Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 23

1 Posts
1 Users
0 Reactions
183 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

 

اس دن آفس سے وہ جلدی نکل آیا تھا ۔دل کے کہے پر لبیک کہتے اس نے گاڑی کا رخ صلہ کے آفس کی طرف موڑ لیا تھا ۔حالانکہ وہ اسکے آفس سے بالکل مخالف سمت میں واقع تھا ۔اپنی وہاں اچانک آمد پر صلہ کے ماتھے پر پڑنے والے بل اور آنکھوں کی چنگارياں اسے تصور میں ہی محظوظ کر رہی تھیں  ۔ہونٹوں پر مسکراہٹ کا پڑاؤ بے ساختہ پن لئے ہوئے تھا ۔

ان دنوں وہ زندگی کے ایک نئے رخ سے متعارف ہو رہا تھا ۔اور اسے بر ملا اعتراف تھا وہ بہت خوب صورت تھا ۔اس سے جڑا ہر احساس ،ہر بات ،ہر لمحہ اسکی بے رنگ پڑی حیات میں رنگ بھر رہا تھا ۔صلہ کی ہزار جلی  کٹی ،طنز میں ڈوبی باتیں اسے غصہ نہیں دلاتی تھیں ،بلکہ وہ اب آہستہ آہستہ انہیں انجوائے کرنے لگا تھا ۔شہیر کی ذات اسکے لئے خوشیوں کا نیا پيام لائی تھی ۔اس نے زندگی میں بہت سی غلطياں کی تھیں ۔مگر وہ اپنی غلطیوں پر پچھتاوے کے نام پر ہمت ہار کر ایک سائیڈ پر ہو جانے والوں میں سے نہیں تھا ۔وہ انہیں سدھارنے پر یقین رکھتا تھا ۔صلہ کے ساتھ اس نے جو کیا اسکا ملال اسے اب ہونے لگا تھا مگر صرف افسوس کرنے یا خود کو کوسنے سے کیا حاصل تھا ؟

اس نے خود کو اپنی کو تاہیوں کے لئے معاف کرنا بہت چھوٹی عمر میں سیکھا تھا ۔آگے بڑھنے کے لئے سب سے ضروری تو خود کو معاف کرنا ہی ہوتا ہے ۔اپنی غلطیوں کے لئے خود کو کوسنا ،برا بھلا کہنا ،مایوس ہونا یہ سب اسکی زندگی میں بے معنی تھے ۔اور اب بھی وہ یہی کر رہا تھا ۔جو بگڑ گیا اس کو بہتر کرنے کی کوشش ،سب ٹھیک کرنے کی کوشش ۔

گاڑی آفس کے پارکنگ ایریا میں کھڑی کرتے وہ باہر نکل تھا ۔یہ قدرے چھوٹی بلڈنگ تھی ۔چھٹی کا وقت ہونے ہی والا تھا ۔صلہ کا نمبر ملايا مگر اس نے کال پک نہیں کی تو وہ کچھ دیر یوں ہی سوچتا رہا ۔پھر سامنے کھڑے سیکیورٹی گارڈ کی جانب بڑھنے لگا تبھی  پیچھے سے سرعت سے آتے شخص سے ٹکرایا ۔

"سوری ۔۔"اس آدمی نے جلدی سے ہاتھ اٹھا کر معذرت کر لی تھی کہ اسکی عجلت کے باعث ہی یہ تصادم ہوا تھا ۔حیدر رسمی سے انداز میں اسے دیکھ کر مسکرایا ۔

ٹو پیس پینٹ شرٹ اور گلے میں جھولتا کارڈ ۔دیکھنے میں وہ اچھا خاصا خوش شکل تھا اور اسی آفس کا وركر تھا ۔وہ آگے بڑھنے لگا تو حیدر نے اسے پكارا تھا ۔

"ایکسکیوز می ۔۔۔مسز صلہ ہوتی ہیں یہاں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں ۔"

جواباً اس شخص نے سر تا پیر اسے گہری نظروں سے دیکھا تھا ۔حیدر کو حیرت سی ہوئی ۔

"جی ہوتی ہیں ۔"مختصر جواب آیا ۔

"ان سے کہیں نیچے انکے گھر سے لینے آئیں ہیں ۔وہ کال نہیں پک کر رہیں ۔"اس بار اسکی مشکوک نظروں کے باعث اس نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی جانب اشارہ کرتے کہا تھا ۔وہ شخص سر ہلاتے اندر کی جانب بڑھ گیا تو حیدر واپس اپنی کار کے پاس آتا ٹیک لگا کر اسکا انتظار کرنے لگا ۔

کچھ ہی دیر بعد آہستہ آہستہ لوگ باہر نکلنے لگے تھے ۔اور پھر وہ بھی اسے آتی دکھائی دی ۔ملٹی كلر قمیض کے ساتھ دوپٹہ اچھے سے آگے پھیلائے ،سفید شلوار اور بلیک حجاب لئے وہ پر اعتماد سی چال کے ساتھ اسکی طرف بڑھ رہی تھی ۔ڈوبتے سورج کی مدهم ہوتی کم حدت لئے روشنی اسکے چہرے کو چھوتی ہوئی جا رہی تھی ۔حیدر کو دیکھ کر پہلے حیرانگی اور پھر سپاٹ پن اسکے چہرے پر نمودار ہوا تھا ۔

"آپ کیوں آئے ہیں ؟"قریب آنے پر بنا سلام دعا وہ جرح پر اتر آئی تھی ۔بنا کسی آرائش کے سبز آنکھوں میں صاف برہمی دیکھی جا سکتی تھی ۔

"تمہیں لینے ۔"

اسکے تیکھے انداز کے بر عکس جواب بڑے نرم لہجے میں دیا گیا تھا ۔

"میں روز خود ہی آتی ہوں تو آج بھی آ سکتی تھی ۔"ارد گرد سے گزرتے اسٹاف ممبرز کو اپنے اور حیدر کی طرف متوجہ ہوتے دیکھ وہ گاڑی کا ڈور کھولنے لگی تھی ۔حیدر بھی گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا تھا ۔

"ہاں روز خود ہی آتی ہو ۔آج میرے ساتھ چلی جانا ۔اس میں کون سی بڑی بات ہے ۔ویسے تمہارے کولیگ نے کیا کہا تم سے جا کر ؟"

اسکی ناگواری کو خاطر میں لائے بغیر وہ ڈش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھاتے استفار کرنے لگا ۔پتہ نہیں اسکے منہ سے کیا سننے کا متمنی تھا ۔صلہ نے ایک نظر اسکے تر و تازہ چہرے پر ڈالی پھر اسی پر نظریں جمائے اطمینان سے بولی ۔

"معیز نے کہا آپ کے گھر سے آپ کے بھائی آپ کو لینے آئے ہیں ۔"

اور یہ وہ جواب تو ہرگز نہیں تھا جو حیدر اسکے منہ سے سننا چاہتا تھا ۔اپنی سنا کر وہ رخ موڑ گئی تھی ۔

 

"کیا ؟"پانی پیتے رک کر وہ اتنی زور سے چلایا تھا کہ صلہ ایک بار پھر سے گردن موڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی تھی ۔ہاتھ میں پکڑ ی پانی کی بوتل پر گرفت لاشعوری طور پر اتنی سخت ہوئی تھی کہ پانی چھلک کر اسکی پینٹ بھگو گیا تھا ۔کچھ چھینٹے صلہ کے کپڑوں پر بھی پڑے تھے ۔

"اس چھیلے ہوئے کیلے کو میں تمہارا بھائی لگتا ہوں ۔مطلب میں بھائی ٹائپ مٹیریل کہاں سے لگتا ہوں جو اس ۔۔۔"صدمے سے پھٹتی آواز میں خود کو کوئی بھی سینسر شدہ لفظ استعمال کرنے سے باز رکھتے وہ ہونٹ سختی سے بھینچ گیا تھا ۔اپنی گود میں گرے پانی کے ننھے ننھے قطروں کو جھاڑتی وہ اسکے ہاتھ سے حفظ المقدم کے طور پر بوتل لے چکی تھی ۔جو چرمر سی ہو چکی تھی ۔

"وہ آپ کو چھیلا ہوا کیلا کہاں سے لگا ؟اچھا خاصا گڈ لکنگ بندہ ہے ۔"اسکے رونے کو نظر انداز کیے صلہ نے بوتل کا ڈھکن لگاتے کمال ٹھنڈے پن کا مظاہرہ کرتے اعتراض اٹھایا تھا ۔حیدر جلا نہیں تھا البتہ انگاروں پر ضرور لوٹ گیا تھا ۔

"تم نے اسکی غلط فہمی دور کی ؟"اسکے نادر خیال سے قطعی نظر وہ بے چینی سے پوچھ رہا تھا ۔ضبط کے کچھ گھونٹ حد درجہ کڑوے ہوتے ہیں اس وقت حیدر کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بخوبی پتہ چل رہا تھا ۔

"میں نے ضروری نہیں سمجھا ۔"وہ ہنوز پر سکون لگتی تھی ۔

"ہاں اسے بتانا ضروری نہیں سمجھا میں تمہارا بھائی نہیں شوہر لگتا ہوں مگر وہ اچھا خاصا گڈ لکنگ ہے یہ مجھے بتانا بہت اہم خیال کیا تم نے ۔"سر دھن کر کہتے اسکی انداز بڑے جلے بھنے سے تھے ۔صلہ کے دل کو ٹھنڈک کا جان فزا احساس ہوا ۔

