Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 21

1 Posts
1 Users
0 Reactions
140 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

رات سوتے ہوئے شہیر کے برابر سوئے اسکے وجود سے اسے الجھن ہوتی رہی تھی ۔مگر یہ بھی سچ تھا شہیر کو آج سے پہلے اتنا خوش و مطمئین اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔کتنی بار تو اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا پھر حیدر کو ،شاید وہ یقین کا جگنو ہاتھ میں قید کرنا چاہتا تھا۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

صبح وہ معمول کے مطابق کچن میں تھی جب وہ اٹھ کر رات والی ڈھیلی سی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں وہاں آیا تھا ۔فریج میں سے دودھ کے جگ میں سے دودھ گلاس میں انڈیلا ۔صلہ سے کسی مہمان نوازی کی توقع کرنا عبث تھا ۔اس لئے اگر یہاں رہنا تھا تو اپنی پیٹ پوجا کا انتظام بھی خود ہی کرنا تھا ۔کسی شے کی تلاش میں پورا فریج چھان مارا مگر مایوسی ہوئی ۔مجبوراً اسے مخاطب کرنا ہی پڑا تھا جو بس ایک سرسری نگاہ اس پر ڈال کر پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گئی تھی ۔

"شہد نہیں ہے کیا ؟"

"نہیں ۔"یک لفظی جواب کھٹاک سے آیا تھا ۔

حیدر کا منہ بنا تھا ۔دودھ کا گلاس واپس فریج میں رکھتے اس وقت تو وہ کچن سے نکل گیا تھا ۔مگر آفس جانے کی تیاری کرتے وقت جب اس نے صلہ کو شہیر سے یہ کہتے سنا تو اس کے کان خود بخود سرخ ہوتے چلے گئے تھے ۔

"ماما آپ نے ہنی نہیں ڈالا دودھ میں ۔"

ایک ہی سپ لیتے اس نے برا سا منہ بنا کر کہا تھا اور واپس مڑتی صلہ رکی ۔

"میں بھول گئی ۔ایک منٹ میں لے کر آتی ہوں ۔"اور وہ جو شہیر کو یہ بتانے کے لئے ہونٹ نیم وا کیے ہوئے تھا کہ شہد نہیں ہے صلہ کے جواب پر صدمے بھری نظروں سے اسے جاتا دیکھ کر رہ گیا ۔

"ماما بھی ناں ۔پتہ بھی ہے میں ہنی کے بغیر دودھ نہیں پیتا پھر بھی یاد نہیں رکھتیں ۔"

سر کو نفی میں ہلاتے اسے ماں کی یاداشت پر افسوس ہوا تھا جس کا اظہار وہ بت بنے کھڑے حیدر سے کر رہا تھا ۔

کچھ ہی پلوں بعد وہ واپس آئی تھی تو ہاتھ میں شہد کا جار اور ساتھ ایک چھوٹی چمچ اٹھا رکھی تھی ۔کالر یوں ہی اوپر کیے گلے میں لٹکتی کھلی ٹائی کے ساتھ وہ عین اسکے پیچھے آ کر کھڑا ہوا تھا ۔شہیر کو شہد ڈال کر مکس کر کے دیتے اسکے ایک سپ لینے تک اس نے تسلی کے لئے اسے دیکھا تھا پھر جوں ہی پلٹی تو پیچھے اسے یوں خود کو گہری نظروں سے دیکھتے ایک پل کے لئے سٹپٹا سی گئی تھی ۔

"ابھی آدھا گھنٹہ پہلے تک تو شہد نہیں تھا اب یہ اتنی جلدی آ بھی گیا ۔ کیا شہد کی مکھیوں نے ہوم ڈیلیوری سروس دینا بھی شروع کر دی ہے ؟"

مسکرا کر شہد کے جیسا میٹھا طنز کیا گیا تھا اور ایسا بھی یقیناً شہیر کی وجہ سے کیا گیا تھا ورنہ چہرے کے تاثرات تو کڑوے کریلے جیسے ہو رہے تھے ۔

صلہ ذرا بھر بھی شرمسار نہیں ہوئی تھی ۔ہنوز ڈھٹائی کے ساتھ پر سکون سی کھڑی اسے دیکھتی رہی تھی ۔

"آپ نے کب مانگا ؟"کمال کی بے خبری کا تاثر دیا گیا تھا ۔اور حیدر کو یاد آیا رات کو وہ اس سے کہہ رہی تھی اسے اداکاری نہیں آتی ۔

"بابا آپ بھی دودھ میں ہنی ڈال کر پیتے ہیں کیا ؟"

شہیر کی چہکتی آواز پر وہ جو اسے یاد دہانی کرانے کا پکا ارادہ کیے ہوئے تھا ۔اس پر ایک تیز نظر ڈال کر شہیر کی طرف متوجہ ہو گیا تھا ۔

