میرے ہسبنڈ سے میری علیحدگی نہیں ہوئی ۔وہ ایبروڈ ہوتے ہیں ۔کسی کے بارے میں بھی ایسی بات سوچنے سے پہلے کم از کم پوری تسلی تو کر لینی چاہئے آپ کو مسٹر معیز اور خاص طور پر جب سامنے والی خاتون شادی شدہ ہو ۔آپ کو پتہ ہے آپکا مجھ سے اس بابت بات کرنا ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے ۔"پر اعتماد سی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے بولے جا رہی تھی اور معیز فق ہوئی رنگت کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا ۔کتنی دیر تک تو وہ کچھ کہنے کے قابل تک نہ رہا تھا ۔اس لمحے پر دل ہی دل لعنت بھیجی جب وہ اسے اچھی لگنے لگی تھی اور اس لمحے پر ڈبل لعنت جب اس نے اسے پروپوز کرنے کے بارے میں سوچا ۔
"آئی ایم سوری مس صلہ ۔۔۔۔"
"مسز صلہ حیدر ۔۔۔۔کریکش پلیز ۔اینڈ یس یو شڈ بی سوری ۔"قطعیت بھرے انداز میں سر کو ہلاتے ہوئے ٹوکا گیا تھا ۔معیز کا چہرہ اہانت کے احساس سے سرخ پڑنے لگا تھا ۔
"آئی ایم سوری مسز ۔۔۔صلہ حیدر ۔مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی ۔"نظریں چرا کر اس نے بدقت الفاظ منہ سے ادا کیے تھے ۔
"میرے خیال میں آپ کی غلط فہمی اب دور ہو گئی ہو گی ۔مجھے اپنا نکاح نامہ دکھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی آپ کو ۔"
اگلے ہی لمحے پہلے کی سی پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولی تھی ۔آواز میں تناؤ کی کیفیت کم تھی ۔مگر نرمی اب بھی نہیں تھی ۔
"نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے ۔"وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔صلہ نے ٹھوڑی اٹھا کر اسے دیکھا ۔
"مسٹر معیز ۔ہم ایک جگہ کام کرتے ہیں ۔کولیگز کے طور پر ہمارے اچھے ٹرمز رہے ہیں ۔آئندہ بھی ہمیں یہی اسی آفس میں ایک ساتھ کام کرنا ہے اس لئے بہتر ہو گا میں اور آپ اور میں دونوں ہی اس ساری گفتگو کو یہی دفن کر دیں ۔"سپاٹ چہرے کے ساتھ آواز میں تنبیہ سی تھی ۔شرمساری سے سر ہلاتا وہ اس کے کیبن سے باہر نکل گیا تھا ۔
اسکے جانے کے بعد صلہ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے تھے ۔اندر غصے کا اک طوفان سا برپا تھا ۔چہرہ آگ کی مانند دہک رہا تھا ۔کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اس نے ذرا بھر پلکیں موند کر اپنے تنے ہوئے اعصاب کو پر سکون کرنے کی کوشش کی تھی ۔پھر نارمل تاثرات چہرے پر لئے کمپیوٹر سکرین کی جانب متوجہ ہو گئی تھی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سست روی سے اپنی مخصوص جگہ کی طرف بڑھتے اسکی نظر اٹھی تھی اور پھر سامنے بینچ پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ حیرت و خوشی سے چمکتی سبز آنکھوں کے ساتھ اسکی جانب دوڑنے کے سے انداز میں بڑھا تھا ۔ اس کے ہی انتظار میں بیٹھے اس شخص نے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسے اپنی طرف آتا دیکھا تھا ۔