"بالکل بلکہ میں آپ کو یہ بتانا بھی ضروری خیال کر رہی ہوں کہ ۔۔۔۔معیز مجھے پروپوز بھی کر چکے ہیں باوجود یہ جاننے کے کہ میں ایک عدد بچے کی ماں ہوں ۔ہی از آ ٹرو جینٹل مین ۔"آواز میں واضح ستائش کے رنگ لئے کہتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر اسکے چہرے پر سے نظریں ہٹا لی تھیں ۔اس کے باوجود اسکی آنکھوں سے نکلنے والی تپش نے اسکے گال دهکا دیے تھے ۔

"شرم تو نہیں آئی ہو گی شوہر کے سامنے ایسے "ضروری خیال "کا اظہار کرتے ہوئے ؟تمہیں تو میں بعد میں دیکھتا ہوں پہلے ذرا اس چوسے ہوئے آم سے اپنا تفصیلی تعارف کرواتا آؤں  ۔"اپنی طرف کا دروازہ کھول کر دبی دبی آواز میں بظاہر مسکرا کر بولا تھا مگر کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئی تھیں ۔

"خبر دار جو میرے آفس میں کوئی ڈرامہ لگایا تو ۔۔۔۔اور یہ کیسی لینگویج یوز کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔چھیلا ہوا کیلا ۔۔۔۔چوسا ہوا آم ۔۔۔۔سائیڈ بزنس کے طور پر فروٹس کی ریڑھی لگاتے ہیں کیا آپ ؟"دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پوری طرح اسکی طرف گھوم کر ذرا غصے بھری نظروں سے اسے دیکھتے ،اسکے خوب صورت ارادوں سے اسے باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کی تھی ۔اس سے کچھ بعید نہ تھا وہ یہاں کوئی نیا تماشا لگا دیتا ۔

"نہیں میں تو ایسے نہیں جاؤں گا ۔جب تک اسکی غلط فہمی دور نہ کر لوں مجھے تو رات کو نیند ہی نہیں آئے گی ۔"باہر نظریں گاڑھے کہتا وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا تھا ۔صلہ اسکے پیچھے نکلی ،اسکے قدموں کا رخ آفس انٹرنس کی طرف تھا ۔تبھی معیز باہر نکلتا نظر آیا تو صلہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔کبھی کبھی اپنا کیا بھی گلے پڑ جاتا ہے اور اسکا اسکو چھیڑنا اب اسے بھاری پڑ رہا تھا ۔

معیز حیدر اور اسکے دو قدم پیچھے آتی صلہ کو دیکھ کر رک سا گیا تھا ۔

"معیز آپ نے حبا کو دیکھا کیا ؟وہ اندر ہی ہے یا چلی گئی ؟"قریب آنے پر حیدر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی صلہ بول پڑی تھی ۔

"ابھی مجھ سے آگے نکلی ہیں وہ ۔کیوں سب خیریت ہے ناں ؟"ایک اچٹتی نگاہ حیدر کے تنے ہوئے چہرے پر ڈال کر وہ صلہ کی طرف دیکھتے متانت سے بول رہا تھا ۔

"جی خیریت ہے سب ۔مجھے حیدر کو اس سے ملوانا تھا ۔اینی وے یہ حیدر ہیں میرے ہسبنڈ اور حیدر یہ معیز صاحب ہیں میرے کولیگ ۔"حیدر کی کہنی پر ہاتھ رکھتے وہ مسکرا کر تعارف کروا رہی تھی ۔معیز کا رنگ کچھ پھیکا پڑا تھا ۔البتہ اسکی اتنی چالاکی سے معاملہ سنبهالنے پر حیدر کے برهم ہوئے مزاج پر خوش گوار اثر پڑا تھا ۔چہرے کے خدوخال میں کھچاؤ کم ہوا،اب وہ بڑے جاندار انداز میں مسکرا رہا تھا ۔

"آپ سے مل کر خوشی ہوئی مسٹر حیدر ۔"کچھ توقف کے بعد وہ پھیکی سی ہنسی کے ساتھ اسکی طرف مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا ۔حیدر نے ہاتھ ملاتے ہوئے سر کو تھوڑا سا خم دیا تھا ۔

"حیدر چلیں اب شہیر ویٹ کر رہا ہو گا ۔"صلہ کسی صورت اسے بولنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی ۔اسکے منہ پھٹ ہونے کا کوئی عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنا وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی ۔معیز سے اللّه حافظ کہتے وہ اسکا بازو پکڑے واپس مڑ گئی تھی ۔

"آئندہ آپ میرے آفس نہیں آئیں گے سنا آپ نے ؟"گاڑی میں بیٹھتے اسکا موڈ بری طرح سے خراب ہو چکا تھا ۔اسکے برعکس حیدر اب کافی مطمئین اور خوش دکھائی دیتا تھا ۔

"جب کہ میں سوچ رہا ہوں جب تک تمہاری جاب ہے مجھے تمہیں پک اینڈ ڈراپ سروس دینی چاہیے ۔"اسکے گاڑی سٹارٹ کرتے کہنے پر صلہ کا ماتھا ٹھٹکا ۔

"جب تک سے کیا مراد ہے آپ کی ؟"

"تم جلد ہی یہ جاب چھوڑ رہی ہو ۔"گاڑی ریورس کر کے مین روڈ پر ڈالتے وہ بے نیازی سے بولا تو صلہ نے اسے طنزیہ انداز میں گھورا تھا ۔

"یہ کس نے کہا آپ سے ؟"وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی ۔

"میں کہہ رہا ہوں ۔"

"اپنے فیصلے میں خود لوں گی حیدر ۔آپ کو کوئی حق نہیں میری زندگی کا کوئی بھی فیصلہ لینے کا بہتر ہو گا اپنے کام سے کام رکھیں آپ ۔"سیاہ حجاب میں لپٹا اسکا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا ۔حیدر نے ایک سرسری سی نگاہ اس پر ڈال کر ساری توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کر دی تھی ۔اور اسکا یہ لا پرواہی بھرا انداز صلہ کو اور بھی مشتعل کر گیا تھا ۔ایک سلگتی نگاہ اس پر ڈال کر وہ ماتھے پر بل لئے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . .

رات وہ کچن سے فراغت کے بعد لیونگ ایریا میں ٹی وی کے آگے بیٹھیں خالہ کے پاس آ کر بیٹھی تھی ۔

پہلے تو کوئی ڈرامہ سیریل چل رہا تھا ۔صلہ زیادہ ٹی وی دیکھتی نہیں تھی مگر جب کبھی وقت ملتا تو خالہ ساتھ بیٹھنے پر اسے دس منٹ میں پورے ڈرامے کا خلاصہ خالہ ازبر کروا دیا کرتی تھیں ۔اب بھی یہی ہوا تھا ۔بریک میں خالہ نے اسے پوری کہانی سنا ڈالی ۔ڈرامہ ختم ہوا تو یوں ہی چینل سرچنگ کرتے خالہ نے نیوز چینل لگایا تھا ۔نیوز بلیٹن چل رہا تھا ۔

"ہائے ہائے ۔ایک تو پاکستانی خبرنامہ سن لو یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں تو کچھ اچھا ہو ہی نہیں رہا ۔بس جب دیکھو فلاں کی لڑائی ،فلاں قتل ،فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ،اچھے خاصے انسان کو بلڈ پریشر کا مریض بنا دیں یہ نیوز چینل والے ۔مجھ جیسوں کو تو یہ اوپر پہنچا دیں ۔اسی لئے خبریں نہیں دیکھتی میں ۔"

خالہ نے تنفر سے سے جھٹکتے ساتھ تبصرہ کیا تھا ۔صلہ مسکرا دی ۔کہہ وہ بھی کچھ غلط تو نہیں رہی تھیں ۔

تبھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔حیدر باہر نکلا تھا ایک سرسری سی نگاہ دونوں پر ڈال کر کچن کی طرف بڑھا ۔

"خبر ہے کراچی کے علاقہ ملیر سے جہاں کل رات آٹھ سالہ بچے کو زيادتی کا نشانہ بنا کر گلہ دباتے سفاکی سے قتل کر دیا گیا اور لاش کچرہ کنڈی میں پهینک دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔"

نیوز كاسٹر اپنے میکانکی انداز میں آگے بھی بول رہا تھا مگر پانی پیتے حیدر کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے ۔گلاس ہونٹوں سے الگ کرتے ہاتھ میں سختی سے پکڑے وہ آنکھیں ٹی وی سکرین پر گاڑھے ہوئے تھا جہاں اس بچے کی ہنستی مسکراتی تصویر دکھائی جا رہی تھی ۔اسکا باپ روتے ہوئے انصاف کی اپیل کر رہا تھا ۔ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ وہ کچھ سن نہیں پا رہا تھا مگر آنکھیں تھیں کہ سکرین پر سے ہٹنے سے انکاری ہو گئی تھیں ۔صلہ کی غیر ارادی نظر اس پر پڑی تھی اور وہ ٹھٹک کر رک سی گئی تھی ۔اسکا چہرہ لمحوں میں سفید لٹھے کی مانند ہو کر رہ گیا تھا مانو جیسے سارا خون نچڑ گیا ہو ۔آنکھوں میں ناچتی وحشت اور ٹکٹکی باندھے بنا پلکوں کی جنبش کے ٹی وی کو گھورتا حیدر پتہ نہیں کیوں اسے ٹھیک نہیں لگا تھا ۔ایسی وحشت ،ایسی سراسیمگی اس نے پہلے بھی اسکے چہرے پر دیکھی تھی ۔نو سال پہلے جب اس نے اسے پاگلوں کی طرح واش بیسن کے سامنے اپنے ہاتھ اور چہرے کو دھوتا پایا تھا ۔اسے کچھ عجیب لگا تھا ۔ایسی خبریں اسے بھی ڈسٹرب کرتی تھیں ۔وہ بھی ایک ماں تھی جب بھی کسی بچے کے ساتھ ایسا کوئی المناک واقعہ ہوتا اسکی روح تک کانپ جاتی تھی۔عورتیں تو ویسے بھی زیادہ اس سب کا اثر لیتی ہیں  مگر حیدر کا اتنا شدید ری ایکشن اسکی سمجھ سے بالاتر تھا ۔

