دنیا دوغلے لوگوں سے بھری پڑی ہے . پتہ نہیں ان کے کالے کرتوتوں کی پھٹکار انکے چہرے پر کیوں نہیں برستی ۔شکلیں تو یوں ہوتی ہیں جیسے بڑے فرشتہ صفت انسان ہوں اور اندر سے ایسے شر انگیزياں لئے ہوتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے ۔"
رقيه خالہ کے اس با آواز بلند کیے تبصرے پر وہ تو نظریں ارد گرد گھماتے پر سکون سا چلتا رہا تھا مگر شہیر نے رک کر پیچھے مڑتے انہیں دیکھا تھا ۔وہ تینوں شام کو پارک اب ایک ساتھ جایا کرتے تھے ۔شروع کے تین چار دن تو خالہ نے پارک کا ہی بائیکاٹ کر دیا تھا مگر پھر شہیر نے انہیں رضا مند کر ہی لیا تھا ۔اور اب یہ روز کا معمول تھا .وہ آتے جاتے اسے یوں ہی بنا مخاطب کیے خوب کھری کھری سنايا کرتی تھیں ۔مگر مجال تھی جو اسکے کان پر جوں بھی رینگتی ۔وہ بھی ایسا بے عزتی پروف ثابت ہوا تھا کہ سارا راستہ بنا چوں چراں کے سن لیا کرتا تھا ۔
"کس کی بات کر رہی ہیں نانو ؟"
بہت سے الفاظ کے مفہوم سے غیر آشنا ہونے کے باوجود ایک وہی تھا جو ہر اسے جملے کے آخر میں ان سے یہ پوچھنا نہیں بھولتا تھا ۔خالہ نے ایک جتاتی نظر حیدر پر ڈالی جو ان دونوں کے رکنے پر رک کر انہیں دیکھنے لگا تھا ۔آہ ۔۔۔کاش کبھی بہروں سے شرط لگائے ،یہ سوال اسکا باپ پوچھتا تو انکے دل کے سارے جلے پهپھولے پھوٹ جاتے ۔
"کسی کی بات نہیں کر رہی منا ۔میں تو بس ایسے ہی ایک عام سی بات کر رہی ہوں ۔دنیا بڑی دوغلی ہو گئی ہے ۔بھولی شکلوں پر تو کسی صورت اعتبار نہیں کرنا چاہیے ۔"
کہا شہیر کو جا رہا تھا مگر سنايا حیدر کو جا رہا تھا ۔شہیر نے سمجھ داری سے سر ہلا دیا ۔
وہ دونوں ایک بار پھر سے چلنے لگے تو حیدر نے بھی انکا ساتھ دیا تھا ۔
"بڑا کوئی ڈھیٹ ہے ۔ایسا تو پوری زندگی نه کوئی دیکھا نه سنا ۔"کن اکھیوں سے خود سے ایک قدم آگے چلتے حیدر کو گھورا تھا ۔
پارک آ کر شہیر تو اپنی ڈرائنگ میں مصروف ہو گیا تھا ۔خالہ کا آج شاید واک کا موڈ نہیں تھا وہ یوں ہی بینچ پر بیٹھ گئیں تو ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے حیدر نے محتاط نظروں سے انکے تنے ہوئے چہرے کو دیکھا تھا ۔
"آپ کو مجھ پر بہت غصہ آتا ہو گا نا ؟"کچھ دیر بعد وہ آہستہ آواز میں ان سے پوچھ رہا تھا ۔نظریں خود سے کچھ فاصلے پر نیچے سبزہ زار پر بیٹھے شہیر پر جمی ہوئی تھیں ۔خالہ نے گردن ترچھی کر کے آنکھیں سكیڑ کر اسے ذرا سخت نظروں سے متعجب انداز میں دیکھا پھر نگاہیں پھیر لی ۔
"ہوں ۔۔۔یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔"انکے جلے کٹے انداز پر وہ پھیکا سا مسکرایا ۔پھر سر کو ہاں میں تین چار بار جنبش دی ۔
"اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا ایک موقع تو ہر انسان کو ملنا چاہیے نا خالہ ؟"
کچھ توقف سے اسکی آواز ایک بار پھر سے ابھری تھی ۔اور اس بار خالہ چونکے بنا نہیں رہ سکیں ۔نظریں اس پر جما لیں جو اب دونوں ہاتھ باہم پیوست کیے ان پر نگاہیں ٹکائے ہوئے تھا ۔پہلے پہل حیرانگی اور پھر کرختگی نے انکی آنکھوں میں جگہ بنائی تھی ۔
"غلطیاں ٹھیک کی جاتی ہیں میاں ، زیادتیاں نہیں ۔اتنے سالوں بعد تمہیں یاد آئی ہے اپنی کوتاہیوں کی ۔جب کہ آج سے کچھ دن پہلے ہی اسی مقام پر تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ تمہاری تو ابھی شادی تک نہیں ہوئی ۔مجھے تو صلہ کے صبر اور برداشت پر تعجب ہوتا ہے جو تمہیں برداشت کر رہی ہے ۔"
حتی الامکان اپنی آواز دھیمی رکھتے وہ سلگتی ہوئی آواز میں بول رہی تھیں ۔اس دوران شہیر نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا تھا تو بات جاری رکھتے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا ،وہ دوبارہ سر نیچے جھکا گیا ۔
اور انکی بات پر حیدر کا چہرہ بجھ سا گیا تھا ۔بار بار اپنی غلطیوں کا اعاده بھی کوئی آسان کام نہیں تھا ۔اور یہاں تو اسے رقيه خالہ سے لے کر صلہ تک استاد ہی بڑے سخت گیر ملے تھے ۔جو اسے قدم قدم پر باور کروانے کی ٹھانے ہوئے تھے ۔
