Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 6

1 Posts
1 Users
0 Reactions
205 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

قسط نمبر:6

آپ بھی کمال کرتی ہیں خالہ ۔یعنی ایک پهندا گلے سے اتار کر ایک نیا ڈال بھی لوں ۔تو اگر ایسا ہی ہے تو اس بے نام سے رشتے کو گلے میں لٹکائے پھرنے میں کیا قباحت ہے کم از کم دوسروں کی راہ تو کاٹے ہوئے ہے اور کچھ مجھے چاہیے بھی نہیں ۔ایک تلخ تجربہ کافی ہے مزید بار بار کی زلالت نہیں اٹھائی جاتی مجھ سے ۔"دهیمی مگر سلگتی آواز میں قطعیت کی انتہا تھی ۔رقيه خالہ نے لا چاری سے اسے دیکھا تھا ۔آنکھوں میں اسکے لئے فکر ،ترحم اور شفقت کے ساتھ ساتھ تاسف بھی در آیا تھا ۔

"اپنے معاملے میں اتنی بے رحم مت بنو صلہ ۔کچھ تو ترس کھاؤ خود پر ۔پہاڑ جیسی زندگی ہے میں کب تک ساتھ رہوں گی بیٹا ۔آج مر گئی تو کیا کرو گی تم ۔"

"خالہ آپ جانتی ہیں مجھ پر آپ کی یہ ایموشنل بلیک میلنگ کبھی اثر انداز نہیں ہوتی ۔ہونے والی ہوتی تو کہیں سال پہلے ہو چکی ہوتی ۔اس لئے بار بار ایسے کہہ کر اپنی انرجی کیوں ویسٹ کرتی رہتی ہیں ۔"

وہ بڑی سخت جان ثابت ہوئی تھی خالہ پتہ نہیں کیوں اکثر یہ بھول جاتی تھیں اور پھر انہیں اپنی قوت صرف کرنے پر واقع ہی افسوس ہی ہوتا تھا ۔

"اپنا نہیں تو شہیر کا ہی سوچ لو ۔"لیکن ہمت ہارنے والوں میں سے تو وہ بھی نہیں تھیں ۔

"ابھی اتنے سوال کر رہا تھا مجھ سے ۔کیا جواب دوں میں اسے جب تمہارے پاس اس کے سوالوں کے جواب نہیں تو ۔تم جتنی بھی سر توڑ کوشش کر لو ۔اپنا آپ مار لو مگر باپ کی کمی سے جو خلا اسکی زندگی میں ہے وہ اپنی جگہ قائم رہے گی ۔اسی لئے کہتی ہوں بیٹا اسی کا سوچ لو ۔جان چھڑاؤ اس عذاب سے اور کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر شادی کر لو ۔شہیر کو بھی باپ مل جائے گا ۔اور تمہیں بھی ایک اچھا اور همدرد ساتھی جو تمہاری قدر کرے گا ۔"وہ خلاؤں میں خوابوں کے محل تعمیر کر رہی تھیں ۔صلہ کی ہنسی بڑی بے ساختہ سی تھی ۔خالہ نے اسے یوں بظاہر بے فکروں کی طرح مگر اندر سے کھوکھلی ہنسی ہنستے دیکھ کر گھورا تھا ۔

"اب اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے بھلا ۔"

"اف میری بھولی خالہ ۔۔۔۔ایک تو خود لطیفے سناتی ہیں اوپر سے ہنسنے بھی نہیں دیتیں ۔"ہنسی روک کر کہتے وہ ذرا توقف کے لئے چپ ہوئی ۔اگلے کچھ پلوں میں پوری طرح سنجیدگی کا لباده اوڑھے وہ کچھ دیر پہلے کی ہنستی صلہ سے بالکل مختلف نظر آتی تھی ۔