"آپ واپس آ گئے ۔"اسکے پاس رک کر خوشی اور کچھ بھاگنے کے باعث پھولی سانسوں کے درمیان وہ چینخ نما آواز میں بولا تھا ۔مرتضیٰ نے سیدھا ہوتے سر کو ذرا سا ہلایا تھا ۔
"گڈ ٹو سی یو اگین ينگ مین ۔"اسکے سامنے دایاں ہاتھ کیے وہ کہہ رہا تھا ۔شہیر نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔ساتھ ہی اسکی معصوم سی خوش کن ہنسی کی آواز گونجی ۔
"می ٹو مرتضیٰ سر ۔"اسکا ہاتھ چھوڑتے مرتضیٰ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔بیگ کندھے سے اتار کر بینچ پر رکھتے وہ ذرا فاصلے پر بیٹھ چکا تھا ۔
"آپ اچانک سے غائب کہاں ہو گئے تھے ؟"اچانک سے اسے یاد آیا تھا وہ اس سے خفا تھا ۔
"غائب نہیں ہوا تھا ۔بوبی سے ملنے گیا تھا ۔تم دو دن پارک نہیں آئے تھے مجبوراً تمہیں ملے بغیر جانا پڑا ۔"اسکے شکایتی انداز پر وہ متبسم سے اسکی طرف دیکھتا صفائی پیش کر رہا تھا ۔شہیر نے جھٹ سے چہرے پر سے ساری ناراضگی کے آثار مٹا دیے تھے ۔
"اوہ ۔۔۔تبھی میں بھی سوچوں آپ مجھ سے ملے بغیر کیسے جا سکتے ہیں ۔ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ۔"کہتے ہوئے اسکے لب و لہجے میں جو مان تھا ،یقین تھا اس نے مرتضیٰ کو ایک انہونی سی خوشی سے ہمکنار کیا تھا ۔
"اینی وے مسٹر شہیر یہ رہا آپکا گفٹ ۔"اچانک سے یاد آنے پر اس نے اپنے پاس رکھا قدرے درمیانے سائز کے گفٹ بیگ کو اٹھا کر اسکی جانب بڑھایا تھا ۔جسے آنکھوں میں حیرت لئے دیکھتا اب وہ اسکا چہرہ تک رہا تھا ۔
"گفٹ ؟مگر کس لئے ؟"ہلکا سا ہنس کر کندھے اچکائے ۔
"مجھے اچھا لگا تو بس لے لئے ۔گفٹ کسی وجہ سے تھوڑی دیے جاتے ہیں شہیر ۔"وہ یوں ہی ہاتھ بڑھائے نرمی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
"لیکن ۔۔۔۔۔میں یہ نہیں رکھ سکتا ماما ڈانٹیں گی اس طرح آپ سے گفٹ لینے پر ۔"پر سوچ انداز میں اسکی طرف دیکھتے وہ لاچارگی سے اپنا عذر پیش کر رہا تھا ۔مرتضیٰ نے ہونٹ بھینچ کر بے دلی سے ہاتھ پیچھے کرنا چاہا۔
"لیکن کوئی بات نہیں ۔آپ کے لئے میں تھوڑی سی ڈانٹ کھا لوں گا ۔اٹس فائن ۔"اسکے بجھتے چہرے کو دیکھ کر اس نے تیزی سے دونوں ہاتھ بڑھا کر گفٹ بیگ تھام لیا تھا ۔مرتضیٰ کی مسکراہٹ بڑی بے ساختہ تھی ۔
"تھینک یو ۔"اسکے کہنے پر شہیر چونک کر گفٹ بیگ سے نظر ہٹا کر اسے دیکھنے لگا پھر ہنس دیا ۔
"آپ کیوں مجھے تھینک یو کہہ رہے ہیں ۔یہ تو مجھے کہنا چاہیے ۔گفٹ تو آپ لائے ہیں نا میرے لئے ۔تھینک یو ۔"کسی نا سمجھ بچے کی طرح اسکی عقل پر ماتم کرتے وہ بڑے پن سے اسے سمجھا رہا تھا ۔مرتضیٰ نے بیک سے ٹیک لگا کر گردن ترچھی کیے اسکے پر شوق انداز ملا خطہ کیے تھے جو اب ٹٹول کر گفٹ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا ۔وہ اسے بتا نہیں سکا تھا اسکے یہ گفٹ قبول کرنے کی اسے کتنی خوشی ہوئی تھی ۔بالکل انجانی سی ۔بوبی کے بعد وہ دنیا میں واحد دوسرا انسان تھا جس کے ساتھ اسکے احساسات بہت کم عرصے میں اتنے مضبوطی سے جڑ گئے تھے ۔کوئی ان دیکھی سی ڈور تھی جو اسے اس بچے سے باندھتی تھی ۔