"لو دیکھ لو اب ۔کوئی خبریں بھی سنے تو جگرے والا ہی سنے ۔پتہ نہیں لوگوں میں خوف خدا ناپید کیوں ہو گیا ہے ۔بچیاں تو کیا بچے بھی محفوظ نہیں ہیں اس معاشرے میں ۔اللّه اللّه ۔۔۔۔سب کو اپنے امان میں رکھے بس ۔"جھرجهری سی لیتے خالہ افسردگی سے کہہ رہی تھیں ۔صلہ کی نظریں اب بھی اسی پر ٹھہری ہوئی تھیں جو اس وقت بھی اپنے آپ میں نہیں تھا ۔صلہ کی محویت بھی اسکا ارتکاز توڑنے میں ناکام رہی تھی ۔نظریں اس پر سے ہٹا کر سکرین پر ڈالتے صلہ نے پاس پڑا ریموٹ اٹھا کر چینل بدل دیا تھا ۔

"چھوڑیں خالہ رات کافی ہو گئی ہے ۔سو جائیں اب آپ بھی جا کر ۔میں بھی سونے جا رہی ہوں ۔"

اٹھ کر ٹی وی کا سوئچ نکالتی وہ ذرا اونچی آواز میں جان بوجھ کر بولی تھی ۔خالہ اٹھیں ،تبھی پیچھے بت بنے کھڑے حیدر پر نظر پڑی تو کچھ لمحوں کے لئے وہ بھی اسے دیکھتی رہ گئیں ۔اسکے چہرے کے تاثرات،اسکی فق ہوئی رنگت انہیں بھی چونکنے پر مجبور کر گئی تھی ۔ٹی وی کی روشن سکرین بجهی تو وہ بھی جیسے کسی خواب سے بیدار ہوا تھا ۔آنکھیں جهپک کر نچلا ہونٹ کاٹتے اس نے کندھوں کو خفیف سا جھٹکا تھا ۔خالہ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر نظریں چراتا گلاس کاؤنٹر پر رکھتے تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے میں گھس گیا ۔خالہ کی نظروں نے آخر تک اسکا تعاقب کیا تھا پھر پلٹ کر صلہ کی جانب دیکھا ۔

"اسے کیا ہوا ہے ؟"انکے سوال میں حیرانگی کے ساتھ ساتھ انجانی سی تشویش بھی تھی ۔

"پتہ نہیں ۔شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔"سرسری سے لہجے میں کہتی وہ کچن کی طرف گئی تھی ۔اسکا رکھا گلاس اٹھا کر سائیڈ پر کرتے لائٹس آف کرنے لگی تو خالہ بھی کچھ متذبذب سی اپنے کمرے میں چل دیں ۔

اس رات پتہ نہیں کیوں صلہ کی چھٹی حس اسے کچھ بتانے کی کوشش کر رہی تھی ۔خلاف معمول وہ بہت چپ چپ سا،ڈسٹرب سا لگتا تھا ۔شہیر کے ساتھ بھی کوئی بات نہیں کر رہا تھا ۔سونے کے لئے بھی وہ جلدی لیٹ گیا تھا ۔سر تک كمبل تانے ہونے کے باوجود صلہ کو لگا تھا جیسے وہ جاگ رہا ہو ۔اپنے کسی خدشے کے پیش نظر وہ شہیر کو لے کر کمرے سے نکل گئی تھی ۔خالہ کے کمرے میں شہیر کو سلایا یہ کہہ کر کہ حیدر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔شہیر نے بھی جیسے باپ کے رویے میں ہونے والی تبدیلی کو بھانپ لیا تھا اس لئے بنا ضد کے اسکے آرام کے لئے خالہ کے پاس سو گیا تھا ۔صلہ کتنی دیر وہاں بیٹھی رہی پھر اٹھ کر واپس کمرے میں آئی تو لیٹنے کے باوجود نیند نہیں آ رہی تھی ۔بڑی مشکل سے آنکھ لگی تھی ۔ابھی وہ کچی نیند میں تھی جب وہ ایک دم سے ہڑبڑا کر بیٹھا تھا ۔بری طرح ہانپتے وہ دسمبر کے مہینے میں بھی پوری طرح پسینے میں ڈوبا ہوا تھا اور میکانکی انداز میں اپنی گردن کو چھوتا گہرے گہرے سانس لے رہا تھا ۔صلہ اسے دیکھتی اٹھ کر بیٹھی تھی ۔اور یہ وہ منظر تھا جو نو سال پہلے بھی دیکھ کر وہ بری طرح ہراساں ہوئی تھی اور لاشعوری طور پر شہیر کو وہ اس ہراسگی سے بچانا چاہتی تھی ۔اپنے باپ کی یہ سائیڈ وہ اسے کبھی نہیں دکھانا چاہتی تھی ۔

  "حیدر ۔"

نیم سرگوشی نما آواز میں اس نے پکارا تھا ۔اور عجیب بات یہ تھی کہ اس بار اسے ڈر نہیں لگا تھا ۔

اسکی پکار کا کوئی بھی اثر لئے بنا وہ یوں ہی اپنے آپ سے بیگانہ سا بیٹھا رہا تو صلہ نے اسکا کندھا ذرا سا ہلایا تھا ۔وہ بری طرح چونکتا اسکی طرف دہشت بھری نظروں سے دیکھنے لگا تھا ۔نیم اندھیرے کے باعث اسے پہچاننے میں کچھ سیکنڈز لگے تھے ۔مگر اس بار اس نے اسکا ہاتھ نہیں جھٹکا تھا ۔آنکھوں میں شناسائی سی جاگی تو اسکے ہونٹوں سے اسکا نام نکلا تھا ۔

"صلہ ۔"

تب تک صلہ نے سائیڈ لیمپ جلا دیا تھا ۔حیدر اسکے ہاتھ کو اپنے دونوں  ہاتھوں میں لئے ،نظریں اپنے ہاتھوں پر جمائے ، غیر ہموار سانسوں کو ہموار کرنے کی جہد میں تھا ۔

"کچھ بھی نہیں ہے ۔سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔ہوں سب ٹھیک ہے ۔"اسکے شانے پر رکھے اپنے ہاتھ سے ،اسکا شانہ سہلاتی وہ مدهم آواز اور تسلی آمیز لہجے میں کہہ رہی تھی ۔

حیدر کی آنکھوں میں نمی سی جاگی تھی ۔بے چارگی سے اپنا سر نفی میں ہلاتے اس نے اسکا ہاتھ چھوڑتے اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے پھیلائے تو انکی کپكپاہٹ بڑی واضح تھی ۔

"سب ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔دیکھو میرے ہاتھوں پر خون ہے ۔یہ مجھ سے کیا ہو گیا ہے ؟"تھوگ نگل کر ہکلاتے ہوئے کہتا ، وه خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھتا اس حیدر سے یکسر مختلف تھا جسے وہ جانتی تھی ۔اکڑ مزاج ، بے خوف ،منہ پھٹ اور بے باک ۔

صلہ کی نظروں نے اسکے چہرے سے ہاتھوں تک کا سفر طے کیا تھا ۔اسکی صاف شفاف کشاده ہتھیلیاں سامنے تھیں ۔

"نہیں کوئی خون نہیں ہے ۔دیکھیں آپ کے ہاتھ تو بالکل صاف ہیں ۔"اپنے ہاتھوں میں اسکے ہاتھ پکڑ کر وہ اسے دکھا رہی تھی ۔اور وہ ہنوز سر نفی میں ہلاتا انکاری تھا ۔

"تمہیں بھی بوبی کی طرح نظر نہیں آ رہا مگر مجھے آ رہا ہے ۔تم بھی بوبی کی طرح جھوٹ بول رہی ہو ۔"

اسکے ہاتھ جھٹک کر شاکی نظروں سے اسے دیکھتے وہ بستر سے اتر گیا تھا ۔

منظر پھر سے وہی تھا جو نو سال پہلے تھا فرق صرف یہ تھا تب وہ بری طرح سے خوف و ہراس کا شکار ہوئی تھی مگر اس بار وہ واش روم کی چوکھٹ پر بنا کسی خوف کے کھڑی ترحم آمیز نظروں سے اسے واش بیسن پر جھکا ہیجانی انداز میں ہاتھ اور منہ دھوتا دیکھ رہی تھی ۔ان لمحوں میں اسے بھول گیا تھا وہ کون تھا اور اس نے صلہ کے ساتھ کیا کیا تھا ۔جو خود تکلیف سے گزرے ہوں وہ دوسروں کی تکلیفوں پر محظوظ نہیں ہوا کرتے ،جنکے اپنی زندگی کا ایک حصہ اذیت سے پر ہو وہ دوسروں کی اذیتوں پر شاید یوں ہی اپنا آپ بھلا دیتے ہوں گے ۔

آگے بڑھ کر نل بند کرتے صلہ نے نرم نظروں سے اسکے بھیگے چہرے کو دیکھا تھا ۔

"اب صاف ہو گئے ہیں آپ کے ہاتھ ۔دیکھیں کوئی خون نہیں ہے اب ۔"اس بار اسکے کہے کی صلہ نے تردید نہیں کی تھی ۔بلکہ وہی کہا تھا جو سننے کا وہ متمنی تھا ۔سرخ پڑتی سرمئی آنکھوں اور ماتھے پر بھیگے چپکے بال لئے ،وہ آگے سے پورے بھیگے ہوئے گریبان کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو دیکھتا اب آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔کچھ طمانیت کے احساس کے ساتھ سر ہلاتا ہوا وہ واپس کمرے میں آیا تھا ۔