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔میں اختلاف نہیں کروں گا ۔میں غلط تھا ۔آپ غلطی کہہ لیں ،زيادتی یا پھر گناہ جو بھی نام دے لیں لیکن میں پھر بھی کہوں گا مجھے ایک موقع ملنا چاہیے ۔اللّه بھی تو توبہ کا در کھولے رکھتا ہے ۔لیکن وہاں تو نیتیں دیکھی جاتی ہیں ۔کوشش دیکھی جاتی ہے ۔اب آپ کو اپنی نیت کیسے دکھاؤں میں ؟میں نے معافی نہیں مانگی ۔جانتا ہوں ابھی اس قابل نہیں ہوں لیکن بننا چاہتا ہوں خالہ ،یہ بھی پتہ ہے مجھے اس کے لئے بہت عرصہ درکار ہو گا ۔نو سال بھی تو کم عرصہ نہیں ہے ۔ہو سکتا ہے کبھی زندگی کے کسی مقام پر معافی طلب کرنے کی سکت بھی اپنے اندر پیدا کر لوں ۔لیکن ایک چیز ہے جو میں آنکھ جهپکتے ہی کر لینا چاہتا ہوں ،کاش یہ اتنا جلدی ہو بھی سکے مگر نہیں ہو گا اس کے لئے بھی وقت چاہیے لیکن پھر بھی میں سب ٹھیک کرنا چاہتا ہوں ۔شہیر کے لئے ،صلہ کے لئے اور شاید اپنے لئے بھی ۔"
وہ بہت مدهم آواز میں بول رہا تھا اور آخر تک آتے آتے اسکا لہجہ نیم سرگوشی میں تبدیل ہو گیا تھا ۔
خالہ مشتبه نظروں سے اسے گھورتی رہ گئیں ۔اسکا سابقہ ریکارڈ اسکی کسی بات پر یقین کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔
"آپ کو میری کہی باتوں کا یقین نہیں ہے نا ؟"وہ بجهی ہوئی سی مسکراہٹ لئے بولا ۔
"یقین كمانا پڑتا ہے میاں ۔ایسے ہی راہ چلتے ہر کسی پر یقین نہیں کر لیا جاتا ۔اور تمہاری تو خیر بات ہی الگ ہے ۔انسان جہاں سے ایک بار ڈسا جائے عقل کہتی ہے دوبارہ وہاں پاؤں رکھنے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے ۔"وہ طنز نہیں کر رہی تھیں ۔بس حقیقت کا آئینہ اسکے روبرو رکھ رہی تھیں ۔
"انسان بدل بھی تو سکتا ہے ؟"انکی بات کے جواب میں سر ہلاتے ہوئے وہ فقط اتنا ہی کہہ سکا تھا ۔
"انسان نہیں بدلتے ،وقت اور حالات بدلتے ہیں ۔تم اب بھی وہی ہو جو نو سال پہلے تھے ۔اب بس حالات وہ نہیں ہیں ،وقت پہلے سا نہیں رہا ۔اب جہانگیر نہیں ہے ،تمہاری نفرت کا منبع کھو گیا ہے ۔اور شہیر کا وجود تمہیں خود سے باندھ رہا ہے ۔ورنہ صلہ تو پہلے بھی وہی تھی ۔صلہ اب بھی وہی ہے ۔مگر تمہارا المیہ یہ ہے حیدر کہ تم نے صلہ کو صلہ کے طور پر نہ تو کبھی دیکھا ،نہ سمجھا اور نہ ہی جانا ۔پہلے وہ جہانگیر کی بیٹی تھی اس لئے تم اسکے ساتھ زيادتی کے مرتکب ہو بیٹھے ۔اسکی غلطی نہیں تھی مگر اس نے سب سے زیادہ بھگتا ۔اور اب وہ شہیر کی ماں ہے تو تم اسے اپنے بچے کی ماں کے طور پر دیکھ رہے ہو ۔ایک بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش میں جتے ہوئے ہو۔صلہ کی ذات اب بھی کہیں نہیں ہے اور میرا یقین ہے اگر تم نو سال پہلے بھی ایک بار صرف ایک بار اسے جہانگیر کی بیٹی کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے اسکی ذات کو دیکھ لیتے تو کبھی اسے چھوڑ کر جانے کی سنگین غلطی نہ کرتے ،یہ تمہارا سب سے بڑا خسارہ ہے ۔اچھا ہمسفر ملے اور اسکی قدر نہ کی جائے نا تو وقت گزرنے کے بعد یہ كسک بڑی جان کسل بن جاتی ہے ۔تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا انشاء اللّه ۔"انکی آواز بھیگنے لگی تھی ۔اور اسکے ساتھ ساتھ حیدر کا دل بھی شاید ۔کیا بے باک تجزیہ کیا گیا تھا اس کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا ۔سچائی زبان یوں ہی تو باندھ لیا کرتی ہے ۔سارے الفاظ گنگ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
وہ کچھ دیر یوں ہی خاموش سا بیٹھا رہا پھر شہیر کے بلانے پر انکے پاس سے اٹھتا اسکی طرف بڑھ گیا ۔خالہ کی پر سوچ نظریں اب نیچے سبزہ زار پر بیٹھے جھک کر کلرنگ کرتے حیدر اور شہیر ٹھہری ہوئی تھیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