تین ماہ پہلے جب اسے اچانک ایک پروجیکٹ کے لئے لاہور بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو وہ جی جان سے عاجز ہوا تھا ۔وہ پچھلے چھ سال سے شارجہ کی ایک مایہ ناز کمپنی میں آرٹیٹیکٹ کی خدمات سر انجام دے رہا تھا ۔اور بلا شبہ وہ اپنے کام میں بہت مہارت رکھتا تھا ۔بہت کم عرصے میں اس نے کہیں بڑے بڑے پروجیکٹس میں اپنی فن کاری دکھائی تھی ۔اسی بنا پر اسے لاہور چھ ماہ کے لئے ایک پروجیکٹ کے لئے بھیجا گیا تھا ۔وہ اس سے پہلے کبھی لاہور گیا نہیں تھا ۔دوسرا بوبی اسکے ساتھ جانے پر آمادہ نہیں تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ شارجہ کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے منسلک رہ کر گزارا تھا ۔یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یونیورسٹی کی جانب سے انہیں اعزازی طور پر ریسرچ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک کر دیا گیا تھا ۔اتنا عرصہ شارجہ میں بسر کرنے کے بعد وہ یہاں سے جانے کو اب آمادہ نہیں تھے ۔مجبوراً اسے انکے بغیر ہی آنا پڑا تھا ۔چھ ماہ کی تو بات تھی جلد ہی یہ عرصہ مکمل ہو جانا تھا ۔
یہاں وہ کمپنی کی طرف سے انتظام شدہ ہوٹل میں قیام پزیر تھا ۔کنسٹرکشن سائیڈ سے واپسی پر ورکنگ آورز کے بعد اسکا معمول سا بن گیا تھا وہ قریبی پارک میں شام کو کچھ دیر کے لئے ضرور آیا کرتا تھا ۔اور یہاں اس کی ملاقات شہیر سے پہلی بار ہوئی تھی ۔
اس دن اس نے گرین شرٹ پہن رکھی تھی ۔اور بلا شبہ اسکی سبز آنکھوں نے اسے کچھ دیر کے لئے مبہوت کیا تھا ۔سیاہ بالوں کے ساتھ اس کے چہرے پر چھایا معصومیت کا تاثر بڑا بھلا سا لگتا تھا ۔باقی سب بچوں کی نسبت کھیل کود کے بجائے وہ قدرے اس شانت سے حصے میں بیٹھا اپنی ڈرائنگ بک پر جھکا ہوا تھا ۔سامنے مختلف رنگ بکھرے پڑے تھے ۔مرتضیٰ چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کر پایا تھا ۔
یہ سلسلہ کہیں دن تک چلتا رہا تھا ۔وہ بڑی خموشی کے ساتھ اسے اگلے کہیں دن نوٹس کرتا رہا تھا ۔بلکہ اب تو اسے وہاں دیکھنے کی عادت سی ہو گئی تھی ۔پھر ایک ویک اینڈ وہ اسے نظر نہیں آیا ۔اس دن وہ بڑی بے دلی سے وہاں کچھ دیر ہی بیٹھ سکا تھا پھر جلد ہی اٹھ آیا ۔جیسے وہاں ہر شے سے دل اچاٹ ہو گیا ہو ۔عجیب صورت حال تھی وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا ۔وہ یہاں کسی کو جانتا نہیں تھا پارک بھی کچھ دیر ری فریش ہونے کے لئے آ جایا کرتا تھا ۔ایسے میں وہ بچہ اسے اٹریکٹ کرے گا اور وه بھی اس حد تک کہ ایک دن کی اسکی غیر موجودگی اسے کھٹکنے لگے گی ۔اسکے اپنے لئے غیر یقینی صورت حال تھی ۔
اگلے دن وہ اس کے پارک آنے سے پہلے وہاں موجود تھا ۔نیچے سبزہ زار پر بیٹھا ،پاس بیگ رکھے ،آج بھی وہ رنگوں سے کھیل رہا تھا ۔