"پانی پیے گے ؟"

اسکے پیچھے کمرے میں آتے صلہ نے پیچھا تھا وہ نفی میں سر ہلاتا دونوں پاؤں نیچے کیے بیڈ کے سرے پر بیٹھتا سر جھکا گیا تھا ۔یہاں تک کہ سامنے کھڑی صلہ کو اسکا چہرہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔سردی کا یکلخت احساس جاگا تو ایک جھرجهری سی لے کر صلہ نے دوسری جانب آ کر اپنی شال سرہانے کے قریب سے اٹھا کر لپیٹی تھی ۔پھر اسے دیکھا جو بھیگی ہوئی شرٹ میں بے پرواہ سا بیٹھا ہوا تھا ۔وارڈ روب کی طرف بڑھتے اسکی دوسری شرٹ نکال وہ ایک بار پھر اسکے سامنے کھڑی تھی ۔

"شرٹ چینج کر لیں حیدر ۔ٹھنڈ لگ جائے گی ۔"

بے ارادہ اسکے منہ سے نکلا تھا ۔حیدر نے چہرہ اٹھا کر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا تھا ۔وہ آنکھیں اس بار واقع ہی خالی تھیں ۔ہر احساس سے عاری ،کچھ دیر پہلے کا سارا خوف ،ساری وحشت کہیں گم سی ہو گئی تھی ۔شاید اسکی آنکھیں بھی اتنا ہی بولتی تھیں جتنے کی اجازت وہ انہیں دیتا تھا ۔

"نہیں میں ٹھیک ہوں ایسے ہی ۔تم ۔۔۔۔تم سو جاؤ ۔"نظریں چراتے ہوئے وہ گلہ کھنگار کر بولا تو آواز بھی بدلی ہوئی تھی ۔

"ٹھیک نہیں ہیں آپ ۔دکھاوے کی کوشش مت کریں ۔اتنا بھی افلاطون بننے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو ۔جتنے ٹھیک ہیں ابھی کچھ دیر پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں میں ۔ "پتہ نہیں کیوں اسے غصہ آیا تھا اس پر یا اسکے خود پر چڑھائے خول پر کوفت ہوئی تھی مگر وہ خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پائی تھی ۔حیدر کے چہرے پر سپاٹ پن کے ساتھ سرد سا تاثر  نمودار ہوا تھا ۔

"ایسا بھی کیا دیکھ لیا ہے تم نے ؟برا خواب کسی کو بھی آ سکتا ہے اور اسکے زیر اثر ایسا ری ایکشن کوئی بھی دے سکتا ہے ۔اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں ۔"

اسکی طرف دیکھتے وہ کھدرے پن سے بولا تو صلہ اسے دیکھتی رہ گئی ۔رسی جلنے پر بھی بل نہ نکلنے والی مصداق اسی کے لیے بنی تھی شاید ۔

"تو پھر مجھے کیوں برے خواب نہیں آتے ؟میں کیوں اس طرح راتوں کو اٹھ کر واش روم جاتے اپنے ہاتھوں اور چہرے پر سے نا دیده خون کے دھبے صاف نہیں کرتی حیدر ؟سب کے ساتھ نہیں ہوتا ایسے ۔صرف آپ کے ساتھ ہوتا ہے ۔"

وہ طنز نہیں کر رہی تھی مگر وہ پھر بھی اسکی بحث سے غیر آرام ده ہو رہا تھا ۔یہ وہ موضوع تھا جس پر وہ کبھی بات نہیں کیا کرتا تھا اور وہ اس سے سوال کر رہی تھی ۔ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوتا وہ اسکے سامنے تن کر کھڑا ہوتے اسے چھبتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

"تمہیں خواہ مخواہ بات کا پتنگڑ بنانا ہے تو بناؤ ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہے جسے جاننے کا اتنا تجسس ہو رہا ہے تمہیں ۔"اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ پھنکارتی آواز میں بولتا ذرا بھر رکا ۔

"یا پھر تم میری کوئی ایسی کمزوری ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہو صلہ بی بی جس سے تمہیں سکون مل سکے ۔آخر میں نے اتنا برا کیا تھا تمہارے ساتھ ۔مجھے پریشان ،بے حال دیکھ کر تمہیں تو خوشی ہی ہو گی ۔"

طنزیہ انداز میں مسکرا کر اسے دیکھتا ، وہ اسکے خلوص کی لمحوں میں دهجیاں اڑا گیا تھا ۔صلہ کا پورا وجود آندھیوں کی زد میں آیا تھا ، آنکھوں میں تکلیف کا احساس جاگا ، وہ اسکے بارے میں ایسا سوچتا تھا ؟کیا وہ اسے اتنا کم ظرف جانتا تھا کہ اسکی تکلیف پر وہ خوشیاں منائے گی ؟

اگلے ہی لمحے تنفر بھری نظروں سے اسے دیکھتے  ،صلہ نے ہاتھ میں پکڑی شرٹ اسکے سینے پر دے ماری تھی جو نیچے گرتی چلی گئی ۔

"بھاڑ میں جائیں آپ اپنی اس نیچ سوچ کے ساتھ ۔میری بلا سے آپ کو پاگل پن کے دورے پڑیں یا آپ نیم پاگلوں جیسی حرکتیں کریں ۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اور ہاں سب کو اپنے جیسا سمجھنا چھوڑ دیں ۔یہ آپ کی ہی خاصیت ہے دوسروں کو اذیت دے کر ، تکلیف میں دیکھ کر خوشی اور سکون محسوس کرنا  ۔صلہ آپ کے جتنی گری ہوئی سوچ کی نا تو مالک ہے اور نہ ہی اتنی بے حس اور کم ظرف ہے ۔"

اور یہ تو سچ تھا وہ جب سنانے پر آتی تھی تو اگلے پچھلے حساب چند سیکنڈز میں بے باک کر کے رکھ دیا کرتی تھی ۔حیدر نے اسکی توقع کے بر عکس اتنی سننے کے بعد بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا تھا ۔تو وہ اسے سلگتی نظروں سے گھورتی وہاں سے ہٹ کر پیر پٹختی کمرے سے ہی واک آؤٹ کر گئی تھی ۔

دروازہ قدرے دھڑام کی آواز کے ساتھ بند کیا گیا تھا ۔اسکے باہر جاتے ہی حیدر نے اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرتے ایک گہرا گهٹن زدہ سانس خارج کیا تھا ۔اپنی بات کے جواب میں صلہ کی آنکھوں میں امڈتی تکلیف نے اسے بھی بے سکون کیا تھا ۔اسکے خلوص ،اسکی پرواہ کو غلط رنگ دینے پر اسے ملال نے آن گھیرا ۔پتہ نہیں کب تک وہ اسے چاہتے نا چاہتے ہوئے یوں ہی تکلیف دیتا رہے گا ۔مگر اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ۔اپنی زندگی کا وہ باب وہ کسی صورت اس کے سامنے نہیں کھولنا چاہتا تھا ۔اور اسکے بڑھتے سوالوں کو روکنے کا اس کے سوا اسے کوئی حل نظر نہیں آیا تھا ۔

پیروں میں رلتی شرٹ کو اٹھا کر ہاتھوں میں لیتے،بیڈ پر بیٹھتے ، اسکے ہونٹوں پر موہوم سی مسکراہٹ نے اپنی جهلک دکھائی تھی ۔وہ اسکی پرواہ اب بھی کرتی تھی ،وہ اسکے لئے پریشان ہوئی تھی ۔ذہن کے پردے پر اس نے وہ تمام منظر دوہرائے ۔اسکا فکر مندانہ انداز ،اسکے ہاتھ پکڑ کر تسلی دینا ،وہ نرم تاثر سے بھری اسکا چہرہ دیکھتی سبز آنکھیں ،واش بیسن کے آگے اسکے ہاتھوں کو اسے دکھاتے مدهم لہجے میں دیا دلاسہ ۔وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے شرٹ بدلی تھی ۔اس وقت اسکے ذہن میں کچھ دیر پہلے کے دیکھے خواب کا کوئی عکس باقی نہیں تھا ۔وہاں صرف صلہ کا چہرہ تھا ،اسکا فکر کرتا انداز تھا ۔اور ایسا پہلی بار ہوا تھا وہ اتنی جلدی اپنے خواب کے اثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہو سکا تھا ورنہ تو پوری پوری رات اسے خود کو دوبارہ جوڑنے ،مضبوط کرنے میں وقف ہو جایا کرتی تھی ۔

باہر صوفے پر دونوں پاؤں اوپر کیے بیٹھی صلہ کے اندر اتنی آگ تو جل رہی تھی کہ باہر کا سرد موسم اس پر اثر انداز ہونے سے قاصر تھا ۔رہ رہ کر اپنی اسکے لئے فکر اور نرم پڑے دل پر تاؤ آ رہا تھا ۔بھلا وہ شخص اس قابل تھا کہ اس سے کوئی نرمی برتی جاتی ۔

"اور جاؤ ہمدردی جھاڑنے ۔مل گیا چین ،آ گیا سکون ۔اسکی فطرت کبھی نہیں بدل سکتی ۔ہاتھوں میں پتھر اٹھائے گھومتے شخص سے کسی خیر کی امید کرنا ہی عبث ہے ۔پتہ نہیں یہ ایک ماہ کیسے گزرے گا ۔ختم ہو اسکا پروجیکٹ اور جان چھوٹے میری اس آفت سے ۔بد تمیز ،بے حس ،سنگدل انسان ۔کیسے میرے خلوص کا مذاق بنا کر رکھ دیا ۔آئندہ میری توبہ جو اس سے ہمدردی بھرا ایک بول بھی بولا تو ۔"

پیچھے پندرہ منٹ سے وہ بس خود کو کوس ہی رہی تھی ساتھ ساتھ حیدر کی شان میں قصیده خوانی کا شغف بھی جاری و ساری تھا ۔

اپنی ہی سوچوں میں وہ اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کہ اسکے پاس آ کر بیٹھنے پر وہ بری طرح سے چونکے بنا نہیں رہ سکی ۔رات کا پہر اور اسکا اکیلا وہاں بیٹھا ہونا ،اسکا ڈرنا فطری تھا ۔ہاتھ دل کے مقام پر رکھتے اس نے آنکھیں بند کر کے دل کی تیز ہوتی دھڑکن کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی جو اچانک اسے اپنے ساتھ براجمان دیکھ کر ڈر کے مارے فل سپیڈ پکڑ چکا تھا ۔

"انسان ہوں کوئی بھوت نہیں جو یوں اچھل پڑی ہو ۔ابھی کچھ دیر پہلے مجھے تقریر کی جا رہی تھی اب خود کو کیا ہوا ؟"

ایک ابرو اچکا کر اسکی طرف دیکھتے وہ سر جھٹک کر بولا تو ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔صلہ نے بدلے میں فقط اسے ایک تیز چھبتی ہوئی نظر سے نوازا تھا ۔ذرا اور دور ہو کر بیٹھتے وہ رخ پھیر گئی تھی ۔کچھ دیر وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا ۔پھر اسکے کندھے پر ناک کے سے انداز میں اپنی انگلیوں کی پشت سے دستک دی ۔

"سنو ۔"

صلہ نے اس حرکت پر غصے بھری نظروں سے اسے مڑ کر گھورا تھا ۔

"کیا ہے ؟"

وہ بولی نہیں غرائی تھی ۔

"پیار ہے ۔۔۔"ایک آنکھ میچ کر برخستہ کہا گیا ۔

"حیدر میں آپکا سر پھاڑ دوں گی ۔"غصے اور بے زاری سے بھرے لہجے میں انگشت شہادت سے اسے تنبیہ کرتی ، وہ دهیمی آواز میں چلائی تھی ۔اور وہ اسکی وہی انگلی پکڑ کر ہنستا چلا گیا ۔

اسکے آنکھیں میچ کر ہنسنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا ۔اندر لگی آگ کے شعلے بھڑ بھڑ جلتے اسکے کانوں کی لوئیں اور رخسار سرخ کر گئے تھے ۔ہاتھ جھٹک کر اپنی انگلی اسکی گرفت سے چھڑانی چاہی مگر ناکامی رہی ۔اسکے بر عکس حیدر نے ایک خفیف سا جھٹکا دیا تھا اور وہ منہ اور آنکھیں دونوں کھولے بے اختیار اسکی طرف تھوڑا جھکتی قریب ہوئی تھی ،یہاں تک کہ حیدر کا چہرہ اسکے چہرے سے چند انچ کے فاصلے پر تھا ۔صلہ کو اس سے ایسی کسی حرکت کی توقع نہیں تھی اسی لئے اسکی حیرت بجا تھی ۔

رہا حیدر تو وہ جیسے کسی فسوں میں جکڑا گیا تھا ۔سامنے جو پری وش چہرہ تھا وہ خوب صورت تھا مگر اب اسے اور طرح سے اپنی طرف کھینچنے لگا تھا ۔دل کی دھڑکنوں کو نئے سروں پر دھڑکنا سکھانے لگا تھا ۔یک ٹک اسے دیکھتے اسکی گردن کی ہڈی ڈوب کر ابھری تھی ۔اسکے چہرے پر آئی بھورے بالوں کی چند لٹیں ،سبز آنکھوں میں ناچتی حیرانگی اور دبا دبا اشتعال اور نیم وا ہونٹوں کے ساتھ سرخی مائل ہوا چہرہ حیدر کو کسی ایک آدھ شوخ جسارت کے لئے اکسا رہے تھے ۔کسی ٹرانس کے زیر اثر وہ اسے دیکھتا رہ گیا ۔اسے چڑانے کے لئے کی گئی اپنی حرکت اب حیدر کے اپنے گلے کا کانٹا بن گئی تھی ۔دل کی غیر ہوتی حالت ،دھڑکنوں کے شور ،اور جذبوں کے سمندر میں آئے تلاطم سے قطعی نظر کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔نظریں چراتے وہ یہ کٹھن مرحلہ بھی طے کر آیا تھا ۔وقت حالات اور سامنے بیٹھا چاندی کا وہ مجسمہ ابھی اس پر اتنا مہربان بھی نہیں ہوا تھا ۔

اسکی انگلی چھوڑ کر سیدھا ہو کر بیٹھتا وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا ۔صلہ نے بھی اس کے خود ہی شرافت کے جامے میں آ جانے پر سکھ کا سانس لیتے اپنا ہاتھ پیچھے لے لیا تھا ۔

"کمرے سے کیوں بھاگ آئی ہو ؟"گلہ کھنگار کر وہ بولا تھا ۔

"آپ کو جواب ده نہیں ہوں میں ۔"چٹختی ہوئی آواز میں جواب موصول ہوا تھا ۔

"ہاں بھئی ۔یہ تو سچ ہے مجھ معصوم کو کہاں خاطر میں لاتی ہو تم ۔وہ اور ہی کوئی فرمانبردار ،شوہر پرست بیویاں ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کو جواب ده ہوتی ہیں ۔تمہیں تو کاٹ کھاتی نظروں سے مجھے دیکھنے اور طنز کے تیروں سے میرا سینہ چھلنی کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے ۔"

کچھ دیر پہلے کی ہوئی بد مزگی کو سرے سے گول کرتے وہ کس قدر سکون سے اپنا دکھڑا رو رہا تھا ۔صلہ نے تاسف سے سرہلاتے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔وہ عجیب نہیں تھا بلکہ عجیب ترین سے بھی اوپر والا کوئی ترین تھا ۔

"ایسی باتیں آپ کو سوٹ نہیں کرتی حیدر صاحب ۔خود کو معصوم کہہ کر معصومیت کا جنازہ مت نکالئے ۔"اسکی طنز میں ڈوبی آواز پر اس نے اپنے ہونٹوں میں مچلتی ہنسی کو روکا تھا ۔

"اچھا سنو نا ۔"

کچھ لمحے پہلے جو اس نے سنايا تھا اسکے بعد مزید کچھ سننے کی متحمل نہیں تھی وہ ۔وہ اسے چڑانے کے لئے ایسا کرتا تھا مگر دل کا شور پھر بھی بڑھنے لگتا تھا ۔

"مجھے نہیں سننا کچھ بھی ۔"تپ کر کہتے اس نے باقاعدہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر دھر لئے تھے ۔مگر حیدر کا گونجتا قہقہہ پھر بھی اسکی سماعتوں سے ٹکرا گیا تھا ۔بنا سوچے سمجھے اپنے کانوں سے ہاتھ ہٹا کر اس نے حیدر کے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی زور سے جمائی تھی ۔ایک نظر خالہ کے کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر حیدر کو شعلہ بار انداز میں گھورا ۔

"کیا کر رہے ہیں ۔خالہ کیا سوچیں گی کہ آدھی رات کو کیا دورے پڑ رہے ہیں آپ کو ؟"حجل ہو کر اسے گھرکا تو وہ جو اسکے اتنے خود کے قریب آنے اور اپنے ہونٹوں پر اسکے نرم و گداز ہاتھ کا لمس پا کر مسمرائز سا ہوا اسے دیکھ رہا تھا ۔اپنے شوریده جذبات سے گھبرا کر اسکا ہاتھ پیچھے کرتے سرعت سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

"صلہ بی بی ابھی تو میں کچھ نہیں کر رہا مگر آپ کے ارادے آج کچھ ٹھیک نہیں ہیں ۔کوئی نہ کوئی دورہ مجھے آج آپ پڑوا کر ہی دم لیں گی ۔"

ایک بھرپور گھوری سے اسے نوازتا وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا واپس کمرے میں گھس گیا تھا ۔صلہ نے نا سمجھی بھری نظروں سے اسکی پشت کو گھورا تھا ۔

"الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔"

کشنز ٹھیک کر کے رکھتے وہ سونے کا ارادہ باندھ رہی تھی جب وہ دوبارہ نمودار ہوا تھا اس بار بازو میں ایک كمبل بھی گهسیڑ رکھا تھا ۔

"یہ لو پکڑو كمبل اور کمرے میں آنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔"كمبل اسکے ساتھ پهینكنے کے انداز میں رکھتے وہ خفگی سے انگلی اٹھا کر اسے وارن بھی کر رہا تھا ۔صلہ کا دماغ بھگ سے اڑا تھا ۔اٹھ کر اسکے سامنے تن کر کھڑی ہوئی ۔

"ایک منٹ ۔۔۔۔آپ ہوتے کون ہیں یوں مجھ پر آرڈر چلانے والے ۔یہ فلیٹ میرا ،کمرہ میرا تو میں کیوں یہاں باہر لیٹوں گی ۔بلکہ آپ یہاں لیٹیں گے ۔"

کہہ کر وہ کمرے کی جانب بڑھی تھی ۔

"صلہ نہ کرو یار ۔میں صوفے پر ٹھیک سے پورا بھی نہیں آؤں گا ۔"

پیچھے سے اس نے بے چارگی بھرے انداز میں دہائی دی تھی ۔دروازے پر جا کر کھڑے ہوتے وہ پلٹی تھی ۔

"تو میں کیا کروں ؟"

ایک چڑانے والی مسکان اسکی طرف اچھالتے دروازہ بند کر دیا تو وہ تصور میں ہی اسے گھورتا منہ پھلا کر صوفے پر دھڑام سے بیٹھا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

اس شام وہ آفس سے لوٹا تو سب کے چہرے غیر معمولی خوشی سے دمک رہے تھے ۔خلاف معمول صلہ اس سے پہلے گھر پر موجود تھی اور اس وقت خالہ کے دونوں اطراف شہیر اور صلہ بیٹھے انکے ہاتھ میں پکڑے موبائل سکرین کو مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔سامنے میز پر مٹھائی کا ڈبہ پڑا تھا ۔اسے دیکھ کر خالہ نے مسکرا کر مٹھائی کا ڈبہ اٹھاتے اسکی طرف بڑھایا تھا ۔

"لو میاں ۔منہ میٹھا کر لو تم بھی ۔خیر سے میرا پوتا ہوا ہے ۔"

حیدر نے مبارکباد دیتے ایک پیس اٹھایا تھا ۔تب تک شہیر موبائل ہاتھ میں لئے اسکے قریب صوفے پر آ بیٹھا تھا ۔

"بابا یہ دیکھیں کتنا کیوٹ بے بی ہے ۔"شہیر پر جوش سا اسے نو مولود کی تصویریں دکھانے لگا تھا ۔

"ہاں کیوٹ تو ہے ۔"سر ہلا کر تائید کی تو وہ اور خوش ہوا تھا ۔

اسکے بعد خالہ نے کوئی ایک گھنٹے کی ویڈیو کال کی تھی اپنے بیٹے بہو کو اور سارا وقت شہیر انکے ساتھ چپکا بیٹھا رہا تھا ہر تھوڑی دیر بعد وہ انکے کان میں سرگوشی کرتا تھا کہ مامو سے کہیں بے بی دکھائیں اور ہر بار یاور ہنس کر کیمرہ قریب لے جاتے اسے سویا ہوا بچہ دکھاتا تھا ۔

"ماما کیا ہم بھی ایسا بے بی نہیں لا سکتے جیسا یاور مامو لائے ہیں ۔"

رات سونے کے لئے لیٹا وہ صلہ سے سوال کر رہا تھا ۔اور اسکے سوال اب اکثر و بیشتر صلہ کو حیدر کی موجودگی میں شرمندگی سے دوچار کرتے تھے ۔

"کیوں نہیں لا سکتے بالکل لا سکتے ہیں ۔"

جواب صلہ کے بجائے دوسری جانب لیٹے حیدر نے دیا تھا ۔صلہ کو خفت کے ساتھ ساتھ کوفت نے آن گھیرا ۔

"سچی بابا ۔یاور مامو سے پوچھا تھا میں نے انہوں نے بے بی ہوسپٹل سے لایا ہے ۔ہم بھی لے آتے ہیں ۔"حیدر کی طرف گردن موڑے وہ اشتیاق سے کہہ رہا تھا ۔حیدر نے بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کی تھی اور صلہ نے اپنا غصہ ۔

"شہیر تم سوتے ہو یا ایک لگاؤں اب تمہیں میں ۔"صلہ نے خواہ مخواہ ہی اسے جھڑکا ۔

"کیا ماما ؟اب میں نے کیا کیا ہے ؟"وہ منہ بسورتا اسکی طرف ناراضگی سے دیکھنے لگا ۔

"چھوڑو شہیر ماما کو ۔ماما تو ویسے ہی غصہ کرتی رہتی ہیں ۔تم بتاؤ تمہیں بہن چاہیے کہ بھائی چاہیے ۔"

حیدر کو تو جیسے من پسند موضوع مل گیا تھا ۔

شہیر نے کچھ دیر سوچنے کے لئے وقت لیا ۔

"مجھے بھائی چاہیے ۔"حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا اور صلہ نے ضبط سے ۔وہ دونوں اس وقت اسکا پارہ ہائی کر رہے تھے ۔

"ایسا کیوں ؟بہن کیوں نہیں چاہیے ؟"حیدر نے مسکرا کر پوچھا تھا ساتھ کن اکھیوں سے سرخ پڑتے صلہ کے چہرے پر نظر ڈالی تھی ۔جسے دیکھ کر لگتا تھا وہ اب پھٹی کہ تب پھٹی ۔

"بھائی کے ساتھ میں کھیلوں گا نا ۔"

"تو کھیل تو تم بہن کے ساتھ بھی سکتے ہو ۔"حیدر نے اپنی رائے دی ۔

"بس ۔اب مجھے کسی کی آواز نہ آئے ۔"

اور حیدر کی توقع کے عین مطابق وہ پھٹ پڑی تھی ۔

"ماما ۔۔۔۔"شہیر نے کچھ کہنا چاہا ۔

"ایک دم چپ شہیر کوئی بہن بھائی نہیں آ رہا ۔یاور مامو کا بے بی بھی آپکا بھائی ہی ہے نا ۔اب چپ کر کے  سو جاؤ ۔"

صلہ نے قطعی انداز میں سنجیدگی بھری آواز میں کہا تو شہیر کا منہ بن گیا ۔

"آپ نہ لے کر دیں مجھے ماما ۔میں اپنا بے بی اڈاپٹ کر لوں گا ۔"

کچھ دیر بعد اسکی منمناتی آواز پر حیدر کا قہقہہ پڑا تھا ۔

"آہ میرا چیتا ۔"حیدر اسکے جواب سے اتنا محظوظ ہوا تھا کہ اسکا گال چومتا اسے داد دے رہا تھا ۔اور صلہ کا اب ضبط کے مارے حال برا ہونے لگا تھا ۔

"شہیر ۔"صلہ نے تنبیہی لہجے میں اسکا نام پکارا تھا ۔

"بچے کو ڈانٹ کیوں رہی ہو صلہ ؟ایک معصوم سی خواہش کا اظہار ہی تو کر رہا ہے ۔"

اپنی مسکراہٹ ہونٹوں کے کونوں میں دبائے حیدر سر اونچا کرتے اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔صلہ نے تندی بھری نظروں سے اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں تھا ۔اور اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھتے حیدر نے خود ہی اسے مزید چھیڑنے کا ارادہ مقفود کر دیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

اگلے دن صبح سے بارش جو شروع ہوئی پورا دن وقفے وقفے سے برستی رہی تھی ۔حیدر کے کہنے کے باوجود صلہ اسکے ساتھ آفس نہیں گئی تھی ۔وہ بھی زیادہ اصرار کرنے کے بجائے نکل گیا تھا ۔شام کو واپسی پر وہ اس دن خود لیٹ آیا تھا اور گھر پہنچ کر پتہ چلا تھا صلہ بھی ابھی تک نہیں لوٹی تھی ۔باہر زوروں کی بارش برس رہی تھی ۔وہ اسے کال کرنے لگا تو موبائل کمرے میں ہی بجا تھا ۔

"صبح جلدی میں اپنا موبائل بھی بھول گئی گھر وہ ۔"

اسکے کمرے کے کھلے دروازے سے آواز کے تعاقب میں دیکھنے پر خالہ نے بتایا تو اسے تیوری چڑھی تھی ۔

"حد ہوتی ہے لا پرواہی کی اپنا موبائل کون یوں چھوڑ کر جاتا ہے ۔"وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا ۔

"ابھی تھوڑی دیر تک آتی ہو گی ۔بارش بھی تو تیز ہے ناں دیر سویر ہو جاتی ہے ۔"

خالہ کا انداز تسلی دینے جیسا تھا ۔

"اسکے آفس کا نمبر ہے آپ کے پاس ۔"

کچھ دیر یوں ہی ٹہلنے کے بعد وہ ركتا خالہ سے استفار کر رہا تھا ۔

"بیل جا رہی ہے مگر کوئی کال ریسیو نہیں کر رہا ۔ویسے بھی آفس سے تو چھٹی ہو گئی ہو گی ۔"

خالہ کے جواب پر متوحش سا اپنی کلائی پر بندهی گھڑی پر نگاہ کی ۔دو گھنٹے اوپر ہو گئے تھے ، وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا ۔

"میں دیکھتا ہوں جا کر ۔اگر وہ آ گئی تو مجھے کال کر دیجئے گا ۔"

خالہ سر ہلا گئیں ۔اب انہیں خود بھی گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔ایک تو موسم کے تیور ٹھیک نہیں تھے ۔دوسرا صلہ کے پاس موبائل بھی نہیں تھا ۔ورنہ کبھی تاخیر ہو جاتی تو وہ کال لازمی کر دیا کرتی تھی ۔

کمرے میں اپنا ہوم ورک کرتا شہیر بھی باہر نکل کر اب صلہ کی بابت سوال کرنے لگا تھا ۔

تبھی دروازہ کھلا تھا اور بھیگے کپڑوں سمیت صلہ اندر داخل ہوئی تھی ۔اور اسے دیکھ کر خالہ کی جان میں جان آئی تھی ۔شہیر مطمئین سا واپس پلٹ گیا تھا ۔

"کہاں رہ گئی تھی بیٹا ۔میرا جی ہلکان ہوا جا رہا تھا ۔"