"آپ چاہتی ہیں میں تاریخ کو ایک بار پھر سے دہراؤں ؟تاکہ ایک اور شہیر ،حیدر بن کر ایک اور صلہ سے اسکے باپ کا کیا سود سمیت وصول کرے ۔زینب نے بھی تو یہی کیا تھا ۔پھر کیا ہوا ؟کیا جہانگیر ،حیدر کے لئے اسکا باپ بن پایا تھا ؟ . . . . . . . نہیں نا ۔یہ ظرف صرف عورت میں ہی ہوتا ہے وہ دوسری عورت کی اولاد کو بھی سینے سے لگا لیتی ہے مگر مرد اتنا جگرا نہیں رکھ پاتا خالہ کہ دوسرے مرد کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ لے ۔حیدر کا باپ تو اس دنیا سے ہی رخصت ہو گیا تھا مگر جہانگیر کے لئے پھر بھی وہ نا قابل قبول رہا تھا ۔شہیر کا باپ تو اس دنیا میں موجود ہے کوئی اور مرد کہاں اس کا باپ بن پائے گا جب اسکا خود کا باپ اس کا باپ نہیں بن سکا ۔اس لئے ۔۔۔۔یہ سبز باغ مجھے مت دکھائیں آپ ۔میری آنکھوں پر سہانے مستقبل کی پٹی باندھ کر مجھے ان دیکھی کھائی کی طرف مت دهكیلیں کہ میں گرنے کے بعد ہاتھ پیر بھی نہ مار سکوں جیسے زینب نہیں مار سکی تھی ۔اور پھر کیا ہوا تھا کتنی زندگیاں داؤ پر لگیں آپ کے سامنے ہی تو ہے سب ۔"

آواز میں رچی بسی تلخی ارد گرد کے ماحول میں بھی کڑواہٹ سی گھول گئی تھی ۔چہرے پر پتھریلے سے تاثرات آن ٹھہرے تھے جیسے وہاں سے کسی احساس کا کبھی گزر نہ ہوا ہو ۔رقیہ خالہ کی ساری دلیلیں ،ساری تاویلیں سہم کر چپ ہوتی گئی تھیں ۔

"تم سے بھلا باتوں میں پہلے میں جیت پائی ہوں جو آج جیت جاتی ۔"برے دل کے ساتھ ہار مانتے انہوں نے اس موضوع پر اپنے تئیں مٹی ڈالی تھی ۔

صلہ سر کو خفیف سا جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"اب کیا کروں ؟سوئے ہوئے کو ہی اٹھا لے جاؤں ۔"پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتے اسکے چہرے کے خدوخال اب بالکل نارمل سی حالت میں آ چکے تھے ۔جیسے کچھ کہا سنا ہی نه ہو ۔

"رہنے دو میرے پاس ہی بلکہ تم بھی یہیں سو جاؤ ۔"صلح دیتے وہ خود دوبارہ سے لیٹ گئیں ۔

"نہیں خالہ میں اپنے کمرے میں ہی سوؤں گی ۔اسے رہنے دیں یہیں ۔اللّه حافظ ۔"جھک کر اسکی پیشانی چومتی وہ کمرے سے نکل گئی تھی ۔

"کیا بنے گا اس لڑکی کا ؟"پیچھے اسی کو سوچتے خالہ کے چہرے پر تفکر کی لكیریں بڑی واضح سی تھیں ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

اپنے کمرے میں آ کر اس نے بیڈ پر بکھرا سامان سمیٹا تھا ۔شہیر کی چیزیں اسکے بیگ میں ڈالی تھیں ،اپنی آفس کی فائلز اور پیپرز کو سمیٹ کر سائیڈ پر رکھا ،بستر پر سے اٹھ کر صوفے پر تہہ شدہ رکھے کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھتے وہ لحظہ بھر کو رکی۔نظریں اس مقفل شدہ خانے پر جمی ہوئی تھیں جسے کھولے عرصہ بیت گیا تھا ۔بے وجہ ہی اوپر والے خانے سے چابی تلاش کر اس نے وہ خانہ کھول دیا ۔

اندر سے ایک فائل برآمد ہوئی تھی ۔اور ساتھ ایک چھوٹا سا باکس ،جنہیں لئے وہ بیڈ کے کنارے تک آتی وہاں ٹک سی گئی تھی ۔

باکس کو ایک طرف رکھے اس نے فائل کھولی تھی ۔سب سے اوپر گھر کے کاغذات تھے ۔پھر کچھ دوسرے شہیر کے پیدائشی سرٹیفیکیٹس اور دیگر ضروری ڈاکومنٹس تھے اور آخر میں۔۔۔۔اسکا نکاح نامہ تھا ۔جس پر ایک نظر بھر کر دیکھنا بھی اس نے گوارا نہیں کیا تھا ۔فائل بے دلی سے بند کرنے لگی تو نکاح نامے کے نیچے سے جھانکتے  اس پیپر نے اسکی ساری توجہ سمیٹی تھی ۔وہ جانتی تھی وہ کیا ہے مگر پھر بھی خود کو ہاتھ بڑھا کر دیکھنے سے روک نہیں سکی ۔

اب وہ پیپر اسکی آنکھوں کے عین سامنے تھا ۔کافی پرانا لگتا تھا کہ اب اسکی سفید سطح کچھ کچھ زردی مائل ہونے لگی تھی ۔اس پیپر کی خستہ خالی کے بر عکس اس پر کچی پینسل سے بنائے گے اسکیچ کی تازگی جیسے اب بھی قائم و دائم تھی ۔صلہ جہانگیر کا ہنستی آنکھوں والا اسکیچ جسے بنانے والے نے کمال مہارت سے بنایا تھا ۔ہر رنگ سے بے نیاز مگر کہیں رنگوں کی کہانی سناتا وہ مسکراتا چہرہ اور سب سے اہم اسکے ماتھے پر دائیں آنکھ کے قریب چوٹ کا وہ نشان جو چاند کی آدھی شکل کے جیسے دکھتا تھا بڑا واضح تھا ۔اتنا واضح تو شاید اسکے حقیقی چہرے پر بھی نہیں دکھتا ہو گا جتنی صفائی سے بنانے والے نے اسکو اجاگر کیا تھا ۔نیچے ایک کونے میں بڑے خوب صورت سے سائن کیے گئے تھے ۔وہ نام دوہرانا وہ چاہتی نہیں تھی اسی لئے نظریں پھیر کر اسے واپس فائل میں رکھتے سارے پیپرز ترتیب سے رکھے ،اور سختی سے فائل بند کر دی ۔باکس کو اٹھاتے ہوئے بے دھیانی میں اسکا ہاتھ لگا تھا وہ لڑھک کر نیچے جا گرا تھا ۔ذرا سی آواز پیدا ہوئی تھی اور پھر پہلے جیسا سناٹا پھیل گیا تھا ۔

اپنی اس بے قدری پر وہ زمین بوس ہوا کھل چکا تھا اندر سے کچھ چیزیں نیچے فرش پر گری تھیں ۔صلہ نے جھک کر باکس اٹھایا تھا پھر انگلیوں کے پوروں کی مدد سے نیچے پڑی چیزیں ۔

کمر سیدھی کرتی وہ دوبارہ پہلے کی پوزیشن میں بیٹھی تو اسکی ہتھیلی پر اب وہ واضح نظر آتی تھیں ۔ٹوٹا ہوا بندہا اور ٹوٹا ہوا بریسلٹ ۔اس باکس میں شاید ٹوٹ جانے والی چیزیں محفوظ کر کے رکھی گئیں تھیں جو شاید نا قابل مرمت تھیں یا پھر جنہیں جوڑنا وہ چاہتی نہیں تھی ۔اگر ایسا تھا تو وہاں ایک اور چیز کو بھی ہونا چاہیے تھا ۔اور تھا صلہ جہانگیر کا ٹوٹا ہوا دل ۔جو ٹوٹنے کے بعد دوبارہ جڑنے کے قابل نہیں رہا تھا اور اگر تھا بھی تو وہ اسے جوڑنا نہیں چاہتی تھی ۔اور جس غارت گر کے ہاتھوں یہ سب ٹوٹا تھا وہ نام آج بھی اسکے نام کے ساتھ جڑا تھا ۔جسے توڑنے کی صلہ نے کبھی خود بھی کوشش نہیں کی تھی ۔یہ محبت نہیں تھی ،یہ نفرت بھی نہیں تھی ۔یہ تو بے حسی کی انتہا تھی ۔وہ خود کو آخری حد تک آزمانے چلی تھی اس شخص کا ہونا ،نه ہونا  ،اسکا نام ،اسکی توڑی کوئی چیز چاہے وہ اسکے کان کا بندہا ہو ،وہ نازک سا گولڈ کا بریسلٹ ہو یا پھر سینے میں مقید دل ہو ۔۔۔۔اب اس پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے ۔دوبارہ باکس میں وہ ٹوٹی چیزیں منتقل کرتی وہ فائل اور باکس اٹھا کر مضبوط چال اور سپاٹ سے چہرے کے ساتھ الماری کی جانب بڑھ گئی تھی ۔اسکا ہر انداز چینخ چینخ کر اعلان کرتا تھا ، صلہ جہانگیر کو "حیدر شجاعت "نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

کچھ لوگ ہماری پر سکون ،شانت سی زندگی میں کسی آندھی طوفان کی طرح آن وارد ہوتے ہیں اور پھر ہر طرف خاک کا ،غبار کا ،تباہی کا منظر پیش کرتے چپکے سے نکل بھی جاتے ہیں ۔پیچھے کی زبوں حالی کو کبھی نه دیکھنے کے لئے ۔صلہ جہانگیر کی زندگی میں "حیدر شجاعت "ایسا ہی ایک طوفان بن کر آیا تھا ۔

یہ ان دنوں کی بات تھی جب اسکی ماما کی ڈیتھ کو کچھ ہی ماہ کا عرصہ بیتا تھا ۔وہ اچھی بھلی نظر آتی تھیں مگر اندر کے کھوکھلے پن نے انہیں وقت سے پہلے خالی پن کا شکار کر دیا تھا ۔اور کچھ خالی پن ایسے ہوتے ہیں جو جسمانی مشینری کو بڑی جلدی ناکارہ کر دیا کرتے ہیں ۔

ماں کے جانے کے بعد جہانگیر کا کروفر سے اٹھا رہنے والا سر پتہ نہیں کیوں صلہ کو جھکا جھکا سا لگنے لگا تھا ۔شانے پہلے جیسے توانا نه لگتے تھے شاید انکی کرختگی و تنفر کا سارا بوجھ زینب کے ناتواں کندھے ڈھو رہے تھے ۔وہ ڈھلک گئے تو انکی شان و تمکنت بھی پہلے سی نہیں رہی ۔

صلہ کا تھیسز چل رہا تھا اور جہانگیر ان دنوں زور و شور سے تلاش رشتہ کی مہم چلا رہے تھے ۔اکثر یونی سے واپسی پر گھر پر مہمان آئے ملتے تھے ۔وہ جی بھر کر بے زار ہوتی تھی ۔اتنا جلدی وہ یہ سب نہیں چاہتی تھی ۔ابھی ماں کو گزرے وقت ہی کتنا ہوا تھا جو وہ بھی باپ کو تن و تنہا چھوڑ کر چل پڑتی ۔مگر یہ بات وہ چاہ کر بھی جہانگیر کو سمجھا نہیں پا رہی تھی ۔انکے تو جیسے سر پر کوئی دھن سی سوار تھی جیسے وہ یک لخت ہی انکے لئے کوئی بہت بھاری ذمہ داری بن گئی ہو جس سے وہ جلد از جلد بری الذمہ ہو جانا چاہتے ہوں ۔انکی طبیعت کا ایک میلان تھا لاڈ پیار سب اپنی جگہ مگر بعض فیصلوں میں وہ بڑی دو ٹوک پوزیشن لیا کرتے تھے جس کے آگے نه تو کبھی زینب کی چلی تھی اور نه ہی صلہ کی ۔

یہاں تک بھی بات اسکے لئے چلو کسی حد تک قابل قبول تھی۔شادی کہیں قریب ہی ہو جاتی تو کم از کم وہ کسی حد تک انکے قریب رہ سکتی تھی  مگر اصل مسئله تب ہوا جب زیر غور لندن میں مقید حیدر کا پروپوزل آیا ۔میرج بیورو ک توسط سے آنے والا یہ رشتہ اس کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنا تھا ۔باپ کواکیلا چھوڑ کر اتنے دور جانا یہ خیال ہی مشکل ترین تھا ۔

وہ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھی ۔اب اگر وہ بھی اتنے دور جا بستی تو وہ تو بالکل اکیلے ہی رہ جاتے ۔مگر کہا جاتا ہے نا بیٹیوں کے نصیب کھول کر کس نے دیکھے ہوتے ۔اگر دیکھے جا سکتے تو جہانگیر مراد اپنے ہاتھوں سے اپنی دل عزیز بیٹی کو اس دشت ظلمت میں کبھی نه دھکیلتے ۔

جہانگیر مراد چاہتے تھے وہ ایک بار حیدر سے خود مل لے ۔اسکے پیرنٹس دو بار گھر آ چکے تھے ۔صلہ ان سے مل چکی تھی ۔وہ فیملی ہر لحاظ سے پرفیکٹ معلوم ہوتی تھی ۔چھوٹا سا خاندان ،عرصہ دراز سے لندن میں سیٹل ،حیدر انکی اکلوتی اولاد تھا ۔وہ اس سے كافی شاپ پر ملی تھی ۔پر اعتماد سی صلہ جہانگیر اس دن پتہ نہیں کیوں بار بار نروس ہو رہی تھی حالانکہ یہ اسکی ذات کا خاصا نہیں تھا ۔مگر سامنے بیٹھے شخص میں کچھ تو ایسا تھا جو اسے پر اعتماد رہنے کی راہ میں حائل ہو رہا تھا ۔شاید اسکی شخصیت کا طلسم تھا یا فقط اسکی آنکھوں کی مقناطیسیت ۔مگر اسکی سرسری سی نگاہ بھی عجیب طرح کی گہرائی لئے ہوئے تھی ۔

اس دن اس نے بلیک ٹوپیس زیب تن کر رکھا تھا ۔اور بلیک کپڑوں میں اس کے بھورے بال کچھ اور بھی نمایاں لگتے تھے ۔بھورے بال ،بھوری آنکھیں اور سرخ و سپید رنگت کے ساتھ پہلی نظر میں میں فارنر ہی لگتا تھا ۔مردانہ وجاہت کا اگر کوئی پیمانہ تھا تو حیدر شجاعت اس پر پوری طرح سے پورا اترتا تھا ۔

اس کے بر عکس صلہ نے وائٹ کلر کا سوٹ پہن رکھا تھا جس پر گلابی رنگ کے دهاگے کی کڑھائی ہوئی تھی ۔گلابی رنگ کے اسکارف میں اسکی گندمی رنگت نکھری سی لگتی تھی ۔

کافی آرڈر کر کے اس نے گلا کھنگار کر جیسے بات کا آغاز کرنا چاہا تھا ۔

"آئی تھنک ہمیں بات کر لینی چاہیے ۔اتنی دیر سے اس کافی شاپ کے در و دیوار دیکھ دیکھ کر مجھے اسکا انٹیرئیر بھی حفظ ہو گیا ہے ۔"دونوں ہاتھ میز کی سطح پر جمائے ،باہم مٹھی کی صورت جکڑ کر وہ تھوڑا آگے کی جانب ہو کر بیٹھا تھا ۔چہرے پر بے ضرر سی ،بالکل سادہ و رسمی سی مسکراہٹ تھی ۔صلہ نے ذرا بھر پہلو بدلا تھا ۔اتنا اسٹریٹ فارورڈ انداز اور ڈائریکٹ گفتگو شاید وہ توقع نہیں کر رہی تھی وہ ایک دم سے یوں کچھ کہے گا ۔

"آپ کو کچھ پوچھنا ہے یا کوئی بھی بات جو آپ کہنا چاہیں کہہ سکتی ہیں مس صلہ ۔"اب کی بار آواز میں نرمی کا تاثر بڑھا تھا ۔

"نہیں ۔"بنا سوچے سمجھے جس تیزی سے اس نے کہا تھا حیدر نے رک کر اسکی طرف بڑی فرصت سے دیکھا تھا ۔جو اسے جز بز کرنے کو کافی تھا ۔اپنے آپ پر بلا وجہ ہی غصہ آنے لگا تھا جسے فی الوقت وہ پی گئی تھی ۔

"میرا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔پوچھنے لائق تو ایز سچ کچھ نہیں ہے ۔پاپا چاہتے تھے ہمیں ایک بار مل لینا چاہیے تو بس۔۔۔۔۔دراصل میں نے کبھی سوچا نہیں تھا اس طرح اتنے دور کہیں اس طرح سے کوئی بات چل نکلے گی ۔میری ماما کی ڈیتھ کے بعد میں بھی اتنا دور چلی گئی تو انکا کیا ہوگا ۔"اب کی بار وہ پر سکون اور قدرے پر اعتماد سی لگتی تھی لہجے میں فطری سی اداسی اور فکر مندی تھی باپ کے لئے ۔آہستہ آہستہ اسکی ہچکچاہٹ دور ہوتی جا رہی تھی ۔ٹھیک ہے وہ پہلی بار اس طرح کسی سے مل رہی تھی اور بھی گھر سے دور ایک کافی شاپ پر ۔مگر اسکا مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ کوئی ڈری ہوئی ،دبو سی لڑکی تھی ۔

اسکی بات پر حیدر نے ہلکا سا سر ہلایا تھا ۔ویٹر کافی سرو کرنے لگا تو وہ خاموش ہو گیا ۔

"آپ کی بات اپنی جگہ صحیح ہے ۔لیکن آئی پرامس میں آپ کو ،آپ کے فادر سے الگ نہیں کروں گا ۔بیٹیاں تو ویسے بھی باپ کے زیادہ قریب ہوتی ہیں میں آپ کو ان سے دور نہیں کروں گا ۔آپ ہمیشہ انکے ساتھ ہی رہیں گیں ۔اور میری اس بات کا کیا مطلب ہے یہ آپ کو وقت بتائے گا ۔"عام سے انداز میں وہ نرمی سے کہہ رہا تھا ۔جیسے اسے ڈھارس دے رہا ہو۔نئے بننے والے تعلق کے ساتھ پچھلے تعلقات جوڑے رکھنے کا عندیہ دے رہا ہو ۔صلہ ہلکا سا مسکرا کر كافی کا مگ اٹھا چکی تھی ۔کچھ دیر تک خموشی رہی تھی ۔صلہ وہاں موجود ہر چیز کو دیکھ رہی تھی سوائے سامنے بیٹھے شخص کو چھوڑ کر ۔

"صلہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ؟"كافی کا سپ لیتے ،مگ واپس رکھتے وہ جیسے بہت سوچ سمجھ کر بول رہا تھا ۔صلہ کے ہاتھوں کی گرفت مگ پر کچھ اور بھی سخت ہوئی تھی ۔

"آپ ۔۔۔"اسکی طرف دیکھتے وہ رکا ۔کچھ متذبذب سا ،پھر ہلکا سا مسکرا دیا ۔

"آپ انکار مت کیجئے گا ۔"اور وہ جو بہت توجہ سے اسے سن رہی تھی ۔چہرے پر پھیلتے گلال کے ساتھ نظریں چرا گئی ۔

"آئی نو یہ آکورڈ سا لگتا ہے آپ سے اس طرح سے کہنا ۔۔۔۔۔مگر آپ سے شادی میرے لئے زندگی موت کا مسئله بن گئی ہے ۔"صلہ نے کچھ چونک کر اسکی طرف دیکھا تھا جو اسے دیکھتا اب بھی دهیما سا مسکرا رہا تھا ۔مگر پھر بھی کچھ تو تھا اس کے لب و لہجے میں جو عجیب تھا ۔نا قابل فہم ۔

"جی ؟"

"میں اپنے پیرنٹس کی اکلوتی اولاد ہوں ۔مما کا بس نہیں چلتا تھا وہ بچپن میں ہی میری شادی کر دیتیں ۔پچھلے دو سال سے کوئی پچاس رشتے تو وہ مجھے دکھا چکی ہیں مگر میں ہر بار دامن بچا کر نکل جاتا تھا مما اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں ۔مگر اس بار ۔۔۔۔۔اس بار میں خود بھی چاہتا ہوں وہ کامیاب ہو جائیں۔مما نے مجھے صرف آپ کی ایک بار تصویر دکھائی تھی  ۔آپ کی صرف ایک جهلک دیکھ کر مجھے لگا جیسے آپ ہی ہیں جو میری زندگی کا حصہ بن کر اسے اور خوب صورت بنا سکتی ہیں ۔"

دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اسے بولتے سن رہی تھی ۔جو کافی اچھی اور صاف اردو بولتا تھا ۔اور اپنے خیالات کے اظہار میں کسی پس و پیش کا شاید بالکل قائل نہیں تھا ۔

صلہ جواب میں کچھ کہنا تو دور ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکی تھی ۔مگر اسکے دل و دماغ کی کوری سلیٹ پر اس کی زندگی میں آنے والے اس پہلے شخص کا اظہار پسندیدگی بڑا گہرا تاثر چھوڑ کر گیا تھا ۔اگلے دو دن وہ اس کے کرسما کے زیر اثر رہی تھی ۔اور تیسرے دن جہانگیر مراد کے پوچھنے پر اس نے ہاں کر دی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

ایک ہفتے کے شارٹ نوٹس پر انکی شادی آناًفاناً طے پائی تھی ۔وجہ تھی حیدر کے پیرنٹس کو واپسی کی جلدی تھی ۔حیدر ابھی کچھ ہفتے یہی رہنے والا تھا اور وہ چاہتے تھے یہ نیک کام بھی جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ۔

سلور اور گرے امتزاج کی میكسی میں وہ پیاری  بھی خوب لگ  رہی تھی ۔ہلکی سی جیولری کے ساتھ نفاست سے ہوئے لائٹ سے میک اپ میں سجی سنوری وہ معمول سے کافی مختلف مگر حسین لگ رہی تھی ۔سارا وقت وہ باپ کو دیکھ کر دھیما سا مسکراتی رہی تھی ۔اپنے آنسوؤں کو بہنے کی بالکل اجازت نہیں دی تھی ۔باپ کی اداسی اسے پہلے بھی انکے مسکراتے چہرے کے پیچھے صاف نظر آ رہی تھی ایسے میں خود رو کر وہ انہیں مزید غمگیں ہونے سے بچانا چاہ رہی تھی ۔

آج سے ایک ماہ پہلے تک حیدر نام کا اسکی زندگی میں دور دور تک کوئی نام نشان تک نہ تھا اور اب وہ شخص اسکے تمام جملہ حقوق اپنے نام کروائے مختار کل بن بیٹھا تھا ۔یہ احساس ہر عام سی لڑکی کی طرح خوش کن تھا مگر کہیں اندیشوں میں تہہ در تہہ لپٹا ہوا ۔نئی شروعات ،نئے لوگ ،نئے رشتے اور ان سے جڑی بہت ساری توقعات ۔اس لمحے اسکی گھبراہٹ فطری سی تھی ۔

وائٹ شرٹ اور گرے تھری پیس میں جس لمحے وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھا تھا وہ اپنی لا محدود سوچوں میں جکڑی بری طرح سے چونکی تھی ۔ہونق پن لئے اسے دیکھا اور اگلے ہی پل اسکی موجودگی کا احساس پا کر نظریں جھکا گئی ۔دل کی دھڑکن یک بار تیز ہوتی چلی گئی تھی جس کی آواز اسکے کانوں میں بھی سنائی دینے لگی تھی ۔

"تھینک یو ۔"قطعی غیر متوقع الفاظ پر صلہ نے نا سمجھی سے اسکی طرف دیکھا تھا ۔جو چہرے پر سجی ہلکی سی مسرور کن مسکراہٹ کی چھپ لئے اور بھی وجیہہ لگنے لگا تھا ۔بالوں کو جیل کی مدد سے اچھے سے جمائے ہوئے وہ تمتماتی رنگت اور کھڑے نقوش کے ساتھ پوری شان سے سامنے بیٹھا تھا ۔

"میرے لئے ہاں کرنے کے لئے ۔"اسکے کہنے پر ہلکی سی جھینپ کا شکار ہوتی وہ نظریں جھکا گئی تھی ۔

"مجھے یہ اتنا آسان نہیں لگتا تھا مگر آسان ہوتا گیا ۔میں بہت خوش ہوں ۔"وہ نہ بھی کہتا تو بھی اسکے ہر انداز سے اسکے اطمینان و سکون کا پتہ چلتا تھا ۔آنکھوں سے پھوٹتی چمک غماز تھی جیسے کوئی بہت بڑا ہدف حاصل کر لیا ہو ۔اس وقت کوئی بھی اسے دیکھتا تو اسکے چہرے پر پھیلے سرشاری و خوشی کے تاثرات دیکھ کر صلہ جہانگیر کی قسمت پر رشک کرتا ۔

"یہ تمہارا گفٹ ۔۔۔کیا کہتے ہیں اسے کچھ ؟"جیب میں سے ایک باکس بر آمد کرتے وہ ہلکا سا ہنستا یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

"ہاں منہ دکھائی ۔۔۔۔۔کچھ ایسا ہی ہوتا ہے نا ۔"مخملی کیس کھولتا وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتا شریر سا کہہ رہا تھا اور اسکے ہاتھوں کی طرف دیکھتی صلہ کے ہونٹوں کو چھوتی مسکاں بے ساختہ پن لئے ہوئے تھی جو آہستہ آہستہ اب دبی دبی ہنسی میں بدلنے لگی تھی ۔وجہ تھی حیدر کا اس کیس کو کھولنے میں ناکام ہونا ۔صلہ اب بنا سر اٹھائے نگاہیں اس کے جھکے سر والے چہرے پر جمائے ہوئے تھی ، پہلے پہل تو وہ مسکرا کر کوشش کرتا رہا تھا ۔پھر چہرے پر خفت سی نمودار ہوئی تھی اور آخر میں وہ کوفت میں بدلتی چلی گئی ۔جهنجهلاہٹ میں زیادہ قوت صرف کرتا وہ پھر بھی اس چھوٹے سے کیس کو کھول نہیں پا رہا تھا ۔

"لائیں مجھے دیں ۔میں کھول دیتی ہوں ۔"بلا آخر اس کی جھڑپ دیکھتے اسے آہستگی سے کہنا پڑا تھا ۔خفیف سا کندھے اچکا کر وہ اسکی جانب کیس بڑھا گیا تھا ۔اگلے دس سیکنڈز میں وہ اس کیس کو ان لاک کر چکی تھی ۔حیدر کھسیانے سے انداز میں مسکرایا تھا ۔

"آپ خواہ مخواہ اس کے ساتھ لڑ رہے تھے ۔"بنا کھولے کیس اسکی طرف بڑھاتے وہ اسکا چہرہ دیکھتی بولی تو اس نے توصیفی انداز میں آنکھوں کو جنبش دی تھی ۔

"اب بار بار تھینک یو کہنا اچھا نہیں لگتا اس لئے میں یہ تكلف رہنے دیتا ہوں ۔"

کیس کھول کر اندر سے نازک سا گولڈ بریسلٹ نکالا گیا تھا جسے باہر نکالتے حیدر نے بے چارگی سے اسکے بند ہک کو دیکھ اپنی کنپٹی کو كهجایا تھا ۔

صلہ ایک بار پھر سے ہنسی ضبط کرتے اسے دیکھنے لگی تھی جو ایک بار پھر سے مشقت کا شکار ہو چکا تھا ۔نچلہ ہونٹ دانتوں میں دبائے وہ پوری توجہ سے اس ہک کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا ۔صلہ کچھ دیر تو خموشی سے دیکھتی رہی آخر بول پڑی ۔

"میں کھول دوں ؟"اسکے کہنے پر ماتھے پر بچھا شکنوں کا جال غائب ہوا تھا ۔چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو منتظر نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"نہیں ۔میں کھول لوں گا ۔"کوفت زدہ سی آواز میں کہتا وہ دوبارہ نیچے جھکا تھا ۔ایک جھٹکا سا لگا تھا اور اگلے ہی لمحے بریسلٹ کی چین ٹوٹ کر ہک سے الگ ہو چکی تھی ۔نیم واہ ہونٹوں کے ساتھ وہ بے یقینی سے اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹوٹے ہوئے بریسلٹ کو دیکھ رہا تھا اور صلہ پھٹی آنکھوں سے کبھی اسکا چہرہ تک رہی تھی تو کبھی اس بریسلٹ کو ۔

"یہ تو ٹوٹ گیا ہے ۔"سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے جس درجہ بے چارگی بھرے افسوس کا اظہار کیا تھا صلہ اپنے ہونٹوں پر ہتھیلی رکھتے ہنستی چلی گئی ۔

"مجھ سے چیزیں اکثر ٹوٹ جاتی ہیں ایم لٹل بٹ كلمزی ۔۔۔۔لیکن یہ توڑنے کا مجھے واقع ہی افسوس ہے ۔"

صلہ نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا ۔حیدر نے ٹوٹا بریسلٹ اسکی ہتھیلی پر رکھتے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ۔

"کوئی بات نہیں ۔ہم اسے ری پئیر کروا لیں گے ۔"وہ جیسے اسکا افسوس کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

"بہت پیارا ہے ۔"ستائشی نظروں سے دیکھ کر اس نے حیدر کی جانب نگاہ اٹھائی ۔

"ہے نہیں تھا ۔"اس نے تصحیح کرنی چاہی ۔

"اب بھی ہے ٹوٹی چیزیں جڑ بھی تو سکتی ہیں ۔"صلہ اب وہ واپس اس کیس میں منتقل کر رہی تھی جب کافی دیر کی گھمبیر سی خاموشی پر اس نے حیدر کی طرف دیکھا تھا۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔صلہ کسی احساس کے تحت چونکی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اسے گمان سا گزرا تھا جیسے حیدر کی آنکھوں میں کوئی سرد سا تاثر جاگا ہو۔ہر احساس سے عاری ،سفاكی کی حد تک بے رحم ۔سبز آنکھیں ،بھورے بلوروں میں کہیں اٹکی تھیں اور پھر جم سی گئیں ۔یہاں تک کہ حیدر کی آنکھوں نے اپنا رنگ بدلا تھا ۔وہاں نرم ،مہربان سا تاثر آ کر ٹھہرا تھا ۔چہرے رنگ بدلتے ہیں ۔صلہ نے سنا تھا ۔مگر آنکھیں اتنی جلدی رنگ بدلتی ہیں وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی ۔چند لمحوں کا کھیل تھا مگر اسکے پورے وجود میں سرد سی لہر دوڑتی چلی گئی تھی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?