صبح شہیر کو اٹھانے کمرے میں داخل ہوتے اسکی نگاہ جوں ہی سامنے اٹھی تھی آنکھوں میں سراسیمگی در آئی تھی ۔وہ شہیر تھا جو چت لیٹے ،سوئے ہوئے حیدر کے پاس بستر کے بالکل کنارے پر ٹکا تھا اور اسکا ہاتھ اسکی گردن کی ہڈی کو چھونے کے چند انچ کی دوری پر تھا ۔لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے کچھ یاد آیا تھااور وہ خود کو چلانے سے روک نہیں پائی تھی ۔
"شہیر ۔"
اسکی اتنی بلند اور اچانک آواز پر شہیر جو اتنے سکون سے بیٹھا ہوا تھا گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور گڑبڑا کر تو سویا ہوا حیدر بھی جاگا تھا جو اب مندی مندی آنکھیں کھولے صورت حال سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
صلہ سرعت سے حیدر کے پاس بیڈ کے کنارے کھڑے شہیر کے پاس آئی تھی اور اسے کندھوں سے تھاما ۔
"میں صرف بابا کی نیک بون ٹچ کرنے لگا تھا ۔"صلہ کے چلانے اور حیدر کے ہڑبڑا کر اٹھنے نے اسے کچھ نروس سا کر دیا تھا ۔مدهم آواز میں باری باری دونوں کو دیکھتے اس نے آہستہ سی آواز میں وضاحت دی تھی ۔تو وہ اس لئے خوفزدہ سی چلائی تھی ،حیدر نے صلہ کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا گئی ،اور وہ کہتی تھی اسے کچھ یاد نہیں ۔حیدر زخمی سے انداز میں مسکرایا تھا ۔
ہاتھ بڑھا کر شہیر کو تھامتے اپنی گود میں بٹھایا ۔وہ چاہ کر بھی بے نیازی نہیں برت سکی تھی ۔ان کی طرف دیکھنے لگی ۔حیدر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ،اسکے ہاتھ سے اپنی گردن کی ہڈی کو چھوا اور ایسا کرتے اسکے چہرے پر عجیب سا تاثر آ کر ٹھہرا تھا ،بیک وقت کہیں رنگ لئے ہوئے ۔شہیر مسکرایا تھا ۔
"میں بھی جب بڑا ہوں گا مجھے بھی ایسی بون چاہیے ۔یہ کتنی کول لگتی ہے بابا ۔"
ہاتھ پیچھے کر کے اپنی گردن کو چھوتا وہ کہہ رہا تھا ۔حیدر نے سر اثبات میں ہلایا ۔
"شہیر اٹھو اب ۔ اسکول سے دیر ہو رہی ہے ۔"
وہ بول اٹھی تو شہیر جلدی سے اسکی گود سے نکلتا اٹھ کھڑا ہوتا واش روم کی طرف بھاگا تھا ۔
وہ بھی پلٹ کر جانے لگی تھی جب اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں قید کرتے حیدر نے اسے روکا تھا ۔حیرانگی سے گردن موڑے وہ اسے دیکھنے لگی جو چہرہ اوپر کی طرف اٹھائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔اسکے چہرے پر سے صلہ کی نظروں نے تنبیہی انداز میں اسکے ہاتھ میں مقید اپنے ہاتھ تک کا سفر طے کیا تھا ۔مگر اس نے پھر بھی اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تو صلہ ہونٹ بھینچ کر رہ گئی ۔چہرے پر سپاٹ پن سا آن ٹھہرا تھا ۔حیدر اٹھ کر اسکے مقابل آ کھڑا ہوا ۔
"پرانی یادیں تکلیف دہ ہوں تو انہیں نئی اور اچھی یادیں بنا کر ری پلیس کر دینا چاہیے ۔نو سال پہلے میرے پاس ایک موقع تھا ایسا کرنے کا جو میں نے کھو دیا ۔مگر اس بار نہیں کھونا چاہتا ۔"اسکے ہاتھ پر نرمی بھری مضبوط سی گرفت کیے وہ سو کر اٹھنے کے باعث معمول سے بھاری ہوتی آواز میں اسکے چہرے پر ٹکٹکی باندھے کہہ رہا تھا ۔
اور مقابل سبز آنکھوں میں سرد سا تاثر آن رکا ۔
"اچھی بات ہے ۔آپ کو شہیر کے ساتھ بہت ساری اچھی یادیں بنانی چاہیے تا کہ یہاں سے جانے کے بعد آپ کے پاس کچھ تو ہو ۔"اپنے دوسرے ہاتھ سے اسکے ہاتھ میں جکڑا اپنا ہاتھ نکالتے وہ بے تاثر سی آواز میں اسے یاد دہانی کروا رہی تھی یا کچھ باور کروا رہی تھی ۔
"میں اکیلا کہیں نہیں جا رہا ۔تم لوگ میرے ساتھ جاؤ گے یا پھر ،میں مستقل یہاں شفٹ ہو جاؤں گا ۔"اسکی بات کے جواب میں وہ تیز تیز بولا تو اس بار صلہ کی آنکھوں میں تپش سی در آئی تھی ۔
"کوئی نشہ بھی کرتے ہیں آپ ؟"مکمل سنجیدگی سے بالکل اچانک پوچھا گیا تھا ۔
"پاگل ہو گئی ہو کیا ؟"وہ سٹپٹا کر رہ گیا ۔
" صبح صبح نیند سے اٹھ کر اگر ایسی بہکی بہکی باتیں کریں گے تو کیا سمجھوں گی اسے میں ۔خیر اب میری یہ بات کان کھول کر سن لیں حیدر صاحب۔۔۔ "انگلی اٹھا کر اسے وارن کرنے کے انداز میں کہا ۔حیدر نے بے اختیار اسکی انگلی کو پکڑا تھا ۔
"ایک تم ہی تو ہو جس کی سن لیتا ہوں ۔"اسکی بات درمیان میں کاٹی توصلہ کے باقی الفاظ کہیں گم سے ہو گئے تھے ۔وہ یک ٹک اسکی سرمئی آنکھوں میں جھانكتی رہ گئی جہاں بے بسی بھرا تاثر بڑا واضح تھا ۔
" ہر زہر میں ڈوبی بات امرت سمجھ کر پی جاتا ہوں ۔میرے احساسات کو میں خود کوئی نام نہیں دے پا رہا ۔بوبی کہتے ہیں غصہ تو میری ناک پر بیٹھا رہتا ہے ذرا مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو پھٹ پڑتا ہوں ۔اور وہ غلط نہیں کہتے وہ مجھے مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں ۔اب اگر مجھے تمہاری کڑوی کسیلی طنز میں ڈوبی باتیں سنتے دیکھ لیں تو ایک منٹ بھی نہ لگائیں اپنی رائے بدلنے میں ۔میری ساری انا ،ساری اکڑ تمہارے سامنے کہیں دفن ہونے لگتی ہے اور ایسا میں جان بوجھ کر نہیں کرتا صلہ ، ایسا ہونے لگا ہے ۔میں اپنی ساری زندگی اتنا بے بس کبھی نہیں ہوا جتنا اب تمہارے سامنے ہونے لگا ہوں ۔اتنا مفلوج تو میں تب بھی نہیں ہوا تھا جب اس رات ،۔۔۔۔"
اک فسوں سا تھا جس کے زیر اثر وہ اک جزب کے عالَم میں بول رہا تھا ۔کچھ دیر کے لئے ہی سہی درمیان سے سب نکل گیا تھا ۔نو سال کا فاصلہ ،اسکی بے اعتنائی ،اسکا دھوکہ ،اپنی اذیت ،اپنی لاچارگی ،صلہ ان لمحوں میں سب پس پشت ڈال گئی تھی ۔وہ لفظوں کا جال بچھانے کا ماہر تھا ۔انہیں لفظوں نے تو پہلی بار اسکے لئے ریسٹورنٹ میں صلہ کا دل موم کیا تھا ۔اور وہ اب بھی اپنی تاثیر رکھتے تھے ۔واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور وہ طلسم جو پورے ماحول کو اپنی قید میں جکڑے لمحوں کو روکے ہوئے تھا ،اک چھناکے سے ٹوٹتا چلا گیا ۔
صلہ نے کچھ برہمی سے اپنی انگلی پیچھے کھینچ لی تھی ۔شہیر یونیفارم پہنے نمودار ہوا تھا اور ایک گہرا سانس اندر کھینچتے حیدر نے اپنے سپوت کو کچھ خفگی بھری نظروں سے گھورا تھا ۔
"چار فٹ پانچ انچ کی مخلوق تمہارے ہوتے ہوئے تمہارے باپ کا ٹانکا کبھی فکس نہیں ہو سکتا ۔"اسکے پاس آ کر رکتے ،دونوں گالوں پر نرم سی چٹکی کاٹتے وہ دانت پیس کر تاسف سے ہلاتے کہتا ،اسے ہکا بكا چھوڑ کر خود واش روم میں بند ہو گیا تھا ۔
"میں نے کیا کیا ہے ؟"بند دروازے کو حیرانگی سے دیکھتے وہ صلہ کی طرف دیکھتا سوال کر رہا تھا جو غصے سے گلال ہوتی رنگت کے ساتھ سر جھٹکتی باہر نکل گئی تھی ۔
پیچھے وہ اکیلا کھڑا سچ میں سوچ میں پڑ گیا تھا آخر اس نے کیا کیا ہے ؟
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اس دن اتوار تھا ۔صلہ نے شہیر کی کچھ شاپنگ کرنی تھی ۔اور ایسا کیسے ممکن تھا شہیر حیدر کو ساتھ لئے بنا چل پڑتا ۔صبح گیارہ کے قریب وہ لوگ گھر نکلے تھے ۔اسکے ساتھ کچھ بار ہی سفر کرتے ،صلہ کو اتنا تو اندازہ ہی گیا تھا وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بات بالکل نہیں کرتا تھا ۔کال تک ریسیو کرنے سے پہلے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کیا کرتا تھا ۔یہاں تک کہ ابھی بھی شہیر کی باتوں کا جواب بہت مختصر دے رہا تھا ۔اور صلہ جانتی تھی ایسا کیوں ہے ۔اسکے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ فطری سی تھی ۔
"آپ کو ڈرائیونگ لائسنس مل کیسے گیا ؟"
بنا اسکی طرف دیکھے وہ یوں ہی پوچھ بیٹھی ۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھا شہیر اب کھڑکی سے باہر دوڑتے مناظر دیکھنے میں محو ہو چکا تھا ۔
"بڑی مشکلوں سے ملا تھا ۔حالانکہ بوبی کا ماننا تھا مجھے ایسی کوئی کوشش اب ترک کر دینی چاہیے ۔بقول انکے جتنی توڑ پھوڑ کا میں عادی ہوں یہ مجھ سے زیادہ روڈ پر میرے ارد گرد کے دوسروں لوگوں کی سیفٹی کے لئے زیادہ ضروری ہے۔مجھے تو گنتی بھی یاد نہیں کتنی بار ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہوا ہوں ۔خیر ہمت مرداں مدد خدا بلا آخر لائسنس تو لے کر ہی دم لیا میں نے ۔وہ الگ بات ہے کہ میری اتنی محنت اور کوشش کے باوجود بی کلاس لائسنس الاٹ کیا گیا تھا مجھے ۔"
اور اسکے مایوسی بھرے انداز میں کہنے پر وہ اپنا ہلکا سا قہقہہ روک نہیں پائی تھی ۔حیدر نے بے یقینی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔پہلی بار تھا جب صلہ کو یوں آنکھیں چھوٹی کیے ہنستے دیکھ اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اور اگلے ہی لمحے اسکے پاؤں کا دباؤ بریک پر پڑا تھا ۔گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی ۔صلہ کی ہنسی کو بھی ساتھ ہی بریک لگی تھی ۔کچھ پریشان سی وہ پیچھے بیٹھے شہیر کو دیکھتے تسلی کرتی اسکی طرف دیکھنے لگی جو خود کھوئی کھوئی سی کیفیت میں اسکی طرف دیکھ رہا تھا ۔
"کیا ہوا ؟"اسکے اچنبھے سے استفار کرنے پر حیدر نے پلکوں کو جنبش دی تھی ۔پھر سر نفی میں ہلایا ۔
"تمہیں فرنٹ سیٹ پر بٹھانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔"
"کیا ؟"اسکی بڑبڑاہٹ اسے سمجھ نہیں آئی تھی ۔
"کچھ نہیں ۔بندے کو اپنی کمزوری کسی دوسرے کو نہیں بتانی چاہیے ۔ورنہ لوگ نا حق فائدہ اٹھاتے ہیں ۔"
سر جھٹک کر دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی تو صلہ نے اس عجیب مخلوق کو ایک آخری بار نا سمجھی بھری نظروں سے دیکھتے رخ کھڑکی کی جانب موڑ لیا تھا ۔
انہیں مال میں چھوڑ کر خود وہ کچھ دیر کے لئے غائب ہو گیا تھا ۔جانے سے پہلے اپنا کریڈٹ کارڈ اس نے صلہ کی جانب بڑھایا تھا جسے لینے سے اس نے انکار کر دیا تھا ۔
"مجھے نہیں چاہیے ۔میرے پاس پیسے ہیں ۔"اسے تیوری چڑھی تھی ۔حیدر نے ہاتھ پیچھے نہیں کیا تھا ۔
"جانتا ہوں کماؤ خاتون ہو تم ۔مگر پھر بھی رکھ لو ۔تمہارے لئے تو میری کمائی خود پر خرچ کرنا حرام ہو گا ۔کم از کم میرے بیٹے پر تو مجھے خرچ کرنے کی اجازت دے دو ۔"
اسکا لہجہ انجانی سی كسک لئے ہوئے تھا ۔صلہ نے پھر بھی ہاتھ آگے نہیں بڑھایا تو مجبوراً حیدر کو ٹوائز آؤٹ لٹ کے سامنے کھڑے شہیر کو آواز دینی پڑی تھی ۔
"یہ بابا کا کارڈ رکھو اپنی ساری شاپنگ اسی سے کرنا ۔مجھے تھوڑا کام ہے میں ایک گھنٹے تک واپس آتا ہوں ۔"
شہیر نے خوشی خوشی اسکا کارڈ تھاما تھا ۔حیدر کے جانے کے بعد صلہ کو شہیر سے وہ کارڈ نا چار لینا پڑا تھا کہ کہیں وہ اسے کھو نہ دے ۔اور پھر باپ کے کہے کے مطابق اس نے ساری شاپنگ کے دوران ماں کو اپنا والٹ کھولنے تک نہیں دیا تھا ۔سارا وقت حیدر کا کارڈ ہی زیر استعمال رہا تھا ۔
اسکی واپسی ایک کے بجائے دو گھنٹوں میں ہوئی تھی ۔اور تب تک انکی شاپنگ مکمل ہو چکی تھی ۔واپس آ کر صلہ تو اپنے روم میں گھس گئی تھی مگر شہیر وہیں لیونگ ایریا میں سارا سامان پھیلائے اسے دکھانے بیٹھ گیا تھا ۔
"یہ میری ہے اور یہ آپ کی ہے ۔سیم سیم ۔لائک فادر لائک سن ۔"شاپنگ بیگ میں سے ایک جیسی سرخ رنگ کی ٹی شرٹس برآمد کی گئی تھیں جن پر اینگری برڈز بنی ہوئی تھیں ۔شہیر کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی ۔البتہ سامنے بیٹھے شخص کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی تھیں ۔ایک تو شرٹ کا رنگ ،اوپر سے اس پر بنے سٹیکرز ۔وہ کچھ سے زیادہ ہی غیر آرام ده ہوا تھا ۔
"کیسی ہیں ؟"اسے شرٹ ہاتھ میں لے کر سامنے پھیلائے دیکھتا شہیر اشتیاق سے پوچھ رہا تھا ۔حیدر نے تھوگ نگل کر گلا تر کیا ۔
"اچھی ۔۔۔۔اچھی ہیں مگر ۔۔۔۔تمہارے لئے ۔میرے لئے یہ کچھ زیادہ ہی اوور ہو جائے گا ۔"زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے اس نے محتاط انداز اپنایا تھا ۔اس کی ساری زندگی نیوٹرل رنگوں کے ساتھ گزری تھی ۔اب نیلے ،پیلے اور سرخ رنگ دیکھ کر اسے ہول اٹھنے لگے تھے ۔شہیر کا منہ لٹکا ۔اسکے ہاتھوں سے شرٹ لیتے اپنے سامنے پھیلا کر کچھ خفگی سے اسے دیکھا ۔
"کیا بابا آپ بھی ؟یہ دیکھیں کتنی کول ہے ۔اوور تو نہیں ہے ۔بلکہ میں آپ کو بتاؤں میرا دل کیا چاہتا ہے ؟"کہتے ہوئے اچانک اسکی آنکھیں خوشی سے کچھ اور بڑی ہوئی تھیں ۔وہ حد سے زیادہ ایکسپریسو تھا ۔دیکھنے میں اسکے جیسا مگر حقیقت میں اسکے بالکل الٹ ۔حیدر نے نرم سا تاثر چہرے پر لئے اسے دیکھ کر ہاں میں سر ہلاتے اجازت دی تھی ۔