"آج آفس میں میٹنگ تھی خالہ ۔آدھا گھنٹہ وہاں سے ہی لیٹ نکلی ،پھر بارش کی وجہ سے ٹریفک جام اوپر سے ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا لوڈڈ ٹیمپو تھا بیچ راستے الٹ گیا ۔تو بس راستہ کلئیر کرنے میں دیر لگ گئی ۔"چادر اتار کر جھاڑتے وہ ساتھ بتا بھی رہی تھی ۔ٹیکسی سے اتر کر بلڈنگ کے اندر داخل ہونے تک وہ اچھی خاصی بھیگ گئی تھی ۔

"چلو شکر ہے تم خیریت سے پہنچ آئی ۔موبائل بھی گھر پر تھا ۔اب یوں کرو حیدر کو کال کر کے بتا دو تم آ گئی ہو ۔"

انکے کہنے پر ہاتھ روک ، وہ متعجب سی انکی طرف دیکھنے لگی تھی ۔

"حیدر کو کیوں ؟"

"ارے وہ تمہیں دیکھنے گیا ہے ۔بہت دیر ہو گئی تھی تمہیں تو ابھی آدھا پونہ گھنٹہ پہلے نکلا ہے ۔"خالہ نرمی بھرے انداز میں اسے بتا رہی تھیں ۔صلہ کے چہرے پر درشتگی سی چھا گئی ۔

"وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں ۔خود واپس آ جائیں گے کوئی ضرورت نہیں کال کرنے کی ۔"کہتے ہوئے بہت سارا کرب وہ اندر ہی اندر پی گئی تھی ۔

"لیکن صلہ وہ ۔۔۔۔"خالہ نے کچھ کہنا چاہا ۔وہ کمرے میں جاتے جاتے رک گئی ۔شاکی نظروں سے خالہ کو دیکھا تو آنکھوں میں نمی کی تہہ تھی ۔

"خالہ پچھلے نو سال سے دھکے کھا رہی ہوں میں ۔کتنی بار دیر ہوئی آفس سے ۔کبھی کوئی پیچھے آنے والا نہیں ہوتا تھا ۔آج جب آپ بتا رہی ہیں نا وہ میرے لئے گیا ہے تو یقین کریں مجھے صرف اور صرف غصہ ہی آ رہا ہے ۔مجھے عادت نہیں ہے اس پرواہ کی ،اس فکر کی ۔صبح گھر سے نکلتی ہوں تو پتہ ہوتا ہے اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو پیچھے آنے والا کوئی مرد نہیں ہے ۔نو سال کہاں تھا وہ ؟کیوں نہیں تھا یہاں جب جب مجھے اسکی ضرورت تھی ؟اور اب یہاں ہے تو کیوں ہے ؟جب مجھے اسکی ضرورت نہیں رہی ۔"

آواز بھلے دھیمی تھی مگر اس میں جو اذیت تھی وہ خالہ کا دل بھی کاٹ گئی تھی ۔آنکھوں میں پانی کی مقدار بڑھی تو وہ انکے چھلکنے سے پہلے ہی تیز قدم لیتی اندر بڑھ گئی تھی ۔خالہ اسے پیچھے سے پکارنے کی ہمت تک نہ کر سکیں ۔

کمرے میں شہیر تھا وہ واش روم میں بند ہو کر بہت سارا روئی تھی ۔پتہ نہیں کیوں اسے اتنا رونا آ رہا تھا ۔خاله نے جب بتایا کہ وہ اسکے پیچھے گیا ہے ۔کیسا تحفظ بھرا احساس تھا ۔کوئی تھا جو اسکے دیر سے گھر آنے پر اسکے لئے پریشان ہوتا اسکی خیر خبر لینے باہر گیا تھا ۔مگر وہ کیا کرتی ان تمام سالوں کا جو اس نے اسکے ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہو کر گزارے تھے ۔اسے تکلیف ہوئی تھی ،دل میں كسک سی جاگی تھی ۔اور وہ خود کو مضبوط ظاہر کرتے کرتے اب کمزور پڑنے لگی تھی ۔

باہر خالہ اسکے قطعیت بھرے انداز پر دل مسوس کر رہ گئی تھیں ۔پہلے صلہ کی فکر تھی اب حیدر کے لئے پریشان ہوتی وہ لیونگ ایریا کے چکر کاٹ رہی تھیں ۔

وہ نو بجے کے قریب واپس گھر آیا تھا تو پوری طرح سے بھیگا ہوا تھا ۔فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر کچن میں کھڑی صلہ پر پڑی تھی ۔چہرے پر چھائی پریشانی پلک جهپكتے غائب ہوئی تھی اور اب وہاں نا گواری و غصہ جهلک رہا تھا ۔

"تم کب واپس آئی ؟"بنا صوفے پر بیٹھیں خالہ کا نوٹس لئے وہ تیر کی تیزی سے اس تک پہنچا تھا جو اسکے آنے پر تشکر آمیز سانس لیتیں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں ۔

"سات بجے آ گئی تھی ۔"بنا اس کی طرف دیکھے کہا تو حیدر کی آنکھوں میں تندی سی ابھری ۔

"تو بتایا کیوں نہیں کال کر کے ؟میں کہہ کر نکلا تھا ۔تمہیں اندازہ بھی ہے پچھلے دو ڈھائی گھنٹے کس قدر مشکل تھے میرے لئے ۔پورے راستے فٹ پاتھ پر نظریں رہیں میری ،تمہارے آفس کے سیکیورٹی گارڈ سے منہ ماری کی ،آس پاس کے ہوسپٹلز کی ایمرجنسی تک چھان ماری ۔اور تم یہاں ۔۔"

کاؤنٹر پر ہاتھ مار کر وہ تلخی سے سرد مگر آہستہ آواز میں بولتا چلا گیا ۔کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑی وہ بازو لپیٹ کر اسکا تپا ہوا سرخ چہرہ بغور دیکھتی رہی تھی جب ایک دم سے اسکی بات کاٹتی بول اٹھی ۔

"تو میں کیا کروں ؟"

اسکی آواز قدرے اونچی تھی ۔حیدر کو چپ لگی ،وہ آنکھیں چھوٹی کیے حیرت بھری زيادتی سے اسے دیکھتا رہ گیا جو اب بھی آنکھوں میں ٹھنڈا سا یخ بستہ تاثر لئے اسے پر سکون سی دیکھ رہی تھی ۔

"مجھے اپنے ڈھائی گھنٹے کی آب بیتی مت سنائیے گا حیدر صاحب ۔کیوں کہ بدلے میں اگر میں نے اپنے نو سال کی روداد سنا دی تو خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے آپ ۔اس لئے مت چھیڑیں ان بیتی تلخیوں کو ،تکلیفوں کو جو میں جھیل چکی ہوں ۔اور آپ کو کس نے کہا تھا ہیرو بن کر سڑکیں چھاننے کا ؟ آ جاتی میں جیسے اتنے سالوں سے آ رہی تھی ۔کیا تب بھی کبھی تاخیر ہونے پر آپ میرے پیچھے آیا کرتے تھے ؟کیا اتنے سال آپ نے سوچا بھی کہ میں کیسے جی رہی ہوں گی ؟تو پھر اب یہ کرم نوازیاں کیوں ؟ "

بے تاثر آواز اور برفیلا لہجہ ۔اور یہاں آ کر مرتضیٰ حیدر کاظمی جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتا تھا ۔سارا غصہ ،سارا طنطعنہ اڑنچھو ہو جایا کرتا تھا ۔یہ نو سالہ خلیج اسے صلہ سے صدیوں کے فاصلے پر لے جایا کرتی تھی ۔اسکی اپنی لغزشیں ،اسکے الفاظ ،زبان ،دل اور روح جکڑ لیا کرتی تھیں ۔

"مت کریں یہ سب اب میرے لئے یہ اب صرف اذیت کا باعث ہے ۔آپ کے لئے کتنا آسان ہے نا حیدر جب چاہا ہاتھ چھڑا لیا اور جب جی میں آیا واپس آ کر تھام لیا ۔مگر میرے لئے نہیں ہے ۔ہاتھ چھوڑنے سے تھامنے کے درمیان کی میری مسافتیں مجھے آگے نہیں بڑھنے دے رہیں ۔آپکا انتقام ،آپکا سب ختم کرنا ،اور اب واپس لوٹنا اس سب میں جو کھویا ہے وہ میں نے کھویا ہے ۔جو خسارے آئیں ہیں سب میرے نصیب میں آئے ہیں آپ نے تو کچھ نہیں گنوايا ،وقت گزر جائے تو بہت سے احساسات مرده ہو جاتے ہیں ، پھر ان میں نئی روح نہیں پھونکی جا سکتی ۔میرا اور آپکا رشتہ بھی اپنی سانسیں کھو چکا ہے اب اسکے مردہ وجود میں کوئی احساس پھر سے زندگی کے رنگ نہیں بھر سکتا ۔میں نے اسی لئے کہا تھا اب جو ہے شہیر ہے ۔میرے لئے بھی اور آپ کے لئے بھی ۔مزید کسی دوسرے وجود کی نہ میری طرف جگہ نکلتی ہے اور بہتر ہو گا آپ کی طرف بھی نہ نکلے ۔"

بے بسی سے کہتی وہ قدرے اکتائی ہوئی لگتی تھی ۔نہ کوئی غصہ ،نہ ہی ناراضگی بس اک دکھ تھا اسکے لب و لہجے میں ۔گئے دنوں کا ملال ،اسکے تن و تنہا سفر خار زار کی تهکاوٹیں ،اور شاید ٹوٹے دل کا بے آواز بلند و بانگ شور ۔

ویران آنکھوں میں کوئی بھی تاثر نہیں تھا ،نہ غصہ ،نہ نفرت ،نہ ناراضگی اور نہ کوئی گلہ شکوہ ۔بالکل سپاٹ اور خالی پن لئے ۔اور یہ خالی پن اسکی چھبتی انگارے برساتی نظروں اور طنز کے تیر چلاتی زبان سے زیادہ تکلیف دیتا تھا ۔

اسکے تاریک پڑتے چہرے پر ایک آخری نظر ڈالتی وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی مگر وہ نہیں ہٹ سکا ،کتنی دیر تک وہ وہیں نمک کے مجسمے میں ڈھلا کھڑا رہا تھا،اور نمک کی خاصیت ہے وہ پگھلتا رہتا ہے ۔

 

"اسے لگتا ہے انتقام کے اس سارے چکر میں میں نے کچھ نہیں کھویا ۔اسے یہ کیوں نظر نہیں آتا جو میں نے کھویا ہے اسکی بھرپائی ممکن نہیں ۔میرے پاس میرے اپنے بیٹے کی آٹھ سالہ زندگی کا کوئی ایک خوب صورت لمحہ تک نہیں ۔کوئی ایک یاد نہیں اور اسے یہ نظر تک نہیں آیا ۔"

آنکھوں میں در آئی اداسی کے ساتھ کوئی چھبتا ہوا احساس بھی جاگا تھا ۔یوں ہی کھڑے وہ بھیگے لباس اور بھیگے بالوں کے ساتھ سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ کاؤنٹر کے ماربل پر انگلی پھیرتا رہا ۔

"نو سال اس نے کھوئے ہیں تو میرا بھی تو نقصان ہوا ہے ،وہ نو سال میری زندگی کے بہترین سال ہو سکتے تھے ،صلہ کے ساتھ ،شہیر کے ساتھ مگر میں نے کھو دیے ۔میں زندگی میں آگے بڑھ سکتا تھا ،اپنے حصے کی خوشیاں ،سکون ،اطمینان قلب سب پا سکتا تھا مگر یہ موقع میں کھو چکا ۔ٹھیک ہے میری غلطی تھی ، میں مانتا ہوں مگر اس غلطی نے مجھے بھی تو خسارے دیے ہیں ،پچھتاوے دیے ہیں ،وہ بار بار یہ کیوں کہتی ہے میرا کچھ نہیں گیا ۔"

وہ خود ترسی کا شکار آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔بڑی سے بڑی مشکل میں بھی وہ نہ خود پر خود ترس کھاتا تھا نا دنیا والوں کو یہ موقع دیتا تھا ۔مگر اس وقت اسے خود پر رحم آیا تھا ۔وہ رحم جو صلہ کو اس پر نہیں آتا تھا اور اسے کوئی شکوہ بھی نہیں تھا ۔وہ جانتا تھا، یہ سب وہ ڈیزرو کرتا تھا ۔

"اب زندگی ایک موقع اور دے رہی ہے صلہ تو اس بار میں پیچھے نہیں ہٹوں گا ۔یہ ضروری ہے میرے اپنے لئے ،تمہارے لئے اور شہیر کے لئے ۔یوں آدھی ادھوری زندگی اب ہم تینوں میں سے کوئی بھی نہیں جئے گا ۔ایک مکمل اور خوش حال زندگی ہم تینوں کی منتظر ہے تو اس بار اسے کسی کی جھوٹی انا ،ضد اور عناد کی نذر نہیں ہونے دوں گا میں ۔چاہے اس کے لئے مجھے ساری عمر تمہاری جلی کٹی سننی پڑے ۔"

ہونٹوں پر اک زخمی سی مسکراہٹ لئے وہ نئے عزم سے تہیہ کر رہا تھا ۔اور وہ کبھی نہیں ہارتا تھا جب تک وہ خود اپنی ہار تسلیم نہ کر لے ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

اتنی دیر بھیگنے اور پھر بھیگے کپڑوں میں رہنے نے اپنا اثر دکھایا تھا وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے چھینک رہا تھا ۔خالہ کو اس نے بتایا تھا اسے بارش کے پانی میں بھیگنے سے الرجی ہے وہ تو گرمیوں کی بارش میں بھی بھیگنے پر نزله زكام کا شکار ہو جایا کرتا تھا یہ تو پھر سردیاں تھیں ۔خالہ کا دل تو پہلے ہی اسکے لئے پسیج رہا تھا ان سے رہا نہیں گیا تو اسکے لئے قہوه بنا کر صلہ کے ہاتھ میں تهمایا تھا ۔

"یہ ادرک کا قہوه ہے ۔پی لیں ۔"

اسکے سامنے مگ رکھتے وہ مڑی تھی ۔

"مجھے نہیں پینا ۔"

ضدی سے انداز میں فوری جواب دیا گیا تھا ۔صلہ نے بے زاری سے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔آنکھیں ،ناک کی نوک یہاں تک کہ اسکی گردن بھی سرخ پڑ رہی تھی ۔

"میں نے پہلے ہی خالہ سے کہا تھا کوئی ضرورت نہیں ہے فضول میں چونچلے اٹھانے کی ۔مگر انکا دل پتہ نہیں کیوں پگھلا جا رہا ہے آپ کو دو چار چھینکیں مارتے دیکھ کر ۔رہا نہیں گیا ان سے ،یہ سوغات بھی انہی کے ہاتھوں بن کر آئی ہے ۔اب چپ چاپ پی لیں ۔اور ویسے بھی آپ اکیلے کمرے میں رہ رہے ہوتے تو اور بات تھی مگر اب خواہ مخواہ فلو کے جراثیم شہیر اور مجھ تک منتقل کریں گے ۔"

کوفت بھرے انداز میں اسکی طبیعت اچھے سے صاف کرتے اسکا صدمے سے کھلا منہ اور پھٹی آنکھیں وہ نظر انداز کر گئی تھی ۔

ایک جھٹکے سے اٹھ کر اسکے سامنے کھڑا ہوتا وہ اسے گھور کر رہ گیا جو تھوڑی پیچھے کی جانب ہوئی تھی ۔

"کتنی کوئی کینہ پرور عورت ہو تم ۔شوہر بیمار ہے اور تمہاری خود غرضی کا عالَم یہ ہے کہ ابھی بھی تمہیں اپنی اور اپنے بیٹے کی بس پڑی ہے ۔"بمشکل جملا مکمل کرتے وہ ایک بار پھر کہنی میں منہ گھسیڑ کر  چھینکا تھا ۔

"تصحیح کیجئے ۔پہلی بات زبردستی کا بن رہا شوہر اور دوسری بات ایسی بھی کوئی جان لیوا بیماری نہیں لاحق ہوئی ہلکا سا فلو ہے بس ۔"کہہ کر وہ پلٹنے لگی تھی جب حیدر نے کہنی سے پکڑ کر اسے روکا تھا ۔صلہ کی تیوری چڑھی ۔تندہی بھری نظروں سے اسے دیکھا جو اب ایک چڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا ۔صلہ کو تو اب اسکے بدلتے موسموں جیسے مزاج پر حیرت ہونا بھی بند ہو گئی تھی ۔وہ اسکی ہر تلخ سے تلخ بات بڑے آرام سے پی جاتا تھا اور اس پر مستزاد اسکا نرم و گداز انداز ۔صلہ کو الجھن ہونے لگی تھی ۔

"تو یوں بھاگ کیوں رہی ہو ہلکا سا فلو ہی تو ہے ۔اور ویسے بھی یہ بڑی رومینٹک قسم کی بیماری ہے ۔سامنے والے کو صحیح معنوں میں اپنے رنگ میں رنگنے والی ۔بڑی جلدی اپنا اثر دوسرے پر چھوڑتی ہے ۔اچھا ہے ناں شاید اسی طرح تمہارے دل میں میرے لئے محبت کا کوئی سویا ہوا جراثیم بھی جاگ اٹھے ۔"

"بڑا ہی کوئی سستا رومینس ہے۔"صلہ نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھتے سر نفی میں ہلایا ۔حیدر کی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش اسکی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکی تھی ۔

"تم اجازت دو صلہ بی بی ۔میں مہنگے والا رومینس کرنے کو بھی تیار ہوں ۔"برخستہ جواب پر صلہ نے ایک نظر پیچھے بیڈ پر بے خبر سوئے شہیر کو دیکھا تھا پھر نگاہیں اسکے چہرے تک واپس آئیں ۔آنکھوں  سے شعلے سے لپکے تھے ۔پلکوں کی ہلکی سی لرزاہٹ نے اسکے حال دل کی چغلی کرنی چاہی مگر وہ اس پر قابو پا گئی ۔

"مجھے چڑانے کے لئے یہ جو بودی حرکتیں آپ کرتے ہیں نا باز آ جائیں ۔کسی دن میرا دماغ گھوم گیا تو شہیر کو لے کر میری ساری مصلحت پسندی کو ایک سائیڈ پر رکھتے بخدا آپکا ساز و سامان فلیٹ سے باہر پهینكنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گی میں ۔"

حیدر کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ غائب ہوئی ،آنکھوں کا نرم تاثر زائل ہوا تو چہرے کی ساری قندیلیں جیسے کسی نے ایک ہی پھونک میں گل کر دی تھیں ۔

اسکا ہاتھ اپنی کہنی سے ہٹا کر جھٹکتے وہ اسے آنکھوں سے ہی بھسم کرتی وہاں سے چلی گئی۔اہانت کے احساس سے حیدر کی سرخ پڑتی گردن کی رگیں تن سی گئیں ،اسکا جھٹکا ہاتھ مٹھی کی صورت بند کرتے ساتھ جبڑوں کو بھی زور سے بھینچ ڈالا ۔

اپنے سامنے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے کے لئے ضبط کی یہ راہیں بڑی دشوار ثابت ہو رہی تھیں ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?