اسے بتایا تھا وہ کم گو ہے ۔ایسے میں ایک بار پھر سے وہ اؤور تھینكنگ کا شکار خود کو کرنا نہیں چاہتی تھی ۔
"ارے صلہ بیٹا !حیدر کو گھر دکھاؤ ۔کب سے یہاں بیٹھا ہوا ہے ۔بور ہو رہا ہو گا ۔"کچن سے نکل کر جہانگیر انکی طرف آئے تھے ۔صلہ کے ساتھ ساتھ وہ بھی انکی دیکھنے لگا تھا ۔
داماد پہلی بار شادی کے بعد گھر آیا تھا وہ خاص طور پر اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر رہنے نہیں دینا چاہ رہے تھے ۔گھر میں کچن و دیگر امور کے لئے ایک لڑکا رکھا ہوا تھا مگر پھر بھی وہ بار بار اسکے سر پر کھڑے ہو کر کھانا اپنی نگرانی میں بنوا رہے تھے ۔صلہ بھی ابھی انہی کے پاس سے کچن سے ہو کر آئی تھی ۔
"جی پاپا میں دکھاتی ہوں ۔آئیں حیدر ۔"وہ آگے بڑھ گئی تھی ۔جہانگیر نے ہولے سے اسکا شانہ تهپتهپایا تھا جس پر ہولے سے مسکراتا ہوا وہ صلہ کے پیچھے چل دیا تھا ۔اس نے بھی اسے پورے گھر کا ٹور کروایا تھا ۔ٹیرس سے لے کر اپنے بیڈ روم تک ۔وہ اسے کسی اچھے میزبان کی طرح ٹریٹ کرتی رہی تھی یوں جیسے لا شعوری طور پر وہ اسے اس احساس سے بچانا چاہ رہی تھی جس کا صبح سے اسکے گھر میں وہ شکار رہی تھی ۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آتے وہ رک گیا تھا ۔اس کے آگے چلتی صلہ نے جیسے اسکا ٹھہرنا بھانپ کر مڑ کر اسے دیکھا ۔وہ اسکی طرف متوجہ نہیں تھا ۔اسکی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا ،سیڑھیوں کے نیچے بنے اس بند دروازے کو وہ عجیب سی بے تاثر نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
"یہ بیسمنٹ کو جاتا ہے جسے اسٹور روم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔"وہ یوں ہی اسے بتانے لگی تھی ۔
"بچپن میں کبھی بیسمنٹ کے تاریک گھٹن زدہ ،اندھیرے کمرے میں بند ہونے کا تجربہ ہوا ہے صلہ ؟"وہ سرسری سے انداز میں پوچھتا اس دروازے کی جانب دو قدم اور بڑھا تھا جہاں سے صلہ اسکی پشت دیکھ سکتی تھی ۔
"نہیں ۔۔۔۔۔آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟"ہلکا سا ہنس کر وہ اسکے ساتھ ،پہلو میں کھڑی ہوئی تھی ۔جہاں سے اب وہ اسکا چہرہ دیکھ سکتی تھی ۔