مرتضیٰ کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ آ کر ٹھہری تھی ۔وہ اپنی مخصوص جگہ بینچ پر آ کر بیٹھا تھا ۔گلے میں جھولتی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تھی ۔موبائل فون جیب سے نکال کر بظاہر اس میں مگن وہ کن اکھیوں سے بار بار اس پر بھی نگاہ ڈال لیتا ۔
"ایکسکیوز می ؟"سر اٹھا کر دیکھا ۔سامنے وہ کچھ فاصلے پر سنجیدہ سا کھڑا تھا ۔مرتضیٰ نے متعجب انداز میں بھنویں اوپر کی جانب اٹھائیں ۔
"آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے ؟"وہ بہت صاف جملے بولتا تھا ٹھہر ٹھہر کر ،ایک ربط میں ۔
مرتضیٰ نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔پھر سر نفی میں ہلا دیا ۔
"پھر آپ مجھے اس طرح اوبزرو کیوں کر رہے ہیں ؟میں بہت دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں ۔آپ مجھے دیکھتے رہتے ہیں ۔" وہ ضرورت سے زیادہ اسٹریٹ فارورڈ ثابت ہوا تھا ۔کچھ دیر کے لئے مرتضیٰ بھی جز بز ہو کر رہ گیا۔ایک چھوٹا سا بچہ اسے مشکل میں ڈال رہا تھا ۔اس سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب وہ آج تک خود کو نہیں دے پایا تھا تو اسے کیا کہتا ۔
"سوری ۔"بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا ۔یہ کوئی سوچ سمجھ کر کہا جانے والا فقرہ نہیں تھا ۔اور وہ خود نہیں جانتا تھا اس نے ایسا کہا کیوں تھا ۔
شہیر کچھ دیر عجیب نظروں سے اسے دیکھتا رہا تھا پھر واپس جا کر اپنی جگہ بیٹھ گیا ۔
اس کے بعد سے مرتضیٰ نے اس پر سے توجہ بٹانے کی کوشش کی تھی ۔اگلے دو تین دن وہ جان بوجھ کر پارک نہیں آیا تھا ۔مگر چوتھے دن کوئی مقناطیسی قوت تھی جو اسے اسے ایک بار پھر وہاں کھینچ سی لائی تھی ۔اسکے آنے پر شہیر جو انہماک سے پینسل سے لائنز ڈرا کر رہا تھا سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا جو اس کے پاس سے گزر کر بینچ کی جانب بڑھ رہا تھا ۔
اپنی جگہ براجمان ہوتے مرتضیٰ نے اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر مسکراہٹ کا پیام بھیجا تھا ۔بدلے میں شہیر نے بھی مسکرا کر جواب دیا ۔
"آپ بہت دنوں بعد آئے ہیں ؟"مرتضیٰ چونکے بنا نہ رہ سکا ۔تو اس نے اسکی غیر موجودگی بھانپ لی تھی ۔
"کیا آپ کو میرا اس دن آپ سے وہ سب کہنا برا لگا ؟"سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھتے وہ پر اعتماد سا پوچھ رہا تھا ۔مرتضیٰ نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا ۔
"تھینک گاڈ !مجھے لگا شاید آپ کو برا لگا اس لئے آپ نے آنا چھوڑ دیا ۔ماما کہتی ہیں کسی کو برا فیل کروانا بھی گناہ جیسا ہوتا ہے ۔"وہ یک دم ہلکا پھلکا سا ہو گیا تھا ۔مرتضیٰ نے ستائش بھری نظروں سے اسے دیکھا وہ صرف دیکھنے میں ہی نہیں اپنی عادات و اطوار میں بھی منفرد تھا ۔
"میں شہیر ہوں ،"
"اور میں مرتضیٰ ہوں ۔"