"میرا دل چاہتا ہے میں جس جس كلر کی شرٹ پہنوں اسی كلر کے بال بھی ڈائی کرواؤں ۔امیجن بابا ۔۔۔۔میں اور آپ ریڈ شرٹ اور ریڈ ہیئر میں کتنے کول لگتے ۔"اسکی شرٹ واپس رکھ ، دونوں ہاتھ باہم پھنسائے سینے کے سامنے کیے وہ تصور کی آنکھ سے جیسے خود تو دیکھ ہی رہا تھا ساتھ اسے بھی دعوت دے رہا تھا ۔
حیدر کی آنکھیں دہشت سے پھیلی تھیں ۔خود کو سرخ شرٹ اور بالوں میں تصور کی آنکھ سے دیکھتے اس کے صحیح معنوں میں رونگٹے کھڑے ہوئے تھے ۔اک جھرجهری سی لے کر وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آیا تھا ۔تیزی سے ایک ہاتھ سر تک گیا تھا ۔اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے جیسے یقین دہانی کی تھی ۔
"لیکن پھر مجھے پتہ ہے ماما خفا ہوں گی ۔اور پھر ماما مجھے ڈانٹیں گی اس وجہ سے کبھی ان سے کہا نہیں ۔"ساری خوشی چہرے پر سے زائل ہوئی تھی ۔آواز میں مایوسی تھی ۔حیدر نے پہلی بار دل ہی دل میں اسکے اپنی ماں سے ڈرنے پر شکر کا کلمہ پڑھا تھا ۔اور اس وقت وہ ڈر اسے ایک عظیم نعمت لگا تھا ۔
"اس ایک بات کے لئے میں تمہاری ماں کا تا عمر احسان مند رہوں گا ۔"سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے چہرہ نیچے کیے وہ دھیمی آواز میں بڑبڑایا تھا ۔
"آپ نے کچھ کہا بابا ؟"
سارا سامان واپس بیگز میں منتقل کرتے وہ جھکا سر اٹھا کر حیدر کو دیکھنے لگا تھا ۔
"نہیں ۔کچھ نہیں کہا ۔"وہ ہلکا سا مسکراتا شانے اچکا گیا ۔
"ہم شام کو یہ والی شرٹس پہن کر پارک جائیں گے ۔"شرٹس رکھتے ہوئے وہ اسے بتا رہا تھا ۔حیدر نے پہلو بدلا ۔پھر اسے یاد آیا ۔
"آج تو ویک اینڈ ہے شہیر ۔آج تو پارک نہیں جانا ۔"
یہ کہتے ہوئے اسکی آواز میں انجانی سی خوشی تھی ۔
شہیر کا منہ لٹکا ۔
"کوئی بات نہیں ہم کل پہن کر چلے جائیں گے ۔"اگلے ہی پل وہ حل نکال چکا تھا ۔حیدر اسے دیکھ کر رہ گیا ۔لیکن فلحال کی ہوئی یہ بچت ایک غنیمت تھی اور وہ اسی میں خوش تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اس رات اسے نیند نہیں آ رہی تھی ۔وہ کنسٹرکشن سائیڈ پر گیا ہوا تھا ۔دن کافی مصروف گزرا تھا ۔اور اب تھکن سے برا حال تھا ۔ایک دفعہ پھر سے کروٹ بدلی ۔شہیر تو گہری نیند سویا ہوا تھا البتہ اسکے دوسری طرف کروٹ کے بل لیٹی صلہ کے سوئے جاگے ہونے کا وہ اندازہ نہیں کر پایا تھا ۔اسے حیرت ہوئی تھی وہ بیڈ کے بالکل کونے پر تھوڑی سی جگہ لیے سوتی تھی اور حیدر کو تو لگتا تھا جیسے وہ رات کو کروٹ تک نہیں بدلتی تھی ۔ اسکے بر عکس شہیر کو کافی پھیل کر سونے کی عادت تھی۔بیڈ تو مناسب سائز کا تھا مگر ان تینوں کے لئے پھر بھی نا کافی تھا ۔سوتے ہوئے شہیر نے حیدر کی طرف کروٹ لی تو ساتھ ہی اسکا گھٹنا حیدر کی پسلیوں کی اچھی خاصی خبر لے گیا تھا ۔اچانک ہوئے حملے پر وہ كراه کر رہ گیا ۔اسکی اچانک آنے والی کراہتی آواز پر صلہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا ۔
"کیا ہوا ہے ؟"
کچی نیند کے باعث اسکی آواز کچھ بھاری خوابیده سی ہو رہی تھی ۔
"تمہارا بیٹا رات کو سوتے ہوئے خود کو میدان جنگ میں تصور کر رہا ہوتا ہے ۔ہاتھ پاؤں تو یوں چلاتا ہے جیسے دشمن فوج سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہو ، یوں مرنے مارنے پر تلا ہوا ہوتا ہے ۔"اسکا گھٹنہ احتیاط پیچھے کرتے وہ چڑ کر مگر مدهم آواز میں کہہ رہا تھا ۔نیم اندھیرے میں صلہ نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔
"میرے ساتھ اتنے سالوں سے سو رہا ہے ۔اتنے زور کی بھی نہیں مارتا اب ۔پتہ نہیں آپ کیوں اتنے نازک مزاج بنے ہوئے ہیں ذرا سی لگ کیا گئی واویلا یوں مچا رہے ہیں جیسے گولی مار دی ہو میرے بچے نے ۔"
واپس سے سر سرہانے پر رکھتے وہ لیٹ گئی تھی ۔
"سنو !"
کچھ دیر کے بعد حیدر کی آواز کمرے میں سنائی دی تھی ۔
"تمہیں نہیں لگتا شہیر کا روم الگ ہونا چاہیے اب ۔"اپنی پشت پر سے آتی اسکی آواز پر صلہ نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں ۔
"کیوں ؟کس خوشی میں ؟"بنا مڑے وہ تیکھے چتون لئے بولی ۔
"یہ بڑا ہو رہا ہے اور پھر میاں بیوی کی بھی کوئی پرائیویسی ہوتی ہے یار ۔"اور یہ صلہ کا دماغ بھک سے اڑا تھا ۔بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر بیٹھتے سرہانے رکھی شال لپیٹتے اس نے کھا جانے والی نظروں سے حیدر کو گھورا تھا ۔
"حیدر میں آپکا گلہ دبا دوں گی ۔"
دانت پر دانت جمائے شہیر کی نیند کے پیش نظر وہ آہستہ سے غرائی تھی ۔حیدر نے کہنی سرہانے پر ٹکائے ہاتھ پر سر رکھتے پر شوق نظروں سے اسکا مرنے مارنے والا روپ دیکھا تھا ۔نیم اندھیرے میں بھی اسکا رنگ بدلتا چہرہ بڑا واضح تھا ۔
"اب ایسا بھی کیا کہہ دیا ہے میں نے جو تم گلہ دبانے پر اتر آئی ہو ؟ایک فطری سی بات ہی تو کی ہے تم کیوں اتنا اؤور ری ایکٹ کر رہی ہو ؟"
سرسری سے انداز میں وہ تو یوں کہہ رہا تھا جیسے انکے درمیان مثالی تعلقات ہوں ۔صلہ کے کانوں کی لوئیں تو کیا اب تو گال بھی دہکنے لگے تھے ۔وہ جتنی مرضی اس کے سامنے زبان چلا لیتی مگر رات کا وہ فسوں ،اسکا وہاں ہونا اور انکے بیچ کا تعلق،سب مل کر اسکے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگے تھے ۔دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ایک بھی سیکنڈ کی دیر کیے بنا وہ بیڈ سے اتر چکی تھی ۔
"پتہ ہے کیا میری غلطی ہے ساری ۔آپ اس قابل تھے ہی نہیں کہ آپ کو اس فلیٹ ،ا س کمرے میں رکنے دیا جاتا ۔کل اپنے سامان کے ساتھ چلتے بنئیے یہاں سے ۔"
اسکے قدموں کا رخ باہر کی جانب تھا ۔
"پرائیویسی اونہہ پتہ نہیں خوابوں کی کون سی دنیا آباد کر رکھی ہے موصوف نے ۔"
اسے سنا کر سر جھٹکتی وہ کمرے سے باہر نکلتے منہ ہی منہ میں بدبدا رہی تھی ۔
اسکے کمرے سے نکلتے ہی کب سے روکی حیدر کی ہنسی چھوٹ گئی تھی ۔
"جھانسی کی رانی ۔۔۔۔نکل گئی ساری بہادری ۔چل میرے چیتے ۔آگے ہو جا اب ۔اتنے دنوں بعد سکون کی نیند آئے گی ۔سوری صلہ بی بی ۔تم پھر بھی صوفے پر آسانی سے پوری آ جاؤ گی میرے لئے یہ بھی ممکن نہیں تھا ۔"
شہیر کو صلہ کی چھوڑی جگہ کی طرف کچھ اور دوسری سائیڈ منتقل کرتے وہ پھیل کر لیٹتا ، اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑتے سکون آمیز سانس خارج کرتے اپنے پلان کی کامیابی پر مسرور سا نظر آتا تھا ۔
باہر اپنی شال شانوں اور گھٹنوں کے گرد اچھے سے پھیلاتے صلہ دونوں پاؤں صوفے کے اوپر رکھے بیٹھی اب بھی کڑھ رہی تھی ۔
"ذرا جو شرم چھو کر گزری ہو اس شخص کو ۔ہمت بھی کیسے ہوئی ایسی فضول گوئی کی ؟جیسے میں تو نو سال سے اس کے فراق میں مری جا رہی تھی کب یہ واپس آئیں گے اور میں ہنسی خوشی انکے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کروں گی ۔پرائیویسی ۔۔۔۔۔بھاڑ میں جائیں آپ اس پرائیویسی سمیت۔"
دل ہی دل اسے کھری کھری سناتے بھی اسکا تپا ہوا دماغ تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔باہر ٹھنڈ بھی اچھی خاصی تھی اس کے باوجود وہ اٹھ کر واپس کمرے میں نہیں گئی تھی ۔کتنی دیر گزر گئی تھی وہیں بیٹھے بیٹھے اب وہ اونگھنے لگی تھی ۔بلا آخر سردی سے تنگ آ کر وہ دبے پاؤں کمرے میں واپس آئی تھی ۔ محتاط نظروں سے بیڈ کی جانب دیکھا ۔اسکی پشت تھی اسکی طرف ۔دروازہ کھلنے کی آواز پر بھی اسکا وجود ساکت رہا تھا یعنی کہ وہ سو گیا تھا ۔آہستہ آہستہ چلتے الماری سے كمبل نکال کر وہ واپس باہر آتی صوفے پر کشن ٹھیک سے رکھتی سونے کے لئے لیٹ گئی تھی ۔وہ رات تو سکون سے نکل گئی تھی مگر اگلی رات شہیر نے صحیح معنوں میں اسکے چودہ طبق روشن کر دیے تھے ۔
"مجھے الگ روم چاہیے ۔"نیم اندھیرے میں اسکی آواز گونجی تھی ۔پلکیں موندے سونے کی کوشش کرتی صلہ نے پٹ سے آنکھیں کھول کر ملگجی سی روشنی میں چت لیٹے وجود کو دیکھا تھا جو آنکھیں پوری طرح کھولے چھت کو گھورتا ہوا مدهم مگر فیصلہ کن انداز میں بولا تھا ۔
"کیوں ؟کس خوشی میں ؟"کوشش کے باوجود وہ اپنی آواز کی سختی پر کنٹرول نہیں رکھ پائی تھی ۔اسے لگا تھا جیسے اس نئے شوشے میں بھی شہیر کے دوسری جانب سوئے شخص کا ہاتھ ہو ۔
"پرائیویسی نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے مما ۔"اسکی بات نے جہاں صلہ کے چودہ طبق روشن کیے تھے وہیں بظاہر بے نیاز سوئے حیدر کو بھی منہ سے کمبل ہٹا تے سر اٹھا کر اسے دیکھنے پر مجبور کیا تھا ۔نیم اندھیرے میں بھی صلہ نے اسے شعله بار نظروں سے گھورنا فرض سمجھا تھا ویسے بھی کل کی اسکی گل فشانی اور آج کے شہیر کے مطالبے نے اسے سو نہیں ہزار فیصد یقین دلا دیا تھا یہ سارا کیا دھرا ہی اسی کا ہو ۔
"کس کی پرائیویسی ؟"انجان بنتے صلہ نے مری ہوئی آواز میں پوچھا تھا ۔حیدر دم سادھے اسکے جواب کا منتظر تھا ۔
"آف کورس میری پرائیویسی مما ۔"ایک نظر دونوں کو دیکھتے اس نے خفت بھری آواز میں کہا تھا ۔صلہ کی اٹکی سانس بحال ہوئی تھی جب کہ حیدر نے بڑی مشکل سے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹتے ہوئے منہ سرہانے میں دیا تھا ۔
"کیوں ۔۔۔۔تمہاری پرائیویسی کو ایسا کون سا خطرہ لاحق ہو گیا ہے جو تمہیں ایک دم سے یہ خیال آ گیا ۔"ذرا توقف سےاسکے اڑے حواس ذرا بحال ہوئے تو لہجے کی گھن گرج واپس آ گئی تھی ۔ایک تو شہیر کی بے وقت بے پر کی باتیں دوسرا حیدر کا ہولے سے ہلتا شانہ جو گواہ تھا وہ بے آواز ہنس رہا ہے ۔صلہ کو کوفت ہونے لگی تھی ۔
"صبح میں یونیفارم پہن رہا تھا جب بابا بنا ناک کیے واش روم میں گھس آئے تھے ۔"شرمندگی سے کہتے منہ بسور کر ماں کو جیسے شکایت لگائی گئی تھی۔یہ اصول بھی صلہ کا طے شدہ تھا وہ واش روم میں کنڈی نہیں لگا سکتا تھا ۔اس بار حیدر کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا تھا ۔شہیر نے ناراضگی بھری ایک نظر باپ پر ڈال کر شکایتی انداز میں ماں کی طرف دیکھا تھا ۔
"مما دیکھا آپ نے ۔اسی لئے کہہ رہا ہوں مجھے میرا اپناالگ روم اور واش روم چاہیے ۔"اسکا نروٹھا لہجہ صلہ کے ہونٹوں پر بھی مسکان لے آیا تھا جسے صد شکر کمرے میں پھیلے اندھیرے نے چھپا لیا تھا ورنہ وہ اس پر بھی بگڑ رہا ہوتا ۔
"سوری شہیر ۔پر میں نے صبح بھی کہا تھا مجھے آئیڈیا نہیں تھا تم واش روم میں ہو ۔مجھے آفس سے دیر ہو رہی تھی واش روم لاک نہیں تھا تو مجھے لگا خالی ہو گا اور میں صبح بھی تمہیں بتا چکا ہوں کہ ۔۔۔۔میں نے" کچھ "نہیں دیکھا ۔"ہنسی روک کر سنجیدگی سے وضاحت دیتے آخری بات پر اسکا لہجہ پھر سے متبسم ہو چکا تھا ۔شہیر نے احتجاجاً کروٹ ماں کی طرف لیتے اس سے خفگی کا اظہار کیا تھا ۔
"اچھا ٹھیک ہے نیکسٹ ٹائم ہم اس بات کا خیال رکھیں گے ۔واش روم کا ڈور ان لاک بھی ہو گا تو بھی پہلے ناک کیا جائے گا ۔"صلہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے مصالحتی انداز اپنایا تھا ۔وہ خود تو ایسا ہی کرتی تھی یہ یقین دہانی اس نے حیدر کی بابت کروائی تھی ۔
"لیکن پھر بھی مما میں بڑا ہو رہا ہوں اگر میرا روم الگ ہو جائے گا تو میری پرائیویسی ڈسٹرب نہیں ہو گی ۔"وہ اب بھی اپنی پرا ئیویسی کی رٹ لگائے ہوئے تھا صبح کی خفت کے بعد وہ دوبارہ ایسا نہیں چاہتا تھا ۔اس سے پہلے صلہ اسے کچھ کہتی حیدر کی آواز سنائی دی تھی ۔
"چپ کر کے سو جاؤ شہیر ۔یہاں تمہارے باپ کی بینڈ بجی ہے اور تمہیں اپنی پرائیویسی کی پڑی ہے ۔"شرارت سے اسے گھرکتے ہوئے وہ کروٹ بدلنے کے باوجود اسکی غصیلی نظروں کی تپش اپنی پشت پر محسوس کر سکتا تھا ۔
"بابا کی بینڈ ؟"
شہیر نے سرگوشی نما آواز میں دوہرایا تھا ۔
"آپ کی بینڈ کس نے بجائی بابا ؟"
"تمہاری ماما کے علاوہ یہ نیک کام اور کون کر سکتا ہے ۔"
حیدر کے جواب پر صلہ نے دانت پیسے تھے ۔
شہیر کا منہ اگلے سوال کے لئے کھلنے لگا تھا جس پر صلہ نے آہستگی سے اپنا ہاتھ رکھتے بند کر دیا تھا ۔کم از کم اسکا منہ تو وہ بند کر ہی سکتی تھی ۔
"شہیر سو جاؤ اب ۔بابا مذاق کر رہے ہیں ۔"
مسکرا کر اسے کہتے اس نے خود کو بھڑکنے سے بڑی مشکل سے روکا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .