ناشتے کی ٹیبل پر آج معمول کی نسبت زیادہ خاموشی تھی ۔صلہ کی چپ خاصی گھمبیر سی تھی ۔شہیر ماں کی خاموشی پہچانتا تھا ۔اندر کا چور کچھ اور بھی اسے محتاط ہونے کا کہہ رہا تھا ۔کن اکھیوں سے خلاف معمول ساتھ ناشتہ کرتیں خالہ رقيه کی جانب دیکھا تھا جو اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کر رہی تھیں ۔
"صلہ تم بھی ناشتہ کر لو بیٹا ۔"چائے کا کپ سامنے کھسکاتے ہوئے انہوں نے بات کا آغاز کیا تھا جو صبح سے بس چپ کی مار مارنے میں مصروف تھی ۔
"مجھے بھوک نہیں ہے ۔آفس میں کچھ لے لوں گی ۔"لہجے میں اس قدر قطعیت تھی کہ خالہ چاہ کر بھی اصرار نہ کر سکیں ۔شہیر چھوٹا سا نوالا منہ میں لئے چباتا ایک نظر ماں کو دیکھ کر رہ گیا ۔صلہ کے خود کو دیکھنے پر سرعت سے نظریں چراتے چہرہ جھکاتا پلیٹ پر کچھ اور جھک گیا تھا ۔انہیں وہیں چھوڑ کر وہ خود کمرے میں چلی گئی تو شہیر نے سینے میں اٹکا سانس خارج کرتے دور تک ماں کی پشت کا تعاقب کرتے نگاہیں خالہ کے چہرے پر ڈالی تھیں ۔
"اسے مرتضیٰ کے گفٹ کے بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔"شہیر کے گلے میں نوالا اٹکتے اٹکتے بچا تھا ۔بمشکل نگل کر وہ ہوائیاں اڑے چہرے کے ساتھ انہیں مدد طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
"ماما ناراض ہوں گی اب مجھ سے ۔اسی لئے صبح سے ٹھیک سے مجھ سے بات بھی نہیں کر رہیں ۔"سر جھکا کر وہ منمنایا ۔چائے کا کپ رکھتے خالہ نے ایک ہاتھ اسکے سنورے ہوئے بالوں پر رکھا تھا ۔
!کوئی نہیں تھوڑا سا ڈانٹ لے گی تو جی ہلکا ہو جائے گا اسکا ۔تم سے زیادہ دیر ناراض رہ سکتی ہے بھلا وہ ۔"انکا انداز تسلی دینے جیسا تھا مگر شہیر کی تشفی نہیں ہوئی تھی ۔
"چلو اب ناشتہ ختم کرو ۔ورنہ آ کر اور ناراض ہو گی ۔"اسے ہاتھ روکے ،اترے چہرے کے ساتھ گردن موڑے بند دروازہ دیکھتے پا کر انہوں نے پیار سے پچکارا ۔وہ بھی ماں کی مزید ناراضگی کے ڈر سے بے دلی سے ناشتے کی جانب متوجہ ہو گیا تھا ۔
کمرے کا دروازہ کھلا تھا بنا مڑے بھی وہ جانتی تھی آنے والا کون ہے وہ یوں ہی بیڈ پر بیٹھی نیچے جھکی اپنے جوتے کا اسٹریپ بند کرتی رہی تھی ۔چھوٹے چھوٹے قدم لیتا وہ خود ہی آ کر اسکے سامنے آن کھڑا ہوا تھا ۔بلیک چمچماتے جوتے بالکل سامنے تھے مزید بے خبری کا تاثر دینا اسکے لئے ناممکن تھا ۔جھکے چہرے کے ساتھ ہی نگاہ اٹھا کر اسے پیروں سے سر تک دیکھا تھا جو اسکول یونیفارم میں بالکل تیار مگر افسرده اور شرمندہ سا کھڑا تھا ۔
دوسرے جوتے کا اسٹریپ بند کرتے وہ قمیض ٹھیک کرتی اٹھ کھڑی ہوتی اسے نظر انداز کیے ڈریسنگ ٹیبل کے آگے جا کھڑی ہوئی تھی ۔