یہ انکے درمیان ہوا پہلا تعارف تھا جو آگے جا کر کچھ ہی ہفتوں میں ایک ان دیکھے سے مضبوط تعلق میں بدل گیا تھا ۔رقیہ خالہ سے بھی آتے جاتے اسکی کہیں مرتبہ سلام دعا رہتی تھی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جوتے کے ریک میں شہیر کے صبح کے لئے پو لش کیے شوز رکھتے اسکا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا تھا ۔ذرا بھر پاؤں اور آگے کرتے ریک کے نیچے کچھ ہونے کی یقین دہانی کرتی وہ بیٹھ کر نیچے جھکی دیکھنے لگی ۔وہ کوئی باکس تھا ۔صلہ نے ہاتھ بڑھا کر باہر نکالا اندر سے ریموٹ کنٹرول چھوٹی سی نیلے رنگ کی گاڑی برآمد ہوئی تھی ۔باکس کی پیكنگ کی گئی تھی جیسے کہ کوئی گفٹ ہو ۔اور یقیناً شہیر نے اس سے چھپانے کے لئے ہی اسے باقی کھلونوں میں رکھنے کے بجائے یہاں رکھا تھا ۔شام کو اس کی آمد پر وہ پر جوش انداز میں اسے اپنے پارک والے دوست کی واپسی کی خوش خبری سنا چکا تھا جو اس کے لئے تو کسی طور خوش کن ثابت نہیں ہوئی تھی اور اب یہ گفٹ ؟؟؟
صلہ کے ماتھے پر ناگوار یت لئے بل نمودار ہوئے تھے ۔ایک کڑی نظر پر سکون گہری نیند سوئے شہیر پر ڈالی ۔پھر اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی ۔قدموں کا رخ رقيه خالہ کے کمرے کی سمت تھا ۔
"خالہ !شہیر کو کس نے گفٹ دیا ہے ؟"ہاتھ میں کار کا ڈبے لئے وہ خطرناک حد تک سنجیدہ لگتی تھی ۔رقيه خالہ جو بیڈ کی جانب بڑھتی لیٹنے کی تیاری میں تھیں پہلو بدل کر بیڈ کے كنارے بیٹھتی چلی گئیں ۔
"آج کل کے بچے بھی نا ۔ذرا کام کے نہیں ۔ایک چھوٹی سی گاڑی ڈھنگ سے چھپا نہیں سکا یہ لڑکا اور منع مجھے یوں کیا جا رہا تھا ماں کو بتانے سے جیسے خود تو ساری عمر کے لئے یہ راز کسی کنویں میں ڈال آیا ہو ۔"
انہیں شہیر سے اس درجے نالائقی کی توقع نہیں تھیں ۔دل ہی دل وہ جی بھر کے بد مزہ ہوئی تھیں ۔
"کچھ پوچھ رہی ہوں خالہ ؟"
انکے کچھ نہ کہنے پر اس نے اپنے الفاظ پر زور دیا تھا ۔
"مجھ سے کیا پوچھتی ہو ۔اپنے سپوت سے پوچھ لیناوہ بتا دے گا ۔اور ہاں اب سوئے ہوئے معصوم بچے کو جگا کر کچہری نہ لگا لینا صبح بھی یہ ضروری تفتیش ہو سکتی ہے ۔"
پاؤں اوپر کر کے اپنا لحاف کھولتے وہ اسکی طرف دیکھ نہیں رہی تھیں ۔وہ بھلے انکی بھانجی تھی مگر جب اپنے اس سنجیدگی بھرے جلالی روپ میں آتی تھی تو آگے والے کی بس کروا دیا کرتی تھی ۔
"اسے تو میں پوچھ ہی لوں گی خالہ ۔مگر یہ جو نئے تعلقات کی پینگیں وہ پارک میں جا کر بڑھا رہا ہے نا اور اسے جو جھولے آپ دے رہی ہیں مت سمجھیں کہ میں اس سب سے بے خبر ہوں ۔"سختی بھرے انداز میں اس نے پلٹتے ہوئے انہیں باور کروانا ضروری خیال کیا تھا ۔
"تو اس میں غلط کیا ہے صلہ ؟"وہ دو بدو بول پڑی تھیں ۔صلہ کے بڑھتے قدم رک سے گئے ۔
"وہ اب اس سے گفٹ لیتا پھر رہا ہے خالہ اور آپ کہہ رہی ہیں غلط کیا ہے ۔"واپس مڑ کر انکی طرف دیکھتے اس نے کار والا ہاتھ لہرا کر چٹختے ہوئے لہجے میں کہا تھا ۔
"وہ ایک بچہ ہے صلہ ۔اس سے اسکا بچپن مت چھینو ۔"خالہ نے تاسف سے اسے دیکھا تھا ۔انکی بات پر صلہ شاکی نظروں سے کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی تھی ۔