"ہوں ۔لیکن میرے لئے شہد نہیں تھا ۔"

اب کی بار اس نے جان بوجھ کر شہیر کے سامنے ایسا کہا تھا ۔اور شہیر کی جواب طلب نظریں صلہ کی جانب اٹھی تھیں ۔وہ بری طرح سے کلس کر رہ گئی ۔

 

"مجھے نہیں پتہ آپ نے کب مجھ سے کہا ۔خیر آپ کو پینا ہے تو سیدھے سے کہہ دیں میں لے آتی ہوں ۔"

اسکے اس قدر سفید جھوٹ پر ایک ابرو اچکاکر حیدر نے اسے ملامتی نظروں سے سے دیکھا تھا پھر اسکے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔مگر وہ ایک چڑانے والی مسکراہٹ تھی ۔

"کوئی بات نہیں ہو سکتا ہے تم نے نہ ہی سنا ہو ۔ہو جاتا ہے کبھی کبھی ایسا ۔اب ایسا کرو میرے لئے دودھ میں دو چمچ شہد ڈال کر جلدی لے کر آؤ ۔صبح ناشتے میں میں صرف دودھ پیتا ہوں ۔تم جانتی تو تھی مگر کافی پرانی بات ہے اس لئے دوبارہ یاد دہانی کرانے میں کوئی حرج نہیں ۔"

اسکی بات سنتے صلہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے شہد کے جار پر اپنی گرفت اس قدر مضبوط کی تھی کہ اسکی ہتھیلیاں گلابی مائل ہونے لگی تھیں ۔چہرے پر الگ غصے کی لالی پھیلنے لگی تھی ۔

"زہر نه ڈال لاؤں ایک ہی بار ؟"

ایک قدم اور اسکی طرف لیتے ،شہیر سے تھوڑا دور ہو کر نیم سرگوشی میں کہتے وہ غرائی تھی ۔

اسکی لا چاری سے محظوظ ہونے کی باری اب کے حیدر کی تھی ۔شہیر دودھ کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتا اب بھی ان دونوں کو پر سکون نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔وہ دونوں ایک ساتھ تھے ،اچھے سے بات کر رہے تھے اور یہ احساس اس کے چھوٹے سے ذہن کے لئے کسی انرجی ٹانک سے کم نہیں تھا ۔

"کوشش کر کے دیکھ لو ۔میں منع نہیں کروں گا ۔"اسکی طرف جھک کر آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہتے اسکی آواز میں بدلاؤ سا آیا تھا ۔جس پر غور و فکر کرنے کی پوزیشن فلحال انگاروں پر لوٹتی صلہ بالکل نہیں تھی ۔

پیر پٹخ کر اسکے ایک طرف سے ہوتی وہ نکل گئی تو وہ شہیر کو دیکھ کر بھرپور انداز میں مسکراتا ایک دفعہ پھر سے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا ۔سامنے نظر آتے عکس میں اس بار چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ کا اضافہ ہو چکا تھا ۔

اس نے پیچھے نظر آتے شہیر کو دیکھا تھا ۔وہ بیک وقت صلہ اور حیدر دونوں کی کمزوری تھا ۔وہ خود بھی تو اسکے لئے صلہ کی کتنی جلی کٹی سن لیتا تھا ۔اب صلہ کی اس خوب صورت سی کمزوری سے چھوٹا موٹا فائدہ اٹھاتے اسکا اس گھر میں گزارا تھوڑا آسان ہو سکتا تھا اور یہ آسانی وہ کسی صورت جانے نہیں دینا چاہتا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

ہجر یاراں ۔

ام عبّاس ۔

قسط ۔18۔

"بات سنیں ؟"

وہ آفس کے لئے نکل رہا تھا جب صلہ کی تیز آواز نے اس کا تعاقب کیا تھا ۔

"جی سنائیں ۔"

پلٹ کر مسکراتے اسے دیکھا تو اسے اور بھی پتنگے لگے تھے ۔

"آپ اس طرح نہیں کر سکتے ۔"

تنے ہوئے نقوش کے ساتھ وہ بولی تھی ۔

"میں کیا نہیں کر سکتا مسز صلہ ؟"

ایک تو وہ خود نا قابل برداشت تھا اوپر سے اسکا انداز تخاطب افففف ۔

"یہی جو آپ کر رہے ہیں ۔مجھے بار بار ایک ہی بات دوہرانی پڑے گی اب کیا ؟آپ یہاں صرف شہیر کے لئے ہیں ۔تو بہتر ہو گا صرف اسی تک محدود رہیں ۔میں کوئی نوکر نہیں لگی ہوئی آپ کی جو آپ کی خدمتیں کرتی پھروں گی ۔اپنے کھانے پینے کے آپ خود ذمہ دار ہیں ۔یہاں پاس ہی تھوڑا آگے ایک ہوٹل ہے وہاں سے سروس لیں یا خود بنا کر کھائیں مگر مجھ سے کوئی امید مت رکھیے گا ۔"

آواز دهیمی رکھتے ہوئے بھی وہ تڑخ کر کہتی اندر ہی اندر اسکی کچھ دیر پہلے دودھ والی حرکت پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی ۔

اسکے سرخ پڑتے چہرے کو وہ کتنی دیر گہری نظروں سے دیکھتا رہا تھا ۔یہاں تک کہ صلہ کو الجھن ہونے لگی تھی ۔پہلے پہل تو وہ بھی پر اعتماد سی اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے رہی مگر پھر مقابل کو زیادہ ڈھیٹ جان کر کچھ جهنجهلاہٹ کا شکار ہوتی نظریں چرا گئی ۔ہلکے گلابی رنگ کے کپڑوں میں اسکا چہرہ بھی گلابی مائل ہونے لگا تھا ۔سبز آنکھوں میں خفت و غصہ بیک وقت آ کر ٹھہرا تھا ۔بلا وجہ ہی کسی نا دیدہ بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسنے کی وہ کوشش ،اور  یہ منظر حیدر کے لئے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آنے کا باعث بنتا چلا گیا ۔وہ چند قدم اسکے قریب آتے رکا تھا ۔صلہ نے اب بھی بے خوفی کا تاثر قائم رکھے ہوئے تھا ۔

"اتنا غصہ مت کھایا کرو ۔ننھی سی جان ہے تمہاری یوں خون جلاتی رہو گی تو آدھی رہ جاؤ گی ابھی آفس سے دیر ہو رہی ہے شام میں آ کر یہ معاملہ بھی فکس کر لیتے ہیں ۔"

اطمینان تھا تو کمال کا تھا اور اگر ڈھٹائی تھی تو اپنی مثال آپ تھی ۔اسکے دائیں گال کو اپنی انگشت شہادت سے ہلکا سا مس کرتے وہ یوں کہہ رہا تھا جیسے یہ نارمل كپل کا کوئی پیار بھرا جھگڑا ہو جسے اتنی آسانی سے حل کر لیا جائے گا ۔صلہ اسکی حرکت پر کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی ۔آنکھیں اور منہ دونوں بے یقینی سے کھلے رہ گئے تھے ۔

اور اسکا شاکڈ ہونا اسے اس قدر محظوظ کر رہا تھا کہ وہ خود کو شرارت سے روک نہیں پایا تھا ۔ایک آنکھ میچ کر اسکی طرف مسکراہٹ اچھالتے وہ جانے کے لئے پلٹا تو صلہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی ۔غصے سے کھولتی وہ اسکی پشت کو شعله بار نظروں سے گھورتی غرائی تھی ۔

"خبر دار جو واپس بھی آئے آپ ۔"

"شام کو ملتے ہیں ۔"

دروازے سے نکلتے بھی وہ متبسم آواز میں اسے چھیڑنا ہرگز نہیں بھولا تھا ۔تیز ہوتے تنفس کے ساتھ وہ کتنی دیر بند دروازے کو گھورتی رہی تھی ۔

اور شام میں آ کر اس نے جس طرح سے وہ معاملہ فکس کیا تھا صلہ اس پر بس صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئی تھی ۔ٹھیک سات بجے وہ شہیر کے ساتھ کمرے سے نکلا تھا جو پنک سوئیٹر اور بلیو جینز میں پر جوش سا نظر آ رہا تھا ۔ماتھے پر پٹی ہنوز بندهی ہوئی تھی ۔

ساتھ ہی مسکراتا ہوا حیدر بلیک سوئیٹر اور جینز میں ملبوس تھا ۔

"ماما میں اور بابا ہوٹل جا رہے ہیں کھانا کھانے ۔آپ نے بھی ساتھ چلنا ہے کیا ؟"

اس پر نظر پڑتے شہیر نے بتایا تو وہ ہاتھ میں پکڑی كفگیر وہیں پٹخنے کے انداز میں پتیلے کے ڈھکن کے اوپر رکھتی ،

 اوپن کچن سے نکل کر باہر آئی تھی ۔

"حالت دیکھی ہے اپنی ؟ٹھیک سے چلنے تو ہو نہیں رہا اور جا رہے ہو ہوٹل کھانا کھانے ۔"

حیدر کو نظر انداز کرتے وہ شہیر کو ڈانٹ رہی تھی ۔

"اب کیوں ڈانٹ رہی ہو ؟صبح خود ہی تو کہہ رہی تھی تم مجھے۔ یہاں پاس ہی ہوٹل ہے ہم بس وہاں تک ہی جائیں گے ۔کھانا کھا کر واپس آ جائیں گے ۔"

حیدر نے بیچ میں بولنا ضروری خیال کرتے کہا تو وہ نظریں اسکی طرف اٹھاتی کچھ سخت سناتے سناتے لب بھینچ گئی ۔

"میں نے تو کہا تھا بابا سے ماما کو زیادہ ہوٹل کا کھانا پسند نہیں ۔لیکن بابا نے کہا آپ نے پرمیشن دے دی ہے ۔"

وہ منہ بسور کر کہتا حیدر کے تھوڑا اور قریب سرکا ۔

"ہاں بالکل صبح صلہ نے خود کہا تھا ۔کیا تمہیں یاد نہیں صلہ؟"

شہیر کے کندھے پر بازو رکھے وہ سر کو ہلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔صلہ نے ایک کٹیلی نظر اس پر ڈالی ۔پھر گہری سانس خارج کرتے واپس مڑی ۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے کسی کو بھی کہیں جانے کی ۔کھانا بن رہا ہے سب گھر پر ہی کھائیں گے ۔"

کلس کر کہتی وہ واپس کچن میں چلی آئی تھی ۔اور اسے اب سمجھ آ رہا تھا خالہ اگر اسے چلتی پھرتی بلا کہتی تھیں تو کیوں کہتی تھیں ۔وہ اچھے خاصے انسان کے اعصاب پر سوار ہو کر سر درد کا موجب بننے کا ہنر رکھتا تھا ۔

یہاں سے جمود کا شکار سبھی کی زندگیوں میں ایک نئی ہلچل کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔شہیر کی تو زندگی کا وہ حسین ترین دور تھا ،صلہ کے لئے ضبط کا امتحان تو رقیہ خالہ کے لئے بی پی کے متعدد اتار چڑھاؤ کے دن ۔ایسے میں اگر کوئی تھا جسے دیکھ کر لگتا تھا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تو حیدر تھا ۔لیکن کیا یہ سچ بھی تھا ؟

ایک بات جو اس نے زندگی میں اچھے سے سیکھی تھی وہ تھی سروائیو کرنا ۔وقت اور حالات کیسے بھی ہوں وہ جھیل جانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔یہاں صلہ کی سرد مہری ہو یا رقيه خالہ کی چھبتی نظروں کا حصار وہ بے نیازی کے ریکارڈ قائم کرتے سب کا بڑی ڈھٹائی سے سامنا کر رہا تھا ۔

شہیر کے ساتھ اسکا تعلق کچھ ہی دنوں میں اس قدر مضبوط ہوا تھا کہ لگتا ہی نہیں تھا وہ سالوں ایک دوسرے سے دور رہے ہوں ۔شروع شروع میں کھانے کی میز پر صلہ اور خاص کر رقيه خالہ کی موجودگی میں بیٹھنا اسے آکورڈ لگتا تھا مگر شہیر تھا تو اسے کیا غم تھا ۔وہ اسے ہر ممکن حد تک کمفرٹ فراہم کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا ۔اور اسے دیکھتے خالہ نے بھی چپ سادھ لی تھی ۔اب اگر اسے جھیلنا نصیب میں لکھ ہی دیا گیا تھا تو بہتر تھا وہ خاموشی کے ساتھ یہ دن کاٹ لیتیں ۔صلہ کے فیصلے سے لاکھ انحراف کے باوجود شہیر کی خوشی ان کی آنکھوں سے مخفی نہیں رہ سکی تھی ۔اور اس کی خوشی کے لئے وہ کچھ وقت کے لئے اسے جھیلنے کا سوچ سکتی تھیں ۔

صلہ کو کبھی کبھی اسکی حرکتیں دیکھ کر اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہونے لگتا تھا ۔وہ ہر اس بات میں شہیر کو انوالو کر لیا کرتا تھا جس میں کوئی چیز اسکی مرضی کے خلاف جا رہی ہو اور یوں صلہ کو نا چاہتے ہوئے بھی اکثر بیشتر ہار ماننی پڑ جایا کرتی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

"ایک کپ چائے مل سکتی ہے کیا ؟"

رات کو کچن سمیٹ کر وہ باہر نکلنے کو تھی جب پیچھے سے اسکی آواز سنائی دی تھی ۔

"خود بنا لیں ۔"

اس وقت شہیر تو تھا نہیں اس لئے وہ مروت نبھانے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی ۔

"تم مجھے ایک چائے کے لئے اپنا کچن سونپ کر جا رہی ہو ؟"

حیرانگی و تاسف سے پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھتا وہ عجیب سے انداز میں بولا تو صلہ نے نا سمجھی بھرے انداز میں اسے دیکھا تھا ۔

"ہاں تو اس میں اتنی حیرانگی والی کیا بات ہے ۔چائے ہی تو بنانی ہے اتنے بڑے ہیں آپ ۔اتنا تو کر ہی لیتے ہوں گے ۔"

طنز آمیز نظروں سے اسے دیکھتے وہ کہتی سر جھٹک کر آگے بڑھی ۔اس کے پاس سے گزرتے نجانے اسے کیوں لگا تھا جیسے وہ پر سرار سے انداز میں مسکرایا ہو ۔

"چھوڑ کر جو تم جاؤ گے بڑا پچھتاؤ گے بڑا پچھتاؤ گے ۔۔۔"ایک طائرانہ نگاہ اسکے صاف ستھرے نفیس ، چھوٹے سے کچن پر ڈالتے وہ گنگناتا ہوا آگے بڑھا تھا ۔

اور اسکی گنگناہٹ پر صلہ کے کانوں سے دھواں نکلا تھا مگر وہ کچھ بھی کہے بنا جلتی بھنتی خالہ کے کمرے کی جانب چل دی تھی ۔

ابھی اسے وہاں بیٹھے بمشکل پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ باہر سے چھناک سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی ۔

"ہائے ہائے !کیا زلزلہ آ گیا باہر ۔"

دل پر ہاتھ رکھتے خالہ نے کہا تو اپنی جگہ سے اٹھتی صلہ دروازے تک گئی تھی ۔باہر جھانکنے پر اسکی آنکھیں صدمے سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں ۔وہ خود تو نظر نہیں آ رہا تھا مگر ۔۔۔۔۔کیا یہ وہی کاؤنٹر تھا جسے وہ کچھ دیر پہلے سلیقے سے چمکا کر آئی تھی ۔اب وہاں مختلف مسالہ جات کے جارز کا مینا بازار سجا تھا جن میں سے کچھ سیدھے تو کچھ لڑھکتے ہوئے شیلف پر پڑے تھے، جنہیں اس نے یقیناً چائے کی پتی اور چینی کی تلاش میں کیبنٹ سے نکالا تھا اور انہیں واپس رکھنا گوارہ نہیں کیا تھا ۔

"کیا ہوا ہے ؟"

پیچھے سے خالہ کی آواز پر اس نے چونک کر گردن موڑ ی ۔

"کچھ نہیں خالہ ۔حیدر سے کچھ ٹوٹ گیا ہے شاید ۔"مدهم سی آواز میں جواب دیا چہرہ گھما کر واپس نظر ڈالی تو وہ نیچے سے اٹھتا نظر آیا تھا ۔ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے مگ کے ٹکڑے تھے جنہیں اب وہ بن میں پهینک رہا تھا ۔خالہ کا ہاتھ بے اختیار دل کے مقام سے ہٹتا سر تک گیا تھا ۔

"اسے توڑپھوڑ کے علاوہ آتا ہی کیا ہے ۔ابھی پرسوں ہی تو اس نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ ڈالا تھا ۔صلہ میں پھر کہتی ہوں یہ گھر اب محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہا ۔"سر پکڑ تے وہ کراہی تھیں ۔ایک تو حیدر کے معاملے میں وہ حد درجہ نازک اندام واقع ہونے لگتی تھیں ۔

"خالہ وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے ایسا ۔"

یہ الفاظ بلا ارادہ اسکے منہ سے ادا ہوئے تھے ۔نظریں ابھی بھی کچن کارنر پر ٹکی ہوئی تھیں ۔جہاں سے اسکی پشت نظر آ رہی تھی اور وہ جھنجهلا ہٹ کا شکار بار بار سر جھٹکتا کاؤنٹر پر جھکا کچھ کر رہا تھا ۔

"یہ تم کس خوشی میں اسکی اتنی طرف داری کر رہی ہو ؟"سر چھوڑ وہ تادیبی نظروں سے اسے گھورتی ذرا سختی سے باز پرس پر اتر آئیں تو صلہ اپنی جگہ گڑبڑا سی گئی ۔

"اوفوہ خالہ ۔میں کیوں طرف داری کروں گی ۔حقیقت بتا رہی ہوں آپ کو ۔کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ یہ مسئله ہوتا ہے ۔وہ جتنی مرضی کوشش کر لیں مگر ان سے پھر بھی چیزیں نہیں سنبهل پاتی ۔میں دیکھتی ہوں ۔"

اپنی صفائی پیش کرتے وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی تھی ۔

دبے پاؤں کچن میں جاتے اس نے ذرا گردن اچک کر دیکھنا چاہا تھا ۔

پتیلے میں چائے جوش کھا کھا کر آدھی سے بھی کم رہ گئی تھی اور خود وہ کاؤنٹر پر لگے نمک کے ڈھیر کو دونوں ہاتھ سے جار میں واپس منتقل کرنے کی جہد میں مصروف عمل تھا ۔

پاس جا کر برنر بند کیا تو وہ بنا چونکے اسکی طرف دیکھنے لگا تھا ۔جو اب اسٹینڈ سے دوسرا مگ لیتی اس میں چائے چھان کر انڈیلنے لگی تھی ۔

تب تک وہ اپنے کام سے نبرد آزما ہو چکا تھا ۔صلہ نے خالی پتیلا سنک میں رکھتے چپ چاپ آ کر سارے جارز واپس سے کیبنٹ میں منتقل کرنے شروع کر دیے تھے ۔وہ نمک کے زروں والے ہاتھ وہیں سنک میں دھوتا آدھا مگ چائے کا اٹھا کر وہیں سامنے والے دوسرے کاؤنٹر پر بیٹھ گیا تھا ۔ڈرتے ڈرتے ایک سپ لیا ۔پتی کچھ زیادہ ہی ڈال دی تھی ۔چائے کڑوی تھی مگر پھر بھی پینے لائق تھی ۔

صلہ اب جھاڑو لے کر نیچے ماربل پر بکھرے چھوٹے چھوٹے مگ کے ٹکڑے صاف کر رہی تھی  ۔

"بوبی اپنے کچن میں مجھے کبھی نہیں گھسنے دیتے ۔"پتہ نہیں کیوں وہ اسے بتا رہا تھا ۔جبکہ اس نے ذرا برابر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا تھا ۔

"بوبی میرے دادا ہیں ۔"اس نے کچھ توقف کے بعد دوبارہ کہا تھا ۔اس بار ہاتھ روک کر صلہ نے اسکی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تھا ۔

"اصلی والے ؟"ابرو اچکا کر پوچھتے وہ اسے حجل کر گئی تھی ۔اف اس کے یہ ٹھنڈے ٹھار انداز میں کیے جانے والے طنز ۔حیدر کی سرخ ہوتی گردن کی گلٹی ڈوب کر ابھری تھی ۔چائے کا مگ بے اختیار ہونٹوں سے لگاتے وہ ساتھ اسکا طنز بھی پی گیا تھا ۔

"نہیں میں جسٹ فار انفارمیشن پوچھ رہی تھی ۔پچھلی بار نقلی ماں باپ تھے ۔اس بار شاید دادا ہوں ۔"

اپنے کام میں مگن وہ لا پرواہی سے کہہ رہی تھی ۔اور یہ اصلی نقلی کا گرداب ۔۔۔۔کیا وہ کبھی اس سے نکل پائے گا ؟ کچھ دیر کے لیے بالکل سکوت سا چھا گیا تھا جو حیدر کو اب پسند نہیں آ رہا تھا ۔

"اسی لئے کہا تھا پچھتاؤ گی اپنا کچن میرے حوالے کر کے ۔مگر میری سنتا ہی کون ہے ؟"غیر محسوس کن انداز میں موضوع بدلتے کندھے اچکا کر اظہار خیال کیا گیا تھا ۔بن میں مگ کے ٹوٹے ذرات منتقل کرتے وہ بس ایک ملامت بھری نظر اس پر ڈال کر سر جھٹک گئی ۔

"اپنی غلطياں تو دوسروں کے کھاتے میں درج کرنا کوئی آپ سے سیکھے ۔"

اونچی آواز میں وہ بڑبڑائی تھی ۔انداز اسے سنانے جیسا ہی تھا ۔وہ ہلکا سا ہنسا ۔

"تمہیں لگتا ہے میں نے جان بوجھ کر یہ سارا میس پھیلایا ہے ؟"

اب کی بار وہ کچھ نہیں بولی تھی ۔سر جھکا کر پتیلا دھونے میں مگن رہی ۔

"تمہیں یاد ہے وہ بریسلٹ جو شادی والی رات ۔۔۔۔۔"

صلہ کے ہاتھ سے پتیلا چھوٹا تھا اور ساتھ ہی حیدر کی زبان سے الفاظ ۔فضا ایک دم سے بوجھل ہوتی چلی گئی ۔ارد گرد اداسی رقص کرنے لگی ۔وہ لب بھینچ کر رہ گیا تو صلہ نے چہرے پر ابھرنے والے تکلیف ده تاثر کے ساتھ آنکھیں میچ ڈالیں ۔کوئی کتنا ضبط کرے ؟کتنا خود کو روکے ؟جذبات کہیں نه کہیں ہمارے ارادوں کو پسپا کرنے کے در پے ہو ہی جاتے ہیں ۔اور صلہ اس وقت اسی کیفیت سے گزر رہی تھی ۔

"مجھے کچھ یاد نہیں ہے ۔سنا آپ نے ،کچھ بھی یاد نہیں ہے اور بہتر ہو گا آپ مجھے کچھ یاد دلانے کی کوشش بھی نه کریں ۔"

گردن ترچھی کیے وہ دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے کاؤنٹر پکڑے ،ایک ایک لفظ پر زور دیتی قطعیت بھرے لہجے میں بولی تو حیدر اسکی پشت دیکھتا رہ گیا ۔جامنی رنگ کی گرم شال میں لپٹا اسکا وجود اسے ہولے ہولے لرزتا محسوس ہوا تھا ۔شاید غصے کی وجہ سے ۔وہ یہی اندازہ لگا پایا تھا ۔

گلے میں گھلتے نمکین پانی کے ساتھ وہ بنا پتیلا دھوئے وہاں سے پیر پٹختی تیز قدموں سے نکلتی چلی گئی تھی ۔ارد گرد میں گھٹن زدہ سی خاموشی راج کرنےگی تھی ۔وہ کھوئی کھوئی سی کیفیت میں وہاں جہاں کا تہاں بیٹھا رہ گیا تھا ۔لفظ اپنے گھٹ جانے پر مغموم سے ہوتے چلے گئے تھے ۔اور وہ اداسی اسکے ارد گرد ہاله سا بنانے لگی تھی ۔خاموشی آج سے پہلے اتنی بری کبھی نہیں لگی تھی ۔اسکا خاموشیوں سے پرانا تعلق تھا جو اب اسے کھٹکنے لگا تھا ۔ہاتھ میں پکڑی چائے ٹھنڈی ہوئی تو اس پر بالائی کی تہہ سی جم گئی تھی ۔بالکل ویسی ہی سرد مہری کی تہہ انکے آپسی تعلق پر جمی ہوئی تھی ۔جو اتر نہیں رہی تھی اور شاید جو اتر سکتی بھی نہیں تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

صبح کچن میں ناشتہ بناتے ہوئے بھی اسے کل رات اس سے ہونے والی آخری گفتگو طیش دلاتی رہی تھی ۔کس دھڑلے سے وہ اسے پرانی رفاقتوں کے قصے سنانے چلا تھا ۔کوئی احساس شرم ،ندامت ،ملال کچھ اسکے اندر باقی ہوتا تو وہ ایسا بولتے سو بار سوچتا ۔

شہیر یونیفارم پہنے بالکل تیار باہر آیا تھا ۔اس نے اسکول پھر سے جانا شروع کر دیا تھا ۔ماتھے کا بینڈیچ اتر چکا تھا اب بس زخم کا نشان باقی تھا ۔

ماں کو سلام کرتے وہیں اسٹول پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔

صلہ نے گھڑی کی جانب نگاہ کی تھی ۔سات بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے ۔عموماً وہ اس وقت شہیر کے ساتھ باہر آ جایا کرتا تھا ۔مگر رات کو صلہ کو خود غم و غصے کے باعث دیر سے نیند آئی تھی اور اسکے سونے سے پہلے تک وہ کمرے میں نہیں آیا تھا ۔تو شاید ابھی تک جاگا نه ہو ۔

"بابا نہیں جاگے ابھی تک ؟"سرسری سے انداز میں پوچھا ۔

"جاگ گئے ہیں ۔تیار ہو رہے ہیں ۔"

شہیر کے جواب پر اس نے سر ہلایا تھا ۔

"جاؤ اپنے بھگوڑے باپ کو بلا لاؤ ۔آکر ناشتے سے فارغ ہوں مجھے آفس کے لئے بھی نکلنا ہے ۔"

اس وقت وہ خود نہیں جانتی تھی اپنی کوفت اور جهنجهلاہٹ میں کیا کہہ رہی ہے ۔شہیر سے کہتی وہ مڑ کر فریج کی جانب بڑھ گئی تھی ۔اور وہ جو اس سے کچھ پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا منہ کھول کر دوبارہ بند کرتے سر ہلاتا اٹھ گیا تھا ۔

مگر اندر کمرے میں آ کر وہ باپ سے یہ سوال کرنا ہرگز نہیں بھولا تھا ۔

"بابا ؟"آئینے کے سامنے کھڑا وہ ٹائی کی ناٹ لگا رہا تھا جب پیچھے بیڈ کے کنارے بیٹھے شہیر نے اسکی تیاری دیکھتے پکارا ۔

"ہوں ۔"بنا اسکی طرف دیکھے مصروف سے انداز میں ہنکارا بھرا ۔

"بھگوڑا کسے کہتے ہیں ؟"اسکی پر سوچ سی آواز پر حیدر کے ہاتھوں کی جنبش رکی تھی ۔ٹائی کی ناٹ صحیح کرتے سر اٹھا کر آئینے میں اسکا عکس دیکھا جو پوری طرح اسی کی طرف متوجہ جواب کا منتظر تھا ۔

"بھگوڑا کہتے ہیں ۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ رکا ۔مشتبہ نظروں سے شہیر کو گھورا جو گال کے نیچے ہاتھ رکھے ہوئے تھا ۔

"تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟"

"ماما نے کہا اپنے بھگوڑے باپ کو بلا لاؤ ۔"وہ کمال معصومیت سے بتا رہا تھا ۔حیدر نے ماتھے پر بل لئے اسے دیکھا ،منہ کے زاویے بگڑے ،رخ موڑ کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا وہ خود پر کلون اسپرے کرنے لگا تھا ۔

(یہ عورت کسی دن ضائع ہو جائے گی میرے ہاتھوں ۔)

"اب بتا بھی دیں ۔"شہیر نے اسکے تاثرات سے قطعی نظر، اسکی خاموشی پر کچھ جهنجهلا کر اسے دیکھا تھا ۔وائٹ شرٹ۔ نیوی بلیو ٹراؤزر ،ویسٹ میں اچھے سے جیل کی مدد سے سنوارے گئے بالوں اور تازہ تازہ ہوئی شیو کی نیلاہٹ لئے حیدر نے ہونٹوں کو مسکراہٹ کے انداز میں کھینچا ،اور پلٹ کر اسے دیکھا ۔

"بھگوڑا فرنچ زبان میں ہینڈسم کو کہتے ہیں ۔"حد درجہ اطمینان اور سکون سے جواب دیتے اب وہ کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا ۔

شہیر کے ہونٹ واؤ کے سے انداز میں بے آواز سکڑے ۔ایک بھرپور نظر تیار کھڑے باپ پر ڈالی ۔

"پھر تو آپ کافی سے زیادہ بھگوڑے ہیں بابا ۔"آنکھوں میں ستائش لئے وہ کھلکھلا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا ۔حیدر کا حلق تک کڑوا ہو کر رہ گیا ۔سارا غصہ بے چاری گھڑی پر نکلا تھا جس کا بكل بہت جارحیت سے لگایا گیا تھا ۔

"تھینک یو شہیر ۔"

بمشکل مسکرا کر وہ آگے بڑھتا اپنا آفس بیگ اٹھانے جھکا تھا ۔

"ہو تو اپنی ماں کے ہی بیٹے ۔معصومیت میں بھی زخموں پر نمک پاشی خوب کر رہے ہو ۔"سر جھٹک کر کچھ یاد آنے پر وہ سیدھا ہوا ۔

"لیکن اب یہ لفظ اور کسی کے سامنے استعمال مت کرنا ۔فرنچ زیادہ تر لوگوں کو نہیں آتی ۔اس طرح سامنے والا سمجھتا ہے ہم اپنی نالج کا اس پر رعب جھاڑ رہے ہیں ۔"سمجھانے والے انداز میں اس نے ایک بندھ باندھنے کی کوشش کی تھی ۔شہیر نے بھی فوری سر اثبات میں ہلا دیا ۔

"ماما صبح صبح آپ کی تعریف کر رہی تھیں ۔"

وہ خوشی خوشی اسے بتا رہا تھا ۔اور شہیر کے سامنے اپنی اس تعریف پر وہ تلملا کر رہ گیا تھا ۔

"ہاں تمہاری ماما میری اکثر و بیشتر ایسی تعریفیں کرتی پائی جاتی ہیں شہیر ۔"

دانت کچکچاکر وہ اسکے کندھے پر اپنا بازو دراز کرتے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔

اسٹول پر بیٹھتے اس نے خفگی بھری نظروں سے صلہ کو دیکھا تھا جو ان دونوں کے آگے دودھ کے گلاس رکھ رہی تھی ۔اور تبھی صلہ کی نگاہ بھی اسکے چہرے پر پڑی تھی ۔وہاں موجود شکایتی تاثر اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔سبز آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگی تھیں ۔یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا حساب تھا یہاں ۔

مگر ناشتے کے بعد جب شہیر بیگ اٹھانے اندر گیا تھا تب حیدر نے اسے پكارا تھا ۔

"سنو !"

وہ نا چاہتے ہوئے بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگی تھی ۔

"اکیلے میں جتنی مرضی اس طرح کی تعریفیں کر لیا کرو میں اف تک نہیں کروں گا ۔مگر شہیر کے سامنے میری ایسی تعریف سے گریز کیا کرو ۔"اکھڑے ہوئے انداز میں بولتا وہ کس تعریف کی بات کر رہا تھا صلہ سمجھ نہیں پائی تھی ۔تبھی شہیر بیگ لے کر باہر آ گیا تھا ۔اسے اللّه حافظ کرتے وہ حیدر کے ساتھ نکل گیا تھا ۔اسے اسکول ڈراپ کرنے کی ذمہ داری اب حیدر نے لے لی تھی ہاں البتہ چھٹی ٹائم وہ وین میں ہی آیا کرتا تھا ۔

انکے جانے کے بعد برتن سمیٹتے صلہ کتنی دیر اسکی کہی بات کے بابت سوچتی رہی تھی مگر وہ کس بارے میں کہہ رہا تھا اسے پھر بھی اندازہ نہیں ہو سکا تھا ۔ بلا آخر اس سوچ پر ہی مٹی ڈالتے وہ خود آفس جانے کے لئے تیار ہونے چل دی تھی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?