"میں لینا نہیں چاہتا تھا مگر انہوں نے کہا تو انکار نہیں کر سکا ۔"چہرہ جھکائے بالکل آہستہ سی آواز میں اس نے اعتراف جرم کیا تھا ۔سكارف لیتی وہ آئینہ ے میں نظر آتے اسکے عکس کو بس ایک نظر دیکھ کر واپس اپنے کام میں مگن ہو گئی تھی ۔
"میں آپ کو بتا دینا چاہتا تھا مگر ۔۔۔۔پھر بتا نہیں سکا ۔آئی ایم سوری ۔
وہ ایک بار پھر سے منمنایا تھا ۔یہاں تک کہ صلہ بمشکل سن پائی تھی ۔
"تم لینا نہیں چاہتے تھے مگر تم نے لے لیا ۔۔۔۔تم مجھے بتانا چاہتے تھے مگر تم بتا نہیں سکے ۔آج کل ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے شہیر جو تم نہیں چاہتے مگر وہ ہو جاتا ہے ۔"پن لگاتے وہ پلٹ کر اسکی طرف مڑی تھی ۔اسکی بات پر شہیر کا جھکا سر کچھ اور بھی جھکا تھا ۔آنکھ سے ایک قطرہ ٹپک کر زمین سفید ماربل پر آن گرا تھا ۔صلہ کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر زور سے بھینچا تھا ۔وہ رو رہا تھا ۔اور اسکے آنسو ہمیشہ اسکے دل کی سر زمین پر گرتے اسے گداز کر دیا کرتے تھے ۔چاہے وہاں کی زمین کس قدر چٹان کیوں نہ ہو گئی ہو ۔اب بھی ایسا ہوا تھا ۔سارا غصہ ،ساری ناراضگی بھگ سے اڑ گئی تھی ۔
"شہیر ۔۔۔۔"دونوں ہاتھ پہلو میں گراتے اسکی آواز میں بے بسی سی در آئی تھی ۔
"رونا بند کرو ۔میں نے ابھی تمہیں ڈانٹا تک نہیں ہے ۔"اسے اور بھی تیزی سے ٹپ ٹپ آنسو بہاتے دیکھ کر اس نے تنبیہ کی تھی ۔
"میں انہیں وہ کار واپس کر دوں گا ماما آپ پلیز ناراض مت ہوں ۔"چہرہ اٹھا کر گیلی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ۔صلہ کی رہی سہی خفگی بھی ہرن ہوئی تھی ۔کلائی پر بندھی بالکل سادہ سی سیاہ پٹی والی گھڑی پر ٹائم دیکھتی وہ چل کر اسکے پاس آئی تھی ۔بیڈ کے بالکل کنارے پر ٹکتے ہوئے شہیر کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں لئے اسے اپنے روبرو کھڑا کیا ۔
"بات صرف ایک گفٹ کی نہیں ہے شہیر ۔۔۔۔بات اصول کی ہے ۔جب یہ طے ہے کہ آپ کسی سے بھی اس طرح سے کوئی چیز نہیں لے سکتے تو کیوں لی آپ نے ؟اس پر دوسری غلطی آپ نے یہ بات مجھ سے چھپانی چاہی ۔اور ایسا پہلی بار ہوا ہے ۔آج سے پہلے آپ نے کبھی کوئی بات مجھ سے نہیں چھپائی ۔پھر چاہے آپ سے کوئی غلطی ہی کیوں نہ ہوئی ہو ۔"اسکے بازو کو ہلکے ہاتھ سے سہلاتے اب کی بار آواز میں نرمی تھی ۔وہ جب بھی اسے کوئی بات سمجھاتی تھی شہیر کو "تم "کے بجائے "آپ "کہہ کر مخاطب ہوتی تھی ۔اور وہ جو اسکے ایک ایک انداز سے واقف تھا اب بھی شرمندہ سا الرٹ ہو کر کھڑا تھا ۔نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی ۔سر اب بھی نہیں اٹھایا تھا ۔
"میں نہیں لینا چاہتا تھا ماما مگر ۔۔۔پھر انہیں برا لگے گا اس لئے لے لیا ۔"وہ اب بھی اسے بتانا چاہتا تھا اس نے ایسا کیوں کیا ۔
"اور پھر مجھے برا لگے گا یہ سوچ کر مجھ سے چھپایا ؟"چہرہ جھکا کر اسکی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی وہ پوچھ رہی تھی ۔شہیر نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔صلہ نے ایک گہری سانس خارج کرتے اپنا ہاتھ اسکی ٹھوڑی کے نیچے رکھتے چہرہ اوپر اٹھایا ۔اب کی بار اسکی سبز ،بھیگی پلکوں والی پانیوں سے نم آنکھیں سامنے تھیں ۔
"میری بات سنو شہیر ۔ہم ایک ہی وقت میں سب کو خوش نہیں رکھ سکتے ۔یہ ہمیں طے کرنا ہوتا ہے ہمارے لئے کس کی خوشی زیادہ اہم ہے ۔کس کی ناراضگی ہم افورڈ نہیں کر سکتے ۔ہوں ؟"اپنی بات کہہ کر آخر میں وہ دھیما سا مسکرائی تھی ۔شہیر کی جان میں جیسے جان آئی تھی ۔یہ اشارہ تھا اب وہ اس سے ناراض نہیں تھی ۔تھوڑا سا آگے ہو کر وہ اپنے دونوں بازو اسے کے گلے میں ڈال کر اپنا منہ اسکے کندھے میں چھپا گیا تھا ۔صلہ نے بھی اپنے دونوں بازو اسکے گرد پھیلاتے اسکے بالوں کو ہونٹوں سے چھوا تھا ۔
"میرے لئے آپ سب سے اہم ہیں ماما ۔نیكسٹ ٹائم میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔میں یہ گفٹ بھی واپس کر دوں گا اور دوبارہ ان سے بات بھی نہیں کروں گا ۔"اسکی گردن میں منہ دیے وہ سارے پیشگی بندھ باندھنے کے عزم کر رہا تھا جس سے آئندہ جا کر اسے ماں کی ناراضگی کا خدشہ ہو ۔
صلہ نے اسے خود سے الگ کرتے سامنے کھڑا کیا تھا ۔
"وہ ایک بچہ ہے صلہ ۔اس سے اسکا بچپن مت چھینو ۔"
بڑے غلط وقت پر اسے خالہ کے الفاظ یاد آئے تھے اب جب کہ اسکی حسب منشا وہ خود پیچھے ہٹ رہا تھا ۔مگر پھر اس نے دل کو تھوڑا سا بڑا کر لیا تھا ۔کچھ اصول توڑے بھی جا سکتے ہیں یہ اپنوں کے دل توڑنے سے زیادہ برا سودا نہیں تھا ۔
"نہیں ۔۔۔۔ایک بار کسی کا دیا گفٹ لے کر واپس کرنا بھی بری بات ہوتی ہے ۔اب تم نے لے لیا ہے تو اسے رکھ لو ۔مگر نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔تم اس سے ملتے ہو میں منع نہیں کروں گی مگر ایک حد میں رہ کر۔اور مجھ سے تو کوئی بات بالکل نہیں چھپانی چاہے مجھے اچھی لگے یا بری مگر بتانا ضرور ہے ۔ایک بات یاد رکھنا شہیر ۔مجھے کوئی بھی بات اتنی بری نہیں لگ سکتی جتنا آپ کا مجھ سے کچھ چھپانا برا لگے گا ۔"اسکے بال ٹھیک کرتے وہ ساتھ ساتھ اسے متانت سے سمجھا بھی رہی تھی ۔اور شہیر حیدر کی آنکھوں کی لو واپس آتی جا رہی تھی ۔
"تھینک یو ماما ۔"اسکا گال چومتا وہ پیچھے ہٹا تھا ۔
"اب باقی کی باتیں ہم واپس آ کر کرتے ہیں ۔ورنہ تمہاری وین چھوٹ جائے گی ۔"رائٹنگ ٹیبل پر رکھا بیگ اٹھا کر ،اسکا ہاتھ تھامتی وہ باہر کی جانب بڑھی تھی ۔دونوں کو مسکراتے چہروں کے ساتھ برآمد ہوتے دیکھ کر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھیں رقيه کے چہرے پر بھی مسکراہٹ در آئی تھی ۔یعنی کہ مطلع صاف ہو چکا تھا ۔
"خالہ آپ میرے لئے ایک کپ چائے بنا دیں پلیز میں شہیر کو نیچے تک چھوڑ کر آتی ہوں ۔"شہیر ان سے مل کے آگے بڑھا تھا جب ساتھ باہر کے دروازے کی جانب جاتی صلہ نے مڑ کر ان سے کہا تھا اور پھر باہر نکل گئی تھی ۔
وہ بھی خوش دلی سے کچن کی جانب بڑھ گئی تھیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
"مما آپ کی ہیلپ چاہیے ۔"رات کو وہ اپنے آفس کا کام لے کر بیٹھی تھی جب پاس بیٹھ کر ہوم ورک کرتے شہیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔ہاتھ روک کر پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوتے وہ پین رکھ چکی تھی ۔
"جی بولو ۔"گردن پر ہاتھ کا ہلکا سا دباؤ ڈال کر اسکی طرف جھکی ۔
"مائے فادر پر essay لکھنا ہے آپ ہیلپ کر دیں ۔"کاپی اسکے سامنے رکھ کر وہ اب اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔
جہاں پہلے تو بے سکونی اور پھر کرختگی نے جگہ بنائی تھی ۔ہونٹ بھینچ کر نظریں اسکے چہرے پر سے ہٹا لی ۔
"ٹیچر نے کلاس میں جو کروایا ہے وہی کر لو ۔"رکھائی سے کہتے وہ اسکی کاپی پرے کھسکا کر دوبارہ فائل پر جھک گئی تھی ۔
"ٹیچر نے کچھ نہیں لکھوایا یہ ہوم ورک ٹاسک ہے ۔سب بچے اپنے اپنے فادرز کے بارے میں خود سے ٹین ٹین سینٹنسز لکھ کر لائیں گے ۔"دونوں ہاتھ گود میں رکھ كر بے چارگی سے ماں کو تکتے وہ بتا رہا تھا ۔صلہ کے لئے مزید بحث نا قابل برداشت ہوئی تھی ۔
"لیپ ٹاپ اٹھا لاؤ میں گوگل کر دیتی ہوں وہاں سے دیکھ کر لکھ لو ۔"گردن کی پھولتی نس کے بر عکس وہ بڑے آرام سے کہہ رہی تھی ۔شہیر کی گردن لمحے کے ہزاریں حصے میں نفی میں زور زور سے ہلی تھی ۔
"مجھے کاپی نہیں کرنا ۔آپ مجھے میرے بابا کے بارے میں بتائیں ۔میں خود لکھ لوں گا ۔"
"شہیر ۔"وہ ایک دم سے دهاڑی تھی ۔پاس بیٹھے شہیر کو بھی جھٹکا سا لگا تھا ۔وہ بے یقین سی شاک بھری نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا تھا ۔جو غصے سے سرخ پڑتی اسے سخت نظروں سے گھور رہی تھی ۔
"میرا دماغ خراب مت کرو ۔مجھے ابھی خود کا کافی کام کرنا ہے ۔اگر کہتے ہو تو گوگل کر دیتی ہوں ورنہ میرا سر مت کھاؤ ۔"درشتگی سے کہتے وہ خود لیپ ٹاپ اٹھانے کی خاطر بستر سے اٹھی تھی ۔
"مجھے نہیں کرنا ۔"تیز آواز میں کہتا وہ آنکھوں میں نمی لئے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اتر ا ،دهپ دهپ کرتے ننگے پاؤں ہی اگلے ہی لمحے وہ کمرہ چھوڑ کر باہر نکل گیا تھا ۔
"شہیر ۔۔۔۔"اسکی آواز بھی اسے روک نہیں سکی تھی ۔پہلو پر ایک ہاتھ جمائے وہ چہرہ اٹھا کر گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی ۔واپس بستر پر بیٹھ کر فائل سامنے کی ۔فلحال وہ اسکی ناراضگی کو کوئی اہمیت دینے کے موڈ میں نہیں تھی ۔اپنی فائل پر جھکے پین اٹھایا ،نا چاہتے ہوئے بھی نظر بار بار اسکی کھلی کاپی پر پڑ رہی تھی جہاں مارکر كلرز سے اوپر "مائے فادر "کی ہیڈ لائٹ دی گئی تھی ۔ساتھ چھوٹے چھوٹے مختلف رنگوں کے پھول بنائے گئے تھے ۔ہاتھ بڑھا کر کاپی بند کرتے اس نے سائیڈ پر کر دی تھی اور پوری توجہ اپنے کام پر مبذول کرنے کی سعی میں مصروف ہو گئی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رقيه خالہ کے کمرے میں داخل ہوتے اسکے آنسو گالوں تک لڑھک آئے تھے ۔وہ جو لیٹی ہوئی تھیں اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھیں ۔
"ہائے ہائے !کیا ہو گیا میرے منے کو ۔رو کیوں رہا ہے ؟"وہ بھاگ کر انکے گلے آ کر لگا تھا ۔پریشان سی وہ اسے اپنے حصار میں لیتیں پوچھ رہی تھیں ۔جو کچھ بھی کہنے کا روادار دکھائی نہ دیتا تھا ۔
"ارے منا کچھ بتا تو سہی ۔ماں نے ڈانٹ دیا ہے کیا ؟"اسے خود سے جدا کرتے کرتے اسکا چہرہ صاف کیا تھا ،بال سنوارتے اسے پچکارا جو منہ پھلائے ہوئے تھا ۔
"میں ابھی جا کر خبر لیتی ہوں اس لڑکی کی ۔میرے بچے کو رلانے کی ہمت بھی کیسے ہوئی اسکی ۔"وہ بستر سے اٹھنے لگیں ۔
"رہنے دیں آپ نانو ۔ماما کے سامنے آپ بھی چپ کر جاتی ہیں ۔"
اس نے آنکھیں صاف کرتے شکوہ کیا تھا ۔رقيه خفیف سی ہو کر رہ گئیں ۔
"اچھا کہا کیا ہے یہ تو بتا دے منا ۔پھر آج تو پکا ڈانٹوں گی اسے ۔"
"ماما مجھ سے بالکل پیار نہیں کرتیں ۔"رونی شکل بنا کر وہ کہہ رہا تھا ۔
"ہیں ؟یہ کس نے کہہ دیا تم سے ۔ایک تم ہی سے تو پیار کرتی ہے وہ ۔"نرمی سے اسکے سر کے بالوں میں ہاتھ چلاتے انہوں نے اسکی دلیل در کر دی تھی ۔جواب میں سر کو نفی میں ہلاتے اس نے انکے کہے سے انکار کر دیا تھا ۔
"جن سے پیار کرتے ہیں انکی بات بھی مانتے ہیں ۔میں تو انکی ساری باتیں مان لیتا ہوں ، پھر وہ میری بات کیوں نہیں مانتی ہیں ؟"وہ بری طرح بد ظن تھا ۔
"تم نے کیا منوانا تھا ۔ذرا پتہ تو چلے ۔"وہ اسکے معصوم سے انداز پر مسکرا دیں ۔
"وہ مجھے کبھی میرے بابا کے بارے میں نہیں بتاتیں ۔میں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہیں ،کبھی بات بھی نہیں کی ۔"انکی طرف دیکھتے وہ افسردگی سے کہہ رہا تھا ۔آنکھوں میں گہرے دکھ کے بادل تھے ۔وہ مایوس سا نظر آتا تھا ۔
رقيه خالہ بس اسے دیکھ کر رہ گئیں ۔اسے کہنے کو انکے پاس کچھ ہوتا تو کہتیں ۔
"نانو !آپ نے بھی میرے بابا نہیں دیکھے کبھی ؟"کچھ دیر بعد جھکا سر اٹھا کر وہ آس سے پوچھ رہا تھا ۔
"نہیں میں نے اس کمین۔۔۔۔۔۔"اپنی ہی رو میں تیز تیز کہتے انہوں نے زبان دانتوں تلے دبا کر "ے "کو منہ ہی منہ میں ضبط کر لیا تھا ۔
شہیر کے چہرے کی لو پھر سے بجھ سی گئی تھی ۔
"میرے پاس تو انکی کوئی فوٹو بھی نہیں ہے ۔"اسے ایک اور غم لاحق ہوا تھا ۔
رقيه خالہ بس صبر کے بڑے بڑے سے گھونٹ پی کر رہ گئیں ۔
"اچھا ہی ہے جو اس موئے کی فوٹو نہیں ہے ۔"جل بھن کر سوچتے انہوں نے پہلو بدلا تھا ۔پھر دل گرفتہ سے بیٹھے شہیر کو بے بسی سے دیکھا ۔
"اچھا منا اب تم یوں دل چھوٹا تو مت کرو ۔ابھی دیکھنا تمہاری ماں کیسے اڑتی ہوئی آئے گی تمہیں منانے ۔بس تم بھی اسے تنگ مت کیا کرو ۔کتنا پیار کرتی ہے وہ تم سے ۔"اسے خود سے لگایا ۔شہیر نے شکایتی نظریں انکی طرف اٹھائیں ۔
"میں کب تنگ کرتا ہوں انہیں ۔"اس نے برا منایا تھا جیسے ۔
"ہاں ہاں تم کہاں تنگ کرتے ہو ۔تم تو بہت اچھے بچے ہو ۔"انکا بیان ایک ہی پل میں بدلا تھا ۔شہیر کے سر پر پیار کرتے وہ مسکرائی تھیں جو اب پہلے سے بہتر لگ رہا تھا ۔ماں سے پڑنے والی کبھی كبهار کی ڈانٹ بھی اسے بری طرح ڈسٹرب کیا کرتی تھی ۔
"نانو ؟"کچھ دیر بعد وہ پھر سے انہیں پکار رہا تھا ۔رقيه خالہ الرٹ ہوئیں ۔
"میرے بابا کیا مر گئے ہیں ؟"ان سے الگ ہوتا ،انکی طرف دیکھ کر کچھ جھجک کے پوچھتا وہ انہیں ششدر چھوڑ گیا تھا ۔سکتے کی سی کیفیت کا شکار وہ اسے گنگ سی دیکھتی رہ گئیں ۔
"نانو ۔۔۔۔"یہاں تک کہ شہیر کو انکا بازو ہلانا پڑا تھا ۔
"ہاں ۔۔۔۔ہوں ۔۔۔۔کتنے سوال پوچھتے ہو تم منا ۔میرے تو سر میں درد ہونے لگتا ہے ۔اب لیٹ جاؤ اچھے بچوں کی طرح ۔ہائے آج تو کمر بھی بڑا درد کر رہی ہے ۔"كراهتے ہوئے وہ بستر پر دراز ہو گئیں تو کچھ دیر شہیر انہیں دیکھتا رہا پھر مایوس سا ہوتا خود بھی انکے ساتھ لیٹ گیا تھا ۔
چھوٹا سا ذہن بہت جلدی بڑے بڑے سوال بننے لگا تھا ۔وہ سوال جو پہلے وہ کبھی نہیں پوچھتا تھا اور اب جب پوچھ رہا تھا تو اسے سب سوالوں کے جواب بھی چاہیے تھے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی تھی ۔رقيه خالہ کے پاس وہ گہری نیند سویا ہوا نظر آیا تھا البتہ کھٹکے کی آواز پر وہ ضرور آنکھیں کھول کر اسکی طرف متوجہ ہو گئی تھیں ۔
"سو گیا ہے ؟"دوسری طرف جا کر جھکتے اسکے بالوں میں ہاتھ چلایا ۔
"ہوں ۔۔۔"
"مجھ سے خفا ہی سو گیا ہے ۔"بستر پر چہرہ اسکی طرف کرتے وہ ٹک سی گئی تھی ۔
"صبح اٹھے گا تو بھول بھال جائے گا ۔"وہ خود کسی گہری تشویش میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔سرسری سا جواب دیا ۔
"بڑے بڑے سوال کرنے لگا ہے خالہ ۔میں جانتی تھی کرے گا ایک دن ۔مگر اتنی جلدی کرے گا یہ اندازہ نہیں تھا ۔میں ابھی اس سب کے لئے تیار نہیں ہوں ۔پتہ نہیں کیسے ہینڈل کر پاؤں گی یہ سب ۔"بوجهل دل کے ساتھ وہ اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی جو سوتے ہوئے بھی اسے خفا خفا سا لگ رہا تھا ۔
خالہ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر نیم دراز سی بیٹھ گئیں ۔
"اور کب تک اس کے سوالوں کو نظر انداز کرو گی صلہ ۔جتنا دبانے کی کوشش کرو گی یہ اتنا ہی ضد کرے گا ۔ایک بار لاڈ پیار سے بیٹھ کر سب سچ سچ بتا دو ۔"انہوں نے نرمی سے صلح دی تھی ۔صلہ خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی پھر عجیب سے انداز میں مسکرا دی ۔
"کیا بتا دوں خالہ ؟میرے پاس اسے بتانے کو ہے ہی کیا ؟سوائے اس کے کہ تمہارے باپ نے میرے باپ کو نیچا دکھانے کے لئے مجھ سے شادی کی اور پھر چھوڑ کر چلا گیا ۔کبھی واپس پلٹ کر نہیں دیکھا ۔وہ کہاں ہے ؟ہے بھی یا نہیں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے ۔کیا اتنا بتا دینے سے اس کے سارے سوال ختم ہو جائیں گے خالہ ؟"انکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی وہ کچھ دیر کے لئے رکی تھی ۔
"نہیں بلکہ یہ اور سوال کرے گا ۔نہیں بھی کرے گا تو بھی اسکے ذہن میں بہت ساری نئی الجھنیں جنم لیں گی ۔جن سے میں اسے دور رکھنا چاہتی ہوں ۔مگر رکھ نہیں پا رہی ۔"دونوں ہاتھ باهم سختی سے پیوست کیے وہ بے چارگی بھری بے بسی کا اظہار کر رہی تھی ۔اس لمحے وہ صرف ایک ماں تھی جس کے چہرے پر صرف اپنی اولاد کے لئے فکر تھی ۔باقی اور کوئی احساس وہاں ڈھونڈنا عبث تھا ۔
"تو چھوڑ دو اسے ۔اتنے سال ہو گے ہیں وہ پلٹ کر نہیں آیا ۔آنے والا ہوتا تو یوں دھوکہ دے کر جاتا ہی کیوں ۔تم کورٹ سے با آسانی خلع لے سکتی ہو صلہ ۔اسکے بعد ایک نئی زندگی شروع کرو ۔آخر کب تک یوں اکیلی سارا بار اٹھائے پھروگی ۔زندگی میں کوئی ساتھ چلنے والا ہو تو سفر آسان ہو جاتا ہے بیٹا ۔شہیر کا ایک نارمل زندگی پر پورا حق ہے اور تمہارا بھی ۔"اسکے شاکی نظروں سے خود کو دیکھنے پر انہوں نے نظریں تو چرا ملی تھیں مگر آج اپنے دل کی بات کہہ کر ہی دم لیا تھا ۔وہ جب کبھی بھی صلہ سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتیں وہ آگے سے اتنے سختی بھرے انداز میں انکی بات رد کر دیا کرتی تھی کہ چاہ کر بھی وہ آگے سے کچھ کہہ نہیں پاتی تھیں ۔مگر آج موقع ہاتھ لگا تھا خالی انہوں نے بھی جانے نہیں دیا تھا ۔
کتنی دیر وہ انھیں زخمی سے انداز میں دیکھتی رہی تھی اور پھر وہ ہلکا سا ہنس دی ۔بڑی کوئی زہر خند سی ہنسی تھی وہ پور پور زہر میں ڈوبی ہوئی ۔