"میں اس سے اسکا بچپن چھین رہی ہوں خالہ ۔میں ؟"کچھ توقف کے بعد وہ بے یقینی بھرے صدمے سے کہہ رہی تھی ۔
"ہاں صلہ تم ۔وہ بچہ ہے ابھی مگر تمہاری مرضی کے بغیر وہ کسی سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہے ۔خود سوچو شہیر تمہیں سب بتاتا ہے تو یہ بات اس نے تم سے کیوں چھپائی ؟تمہاری ناراضگی کے ڈر سے ۔اور اسکا ڈر بالکل صحیح ہے ورنہ ایک چھوٹے سے بے ضرر تحفے کے لئے اس قدر باز پرس کیوں صلہ ؟"
خالہ بھی جیسے جرح پر اتر آئی تھیں ۔انہیں اسکے شہیر پر اس قدر سختی کرنے پر کبھی کبھی کوفت ہونے لگتی تھی ۔
"بات تحفے کی نہیں ہے خالہ ۔بات اسکے جذباتی لگاؤ کی ہے ۔وہ ایک انجان شخص سے اس قدر مانوس ہو رہا ہے ۔کل کو وہ چلا جائے گا تو اسے تکلیف ہو گی ۔"
انکی کہی باتوں کے زیر اثر وہ تیز تیز بولتی چلی گئی تھی ۔خالہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا جس کی غصے کو ضبط کرنے کی کوشش میں گندمی رنگت تمتما رہی تھی ۔
"جیسے نو سال پہلے اسکے چھوڑ کر جانے پر تمہیں تکلیف ہوئی تھی ۔اور اس کے بعد تم نے دوسروں پر یقین کرنا چھوڑ دیا تھا ۔اب وہی تم شہیر کے ساتھ کر رہی ہو ۔اپنے ایک تلخ تجربے کی رو میں بہہ کر تم اسے بھی اوروں پر اعتبار کرنے سے روک رہی ہو ۔"غصے میں وہ بول تو گئی تھیں مگر کیا بول گئی تھیں اس کا احساس اسکی متغیر ہوتی رنگت کو دیکھ کر ہوا تھا۔ جہاں فق ہوئے چہرے پر کوئی سایہ سا آ کر ٹھہرا تھا ۔لفظوں کا زہر خند تیر كمان سے نکل چکا تھا اور سیدھا اسکے دل میں پیوست ہوا تھا ۔اندر کہیں دور تک زہر پھیلتا چلا گیا تھا مگر وہ نیلی نہیں ہوئی تھی ۔ہر زہر وجود نیلا نہیں کیا کرتا ، بس ان دیکھے گھاؤ میں جا کر زخموں کی تکلیف کو دو چند کر دیا کرتا ہے ۔
بنا کچھ کہے لب بھینچ کر وہ جانے کے لئے مڑی ۔
"صلہ ۔۔۔۔"خالہ کی شرمندہ سی آواز نے کانوں تک کا سفر طے کیا ۔
"رات بہت ہو گئی ہے خالہ ۔مجھے چلنا چاہیے ۔اس بارے میں ہم صبح بات کر لیں گے ۔"سپاٹ سی آواز میں کہہ کر وہ دروازہ پار کر گئی تھی ۔اپنے کہے لفظوں کی شرمندگی لئے وہ ترحم بھری نگاہوں سے اسے جاتا دیکھ کر رہ گئیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اپنے کمرے میں داخل ہوتے مدهم زرد سی لائٹ میں اسکا چہرہ کچھ اور بھی زردی مائل لگنے لگا تھا ۔اضمحلال کا رنگ اسکی آنکھوں میں ٹھہرا سبز نگینوں کی جوت بجھانے لگا تو قدموں میں مژ دگی سی در آئی ۔
بنا چاپ کیے آہستگی سے وہ باکس واپس جوتوں کے ریک کے نیچے رکھ کر وہ بیڈ تک آئی تھی ۔دوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھتے،سیدھی لیٹ کر گردن ترچھی کیے ایک نظر پر سکون سوئے شہیر پر ڈالی ۔بند آنکھوں اور ماتھے پر بکھرے بالوں کے ساتھ وہ اسے نظریں چرانے پر مجبور کر رہا تھا ۔ہاتھ بڑھا کر بنا دیکھے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کیے تھے ۔پھر اسکی جانب کروٹ لیتے ،سرہانے پر دھرے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھرا ۔آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی تہہ آ کر جمنے لگی تو بھی اس نے پرواہ نہیں کی ۔خالہ کی باتوں کے زیر اثر وہ اب بھی مضمحل سی نظر آتی تھی ۔
"جیسے نو سال پہلے اسکے چھوڑ کر جانے پر تمہیں تکلیف ہوئی تھی ۔اور اس کے بعد تم نے دوسروں پر یقین کرنا چھوڑ دیا تھا ۔اب وہی تم شہیر کے ساتھ کر رہی ہو ۔اپنے ایک تلخ تجربے کی رو میں بہہ کر تم اسے بھی اوروں پر اعتبار کرنے سے روک رہی ہو ۔"
بے چین ہو کر اس نے پہلو بدلا تھا ۔کچھ یادوں کو اس نے رات کی تاریکی میں تکیہ بھگونے کی اجازت تک نہیں دی تھی اور خالہ انجانے میں انہیں کا مقفل شدہ در کھٹکھٹا بیٹھی تھیں ۔آنکھ کے کونے سے ایک ننها سا موتی ٹوٹ کر بکھرتا تکیے میں ضم ہو گیا تھا ۔
وہ لاکھ کوشش کر لیتی مگر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا تھا جس سے اس شخص کا حوالہ اس کے سامنے پھر سے آ جایا کرتا تھا ۔جیسے اس دن آفس میں معیز کے سامنے اسے اس کے نام میں پناہ لینی پڑی تھی ۔اور یہ کس قدر تکلیف دہ تھا کوئی اس کے دل سے پوچھتا ۔جیسے شہیر کے اسکول میں اکثر اسکی ٹیچرز یا پرنسپل کے سامنے اسکا ذکر کہیں نہ کہیں سے نکل آتا تھا ۔اور جیسے آج خالہ کی باتوں میں وہ بلا ارادہ آن وارد ہوا تھا ۔وہ خود بھی جانتی تھی رقيه خالہ نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کہا تھا مگر دل کو کیسے سمجھاتی جس کے سارے زخم ایک ذرا سی ٹھیس پر پھر سے ادھیڑنے لگتے تھے ۔
نو سالوں نے اسے بہت مضبوط کیا تھا ۔وہ پہلے والی صلہ جہانگیر نہیں رہی تھی ۔جو اپنے پاپا کی پرنسس ہوا کرتی تھی ۔جس کے منہ سے نکلی ہر بات حرف آخر ہوا کرتی تھی اور اسے پورا کرنا اسکے باپ پر فرض ۔پچھلے نو سالوں نے اس سے سبھی ناز بردارياں چھین لی تھیں ۔نازک اندامی ماضی کا قصہ ہوئی تھی ۔خود پر مضبوطی کا خول چڑھائے اب اسے خود اپنا آپ ایسا ہی لگنے لگا تھا ۔بے حس ،سپاٹ ،ہر احساس سے عاری،سرد مہر ۔
پر کبھی کبھی یہ خول چٹخنے لگتا تھا ۔اور وہ لمحے بڑے جان کسل ثابت ہوتے تھے ۔سوتے ہوئے شہیر نے کروٹ لیتے اس کے گرد اپنا بازو لپیٹا تھا ۔وہ کسی خواب کی سی کیفیت سے بیدار ہوئی تھی ۔چہرہ گھما کر اسے دیکھا تو تاریکی کے سائے چٹخنے لگے تھے ۔اسکے وجود سے نکلتی شعائیں صلہ کو اپنے حصار میں لینے لگی تھیں ۔وہ تہی داماں تو نہیں تھی ۔نہ ہی وقت اتنا سنگدل تھا کہ اس کے حصے میں فقط آبلہ پائی لکھی ہو ۔کچھ نہ کچھ مرہم کا انتظام بھی تو شہیر کی صورت کر دیا گیا تھا ۔کیا اسکے اطمینان کے لئے یہ کافی نہیں تھا ؟
جواب بڑا واضح تھا جو مسکراہٹ بن کے اسکے چہرے پر آن رقم ہوا تھا ۔ہاتھ بڑھا کر اسکے گال پر رکھتے وہ ہر بری یاد ،ہر تلخ سوچ سے خود کو آزاد کرواتی آنکھیں موند گئی تھی ۔اب کی بار اسکا چہرہ سکون کی تحریر خود پر سجائے ہوئے تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .